اگر کراچی میں جرائم کی تاریخ کو بہت مختصراً بیان کیا جائے تو ،
1947، سے پہلے
کراچی میں جرائم بس برائے نام ہوں گے کیونکہ،
یہاں تقسیم سے پہلے مسلمانوں کے علاوہ پارسی, ہندو ، گجراتی ،میمن کاٹھیاواڑ کاروباری اور ہنرمند طبقے کے علاوہ گوروں کی محدود تعداد اور اینگلو انڈینز یا ان کے ساتھ ساتھ بہت کم لوگ وہ آباد تھے جو اپنی فطرت یا مزاج میں جرم یا فساد کرنے کا عنصر رکھتے تھے ۔
تقسیم کے بعد جو مہاجرین ہندوستان سے آئے ان میں ایک خاصی اکثریت پڑھے لکھے شریف النفس جنہیں عام طور پر کچھ ڈرپوک بھی سمجھا جاتا ہے ان لوگوں کی اچھی خاصی تعداد تھی جبکہ ایک وہ طبقہ بھی ان میں تھا جو
ضروری نہیں تھا کہ ان خصوصیات کا حامل تھا مگر وہ صرف اردو اسپیکنگ مہاجر ہونے کی بنا پر اپنے آپ کو مہذب ہی سمجھتے اور کہلوانا یا ثابت کرنا چاہتے تھے ۔
لہذا ایک مدت تک بلکہ یوں کہا جائے کہ دو دہائیوں تک وہ لوگ ایسے ہی رہے اور 70 کی دہائی تک یہ لوگ اگر کچھ بدمعاشی وغیرہ کرتے بھی تھے محدود سے آپسی لڑائی جھگڑے اور اگر پڑھے لکھے منظم تو وہ جماعت اسلامی جیسے کسی سیاسی پلیٹ فارم سے کرتے تھے ۔
جبکہ اسٹریٹ کرائمز میں تقسیم کے بعد کچھ سندھ پنجاب اور خیبر پختون خواہ سے آنے والے مہاجرین نے کراچی کے اکثریتی لوگوں کو شریف النفس امن پسند دیکھتے ہوئے یہاں اپنے پاؤں جمانے کے لیے چھوٹے موٹے یا منظم بدمعاش گروہ بنانے شروع کر دیے ۔
جس میں دادا گیری، بھتہ کلچر سے لے کے پھر چوری ڈکیتی قتل اور گلیوں بازاروں میں سنسان جگہوں اور رات دیر گئے ڈھکے چھپے طریقے سے وارداتیں ہوتی تھیں ۔
1980 کے بعد انتہائی سائنٹیفک بنیادوں پر کراچی اور حیدراباد کی تمام تر کریمنل ذمہ داری ایم کیو ایم اور اس کے دیگر بننے والے ذیلی گروپس نے لے لی ، جس میں گلی محلوں تک سے انتہائی منظم انداز میں پڑھے لکھے لوگوں سے لے کر عام
اردو سپیکنگ طبقے کو جس میں جرائم کرنے کی کوئی نہ کوئی صلاحیت موجود تھی انہیں اس میں شامل کیا گیا ، چھوٹے چھوٹے بچوں کو اسلحہ تھما دیا گیا اور پھر کراچی اور حیدرآباد پر صرف اور صرف ایم کیو ایم کا ہی راج تھا ، اور ایم کیو ایم نے جرائم کی جو تاریخ رقم کی ہے وہ صرف عقل کے اندھے ہی ہیں جنہیں نظر نہیں آتی ورنہ اس 25 سے تیس سالہ دور کی خوفناکی کی مثال اور کسی دور سے نہیں دی جا سکتی ۔
اور پھر ایم کیو ایم کے عفریت کو قابو میں لانے کی تیاری شروع ہو گئی ،
جس کے لیے اسے اس کے اندر سے بھی اور باہر سے بھی توڑا گیا یوں ایم کیو ایم کی اصل حالت کو تقریباً ختم کر کے اسے کچھ نئی اشکال میں تقسیم و ترتیب دیا گیا ،
بہت سے لوگ شاید اس بات کا یقین نہ کریں کہ آج کراچی میں پی ٹی ائی کا ونگ دراصل ایم کیو ایم کے آشیرواد کا ہی مرہون منت ہے ،
کیونکہ دونوں کا مدر اور فادر خالق ایک ہے ۔
فرق صرف یہ ہے کہ
پی ٹی آئی نے کراچی کی کرائم مارکیٹ کو کنٹرول کرنے کے لیے افغانیوں کا سہارا لیا ہے ، جو عام لوگوں کو پختون ہی لگتے ہیں اور کراچی کے وہ پرانے پختون جو اپنی داداگری کی صلاحیت میں کمزور ہو چکے ہیں وہ بھی خود کو افغان سمجھے جانے پر فخر کرتے ہیں اور بڑی خوشی سے قبول کرتے ہیں کہ ہاں کراچی کی تمام بدمعاشی پر ابھی بھی ان کا کنٹرول ہے مگر اب حقیقت یہ ہے کہ کراچی کے تقریباً پچاس فیصد جرائم پر اکیلے افغانیوں کا کنٹرول ہے ، اور انہیں مذہبی گروپس کی بھی حمایت حاصل ہے ۔
جبکہ باقی 50 فیصد پر دیگر اقوام میں سے حصہ بقدر جثہ ہے ۔
لیکن جن کا 50 فیصد ہے وہ یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں جبکہ بقایہ 50 فیصد میں جن کا تھوڑا تھوڑا حصہ ایک دوسرے میں تقسیم ہے وہ اس قدر احمق ہیں کہ ایک دوسرے کو ہی الزام دیتے رہتے ہیں ۔
اور موج وہ کر رہے ہیں جن کا سب سے زیادہ ہولڈ ہے یا جن کے مفادات کراچی کے حالات کی خرابی سے جڑے ہیں ۔
مگر یہ تمام باتیں ان لوگوں کی اکثریت کو سمجھانا اور یقین دلانا بہت مشکل ہے ۔
شاہد حسین
یکم اکتوبر 25
No comments:
Post a Comment