Is this the Death of Walled City ? by; Dr. Ajaz Anwar Lahorenama .
The Identity Project, شناخت Karachi.
یہ تحریر ان دو موضوعات پر شیئر کی گئی ویڈیوز کی گفتگو کے تسلسل میں ہے ۔
"شناخت" میں 1947 سے پہلے اور بعد کے کراچی کا ذکر ہے ، جب یہ شہر انتہائی صاف ستھرا اور اپنی ثقافتی سرگرمیوں کے حوالے سے دنیا بھر میں پہچانا جاتا تھا ۔
1975 تک اس کے کچھ نہ کچھ آثار دیکھے گئے ،جو میرے بچپن کی یادوں میں بھی شامل ہیں ۔
اگر ہم خاص طور پر ماڈرن اور بولڈ فیشنڈ سرگرمیوں کا ذکر کریں تو اس میں اس شہر کی پارسی اور اینگلو انڈین فیملیز کا بہت بڑا کردار ہے جو ضیاء الحق کے اسلامی مارشل لاء کے بعد اس شہر سے غائب ہونا شروع ہو گئے ۔
دوسرا نوحہ ،
لاہور کی والڈ سٹی کے بارے ڈاکٹر اعجاز انور صاحب کا ہے ، جس میں تہذیب اور ثقافت کی علامت قدیم عمارتوں کی شکستگی ہی نہیں بلکہ انہیں دانستہ ملیہ میٹ کرنے سے متعلق ہے ۔
یہ دونوں شہر میرے بھی رہے ہیں ،
جائے پیدائش لاہور تھی مگر تمام بچپن لڑکپن اور اس کے بعد کا تقسیم شدہ طویل وقت ان دو شہروں میں گزرا ،
سو وابستگی میں پیار محبت اور عشق کے تمام عناصر ان دونوں شہروں سے یکساں رہے ۔
ان شہروں کے خدو خال کو ان کے عہد شباب سے لے کر ڈھلتی عمر تک بدلتے ہوئے بھی دیکھا اور کچھ نہ کچھ ان کی وجوہات کو بھی سٹڈی کیا ۔
جن میں کراچی کی کچھ ایسی ہیں کہ ان کا بیان موضوع کو بہت کریٹیکل کر دے گا ، لہذا لاہور پر ہی بات کر لیتے ہیں ،
ڈاکٹر صاحب کے لاہور نامے میں اکثر
اس شہر کا دکھ بیان کرتے ہوئے جدید تعمیرات کی بھرمار خاص طور پر انفراسٹرکچر کے نام پر کی گئی تعمیرات کا بہت ذکر ہوتا ہے جن میں اس شہر کی قدیم خصوصیات کی اہمیت کو بالکل نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا شہروں کے بدلاؤ میں انفراسٹرکچر کی اہمیت کو محدود کیا جا سکتا ہے ؟
جی ہاں کچھ نہ کچھ تو کیا جا سکتا ہے بات ترجیحات کی ہوتی ہے ، جیسے ایک شہر میں ایک کثیر المنزلہ جدید عمارت کو اس لیے گرا دیا گیا کہ اس کے گرد گھماؤ دار سڑک کی وجہ سے لوگوں کا وقت اور فیول دونوں ضائع ہوتے تھے ،
جبکہ کچھ شہروں میں سڑکوں کو اس لیے زیادہ گھماؤدار اور طویل کرنا پڑا کہ ان کے راستے میں قدیم عمارات حائل تھیں جنہیں بچانا ضروری سمجھا گیا ۔
ان دو مثالوں میں جدید عمارت میں اس کی تعمیری لاگت کو نظر انداز کیا گیا جبکہ تاریخ اور ثقافت کی علامت عمارتوں کو بچانے کے لیے وقت کے زیاں اور لاگت کو نظر انداز کیا گیا۔
اور کسی بھی شہر کے انفراسٹرکچر کی تعمیر میں ترجیحات تو یہی آخر الذکر ہونی چاہییں ، مگر بدقسمتی سے ہمارے ملکوں میں ایسی باتوں کا کہا خیال رکھا جاتا ہے ۔
