Wednesday, March 26, 2025

شطرنج اور آرٹ


 اگر آپ نے ستیہ جیت رے کی فلم ،

"شطرنج کے کھلاڑی"

نہیں بھی دیکھی جس میں بر صغیر کے مسلمان نوابین کے زوال کی وجہ ،

ان کا اس کھیل میں مشغول ہونا دکھایا گیا ہے تو بھی آپ نے اپنی عام زندگی میں ایسے دوست ضرور دیکھے ہوں گے جو 

یہ کھیل کھیلنے کا جنون اور دیوانگی کی حد تک شوق رکھتے ہیں ۔


اب امور زندگی کی ذمہ داریوں سے یہ کس قدر بھی آپ کو بیگانہ کرتا ہو 

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ آرٹ آف وار سے لے کر 

آرٹ آف پولیٹکس اگر سیکھنا سمجھنا ہو تو اس کھیل کا شوق ضرور ہونا چاہیے ۔

یہ کھیل سیکھنے کا شوق تو مجھے بھی رہا مگر کبھی کوئی دوست کھلاڑی مل ہی نہ سکا اور جب تک کوئی ساتھی نہ ملے یہ کھیل سیکھنا مشکل ہے خیر اب تو 

کمپیوٹر یہاں تک کہ فون کی ایپس پر بھی آپ یہ کھیل کھیل سکتے ہیں ۔


مگر جس کھیل کا مجھے سب سے زیادہ شوق رہا وہ نہ آرٹ آف وار اور نہ ہی آرٹ آف پولیٹکس بلکہ خالصتاً آرٹ ہے ،

جس میں ہمیشہ ایک ایسی محفل کی ضرورت محسوس ہوتی رہی 

جہاں دوستوں سے آرٹ سے متعلق موضوعات پر بات ہوتی رہے کہ انسانی خیال سوچ نظریات اور سماج نے آرٹ کو کیسے بدلا اور آرٹ نے سماج پر کیا کیا اثرات ڈالے ،

پیکاسو پیکاسو کیسے تھا سلوا ڈور ڈالی ، ڈالی کیوں تھا امپریشنزم کیا تھا ماڈرن آرٹ دور میں سرل ازم اور ایبسٹریکٹ میں کیا کیا پہیلیاں تھیں اور کنٹمپریری کیا بلا ہے ؟

وغیرہ وغیرہ وغیرہ 

مگر اس کھیل کا بھی یہی المیہ رہا کہ بس دوستوں کی فزیکل محفل ہونی چاہیے جب تک یہ دستیاب رہی خوب خوب یہ کھیل کھیلا گیا ، لیکن جب اسے فون کی سکرین پر کھیلنے کی کوشش کی تو 

یہ کھیل کھیلنا ممکن ہی نہ ہو سکا۔


مگر اب بہت سے دوست بتاتے ہیں کہ 

بات فزیکل محفلوں کی نہیں رہی، شطرنج کی طرح اب یہ آرٹ مکالمہ کھیل بھی ناپید ہوتا جا رہا ہے ۔

اب صرف آرٹ آف وار اور آرٹ آف پولیٹکس پر بات ہوتی ہے ۔

"دروغ بگردن راوی"


شاہد حسین 

25 مارچ 25

169 Street


 169 Street  to 179 Street Jamaica,

نیویارک ، کوئنز کا یہ علاقہ ، منی ڈھاکہ کہا جائے تو اس میں کچھ مذائقہ نہ ہوگا ۔

یہاں بنگلہ دیشی لوگوں کی اس قدر کثیر تعداد آباد ہے کہ یہاں جاتے ہی آپ کو ہر طرف یہی لوگ اپنے مخصوص 

انداز سے بات کرتے ہوئے ، چلتے پھرتے خریداری کرتے ہوئے 

اور یہاں پر موجود بے شمار گروسری سٹورز اور ریسٹورنٹس میں خاص بنگلہ دیشی کھانوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ملیں گے , جن کے ہمراہ سویٹ ڈش میں آپ روشو گولے سے لے کر گلاب جامن ، چوم چوم اور بنگلہ دیش کی خاص ترکیب سے بنے ہوئے دہی کے ذائقے سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں ۔

 اب سے کچھ عرصہ پہلے جب ہم اس علاقے میں جاتے تو ان میں ہم پاکستانیوں کے لیے کچھ سرد مہری پائی جاتی تھی ،

جس کا مجھ جیسے لوگوں کو کچھ نہ کچھ احساس ضرور رہا  کہ ان کی وجوہات کیا رہی تھیں ،

مگر اب اچانک کچھ تبدیلی آرہی ہے 

جسے محسوس کیا جا سکتا ہے ۔

لیکن کیا اس تبدیلی کو دور رس اور بہتر نتائج میں تبدیل کیا جا سکتا ہے ؟

بدقسمتی سے اس حوالے سے پاکستان کی پالیسیز ہمیشہ کچھ غیر موثر رہی ہیں ، ضیاء الحق کے دور سے لے کر بعد تک ، اب احمد ندیم قاسمی کے گنڈاسے کا تو پتہ نہیں کیا کانسپٹ تھا، لیکن مارشل لا میں جس گنڈاسے ، مولا جٹ اور نوری نت سے ہم واقف ہوئے وہ اپنے علاقے سے لے کر بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے اپنے خطے میں،

 دشمنیاں کرنیں پالنی اور نبھانی ہی جانتے تھے۔


سوائے چند پڑوسیوں کے ہم نے زیادہ تر سے تو دشمنیاں نبھانی ہی سیکھیں ۔

ہم جان ہی نہ سکے کہ نئی دنیا گلے میں بانہیں ڈالے پرانے یاروں جیسی نہ سہی لیکن کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ باہمی مفادات کی بنیادوں پر دوستیاں کرنے کی طرف جانی چاہیے تھی ۔


اپنے اندرونی معاملات میں تو ہم آج بھی اپنی اسی روش پر چل رہے ہیں پتہ نہیں بیرونی تعلقات میں ہم اپنے اندر پگلتی برف کے اس موسم میں کچھ تبدیلیاں کریں گے یا نہیں ؟

بنگلہ دیش ہماری طرف پھر دوستی کا ہاتھ بڑھا رہا ہے ، جہاں اس بڑھے ہوئے ہاتھ کو سنجیدگی سے تھامنے کی ضرورت ہے وہیں ہاتھ چھڑانے والوں کو بھی محبت خلوص اور حقوق کی ادائیگی سے  توجہ دینے کی اہم ضرورت ہے ۔

شاہد حسین 

26 مارچ 25

Wednesday, March 19, 2025

Wedgwood & Jamil Naqsh


 Wedgwood &

Jamil Naqsh.


ویج ووڈ برطانوی سیرامکس میں سب سے زیادہ پہچانے جانے والے ناموں میں سے ایک ہے۔ 

 260 ،گزشتہ سالوں سے کمپنی نے اپنی اشیاء میں تخلیقی صلاحیت اور مہارت  کے انتہائی اعلیٰ رجحانات مرتب کیے ہیں اور آج بھی دنیا بھر میں اپنے صارفین کی ایک وسیع رینج کے لیے مطلوبہ فیشن ایبل سیرامکس تیار کر رہے ہیں۔

ان کی بہت خاص سمجھی جانے والی سرامکس میں مختلف گھریلو استعمال کی اور آرائشی اشیاء پر ،

دودھیا سفید پورسلین کی انتہائی نفیس فیگرز ہوتی ہے جنہیں پنچنگ یا کاسٹنگ میتھڈ سے

کسی دوسرے گہرے رنگ کی سطح پر پیسٹ کیا جاتا ہے ۔

یہ فیگرز اپنے سائز میں بہت چھوٹی اور ابھار میں بہت کم ہونے کے باوجود اس قدر تفصیلات  ، جامعیت و نفاست لیے  ہوتی ہیں  کہ ان کی کرافٹس مین شپ سے کسی اور سرامک کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا ، یہ انہی کا طرہ امتیاز ہے ۔

ان فیگرز کے ہلکے ابھار اور گراؤنڈ کے ساتھ مرج ہوتے ہوئے  بہت ہی مہین حصے پورسلین کی ہلکی سی شفافیت کے ساتھ ایک عجیب جادوگری پیدا کرتے ہیں ، جن کی خوبصورتی کسی روحانی تسکین کی طرح سے محسوس ہوتی ہے ۔

گو کہ اپنے معیار اور اہمیت میں ان کو  کسی قیمت سے ماپنا مناسب نہیں لیکن ان کے قدردان انہیں انتہائی مہنگے داموں خریدتے ہیں ۔

ابھی کچھ عرصہ پہلے مجھے بھی ایک انٹیک شاپ سے اس طرح کی مختلف تین پلیٹس مل گئیں اور اس دن میں بہت خوش تھا ،  اس خوشی میں میں جس شخص کو یاد کر رہا تھا وہ جمیل نقش صاحب تھے ،

جنہوں نے مجھے ویج ووڈ سے متعارف کروایا ۔


80 کی دہائی کے آواخر میں جب میری ان سے ملاقات ہوئی تو میں  بطور مجسمہ ساز طالب علم ہونے کے ساتھ عملی طور ایکٹو اس وقت بھی تھا ،

لیکن میری ضرورتوں نے مجھے کلاسک دور کی آرکیٹیکچرل اورنامنٹ میں اس قدر مصروف رکھا ہوا تھا کہ میرے قریبی لوگ بھی اس میں میرا مجسمہ ساز ہونا نہیں دیکھ پاتے تھے ۔

لیکن جمیل نقش ایک ایسی ایکس رے کی آنکھ رکھنے والے مصور تھے کہ ان کی اس خصوصیت کی وضاحت میں میں یہاں  راشد رانا سے ان کے کام کے بارے ہونے والے ایک مکالمے کا بھی ذکر کروں گا جس میں وہ اپنے کسی پورٹریٹ یا کسی بھی ایک سبجیکٹ میں ہزاروں چھوٹے چھوٹے امیجز لگا کر انہیں مکمل کرتے ہیں ، جس کی وضاحت میں وہ بتاتے ہیں کہ اصل میں یہ ایک مکھی کی آنکھ سے دیکھنے کے  طریقے پر مبنی ہے جو کسی بھی امیج کو اپنی آنکھ میں موجود چار ہزار سے لے کر 8500 لینسز کی مدد سے مکمل کر کے دیکھتی ہیں اور وہ اسی میتھڈ پر اپنا کام کرتے ہیں ۔


تو میں کہوں گا کہ اصل میں تو ایک بڑا یا کوئی عظیم فنکار بھی اپنی بصارت سے لے کر بصیرت تک میں  یہی خصوصیت رکھتا ہے اور ہم اس کی جو ایک فائنل پینٹنگ میں تخلیقی و جمالیاتی اعتبار سے اسے کسی مکمل شاہکار کے طور دیکھتے ہوئے  ہزاروں جہتیں محسوس کرتے ہیں وہ دراصل اس کام کی خصوصیات میں   یہی صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ اپنے گرد کسی بھی موضوع کو اس کی ہزاروں جہتوں سے دیکھتا سمجھتا اور محسوس کرتا ہے اور پھر اسے اپنے کام میں بیان کرتا ہے ۔


جمیل نقش صاحب صرف اپنے موضوعات کو ہی نہیں نہ جانے فنون کی کتنی اصناف و اقسام کو بالکل اسی طرح سے دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتے تھے ۔

اور وہ مختلف فنون سے تعلق رکھنے والے اپنے ملنے والوں کو اپنے بارے یہ نہیں بتاتے تھے کہ وہ کیا جانتے اور کس مقام پر ہیں بلکہ وہ انہیں یہ احساس دلاتے تھے کہ مجھے معلوم ہے کہ آپ کیا ہیں ۔

 اسی طرح سے وہ ملاقاتی سے اسی کی علمی سطح اور اسی کی قابلیت کے علاقے میں اس سے بات کرتے پھر اس کے بعد کسی مددگار شفیق استاد اور رہنما کی طرح سے رہنمائی کی کوشش کرتے تھے ۔

انہوں نے میرے چند کام دیکھ کر ہی اور چند باتوں سے ہی میرے تمام حالات کے اندازہ لگا لیا ۔

بہت سی یادیں بہت سی باتیں ہیں کس کس کا ذکر کروں ، لیکن جب میں نے اپنی ایک خواہش کا ان سے ذکر کیا کہ میں مستقبل میں 

سرامک کے حوالے سے کچھ کام کرنا چاہتا ہوں ، تو انہوں نے گھر کی اپنی ویج وڈ کی خاص کلیکشنز مجھے منگوا کر دکھائیں اور کہا کہ ان کو گھر لے جائیے تسلی سے ان کو سٹڈی کیجئے ، اور سوچیئے کہ کیا آپ مستقبل میں اس معیار کا کام پاکستان میں سر انجام دے سکتے ہیں ؟

اور یہ بھی کہا کہ ویسے مجھے امید ہے کہ آپ یہ کر سکتے ہیں ۔

سچ کہوں تو ان کی مجھ سے یہ توقعات میری ٹیکنیکل مہارت اور میرے کام میں اس دور کے شوق اور جنون  کے اعتبار سے بالکل ٹھیک تھیں ۔

لیکن پاکستان میں سرامکس کے حوالے سے پیش آنے والی دقتیں ، میری مشکلات اور مجبوریوں کے محاذ بہت سے تھے جن کی بنا پر میں اس معیار کے کام پر بہت سا وقت اور سرمایہ ضائع کرنے کے باوجود کوئ پروڈکٹ سازی تو نہ شروع کر سکا ،

لیکن جمیل صاحب کا مجھ پر اعتماد اور ان کی رہنمائی مجھے ہمیشہ یاد رہی ۔

بعد میں میں نے جب بھی کبھی ویج وڈ کی اشیاء کو دیکھا پورسلین کی فیگرز کی خوبصورتی اور شفافیت کے پیچھے کی گہری سطح میں کہیں چھپے ہوئے مجھے  جمیل نقش بھی ہمیشہ یاد آئے اور آج ان کی برسی بھی ہے ۔


شاہد حسین

16 مئی 24

19 Mar 25 

Saturday, March 8, 2025

مکالمہ کیوں نہیں ؟


 جب ہم دنیا کہ ترقی یافتہ سماجوں میں خاص طور پر مغرب میں آرٹ کی ترقی کا مشاہدہ کرتے ہیں تو دیگر بہت سی وجوہات کے ساتھ ساتھ وہاں آرٹ پر ڈائیلاگ کا بھی عام ہونا ہے جس کی بنیاد،

 1350 میں اٹلی سے ابھرنے والی تحریک نشاۃ ثانیہ ،

Renaissance,

کو اس لیے قرار دیا جا سکتا ہے کہ ،

اس دور سے آرٹ نے

مذہب اور ریاست سے الگ فلسفے اور سماجیات کو بھی اپنا موضوع بنانا شروع کیا ۔

لیکن پھر اس ڈائیلاگ کا عروج کا سہرا سترویں سے اٹھارویں صدی کی آرٹ موومنٹس کے سر جاتا ہے ۔

لیکن ہمارے خطے خاص طور پر پاکستان میں آرٹ پر ڈائیلاگ کیوں نہیں ہو سکتا؟

 بالآخر 10 سال کی 

طویل تحقیق کے بعد ہم نے کچھ نتائج اکٹھے کئے 

جنہیں بس مختصر سی وضاحت اور سوال و جواب کی مدد سے بتاتے ہیں ۔


پہلی وجہ ، پاکستان کے مصوروں کی ایک بڑی اکثریت ،تقریباً 90 فیصد سے زائد ، تعلیم یافتہ نہیں ہے ، دوسرا وہ مصوری کی تعلیم حاصل کرنے میں بھی اکیڈمک سہولتوں کے مراحل سے نہیں گزر پاتی ، اور تیسری بڑی وجہ ان کی ایک بڑی اکثریت خود سے بھی آرٹ کی تاریخ اور فلسفے اور اس سے متعلقہ مطالعے تحقیق اور جستجو پر توجہ نہیں دیتی سوائے مہارت حاصل کرنے کے ۔


وہ 10 فیصد مصور جو اکیڈمک مراحل طے کر کے آتے ہیں ان میں سے بھی نصف خود اپنے کام پر ڈائیلاگ کی صلاحیت نہیں رکھتے ، خود اپنے خیال میں پراعتماد یا اوریجنل نہیں ہوتے اس لیے وہ ڈائیلاگ کو اوائڈ کرتے ہیں ،

جو چار پانچ فیصد بچتے ہیں ان میں سے بھی تین اپنے ڈائیلاگ کو عام نہیں کرنا چاہتے ۔

لہذا باقی 100 میں سے صرف کوئی ایک یا زیادہ سے زیادہ دو فیصد بچتے ہیں ۔ 


سوال: تو کیا ان میں سے پھر کوئی بھی اپنے یا کسی دوسرے فنکار کے کام پر ڈائیلاگ نہیں چاہتا یا پسند نہیں کرتا ؟


جواب ؛ یہاں بڑی عجیب مزے کی بات ہے کہ 95 فیصد آرٹسٹ یہ چاہتے ہیں کہ ان کے کام پر ڈائیلاگ ہو لیکن کوئی دوسرا کرے لیکن وہ خود کسی دوسرے کے کام پر بات نہیں کرنا چاہتے ۔


سوال ؛ اچھا اگر دوسرا ان کے کام پر ڈائیلاگ کرے تو پھر اسے پسند کرنے کا کیا کرائٹیریا ہوتا ہے ؟


اگر کوئی مشہور نامور نقاد ان کے کام کی تعریف کرے تو اس تعریف کو خوب چوم چاٹ کر سنبھال کر رکھتے ہیں ، اسے اپنی کوئی پینٹنگ تحفے میں دیتے ہیں لیکن

اگر وہ تنقید کر دے تو وہ آرٹ میں نقاد کے کردار کو سرے سے ہی رد کر دیتے ہیں ،

جبکہ اگر کوئی شوقیہ لکھنے والا ان کے کام کی چاہے تعریف کرے یا تنقید وہ اسے بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں اور جواب میں شکریہ تک نہیں کہتے ۔

اور اگر شوقیہ لکھنے والے میں سے کوئی بہت اچھی تعریف و تنقید کرنے والا ہو تو اس سے ہمیشہ چھپ کر رائے لیتے ہیں ۔

کیونکہ ہم کسی سے کچھ سیکھنے یا سمجھنے کے عمل کو 

اور اس کا برملا اقرار کرنے کو اپنے لیے باعث شرم سمجھتے ہیں ۔

کہ بس اس کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو ۔

بس ایسی ہی وجوہات سے پھر وہ مکالمے کے شوقین لکھنے والے بھی آہستہ آہستہ خاموش ہوتے چلے جاتے ہیں ۔

اور ڈائیلاگ ہو ہی نہیں پاتا جو پھر ان حالات میں بھی کوشش کرتے ہیں ان کے ڈائیلاگ کی ٹیکنیکل اہمیت سے زیادہ اسے ان کے اپنے مزاج اور فطری بناوٹ کے زمرے میں داخل سمجھا جاتا ہے۔


وجوہات تو اور بھی بہت سی ہیں لیکن یہ خاص خاص ہیں ۔


شاہد حسین 

8 مارچ 25

Thursday, March 6, 2025

شہروں کے نوحے


 Is this the Death of Walled City ? by; Dr. Ajaz Anwar Lahorenama .


The Identity Project, شناخت Karachi.


یہ تحریر ان دو موضوعات پر شیئر کی گئی ویڈیوز کی گفتگو کے تسلسل میں ہے ۔


"شناخت" میں 1947 سے پہلے اور بعد کے کراچی کا ذکر ہے ، جب یہ شہر انتہائی صاف ستھرا اور اپنی ثقافتی سرگرمیوں کے حوالے سے دنیا بھر میں پہچانا جاتا تھا ۔

1975 تک اس کے کچھ نہ کچھ آثار دیکھے گئے ،جو میرے بچپن کی یادوں میں بھی شامل ہیں ۔

اگر ہم خاص طور پر ماڈرن اور بولڈ فیشنڈ  سرگرمیوں کا ذکر کریں تو اس میں اس شہر کی پارسی اور اینگلو انڈین فیملیز کا بہت بڑا  کردار ہے  جو ضیاء الحق کے اسلامی مارشل لاء کے بعد اس شہر سے غائب ہونا شروع ہو گئے ۔


دوسرا نوحہ ،

لاہور کی والڈ سٹی کے بارے ڈاکٹر اعجاز انور صاحب کا ہے ، جس میں تہذیب اور ثقافت کی علامت قدیم عمارتوں کی شکستگی ہی نہیں بلکہ انہیں دانستہ ملیہ میٹ کرنے سے متعلق ہے ۔


یہ دونوں شہر میرے بھی رہے ہیں ،

جائے پیدائش لاہور تھی مگر تمام بچپن لڑکپن اور اس کے بعد کا تقسیم شدہ طویل وقت ان دو شہروں میں گزرا ،

سو وابستگی میں پیار محبت اور عشق  کے تمام عناصر ان دونوں شہروں سے یکساں رہے ۔

ان شہروں کے خدو خال کو ان کے عہد شباب سے لے کر ڈھلتی عمر تک بدلتے ہوئے بھی دیکھا اور کچھ نہ کچھ ان کی وجوہات کو بھی سٹڈی کیا ۔

جن میں کراچی کی  کچھ ایسی ہیں کہ ان کا بیان موضوع کو بہت کریٹیکل کر دے گا ، لہذا لاہور پر ہی بات کر لیتے ہیں ،

ڈاکٹر صاحب کے لاہور نامے میں اکثر 

اس شہر کا دکھ بیان کرتے ہوئے جدید تعمیرات کی بھرمار خاص طور پر انفراسٹرکچر کے نام پر کی گئی تعمیرات کا بہت ذکر ہوتا ہے جن میں اس شہر کی قدیم خصوصیات کی اہمیت کو بالکل نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔


اب سوال یہ ہے کہ کیا شہروں کے بدلاؤ میں انفراسٹرکچر کی  اہمیت کو محدود کیا جا سکتا ہے ؟


جی ہاں کچھ نہ کچھ تو کیا جا سکتا ہے بات ترجیحات کی ہوتی ہے ، جیسے ایک شہر میں ایک کثیر المنزلہ جدید عمارت کو اس لیے گرا دیا گیا کہ اس کے گرد گھماؤ دار سڑک کی وجہ سے لوگوں کا وقت اور فیول دونوں ضائع ہوتے تھے ،

جبکہ کچھ شہروں میں سڑکوں کو اس لیے زیادہ گھماؤدار اور طویل کرنا پڑا کہ ان کے راستے میں قدیم عمارات حائل تھیں جنہیں بچانا ضروری سمجھا گیا ۔

ان دو مثالوں میں جدید عمارت میں اس کی تعمیری لاگت کو نظر انداز کیا گیا جبکہ تاریخ اور ثقافت کی علامت عمارتوں کو بچانے کے لیے وقت کے زیاں اور لاگت کو نظر انداز کیا گیا۔

اور کسی بھی شہر کے انفراسٹرکچر کی تعمیر میں ترجیحات تو یہی آخر الذکر ہونی چاہییں ، مگر بدقسمتی سے ہمارے ملکوں میں ایسی باتوں کا کہا خیال رکھا جاتا ہے ۔

لیکن یہاں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اس المیے سے دنیا کے بہت بڑے بڑے شہر بھی گزرتے ہیں ،

آپ دنیا کے بڑے بڑے کئی سو سال پرانے شہروں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے ذرائع امد و رفت کی جدید تعمیرات نے ان کی پرانی شکل کو تبدیل کرتے ہوئے بے شمار عمارتوں اور ان میں مقیم جنریشنز کو دکھی تو کیا ہے ۔


اور پھر سوچنے کی یہ بھی بات ہے کہ اس بدلاؤ کو صرف حکومتی اقدامات کے حوالے سے ہی کیوں دیکھا جائے کیا ہم اس بدلاؤ کو 

ایک فرد سے لے کر اس کے خاندانی نظام تک اور پھر بدلتے ہوئے مجموعی سماجی ڈھانچے تک سے دیکھ  سمجھ اور اسباب تلاش نہیں کر سکتے ؟


میرا بچپن لاہور کے قدیم علاقے اچھرے کی تنگ و تاریک گلیوں سے لے کر ،

بھاٹی لوہاری کی بھول بھلئیوں جیسی گلیوں میں آتے جاتے گزرا ہے ۔


تین تین منزلہ گھر ہوتے تھے سیڑھیاں جن پر دن میں بھی چڑھتے ہوئے سٹیپس نظر نہیں آتے تھے بس اندھیرے میں اندازے سے ہی ان پر پاؤں رکھ کر چڑھا جاتا تھا ،

 چھوٹے چھوٹے کمرے ، جن کی کھڑکی کھول کر پڑوسی کو کسی بھی سالن یا سوغات کی کٹوری آرام سے تھما دی جاتی تھی محلے سے قربت کا یہ عالم ہوتا تھا جبکہ دوسری طرف پانچویں محلے بھی جانا ہوتا تو پیدل ہی جایا جاتا تھا ۔


گھر اگر بڑے بھی ہوتے تو وہ تین تین منزلہ احاطے ہوتے تھے جن میں بیسیوں خاندان ایک ساتھ رہ رہے ہوتے تھے ۔


لیکن پھر ان کے مکینوں کے بچوں کی شادیاں ہوتی ، پھر آگے ان کے بچے یوں خاندان بڑھتے چلے جاتے  جبکہ گھر وہی رہتے تھے ، بڑی کوشش سے چھت پر کسی ایک آدھ کمرے کا اضافہ کر لیا جاتا یا کسی بڑے بوڑھے کو 

کسی کونے کھانچے میں چارپائی ڈال دی جاتی اس کے علاوہ ان عمارتوں 

کو بڑھاوا دینے کا کوئی خاص انتظام نہیں تھا سوائے اس کے کہ ان کے مکیں رفتہ رفتہ انہیں بیچ باچ کر دوسرے علاقوں میں منتقل ہوتے رہتے ،

اور نئے آنے والے ان کو گرا کر ان کی جگہ نئی نویلی تعمیر کر لیتے اب بتائیے اسے کیسے روکا جا سکتا تھا اور ہے ؟

بچپن سے نکل کر لڑکپن  اور پھر روزگار سے متعلق دور میں داخل ہوا تو میرے والد مصور  و مجسمہ ساز ہونے کے ساتھ ،

Architectural Ornament 

 عمارتی آرائش و زیبائش سے منسلک تھے اور میں انہی کے ساتھ ان کی معاونت میں شامل ہو گیا ۔

طویل مدت  نئے گھروں کو قدیم طرزِ آرائش دینے کے بعد ،

قدیم عمارتوں کی ،

Restoration,

 تزئین نو سے وابستہ ہو گیا ۔


میرا یہ کام صرف روزگار نہیں رہا میرا عشق بھی تھا ،

شہروں کی مجموعی تعمیراتی بناوٹ سے لے کر انفرادی گھروں کے ڈیزائن کو دیکھنا اور ان کے بارے گفتگو کرنا میرا اور میرے والد کا معمول تھا ،

اورنامنٹ کی بہت سی باریکیوں پر کتابی مطالعے سے بہت پہلے میری اپنے والد سے گفتگو جاری رہتی تھی ،

Renaissance to

Baroque, Rococo & Art Deco style of Ornament,

میں موجود ،

Symmetrical Balance,

یعنی یکساں توازن کی نفی کرتا ہوا غیر یکساں توازن ہمیشہ سے میری دلچسپی کا محور رہا ،


مجھے وہ شہر اور علاقے کبھی پسند نہیں آتے تھے جن میں ترتیب کے نام پر یونیفارم پیٹرن پر یکساں ڈیزائن کے گھر اور فلیٹس ہوتے ،مجھے یوں لگتا ہے جیسے وہاں ہم گھروں کو شناخت کرنے کی اپنی حس ہی کھو بیٹھتے ہیں یا جیسے یاداشت سے محروم ہو جاتے ہیں ۔

مجھے ہمیشہ متنوع بناوٹ کے گھر لیکن اپنی مجموعی حالت میں ایک ترتیب اور توازن لیے ہوئے علاقے محلے اور شہر ہمیشہ پسند رہے ، خاص طور پر قدیم سے لے کر پچاس کی دہائی تک کے ماڈرن گھروں پر مشتمل جو اپنی اصل حالتوں میں دیکھے جا سکتے تھے ۔

مگر پھر دیکھا یہ گیا کہ رفتہ رفتہ وہی خاندانوں کی بڑھوتی میں ان گھروں نے آگے پاؤں پسارنے پھیلانے شروع کر دیے ،

ان دنوں میرے معمولات میں یہ بھی شامل ہے کہ میں لاہور میں جاری ناجائز تجاوزات کے خلاف جو ایکشن لیا جا رہا ہے اسے ضرور دیکھتا ہوں جس میں لوگوں نے بازاروں گلیوں محلوں میں بیس بیس فٹ تک آگے گھروں کو بڑھایا ہوا ہے ، اب اسے کیا کہا جائے گا ؟

ظاہر ہے کہ اس کا الزام بھی حکومتی اداروں کو ہی دیا جائے گا کہ وہ لوگوں سے رشوت لے کر انہیں اپنی ضرورت کے نام پر اپنے لالچ و حرص میں بڑھوتی کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں ،

مگر سوچنے کی بات ہے کہ بطور فرد یا خاندان کے ہم خود کہاں پر ہوتے ہیں ؟


کیا یہ کہیں بھی ہماری ذمہ داری کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا ؟

پھر اسی بدلاؤ میں تقریبا نصف صدی کے گزشتہ حالات کا بھی تسلسل ہے جس میں لاکھوں افغان پناہ گزین کیمپوں کی بجائے ان شہروں میں منتقل ہو رہے ہیں ، جو شہری تجاوزات سے قدیم عمارتوں کی تباہی ہی نہیں بلکہ 

نہ جانے ہمارے کتنے تہذیبی اور ثقافتی ورثے کو ملیہ میٹ کرنے کا سبب بن رہا ہے ،

کیا ان تمام معاملات کو دیکھا سمجھا نہیں جا سکتا ان کے اسباب اور سد باب پر بات نہیں کی جا سکتی ؟

اور ان کا کیسے سدباب کیا جا سکتا ہے ؟

موہنجو داڑو مٹی میں کیسے دفن ہو گیا شاید یہ اسباب ابھی پوری طرح سے نہیں جانے جا سکے ، مگر ایک ہنستا بستا شہر اپنی قدیم عمارتوں حویلیوں اور گھروں پر ہزاروں ٹن کنکریٹ اور دوسرا مٹیریل اپنی مرضی سے کیسے اوڑھ لیتا ہے یہ تو کم از کم دیکھا جا سکتا ہے سمجھا جا سکتا ہے ۔

شاہد حسین 

6 مارچ 25