Monday, June 30, 2025

موت آور جنگ


 اس بار تو ہر طرف ایسے حالات ہیں کہ سوچا تھا کہ ان پر کچھ نہیں لکھوں گا ۔ ۔ ۔ 

لیکن آج کے سماعتی اور بصری شور میں جہاں نہ آپ اپنے کان بند کر سکتے ہیں نہ آنکھیں اور نہ ہی خود اپنے وجود میں بھر جانے والے 

دکھ تکلیف کرب کہ احساس سے ابھرنے والی کسی چیخ کراہ یا آہ کو روک سکتے ہیں ۔


جس میں ایک طرف ہم گزشتہ سال سے جاری فلس طین میں نسل کش جنگ دیکھ رہے ہیں ، پاکستان میں دہشت گردی سیاسی عدم استحکام و معاشی مسائل اور پھر ہندوستان کی طرف سے مسلط کردہ جنگ سے ابھی نکلے بھی نہیں کہ دنیا کے طاقتور جنگجوؤں کی طرف سے ایران کی باری آگئی ۔ ۔ ۔ 


اب ہم یہ بھی دیکھ چکے ہیں کہ ہر طرح کے حالات میں یہ نیوز چینل، فیس بک اور یوٹیوب میڈیا کس قدر جھوٹ بولتا ہے ، لہذا جو اندر یقین ہے بس اسی پر چلنا پڑتا ہے کہ دنیا بھر میں مسلمان مرنے کے لیے اپنی یقینی باری کا انتظار کررہے ہیں اور اطمینان صرف اسی دورانیے کا ہے جب تک باری نہیں آتی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 


انہیں حالات میں مرنے والی قوم کے تجزیہ نگار اپنی اپنی عقلوں کے گھوڑے دوڑا رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔

پاکستان جو کہ گزشتہ چند سالوں سے تو انتہائی کنفیوز صورتحال سے دوچار ہے ، جیسے کہ ایک طبقہ چاہتا ہے کہ بس پاکستان اس جنگ میں پوری طرح سے شامل کیوں نہیں ہوتا ؟

ایک شامل نہ ہونے کو ہی بہترین مصلحت سمجھ رہا ہے ، ویسےکیا پاکستان فوجی اور اقتصادی طور اتنا طاقتور ہے کہ آج جب کہ بے شمار دولت اور بڑی بڑی افواج رکھنے والے اسلامی ملک خاموش تماشائی بنے ہیں اس میں پاکستان جنگ کا مرکزی کردار اور میدان بن جائے تو انجام کیا ہوگا ؟  


اور پاکستان کے جنگ میں شامل ہو جانے پر نتائج وہی ہوئے جو عرب، مصر ،لبنان ، عراق ، شام یمن لیبیا اور افغانستان کے ہوئے ان کے بعد جو جنگ میں شامل ہونے کی حمایت کر رہے ہیں وہ کیا کہیں گے ؟

 

اس پر ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا یہ سب باتیں بہت کنفیوز ہیں ۔ ۔ 


مگر حیرانی کی بات ہے کہ چند مختصر سی باتیں جو بڑے بڑے تجزیہ نگار نہیں سمجھ پا رہے نہ بیان کر اور پوچھ پا رہے ہیں کہ ،

مسلمان اس حال تک پہنچے کیسے ؟


اس کی سب سے بڑی وجہ تو مسلمانوں کا خود آپسی اختلاف ہے ،

جس کی ابتدا محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وفات سے فورا بعد شروع ہوئی ،

اور تقریباً ساٹھ سال بعد اس کی انتہا میدان کربلا تک پہنچی ۔ ۔ ۔ 

کیا اس مدت میں تمام مسلمان متفقہ طور پر یہ فیصلہ کر سکے کہ حق کہاں تھا سچ کہا تھا ؟