لیکن یہاں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اس المیے سے دنیا کے بہت بڑے بڑے شہر بھی گزرتے ہیں ،
آپ دنیا کے بڑے بڑے کئی سو سال پرانے شہروں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے ذرائع امد و رفت کی جدید تعمیرات نے ان کی پرانی شکل کو تبدیل کرتے ہوئے بے شمار عمارتوں اور ان میں مقیم جنریشنز کو دکھی تو کیا ہے ۔
اور پھر سوچنے کی یہ بھی بات ہے کہ اس بدلاؤ کو صرف حکومتی اقدامات کے حوالے سے ہی کیوں دیکھا جائے کیا ہم اس بدلاؤ کو
ایک فرد سے لے کر اس کے خاندانی نظام تک اور پھر بدلتے ہوئے مجموعی سماجی ڈھانچے تک سے دیکھ سمجھ اور اسباب تلاش نہیں کر سکتے ؟
میرا بچپن لاہور کے قدیم علاقے اچھرے کی تنگ و تاریک گلیوں سے لے کر ،
بھاٹی لوہاری کی بھول بھلئیوں جیسی گلیوں میں آتے جاتے گزرا ہے ۔
تین تین منزلہ گھر ہوتے تھے سیڑھیاں جن پر دن میں بھی چڑھتے ہوئے سٹیپس نظر نہیں آتے تھے بس اندھیرے میں اندازے سے ہی ان پر پاؤں رکھ کر چڑھا جاتا تھا ،
چھوٹے چھوٹے کمرے ، جن کی کھڑکی کھول کر پڑوسی کو کسی بھی سالن یا سوغات کی کٹوری آرام سے تھما دی جاتی تھی محلے سے قربت کا یہ عالم ہوتا تھا جبکہ دوسری طرف پانچویں محلے بھی جانا ہوتا تو پیدل ہی جایا جاتا تھا ۔
گھر اگر بڑے بھی ہوتے تو وہ تین تین منزلہ احاطے ہوتے تھے جن میں بیسیوں خاندان ایک ساتھ رہ رہے ہوتے تھے ۔
لیکن پھر ان کے مکینوں کے بچوں کی شادیاں ہوتی ، پھر آگے ان کے بچے یوں خاندان بڑھتے چلے جاتے جبکہ گھر وہی رہتے تھے ، بڑی کوشش سے چھت پر کسی ایک آدھ کمرے کا اضافہ کر لیا جاتا یا کسی بڑے بوڑھے کو
کسی کونے کھانچے میں چارپائی ڈال دی جاتی اس کے علاوہ ان عمارتوں
کو بڑھاوا دینے کا کوئی خاص انتظام نہیں تھا سوائے اس کے کہ ان کے مکیں رفتہ رفتہ انہیں بیچ باچ کر دوسرے علاقوں میں منتقل ہوتے رہتے ،
اور نئے آنے والے ان کو گرا کر ان کی جگہ نئی نویلی تعمیر کر لیتے اب بتائیے اسے کیسے روکا جا سکتا تھا اور ہے ؟
بچپن سے نکل کر لڑکپن اور پھر روزگار سے متعلق دور میں داخل ہوا تو میرے والد مصور و مجسمہ ساز ہونے کے ساتھ ،
Architectural Ornament
عمارتی آرائش و زیبائش سے منسلک تھے اور میں انہی کے ساتھ ان کی معاونت میں شامل ہو گیا ۔
طویل مدت نئے گھروں کو قدیم طرزِ آرائش دینے کے بعد ،
قدیم عمارتوں کی ،
Restoration,
تزئین نو سے وابستہ ہو گیا ۔
میرا یہ کام صرف روزگار نہیں رہا میرا عشق بھی تھا ،
شہروں کی مجموعی تعمیراتی بناوٹ سے لے کر انفرادی گھروں کے ڈیزائن کو دیکھنا اور ان کے بارے گفتگو کرنا میرا اور میرے والد کا معمول تھا ،
