Saturday, November 29, 2025

Abdali to Angries


 برصغیر کی تعمیرات پر دیگر خطوں سے حملہ آور ہونے والوں کے اثرات ۔


احمد شاہ ابدالی،

1748 سے 1772 تک 25 سالہ مدت میں افغانستان سے بر صغیر پر تقریباً سات سے آٹھ بار حملہ آور ہوا،

اور یہ 25 سالہ دورانیہ ہی اس کا برصغیر پر اقتدار کا دور بھی ہے ۔

کیونکہ اس کا مقصد یہاں اپنے اقتدار کو طوالت دینا نہیں بلکہ ایسی عسکری مہمات تھیں جن کے بنیادی اغراض و مقاصد خطے پر افغان تسلط اثر رسوخ اور مالی مفادات حاصل کرنا تھا ۔

اپنے 25 سالہ دور میں اس نے بر صغیر کے خطے کے لیے کیا تعمیری سرگرمیاں سرانجام دیں ان کا تعلق زیادہ تر اس کے مالی مفادات سے ہی جڑا ہے جیسے کہ ٹیکس کا سخت نظام ، اور سماجی حوالے سے بیوہ عورتوں کی شادی سے متعلق قوانین ہیں ۔

جبکہ متحدہ ہندوستان میں اس کی تعمیرات کوئی خاص مثالیں نہیں ملتی لیکن ہندوستان سے 

حاصل کی گئی دولت سے کابل کے گرد وال سٹی بنوائی گئی اور قندھار میں احمد شاہی نام سے ایک نیا شہر بنایا گیا ۔

لیکن بر صغیر میں موجود دولت کے حصول کے لیے تعمیرات کو نقصان ضرور پہنچایا گیا جن میں خاص طور پر دہلی کے لال قلعے کے ایک حصے میں بنی چھت میں استعمال ہونے والے سونے کو نکلوا کر بھی پگھلوایا اور ابدالی نے اسے اپنے خزانے میں شامل کیا ۔

ٹھیک ٹھیک اعداد و شمار حاصل کرنا تو بہت مشکل ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق ابدالی نے اپنے 25 سالہ دور میں ہندوستان سے تقریبا 100 ٹن سے زائد سونا لوٹا ۔

مگر برصغیر کے اکثریتی مسلمان ابدالی کو ایک ہیرو کے طور پر مانتے ہیں گو کہ ابدالی نے اسلام کے پھیلاؤ میں کوئی خاص کردار ادا نہیں کیا لیکن اس کے دور میں مسلمانوں کو ہندوؤں اور سکھوں کے مقابل ایک مزہبی سیاسی و زہنی برتری حاصل ہوئی ۔

بر صغیر میں احمد شاہ عبدالی کے دور میں ہی انگریز سرکار نے ہندوستان پر قبضہ جمانا شروع کیا مگر احمد شاہ عبدالی کی انگریز سرکار سے کوئی خاص براہ راست جنگ نہیں ہوئی اس کا زیادہ تر ہدف مرہٹے اور مغل تھے ۔


1757 سے 1857 تک ہندوستان پر ایک صدی انگریز کمپنی نے اور پھر 1857 کی آزادی کی جنگ کے بعد 1947 تک 90 سال براہ راست برٹش سرکار نے ہندوستان پر حکومت کی ،

190 سال کے کل دور حکومت میں انگریز نے برصغیر کو جو لوٹا اس کا اندازہ ٹھیک ٹھیک عددوں میں لگانا تو مشکل ہے لیکن کچھ قریب قریب تخمینہ لگایا جائے تو ،

190 سال میں 6400 ٹن سے زائد سونا لوٹا گیا ,

اب اس دولت کو اگر احمد شاہ ابدالی کے دور کی مدت اور مقدار سے 

موازنہ کیا جائے تو ایک اندازے کے مطابق ابدالی نے 25 سالہ دور اقتدار میں برصغیر سے ہر سال چار ٹن سونا لوٹا،

جبکہ انگریز سرکار نے 190 سالہ دور اقتدار میں ہر سال 34 ٹن سونا لوٹا ۔

اسی طرح اگر دونوں کے طرز حکومت میں ان کی یہاں سے حاصل کی گئی دولت کو خطے پر خرچ کرنے کے طور دیکھا جائے تو ،

ابدالی نے تمام تر حاصل شدہ دولت کا تقریباً 10 سے 15 فیصد جو بر صغیر پر خرچ کیا وہ صرف اور صرف اپنے عسکری انتظامی امور پر تھا ،

جبکہ انگریز سرکار نے جو 20 سے 25 فیصد خرچ کیا اس میں بھی گو کہ اپنے عسکری انتظامی امور پر ایک بڑا حصہ تھا مگر کہیں اقتدار کو طوالت دینے کے لیے انفراسٹرکچر پر اور اسی طرح عوام کو کچھ نہ کچھ شہری سہولتیں دینے جیسے امور پر بھی تھا جس میں تعلیم صحت ریلوے ، سڑکیں ذرائع آمدرفت ثقافتی سرگرمیاں اور فوجی و شہری تعمیرات تھیں ۔

جس کی وجہ سے اس خطے کی سماجی وہ ثقافتی تہذیب پر ان کے گہرے اثرات ثبت ہوئے ۔

لیکن اس خطے کی ایک بڑی مسلم اکثریت ابدالی کو اپنے مذہبی عقائد و جذبات کی بنا پر آزادی کا ہیرو جبکہ انگریز سرکار کو آقائی جبر و تسلط رکھنے والے سامراج کے طور دیکھتی اور یاد کرتی ہے ۔


شاہد حسین 

21 نومبر 25

عینک والا جن


 جی عاصم زبیری بھائی اور حفیظ طاہر صاحب بلا شبہ یہ عینک والا جن ایک وقت میں ہمارے بچوں پر بری طرح سے قابض تھا،

سچ کہا جائے تو ہم پر بھی 😍

 


یہ بات ٹھیک ہے کہ 

ہومر کی اوڈیسی نے داستانوں کے سفر کی شروعات میں اہم کردار ادا کیا 

لیکن پھر عرب ٹیلز ،

ہزار داستان، طلسم ہوش ربا ،حاتم طائی ، پھر بر صغیر میں قصہ چہار درویش اور دیگر بہت سی سینہ بہ سینہ چلنے والی داستانوں نے جہاں بچوں کی شعوری ترقی و اخلاقی تربیت میں بہت مضبوط کردار ادا کیا وہیں ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشنے میں بچوں کے کچھ رسائل وغیرہ کے ذریعے اور پھر اسی تسلسل میں پی ٹی وی نے بھی تفریحی وقت فراہم کرنے میں بہت اہم حصہ ادا کیا ۔ ۔ ۔ 


اور پھر ہم نے یہ تمام ذمہ داری کمپیوٹر ، موبائل فون اور اس پر دستیاب دیگر خطوں کے مٹیریل پر ڈال دی ۔


کیا اب آج کے بچے جادو کی نگری میں اڑتے گھوڑے قالین پریاں اور چڑیلوں کے قصے نہیں سننا چاہتے ؟

جی آج بھی مغرب میں یہ سب جاری و ساری ہے ہیری پوٹر بک سیریز کی ریکارڈ فروخت کوئی زیادہ پرانی بات نہیں ہے ، او ٹی ٹی پلیٹ فارمز پر بچوں کی ایسی سیریز کا آج بھی ہجوم ہے ،

لیکن ہم نے اپنے بچوں کو بڑا کر دیا ہے ۔

اور سمجھ لیا ہے کہ انہیں اب اس قسم کی خرافات کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، لیکن کیا یہ سچ ہے ؟


شاہد حسین 

29 نومبر 25

کشمیر کی کلی


 کیا کہانیاں اور داستانیں صرف بچوں کے لیے ہوتی ہیں ؟


سچ تو یہ ہے کہ ہم بڑے بھی ہو جائیں تو قصے کہانیاں اور داستانیں ہمیں متاثر ضرور کرتی بس ہم اس میں سے تصورات کو کم کرتے ہوئے کچھ حقیقت کے قریب لانا شروع کر دیتے  ہیں جیسے کہ مجھے یاد ہے کہ تاریخ پڑھنا جو کہ کچھ لوگوں کے لیے خاصہ بورنگ سا موضوع ہوتا ہے لیکن برصغیر کے ایک بہت بڑے لکھاری الیاس سیتا پوری صاحب اس موضوع کو حقیقت اور تصور کے درمیان رکھتے ہوئے یا ایک بنت بنتے ہوئے ہمارے لیے بہت ہی دلچسپ بنا دیتے تھے ۔

اتفاق سے ان دنوں میری بیٹی میری لائبریری کی بہت سی کتابوں کو تصویری طور پر کمپائل کر رہی ہے ۔


جس میں ایک وقت میں میرے پاس الیاس سیتا پوری صاحب کی جو بہت سی کتابیں موجود تھیں مگر دوستوں کے مطالعے کے ذوق اور مہربانی نے انہیں سنبھالنے رکھنے کے جھنجھٹ میں مجھے کافی سہولت فراہم کر دی ہے 😄

تو اب شاید بہت کم ہیں ،اگر آپ کے مطالعے میں کبھی ان کی کتابیں  آئی ہوں تو یقیناً آپ نے ان میں تاریخ کے نہاں خانوں میں چھپی بہت سی کہانیوں کو کسی فلم کی طرح سے اپنے تصور میں دیکھا ہوگا ۔ 

 انہی داستانوں کو یاد کرتے ہوئے  الیاس سیتا پوری صاحب کی صاحبزادی ،زنوبیہ الیاس جو خوش قسمتی سے دوستوں میں شمار  ہیں انہیں بھی گروپ میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے یقینا وہ اس حوالے سے کچھ اپنی یادداشتیں ہم سے ضرور شیئر کریں گیں ۔

 


شاہد حسین 

29 نومبر 25