Monday, December 1, 2025

Colored Library


 کراچی کھوڑی گارڈن اصل میں وکٹورین دور کا ایک چھوٹا سا باغیچہ تھا جو ایک وقت تک کتاب دوست آرٹسٹوں کی جنت رھا ۔ ۔ ۔ 

باغیچہ تو خوبصورت تھا ہی لیکن خاص طور پر اس لیے کہ اس کے مرکزی گیٹ کے باہری اطراف کتاب مارکیٹ تھی جہاں دنیا بھر کی بڑی بڑی بک پبلشنگ کمپنیز کی کباڑ کہنا تو مناسب نہیں لیکن کچھ پرانی کتابیں بہت بڑے بڑے لاٹ کی شکل یا محدود تعداد میں آتی تھیں ،

جن میں پرنٹنگ، مسنگ پیجز یا بائنڈنگ کے کچھ معمولی سے مسائل ہوتے یا پھر وہ بالکل ٹھیک حالت میں ہونے کے باوجود وہاں آ جاتی تھیں ۔

جو دوست لائٹ ہاؤس سے لے کر بولٹن مارکیٹ اور ٹاور تک کے علاقے کو جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ یہ کس قدر پر ہجوم انتہائی شور شرابے سے بھرپور گنجان علاقہ ہے ۔

مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دنیا کے ہر قسم کے مٹیریل کی مارکیٹ ہے جس میں آرٹ مٹیریل بھی شامل ہے 

جسے لینے کے لیے آرٹسٹوں کو یہاں جانا ہی پڑتا ہے لیکن جس قدر ہم خوشی خوشی وہاں جایا کرتے تھے اس کی اہم وجہ یہ کتابوں کا مرکز ہوتا تھا جہاں ایسی ایسی نایاب کتابیں مناسب قیمت میں ہاتھ لگتیں کہ جیسے مچھلی پکڑنے والوں کے ہاتھ توقع سے بڑی مچھلی لگتی ہے ۔

دکاندار گو کہ بہت گھاگ ہو چکے تھے اور وہ اس دور میں بھی منہ پھاڑ کر قیمت مانگتے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کتاب کے قدردان آرٹسٹ بس پریشان سا منہ بنا کے قیمت کم تو کرواتے مگر دل میں پھوٹتے لڈو کے ساتھ کتابیں لے کر گھر کو آتے ۔


شاید یہ 2005 کی بات ہے جب یہاں  ایسا لاٹ آیا جس میں ایک سیریز کا نام تھا،

Colored Library,

یہ مختلف ازمز اور آرٹسٹوں پر تقریباً چالیس نمبروں کا سلسلہ تھا ،

اور ایک وقت میں یہ تمام نمبر دستیاب تھے ،

اور میں نے بس دیکھا اور دیکھتے ہی انہیں خرید لیا،

اتفاق سے انہی دنوں میرے والد کے ایک آرٹسٹ دوست  گھر تشریف لائے تو انہیں یہ بے حد پسند آئیں ۔ ۔ انہوں نے کہا کہ شاید بیٹا جب بھی جاؤ تو یہ ایک سیٹ میرے لیے بھی لے آنا میں نے اسی وقت  انہیں یہ تمام نمبرز تحفے میں دے دیئے،

لیکن جب دوبارہ میں اپنے لیے خریدنے گیا تو پھر مجھے یہ مکمل 40 والیم نہ ملے بلکہ 36 ملے ۔

لیکن یہ چھتیس بھی بہت تھے ۔

ان کے شروع میں آرٹسٹ کی لائف اس کے کام پر کچھ تبصرہ اور پھر آگے ہر ایک پیج پر پینٹنگ اور دوسری طرف اس پینٹنگ کے بارے تھوڑی سی ڈسکرپشن تھی اور یہ اس انداز سے تھی کہ پیج پر کافی اسپیس خالی بھی تھی ، میں نے اس میں چند کتابوں کے  خالی حصوں پر بال پوائنٹ سے ان کے تراجم بھی لکھے ،

کچھ دوست جب ان کتابوں میں اس ترجمے کو دیکھتے تو بہت حیران ہوتے کہ یہ کس کمپنی نے شائع کی ہیں جس نے ساتھ اردو ترجمہ بھی شائع کیا ہے ؟

جب میں انہیں بتاتا کہ یہ میں نے خود ہاتھ سے لکھا ہے تو وہ بہت حیران ہوتے ۔

ٹھیک ہے آج کچھ دوست جو میرے اس شوق اور جنون کو ٹھرک کا نام دیتے ہیں تو وہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں کرتے ورنہ ایسی دیوانگی کو با مقصد ہونے میں اور کیا نام دیا جا سکتا ہے ؟

Colored Library,

کہ یہ بک سیریز ہی اپنے مختلف خوشنما رنگوں میں  آج تک میرے پاس محفوظ نہیں بلکہ نہ جانے اس کتاب گلی کی کتنی خوبصورت اور رنگین یادیں آج بھی خیالوں کا حصہ ہیں 

جو اکثر کسی خواب کی صورت میں اپنا آپ ضرور دہراتی رہتی ہیں ،

نہ جانے کتنی بار خواب میں خود کو اسی کتاب گلی میں پاتا ہوں ، کسی گمشدہ جنت کی خواہش کی طرح ۔ ۔ 

اور کوئی جانا پہچانا دکاندار مجھے کہہ رہا ہوتا ہے لیجیے صاحب نئی کتاب آئی ہے تمام بک گئی یہ ایک آپ کے لیے سنبھال کے رکھی ہوئی تھی ۔


شاہد حسین 

30 نومبر 25

Saturday, November 29, 2025

Abdali to Angries


 برصغیر کی تعمیرات پر دیگر خطوں سے حملہ آور ہونے والوں کے اثرات ۔


احمد شاہ ابدالی،

1748 سے 1772 تک 25 سالہ مدت میں افغانستان سے بر صغیر پر تقریباً سات سے آٹھ بار حملہ آور ہوا،

اور یہ 25 سالہ دورانیہ ہی اس کا برصغیر پر اقتدار کا دور بھی ہے ۔

کیونکہ اس کا مقصد یہاں اپنے اقتدار کو طوالت دینا نہیں بلکہ ایسی عسکری مہمات تھیں جن کے بنیادی اغراض و مقاصد خطے پر افغان تسلط اثر رسوخ اور مالی مفادات حاصل کرنا تھا ۔

اپنے 25 سالہ دور میں اس نے بر صغیر کے خطے کے لیے کیا تعمیری سرگرمیاں سرانجام دیں ان کا تعلق زیادہ تر اس کے مالی مفادات سے ہی جڑا ہے جیسے کہ ٹیکس کا سخت نظام ، اور سماجی حوالے سے بیوہ عورتوں کی شادی سے متعلق قوانین ہیں ۔

جبکہ متحدہ ہندوستان میں اس کی تعمیرات کوئی خاص مثالیں نہیں ملتی لیکن ہندوستان سے 

حاصل کی گئی دولت سے کابل کے گرد وال سٹی بنوائی گئی اور قندھار میں احمد شاہی نام سے ایک نیا شہر بنایا گیا ۔

لیکن بر صغیر میں موجود دولت کے حصول کے لیے تعمیرات کو نقصان ضرور پہنچایا گیا جن میں خاص طور پر دہلی کے لال قلعے کے ایک حصے میں بنی چھت میں استعمال ہونے والے سونے کو نکلوا کر بھی پگھلوایا اور ابدالی نے اسے اپنے خزانے میں شامل کیا ۔

ٹھیک ٹھیک اعداد و شمار حاصل کرنا تو بہت مشکل ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق ابدالی نے اپنے 25 سالہ دور میں ہندوستان سے تقریبا 100 ٹن سے زائد سونا لوٹا ۔

مگر برصغیر کے اکثریتی مسلمان ابدالی کو ایک ہیرو کے طور پر مانتے ہیں گو کہ ابدالی نے اسلام کے پھیلاؤ میں کوئی خاص کردار ادا نہیں کیا لیکن اس کے دور میں مسلمانوں کو ہندوؤں اور سکھوں کے مقابل ایک مزہبی سیاسی و زہنی برتری حاصل ہوئی ۔

بر صغیر میں احمد شاہ عبدالی کے دور میں ہی انگریز سرکار نے ہندوستان پر قبضہ جمانا شروع کیا مگر احمد شاہ عبدالی کی انگریز سرکار سے کوئی خاص براہ راست جنگ نہیں ہوئی اس کا زیادہ تر ہدف مرہٹے اور مغل تھے ۔


1757 سے 1857 تک ہندوستان پر ایک صدی انگریز کمپنی نے اور پھر 1857 کی آزادی کی جنگ کے بعد 1947 تک 90 سال براہ راست برٹش سرکار نے ہندوستان پر حکومت کی ،

190 سال کے کل دور حکومت میں انگریز نے برصغیر کو جو لوٹا اس کا اندازہ ٹھیک ٹھیک عددوں میں لگانا تو مشکل ہے لیکن کچھ قریب قریب تخمینہ لگایا جائے تو ،

190 سال میں 6400 ٹن سے زائد سونا لوٹا گیا ,

اب اس دولت کو اگر احمد شاہ ابدالی کے دور کی مدت اور مقدار سے 

موازنہ کیا جائے تو ایک اندازے کے مطابق ابدالی نے 25 سالہ دور اقتدار میں برصغیر سے ہر سال چار ٹن سونا لوٹا،

جبکہ انگریز سرکار نے 190 سالہ دور اقتدار میں ہر سال 34 ٹن سونا لوٹا ۔

اسی طرح اگر دونوں کے طرز حکومت میں ان کی یہاں سے حاصل کی گئی دولت کو خطے پر خرچ کرنے کے طور دیکھا جائے تو ،

ابدالی نے تمام تر حاصل شدہ دولت کا تقریباً 10 سے 15 فیصد جو بر صغیر پر خرچ کیا وہ صرف اور صرف اپنے عسکری انتظامی امور پر تھا ،

جبکہ انگریز سرکار نے جو 20 سے 25 فیصد خرچ کیا اس میں بھی گو کہ اپنے عسکری انتظامی امور پر ایک بڑا حصہ تھا مگر کہیں اقتدار کو طوالت دینے کے لیے انفراسٹرکچر پر اور اسی طرح عوام کو کچھ نہ کچھ شہری سہولتیں دینے جیسے امور پر بھی تھا جس میں تعلیم صحت ریلوے ، سڑکیں ذرائع آمدرفت ثقافتی سرگرمیاں اور فوجی و شہری تعمیرات تھیں ۔

جس کی وجہ سے اس خطے کی سماجی وہ ثقافتی تہذیب پر ان کے گہرے اثرات ثبت ہوئے ۔

لیکن اس خطے کی ایک بڑی مسلم اکثریت ابدالی کو اپنے مذہبی عقائد و جذبات کی بنا پر آزادی کا ہیرو جبکہ انگریز سرکار کو آقائی جبر و تسلط رکھنے والے سامراج کے طور دیکھتی اور یاد کرتی ہے ۔


شاہد حسین 

21 نومبر 25

عینک والا جن


 جی عاصم زبیری بھائی اور حفیظ طاہر صاحب بلا شبہ یہ عینک والا جن ایک وقت میں ہمارے بچوں پر بری طرح سے قابض تھا،

سچ کہا جائے تو ہم پر بھی 😍

 


یہ بات ٹھیک ہے کہ 

ہومر کی اوڈیسی نے داستانوں کے سفر کی شروعات میں اہم کردار ادا کیا 

لیکن پھر عرب ٹیلز ،

ہزار داستان، طلسم ہوش ربا ،حاتم طائی ، پھر بر صغیر میں قصہ چہار درویش اور دیگر بہت سی سینہ بہ سینہ چلنے والی داستانوں نے جہاں بچوں کی شعوری ترقی و اخلاقی تربیت میں بہت مضبوط کردار ادا کیا وہیں ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشنے میں بچوں کے کچھ رسائل وغیرہ کے ذریعے اور پھر اسی تسلسل میں پی ٹی وی نے بھی تفریحی وقت فراہم کرنے میں بہت اہم حصہ ادا کیا ۔ ۔ ۔ 


اور پھر ہم نے یہ تمام ذمہ داری کمپیوٹر ، موبائل فون اور اس پر دستیاب دیگر خطوں کے مٹیریل پر ڈال دی ۔


کیا اب آج کے بچے جادو کی نگری میں اڑتے گھوڑے قالین پریاں اور چڑیلوں کے قصے نہیں سننا چاہتے ؟

جی آج بھی مغرب میں یہ سب جاری و ساری ہے ہیری پوٹر بک سیریز کی ریکارڈ فروخت کوئی زیادہ پرانی بات نہیں ہے ، او ٹی ٹی پلیٹ فارمز پر بچوں کی ایسی سیریز کا آج بھی ہجوم ہے ،

لیکن ہم نے اپنے بچوں کو بڑا کر دیا ہے ۔

اور سمجھ لیا ہے کہ انہیں اب اس قسم کی خرافات کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، لیکن کیا یہ سچ ہے ؟


شاہد حسین 

29 نومبر 25

کشمیر کی کلی


 کیا کہانیاں اور داستانیں صرف بچوں کے لیے ہوتی ہیں ؟


سچ تو یہ ہے کہ ہم بڑے بھی ہو جائیں تو قصے کہانیاں اور داستانیں ہمیں متاثر ضرور کرتی بس ہم اس میں سے تصورات کو کم کرتے ہوئے کچھ حقیقت کے قریب لانا شروع کر دیتے  ہیں جیسے کہ مجھے یاد ہے کہ تاریخ پڑھنا جو کہ کچھ لوگوں کے لیے خاصہ بورنگ سا موضوع ہوتا ہے لیکن برصغیر کے ایک بہت بڑے لکھاری الیاس سیتا پوری صاحب اس موضوع کو حقیقت اور تصور کے درمیان رکھتے ہوئے یا ایک بنت بنتے ہوئے ہمارے لیے بہت ہی دلچسپ بنا دیتے تھے ۔

اتفاق سے ان دنوں میری بیٹی میری لائبریری کی بہت سی کتابوں کو تصویری طور پر کمپائل کر رہی ہے ۔


جس میں ایک وقت میں میرے پاس الیاس سیتا پوری صاحب کی جو بہت سی کتابیں موجود تھیں مگر دوستوں کے مطالعے کے ذوق اور مہربانی نے انہیں سنبھالنے رکھنے کے جھنجھٹ میں مجھے کافی سہولت فراہم کر دی ہے 😄

تو اب شاید بہت کم ہیں ،اگر آپ کے مطالعے میں کبھی ان کی کتابیں  آئی ہوں تو یقیناً آپ نے ان میں تاریخ کے نہاں خانوں میں چھپی بہت سی کہانیوں کو کسی فلم کی طرح سے اپنے تصور میں دیکھا ہوگا ۔ 

 انہی داستانوں کو یاد کرتے ہوئے  الیاس سیتا پوری صاحب کی صاحبزادی ،زنوبیہ الیاس جو خوش قسمتی سے دوستوں میں شمار  ہیں انہیں بھی گروپ میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے یقینا وہ اس حوالے سے کچھ اپنی یادداشتیں ہم سے ضرور شیئر کریں گیں ۔

 


شاہد حسین 

29 نومبر 25

Friday, October 3, 2025

Decorative Art


 Nisar Ahmad:

ویسے یہاں کون کون ایسا سمجھتا ہے کہ وہ آرٹ کر رہا ہے ؟؟

اور کون اپنے آپ کو ڈیکوریٹو آرٹ سے جوڑ رہا ہے ؟


Shahid Hussain:

دیکھا جائے تو اس موضوع پر ہم بہت بار بات کر چکے ہیں 

لیکن پھر بھی 

کسی سوال کی ترتیب بھی ہر بار جواب کی ترتیب بھی بدلتی ہے ،

یوں سمجھیے کہ جیسے ہم کسی میگنیفائن گلاس سے ہر بار کسی پیٹرن کو کسی مختلف زاویے سے یا مختلف مقام سے زیادہ نمایاں کر کے دیکھتے ہیں ۔

اصل میں تو اس سوال کے پیچھے معنی کچھ اور ہے کہ کیا ہم کمرشل آرٹ کرتے ہیں یعنی صرف کام بیچنے کے لیے ؟ 


اس کا ایک ابتدائی جواب تو یہ ہوگا کہ 

دنیا کے تمام آرٹسٹ دراصل ڈیکوریٹو آرٹ ہی کرتے ہیں ،


آگے بڑھتے ہوئےطریقہ اور مقاصد اصل میں اس میں بالکل اس طرح سے فرق لے کر آتے ہیں جس طرح سے ہم اکثر شاعری کی مثال دیتے ہیں 

کہ دنیا کی تمام شاعری اصل میں نظم کہلاتی ہے ،

لیکن پھر اس میں کسی بھی بنیاد پر تھوڑا تھوڑا فرق ،

اس کی اصناف طے کرتے ہوئے اسے غزل ، حمد نعت نوحہ مرثیہ سلام یا شاعری وہ نظم کی دیگر اصناف میں بدلتا ہے ۔


35 سے 40 ہزار سال پہلے جو ارٹسٹ شکار پر جانے کی بجائے دیواروں پر کام کر رہے تھے وہ بھی آرائش و زیبائش کر رہے تھے ،

اج بھی چاہے کوئی دیوار پر لگانے کے لیے پینٹنگ بناتا ہے 

یا کسی کونے یا ٹیبل پر رکھنے کے لیے مجسمہ اصل میں وہ کہیں نہ کہیں ایک ایسی آرائش ہے جس کا تعلق ہماری جمالیات سے ہے ۔

تو پھر وہ کون سی بات ہے جو اسے خالص آرائشی آرٹ سے خالص آرٹ میں بدلتی ہے ؟


یہ مقام سب سے پیچیدہ ہوتا ہے ،

جیسے کہ جب ہم اس آرٹ کو مقدس کر دیتے ہیں تو پھر ہم خود ہی اسے آرائشی نہیں کہتے ،

یعنی اس کے آرائشی ہونے سے انکار کر دیتے ہیں 

دوسرا مرحلہ،

اسان لفظوں میں کہوں گا کہ ہماری جمالیاتی اخلاقیات ہوتی ہیں ۔

اب یہاں ایک مثال دیتا ہوں کہ اج سے ہزاروں سال پہلے کا انسان مٹی اور دیگر اشیاء سے رنگ بنا بنا کر دیواروں پر ہاتھوں کے نشان بنا کر ان کی ارائش و زیبائش کر رہا تھا 

مجھے اتفاق سے ایک ایسا گھر دیکھنے کا موقع ملا 

جہاں دو ذہنی طور پر معذور بچے رہ رہے تھے ،

تو وہ ٹوائلٹ میں اپنی شٹ دیواروں پر لگا لگا کر مختلف پیٹرن بناتے تھے ۔


اب ہزاروں سال پہلے کا انسان ذہنی طور پر اس قدر پختگی حاصل کر چکا تھا کہ وہ جمالیات کے جو معنی سمجھ رہا تھا

اگر اج کے دور میں رہنے والے دو بچے ذہنی طور پر پختہ نہیں ہیں تو ان کا جمالیاتی معیار مٹیریل کے چناؤ میں بالکل بدل جائے گا ۔


اپ قدیم نقادوں کو اگر پڑھیں تو وہ جمالیات اور اخلاقیات کو باہم ملا کر بات کرتے ہیں 

اور ہم سمجھ نہیں پاتے کہ ارٹ میں اخلاقیات کہاں سے آ جاتی ہیں ،

جبکہ اخلاقیات اصل میں انسان کے جمالیاتی بیہیویئرز ہیں جو اپنی ہزارہا شکلیں رکھتے ہیں 

اور اپ دوست اج مجھ سے فوری جواب مانگ رہے ہیں 

جبکہ یہ موضوع بہت طویل ہے،

اس لیے میں اس کی سادہ سی مثال دیتا ہوں کہ میرے والد نے تمام زندگی ڈیکوریٹو آرٹ کیا،

لیکن انہوں نے جن رویوں سےکیا وہ بلکل وہی تھے جو خالص تخلیقی آرٹ کرنے والوں کے ہوتے ہیں ۔

میں نے بھی تمام زندگی ڈیکوریٹو آرٹ کیا لیکن اسے جس انوالومنٹ کے ساتھ بہت سے مادی مقاصد پسے پشت ڈالتے ہوئے کیا ،

مجھے لگتا ہی نہیں ہے کہ میں نے خالص ڈیکوریٹو آرٹ کیا


تو کئی بار ہمارے مختلف مقاصد اور کئی بار ہمارا طریقہ کار ، رویہ اور ٹریٹمنٹ ڈیکوریٹو آرٹ کے معنی وہ مقاصد بدلتا رہتا ہے ۔

شاہد حسین 

5 مئی 25

Thursday, October 2, 2025

Color Psychology


 Abbas Kamaangar: 

رنگوں کے استعمال سے متعلق کچھ سوال رکھ رہا ہوں ۔


پینٹنگ کیلیئے رنگوں کا انتخاب کس فارمولے کے تحت ہونا چاہیے ؟

1  کلر وھیل کی مدد سے  ؟

2 رنگوں کے نفسیاتی اثرات کو مد نظر رکھتے ہوئے ؟

3 یااپنی کلر پیلٹ بنانی چاہیے ؟


Shahid Hussain:

عباس کمان کمانگر صاحب کے ان سوالات پر دوستوں کا اس قدر دلچسپ اور ہما جہت مکالمہ ہوا ہے کہ اس پر اب مزید کہنے کے لیے میرے پاس کچھ بچا ہی نہیں ،

سوائے اس خواہش کے کہ اس قدر مزیدار مکالمے میں اپنی طرف سے کچھ کہہ کر حصے دار بننے کی خواہش ہے ۔


رنگ !

ہمارے اطراف ہر شے میں بکھرے پڑے ہیں ، مگر ہم انہیں دیکھتے اپنی الگ انفرادی صلاحیت کی بنیاد پر ہیں ،

یہ ہماری آنکھ کے،

Receptors,

 ریسپٹرز ہوتے ہیں جو ایک خاص پراسس کے ذریعے

 بنیادی طور پر تین رنگوں،

گرین ریڈ اور بلو 

 سے ان کے پھر سیکنڈری مکس ،

یلو سیان اور مجنٹا بناتے اور پھر دیگر چلے جاتے ہیں ۔ 

یہ انسانی آنکھ اور روشنی کے تال میل کا ایک پیچیدہ پروسس ہے ۔


کچھ لوگوں میں جب یہی ریسپٹر اپنا کام ٹھیک طرح سے نہیں کرتے تو انہیں بہت سے کلرز نظر نہیں بھی آتے ،

جتنے کلر بلائنڈ کہا جاتا ہے ۔

یہی مسئلہ حیات رکھنے والی دیگر مخلوقات میں سے بھی کئی کی آنکھوں میں ہوتا ہے ۔

Receptors,

کی سائنس کو آرٹ میں ، 

Impressionists,

نے اپنے کام میں بہت زیادہ ڈسکس کیا اور پھر پوائنٹلسٹس نے بھی ۔


بالکل اسی طرح اگر رنگوں کے استعمال کا آرٹ میں جائزہ لیا جائے تو ، وہاں آگے بڑھتے ہوئے حالات کچھ یوں پیش آتے ہیں کہ کچھ فنکار پیدائشی طور پر کلرسٹ ہوتے ہیں ، ان میں رنگوں سے دلچسپی اور ان کے استعمال کی نالج وجدانی طور پر موجود ہوتی ہے۔


ہم اکثر مصور بچوں کو بڑے انہماک مگر بے ساختگی سے رنگوں کو انتہائی دلچسپ ترتیب اور توازن سے استعمال کرتے ہوئے دیکھتے ہیں ،

جبکہ کچھ فنکار ڈرائنگ مجسمہ سازی اور پینٹنگ میں انتہائی مہارت حاصل کرنے کے باوجود رنگوں کے استعمال میں وہ بچوں والی بے ساختگی اور اعتماد حاصل نہیں کر پاتے ۔

بس اسی بات سے سمجھیے کہ ایک ڈومینو کا گیم شروع ہوتا ہے جس میں رنگوں کی سائنس کو سمجھنے کی کوشش کی گئی 

اس میں ان کے ٹمپریچر سے لے کر انسانی نفسیات اور مزاج پر تاثراتی اثرات ، اور رنگوں کی اسپرچول معنویت کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ۔

اور پھر یہ بھی دیکھا گیا کہ یہ نفسیاتی تاثرات اور معنویت یکساں سائنسی نتائج رکھنے کے باوجود آرٹ کے اظہار میں یکساں نہیں ہوتے ۔


سرخ رنگ کو ہی لے لیجئے یہ زندگی کی علامت بھی ہے ، خوشی کی بھی اور خطرے کی بھی اور اسی طرح سے اس کے کئی معنی ہیں۔


پیلے رنگ کو لیجیے 

یہ روشنی کا رنگ بھی ہے اداسی اور موت کا بھی ،

اسی طرح سے تمام رنگوں کے ساتھ یہ معاملات درپیش ہیں ۔

یہی نہیں بلکہ یہ رنگ کسی دوسرے رنگ کے ساتھ ملا کر یا اس کے ساتھ رکھ کر دیکھے جائیں تو اسی تناسب سے یہ اپنے بصری اثرات بدلتے رہتے ہیں ۔

یہاں میں سب سے پہلے پیٹ موندریاں کی مثال دوں گا،

جس نے اپنی کلر فیلڈ پینٹنگز میں اس سائنٹیفک نظریے کو پیش کیا 

کہ ہر کلر کا ایک مختلف ویژول ویٹ ہے ۔

جو اپنے ویژول سائز میں مختلف ہونے کے باوجود مساوی بھی ہو سکتا ہے ۔


پھر اسی طرح رنگوں کے نفسیاتی جذباتی اور روحانی 

استعمال پر تو ہم کنڈنسکی یا بہت سے فاوٌسٹ آرٹسٹوں کے علاوہ کسی خاص آرٹسٹ کا نام مینشن کر ہی نہیں سکتے کہ اکثریتی پینٹر آرٹسٹوں نے رنگوں کو اپنے وجدانی تخلیقی اظہار کے لیے رنگوں کی دریافت شدہ سائنس کو بھی استعمال کیا اور خود اپنی مرضی سے اپنی پیلٹ کو اپنے جذباتی نفسیاتی روحانی اظہار کے لیے استعمال کیا ، تو ان ہزاروں کے نام کیسے لکھے جائیں ۔

یوں سمجھیے کہ ہر فنکار کی تخلیق ایک ایسے والٹ میں موجود ہوتی ہے جسے نکالنے کے لیے وہ ڈرائیونگ کے اصولوں کی طرح کلر وہیل کی نالج کو اپنے اندر محفوظ رکھتے ہوئے بھی اور اپنی کلر پیلٹ پر کلر ویل کی مختلف کمبینیشنز کے مطابق مختلف نمبرز اور ترتیب کو استعمال کرتا ہے ۔


شاہد حسین 

5 مئی 25 ۔

Wednesday, October 1, 2025

Karachi Crime History


 اگر کراچی میں جرائم کی تاریخ کو بہت مختصراً بیان کیا جائے تو ،

1947، سے پہلے 

کراچی میں جرائم بس برائے نام ہوں گے کیونکہ،

یہاں تقسیم سے پہلے مسلمانوں کے علاوہ پارسی, ہندو ، گجراتی ،میمن کاٹھیاواڑ کاروباری اور ہنرمند طبقے کے علاوہ گوروں کی محدود تعداد اور اینگلو انڈینز یا ان کے ساتھ ساتھ بہت کم لوگ وہ آباد تھے جو اپنی فطرت یا مزاج میں جرم یا فساد کرنے کا عنصر رکھتے تھے ۔


تقسیم کے بعد جو مہاجرین ہندوستان سے آئے ان میں ایک خاصی اکثریت پڑھے لکھے شریف النفس جنہیں عام طور پر کچھ ڈرپوک بھی سمجھا جاتا ہے ان لوگوں کی اچھی خاصی تعداد تھی جبکہ ایک وہ طبقہ بھی ان میں تھا جو 

ضروری نہیں تھا کہ ان خصوصیات کا حامل تھا مگر وہ صرف اردو اسپیکنگ مہاجر ہونے کی بنا پر اپنے آپ کو مہذب ہی سمجھتے اور کہلوانا یا ثابت کرنا چاہتے تھے ۔


لہذا ایک مدت تک بلکہ یوں کہا جائے کہ دو دہائیوں تک وہ لوگ ایسے ہی رہے اور 70 کی دہائی تک یہ لوگ اگر کچھ بدمعاشی وغیرہ کرتے بھی تھے محدود سے آپسی لڑائی جھگڑے اور اگر پڑھے لکھے منظم تو وہ جماعت اسلامی جیسے کسی سیاسی پلیٹ فارم سے کرتے تھے ۔


جبکہ اسٹریٹ کرائمز میں تقسیم کے بعد کچھ سندھ پنجاب اور خیبر پختون خواہ سے آنے والے مہاجرین نے کراچی کے اکثریتی لوگوں کو شریف النفس امن پسند دیکھتے ہوئے یہاں اپنے پاؤں جمانے کے لیے چھوٹے موٹے یا منظم بدمعاش گروہ بنانے شروع کر دیے ۔


جس میں دادا گیری، بھتہ کلچر سے لے کے پھر چوری ڈکیتی قتل اور گلیوں بازاروں میں سنسان جگہوں اور رات دیر گئے ڈھکے چھپے طریقے سے وارداتیں ہوتی تھیں ۔


1980 کے بعد انتہائی سائنٹیفک بنیادوں پر کراچی اور حیدراباد کی تمام تر کریمنل ذمہ داری ایم کیو ایم اور اس کے دیگر بننے والے ذیلی گروپس نے لے لی ، جس میں گلی محلوں تک سے انتہائی منظم انداز میں پڑھے لکھے لوگوں سے لے کر عام 

اردو سپیکنگ طبقے کو جس میں جرائم کرنے کی کوئی نہ کوئی صلاحیت موجود تھی انہیں اس میں شامل کیا گیا ، چھوٹے چھوٹے بچوں کو اسلحہ تھما دیا گیا اور پھر کراچی اور حیدرآباد پر صرف اور صرف ایم کیو ایم کا ہی راج تھا ، اور ایم کیو ایم نے جرائم کی جو تاریخ رقم کی ہے وہ صرف عقل کے اندھے ہی ہیں جنہیں نظر نہیں آتی ورنہ اس 25 سے تیس سالہ دور کی خوفناکی کی مثال اور کسی دور سے نہیں دی جا سکتی ۔

اور پھر ایم کیو ایم کے عفریت کو قابو میں لانے کی تیاری شروع ہو گئی ،

جس کے لیے اسے اس کے اندر سے بھی اور باہر سے بھی توڑا گیا یوں ایم کیو ایم کی اصل حالت کو تقریباً ختم کر کے اسے کچھ نئی اشکال میں تقسیم و ترتیب دیا گیا ،

بہت سے لوگ شاید اس بات کا یقین نہ کریں کہ آج کراچی میں پی ٹی ائی کا ونگ دراصل ایم کیو ایم کے آشیرواد کا ہی مرہون منت ہے ،

کیونکہ دونوں کا مدر اور فادر خالق ایک ہے ۔

فرق صرف یہ ہے کہ 

پی ٹی آئی نے کراچی کی کرائم مارکیٹ کو کنٹرول کرنے کے لیے افغانیوں کا سہارا لیا ہے ، جو عام لوگوں کو پختون ہی لگتے ہیں اور کراچی کے وہ پرانے پختون جو اپنی داداگری کی صلاحیت میں کمزور ہو چکے ہیں وہ بھی خود کو افغان سمجھے جانے پر فخر کرتے ہیں اور بڑی خوشی سے قبول کرتے ہیں کہ ہاں کراچی کی تمام بدمعاشی پر ابھی بھی ان کا کنٹرول ہے مگر اب حقیقت یہ ہے کہ کراچی کے تقریباً پچاس فیصد جرائم پر اکیلے افغانیوں کا کنٹرول ہے ، اور انہیں مذہبی گروپس کی بھی حمایت حاصل ہے ۔

جبکہ باقی 50 فیصد پر دیگر اقوام میں سے حصہ بقدر جثہ ہے ۔

لیکن جن کا 50 فیصد ہے وہ یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں جبکہ بقایہ 50 فیصد میں جن کا تھوڑا تھوڑا حصہ ایک دوسرے میں تقسیم ہے وہ اس قدر احمق ہیں کہ ایک دوسرے کو ہی الزام دیتے رہتے ہیں ۔

اور موج وہ کر رہے ہیں جن کا سب سے زیادہ ہولڈ ہے یا جن کے مفادات کراچی کے حالات کی خرابی سے جڑے ہیں ۔

مگر یہ تمام باتیں ان لوگوں کی اکثریت کو سمجھانا اور یقین دلانا بہت مشکل ہے ۔



شاہد حسین 

یکم اکتوبر 25