اورنامنٹ کی بہت سی باریکیوں پر کتابی مطالعے سے بہت پہلے میری اپنے والد سے گفتگو جاری رہتی تھی ،
Renaissance to
Baroque, Rococo & Art Deco style of Ornament,
میں موجود ،
Symmetrical Balance,
یعنی یکساں توازن کی نفی کرتا ہوا غیر یکساں توازن ہمیشہ سے میری دلچسپی کا محور رہا ،
مجھے وہ شہر اور علاقے کبھی پسند نہیں آتے تھے جن میں ترتیب کے نام پر یونیفارم پیٹرن پر یکساں ڈیزائن کے گھر اور فلیٹس ہوتے ،مجھے یوں لگتا ہے جیسے وہاں ہم گھروں کو شناخت کرنے کی اپنی حس ہی کھو بیٹھتے ہیں یا جیسے یاداشت سے محروم ہو جاتے ہیں ۔
مجھے ہمیشہ متنوع بناوٹ کے گھر لیکن اپنی مجموعی حالت میں ایک ترتیب اور توازن لیے ہوئے علاقے محلے اور شہر ہمیشہ پسند رہے ، خاص طور پر قدیم سے لے کر پچاس کی دہائی تک کے ماڈرن گھروں پر مشتمل جو اپنی اصل حالتوں میں دیکھے جا سکتے تھے ۔
مگر پھر دیکھا یہ گیا کہ رفتہ رفتہ وہی خاندانوں کی بڑھوتی میں ان گھروں نے آگے پاؤں پسارنے پھیلانے شروع کر دیے ،
ان دنوں میرے معمولات میں یہ بھی شامل ہے کہ میں لاہور میں جاری ناجائز تجاوزات کے خلاف جو ایکشن لیا جا رہا ہے اسے ضرور دیکھتا ہوں جس میں لوگوں نے بازاروں گلیوں محلوں میں بیس بیس فٹ تک آگے گھروں کو بڑھایا ہوا ہے ، اب اسے کیا کہا جائے گا ؟
ظاہر ہے کہ اس کا الزام بھی حکومتی اداروں کو ہی دیا جائے گا کہ وہ لوگوں سے رشوت لے کر انہیں اپنی ضرورت کے نام پر اپنے لالچ و حرص میں بڑھوتی کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں ،
مگر سوچنے کی بات ہے کہ بطور فرد یا خاندان کے ہم خود کہاں پر ہوتے ہیں ؟
کیا یہ کہیں بھی ہماری ذمہ داری کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا ؟
پھر اسی بدلاؤ میں تقریبا نصف صدی کے گزشتہ حالات کا بھی تسلسل ہے جس میں لاکھوں افغان پناہ گزین کیمپوں کی بجائے ان شہروں میں منتقل ہو رہے ہیں ، جو شہری تجاوزات سے قدیم عمارتوں کی تباہی ہی نہیں بلکہ
نہ جانے ہمارے کتنے تہذیبی اور ثقافتی ورثے کو ملیہ میٹ کرنے کا سبب بن رہا ہے ،
کیا ان تمام معاملات کو دیکھا سمجھا نہیں جا سکتا ان کے اسباب اور سد باب پر بات نہیں کی جا سکتی ؟
اور ان کا کیسے سدباب کیا جا سکتا ہے ؟
موہنجو داڑو مٹی میں کیسے دفن ہو گیا شاید یہ اسباب ابھی پوری طرح سے نہیں جانے جا سکے ، مگر ایک ہنستا بستا شہر اپنی قدیم عمارتوں حویلیوں اور گھروں پر ہزاروں ٹن کنکریٹ اور دوسرا مٹیریل اپنی مرضی سے کیسے اوڑھ لیتا ہے یہ تو کم از کم دیکھا جا سکتا ہے سمجھا جا سکتا ہے ۔
شاہد حسین
6 مارچ 25