Wednesday, March 26, 2025

169 Street


 169 Street  to 179 Street Jamaica,

نیویارک ، کوئنز کا یہ علاقہ ، منی ڈھاکہ کہا جائے تو اس میں کچھ مذائقہ نہ ہوگا ۔

یہاں بنگلہ دیشی لوگوں کی اس قدر کثیر تعداد آباد ہے کہ یہاں جاتے ہی آپ کو ہر طرف یہی لوگ اپنے مخصوص 

انداز سے بات کرتے ہوئے ، چلتے پھرتے خریداری کرتے ہوئے 

اور یہاں پر موجود بے شمار گروسری سٹورز اور ریسٹورنٹس میں خاص بنگلہ دیشی کھانوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ملیں گے , جن کے ہمراہ سویٹ ڈش میں آپ روشو گولے سے لے کر گلاب جامن ، چوم چوم اور بنگلہ دیش کی خاص ترکیب سے بنے ہوئے دہی کے ذائقے سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں ۔

 اب سے کچھ عرصہ پہلے جب ہم اس علاقے میں جاتے تو ان میں ہم پاکستانیوں کے لیے کچھ سرد مہری پائی جاتی تھی ،

جس کا مجھ جیسے لوگوں کو کچھ نہ کچھ احساس ضرور رہا  کہ ان کی وجوہات کیا رہی تھیں ،

مگر اب اچانک کچھ تبدیلی آرہی ہے 

جسے محسوس کیا جا سکتا ہے ۔

لیکن کیا اس تبدیلی کو دور رس اور بہتر نتائج میں تبدیل کیا جا سکتا ہے ؟

بدقسمتی سے اس حوالے سے پاکستان کی پالیسیز ہمیشہ کچھ غیر موثر رہی ہیں ، ضیاء الحق کے دور سے لے کر بعد تک ، اب احمد ندیم قاسمی کے گنڈاسے کا تو پتہ نہیں کیا کانسپٹ تھا، لیکن مارشل لا میں جس گنڈاسے ، مولا جٹ اور نوری نت سے ہم واقف ہوئے وہ اپنے علاقے سے لے کر بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے اپنے خطے میں،

 دشمنیاں کرنیں پالنی اور نبھانی ہی جانتے تھے۔


سوائے چند پڑوسیوں کے ہم نے زیادہ تر سے تو دشمنیاں نبھانی ہی سیکھیں ۔

ہم جان ہی نہ سکے کہ نئی دنیا گلے میں بانہیں ڈالے پرانے یاروں جیسی نہ سہی لیکن کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ باہمی مفادات کی بنیادوں پر دوستیاں کرنے کی طرف جانی چاہیے تھی ۔


اپنے اندرونی معاملات میں تو ہم آج بھی اپنی اسی روش پر چل رہے ہیں پتہ نہیں بیرونی تعلقات میں ہم اپنے اندر پگلتی برف کے اس موسم میں کچھ تبدیلیاں کریں گے یا نہیں ؟

بنگلہ دیش ہماری طرف پھر دوستی کا ہاتھ بڑھا رہا ہے ، جہاں اس بڑھے ہوئے ہاتھ کو سنجیدگی سے تھامنے کی ضرورت ہے وہیں ہاتھ چھڑانے والوں کو بھی محبت خلوص اور حقوق کی ادائیگی سے  توجہ دینے کی اہم ضرورت ہے ۔

شاہد حسین 

26 مارچ 25

No comments: