کوئی سماج ہو یا اس کی بنیادی اکائی خاندان وہ ایسی بگھی کی طرح ہوتا ہے ، جسے بہت سے افراد گھوڑوں کی طرح مل کر ہی کھینچیں تو وہ تیز رفتار ترقی کی دوڑ دوڑ سکتا ہے ۔
مگر اس میں کئی بار گھوڑے جانور ہونے کے باوجود آپس میں ایک تال میل اور ہم آہنگی بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ، مگر انسان نہیں ۔
ان کے درمیان حق طلبی اور حق تلفی کے حوالے سے کسی کی اچھی اور کسی کی عام کارکردگی کے حوالے سے بہت سے معاملات اختلاف اور تصادم پیدا کرنے لگ جاتے ہیں ، جن کی وجہ سے اجتماعی ترقی کی رفتار میں تیز دوڑ تو کیا ایوریج کے قریب بھی نہیں پہنچ پاتے ۔
ایک اچھا بگھی بان
دراصل جانتا ہے کہ بہت سے گھوڑے مل کر دوڑیں تو کمزور گھوڑا بھی طاقتور گھوڑوں کو کم از کم اطمینان دینے کا کام ضرور آتا ہے لہذا وہ اسے مینج کر لیتا ہے
لیکن پرابلم تب آتا ہے جب وہی کمزور گھوڑا سب سے زیادہ حق تلفی کی کمپلین کرتا ہے یا طاقتور گھوڑوں کی کارکردگی پر سوال اٹھاتا ہے تو پھر ضروری ہو جاتا ہے کہ ان گھوڑوں کو الگ الگ دوڑنے کا موقع دیا جائے
لیکن پھر یہاں بھی ایک پرابلم آتا ہے کہ اگر وہ گھوڑے نہیں انسان ہوں تو انہیں کہیں نہ کہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ طاقتور یا قابلیت رکھنے والے گھوڑوں کے سامنے کمزور ہیں تو پھر وہی الگ الگ دوڑنے میں سب سے زیادہ انکار کرنے والے بھی ہوتے ہیں
الگ الگ دوڑ کی شرط میں ہزار حیلوں بہانوں کے روڑے اٹکانے والے بھی ہوتے ہیں ۔
شاہد حسین
20 جون 25


No comments:
Post a Comment