Saturday, March 8, 2025

مکالمہ کیوں نہیں ؟


 جب ہم دنیا کہ ترقی یافتہ سماجوں میں خاص طور پر مغرب میں آرٹ کی ترقی کا مشاہدہ کرتے ہیں تو دیگر بہت سی وجوہات کے ساتھ ساتھ وہاں آرٹ پر ڈائیلاگ کا بھی عام ہونا ہے جس کی بنیاد،

 1350 میں اٹلی سے ابھرنے والی تحریک نشاۃ ثانیہ ،

Renaissance,

کو اس لیے قرار دیا جا سکتا ہے کہ ،

اس دور سے آرٹ نے

مذہب اور ریاست سے الگ فلسفے اور سماجیات کو بھی اپنا موضوع بنانا شروع کیا ۔

لیکن پھر اس ڈائیلاگ کا عروج کا سہرا سترویں سے اٹھارویں صدی کی آرٹ موومنٹس کے سر جاتا ہے ۔

لیکن ہمارے خطے خاص طور پر پاکستان میں آرٹ پر ڈائیلاگ کیوں نہیں ہو سکتا؟

 بالآخر 10 سال کی 

طویل تحقیق کے بعد ہم نے کچھ نتائج اکٹھے کئے 

جنہیں بس مختصر سی وضاحت اور سوال و جواب کی مدد سے بتاتے ہیں ۔


پہلی وجہ ، پاکستان کے مصوروں کی ایک بڑی اکثریت ،تقریباً 90 فیصد سے زائد ، تعلیم یافتہ نہیں ہے ، دوسرا وہ مصوری کی تعلیم حاصل کرنے میں بھی اکیڈمک سہولتوں کے مراحل سے نہیں گزر پاتی ، اور تیسری بڑی وجہ ان کی ایک بڑی اکثریت خود سے بھی آرٹ کی تاریخ اور فلسفے اور اس سے متعلقہ مطالعے تحقیق اور جستجو پر توجہ نہیں دیتی سوائے مہارت حاصل کرنے کے ۔


وہ 10 فیصد مصور جو اکیڈمک مراحل طے کر کے آتے ہیں ان میں سے بھی نصف خود اپنے کام پر ڈائیلاگ کی صلاحیت نہیں رکھتے ، خود اپنے خیال میں پراعتماد یا اوریجنل نہیں ہوتے اس لیے وہ ڈائیلاگ کو اوائڈ کرتے ہیں ،

جو چار پانچ فیصد بچتے ہیں ان میں سے بھی تین اپنے ڈائیلاگ کو عام نہیں کرنا چاہتے ۔

لہذا باقی 100 میں سے صرف کوئی ایک یا زیادہ سے زیادہ دو فیصد بچتے ہیں ۔ 


سوال: تو کیا ان میں سے پھر کوئی بھی اپنے یا کسی دوسرے فنکار کے کام پر ڈائیلاگ نہیں چاہتا یا پسند نہیں کرتا ؟


جواب ؛ یہاں بڑی عجیب مزے کی بات ہے کہ 95 فیصد آرٹسٹ یہ چاہتے ہیں کہ ان کے کام پر ڈائیلاگ ہو لیکن کوئی دوسرا کرے لیکن وہ خود کسی دوسرے کے کام پر بات نہیں کرنا چاہتے ۔


سوال ؛ اچھا اگر دوسرا ان کے کام پر ڈائیلاگ کرے تو پھر اسے پسند کرنے کا کیا کرائٹیریا ہوتا ہے ؟


اگر کوئی مشہور نامور نقاد ان کے کام کی تعریف کرے تو اس تعریف کو خوب چوم چاٹ کر سنبھال کر رکھتے ہیں ، اسے اپنی کوئی پینٹنگ تحفے میں دیتے ہیں لیکن

اگر وہ تنقید کر دے تو وہ آرٹ میں نقاد کے کردار کو سرے سے ہی رد کر دیتے ہیں ،

جبکہ اگر کوئی شوقیہ لکھنے والا ان کے کام کی چاہے تعریف کرے یا تنقید وہ اسے بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں اور جواب میں شکریہ تک نہیں کہتے ۔

اور اگر شوقیہ لکھنے والے میں سے کوئی بہت اچھی تعریف و تنقید کرنے والا ہو تو اس سے ہمیشہ چھپ کر رائے لیتے ہیں ۔

کیونکہ ہم کسی سے کچھ سیکھنے یا سمجھنے کے عمل کو 

اور اس کا برملا اقرار کرنے کو اپنے لیے باعث شرم سمجھتے ہیں ۔

کہ بس اس کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو ۔

بس ایسی ہی وجوہات سے پھر وہ مکالمے کے شوقین لکھنے والے بھی آہستہ آہستہ خاموش ہوتے چلے جاتے ہیں ۔

اور ڈائیلاگ ہو ہی نہیں پاتا جو پھر ان حالات میں بھی کوشش کرتے ہیں ان کے ڈائیلاگ کی ٹیکنیکل اہمیت سے زیادہ اسے ان کے اپنے مزاج اور فطری بناوٹ کے زمرے میں داخل سمجھا جاتا ہے۔


وجوہات تو اور بھی بہت سی ہیں لیکن یہ خاص خاص ہیں ۔


شاہد حسین 

8 مارچ 25

No comments: