Wednesday, December 29, 2021

قربانی اور تخلیقات




قربانی اور تخلیقات ،


سب سے پہلے آپ دوستوں کو عید الاضحی مبارک ہو اسے سنت ابراہیمی بھی کہا جاتا ہے ،

جب خدا نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اپنی سب سے عزیز ترین شے کی قربانی مانگی ،تو انہوں نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کو چنا ،جسے خدا نے اپنا فضل و کرم کرتے ہوئے دنبے سے بدل دیا ،

یہ واقعہ تمام آسمانی کتب میں کچھ فرق سے موجود ہے ، آپ دوست اس سے واقف ہیں ،

اگر انسانی گروہی سماجی تاریخ کو ، 

مختصر کر کے دیکھا جائے ،

تو انسانی جان کی قربانی ، 

ہزاروں سالوں سے کئی انسانی

سماجوں کا حصہ رہ چکی ہے ،

جو عقل و شعور کی ترقی سے اب معدوم ہو رہی ہے ،اور اب انسان انسان کی جگہ ، جانوروں کو قربان کرتا ہے ،

اور یہ ریچولز مذہبی یا غیر مذہبی ، آج بھی دنیا کے بہت سے حصوں میں جاری ہیں ،

گو کہ ہر مذہب اور سماج ، اپنی ایسی پریکٹسز کی تو مضبوط وضاحت و وکالت کرتا ہے ،

لیکن دوسروں پر سوالیہ نشان ضرور لگاتا ہے ،

لیکن یہ پہلو بھی اھم ہےکہ جیسے جیسے انسان عقل علم و شعور میں ترقی کرتا ہے وہیں وہ حساسیت میں بھی ترقی کرتا ہےاس میں خود اپنے افعال کے بارے ، ، بہت سے سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں ،

اور وہ گزشتہ ہزاروں سالوں سے انسان کے دیگر حیات کو ،اپنی غذائی ضرورت کی بھینٹ چڑھانے کے باوجود ،

اپنی ان ریچولز کے بارے میں سوالات بھی رکھتا ہے ،

آخر کیوں ، ہم ایسا کیوں کرتے ہیں ؟

دیکھئے مذاہب کے دو حصے ہیں ،ایک میں وہ انسان کو سوچنے سمجھنے پر مجبور کرتا نظر آتا ہے ،

اور بار بار کہتا ہے کہ تم سوچتے کیوں نہیں سمجھتے کیوں نہیں ،

لیکن ایک حصہ میں وہ کہتا ہے ، جسٹ ڈو اٹ ،

بس جو کہا جا رہا ہے وہ کرو ،

قربانی کا لفظ اپنے عملی اور معنوی اعتبار سے

اس قدر وسیع ہے

کہ اس پر گفتگو بہت طویل ہو سکتی ہے ،

بس مختصراً 

یوں کہا جا سکتا ہے ،کہ انسان کے ذہن میں یہ بات کہیں موجود ہے ،

کہ اس نظام قدرت میں ،

 اسے کچھ لوٹانا ہے ، کوئی ادائیگی کرنی ہے ، کچھ اس کے ذمے ہے ،جس کے لیے کہیں اپنے مال کا استعمال کرتا ہے تو کہیں وہ کسی دوسرے کی جان کا ، 

چاہے وہ اسے اپنی کسی غلطی گناہوں کا کفارہ سمجھتا ہے ،یا لامحدود

خواہشات کی تکمیل یاضرورتیں

لیکن اس میں کہیں نہ کہیں وہ ظلم اور جبر کا پہلو بھی دیکھتا ہے ، اور سوال کرتا ہے ،

کہ کسی جانور کا گوشت اور خون ، انسان کو ،

خدا کے حضور اشرف اور افضل بنانے میں کس طرح سے اپنا کردار ادا کرسکتا ہے ؟

اب ان کے جوابات و تفصیلات پر کوئی مذہبی عالم فاضل ہی بات کر سکتا ہے ،

میرے شعبے آرٹ کے حوالے سے ہم قربانی کے واقعہ کو بائبل کی تعلیمات کی روشنی میں بھی بہت سے کلاسک آرٹسٹوں کے کام میں دیکھتے رھے ہیں جو آج کے دن ذہن کی پردہ سکرین پر کہیں نہ کہیں نظر آتے ہوئے جو باتیں ذہن میں آئیں انہیں آپ کے سامنے رکھوں گا ، لیکن فنی تخلیقات کے دائرے میں ،

پہلی بات کہ اسی قربانی کا ایک بہت عجیب پہلو تب ہمارے سامنے آتا ہے ،

جب خود انسان اس عمل کے لیے اپنی ذات کا چناؤ کرتا ہے ،

جس میں اس کے کسی عظیم مذہبی نظریاتی مقصد ،سے لیکر کوئی بھی بے لوث مقصد ہو سکتا ہے ،

دنیا بھر کی مذہبی تاریخ اور لٹریچر میں اس کی بہت خوبصورت اور کمال درجہ کی ،

مثالیں موجود ہیں ،

لیکن میں ان سے میں وہ دو کہانیاں آپ سے بیان کروں گا ،

جن میں قربانی کا تصور کسی فنکار کی تخلیقی صلاحیتوں کے حوالے سے بڑی خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے ،



ایک چائنیز کہانی جسے میں کبھی نہیں بھول سکا، 

کئی سو سال پہلے ایک ٹیمپل کے لیے ،ایک برونز کی بہت بڑی گھنٹی بنائی جا رہی ہوتی ہے ،

جو ہر بار ڈھلائی کے بعد اپنے اندر کوئی نقص لے کر ظاہر ہوتی ہے ،

اس ، گھنٹی کے منصوبے کا چیف ڈیزائنر ، جو وزارت کے عہدے پر فائز ہے ،

اور بہت شدید پریشانی سے گزر رہا ہے ،

دراصل یہ بہت بڑی گھنٹی ،اس تعمیراتی منصوبے کا آخری حصہ ہے ،

اور اس میں ہر بار کی ناکامی بادشاہ کا غصہ بڑھا رہی ہوتی ہے 

بادشاہوں کے ایسے غصے عموما وزیروں کی موت پر ختم ہوتے تھے ،

اور یہ بات چیف ڈیزائنر وزیر کی بیٹی جانتی ہے ،

اور پھر بالآخر جب اس گھنٹے کے لئے ،پگھلی ہوئی دھات کا الاؤ تیار ہوتا ہے 

تو وزیر کی بیٹی اپنے باپ کو مشکل سے بچانے کے لئے اس کٹھالی میں کود کر اپنی جان دے دیتی ہے ،

اور اس بار جو گھنٹی مکمل ہوتی ہے ،

نہ صرف اس میں کوئی نقص نہیں ہوتا بلکہ اس کی آواز میں ایک ایسی چیخ ہوتی ہے ، 

جو اپنے سننے والوں پر ،

ایک ایسا تاثر چھوڑتی ہے جسے بیان کرنا مشکل ہوتا ہے ،




دوسری کہانی

ایک فلم ریڈ وائلن کی ہے ،

جس میں 21 ویں صدی میں ،

ایک سرخ وائلن کی دردناک آواز

پر تحقیق ہو رہی ہوتی ہے ،

جو اصل میں ،

کئی سو سال پہلے ،ایک فرنچ ،

وائلن میوزیشن اور میںکر نے

آپنے اس بچے کے لیے بنائی ہوتی ہے جس کی پیدائش عنقریب متوقع ہوتی ہے ،

لیکن اس کی محبوب بیوی ،اور بچہ 

دوران زچگی ہی

مر جاتے ہیں ،

وائلن میکر ،

بیوی اور بچے سے متعلق اپنی تمام تشنہ آرزوؤں کو ،

 اس وائلن میں محفوظ کرنے کے لیے ،اپنی مردہ بیوی کی کلائی سے حاصل کردہ خون کو ،وائلن پر کی جانے والی وارنش میں شامل کر دیتا ھے ،

اور یہ وائلن پھر اپنے سینکڑوں سالہ سفر میں ،

جب بھی جہاں جہاں بجائی جاتی ہے ،اپنے بجانے والے کو ہوش سے بیگانہ کر دیتی ہے ،

ان کہانیوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی جان اورخون کی قربانی ، جس کے لئے وہ خود اپنی ذات کو چنتا ہے  

اس کی بنائی ہوئی اشیاء میں

 کوئی کمال پیدا کرتی ہیں،

اور بات صرف اتنی ہی نہیں بلکہ ایک مرحلے میں انسان اپنی آرزوؤں اور تمناؤں کا خون بھی جب اپنی تخلیقات میں شامل کرتا ہے ،

تو وہ تب لافانی اور امر ہو جاتی ہیں ،

اور اگر وہ تخلیقات بہت شہرت نہ بھی پائیں ،

تو جہاں بھی کہیں کبھی اظہار ہوتی ہیں

اپنے دیکھنے سننے والوں پر ایک ناقابل بیان تاثر ضرور چھوڑتی ہیں ،

وہ چاہے انسانی آہ ہو ، کسی دھاتی گھنٹی کی آواز ،وائلن کے سر ،یا کسی بھی فنکار کا کوئی شہ پارہ ، جسے وہ اپنی امیدوں آرزوؤں ،اور تمام مادی مقاصد کو۔ 

اپنی تخلیق کو مکمل کرتے ہوئے

 کئی صبرآزما لمحوں سے گزرتے ہوئے ،کہیں پیچھے چھوڑ دیتا ہے ،

غالب نے اس پر کیا خوب کہا ہے ،

آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک

کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک ،

دام ہر موج میں ہے حلقہ صد کام نہنگ ،

دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک ،

عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب 

دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک ،


شاہد حسین

21 جولائی 21 

وان ریان اور راشد رانا




Von Ryan's Express and 

Rashid Rana 


سیکنڈ ورلڈ وار کے موضوع پر بننے والی عظیم فلموں میں سے میرے والد کی 

ایک پسندیدہ ترین فلم ،

وان ریان ایکسپریس ،

اسی کی دہائی میں جب دوسری تیسری بار کراچی کے نشاط سنیما میں اس کی نمائش کی گئی ،

تو میرے والد مجھے خاص طور پر یہ فلم دکھانے لے کر گئے ،

اور واپسی میں حسب معمول ہم اس کے ایک ایک سین پر ڈسکشن کر رہے تھے ،

ایک سین میں پیش کی گئی ایک صورت حال جس پر میرے والد نے خاص طور پر میری توجہ دلائی ،

وہ کچھ یوں ہے کہ ،

جرمن کیمپ سے سرنگ کے ذریعے فرار ہونے والے ،سینکڑوں قیدیوں کو جرمن دوبارہ گرفتار کر لیتے ہیں ،

 اور انہیں ، کیمپ جس ٹرین میں واپس بھیجا جا رہا ہوتا ہے ، قیدی اتحادی فوجی اسی ٹرین پر قبضہ کر لیتے ہیں ،

ٹرین کو نو وار زون سوئزرلینڈ 

تک لے جانے کے لیے ، اور جرمن علاقے سے گزرنے کے لیے

اتحادی فوجیوں میں سے کچھ آفیسرز ،جرمن فوجی آفیسرز کی وردیاں پہن لیتے ہیں ،


اب ،ایک اسٹیشن پر جب قیدیوں کے لیے بنائے گئے کھانے کو ،ایک فوجی افیسر چکھنے کے بہانے چند گھونٹ سوپ کے پیتا ہے ،تو پیچھے کھڑے ،جرمن آفیسرز کی وردیوں میں ملبوس دوسرے کئی دنوں کے بھوکے اتحادی قیدی آفیسرز کے چہروں کے تاثرات بہت کمال کے ہوتے ہیں ،

انہیں اپنی بھوک کی نقاہت بھی چھپانی ہوتی ہے ،اور اپنے چہرے پر جرمن آفیسرز ز والا رعب و دبدبہ اور سختی بھی قائم رکھنی ہوتی ہے ،

آپ میں سے جنہوں نے بھی یہ فلم دیکھی ہے انہیں یہ سین یاد ہوگا ،


میں سمجھتا ہوں کچھ ایسی ہی صورتحال آج ہمارے ان آرٹسٹوں کو بھی پیش آتی ہے 

جو بین الاقوامی فورمز پر ایک ایسے خطے کی نمائندگی کرتے ہیں ،جہاں کے لوگ ابھی سابقہ غلامی ، اور اس کے بعد صحت تعلیم صاف پانی روزگار اور ترقی سے متعلق بے شمار مسائل کی زنجیروں سے آزاد بھی نہ ہوئے تھے ، کہ اپنے حکمرانوں کی خراب کارکردگی کی وجہ سے دنیا کے بڑے مالیاتی اداروں ،کے قرض کی زنجیروں میں بھی جکڑے گئے ۔ 

تو آج ہمارے آرٹسٹ ،

کو بھی تقریبا ان جرمن آفیسرز کی وردیوں میں ملبوس اتحادی فوجیوں جیسا کردار ادا کرنا پڑتا ہے ،

اور ان کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے ، کہ وہ اپنے بیشمار مسائل کو چھپاتے ہوئے ،

کس طرح سے قابل فخر انداز و اعتماد ،سے کسی بین الاقوامی فورم پر نیو آرٹ ورلڈ میں اپنا کردار ادا کریں ،

اور ان کا کام ،

آزاد اور آزاد سوچنے والوں کا کام نظر آئے ،

راشد رانا کا شمار ،

بے شک ان فنکاروں میں ہوتا ہے جو یہ کردار بہت خوبی سے سر انجام دے رہے ہیں ۔

راشد رانا کے کام میں ایک اعلی تخلیقی اپروچ کے ساتھ ، ہمیشہ ویری ایشن ہوتی ہے ، وہ اپنے کام کے ذریعے بین الاقوامی آرٹ فورمز پر لوگوں کو حیران کرنے اور اپنی طرف متوجہ کرنے کا بہت سٹرونگ ایلیمنٹ لیئے ہوتے ہیں ۔

قیدی یا زنجیروں میں جکڑی قومیں ،

تو کئی بار آزادی کی سرحد عبور کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں یا نہیں

لیکن بے شک ان کے لئے کوشش کرنے والے ،

وان ریان کی طرح سے تاریخ میں اپنی پوری قوم کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنا نام ضرور روشن کرتے ہیں ۔

اور بتا دیتے ہیں کہ بے شک ہماری قوم اپنے مسائل کے حوالے سے سے کسی پست مقام پر ہو سکتی ہے ، لیکن وہ اپنی سوچ میں آزاد اور بلند ہے ۔

 

 دل کی گہرائیوں سے آپ کے لئے نیک تمنائیں ہیں ۔


شاہد حسین

15 اکتوبر 2021 

Tuesday, December 21, 2021

فیضی رحمین


کوئی کہانی ہمیں کن وجوہات کی بنیاد پر ہمیشہ یاد رہتی ہے ،

عشق ، محبت میں کامیابی یا ناکامی پر مبنی ہونے ، شہرت عروج و زوال ،کسی کا بڑا فنکار ہونے کے باوجود پہچان نہ پاسکنا ،‏یا المناک موت !

 آخر وہ کون سے 

عناصر ہوتے ہیں 

جو کسی بھی داستان کو ناقابل فراموش بنا دیتے ہیں ،

شاید اس کا کوئی طہ شدہ فارمولا نہیں ہے ،


آج ہم آپ کو برصغیر انڈوپاک کی مصوری کی دنیا کے ایک ایسے جوڑے کا احوال سناتے ہیں ،

جو اپنے وقت میں شہرت کے حوالے سے مغرب تک جانے گئے اور ان کے ناموں سے آپ یقیناً واقف ہیں

لیکن ان کی زندگی کی کہانی کسی یادگار ناول، فلم یا ڈرامے کے تمام اجزا اپنے مکمل اور اعلیٰ معیار پر پورا اترنے کے باوجود بھلادئے گئے ۔

یہ تھے سیموئیل فیضی رحمین اور

عطیہ فیضی رحمین

ان دونوں میں سے کہانی شروع کس سے جائے !

چلیئے بیگم عطیہ فیضی رحمین سے شروع کرتے ہیں

 


عطیہ فیضی یکم اگست ،1877ء میں استنبول میں پیدا ہوئیں اور ان کے والد على حسن آفندی کا تعلق ایک عرب نژاد خاندان

سے تھا جو اپنے ایک بزرگ فیض حیدر کے نام کی نسبت سےفیضی کہلاتا تھا۔ یہ لوگ تجارت پیشہ تھے اور تجارتی کاموں کے سلسلے میں بمبئی سے لے کر کاٹھیا واڑ تک پھیل گئے تھے۔

عرب، ترکی اور عراق کے عمائد اور عوام سے بھی تعلقات تھے۔

اس خاندان میں علم وادب کا چرچا تھا۔عطیہ فیضی نے بھی اپنی بہنوں

نازلی فیضی اور زہرا فیضی کی طرح استنبول میں اعلى تعلیم پائی اور ترکی، عربی، فارسی، انگریزی، اردو اور

گجراتی میں اچھی استعداد پائی ۔اور کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لینے والی وہ پہلی ہندوستانی خاتون تھیں ۔ 


عطیہ فیضی بڑی خوبیوں کی مالک تھیں ۔ 

عطیہ کو فنون لطیفہ سے خاص شغف تھا۔ شاعری، مصوری اور رقص و موسیقی یہ سب ان کے ذوق اوردلچسپی کی چیزیں تھیں۔ راگ راگنیوں تک سے واقف تھیں۔وہ پاکستان آنے کے بجائے بھارت ہی میں رہتیں اور کوئی کلامندر، یعنی فنون کا ادارہ ، ان کو

سونپ دیا جاتا تو وہاں ان کے ذوق اور طبیعت کے جوہر کھل کر کھلتے۔ انگریزی کا مطالعہ خاصا وسیع تھا۔ انگریزی میں رواں اور شگفتہ تقریر کرتیں ،

وہ اپنی دانشوری کے لیے مشہور تھیں

1907 میں ہندوستان میں انہوں نے اپنی ڈائری شائع کرنے کا انتظام کیا تھا ۔ جس کا اس دور میں برصغیر میں کسی خاتون کا یہ ایک غیر معمولی عمل تھا ۔ 


عطیہ فیضی کے لکھنے کے انداز نے اس وقت میں محمد اقبال ، شبلی نعمانی ، ابو الاصر حفیظ جالندھری اور مولانا محمد علی جوہر جیسے روشن خیالوں کو بہت متاثر کیا ،

اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کو اس دور میں ملک گیر شہرت مولانا شبلی کی شاعری اور علامہ اقبال کے ساتھ کی گئی خط و کتابت نے بھی عطا کی اور وہ برصغیر کی نامور خواتین میں شمار ہوئیں۔

عطیہ فیضی کی بہن نے ان کے محمد اقبال سے متعلق خطوط بعد میں تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ شائع کیئے تاکہ محمد اقبال کے ساتھ ان کی عقیدت سے متعلق ان کے خیالات کی وضاحت دی جاسکے ،شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہو

کے سموئیل فزی رحمین سے ان کی شادی سے قبل ،

مشہور مصنفین شبلی نعمانی اور محمد اقبال کے ساتھ ان کے قریبی تعلق کے بارے میں افواہیں گرم رہتی تھیں ، خاص طور محمد اقبال کے ساتھ ، آج چونکہ محمد اقبال شاعر مشرق کے طور پر جانے جاتے ہیں ، 

اور عظیم شخصیات کے عظمت کے معیار ،ان کے چاہنے والے خود اپنی مرضی سے طے کرتے ہیں ، جبکہ حقیقت یہ ہو سکتی ہے ، کہ دنیا کا کوئی بھی ذہین ترین مفکر اور فنکار اگر روبوٹ نہیں انسان ہے ، تو یقیناً وہ اپنے اندر ہر جزبات و احساسات اور ان کے باہمی ٹکراؤ اور نتیجتاً ٹوٹ پھوٹ سے بھی گزرتا ہے اور یہ تمام کیفیات اس کی شخصیت کے کسی بھی مضبوط سے مضبوط تاثر پر بھی اثر انداز تو ہوتی ہیں ، خاص طور پر انس لگاؤ پیار محبت عشق ، وغیرہ ، لیکن اب اس موضوع کے لیے بہت ہی گہرے اور تفصیل طلب تجزیہ کی ضرورت ہے ،۔ جس کی ابھی یہاں ضرورت نہیں ہے ۔ 


لیکن جو حقیقت زبان زد عام تھی کہ عطیہ فیضی ،اپنے وقت کی ،پڑھی لکھی اور آزاد خیال خاتون تھیں 

1926 میں علی گڑھ کی ایک تعلیمی کانفرنس میں انہوں نے خواتین کو پردے میں قید رکھنے کے خلاف آواز اٹھائی وہ خواتین کے حقوق کی بات کرتیں اور ان کے گھومنے پھرنے کی آزادی کے حق میں تھیں ،

اور قدامت پسندوں کو ان کا یہ انداز کسی طور پسند نہیں تھا ،

جبکہ اس دور کی ماڈرن انٹلکچول کلاس کے مردوں میں عطیہ فیضی کے اس مزاج اور خیالات کو پزیرائی دینا لازمی امر تھا ،

اور ان سے تعلق اور ان کی محافل میں ایسی ذہین خاتون کی موجودگی کسی خوبصورت رومینٹک ایلیمنٹ سے کم نہیں تھی ،

 اور ایک ایسے ہی ،

جس شخص کو عطیہ فیضی کے اس مزاج اور شخصیت نے بہت متاثر کیا ،

وہ تھے سیموئیل فیضی رحمین ،

اور متاثر ہونے کا یہ عمل بہت جلد محبت میں بدل گیا ۔  


ایس رامین سیموئیل ،

پورٹریٹ، فیگریٹو ، لینڈ اسکیپ ، میورلز ورک کے ہندوستانی مصور، ڈرامہ نگار اور شاعر۔ پونا کے ایک مخلوط مذہبی پس منظر رکھنے والے یہودی خاندان میں 1880 میں، پیدا ہوئے ۔ پہلے اسکول آف آرٹ، بمبئی میں، اور پھر چار سال تک لندن کی رائیل اکیڈمی میں جان ایس سارجنٹ اور سولومن جے سولومن کے شاگرد رہے، پہلے سارجنٹ کے انداز میں آئیل کلرز میں پورٹریٹ پینٹ کیں، لیکن 1908 میں ہندوستان واپسی کے بعد مغل پینٹنگ کی روایت کو بحال کرنے کی کوشش میں جلد ہی آئیل کلرز انداز کو ترک کر دیا۔ 1908-18 سے ریاست بڑودہ میں آرٹ ایڈوائزر رہے ۔

خواتین کو مردوں کے برابر حقوق ملنے کے حامی تھے

اسی حوالے سے اس دوران ان کی روشن خیالی اور مزاج نے انہیں 

بیگم عطیہ فیضی سے قریب کر دیا ۔ 


رائل اکیڈمی آف آرٹس فائن آرٹ کا ادارہ ہے جو لندن میں پکاڈیلی پر برلنگٹن ہاؤس میں واقع ہے۔ 1768 میں قائم کردہ، یہ ایک خودمختار، نجی مالی اعانت سے چلنے والے ادارے کے طور پر ایک منفرد مقام رکھتا ہے جسے چلانے والے نامور فنکار اور آرکیٹیکٹس رہے ہیں ۔ 


جان سنگر سارجنٹ، (پیدائش 12 جنوری، 1856، فلورنس، اٹلی — وفات 15 اپریل، 1925، لندن، انگلینڈ)، اطالوی نژاد امریکی مصور جن کے خوبصورت پورٹریٹ ایڈورڈین ایج معاشرے کی بہت اعلی تصویر پیش کرتے ہیں۔

 انہوں نے تقریباً 900 آئل پینٹنگز اور 2,000 سے زیادہ واٹر کلر کے ساتھ ساتھ لاتعداد خاکے اور چارکول ڈرائنگز تخلیق کیں۔

رائل اکیڈمی آف آرٹس میں پڑھانے کے دوران یہ سیموئیل فیضی کے استادوں میں رہے ۔ 


Solomon Joseph Solomon 

ایک برطانوی مصور، نیو انگلش آرٹ کلب کے بانی رکن اور رائل اکیڈمی کے رکن تھے۔ سولومن کا خاندان یہودی تھا اور اس کی بہن للی ڈیلیسا جوزف بھی ایک مصور تھی۔

رائل اکیڈمی آف آرٹس میں پڑھانے کے دوران یہ بھی سیموئیل فیضی کے استادوں میں سے تھے ۔ 


5 دسمبر ،1912 میں ہندوستانی موسیقی کی ایک اتھارٹی ، خاندان کی عطیہ بیگم سے اپنی شادی کے بعد یہودیت سے اپنا عقیدہ تبدیل کر کے اسلام اور اپنا نام ایس رامین سیموئیل سے ایس فیضی رحمین رکھ لیا،

 بمبئی میں رہنے کے دوران بمبئی آرٹ سوسائٹی کے ساتھ نمائش کی۔ گیلری جارج پیٹیٹ، پیرس، 1914 میں پہلی یورپی سولو نمائش۔

 1926- اور 1928- میں امپیریل سیکرٹریٹ، نئی دہلی کے لیے پینٹ شدہ فریسکوز پر کام کیا وکٹوریہ اور البرٹ میوزیم ، میٹروپولیٹن میوزیم، نیویارک کے مشرقی حصوں کی تنظیم نو میں مدد کی۔ کئی ڈرامے اور نظمیں بھی لکھیں۔ 


1947 میں ڈاکٹر فیضی اور عطیہ بیگم قائد اعظم محمد علی جناح کی درخواست پر ممبئی چھوڑ کر پاکستان آکر کراچی میں آباد ہوگئے ،اور قائد اعظم کی طرف سے انہیں یہاں ایک جگہ بھی دی گئی ،تاکہ وہ اسے اپنی مصورانہ سرگرمیوں کا مرکز بنا سکیں ،

اب یہ بات ناقابل یقین لگتی ہے کہ قائد اعظم کی اس خواہش کو ان کی وفات سے صرف دس برس بعد انتہائی بے دردی سے

پامال کر دیا گیا۔

یہ سب کچھ بہت عجیب طرح سےہوا۔ کہ کراچی میں ان کی طرف سےجو گیلری بنائی گئی تھی اور وہ اپنا کام کر رہی تھی، 

اسی دوران پاکستان کی پہلی مارشل لاء حکومت کے دنوں میں کراچی کے اس وقت کے کمشنر سابق بیوروکریٹ این ایم خان کو وہاں کچھ گڑبڑ کی ہوا لگی،اور انہوں نے ڈاکٹر فیضی رحمین

اور عطیہ بیگم کو بغیر تحقیق کئے نہایت سفاکی سے ان کے گھر سے بے دخل کر دیا۔اور اسے گرا دیا۔ یہ ان میاں بیوی کے لیے تو ایک بڑا صدمہ تھا ہی، یہاں کی فن کی دنیا کے لیے بھی یہ ایک بڑا دھچکا تھا۔وہاں کچھ غلط ہونے کی افواہیں تھیں جو کہ بے بنیاد تھیں اور کبھی ثابت نہیں ہوئیں اور نہ ہی اس کی کوئی تفصیلات لوگوں کے علم میں لائی گئیں۔ سموئیل نے اسلام قبول کرنے کے بعد ایک مسلمان اور پاکستان کے وفادار کے طور پر شہرت پائی۔ اور ان کی وفا شعار بیوی عطیہ نے مستعدی کے ساتھ خود پر لگنے والے الزامات اور کیس کی پیروی کی اور کیس جیت لیا۔لیکن پھر وہ کبھی اس جگہ پر واپس نہ گئے ۔ جو ان سے چھین لی گئی ۔ 

"اپنی زندگی کے بقایا دنوں میں ان ممتاز میاں بیوی کو بے انتہا توہین آمیز رویہ اور دشواری جھیلنی پڑی تھی۔ گھر سے نکال دیے جانے کے بعد ان کے جمع کیے ہوئے نوادرات اور تصویریں تھیلوں اورصندوقوں میں بند ہوگئیں۔ کوئی چارہ نہ پا کر یہ میاں بیوی

پڑوس کے ایک تنگ و تاریک ہوٹل میں کمرہ کرائے پر لے کر

رہنے لگے۔ ان کا سامان اسی چھوٹے سے کمرے میں ایک ڈھیرکی شکل میں پڑا رہتا۔ عطیہ بیگم نے ایک ایک کر کے اپنےجواہرات کو بیچنا شروع کر دیا تاکہ زندگی کے اخراجات پورے کر سکیں۔ 


فنکار حساس ہوتا ہے ، اس ذلت بے توقیری ، اور خراب معاشی حالات میں فیضی رحمین کا ٹوٹ پھوٹ جانا لازمی تھا ،

وہ اس کسمپرسی اور بیماری میں بالکل گوشہ گمنامی میں چلے گئے ،

اور 22 اکتوبر ، 1964 میں ان کا انتقال ہوگیا ،

ان کی گمنامی کا اندازہ اس بات سے لگائیے آئے کہ کسی کو بھی ان کی ٹھیک تاریخ وفات معلوم نہیں ہے ،

22 اکتوبر ایک اندازہ ہے ،

 اس تمام دورانیہ میں سیموئیل فیضی رحمین کے آرٹ کے نمونے جو بھی تھے ان میں سے بہت سا کام تباہ یا چوری ہو گیا ۔ لیکن کچھ اب بھی موجود ہیں۔ ہمارے اپنے آرکائیوز میں ان کی کچھ کتابیں ہیں جن میں ان کی بنائی ہوئی تصاویر موجود ہیں اور پاکستان میں کچھ دیگر پبلیکیشنز میں بھی ان کی بنائی ہوئی مغل مضامین کی پینٹنگز ہیں۔

بیگم عطیہ فیضی کے لیے زندگی مزید مشکل ہو چکی تھی ۔ بلآخر ،

1966 جولائی میں

بلدیہ کراچی کے ایک اجلاس میں 

بیگم عطیہ فیضی 

اور ان کی ہمشیرہ کی خدمات کے صلے میں تاحیات پندرہ سو روپے ماہانہ وظیفہ مقرر کرنے کی منظوری دے دی گئی اور ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا ،

لیکن اس میں بہت دیر ہو چکی تھی ،

اپنی زندگی کے گزرے وقت ، ماضی کو بڑی شان سے گزارنے والی یہ خاتون اپنے آخری ایام انتہائی تکلیف اور انتہائی کسمپرسی کے عالم میں گزارنے کے بعد ،

30 دسمبر 1966 میں عطیہ بیگم پر فالج کا حملہ ہوا 

اور پانچ دن بے ہوش رہنے کے بعد

4 ، جنوری 1967 کو اس دار فانی سے عالمِ جاودانی کو رخصت ہوگئیں ۔


ان دونوں کی وفات کے بعد ان کا گھر فن مصوری کے شائقین کے لئے کچھ مدت تک کھلا رکھا گیا تاکہ وہ ان کے فن کا بچا کچھا مجموعہ دیکھ سکیں ، اور یہ سلسلہ 1990 کی دہائی تک جاری رہا

پھر اس آرٹ کے مجموعہ کو کسی دوسری جگہ محفوظ کر دیا گیا

کیونکہ ان کی زمین پر ایک ثقافتی مرکز اور گیلری کا دوبارہ منصوبہ بنایا گیا لیکن آج تک یہ اصل مقاصد کے حوالے سے مکمل ہو سکا ہے یا نہیں اس پر کچھ معلومات اکٹھی کر کے آپ سے دوبارہ شیئر کی جائیں گیں ۔


شاہد حسین

18 دسمبر 2021



Friday, December 17, 2021

Hira Siddiqui

 


آپ نے ایسے جگسا پزل ضرور دیکھے ہوں گے جن میں بچے بڑے شوق سے دنیا کے مشہور آرٹ ورک کو چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں کی مدد سے جوڑ کر مکمل کرتے ہیں ۔

 گو کہ اس میں ایک ریفرنس امیج موجود ہوتا ہے جسے فالو کرتے ہوئے مکمل کرنا ہوتا ہے ، لیکن پھر بھی یہ اس قدر آسان نہیں ہوتا ۔

  بس بچے یا بڑے اسے کسی ٹارگٹ کی طرح سے اچیو کرنے، یا ایک صحت مند ذہنی کھیل کی طرح سے لیتے ہوئے مشکل اٹھانے کے باوجود کھیلتے ہیں ۔

جبکہ اسی طرح سے کوئی فنکار ، جب کوئی آرٹ ورک تخلیق کرتا ہے ،

تو اس کے کونسیپچول میٹیریل کے لیے اگر وہ اپنے اردگرد دیکھے ،تو کوئی سماج بھی اپنے رسم و رواج مذہب ثقافت تاریخ ، سیاسی و جغرافیائی حالات اور دیگر بہت سے معاملات میں ، کسی جگسا پزل کی طرح ہی ہوتا ہے ،پیچیدہ اور بے شمار بکھری ہوئی ٹکڑیوں میں ، 

جنہیں پھر کوئی فنکار اپنے تصور میں موجود امیج کو فالو کرتے ہوئے مکمل کرتا ہے ،

اور یوں یہ ایک تخلیقی عمل بن جاتا ہے جسے کسی کھیل سے مماثل قرار تو نہیں دیا جاسکتا ۔

لیکن یہاں حرا صدیقی کے کام کو دیکھتے ہوئے اور اس کی وضاحت دینے کے لیے مجھے اسے بطور مثال ضرور استعمال کرنا پڑ رہا ہے ،

ایک سوسائٹی ، اپنے اندر ویری ایشن اور مسائل کی وسیع تر پیچیدگیوں کے باوجود ،اپنی ایک الگ شناخت ضرور رکھتی ہے ،جن سے اس سوسائٹی کا فن کار بطور فرد ہوتے ہوئے ، واقف ہوتا ہے ، تو وہ انہیں اپنے آرٹ میں بطور انگریڈینٹ استعمال کرتے ہوئے کہیں کچھ نہ کچھ سہولت بھی رکھتا ہے ،لیکن اب اس گلوبل ولیج بنتی دنیا کا کیا کیا جائے ،

جس نے جانے کتنے سماجوں کی ٹکڑیوں کو ایک ساتھ ہی کسی ڈبے میں اکٹھا کر دیا ہے 

آج ہر تہذیب و ثقافت نظریات رسم و رواج ، زبانیں سب کچھ آپس میں گڈ مڈ ہو گیا ہے ، تو اب اسے روایتی شناختوں میں کیسے بانٹا جائے ، کیسے ترتیب دیا جائے ،

آج کسی بھی ثقافت کی قدروں کو سنبھالنے والوں کے لئے ، ان کے سامنے یہ ٹکڑیاں سوالات کا ایک ڈھیر ہیں ۔

جبکہ حرا صدیقی کے اندر کے تخلیق کار نے ضروری نہیں سمجھا کہ وہ ان سوالوں کے جواب یا آن کے کوئی حل پیش کرے ، 

اس نے ان سوالوں اور معموں میں چھپی خوبصورتی کو تلاش کیا ،اور پھر اس نے ان سوالوں کے الفاظوں کو ایسی ترکیب سے ترتیب دیا ، 

کہ اس کی کمپوزیشنز ، سوالوں کو الجھاؤ کی طرح سے نہیں بلکہ خوبصورتی کے نئے زاویوں سے ،

 ہمیں چونکاتی ہیں ، حیران کرتی ہیں ،

اور یہی حرا صدیقی کی بہت بڑی اچیومنٹ ہے ،

شاہد حسین


21 نومبر 2021

Thursday, December 16, 2021

آرٹ مارکیٹ

 


یہ سلسلہ ہے موڈرن آرٹ سے لیکر کنٹمپریری آرٹ کی کچھ کتابوں پر تبصرے کا ،


A History of the Western Art Market

تیشیا ھلسٹ کی اس کتاب 

پر ، میلیسا کوئنس ،

جو کہ ، کلارئین یونیورسٹی پنسلووینیا میں آرٹ پروفیسر ہے نے ، 2018 میں ایک مضمون لکھا ہے ،

جس کی ابتدا وہ

ایک جرمن سوشیالوجسٹ جارج سمل کے 1980 میں لکھے گئے ایک مضمون 

Art on exhibition

کے ایک حوالے سے کرتی ہے 

جس میں جارج سمل آرٹ کی دنیا میں تیزی سے بدلتے ہوئے جمالیاتی عناصر ،پر بات کرتے ہوئے کہتا ہے، کہ یہ نئے جمالیاتی معیار ،

ہم پر جو اثرات مرتب کر رہے ہیں ،وہ ناصرف ہمارے اندر ایک مصنوعی پن کا اضافہ کر رہے ہیں بلکہ تسکین کی بجائے ،ہماری تشنگی کو اور بڑھانے کا باعث بن رہے ہیں ،

اصل میں اس کی یہ رائے تھی

ماڈرن آرٹ کی ایک ایگزیبیشن پر ،جس کا ٹائیٹل تھا ،

Fleeting character and breathless dispersal of all its contents at the end.

جس کا ترجمہ ہم کچھ یوں کر سکتے ہیں ،

فضا میں تیزی سے تحلیل ہو کر بکھر جانے والی شے ،

اور ملیسیا کا کہنا ہے کہ جارج سیمل کی یہ رائے آج کی کنٹمپریری آرٹ مارکیٹ پر بھی بالکل صادق آتی ہے ،

وہ اس طرح سے آج آرٹ کی مارکیٹ بھی اجناس کی مارکیٹ کی شکل اختیار کر گئی ہے ، جس میں لین دین ، صرف اور صرف منافع ، حاصل کرنے کی خواہش پر مبنی ہے جس میں آرٹ ڈیلرز،کلکٹرز ،

اور آرٹسٹ ، زیادہ سے زیادہ منافع کی حصول کی فکر میں لگے رہتے ہیں ،

اور بڑے بڑے آکشن ھاوسز اور ڈیلرز آرٹ کے اھم بائرز کو بالکل اس طرح سے خرید رہے ہوتے ہیں ،جیسے کوئی کلکٹر آرٹ ورک کو سلیکٹ کرتا ہے ۔

 اور یہ آرٹ مارکیٹس اپنے تمام تر مقاصد حاصل کرنے کے لیے آرٹ کی خریدوفروخت کے ،تمام مراحل کو انتہائی پوشیدہ طریقے سے چلاتی ہیں

جس میں نتیجہ آرٹ اپنی اصل اہمیت سے بدل کر ، ایک پروڈکٹ یا کموڈتی کی شکل اختیار کر جاتا ہے ،

اور ایک سچا اور خالص آرٹسٹ بھی

اپنے آرٹ سے جڑے مقصد ،سے ہٹ جاتا یا بددل ہو جاتا ھے ۔

اور پھر اسی آرٹ مارکیٹ کا حصہ بنتے ہوئے بھیڑ چال کا شکار ہو جاتا ہے ،

مصور یا مصوری سے دلچسپی رکھنے والے وہ لوگ

جنہیں آج کا آرٹ ، اپنے قدیم رائج بصری جمالیاتی اصول و ضوابط سے ہٹ کر ،یا کسی بھی طور پر نظر آنے میں ،آور پھر اپنی قیمت اور شہرت کے حوالے سے حیران کرتا ہے ، یا سیکھنے کے کسی بھی مشکل پروسس سے کوئی مصور گزرنے کے بعد ،آج کی آرٹ ورلڈ میں کامیابی کے راستے تلاش کرنا چاہتا ہے ،یا ان کی پرسراریت جاننا چاہتا ہے ،تو اس سلسلے میں رہنمائی کرنے والی بہت سی کتابوں میں سے ایک یہ بھی اچھی کتاب ہے ، ہماری کوشش ہوگی کہ یہ اردو میں شائع ہو سکے ۔


شاہد حسین

8 جون 2021

مارخور

 


مارخور ، اس کا مطلب ہے سانپ کھانے والا ، کہتے ہیں کہ یہ سانپ کھانے کے بعد اپنے منہ سے جھاگ گراتا ہے ،

جو چٹانوں پر گر کر جم جاتی ہے اور قیمتی پتھر بن جاتی ہے ،

اب اس میں کتنی سچائی ہے کتنا گمان مجھے نہیں معلوم ،


لیکن جو بات میرے تجربے میں آئی وہ ضرور بیان کرتا ہوں ایک آرٹ لور خاتون نے مجھ سے پوچھا کہ آپ ،

جو یہ کام کرتے ہیں تو میں آپ کے اوزار دیکھنا چاہتی ہوں ،

میں نے جواب میں کہا کہ میرے اوزار لوہے کے صرف چند ٹکڑے نہیں بلکہ ، میری ڈائریوں میں لکھے ہوئے ،لوگوں کے وہ رویے ہیں جنہیں میں برداشت کرتا ہوں ،

اسی طرح سے کسی نے ایک بار مجھ سے کہا کہ آپ اتنی خوبصورت باتیں ( یہ میری رائے نہیں) کس سے اورکہاں سے سیکھتے ہیں ،

تو میں نے جواب دیا اس کے لیے پہلے مدتوں باتیں سننی پڑتی ہیں ،

اور اس میں بہت سی زہریلی باتیں بھی ،جنہیں برداشت اور ہضم کرنا پڑتا ہے ،

بس پھر جو الفاظ کسی جھاگ کی طرح سے منہ سے نکلتے ہیں وہ لوگوں کو قیمتی لگتے ہیں ،

شاہد حسین

11 نومبر 21

ایک ہی حادثہ

 


ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک 


بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی



گزشتہ دنوں ایک دوست نے محفل میں اپنا دکھ بیان کرنے کے لیے جون ایلیا صاحب کی غزل کا یہ نوحہ استعمال کیا ،


اب یہ شعر تکنیکی طور پر کس قدر اعلی ہے اس کی تعریف تو شاعر دوست ہی کر سکتے ہیں ،

میں بس یہی کہہ سکتا ہوں کہ کسی بڑے شاعر میں کئی باتیں کمال کی ہوتی ہے ،

کہ وہ ایسی مشکل بات کہے کہ اس میں چھپی علامتیں یا معنی تلاش کرنے میں اچھے اچھوں کو دانتوں تلے پسینہ آ جائے ،

یا شاعر بات کی مشکل خود سہہ لے اور دوسروں کے لئے آسان کر دے ،

لیکن شعر میں یہ کمال بھی نظر آئے کہ شاعر نے کوئی مشکل ہے جو خود سہی ہے ۔

اور جون ایلیا صاحب کے اس شعر میں یہی کمال کی بات موجود ہے ،


جسے ہم عام طور پر یوں کہتے ہیں

واہ ! بہت بڑی بات کس قدر آسانی سے کہہ دی 


جب کہ ہمیں کہنا چاہیے واہ بہت بڑی بات کس قدر آسان

کر کے کہہ دی ،


اب اس شعر میں میں جون صاحب نے جو مشکل اٹھائی جیسے کہ میں نے عرض کیا اس کی تکنیکی تعریف تو کوئی شاعر دوست ہی کر سکتے ہیں ،


لیکن یہ میں کہہ سکتا ہوں کہ اس شعر میں معنی سمونے کے لیے

جون صاحب کو زندگی بھر مشکل اٹھانی پڑی ،

جس کا کچھ مشاہدہ ہم نے ان کی زندگی کے بعد بھی کیا ،

کہ ان کے بارے کچھ ایسی باتیں کہی گئیں جو ان کی زندگی میں کہی سنی جاتیں تو بہت بہتر ہوتا ،

خیر ہمارا موضوع یہ نہیں ، ، ، دراصل ایک بڑا شاعر ، اپنی زندگی کی مشکلات سے ہی ایسا رس کشید کرتا ہے جو کسی سماج

کو اپنا دکھ لگتا ہے

یا وہ کسی سماج کو مدہوش مسحور یا اس کی دوا کا کام کرتا ہے ،

سوال کرتا ہے ،

یا کسی سماجی المیے کی نشاندہی کرتا ہے ،

اب اس بات کا جواب دینے کے لیے میں جون صاحب سے معذرت کہوں گا ،


اور آپ کو ایک لطیفہ سناؤں گا ،


ہماری کہانیوں کے مشہور کردار ،

ملا نصیر الدین ،

( اب چونکہ آج کے بچے کہانیاں نہیں سنتے اس لئے برائے مہربانی وہ انہیں نصیرالدین شاہ مت سمجھیں ) 

تو ملا نصیر الدین 

رات کو اپنی زوجہ سے اپنے دن بھر کی پریشانیوں اور زندگی کے مسائل پر بات کرتے ہوئے قریب ہی سوئے ہوئے بیٹے کو دیکھ کر کہنے لگے کہ ، بیٹا جوان ہو رہا ہے ، اور پاس کوئی جمع پونجی نہیں ہے ،جو اس کی شادی کی جائے ،

 میرا خیال ہے اپنا گدھا بیچ دیتا ہوں ۔ ۔ ۔ 

اور اس کے بعد کوئی اور موضوع شروع ہوگیا ،

بیٹا گلا کھنکھارتے ہوئے بولا ،

ابا وہ گدھے والی بات پھر سے کہونا ،

 اگر تو یہ بات صرف باپ بیٹے کی ہو تو ٹھیک ہے

بچے ماں باپ کے مسائل کئی بار نہیں سمجھتے ،

اور وہ چاہتے ہیں کہ صرف ان کی بات سنی جائے سمجھی جائے ۔

لیکن جب کسی سماج کی یہ حالت ہو جائے ،


جس میں کسی سماج کا ہر فرد چاہے کہ بس اسی کا ہی نقطہ اور مطمع نظر سنا سمجھا اور مانا جائے ،

 اسی کی ہی بات یا اسی کو مرکز بنا کر اسی پر ہی بات کی جائے ،


تو پھر یہ صورتحال بڑی خراب ہوتی ہے ،

اور خاموشی کی وجہ عدم آگہی نہیں بلکہ آگہی ہو جاتی ہے ،

اور یہاں جون صاحب کا شعر فعالیت کے اعتبار سے صادق نہیں آئے گا ،

بلکہ یہاں کسی گمنام شاعر کا یہ شعر ہی فٹ آتا ہے


کون سمجھا ہے بات کا مطلب ،

سب سمجھتے ہیں بات مطلب کی ،


یہ بھی ایک المیہ ہے

کہ کسی بہت بڑے شاعر کے سوال کا جواب کسی گمنام شاعر کے شعر سے دیا جائے ،

لیکن میرا خیال ہے اسے کسی بڑے شاعر کے لیے گستاخی سمجھنے سے بہتر ہے ،

سماج کو خود کو بہتر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ،

نہ کہ پھر بگاڑ ایک وقت میں اس قدر بڑھ جائے 

کہ جہالت و جھوٹ

خود غرضی مکر و فریب ، کی بات سماج کے ہجوم کا شور بن جائے ،


اورعلم عقل اور سچائی جو مصلحتاً خاموش ہو وہ بولنا بھی چاہے کسی سوال سے کجا جواب بھی دینا چاہے ، تو ظلم وجبر کی وجہ سے خاموش ہوجائے ،

تو بس پھر وہاں سانحے اور حادثات ہی رہ جاتے ہیں ،


شاہد حسین

4 دسمبر 21

،