Friday, September 12, 2025

فن آور طاقت


 Shahid Hussain:

12 Sep 25.


 دوست اب یقیناً جانتے ہیں کہ ہمارا مقصد ہی بشمول پاکستان کے تمام مشہور لیجنڈ ، عہد حاضر کے مصوروں  اور ان فنکاروں پر بھی بات کرنا، جو کہیں گزرتے وقت کی دھول میں گمنام ہوتے گئے یا انہیں ان کے وقت میں بھی  فنی قد و قامت کے اعتبار سے  جانا نہیں گیا ،

لیکن اکثر دیکھا گیا کہ جب ہم کسی بھی غیر معروف شہرت سے محروم رہ جانے والے فنکار پر بات کرتے ہیں تو کچھ دوست یہ بھی رائے دیتے ہیں کہ دیکھیے اگر اس فنکار میں دم خم ہوتا تو وہ یقیناً خود کو منوا لیتا ۔


کیا یہ رائے ٹھیک ہے ؟

کیا کسی باشعور سماج کا کسی فنکار کی کامیابی کو جانچنے کا یہ طریقہ کار درست ہے ؟


یہ تو طاقت اور فن  کو ناپنے کا ایک طرح سے پسماندہ سماجوں کا گوریلا رویہ ہے ۔


انسانی ارتقاء کی کہانی دراصل طاقت سے شعور تک کا سفر ہے۔

 ابتدائی حیوانی دنیا میں، خصوصاً گوریلوں جیسے جانداروں میں، کسی کی اہمیت کا معیار صرف ایک تھا، "طاقت" یعنی جو لڑائی کے میدان میں غالب آ جائے، وہی لیڈر، وہی قابلِ قبول۔

 اس ماحول میں فن، احساس یا فہم کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔


انسان جب شعور اور تہذیب کی طرف بڑھا تو اس کے پیمانے بدلنے لگے۔ فن، علم، فکر اور اخلاقیات کو بھی مقام ملا، یوں شاعر کو اس کے لفظوں سے، مصور کو اس کے رنگوں سے اور ادیب کو اس کی فکر سے پہچانا جانے لگا۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ دنیا کے کئی پسماندہ سماج آج بھی اسی گوریلا رویے کے اسیر ہیں۔


ایسے معاشروں میں کسی فنکار یا دانشور کی اصل شناخت کو اس وقت تک تسلیم نہیں کیا جاتا جب تک وہ زندگی کے کسی مادی میدان میں "فتح" حاصل نہ کرے۔ گویا شاعر کی عظمت اس کی شاعری میں نہیں بلکہ اس کی ایسی عملی کامیابی میں ہے، جہاں اس کی مشاعروں میں کامیابی یا شعری مجموعوں کی عوامی پذیرائی ہے ۔

 مصور کی قدر اس کے فن پارے میں نہیں بلکہ اس کی پینٹنگ کی قیمت ، شہرت یا کوئی مقابلہ جیتنے میں ہے۔

اس طرح سے تو علم اور تخلیق وہاں ثانوی ہو جاتے ہیں، اور کامیابی کی پرانی تعریف، یعنی کسی میدان میں دوسروں کو شکست دینا  ہی سب کچھ ٹھہرتی ہے۔


یہ رویہ اس بات کی علامت ہے کہ ایسے معاشرے ابھی تک ذہنی ارتقاء کے اس مرحلے سے آگے نہیں بڑھ پائے جہاں فن اور فکر کو اپنی اصل بنیاد پر سراہا جاتا ہے۔

جبکہ ترقی یافتہ سماج اس فرق کو سمجھتے ہیں کہ فنکار کا اصل مقام اس کی تخلیق ہے، نہ کہ اس کی دنیاوی جیت۔ 

وہ اپنے اندر فہم و فراست کی ایسی انکھ رکھتے ہیں جس میں وہ شہرت وہ کامیابی کو ثانوی حیثیت دیتے ہیں اور کسی فنکار کے فن کی اصل اساس کو پہچانتے ہیں ۔


جب تک پسماندہ معاشرے اس حقیقت کو قبول نہیں کرتے، وہ "انسانی شعور" کے بجائے "گوریلا شعور" میں ہی قید رہیں گے۔


شاہد حسین 

12 ستمبر 25

Tuesday, September 9, 2025

Omens of Doom


 Do floods threaten food security in Pakistan - BBC URDU

BBC News اردو

Sep 6

2025

flood

foodsecurity

punjab۔

پاکستان میں پچھلے دو ماہ سے جاری بارشوں، کلاؤڈ برسٹس اور سیلابی ریلوں کا سلسلہ گاؤں، گھر، کھیت، مویشی بہت کچھ بہا کر لے جا چکا ہے۔ اِس سال اب تک پنجاب اور خیبر پختون خوا سب سے زیادہ متاثر ہونے والے صوبے ہیں اور سندھ میں ایک سوپر فلڈ، یعنی بہت بڑے سیلاب کے بارے میں خبردار کیا جا رہا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اِس طرح کے وسیع اور تباہ کن سیلاب جو کہ اب ایک معمول کی بات بنتے جا رہے ہیں کیا ان سے پاکستان میں فوڈ سکیورٹی کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے ؟

کیا پاکستان نے کوئی لانگ ٹرم فلڈ ریزیلیئنس سٹریٹجی یا سیلاب کے نقصان سے بچنے کی کوئی سٹریٹیجی بنائی ہے؟

 اس ہفتے کے سیربین میں ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی ہے۔

میزبان: عالیہ نازکی

پروڈیوسر: عارف شمیم

ویژول پروڈیوسر: سید علی کاظمی

رپورٹر: ترہب اصغر

کیمرہ پرسن: وقاص انور۔


یہ بی بی سی اردو نیوز سیربین کی پاکستان کے تباہ کن سیلاب کے بارے ایک رپورٹ ہے ۔

جبکہ گزشتہ مدت سے اب پاکستان میں ایسی آفتیں معمول بنتی جا رہی ہیں ۔

یہ تو سچ ہے 

ماحولیاتی بدلاؤ کی وجہ سے یہ دنیا تباہ ہونے والی ہے ۔


اب یہ اعلان یا صدا کسی مذہبی شخصیت کی طرف سے نہیں ہے جسے انسان کو اپنی اخلاقیات درست کرنے کے لیے خدا کی طرف سے نصیحت کے احکامات و ڈرانے کے لئے قیامت کی خبر دینے والا یا اسے انسانی تصوراتی خدشات سمجھ کر نظر انداز کر دیا جائے ،

بلکہ اب یہ اعداد و شمار پر مبنی سائنس کہہ رہی ہے ، جس سے ایسے شواہد مل رہے ہیں کہ اب بڑے بڑے انکاری بھی انکار نہیں کر سکتے ۔


لیکن اب ہمارے سوچنے والوں کی سامنے بہت سے سوالات ہیں ۔


جن تباہیوں کی ابتدا ہو چکی ہے کیا ان کا ریشو دنیا بھر میں یکساں ہے ؟


یہ تباہیاں وہاں زیادہ نقصان کر رہی ہیں جنہوں نے جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کو اپنایا ، یا وہاں جہاں ایسا نہیں کیا گیا ؟


کیا انسان کا نیچر سے جڑنے کا سادہ طرز زندگی بہتر تھا 

اور جو قومیں اس پر عمل پیرا تھیں کیا وہ سروائیو کر سکیں اور آگے سروائیو کر سکیں گیں ؟

یا وہ سروائیو کریں گیں جنہوں نے نیچر کو پہلے تباہ کیا جس سے ماحولیاتی بدلاؤ اور تباہی شروع ہوئی اور پھر انہوں نے خود کو محفوظ بنا لیا ؟


اب دنیا کے وہ خطے جنہوں نے ماحولیاتی تباہی میں زیادہ کردار تو ادا نہیں کیا لیکن تباہی کا نقصان سب سے زیادہ بھگت رہے ہیں وہاں کا سوچ بچار کرنے والا طبقہ کیا کرے ؟


اگر وہ فنکار اور خاص طور پہ مصور طبقہ ہے تو کیا کردار ادا کرے ؟


کہیں وہ دوست درست تو نہیں ہیں جو یہ کہہ رہے ہیں کہ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہوئے لوگوں کا آرٹ سے اب کیا لینا دینا؟ 


دنیا بھر میں ماحولیاتی آگاہی دینے کے لیے جو آرٹ کے خلاف ری ایکشن دیا جاتا ہے کہیں وہ درست تو نہیں ؟ 


اگر آرٹ آگاہی دینے کا ہی باعث ہے تو جہاں جہاں اب تباہیاں آ چکی ہیں ان بدحال بے گھر ، بھوکے اور بے شمار مسائل سے دوچار لوگوں کو آرٹ کے ذریعے آگاہی دینے کا کیا فائدہ ؟


اور سوچ بچار کرنے والے ہم فنکاروں کا آرٹ کے بحث مباحثوں میں الجھنے کا اب کیا فائدہ ؟ 


 تو کیا ٹک ٹاک پر فنی ویڈیوز دیکھی جائیں ؟

سابقہ اور موجودہ حکومتوں کو الزام دینے کے مباحثے سنے جائیں ؟


فلمیں دیکھی جائیں ؟

اپنا پسندیدہ میوزک سنا جائے ؟

مطالعہ کیا جائے یا گئے دنوں کی خوبصورتیوں کو یاد کیا جائے ؟

کیا جائے ؟

امید ہے دوست کسی ایک سوال کا تو جواب ضرور دیں گے ۔


شاہد حسین 

9 ستمبر 25

Thursday, September 4, 2025

KALI YUG 1963


 1955 سے 1975 تک میرے والد ناظر حسین صاحب نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں بطور اسکلپٹر ، اورنامنٹ موڈلر اور سیٹ ڈیزائنر کے ایک مصروف وقت گزارا پھر 1985 تک یہ سلسلہ رفتہ رفتہ بالکل معدوم ہو گیا ۔

اس کی بہت سی وجوہات ہیں جو  پاکستانی فلم انڈسٹری سے متعلقین یا فلموں کا شوق رکھنے والے جانتے ہیں ۔


آج ہمیں اس دور کی بہت سی پاکستانی فلموں کا کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی شکل میں ریکارڈ مل ہی جاتا ہے لیکن عجیب اتفاق ہوا کہ 

جن فلموں کے لیے میرے والد نے بہت خاص کام کیے خاص طور پر وہی فلمیں کسی بھی محفوظ یا واضح شکل میں عدم دستیاب ہو گئیں ۔


جیسے کہ 1976 میں نیفڈیک نے ایک فلم بنائی ،


Human Happiness.

 بدھا کے موضوع پر جس کے ڈائریکٹر تھے اے جے کاردار لیکن وہ فلم مکمل ہونے کے باوجود انگلینڈ میں جب لیبارٹری پروسیسنگ کے لیے گئی تو پھر کبھی پاکستان واپس نہ آئی ، جس میں میرے والد نے بدھا کے مجسمے کے کئی مختلف سائزز کے ورژن بنائے تھے لیکن خاص طور پر ایک 14 فٹ ہائٹ کا مجسمہ تھا جسے کراچی کے قریب ہالے جی جھیل کے کنارے نصب کر کے ارد گرد بانسوں سے ایک ٹیمپل تعمیر کر کے شوٹنگ کی گئی تھی ۔


اسی طرح سے دیگر کئی فلموں میں جو اس دور میں بڑے بڑے مجسمے اور سیٹس لگائے گئے ان کا کوئی بہتر حالت میں ریکارڈ دریافت اور تلاش کرنا ناممکن ہو گیا ۔


1962 میں ایک اٹالین کمپنی کالی دیوی کے مندر میں ایک تہوار دسہرے کو موضوع بناتے ہوئے ہندوستان میں ایک فلم مکمل کرنا چاہتی تھی جس کے اختتام پر انہوں نے کالی دیوی کے مندر کو تباہ ہوتے دکھانا تھا مگر بہت سی وجوہات کی بنا پر ہندوستان نے انہیں اس فلم کی وہاں پروڈکشن کی اجازت نہ دی ،

چونکہ انہیں اس فلم کے لیے ایسے بہت سے معاون اداکاروں کی ضرورت تھی جو اپنے چہرے مہرے سے ہندوستانی لگتے

لہذا انہوں نے اسے پاکستان میں مکمل کرنے کا فیصلہ کیا ،


یوں 1962 میں اس فلم کا کام لاہور کے سٹوڈیوز میں شروع ہوا ،

انہیں یہاں پر اس فلم کے سیٹس کے لیے اورنامنٹ اور مجسمے بنانے کے لیے 

ایک آرٹسٹ کی ضرورت تھی اور یہ دور میرے والد کا فلم انڈسٹری میں بہترین کام کرنے والے کے حوالے سے 

عزت اور شہرت کا دور تھا سو اس کا کام انہیں سونپ دیا گیا ۔

میری تو پیدائش ہی 1962 دسمبر کی ہے لیکن اس دور کی بے شمار خوبصورت یادیں تھیں جو میرے والد مجھ سے اکثر ذکر کرتے تھے ،


کہ کس طرح سے وہ بہت سے کام اپنی اس مینول ٹیکنیکس سے کرتے تھے جنہیں اٹالین سیٹ ڈیزائنر جو کہ ساتھ آئے ہوئے تھے وہ بھی دیکھ کر حیران ہوتے تھے ،

اور ان میں سے اکثر لوگ ابا کے اسٹوڈیو میں ان کے ساتھ بہت وقت گزارتے ،

وہ ان کے ساتھ یہاں کے مقامی کھانے کھاتے اور اس میں شامل مرچوں کی تعریف اپنے انداز میں کرتے ، 

پھر اسی طرح اس فلم کے کچھ دیواری مجسمے براہ راست اسٹوڈیو کے فلورز پر بنائے گئے ،

(فلورز ان بڑے بڑے ہالز کو کہتے ہیں جہاں سیٹس لگائے جاتے ہیں)

تو جب وہاں کئی راتوں کو جاگ جاگ کر ان پر کام ہو رہا ہوتا تو ابو  بتاتے تھے کہ وہاں جو چند معاون ساتھ موجود ہوتے ان کے لیے اچھا خاصا خوف کا ماحول بن جاتا تھا ۔ 


جب اس فلم کا کام مکمل ہو گیا اور اٹالین پروڈکشن ٹیم پاکستان سے واپس جا رہی تھی تو وہ میرے والد کو اٹلی ساتھ لے جانا چاہتے تھے ،


لیکن اب اس بات کو کیسے بیان کیا جائے کہ میرے والد عجیب من موجی درویش اور ایسے عجیب مزاج شخص تھے کہ ،

اس کی آج کے وقت میں تعارف و وضاحت دینا انتہائی مشکل کام ہے بہرحال وہ اپنی فیملی کے ساتھ گہری اور دیگر جذباتی وابستگیوں کی بنیاد پر نہیں گئے ۔

اور ان کے لیے یہ وقت اور اٹلی جانے کی پیشکش میں تب زیادہ خوبصورت یاد کا عنصر پیدا ہوا جب انہیں بہت بعد میں کچھ گمنامی اور نظر اندازی کے وقت کا سامنا کرنا پڑا،


لیکن تب تک اس دور کی خوبصورت یادوں کا بھی  کوئی تصویری یا ڈاکومنٹڈ پروف ڈھونڈنا مشکل ہو چکا تھا ،

یہ فلم اور اس فلم کا نام میرے والد کی یادداشت سے ہی نہیں بلکہ پاکستانی فلم سے منسلک بہت سے لوگوں کی یادوں سے بالکل بھلا دیا گیا تھا اور پاکستانی فلم ڈیٹا بیس تو کیا خود اٹالین ڈیٹا بیس سے اسے ڈھونڈنا مشکل ہو چکا تھا ۔


31 دسمبر 2008 میں میرے والد کا انتقال ہو گیا ۔

میں ان کی زندگی میں بھی ان کے کام کو ان کی بیان کی گئی یادوں کو کچھ نہ کچھ سنبھالنے کا اہتمام تو کرتا تھا مگر ان کے بعد تو جیسے میرے لیے یہ کسی مقدس فریضے کی طرح سے ہو گیا ۔

لیکن مسئلہ تھا کہ وقت قسمت اور کچھ خود انہوں نے بھی اپنے کام اور خود سے جڑی چیزوں کو اس طرح سے چھپایا تھا کہ انہیں ڈھونڈنا کسی ناممکن کام کی طرح سے مشکل تھا ۔

لیکن یہ بھی سچ ہے کہ یہ مشکل کے باوجود مجھے عجیب کسی طلسماتی دنیا کے کھیل کی طرح سے دریافت ہوتے تھے ۔


 میرے والد نے اپنی زندگی میں جو یادگاری کام کیے تھے ان میں سے ایک 1967 میں راولپنڈی کمیٹی چوک میں لاہور ایورنیو سٹوڈیو کے مالک اغا جی اے گل صاحب کا بننے والا ایک سینما شبستان بھی تھا جس کے دیواری مجسموں کا کام کیا گیا ، جسے ہم اکثر جب بھی راولپنڈی جاتے تو فلم دیکھنے کے بہانے دیکھنے جاتے تھے ۔


31 دسمبر 2008 میں میرے والد کے انتقال کے بعد ،

2013 میں میں شبستان سینما کی ہسٹری انٹرنیٹ پر ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اچانک ایک اشتہار پر نظر پڑی کہ سینما بک رہا ہے ،

میں نے اس کے اس دور کے موجودہ مالک آغا جی گل صاحب کے بیٹے اعجاز گل صاحب سے رابطہ کیا اور ان سے اپنے والد کا تعارف کروانے کے بعد ملاقات کا وقت مانگا جو اس وقت اسلام اباد جیو ٹی وی کے لیے 

کسی عہدے دار کے طور پر کام کر رہے تھے ۔

میں نے اس ملاقات میں اعجاز گل صاحب کو انتہائی نفیس مہذب اور ہمدرد شخص پایا جب میں نے ان سے یہ گزارش کی کہ آپ کا سینما تو بک رہا ہے جس پر لازمی کوئی شاپنگ پلازہ بنے گا تو میرے والد کا یہ کام تو شاید ضائع چلا جائے تو کیا آپ مجھے یہ اتارنے کی اجازت دے سکتے ہیں ؟


یقین جانیے انہوں نے اس قدر خوبصورت الفاظ کہے کہ آج بھی وہ میرے دل پر نقش ہیں ۔


انہوں نے کہا شاہد صاحب آپ کے والد ناظر حسین صاحب ایک عظیم فنکار تھے ان کا یہ کام ہمارے سینما کا تاج رہا ہے ، اور میرے لیے یہ بڑی خوشی کی بات ہوگی کہ آج اس تاج کو میں اس کے صحیح حقدار کے حوالے کر دوں ۔


سچ میں اعجاز گل صاحب ایک بڑے باپ کے بڑے بیٹے ہیں ، 

میں آپ کو باقی کی تفصیل بتا نہیں سکتا کہ اس سلسلے میں کام کو اتارنے کے لیے سینما کی انتظامیہ نے مجھ سے کس قدر تعاون کیا ، جب رات 12 بجے آخری شو ختم ہو جاتا تو ہم جلدی جلدی وہاں بانسوں سے پرانچ لگاتے اور وہاں سے کام کو اتارنا شروع کرتے ۔


غالباً جولائی 2014 میں ہم نے یہ کام مکمل کیا ۔


اسی دوران میں نے اعجاز گل صاحب سے اس اٹالین فلم ،

KALI YUG.

The mystery of the Indian temple. 1963.

کے بارے بھی دریافت کیا جبکہ تب تک مجھے اس فلم کا ٹھیک نام بھی نہیں مل سکا تھا ،کہ کیا ایورنیو سٹوڈیو کے پاس اس کا کوئی ریکارڈ دستیاب ہوگا ؟


تو اعجاز گل صاحب نے کہا کہ شاہد صاحب ہم خود بھی اس فلم کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور میں نے اس سلسلے میں کئی بار اٹالین ایمبیسی سے رابطہ بھی کیا ہے لیکن فی الحال اس کے بارے کوئی ڈیٹا نہیں مل پا رہا ۔


لیکن میں نے اس فلم کو ڈھونڈنے کی کوشش کو ترک نہیں کیا اور میری اس سلسلے میں کھوج جاری رہی ،


اور پھر اب سے کوئی ڈیڑھ ماہ پہلے بالآخر مجھے اس فلم کا ریکارڈ یوٹیوب پر دستیاب ہو گیا،

جب میں نے اسے دریافت کیا تو یہ کوئی دو ماہ پہلے فلم اپلوڈ کی گئی تھی ۔

اور پھر میں اسے دیکھ کر حیران ہو گیا کہ اس میں جو کالی دیوی کا اور دیگر مجسمے بنائے گئے تھے جو سیٹس لگائے گئے  اور اس میں اورنامنٹس تھیں وہ بالکل ویسے ہی تھیں جیسی میرے والد اپنی یادوں کو کسی کہانی کی طرح بیان کرتے اور کچھ اسکیچز کرتے ہوئے بتایا کرتے تھے ۔


یہ بھی شکر ہے کہ یہ فلم بہت اچھے رزلٹ میں ہے لہذا 

اس میں ان کے کام کی بہت سی کوالٹیز کو بخوبی دیکھا جا سکتا ہے ۔


اس فلم کے حوالے سے میں ان یاداشتوں کو اپنے والد اور اپنے استاد ناظر حسین سے منسوب کرتے ہوئے استاد ڈے پر انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں ۔


شاہد حسین 

15 جون 25

Monday, September 1, 2025

Ghalib Baqar's Work


 غالب باقر صاحب کے کام کو محفوظ کرنے کے حوالے سے آپ سب دوستوں کے رنجیدگی و سنجیدگی کے ساتھ 

رائے دینے کا سلسلہ قابل ستائش ہے ۔


دیکھیے دوستو فنکار کی زندگی مشرق و مغرب دونوں میں ریشو کے فرق کے ساتھ 

دکھ والم ، ذاتی بے ترتیبی سے لے کر سماجی ناہمواری کا کہیں نہ کہیں شکار تو ہوتی ہے ۔

میں نے اپنی زندگی میں جمیل نقش صاحب جیسے فنکار بہت کم دیکھے جو زندگی کے معاملات سے لے کر ، گھریلو آرائش و زیبائش میں چائے کا کپ کہاں رکھنا ہے اور پینٹنگ کے سبجیکٹ میں کوئی ابجیکٹ کہاں رکھنا ہے وہ اسے نہ صرف جانتے ہیں بلکہ امپلیمنٹ کرنا بھی جانتے ہیں ۔


جبکہ زیادہ تر فنکار 

خود اپنی ذات زندگی اور کام کو ترتیب دینے میں اکثر ناکام ہو جاتے ہیں اور یہ ذمہ داری سماج یا متعلقہ شعبوں و اداروں پر آتی ہے ۔


میں نے جو مشرق و مغرب کا تھوڑا سا مشاہدہ کیا تو اس فرق کو میں اس مثال سے بیان کروں گا کہ ،

گھروں کو شفٹ کرنا انتہائی مشکل ترین کام ہوتا ہے ،

مگر مغرب میں اس کام کے لیے ادارے اور کمپنیز موجود ہوتی ہیں جنہیں بلا کر تمام زمہ داری دے دی جاتی ہے وہ گھر میں چھوڑ جانے والے سامان کو شیٹس سے ڈھانپ کر اور لے جانے والی ضروری اشیاء کو انتہائی مہارت سے نہ صرف پیک کرتے ہیں بلکہ اسے منتقل کر کے اپنا مناسب معاوضہ لے کر آپ کو خدا حافظ کہتے ہیں۔

جبکہ ہمارے خطوں میں مخلص اور ولی درویش قسم کے مزدور دوست ڈھونڈے جاتے ہیں جو دوست سے وفاداری کے اس درجے پر ہوتے ہے کہ آتے ہوئے گھر کا کچرہ بھی پیک کر کے لے آتے ہیں اور معاوضہ بھی نہیں لیتے ۔


یہ صرف ایک مثال ہے ورنہ ہمارے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ غالب باقر صاحب کے کام کو کیسے سمیٹا جائے اور مینج کیا جائے کہ وہ نہ صرف اپنی قدر و قیمت سے جانا جائے بلکہ ایک فنکار کے کام کی حیثیت سے محفوظ بھی کیا جائے ۔

ظاہر ہے کہ اس میں ایک ایسی ذمہ داری کی انوالومنٹ مطلوب ہے جو اس میں وقت بھی صرف کرے گی اور سرمایہ بھی انوالو ہوگا ، جیسے کہ اسے فریمنگ وغیرہ کروانا پھر اس کی نمائش کا اہتمام کرنا اور اس کے بعد پھر مالی معاملات کو دیکھنا ،


ہمارے یہاں اکثر ایسے منصوبے اس لیے ناکام ہو جاتے ہیں کہ ہمیں اس میں ایسے مخلص لوگوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے 

جو ذمہ داری تو پوری ادا کریں لیکن 

پھر اس سے جڑے دیگر ریڑرنز میں منصفانہ حقدار کیسے ٹھہریں ہم یہ معاملہ نہیں دیکھ پاتے ۔


میں سمجھتا ہوں کہ سب سے اہم اس کا کوئی بہتر میکنزم دریافت کرنا ہوتا ہے۔


ہم اس بات پہ نہیں الجھتے کہ یہاں ایک فنکار کا کام بے ترتیب ہے یا نہیں ہے 

برائے مہربانی آپ دوست یہ تجاویز دیجئے کہ اسے اب 

ترتیب کیسے کیا جائے ،

اور اگر یہ منظم ہو کر ایک مناسب سی فریمنگ کے ساتھ کہیں نمائش ہوتا ہے تو ہم میں سے کتنے فنکار دوست اپنی اپنی گنجائش کے مطابق پھر اسے کسی یادگاری تحفے کی طرح سے خریدنے کی ذمہ داری بھی لے سکتے ہیں ۔

یا پھر ایک ایسی معیاری آرٹ گیلری یا ادارہ جو اسے اس کے صحیح قدردانوں کے ہاتھوں تک پہنچانے کی ذمہ داری لے سکے بلکہ اس سے حاصل ہونے والے ہر طرح کے ریٹرنز کو خود کتنا اور فیملی تک کس طرح پہنچانا ہے یہ بھی بہتر طور مینج ہو سکے ۔


شاہد حسین 

26 اگست 25

Potato Chips


 ایک بندہ لندن آگیا لیکن اسے انگریزی نہیں آتی تھی ،

تو اس نے اپنے ایک دوست سے پوچھا کہ اگر میں کچھ کھانے ریسٹورنٹ میں جاؤں تو وہاں مجھے کوئی چیز کس طرح سے منگوانی ہے ؟

دوست نے کہا کہ جب آرڈر کرنا ہو بس ایک لفظ یاد کر لو ،

Potato chips ,


کچھ وقت کے بعد وہ بندہ پھر اپنے دوست کے پاس گیا اور کہا کہ یار میں ایک ہی چیز کھا کھا کر تنگ آگیا ہوں ،

مجھے کچھ تو اور بھی سکھاؤ !


تو دوست نے کہا ٹھیک ہے اب یہ یاد کر لو ،

Corn Soup , 🍲 

اس نے یہ بھی یاد کر لیا اور جب ریسٹورنٹ جا کر آرڈر کیا تو ویٹرس نے اس سے پوچھا ،

What size ?

Large Medium or Small ?

اب وہ بندہ جس نے ابھی یہ جملے سیکھے ہی نہیں تھے گھبرا کر بولا ،

Potato chips 😆


یہ لطیفہ مجھے یوں یاد آیا کہ آج گروپ میں ایک دوست فاروق افتاب نے تنگ آ کر اپنے دل کی بات کہی کہ بھئی میں تھک گیا ہوں ہر طرف ایک ہی نام سن سن کر کیا پاکستان میں ایک ہی آرٹسٹ ہے صادقین صادقین اور صادقین ؟؟؟


اب ہمارا گروپ جو کہ ہر سال صادقین صاحب پر مکالمے کا اہتمام کرتا ہے ،اور اس پر یقین رکھتا ہے کہ واقعی ہی وہ ایک بڑے بلکہ عظیم فنکار تھے ،

لیکن ان کی عوامی شہرت کئی بار ذہن میں یہ سوال تو پیدا کرتی ہے جسے ہم اظہار کرنے کی ہمت نہیں کر پاتے ۔


یہ تو بھلا ہو ایک دوستوں کی بے تکلف محفل کا جس میں ہم کافی حد تک اپنے دل کی باتیں زبان پر لے آتے ہیں ۔


لیکن اب یہاں اہم بات یہ بھی ہے کہ کیا خود کو اس قدر شہرت و دوام دینے میں خود صادقین صاحب قصوروار ہیں ؟


اور کیا وہ زندگی میں دانستہ اس کا اہتمام کرتے رہے ؟


دیکھیے اس موضوع پر تو انہیں بہت سے قریب سے جاننے والے ہی زیادہ بہتر رائے دے سکتے ہیں ، کہ ان کا ایک عام بلکہ شہرت یافتہ تاثر تو ایک درویش صفت فنکار کا ہے ،

لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بہت سے فنکار کسی مجزوب کی حالت میں بھی خود کو آشکار کرنے کی حالت سے بے خبر نہیں ہوتے ،

تو کیا صادقین صاحب بھی ایسے ہی تھے ؟


اس بات کو ہم رہنے دیتے ہیں ہم اس پہلو سے دیکھتے ہیں کہ ایک سماج کسی ایک ہی شخص کو کسی خاص وہ اعلی مقام پر یکتا حالت پر کیسے فائض اور قبول کرتا ہے ؟


تو دراصل ہمارے یہاں عام لوگوں کو دیکھا جائے تو مصوری کی زیادہ گہرائی سے نالج نہیں رہی ہے ،

بہت سے حالات و اسباب مل کر ان کے سامنے کسی آرٹ یا کسی آرٹسٹ کو نمایاں کر دیتے ہیں یا خاص بنا دیتے ہیں تو جیسے وہ اسے بس یاد کر لیتے ہیں ،

اور انہیں اگر آرٹ کی ویرییشن یا دوسرے آرٹسٹوں کے بارے بتانے کی کوشش بھی کی جائے تو وہ اسے نہیں سمجھ پاتے اور جھٹ سے وہی دہرا دیتے ہیں جو انہیں یاد ہو چکا ہوتا ہے ،

وہ چاہے پوٹیٹو چپس ہو یا صادقین ۔


شاہد حسین 

27 اگست 25

Cymatics


 اسے Cymatics کہتے ہیں۔


 سائمیٹکس ان بصری نمونوں کا مطالعہ ہے جو اس وقت ابھرتے ہیں جب کسی سطح پر کوئی ذرات جیسے ریت، ارتعاش یا آواز کی لہروں کا نشانہ بنتے ہیں۔ اور ارتعاش کی وجہ سے ریت کے ذرات خود کو پیچیدہ نمونوں میں ترتیب دیتے ہوئے اکثر جیومیٹرک شکلیں اور ہم آہنگی ظاہر کرتے ہیں۔


 سائیمیٹکس پیٹرنز کو فن کی مختلف شکلوں میں دیکھا اور استعمال کیا گیا ہے، جس میں موسیقی کا تصور بھی شامل ہے، اور مختلف قسم کے کمپن کے تحت ذرات اور مواد کے رویے کو سمجھنے کے لیے سائنسی سیاق و سباق میں بھی اس کا مطالعہ کیا گیا ہے۔

اس متعالعے کا اگر حاصل دیکھا جائے تو اس پوری کائنات کی تخلیق کی اساس موسیقی کو قرار دیا جا سکتا ہے یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس کائنات کی مکمل تخلیق اس قدر ترتیب اور توازن رکھتی ہے جو 

کسی سمفنی و موسیقی سے ہی ڈیفائن کی جا سکتی ہے ۔

اور جیسے یہ کائنات 

کوئی خوبصورت سمفنی ہے جو مادے کی شکل اختیار کر گئی ہے ۔

اس کے پیٹرن تو بہت سی مختلف مختلف شکلوں میں بنتے ہیں مگر میں نے دائرے کا انتخاب اس لیے کیا ہے کہ کائنات کی لامتناہی تخلیق کو دائرے سے ہی تشبیہ دی جاتی ہے ۔


عافی بھائی میں آپ کے میوزک کے مجموعی جونرہ اور نالج کو 

جس آفاقی مقام پر سمجھتا ہوں ،

جس میں فوک اور تصوف ، کے بنیادی اجزاء کلاسیکل موسیقی کی پیچیدہ بندشوں میں ڈھلتے ہیں وہاں میں اگر اس موضوع پر آپ کی کوئی کتاب دیکھتا ہوں تو اس کے سرورق کے لیے میرے ذہن میں جو ڈیزائن آتا ہے وہ کچھ اسی قسم کا آتا ہے ،

جبکہ آپ جو سرورق سوچتے ہیں وہ اسے شاعری کے حوالے سے سوچتے ہیں ،

اس میں کوئی شک نہیں کہ شاعری بھی اپنے اندر تخیل کی ایک وسیع دنیا رکھتی ہے مگر نہ جانے کیوں میں موسیقی کو اس معاملے میں شاعری سے آگے دیکھتا ہوں 

اسی لیے میں سرورق کے معاملے 

 میں اسے شاعری سے نہیں بلکہ موسیقی کے زاویے سے دیکھنا چاہتا ہوں ۔


اور اسی لیے میں آپ سے اپنا خیال شیئر نہیں کر رہا تھا 

کہ ہو سکتا ہے آپ کو یہ بالکل بھی نہ بھائے ،

لیکن بہرحال آپ کی محبت خلوص بھری دوستی کے سامنے 

میری رائے کا رد ہو جانا کوئی اہمیت نہیں رکھتا ۔


شاہد حسین 

9 اپریل 25

Art and Society


 1 Sep 25.


کیا آرٹ سماج کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے ؟


کائنات کی تخلیق اور اس میں کوئی بھی تحریک کا منبع 

کوئی خیال ہے ؟


یہ ایک قدیم فلسفہ جسے اگر ہم نہ بھی ڈسکس کریں تو معلوم شدہ حیات میں حرکت کسی نہ کسی خیال کی مرہون منت تو ضرور ہے ،

خیال جو کسی غبار کی طرح پیدا ہوتا ہے اور پھر اسے کوئی کمانڈ ایبل شکل دینے میں ایک تصور پیدا ہوتا ہے اور تصور ایک تصویر پیدا کرتا ہے ۔

اور یہ تصویر کسی خالق میں پہلے سے موجود نہ ہوتے ہوئے بھی بالکل نئے طور وجود پا سکتی ہے اور کئی بار ہمیں پہلے سے موجود تصویریں نئی اشکال کا موجب بن سکتی ہیں ۔


بس یہ اسی طرح کا ایک پیچیدہ تال میل ہے ،

اب یہ بات تو ایک سائنس بن چکی ہے کہ بے شمار ساکت یا متحرک تصاویر ہماری ایک ،

Visual Memory

بناتی ہیں اور پھر اسی میموری کی بنیاد پر ہم ایک رائے بناتے ہیں یا تاثر بناتے ، اور یہی رائے اور تاثر ہماری کسی حرکت کو تحریک دیتے ہیں ۔


تو یوں سمجھیے کہ 

اصل میں آرٹ سماج کو کچھ اس طرح سے بدلتا ہے کہ ہم اسے براہ راست مشاہدہ نہیں کر پاتے ،

جیسے کہ 

چاند کی بدلتی تاریخیں سمندر پر اثر انداز ہوتی ہیں، خاص طور پر مدوجزر کے عمل میں۔ چاند کی قوت ثقل یا کشش کا اثر سمندر کی لہروں پر پڑتا ہے، جس کی وجہ سے سمندر میں مدوجزر پیدا ہوتا ہے۔ جب چاند کسی سمندر کے اوپر ہوتا ہے، تو اس کی کشش ثقل کے باعث سمندر کی سطح بلند ہو جاتی ہے اور مد پیدا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، جب چاند اس سمندر سے دور ہوتا ہے، تو سمندر کی سطح نیچی ہو جاتی ہے اور جزر پیدا ہوتا ہے۔


تاہم، ایک اور بھی خیال کہ چاند کی تاریخیں انسانی ذہن پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں لیکن چاند کا پاگلوں یا نفسیاتی بیماریوں پر اثر ایک متنازع موضوع ہے۔

 قدیم یونانی فلسفیوں اور سائنسدانوں کا ماننا تھا کہ چاند کی مختلف حالتوں کا اثر پودوں، جانوروں اور انسانوں پر پڑتا ہے، لیکن جدید سائنس فلحال اس بات کی تصدیق نہیں کرتی۔ بعض تحقیقاتی مطالعات نے چاند کی پوری شکل اور انسان کی نیند کے قدرتی عمل یا حیاتیاتی گھڑی پر اثر کو نوٹ کیا ہے، جس کے نتیجے میں نیند کا دورانیہ کم ہو سکتا ہے اور نفساتی امراض کے دورے، ڈیپریشن، خودکشی اور قتل کے واقعات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ 

لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جو کچھ سائنس ڈیفائن کر رہی ہے کیا انسانی ذہن پر اثر انداز ہونے کے حوالے سے یہ کیا کم ہے ؟


لیکن اسی حوالے سے گفتگو میں اور بھی کئی پہلو ہیں جسے اگر بہت مختصر کیا جائے تو 

اس دنیا میں ماحولیات کو خطرناک سطح پر لے جانے میں سب سے بڑا مسئلہ دولت ہے ،

اور فرض کیجئے کہ آرٹ کے ذریعے سے ماحولیات کی آگاہی دی جا رہی ہے اور پھر آرٹ ہی اگر خود دولت کے حصول کا مسئلہ بن جائے تو اس کا کیا کیا جائے ؟


جی ہاں یہ ایک الگ سنگین مسئلہ ہے جس کی ایک مثال تو میں آج فیس بک پر دیکھ رہا تھا کہ پاکستان کے ایک مشہور آرٹسٹ کا کام ڈالرز کی قیمت میں مگر پاکستانی کروڑوں روپے میں بک رہا تھا ،

اور نیچے بے شمار دوستوں کے کمنٹس تھے کہ وہ کام فیک ہے ،

اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو اگر وہ فیک نہ بھی ہوتا تو میرے جمالیاتی ذوق پر وہ کام کسی طور بھی مجھے کروڑوں روپے میں خریدنے پر راغب نہیں کر سکتا تھا ۔

اب سوچنے کی بات تھی کہ وہ کام نہ ہی اس آرٹسٹ کا سب سے بہترین کام تھا اور زیادہ تر لوگوں کی رائے کے مطابق وہ اوریجنل بھی نہیں تھا تو پھر وہ اتنا مہنگا کیوں ہے ؟


جبکہ بہت سے آرٹسٹوں کا کام بہت معیاری ہونے کے باوجود مہنگا تو کیا مناسب قیمت بھی کیوں نہیں پاتا؟؟


بہرحال سوالات تو بہت سے ہیں ۔ ۔ ۔ 



شاہد حسین 

یکم ستمبر 25