ظالم کون تھا مظلوم کون تھا ؟

کیا ظالم قابل ملامت و مزمت تھا یا ۔ ۔ ۔ ۔ 


یہ فیصلے نہ ہو سکے یوں اختلاف ختم ہی نہ ہو سکا ۔۔ 

مسلمانوں کی اکثریت میں سے طاقتور طبقہ اسلام کے بنیادی احکامات کی آڑ میں ذاتی مفادات اقتدار شان و شوکت اور آسائشوں کی بھینٹ چڑھاتا رہا ،

اور عوام کی فلاح و بہبود اور تربیت سے غافل رہا ۔

اور حکمران طبقے کی آپسی اور دوسروں پر مسلط کردہ جنگوں میں یہی مسلمان قتل ہوتا رہا اور قتل کرتا رہا۔ ۔ 


پھر گزشتہ تقریباً 500 سال سے یہی مسلمان سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی میں دیگر اقوام سے بہت پیچھے رہ گیا ، جو اس کے بارے یہ فیصلہ کر چکی تھیں کہ انہوں نے اب اس علمی اور شعوری طور پر کمزور مگر جنگی جنون میں مبتلا قوم کو چھوڑنا نہیں ہے ۔

سو وہ تقریباً سب متحد ہو کر گزشتہ پانچ سو سال سے یہی کر رہے ہیں ۔ ۔ ۔ 

اور ہم ان کے داؤ پیچ سمجھ ہی نہیں پا رہے ۔ ۔ 

آج دنیا کے بہت سے دولت مند ملکوں میں کئی مسلمان ممالک ہیں دنیا کے دولت مند ترین لوگوں میں کئی مسلمان ہیں مگر ۔ ۔ ۔ 

کیا یہ آپس میں متحد ہو سکے ؟

آپس میں متحد ہونے کے لیے کچھ بنیادی اختلافات پر باہم فیصلہ کر سکے ؟

اور ان اختلاف کی بنیادی وجہ حق اور انصاف کے درمیان فرق کو پہچان سکے ؟ 

نہیں یہ کام ہم آج بھی نہیں کر سکے اور نہ کر سکیں گے ۔ ۔ 


ہمارے ارد گرد سینکڑوں نہیں ہزاروں لوگ مارے جا رہے ہیں ،

اور انہی حالات میں سوشل میڈیا پر جنگ کے بعد دوسرا سب سے زیادہ زیر بحث ، اسی دوران ایک عمارت کے فلیٹ کے کسی تاریک کمرے میں اپنے وقت کی ایک مشہور اداکارہ انتہائی نفیس خاتون اور زندگی کی بے شمار مشکلات سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنے بچوں کی پرورش کرنے والی ماں تنہائی کی موت کا شکار ہو چکی کا موضوع ہے ۔


  جہاں ایک طرف بین الاقوامی طاقت اور اقتدار کی وجہ سے جنگ اور ہزاروں لوگوں کی موت کا المیہ ہے وہیں یہ ہماری سماجی اقدار کی موت کا المیہ ہے ۔


اور اس پر جو بحث ہو رہی ہے اس میں بھی ہم حق اور انصاف تلاش نہیں کر پا رہے ۔


جن چند لوگوں نے اس خاتون سے ذاتی تعلق ہونے کی وجہ سے مرکزی طور پر اپنی تحاریر سے اس موضوع کو سوشل میڈیا کا حصہ بنایا ہے اب وہی بیچارے اس بات کا رونا رو رہے ہیں کہ ہر کوئی ان کی تحریر کو اپنے نام سے پھیلا رہا ہے اور ان کے نام کا حوالہ تک دینے پر تیار نہیں ۔


اسی طرح سب سے اہم تحریر کی حامل خاتون جنہوں نے اس المیے کی نشاندہی کی وہی لوگوں پر یہ تنقید بھی کر رہی ہیں کہ 

وہ اس میں ان کے بچوں کے کردار کو نشانہ کیوں بنا رہا ہیں ؟

لیکن خود وہ اس سوال کا جواب نہیں دے رہی کہ جب انہوں نے یہ تحریر سوشل میڈیا کا حصہ بنائی تو انہوں نے اس کا سوال سماج سے کیوں کیا تھا ؟

یا اگر بچوں کو ذمہ دار نہ قرار دیا جائے تو کیا یہ خود خاتون ذمہ دار تھیں ؟


وہ یہ کیوں نہیں جانتی کہ خاندان سے باہری سماج ایسے معاملات میں کس قدر جانکاری رکھتا ہے یا کتنا ذمہ دار ہو سکتا ہے یا خود فیملی کے افراد ایسے معاملات کو کس قدر بہتر طور جانتے ہوئے حل کر سکتے ہیں یا وہ کتنے ذمہ دار ہوتے ہیں ؟

اسی طرح سے جب یہ معاملہ ہم سماج میں ڈسکس کرنے کو ہی ٹابو ممنوع سمجھتے ہیں تو پھر ہم سماج سے ان کے حل کی توقع کیسے کر سکتے ہیں ؟

بہرحال ادھوری معلومات سے جو کچھ معلوم ہو رہا ہے ، یہ خاتون سیلف میڈ تھیں ، جنہوں نے اپنے بچوں کو تعلیم دلوائی انہیں باہر منتقل ہونے میں مدد دی جب وہ سب اپنی اپنی زندگی میں مصروف ہو گئے تو پھر یہ تنہا رہ گئیں ،

اب ان کے تنہا رہنے میں ان کے بچوں کا کیا کردار ہے اور یہ خود اس میں کس قدر ذمہ دار ہیں یہ ہمیں نہیں معلوم ۔


مگر پھر بھی جو باتیں ہم کسی متوسط طبقے کے مسائل کے حوالے سے اپنی زندگی کے تجربات سے جانتے ہیں وہ یہی ہیں کہ 

کسی بھی سیلف میڈ شخص کو ایک طرف ایک ایسے سماجی نظام سے لڑنا پڑتا ہے جس میں نوکری اور کاروبار دونوں کسی عذاب سے کم نہیں ہوتے ، نہ اوپر والے اپ سے خوش اور اور اپنے معاملات میں ذمہ دار ہوتے ہیں اور نہ ہی آپ سے نیچے والا طبقہ ایماندار ذمہ دار اور اپ کا معاون ہوتا ہے ،

بس اپ کو انہی دو کے درمیان رستہ کشی کرتے ہوئے نوکری کاروبار یا دن رات کام کرنا ہوتا ہے ، اپنے پیرنٹ سے لے کر بہن بھائیوں اور پھر بچوں تک کی ذمہ داریوں کو دیکھنا ہوتا ہے ۔

جو تقریبا سر یا پاؤنڈ ڈھانپنے کے درمیان فیصلہ کرنے جیسا مشکل ہوتا ہے ۔

اگر اپ اپنی فیملی کی ضرورتیں با احسن پوری کرتے ہیں تو آپ کے بیوی بچوں کو آپ سے یہ شکایت ہوتی ہے کہ اپ انہیں دیگر معاملات میں وقت نہیں دیتے اور اس سے پھر الگ سماجی المیے جنم لیتے ہیں ،

اگر آپ فیملی کو زیادہ وقت دیتے ہیں تو کاروبار کو وقت نہیں دے پاتے اس سے پھر الگ معاشی مسائل جس سے الگ المیے جنم لیتے ہیں ۔


اگر آپ بچوں کو ترقی کے سفر میں آگے بڑھانے کے لیے ان کی سخت تربیت کرتے ہیں تو زندگی ایک عذاب کا شکار ہو جاتی ہے ،اگر آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں تو الگ طرح کے عتاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،

بہت ہی ذہین لوگ اس کا حل توازن قرار دیتے ہیں مگر یہ توازن کس کو کہتے ہیں اور کس طرف اس کی ضرورت ہوتی ہے وہ یہ کبھی نہیں بتاتے ہیں ۔

پھر اسی میں بچے بڑے ہو جاتے ہیں اس کے بعد ان کے آپ سے شکوے شکایت شروع ہو جاتے ہیں ،

آپ ریٹائر زندگی یا کمزور زندگی میں داخل ہو جاتے ہیں بچے طاقتور ہو جاتے ہیں ،

اسی میں مزید آپ کو آپ کی بیوی اور بچوں کی ماں کہتی ہے کہ آپ کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سب بھی بچوں کے حوالے کر دیں ۔

آپ کچھ وقت لڑنے کے بعد کر دیتے ہیں ۔

پھر وہی ماں کمزور وقت میں کمزور ساتھی کی طرح آپ سے کہتی ہے آپ نے میری بات کیوں مانی ؟

کیا یہ چند مثالوں اور ایسی اور بہت سی پیچیدہ باتوں پر ہم کوئی ایسا سماجی ڈیبیٹ کا انتظام کر سکے ہیں ؟

کوئی سماجی تربیت اور مواخذہ کا انتظام آج ہمارے پاس موجود ہے ؟

نہیں بالکل نہیں یہ تمام معاملات ہر فیملی کے بہت ہی ہڈن ہوتے ہیں اور انہیں باہر ڈسکس کیا جانا انتہائی معیوب بلکہ شرمناک سمجھا جاتا ہے ۔

لیکن پھر کسی شخص کی تنہا کمرے میں موت ہڈن نہیں رہتی ،

اس کی بدبو پورے پوری عمارت محلے اور سماج میں پھیلتی ہے ۔


پھر اس کا شور جنگ کے شور پر حاوی ہو جاتا ہے تو پھر بتائیے ایسے معاملات کا کیا کیا جائے ؟

کیا ہم اس درجے پر اپنے درمیان حق اور سچائی تلاش اور انصاف پر مبنی حل تلاش اور فیصلے کر پاتے ہیں ؟


شاہد حسین 

22 جون 25

Sunday, June 29, 2025

Art Gallery


 بس اب بہت مختصر سے دوستوں پر مشتمل ایک چھوٹی سی محفل بچی ہے جہاں ارد گرد کی بے شمار سیاسی ہنگامہ آرائیوں اور دماغ کو عذاب میں مبتلا کر دینے والے سماجی حادثات سے بچا کر کچھ نہ کچھ آرٹ پر روزانہ بیسئو سوالات کے الجھاوے موجود ہوتے ہیں اور ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی چاہے وہ ہزار بار کے دہرائے ہوں ،کہ ہم جیسے چند آرٹ پر گفتگو کے دیوانوں کو مجنوں اور فرہاد کی طرح ایک ہی ریگستان کی خاک چھاننا اور مقصد کے ایک ہی پہاڑ کو کاٹنا تسلی و اطمینان دیتا ہے ۔


کئی بار وہاں ہونے والی سوال و جواب پر مشتمل گفتگو کو میں کوشش کر کے کمپائل اور آپ سے شیئر بھی کر لیتا ہوں لیکن جب مشکل ہو تو پھر جو میں کسی جوابی تحریر یا مضمون کی صورت لکھتا ہوں اسے آپ سے شیئر کر دیتا ہوں کہ اس ،

Art State,

 محفل کے بنیادی مقصد کا کچھ نہ کچھ تسلسل تو قائم رہے ۔

وہاں ہمارا آج کا موضوع تھا،


آرٹ گیلری کا آرٹ کی ترقی میں کیا کردار ہے ، کیا ہونا چاہیے ؟

اور کیا کسی آرٹ گیلری کو معیاری کام ہی بیچنا چاہیے ؟

اسے صرف تخلیقی کام کو پروموٹ کرنا چاہیے ؟

یہ اور ایسے ہی اور کئی سوالات ۔ ۔ جو دراصل دیگر بہت سے سوالات اور

اسی طرح ان کے جوابات بھی انہی سوالوں کے جوابات سے جڑے ہوتے ہیں ۔


اگر آپ غور کریں تو آرٹ لور ہونے کے حوالے سے دنیا کے مختلف سماج اپنے عقلی علمی اور جمالیاتی ذوق کے مختلف معیار رکھتے ہیں ۔

پھر ہر سماج کے افراد نہ صرف اپنے اپنے مزاجی چناؤ کے مختلف معیار بلکہ قوت خرید کے بھی مختلف درجات رکھتے ہیں ۔

ان کا یہی ذوق جب شوق کی انتہا میں بدلتا ہے تو پھر جو فنکار پیدا ہوتے ہیں وہ بھی اپنے ہر طرح کے موضوعاتی چناؤ سے لے کر علم عقل اور مہارت کے مختلف معیار رکھتے ہیں اور یہ دونوں طبقات خود کو زیادہ تر جس خانے اور درجے پر بھی ہوں درست بلکہ اعلی معیار پر فائز ہی سمجھتے ہیں ،

مزے کی بات ہے کہ ان کے کسی بھی درجے کو چیلنج کرنا بھی ہمیشہ سے ایک مسئلہ رہا ہے ۔


اور پھر ان دونوں کی ضرورت پوری کرتی ہیں آرٹ گیلریز ۔


تو اوپر آرٹ پروڈیوس کرنے والے آرٹسٹ اور خریدنے والے آرٹ لورز کی جتنی ویرییشن کا ہم نے ذکر کیا ہے وہی ویرییشن ان آرٹ گیلریز کا بھی حصہ بنتی ہے اور وہی جو مسائل اختلاف یا رد کرنے کے کسی آرٹسٹ یا آرٹ لور کو پیش آ سکتے ہیں وہی ان گیلریز کے حصے میں بھی آتے ہیں۔

جیسے کہ ہم یہ کرائٹیریا کیسے بنا سکتے ہیں کہ جو کام وہ بیچ رہی ہیں وہ معیاری نہیں ہے ؟

کیونکہ جو آرٹسٹ کام کر کے لا رہا ہے وہ اپنی طرف سے بہترین کام لا رہا ہے یا پھر وہ اگر جانتا بھی ہے تو خریدار کی ضرورت پوری کر رہا ہے ،اور کوئی بھی خریدار اس دعوے و مقصد کے ساتھ کام نہیں خریدتا کہ وہ آج انتہائی برا کام خرید رہا ہے ۔


لہذا دنیا بھر میں کہیں بھی آرٹ گیلریز کے لیے کوئی ایسا پیمانہ طے نہیں کیا جا سکتا سوائے اس کے کہ ہر گیلری اپنے مزاج اور معیار کی ایک بائر لسٹ رکھتی ہے اور ہر آرٹ کا خریدار اپنی اپنی پسند کی گیلری لسٹ رکھتا ہے ۔


بس فرق یہاں آتا ہے کہ کچھ آرٹ گیلریز 

آرٹ کی فروخت کے طریقہ کار میں کرافٹ یا دیگر ضروریات کی اشیاء فروخت کرنے والی دکان سے کچھ زیادہ فرق نہیں رکھتیں جبکہ کچھ اس کے ساتھ ساتھ ایسی ذمہ داریاں بھی سرانجام دیتے ہیں جو سچ میں انہیں ایک معیاری آرٹ گیلری کے زمرے میں لاتی ہیں ۔

لیکن ظاہر ہے کہ ایسی ذمہ داریاں متوسط علاقوں میں سستا کام بیچنے والی آرٹ گیلریز نہیں سر انجام دے سکتیں لیکن مجموعی طور پر تمام آرٹ گیلریز کسی بھی سماج کے جمالیاتی ذوق کو بڑھاوا دینے میں معاون و مددگار تو ہوتی ہیں ۔

چاہے وہ کرافٹ جیسا آرٹ ہی کیوں نہ بیچتی ہوں وہ کسی بھی سماج میں موجود افراد کے ایسے ذہن کو ضرور تعمیر کرتی ہیں جو آگے بڑھ کر پھر کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں معیاری آرٹ پروڈیوس کرنے یا پھر خریدنے کی فہرست میں بھی شامل ہوتے ہیں ۔


لیکن اگر کوئی سماج چاہتا ہے کہ اس میں تیز رفتار ترقی ہو تو پھر اس کے لیے تو سب سے پہلے آرٹ سکھانے کے ادارے ہی کام کرتے ہیں ،

تو ان کی اہمیت تو شاید سب سے بڑھ کر ہوتی ہے پھر ان کے بعد اگر ذکر کیا جائے تو ،

لائبریریز اور آرٹ میوزیمز کی ضرورت ہوتی ہے ،

جو آرٹ کی نالج دینے کے ساتھ ساتھ 

ہر مزاج اور ہر دور کے آرٹ کا ایک ایسا سٹینڈرڈ ضرور فراہم کرتے ہیں جو کسی بھی کمرشل آرٹ گیلری سے بہت بہتر بلکہ بلند تر ہوتا ہے ۔  

اب یہ الگ بات کہ جہاں آرٹ کو ضروری خیال نہیں کیا جاتا وہاں آرٹ اسکول لائبریریز اور میوزیم چاہے کم ہوں مگر آرٹ گیلریز پھر بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہوتے ہوئے فنکار کی ضروریات اور سماجی جمالیاتی ذوق کی تسکین کا سامان کر رہی ہوتی ہیں ۔


شاہد حسین 

29 جون 25

Friday, June 20, 2025

Family Wagon


 کوئی سماج ہو یا اس کی بنیادی اکائی خاندان وہ ایسی بگھی کی طرح ہوتا ہے ، جسے بہت سے افراد گھوڑوں کی طرح مل کر ہی کھینچیں تو وہ تیز رفتار ترقی کی دوڑ دوڑ سکتا ہے ۔


مگر اس میں کئی بار گھوڑے جانور ہونے کے باوجود آپس میں ایک تال میل اور ہم آہنگی بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ، مگر انسان نہیں ۔


ان کے درمیان حق طلبی اور حق تلفی کے حوالے سے کسی کی اچھی اور کسی کی عام کارکردگی کے حوالے سے بہت سے معاملات اختلاف اور تصادم پیدا کرنے لگ جاتے ہیں ، جن کی وجہ سے اجتماعی ترقی کی رفتار میں تیز دوڑ تو کیا ایوریج کے قریب بھی نہیں پہنچ پاتے ۔


ایک اچھا بگھی بان

دراصل جانتا ہے کہ بہت سے گھوڑے مل کر دوڑیں تو کمزور گھوڑا بھی طاقتور گھوڑوں کو کم از کم اطمینان دینے کا کام ضرور آتا ہے لہذا وہ اسے مینج کر لیتا ہے 

لیکن پرابلم تب آتا ہے جب وہی کمزور گھوڑا سب سے زیادہ حق تلفی کی کمپلین کرتا ہے یا طاقتور گھوڑوں کی کارکردگی پر سوال اٹھاتا ہے تو پھر ضروری ہو جاتا ہے کہ ان گھوڑوں کو الگ الگ دوڑنے کا موقع دیا جائے 

لیکن پھر یہاں بھی ایک پرابلم آتا ہے کہ اگر وہ گھوڑے نہیں انسان ہوں تو انہیں کہیں نہ کہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ طاقتور یا قابلیت رکھنے والے گھوڑوں کے سامنے کمزور ہیں تو پھر وہی الگ الگ دوڑنے میں سب سے زیادہ انکار کرنے والے بھی ہوتے ہیں 


الگ الگ دوڑ کی شرط میں ہزار حیلوں بہانوں کے روڑے اٹکانے والے بھی ہوتے ہیں ۔


شاہد حسین 

20 جون 25

Wednesday, June 4, 2025

زرتشت نے کہا


 ابتدائی اسکولنگ کے فوراً بعد ذمہ داریوں اور مصوری کے عشق و جنوں سے لیکر مزدوری نے زندگی کو ایسے شکنجے میں جکڑا کہ مطالعے کا بے حد شوق اس پنجرے سے فرار کے لیے صرف فکشن تک یا پھر اپنے کام سے متعلق ٹیکنیکل نالج حاصل کرنے تک محدود ہو گیا ، جبکہ اندرونی و بیرونی آگہی سے متعلق سنجیدہ موضوعات کی کئی کتابیں بس پڑھنے کی خواہش کی رو میں سجی رہ گئیں ۔ ۔ 

