اس بار تو ہر طرف ایسے حالات ہیں کہ سوچا تھا کہ ان پر کچھ نہیں لکھوں گا ۔ ۔ ۔
لیکن آج کے سماعتی اور بصری شور میں جہاں نہ آپ اپنے کان بند کر سکتے ہیں نہ آنکھیں اور نہ ہی خود اپنے وجود میں بھر جانے والے
دکھ تکلیف کرب کہ احساس سے ابھرنے والی کسی چیخ کراہ یا آہ کو روک سکتے ہیں ۔
جس میں ایک طرف ہم گزشتہ سال سے جاری فلس طین میں نسل کش جنگ دیکھ رہے ہیں ، پاکستان میں دہشت گردی سیاسی عدم استحکام و معاشی مسائل اور پھر ہندوستان کی طرف سے مسلط کردہ جنگ سے ابھی نکلے بھی نہیں کہ دنیا کے طاقتور جنگجوؤں کی طرف سے ایران کی باری آگئی ۔ ۔ ۔
اب ہم یہ بھی دیکھ چکے ہیں کہ ہر طرح کے حالات میں یہ نیوز چینل، فیس بک اور یوٹیوب میڈیا کس قدر جھوٹ بولتا ہے ، لہذا جو اندر یقین ہے بس اسی پر چلنا پڑتا ہے کہ دنیا بھر میں مسلمان مرنے کے لیے اپنی یقینی باری کا انتظار کررہے ہیں اور اطمینان صرف اسی دورانیے کا ہے جب تک باری نہیں آتی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
انہیں حالات میں مرنے والی قوم کے تجزیہ نگار اپنی اپنی عقلوں کے گھوڑے دوڑا رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔
پاکستان جو کہ گزشتہ چند سالوں سے تو انتہائی کنفیوز صورتحال سے دوچار ہے ، جیسے کہ ایک طبقہ چاہتا ہے کہ بس پاکستان اس جنگ میں پوری طرح سے شامل کیوں نہیں ہوتا ؟
ایک شامل نہ ہونے کو ہی بہترین مصلحت سمجھ رہا ہے ، ویسےکیا پاکستان فوجی اور اقتصادی طور اتنا طاقتور ہے کہ آج جب کہ بے شمار دولت اور بڑی بڑی افواج رکھنے والے اسلامی ملک خاموش تماشائی بنے ہیں اس میں پاکستان جنگ کا مرکزی کردار اور میدان بن جائے تو انجام کیا ہوگا ؟
اور پاکستان کے جنگ میں شامل ہو جانے پر نتائج وہی ہوئے جو عرب، مصر ،لبنان ، عراق ، شام یمن لیبیا اور افغانستان کے ہوئے ان کے بعد جو جنگ میں شامل ہونے کی حمایت کر رہے ہیں وہ کیا کہیں گے ؟
اس پر ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا یہ سب باتیں بہت کنفیوز ہیں ۔ ۔
مگر حیرانی کی بات ہے کہ چند مختصر سی باتیں جو بڑے بڑے تجزیہ نگار نہیں سمجھ پا رہے نہ بیان کر اور پوچھ پا رہے ہیں کہ ،
مسلمان اس حال تک پہنچے کیسے ؟
اس کی سب سے بڑی وجہ تو مسلمانوں کا خود آپسی اختلاف ہے ،
جس کی ابتدا محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وفات سے فورا بعد شروع ہوئی ،
اور تقریباً ساٹھ سال بعد اس کی انتہا میدان کربلا تک پہنچی ۔ ۔ ۔
کیا اس مدت میں تمام مسلمان متفقہ طور پر یہ فیصلہ کر سکے کہ حق کہاں تھا سچ کہا تھا ؟
ظالم کون تھا مظلوم کون تھا ؟
کیا ظالم قابل ملامت و مزمت تھا یا ۔ ۔ ۔ ۔
یہ فیصلے نہ ہو سکے یوں اختلاف ختم ہی نہ ہو سکا ۔۔
مسلمانوں کی اکثریت میں سے طاقتور طبقہ اسلام کے بنیادی احکامات کی آڑ میں ذاتی مفادات اقتدار شان و شوکت اور آسائشوں کی بھینٹ چڑھاتا رہا ،
اور عوام کی فلاح و بہبود اور تربیت سے غافل رہا ۔
اور حکمران طبقے کی آپسی اور دوسروں پر مسلط کردہ جنگوں میں یہی مسلمان قتل ہوتا رہا اور قتل کرتا رہا۔ ۔
پھر گزشتہ تقریباً 500 سال سے یہی مسلمان سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی میں دیگر اقوام سے بہت پیچھے رہ گیا ، جو اس کے بارے یہ فیصلہ کر چکی تھیں کہ انہوں نے اب اس علمی اور شعوری طور پر کمزور مگر جنگی جنون میں مبتلا قوم کو چھوڑنا نہیں ہے ۔
سو وہ تقریباً سب متحد ہو کر گزشتہ پانچ سو سال سے یہی کر رہے ہیں ۔ ۔ ۔
اور ہم ان کے داؤ پیچ سمجھ ہی نہیں پا رہے ۔ ۔
آج دنیا کے بہت سے دولت مند ملکوں میں کئی مسلمان ممالک ہیں دنیا کے دولت مند ترین لوگوں میں کئی مسلمان ہیں مگر ۔ ۔ ۔
کیا یہ آپس میں متحد ہو سکے ؟
آپس میں متحد ہونے کے لیے کچھ بنیادی اختلافات پر باہم فیصلہ کر سکے ؟
اور ان اختلاف کی بنیادی وجہ حق اور انصاف کے درمیان فرق کو پہچان سکے ؟
نہیں یہ کام ہم آج بھی نہیں کر سکے اور نہ کر سکیں گے ۔ ۔
ہمارے ارد گرد سینکڑوں نہیں ہزاروں لوگ مارے جا رہے ہیں ،
اور انہی حالات میں سوشل میڈیا پر جنگ کے بعد دوسرا سب سے زیادہ زیر بحث ، اسی دوران ایک عمارت کے فلیٹ کے کسی تاریک کمرے میں اپنے وقت کی ایک مشہور اداکارہ انتہائی نفیس خاتون اور زندگی کی بے شمار مشکلات سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنے بچوں کی پرورش کرنے والی ماں تنہائی کی موت کا شکار ہو چکی کا موضوع ہے ۔
جہاں ایک طرف بین الاقوامی طاقت اور اقتدار کی وجہ سے جنگ اور ہزاروں لوگوں کی موت کا المیہ ہے وہیں یہ ہماری سماجی اقدار کی موت کا المیہ ہے ۔
اور اس پر جو بحث ہو رہی ہے اس میں بھی ہم حق اور انصاف تلاش نہیں کر پا رہے ۔
جن چند لوگوں نے اس خاتون سے ذاتی تعلق ہونے کی وجہ سے مرکزی طور پر اپنی تحاریر سے اس موضوع کو سوشل میڈیا کا حصہ بنایا ہے اب وہی بیچارے اس بات کا رونا رو رہے ہیں کہ ہر کوئی ان کی تحریر کو اپنے نام سے پھیلا رہا ہے اور ان کے نام کا حوالہ تک دینے پر تیار نہیں ۔
اسی طرح سب سے اہم تحریر کی حامل خاتون جنہوں نے اس المیے کی نشاندہی کی وہی لوگوں پر یہ تنقید بھی کر رہی ہیں کہ
وہ اس میں ان کے بچوں کے کردار کو نشانہ کیوں بنا رہا ہیں ؟
لیکن خود وہ اس سوال کا جواب نہیں دے رہی کہ جب انہوں نے یہ تحریر سوشل میڈیا کا حصہ بنائی تو انہوں نے اس کا سوال سماج سے کیوں کیا تھا ؟
یا اگر بچوں کو ذمہ دار نہ قرار دیا جائے تو کیا یہ خود خاتون ذمہ دار تھیں ؟
وہ یہ کیوں نہیں جانتی کہ خاندان سے باہری سماج ایسے معاملات میں کس قدر جانکاری رکھتا ہے یا کتنا ذمہ دار ہو سکتا ہے یا خود فیملی کے افراد ایسے معاملات کو کس قدر بہتر طور جانتے ہوئے حل کر سکتے ہیں یا وہ کتنے ذمہ دار ہوتے ہیں ؟
اسی طرح سے جب یہ معاملہ ہم سماج میں ڈسکس کرنے کو ہی ٹابو ممنوع سمجھتے ہیں تو پھر ہم سماج سے ان کے حل کی توقع کیسے کر سکتے ہیں ؟
بہرحال ادھوری معلومات سے جو کچھ معلوم ہو رہا ہے ، یہ خاتون سیلف میڈ تھیں ، جنہوں نے اپنے بچوں کو تعلیم دلوائی انہیں باہر منتقل ہونے میں مدد دی جب وہ سب اپنی اپنی زندگی میں مصروف ہو گئے تو پھر یہ تنہا رہ گئیں ،
اب ان کے تنہا رہنے میں ان کے بچوں کا کیا کردار ہے اور یہ خود اس میں کس قدر ذمہ دار ہیں یہ ہمیں نہیں معلوم ۔
مگر پھر بھی جو باتیں ہم کسی متوسط طبقے کے مسائل کے حوالے سے اپنی زندگی کے تجربات سے جانتے ہیں وہ یہی ہیں کہ
کسی بھی سیلف میڈ شخص کو ایک طرف ایک ایسے سماجی نظام سے لڑنا پڑتا ہے جس میں نوکری اور کاروبار دونوں کسی عذاب سے کم نہیں ہوتے ، نہ اوپر والے اپ سے خوش اور اور اپنے معاملات میں ذمہ دار ہوتے ہیں اور نہ ہی آپ سے نیچے والا طبقہ ایماندار ذمہ دار اور اپ کا معاون ہوتا ہے ،
بس اپ کو انہی دو کے درمیان رستہ کشی کرتے ہوئے نوکری کاروبار یا دن رات کام کرنا ہوتا ہے ، اپنے پیرنٹ سے لے کر بہن بھائیوں اور پھر بچوں تک کی ذمہ داریوں کو دیکھنا ہوتا ہے ۔
جو تقریبا سر یا پاؤنڈ ڈھانپنے کے درمیان فیصلہ کرنے جیسا مشکل ہوتا ہے ۔
اگر اپ اپنی فیملی کی ضرورتیں با احسن پوری کرتے ہیں تو آپ کے بیوی بچوں کو آپ سے یہ شکایت ہوتی ہے کہ اپ انہیں دیگر معاملات میں وقت نہیں دیتے اور اس سے پھر الگ سماجی المیے جنم لیتے ہیں ،
اگر آپ فیملی کو زیادہ وقت دیتے ہیں تو کاروبار کو وقت نہیں دے پاتے اس سے پھر الگ معاشی مسائل جس سے الگ المیے جنم لیتے ہیں ۔
اگر آپ بچوں کو ترقی کے سفر میں آگے بڑھانے کے لیے ان کی سخت تربیت کرتے ہیں تو زندگی ایک عذاب کا شکار ہو جاتی ہے ،اگر آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں تو الگ طرح کے عتاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،
بہت ہی ذہین لوگ اس کا حل توازن قرار دیتے ہیں مگر یہ توازن کس کو کہتے ہیں اور کس طرف اس کی ضرورت ہوتی ہے وہ یہ کبھی نہیں بتاتے ہیں ۔
پھر اسی میں بچے بڑے ہو جاتے ہیں اس کے بعد ان کے آپ سے شکوے شکایت شروع ہو جاتے ہیں ،
آپ ریٹائر زندگی یا کمزور زندگی میں داخل ہو جاتے ہیں بچے طاقتور ہو جاتے ہیں ،
اسی میں مزید آپ کو آپ کی بیوی اور بچوں کی ماں کہتی ہے کہ آپ کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سب بھی بچوں کے حوالے کر دیں ۔
آپ کچھ وقت لڑنے کے بعد کر دیتے ہیں ۔
پھر وہی ماں کمزور وقت میں کمزور ساتھی کی طرح آپ سے کہتی ہے آپ نے میری بات کیوں مانی ؟
کیا یہ چند مثالوں اور ایسی اور بہت سی پیچیدہ باتوں پر ہم کوئی ایسا سماجی ڈیبیٹ کا انتظام کر سکے ہیں ؟
کوئی سماجی تربیت اور مواخذہ کا انتظام آج ہمارے پاس موجود ہے ؟
نہیں بالکل نہیں یہ تمام معاملات ہر فیملی کے بہت ہی ہڈن ہوتے ہیں اور انہیں باہر ڈسکس کیا جانا انتہائی معیوب بلکہ شرمناک سمجھا جاتا ہے ۔
لیکن پھر کسی شخص کی تنہا کمرے میں موت ہڈن نہیں رہتی ،
اس کی بدبو پورے پوری عمارت محلے اور سماج میں پھیلتی ہے ۔
پھر اس کا شور جنگ کے شور پر حاوی ہو جاتا ہے تو پھر بتائیے ایسے معاملات کا کیا کیا جائے ؟
کیا ہم اس درجے پر اپنے درمیان حق اور سچائی تلاش اور انصاف پر مبنی حل تلاش اور فیصلے کر پاتے ہیں ؟
شاہد حسین
22 جون 25