Thursday, October 2, 2025

Color Psychology


 Abbas Kamaangar: 

رنگوں کے استعمال سے متعلق کچھ سوال رکھ رہا ہوں ۔


پینٹنگ کیلیئے رنگوں کا انتخاب کس فارمولے کے تحت ہونا چاہیے ؟

1  کلر وھیل کی مدد سے  ؟

2 رنگوں کے نفسیاتی اثرات کو مد نظر رکھتے ہوئے ؟

3 یااپنی کلر پیلٹ بنانی چاہیے ؟


Shahid Hussain:

عباس کمان کمانگر صاحب کے ان سوالات پر دوستوں کا اس قدر دلچسپ اور ہما جہت مکالمہ ہوا ہے کہ اس پر اب مزید کہنے کے لیے میرے پاس کچھ بچا ہی نہیں ،

سوائے اس خواہش کے کہ اس قدر مزیدار مکالمے میں اپنی طرف سے کچھ کہہ کر حصے دار بننے کی خواہش ہے ۔


رنگ !

ہمارے اطراف ہر شے میں بکھرے پڑے ہیں ، مگر ہم انہیں دیکھتے اپنی الگ انفرادی صلاحیت کی بنیاد پر ہیں ،

یہ ہماری آنکھ کے،

Receptors,

 ریسپٹرز ہوتے ہیں جو ایک خاص پراسس کے ذریعے

 بنیادی طور پر تین رنگوں،

گرین ریڈ اور بلو 

 سے ان کے پھر سیکنڈری مکس ،

یلو سیان اور مجنٹا بناتے اور پھر دیگر چلے جاتے ہیں ۔ 

یہ انسانی آنکھ اور روشنی کے تال میل کا ایک پیچیدہ پروسس ہے ۔


کچھ لوگوں میں جب یہی ریسپٹر اپنا کام ٹھیک طرح سے نہیں کرتے تو انہیں بہت سے کلرز نظر نہیں بھی آتے ،

جتنے کلر بلائنڈ کہا جاتا ہے ۔

یہی مسئلہ حیات رکھنے والی دیگر مخلوقات میں سے بھی کئی کی آنکھوں میں ہوتا ہے ۔

Receptors,

کی سائنس کو آرٹ میں ، 

Impressionists,

نے اپنے کام میں بہت زیادہ ڈسکس کیا اور پھر پوائنٹلسٹس نے بھی ۔


بالکل اسی طرح اگر رنگوں کے استعمال کا آرٹ میں جائزہ لیا جائے تو ، وہاں آگے بڑھتے ہوئے حالات کچھ یوں پیش آتے ہیں کہ کچھ فنکار پیدائشی طور پر کلرسٹ ہوتے ہیں ، ان میں رنگوں سے دلچسپی اور ان کے استعمال کی نالج وجدانی طور پر موجود ہوتی ہے۔


ہم اکثر مصور بچوں کو بڑے انہماک مگر بے ساختگی سے رنگوں کو انتہائی دلچسپ ترتیب اور توازن سے استعمال کرتے ہوئے دیکھتے ہیں ،

جبکہ کچھ فنکار ڈرائنگ مجسمہ سازی اور پینٹنگ میں انتہائی مہارت حاصل کرنے کے باوجود رنگوں کے استعمال میں وہ بچوں والی بے ساختگی اور اعتماد حاصل نہیں کر پاتے ۔

بس اسی بات سے سمجھیے کہ ایک ڈومینو کا گیم شروع ہوتا ہے جس میں رنگوں کی سائنس کو سمجھنے کی کوشش کی گئی 

اس میں ان کے ٹمپریچر سے لے کر انسانی نفسیات اور مزاج پر تاثراتی اثرات ، اور رنگوں کی اسپرچول معنویت کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ۔

اور پھر یہ بھی دیکھا گیا کہ یہ نفسیاتی تاثرات اور معنویت یکساں سائنسی نتائج رکھنے کے باوجود آرٹ کے اظہار میں یکساں نہیں ہوتے ۔


سرخ رنگ کو ہی لے لیجئے یہ زندگی کی علامت بھی ہے ، خوشی کی بھی اور خطرے کی بھی اور اسی طرح سے اس کے کئی معنی ہیں۔


پیلے رنگ کو لیجیے 

یہ روشنی کا رنگ بھی ہے اداسی اور موت کا بھی ،

اسی طرح سے تمام رنگوں کے ساتھ یہ معاملات درپیش ہیں ۔

یہی نہیں بلکہ یہ رنگ کسی دوسرے رنگ کے ساتھ ملا کر یا اس کے ساتھ رکھ کر دیکھے جائیں تو اسی تناسب سے یہ اپنے بصری اثرات بدلتے رہتے ہیں ۔

یہاں میں سب سے پہلے پیٹ موندریاں کی مثال دوں گا،

جس نے اپنی کلر فیلڈ پینٹنگز میں اس سائنٹیفک نظریے کو پیش کیا 

کہ ہر کلر کا ایک مختلف ویژول ویٹ ہے ۔

جو اپنے ویژول سائز میں مختلف ہونے کے باوجود مساوی بھی ہو سکتا ہے ۔


پھر اسی طرح رنگوں کے نفسیاتی جذباتی اور روحانی 

استعمال پر تو ہم کنڈنسکی یا بہت سے فاوٌسٹ آرٹسٹوں کے علاوہ کسی خاص آرٹسٹ کا نام مینشن کر ہی نہیں سکتے کہ اکثریتی پینٹر آرٹسٹوں نے رنگوں کو اپنے وجدانی تخلیقی اظہار کے لیے رنگوں کی دریافت شدہ سائنس کو بھی استعمال کیا اور خود اپنی مرضی سے اپنی پیلٹ کو اپنے جذباتی نفسیاتی روحانی اظہار کے لیے استعمال کیا ، تو ان ہزاروں کے نام کیسے لکھے جائیں ۔

یوں سمجھیے کہ ہر فنکار کی تخلیق ایک ایسے والٹ میں موجود ہوتی ہے جسے نکالنے کے لیے وہ ڈرائیونگ کے اصولوں کی طرح کلر وہیل کی نالج کو اپنے اندر محفوظ رکھتے ہوئے بھی اور اپنی کلر پیلٹ پر کلر ویل کی مختلف کمبینیشنز کے مطابق مختلف نمبرز اور ترتیب کو استعمال کرتا ہے ۔


شاہد حسین 

5 مئی 25 ۔

No comments: