Friday, October 3, 2025

Decorative Art


 Nisar Ahmad:

ویسے یہاں کون کون ایسا سمجھتا ہے کہ وہ آرٹ کر رہا ہے ؟؟

اور کون اپنے آپ کو ڈیکوریٹو آرٹ سے جوڑ رہا ہے ؟


Shahid Hussain:

دیکھا جائے تو اس موضوع پر ہم بہت بار بات کر چکے ہیں 

لیکن پھر بھی 

کسی سوال کی ترتیب بھی ہر بار جواب کی ترتیب بھی بدلتی ہے ،

یوں سمجھیے کہ جیسے ہم کسی میگنیفائن گلاس سے ہر بار کسی پیٹرن کو کسی مختلف زاویے سے یا مختلف مقام سے زیادہ نمایاں کر کے دیکھتے ہیں ۔

اصل میں تو اس سوال کے پیچھے معنی کچھ اور ہے کہ کیا ہم کمرشل آرٹ کرتے ہیں یعنی صرف کام بیچنے کے لیے ؟ 


اس کا ایک ابتدائی جواب تو یہ ہوگا کہ 

دنیا کے تمام آرٹسٹ دراصل ڈیکوریٹو آرٹ ہی کرتے ہیں ،


آگے بڑھتے ہوئےطریقہ اور مقاصد اصل میں اس میں بالکل اس طرح سے فرق لے کر آتے ہیں جس طرح سے ہم اکثر شاعری کی مثال دیتے ہیں 

کہ دنیا کی تمام شاعری اصل میں نظم کہلاتی ہے ،

لیکن پھر اس میں کسی بھی بنیاد پر تھوڑا تھوڑا فرق ،

اس کی اصناف طے کرتے ہوئے اسے غزل ، حمد نعت نوحہ مرثیہ سلام یا شاعری وہ نظم کی دیگر اصناف میں بدلتا ہے ۔


35 سے 40 ہزار سال پہلے جو ارٹسٹ شکار پر جانے کی بجائے دیواروں پر کام کر رہے تھے وہ بھی آرائش و زیبائش کر رہے تھے ،

اج بھی چاہے کوئی دیوار پر لگانے کے لیے پینٹنگ بناتا ہے 

یا کسی کونے یا ٹیبل پر رکھنے کے لیے مجسمہ اصل میں وہ کہیں نہ کہیں ایک ایسی آرائش ہے جس کا تعلق ہماری جمالیات سے ہے ۔

تو پھر وہ کون سی بات ہے جو اسے خالص آرائشی آرٹ سے خالص آرٹ میں بدلتی ہے ؟


یہ مقام سب سے پیچیدہ ہوتا ہے ،

جیسے کہ جب ہم اس آرٹ کو مقدس کر دیتے ہیں تو پھر ہم خود ہی اسے آرائشی نہیں کہتے ،

یعنی اس کے آرائشی ہونے سے انکار کر دیتے ہیں 

دوسرا مرحلہ،

اسان لفظوں میں کہوں گا کہ ہماری جمالیاتی اخلاقیات ہوتی ہیں ۔

اب یہاں ایک مثال دیتا ہوں کہ اج سے ہزاروں سال پہلے کا انسان مٹی اور دیگر اشیاء سے رنگ بنا بنا کر دیواروں پر ہاتھوں کے نشان بنا کر ان کی ارائش و زیبائش کر رہا تھا 

مجھے اتفاق سے ایک ایسا گھر دیکھنے کا موقع ملا 

جہاں دو ذہنی طور پر معذور بچے رہ رہے تھے ،

تو وہ ٹوائلٹ میں اپنی شٹ دیواروں پر لگا لگا کر مختلف پیٹرن بناتے تھے ۔


اب ہزاروں سال پہلے کا انسان ذہنی طور پر اس قدر پختگی حاصل کر چکا تھا کہ وہ جمالیات کے جو معنی سمجھ رہا تھا

اگر اج کے دور میں رہنے والے دو بچے ذہنی طور پر پختہ نہیں ہیں تو ان کا جمالیاتی معیار مٹیریل کے چناؤ میں بالکل بدل جائے گا ۔


اپ قدیم نقادوں کو اگر پڑھیں تو وہ جمالیات اور اخلاقیات کو باہم ملا کر بات کرتے ہیں 

اور ہم سمجھ نہیں پاتے کہ ارٹ میں اخلاقیات کہاں سے آ جاتی ہیں ،

جبکہ اخلاقیات اصل میں انسان کے جمالیاتی بیہیویئرز ہیں جو اپنی ہزارہا شکلیں رکھتے ہیں 

اور اپ دوست اج مجھ سے فوری جواب مانگ رہے ہیں 

جبکہ یہ موضوع بہت طویل ہے،

اس لیے میں اس کی سادہ سی مثال دیتا ہوں کہ میرے والد نے تمام زندگی ڈیکوریٹو آرٹ کیا،

لیکن انہوں نے جن رویوں سےکیا وہ بلکل وہی تھے جو خالص تخلیقی آرٹ کرنے والوں کے ہوتے ہیں ۔

میں نے بھی تمام زندگی ڈیکوریٹو آرٹ کیا لیکن اسے جس انوالومنٹ کے ساتھ بہت سے مادی مقاصد پسے پشت ڈالتے ہوئے کیا ،

مجھے لگتا ہی نہیں ہے کہ میں نے خالص ڈیکوریٹو آرٹ کیا


تو کئی بار ہمارے مختلف مقاصد اور کئی بار ہمارا طریقہ کار ، رویہ اور ٹریٹمنٹ ڈیکوریٹو آرٹ کے معنی وہ مقاصد بدلتا رہتا ہے ۔

شاہد حسین 

5 مئی 25

Thursday, October 2, 2025

Color Psychology


 Abbas Kamaangar: 

رنگوں کے استعمال سے متعلق کچھ سوال رکھ رہا ہوں ۔


پینٹنگ کیلیئے رنگوں کا انتخاب کس فارمولے کے تحت ہونا چاہیے ؟

1  کلر وھیل کی مدد سے  ؟

2 رنگوں کے نفسیاتی اثرات کو مد نظر رکھتے ہوئے ؟

3 یااپنی کلر پیلٹ بنانی چاہیے ؟


Shahid Hussain:

عباس کمان کمانگر صاحب کے ان سوالات پر دوستوں کا اس قدر دلچسپ اور ہما جہت مکالمہ ہوا ہے کہ اس پر اب مزید کہنے کے لیے میرے پاس کچھ بچا ہی نہیں ،

سوائے اس خواہش کے کہ اس قدر مزیدار مکالمے میں اپنی طرف سے کچھ کہہ کر حصے دار بننے کی خواہش ہے ۔


رنگ !

ہمارے اطراف ہر شے میں بکھرے پڑے ہیں ، مگر ہم انہیں دیکھتے اپنی الگ انفرادی صلاحیت کی بنیاد پر ہیں ،

یہ ہماری آنکھ کے،

Receptors,

 ریسپٹرز ہوتے ہیں جو ایک خاص پراسس کے ذریعے

 بنیادی طور پر تین رنگوں،

گرین ریڈ اور بلو 

 سے ان کے پھر سیکنڈری مکس ،

یلو سیان اور مجنٹا بناتے اور پھر دیگر چلے جاتے ہیں ۔ 

یہ انسانی آنکھ اور روشنی کے تال میل کا ایک پیچیدہ پروسس ہے ۔


کچھ لوگوں میں جب یہی ریسپٹر اپنا کام ٹھیک طرح سے نہیں کرتے تو انہیں بہت سے کلرز نظر نہیں بھی آتے ،

جتنے کلر بلائنڈ کہا جاتا ہے ۔

یہی مسئلہ حیات رکھنے والی دیگر مخلوقات میں سے بھی کئی کی آنکھوں میں ہوتا ہے ۔

Receptors,

کی سائنس کو آرٹ میں ، 

Impressionists,

نے اپنے کام میں بہت زیادہ ڈسکس کیا اور پھر پوائنٹلسٹس نے بھی ۔


بالکل اسی طرح اگر رنگوں کے استعمال کا آرٹ میں جائزہ لیا جائے تو ، وہاں آگے بڑھتے ہوئے حالات کچھ یوں پیش آتے ہیں کہ کچھ فنکار پیدائشی طور پر کلرسٹ ہوتے ہیں ، ان میں رنگوں سے دلچسپی اور ان کے استعمال کی نالج وجدانی طور پر موجود ہوتی ہے۔


ہم اکثر مصور بچوں کو بڑے انہماک مگر بے ساختگی سے رنگوں کو انتہائی دلچسپ ترتیب اور توازن سے استعمال کرتے ہوئے دیکھتے ہیں ،

جبکہ کچھ فنکار ڈرائنگ مجسمہ سازی اور پینٹنگ میں انتہائی مہارت حاصل کرنے کے باوجود رنگوں کے استعمال میں وہ بچوں والی بے ساختگی اور اعتماد حاصل نہیں کر پاتے ۔

بس اسی بات سے سمجھیے کہ ایک ڈومینو کا گیم شروع ہوتا ہے جس میں رنگوں کی سائنس کو سمجھنے کی کوشش کی گئی 

اس میں ان کے ٹمپریچر سے لے کر انسانی نفسیات اور مزاج پر تاثراتی اثرات ، اور رنگوں کی اسپرچول معنویت کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ۔

اور پھر یہ بھی دیکھا گیا کہ یہ نفسیاتی تاثرات اور معنویت یکساں سائنسی نتائج رکھنے کے باوجود آرٹ کے اظہار میں یکساں نہیں ہوتے ۔


سرخ رنگ کو ہی لے لیجئے یہ زندگی کی علامت بھی ہے ، خوشی کی بھی اور خطرے کی بھی اور اسی طرح سے اس کے کئی معنی ہیں۔


پیلے رنگ کو لیجیے 

یہ روشنی کا رنگ بھی ہے اداسی اور موت کا بھی ،

اسی طرح سے تمام رنگوں کے ساتھ یہ معاملات درپیش ہیں ۔

یہی نہیں بلکہ یہ رنگ کسی دوسرے رنگ کے ساتھ ملا کر یا اس کے ساتھ رکھ کر دیکھے جائیں تو اسی تناسب سے یہ اپنے بصری اثرات بدلتے رہتے ہیں ۔

یہاں میں سب سے پہلے پیٹ موندریاں کی مثال دوں گا،

جس نے اپنی کلر فیلڈ پینٹنگز میں اس سائنٹیفک نظریے کو پیش کیا 

کہ ہر کلر کا ایک مختلف ویژول ویٹ ہے ۔

جو اپنے ویژول سائز میں مختلف ہونے کے باوجود مساوی بھی ہو سکتا ہے ۔


پھر اسی طرح رنگوں کے نفسیاتی جذباتی اور روحانی 

استعمال پر تو ہم کنڈنسکی یا بہت سے فاوٌسٹ آرٹسٹوں کے علاوہ کسی خاص آرٹسٹ کا نام مینشن کر ہی نہیں سکتے کہ اکثریتی پینٹر آرٹسٹوں نے رنگوں کو اپنے وجدانی تخلیقی اظہار کے لیے رنگوں کی دریافت شدہ سائنس کو بھی استعمال کیا اور خود اپنی مرضی سے اپنی پیلٹ کو اپنے جذباتی نفسیاتی روحانی اظہار کے لیے استعمال کیا ، تو ان ہزاروں کے نام کیسے لکھے جائیں ۔

یوں سمجھیے کہ ہر فنکار کی تخلیق ایک ایسے والٹ میں موجود ہوتی ہے جسے نکالنے کے لیے وہ ڈرائیونگ کے اصولوں کی طرح کلر وہیل کی نالج کو اپنے اندر محفوظ رکھتے ہوئے بھی اور اپنی کلر پیلٹ پر کلر ویل کی مختلف کمبینیشنز کے مطابق مختلف نمبرز اور ترتیب کو استعمال کرتا ہے ۔


شاہد حسین 

5 مئی 25 ۔

Wednesday, October 1, 2025

Karachi Crime History


 اگر کراچی میں جرائم کی تاریخ کو بہت مختصراً بیان کیا جائے تو ،

1947، سے پہلے 

کراچی میں جرائم بس برائے نام ہوں گے کیونکہ،

یہاں تقسیم سے پہلے مسلمانوں کے علاوہ پارسی, ہندو ، گجراتی ،میمن کاٹھیاواڑ کاروباری اور ہنرمند طبقے کے علاوہ گوروں کی محدود تعداد اور اینگلو انڈینز یا ان کے ساتھ ساتھ بہت کم لوگ وہ آباد تھے جو اپنی فطرت یا مزاج میں جرم یا فساد کرنے کا عنصر رکھتے تھے ۔


تقسیم کے بعد جو مہاجرین ہندوستان سے آئے ان میں ایک خاصی اکثریت پڑھے لکھے شریف النفس جنہیں عام طور پر کچھ ڈرپوک بھی سمجھا جاتا ہے ان لوگوں کی اچھی خاصی تعداد تھی جبکہ ایک وہ طبقہ بھی ان میں تھا جو 

ضروری نہیں تھا کہ ان خصوصیات کا حامل تھا مگر وہ صرف اردو اسپیکنگ مہاجر ہونے کی بنا پر اپنے آپ کو مہذب ہی سمجھتے اور کہلوانا یا ثابت کرنا چاہتے تھے ۔


لہذا ایک مدت تک بلکہ یوں کہا جائے کہ دو دہائیوں تک وہ لوگ ایسے ہی رہے اور 70 کی دہائی تک یہ لوگ اگر کچھ بدمعاشی وغیرہ کرتے بھی تھے محدود سے آپسی لڑائی جھگڑے اور اگر پڑھے لکھے منظم تو وہ جماعت اسلامی جیسے کسی سیاسی پلیٹ فارم سے کرتے تھے ۔


جبکہ اسٹریٹ کرائمز میں تقسیم کے بعد کچھ سندھ پنجاب اور خیبر پختون خواہ سے آنے والے مہاجرین نے کراچی کے اکثریتی لوگوں کو شریف النفس امن پسند دیکھتے ہوئے یہاں اپنے پاؤں جمانے کے لیے چھوٹے موٹے یا منظم بدمعاش گروہ بنانے شروع کر دیے ۔


جس میں دادا گیری، بھتہ کلچر سے لے کے پھر چوری ڈکیتی قتل اور گلیوں بازاروں میں سنسان جگہوں اور رات دیر گئے ڈھکے چھپے طریقے سے وارداتیں ہوتی تھیں ۔


1980 کے بعد انتہائی سائنٹیفک بنیادوں پر کراچی اور حیدراباد کی تمام تر کریمنل ذمہ داری ایم کیو ایم اور اس کے دیگر بننے والے ذیلی گروپس نے لے لی ، جس میں گلی محلوں تک سے انتہائی منظم انداز میں پڑھے لکھے لوگوں سے لے کر عام 

اردو سپیکنگ طبقے کو جس میں جرائم کرنے کی کوئی نہ کوئی صلاحیت موجود تھی انہیں اس میں شامل کیا گیا ، چھوٹے چھوٹے بچوں کو اسلحہ تھما دیا گیا اور پھر کراچی اور حیدرآباد پر صرف اور صرف ایم کیو ایم کا ہی راج تھا ، اور ایم کیو ایم نے جرائم کی جو تاریخ رقم کی ہے وہ صرف عقل کے اندھے ہی ہیں جنہیں نظر نہیں آتی ورنہ اس 25 سے تیس سالہ دور کی خوفناکی کی مثال اور کسی دور سے نہیں دی جا سکتی ۔

اور پھر ایم کیو ایم کے عفریت کو قابو میں لانے کی تیاری شروع ہو گئی ،

جس کے لیے اسے اس کے اندر سے بھی اور باہر سے بھی توڑا گیا یوں ایم کیو ایم کی اصل حالت کو تقریباً ختم کر کے اسے کچھ نئی اشکال میں تقسیم و ترتیب دیا گیا ،

بہت سے لوگ شاید اس بات کا یقین نہ کریں کہ آج کراچی میں پی ٹی ائی کا ونگ دراصل ایم کیو ایم کے آشیرواد کا ہی مرہون منت ہے ،

کیونکہ دونوں کا مدر اور فادر خالق ایک ہے ۔

فرق صرف یہ ہے کہ 

پی ٹی آئی نے کراچی کی کرائم مارکیٹ کو کنٹرول کرنے کے لیے افغانیوں کا سہارا لیا ہے ، جو عام لوگوں کو پختون ہی لگتے ہیں اور کراچی کے وہ پرانے پختون جو اپنی داداگری کی صلاحیت میں کمزور ہو چکے ہیں وہ بھی خود کو افغان سمجھے جانے پر فخر کرتے ہیں اور بڑی خوشی سے قبول کرتے ہیں کہ ہاں کراچی کی تمام بدمعاشی پر ابھی بھی ان کا کنٹرول ہے مگر اب حقیقت یہ ہے کہ کراچی کے تقریباً پچاس فیصد جرائم پر اکیلے افغانیوں کا کنٹرول ہے ، اور انہیں مذہبی گروپس کی بھی حمایت حاصل ہے ۔

جبکہ باقی 50 فیصد پر دیگر اقوام میں سے حصہ بقدر جثہ ہے ۔

لیکن جن کا 50 فیصد ہے وہ یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں جبکہ بقایہ 50 فیصد میں جن کا تھوڑا تھوڑا حصہ ایک دوسرے میں تقسیم ہے وہ اس قدر احمق ہیں کہ ایک دوسرے کو ہی الزام دیتے رہتے ہیں ۔

اور موج وہ کر رہے ہیں جن کا سب سے زیادہ ہولڈ ہے یا جن کے مفادات کراچی کے حالات کی خرابی سے جڑے ہیں ۔

مگر یہ تمام باتیں ان لوگوں کی اکثریت کو سمجھانا اور یقین دلانا بہت مشکل ہے ۔



شاہد حسین 

یکم اکتوبر 25