اور پھر مدتوں بعد وہ دل جن فرصت کے لمحات کو ڈھونڈتا تھا جب وہ ملے تو ان کتابوں کی بھی گرد جھاڑی ، اور پھر یقین جانیے جو ان کتابوں کے مطالعے نے دماغ کی دھول جھاڑی وہ بھی ایک الگ ہی ایکسپیرینس رھا ۔

ایک سچ ضرور کہوں گا کہ ایسا نہیں تھا کہ میرے لیے وہ سب بالکل نیا یا حیران کن تھا ، زندگی اور آرٹ کے ذریعے جو کچھ سیکھا سوچا اور نظریات بنائے تھے ،ان بڑے بڑے فلسفیوں کو جب پڑھا تو جیسے انہوں نے میری سوچ کو سند بخش دی تھی ، ویسے تو لائبریری کے شوق کے ساتھ عالم فاضل دوستوں کی محفل نے بھی کتابی مطالعے سے بڑھ کر سیکھنے کا موقع دیا ، جیسے کہ اکثر لڑکپن میں ہی جب دوستوں سے بات ہوتی تھی تو وہ مجھ سے پوچھتے کہ کیا تم نے فلاں فلسفی کو پڑھا ہوا ہے ؟

جب میں انکار کرتا تو وہ کہتے کہ تم تو بالکل وہی بات کہہ رہے ہو جو فلاں فلاسفر نے کہی ہے ۔


تو اسی مماثلت میں جب میں نے نطشے کو پڑھا،خاص طور پر یہ کتاب ،

Thus Spoke Zarathustra,

تو مجھے بہت بار یوں لگا جیسے میں اور نطشے آپس میں استاد شاگرد کی طرح براہ راست ایک دوسرے سے مکالمہ کر رہے ہیں ۔


گو کہ اب بیس پچیس سال میں ایسے پیچیدہ موضوعات کا فہم سے مطالعہ اور زیادہ آسان ہو گیا ہے مگر پھر بھی بہت سی باتیں بہت سے ذہنوں کو بھٹکا دیتی ہیں ۔

جیسے کہ جب نطشے خدا سے انکار کرتا ہے تو اس کے سیاق و سباق کو سمجھنا اسان نہیں ہے ،

مجھے یوں لگا کہ جیسے وہ مجھے اپنی مرضی کا خدا بنانے اور اسے ماننے سے انکار سکھا رہا ہے جو صرف میری خطائیں معاف کرے گا دوسروں کی نہیں ۔ ۔ 

 اسی طرح سے جب وہ انسان کے افضل ترین ہونے کی بات کرتا ہے تو اشرف المخلوقات کن معنوں میں کہتا ہے ؟

یو کہ عالم اور غیر عالم برابر نہیں ہو سکتے ،

اسی طرح سماجی زندگی میں پروڈکٹو پرو ایکٹو اور ری ایکٹو برابر نہیں ہو سکتے ۔

زیادہ قابلیت رکھنے والا زیادہ محنتی اور زیادہ کارکردگی دکھانے والا کچھ نہ کرنے والے کے برابر نہیں ہو سکتا ۔


اسی طرح سے سماجی انصاف میں رحم ہمدردی کے کیا معنی ہیں اور اسے کس طرح سے امپلیمنٹ ہونا چاہیے اسی طرح سے سماجی تعمیر میں فرد اور اجتماعیت کا کیا کردار ہے ،

یہ سب میں نطشے کا مطالعہ کرنے سے پہلے بھی اسی کے انداز میں سوچتا تھا ، لیکن پھر ان بڑے لوگوں کا مطالعہ آپ کی سوچ اور عمل کو جو پختگی عطا کرتا ہے جو یقین دیتا ہے وہ آپ کے پاس پہلے نہیں ہوتا ۔

میں خاص طور پر نوجوانوں کو یہ کتاب پڑھنے کے لیے ضرور کہوں گا،

اور اس کے ساتھ ایک یوٹیوب لنک بھی ان سے شیئر کر رہا ہوں جہاں اس کتاب کو بہت آسان طریقے پر ڈیفائن کیا گیا ہے ۔


شاہد حسین 

4 جون 25