Monday, December 1, 2025

Colored Library


 کراچی کھوڑی گارڈن اصل میں وکٹورین دور کا ایک چھوٹا سا باغیچہ تھا جو ایک وقت تک کتاب دوست آرٹسٹوں کی جنت رھا ۔ ۔ ۔ 

باغیچہ تو خوبصورت تھا ہی لیکن خاص طور پر اس لیے کہ اس کے مرکزی گیٹ کے باہری اطراف کتاب مارکیٹ تھی جہاں دنیا بھر کی بڑی بڑی بک پبلشنگ کمپنیز کی کباڑ کہنا تو مناسب نہیں لیکن کچھ پرانی کتابیں بہت بڑے بڑے لاٹ کی شکل یا محدود تعداد میں آتی تھیں ،

جن میں پرنٹنگ، مسنگ پیجز یا بائنڈنگ کے کچھ معمولی سے مسائل ہوتے یا پھر وہ بالکل ٹھیک حالت میں ہونے کے باوجود وہاں آ جاتی تھیں ۔

جو دوست لائٹ ہاؤس سے لے کر بولٹن مارکیٹ اور ٹاور تک کے علاقے کو جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ یہ کس قدر پر ہجوم انتہائی شور شرابے سے بھرپور گنجان علاقہ ہے ۔

مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دنیا کے ہر قسم کے مٹیریل کی مارکیٹ ہے جس میں آرٹ مٹیریل بھی شامل ہے 

جسے لینے کے لیے آرٹسٹوں کو یہاں جانا ہی پڑتا ہے لیکن جس قدر ہم خوشی خوشی وہاں جایا کرتے تھے اس کی اہم وجہ یہ کتابوں کا مرکز ہوتا تھا جہاں ایسی ایسی نایاب کتابیں مناسب قیمت میں ہاتھ لگتیں کہ جیسے مچھلی پکڑنے والوں کے ہاتھ توقع سے بڑی مچھلی لگتی ہے ۔

دکاندار گو کہ بہت گھاگ ہو چکے تھے اور وہ اس دور میں بھی منہ پھاڑ کر قیمت مانگتے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کتاب کے قدردان آرٹسٹ بس پریشان سا منہ بنا کے قیمت کم تو کرواتے مگر دل میں پھوٹتے لڈو کے ساتھ کتابیں لے کر گھر کو آتے ۔


شاید یہ 2005 کی بات ہے جب یہاں  ایسا لاٹ آیا جس میں ایک سیریز کا نام تھا،

Colored Library,

یہ مختلف ازمز اور آرٹسٹوں پر تقریباً چالیس نمبروں کا سلسلہ تھا ،

اور ایک وقت میں یہ تمام نمبر دستیاب تھے ،

اور میں نے بس دیکھا اور دیکھتے ہی انہیں خرید لیا،

اتفاق سے انہی دنوں میرے والد کے ایک آرٹسٹ دوست  گھر تشریف لائے تو انہیں یہ بے حد پسند آئیں ۔ ۔ انہوں نے کہا کہ شاید بیٹا جب بھی جاؤ تو یہ ایک سیٹ میرے لیے بھی لے آنا میں نے اسی وقت  انہیں یہ تمام نمبرز تحفے میں دے دیئے،

لیکن جب دوبارہ میں اپنے لیے خریدنے گیا تو پھر مجھے یہ مکمل 40 والیم نہ ملے بلکہ 36 ملے ۔

لیکن یہ چھتیس بھی بہت تھے ۔

ان کے شروع میں آرٹسٹ کی لائف اس کے کام پر کچھ تبصرہ اور پھر آگے ہر ایک پیج پر پینٹنگ اور دوسری طرف اس پینٹنگ کے بارے تھوڑی سی ڈسکرپشن تھی اور یہ اس انداز سے تھی کہ پیج پر کافی اسپیس خالی بھی تھی ، میں نے اس میں چند کتابوں کے  خالی حصوں پر بال پوائنٹ سے ان کے تراجم بھی لکھے ،

کچھ دوست جب ان کتابوں میں اس ترجمے کو دیکھتے تو بہت حیران ہوتے کہ یہ کس کمپنی نے شائع کی ہیں جس نے ساتھ اردو ترجمہ بھی شائع کیا ہے ؟

جب میں انہیں بتاتا کہ یہ میں نے خود ہاتھ سے لکھا ہے تو وہ بہت حیران ہوتے ۔

ٹھیک ہے آج کچھ دوست جو میرے اس شوق اور جنون کو ٹھرک کا نام دیتے ہیں تو وہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں کرتے ورنہ ایسی دیوانگی کو با مقصد ہونے میں اور کیا نام دیا جا سکتا ہے ؟

Colored Library,

کہ یہ بک سیریز ہی اپنے مختلف خوشنما رنگوں میں  آج تک میرے پاس محفوظ نہیں بلکہ نہ جانے اس کتاب گلی کی کتنی خوبصورت اور رنگین یادیں آج بھی خیالوں کا حصہ ہیں 

جو اکثر کسی خواب کی صورت میں اپنا آپ ضرور دہراتی رہتی ہیں ،

نہ جانے کتنی بار خواب میں خود کو اسی کتاب گلی میں پاتا ہوں ، کسی گمشدہ جنت کی خواہش کی طرح ۔ ۔ 

اور کوئی جانا پہچانا دکاندار مجھے کہہ رہا ہوتا ہے لیجیے صاحب نئی کتاب آئی ہے تمام بک گئی یہ ایک آپ کے لیے سنبھال کے رکھی ہوئی تھی ۔


شاہد حسین 

30 نومبر 25

No comments: