Saturday, April 26, 2025

Vincent Van Gogh


 ونسنٹ وین گو 

نے کیا خوب کہا! 

کہ ایک وقت ایسا ائے گا جب میرے کام کو میرے کام کی خصوصیات کے حوالے سے نہیں 

بلکہ میری زندگی کے دکھوں تکلیفوں اور ناکامیوں کے حوالے سے پرکھا دیکھا اور سمجھا جائے گا ،


اور وین گو کی ناکام زندگی ایک خودکشی پر ختم ہو جانے کے سو سال بعد اس کی یہ بات درست ثابت ہوئی ،


بالکل اسی طرح ہمیں بہت سے فنکار دوستوں کے کام اور ان کے ہنر کو صرف 

سائنٹیفک اور ٹیکنیکل اعداد و شمار سے ہی نہیں 

بلکہ ان کی زندگی سے دیکھنا سمجھنا 

اور محسوس کرنا پڑتا ہے ۔


اس کے بغیر ہم ان کے ہنر کے کسی بھی گن میں وہ گہرائی ، تاثرات اور تاثیر بلکہ روح سمجھ ہی نہیں پاتے ۔


شاہد حسین 

26 اپریل 25

QUO VADIS


 آج پوری مسلم دنیا میں غور و فکر کرنے والے لوگ کتنے بھی کم سہی لیکن جو ہیں وہ اس مسئلے پر سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں کہ ،

کہ ہم پوری دنیا میں جانی و مالی نقصان کیوں اٹھا رہے ہیں ؟

ان کی ریاستیں اور سماج تباہ کیوں ہو رہے ہیں ؟


دیکھیے صرف آج کی مسلم دنیا ہی نہیں ہر قدیم سے قدیم ریاست اور سماج کے لیے یہ جاننا بہت طویل تو ہو سکتا ہے لیکن مشکل نہیں ہے ۔


اس پیچیدگی کو جاننے میں اگر بہت بڑے پیمانے پہ کوئی بات سمجھ نہ آرہی ہو تو اسے چھوٹے درجے پر سمجھ لینا چاہیے ۔


جیسے کسی شہر کے ماڈل کو دیکھا جاتا ہے بالکل اسی طرح اگر دنیا یا ریاست کی تباہی کے اسباب جاننے ہوں 

تو کسی چھوٹے سے گاؤں گوٹھ قبیلے ، قوم کے افراد یا گروپ کے احوال سے سمجھ لیجئے ۔


وہاں پر آباد اگر کسی قوم یا ریاست کے لوگ اپنے ہی اجتماعی مفادات کے لیے بنائے یا اپنے لیے ہی بنائے ہوئے اصول و ضوابط پر عمل نہیں کرتے ، اور اپنے ہی کیے ہوئے وعدے پورے نہیں کرتے ،

تو پھر وہ اپنی کوئی بھی اعلیٰ و ارفع حالت ختم کر بیٹھتے ہیں اور یہی معاملات گروپس کے تجربات کے ساتھ پیش اور سمجھے جا سکتے ہیں ۔


اگر آپ کو میری بات پر یقین نہ آئے تو کسی بھی عظیم ترین مقصد کے لیے اور اصول و ضوابط 

پر مبنی کوئی گروپ چاہے واٹس ایپ پر بنا لیجئے ،

آپ کو ہماری قومی تباہی کے تمام اسباب معلوم ہو جائیں گے ۔

آپ دیکھیں گے کہ اس میں جو بھی دوست شامل ہوں گے وہ اس گروپ کے

تمام اصول و ضوابط کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کہ وعدے سے شامل ہوں گے مگر اس کے بعد شاید ہی کوئی وعدہ پورا کریں گے ۔

سوائے اس کے کہ جس میں صرف ان کا اپنی ذات کا فائدہ ہو وہ کسی اجتماعی مقصد کے لیے کام اور اس پر عمل کرنے پر آمادہ نہیں ہوں گے ۔


تو بس پھر وہ ایسے ہی افراد پر مبنی چاہے ، روم جیسی عظیم الشان سلطنت اور طاقتور قوم ہو ، یا خود کو سب سے زیادہ جنت کا حقدار سمجھنے والی قوم ہو ،

اسے تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا ۔

اس تباہ ہوتے روم کی طرح جس کی ایک بچ جانے والی دیوار پر لکھا تھا ،

QUO VADIS ,

جس کا معنی پوئٹک وے میں ہےکہ ،

"اے روم تو کدھر جا رہا ہے "

دیوار پر تو ہماری بھی لکھا ہے مگر ہمیں پڑھنا اور اس کے معنی سمجھنا نہیں آتا ۔


شاہد حسین 

26 اپریل 25

Tuesday, April 15, 2025

Lahore Fog


 میرے والد بتاتے تھے کہ ایک وقت میں لاہور کے بھرے پرٌے بازاروں میں اچانک کوئی سر سے بہتے خون سے آلودہ کپڑوں کے ساتھ گھبرایا ہوا شخص بھاگتا ہوا ہجوم سے گزرتا ،

جس سے تمام لوگ سہم سے جاتے ، تھوڑی دیر بعد پتہ چلتا کہ وہ کوئی بہروپیہ ہے ، جسے لوگ سوانگی یا مسخرہ بھی کہتے اور اپنی مرضی سے کچھ پیسے وغیرہ دیتے تھے ۔


Butch Locsin,

لاس اینجلس سے تعلق رکھنے والا ایک پرفارمنس آرٹسٹ پینٹر اور السٹریٹر ہے ، یہ بھی آج امریکہ میکسیکو اور دنیا کے دیگر ان شہروں میں جہاں دھوئیں کی الودگی بہت بڑھ چکی ہے ،

وہاں پھولوں کا تاج پہنی کھوپڑی کے نقاب کے ساتھ اپنے گرد مختلف رنگوں کا دھواں پھیلا کر ایک پرفارمنس پیش کرتا ہے ،

جس کا مقصد لوگوں کی توجہ حاصل کر کے انہیں بڑھتی ہوئی آلودگی خاص طور پر دھوئیں ، یا سموگ کے بارے آگہی دینا ہے ۔

اب ہم اسے چاہے اس کی مسخرہ پنتی کہیں لیکن امریکہ وغیرہ میں اسے عصری آرٹ کا 

پرفارمنس آرٹسٹ ہی سمجھا جاتا ہے اب پتہ نہیں اسے ان عجیب و غریب حرکتوں کی وجہ سے پیسے وغیرہ کہاں سے اور کیسے ملتے ہیں ؟


شاہد حسین 

8 نومبر 24

London and Lahore Fog


 

دھند کے معاملے میں لندن اور لاہور تاریخی طور مماثل شہر گو کہ دونوں کی وجوہات کچھ ملتی جلتی اور بہت سی مختلف ہیں ۔

50 سے 60 کی دہائی میں پیدا ہونے والے لاہوری سردیوں کی شاموں میں گلی محلوں میں پھیلتی دھند سے واقف ہیں ،

جس کی خاص خاص وجوہات مرطوب آب و ہوا درجہ حرارت کے اتار چڑھاؤ راوی اور ستلج کی قربت زرعی ماحول جس میں سیراب شدہ کھیت اور فصلیں نمی چھوڑتی اور اس کے علاوہ بہت سے براعظمی عوامل شامل ہیں ۔


میں بچپن سے لڑکپن کے دور تک جب کبھی کراچی کی معتدل سردیوں کی روشن شام اور راتوں کو چھوڑ کر لاہور جاتا تو میرے لیے لاہور کے گلی محلوں میں پھیلی اس سنسان سرد دھندلی اداسی کو برداشت کرنا مشکل ہو جاتا تھا ۔

لیکن اس کے باوجود اس میں ایک رومانس ، ایک خوبصورتی بھی تھی ، جو فنکاروں کو بھی متاثر کرتی ہے ۔

 جیسے 1904 میں کلاؤڈ مونے نے دھند میں لپٹے لندن کو بہت بار اپنی پینٹنگ جبکہ ، لاہور کے ذولفقار زلفی نے لاہور کی دھند میں رواں دواں زندگی کو اپنی پینٹنگ کا بڑی حساسیت سے موضوع بنایا اور پھر ۔ ۔ ۔ ۔ 

گزشتہ پچیس تیس سالوں سے ، صنعتی سرگرمیاں اور فضائی آلودگی پر مبنی بے شمار وجوہات اس دھند کے اندھا دھند بڑھنے کا باعث بن رہی ہیں ، جن کی وجہ سے بڑھتی ہوئی ٹریفک، کے بڑھتے ہوئے حادثات، اور دیگر سانس کی بیماریاں اور صحت کے مسائل شدت اختیار کرتے ہوئے،

 خوبصورتی کی ہر شکل کو ختم کرتے کرتے ہوئے دھوئیں اور دھند کے خوفناک ترین ملاپ سموگ کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں ۔

اب کیا اس سموگ کے مسلےکو کوئی آرٹسٹ اپنی پینٹنگ میں بیان کر رہا ہے کیا آپ دوست بتا سکتے ہیں ؟


شاہد حسین 

8 نومبر 24.


Art State Good By


 امریکہ میں الیکشن ہو چکے ،پاکستان میں لوگ ابھی بھی منصفانہ چاہتے ہیں ۔

ہم نے بھی کوشش کی کہ گروپ کو ختم کرنے سے پہلے 

252 میں سے ان 182 دوستوں سے رائے ضرور لی جائے

جو رائے دینے کا آپشن رکھتے ہیں ،

حسب معمول چند دوستوں نے ہی اس رائے میں حصہ لیا ،

لیکن اس میں سے بھی اکثریت کی رائے یہی رہی کہ گروپ کو بند نہ کیا جائے ،

تو اس فیصلے کو مانتا ہوں لیکن بند کرنے یا نہ کرنے بارے اس طویل مکالمے کے باوجود میں اپنا مقدمہ مکمل طور ضرور رکھوں گا ،

کیونکہ جب وہ دوست بھی ساتھ نہیں دیں گے جن کے لیے میں بات کرتا ہوں ، تو پھر اپنی بات مجھے خود ہی مکمل کرنی پڑے گی ۔


ہمارے اس گروپ سے پہلے اصل میں تو فائزہ کا گروپ تھا ،

کیا اس نے ذمہ داریوں سے تنگ اور مایوس ہو کر گروپ نہیں چھوڑ دیا تھا ؟

ہمارے بہت اہم اور ایکٹو ممبر مقبول صاحب ، گروپ ممبران کے رسپانس نہ دینے پر ناراض نہیں ہوتے تھے ؟

اور اسی وجہ سے میری مدتوں کی دوستی بھی خراب ہوئی ،

میرا 35 سال پرانا دوست چترا پریتم 

کیا گروپ میں اپنی انسلٹ محسوس کرنے پر ناراض ہو کر نہیں گیا اور مجھ سے تعلق بھی ٹوٹا ؟

تنقیدی مکالمے میں عاطف علیم ہمیشہ ساتھ دیتا تھا وہ لوگوں کی سرد مہری پر مایوس ہو کر خاموش نہیں ہوا ؟

عجب خان نے ایک وقت میں کوئی 50 کے قریب دوستوں پر تعارفی ویڈیوز بنائی اور بہت کچھ لکھا بولا ، وہ کیوں خاموش ہو گئے ؟

اعجاز خان بکس ریڈ کرتے تھے وہ کیوں خاموش ہو گئے ؟

ہما واثق اور طیبہ عزیز کتابوں کو ٹرانسلیٹ کر رہی تھیں وہ کیوں خاموش ہو گئیں ؟

نازیہ اور صوفیہ نے بھی کتابوں کو آرٹ ازمز اور پینٹنگ ریڈنگ سلسلے شروع کیے وہ کیوں خاموش ہو گئیں ؟


سعدیہ عاطف نے بہت سے گریٹ ماسٹرز پر ویڈیو بنائیں مکالمے میں حصہ لیا وہ کیوں خاموش ہو گئی ؟

اسی طرح سے سیزان نقش ، پرویز خان ، سعید ندرت ابراہیم رامے اور بہت سے دیگر دوست ہیں جنہوں نے گروپ میں بات کرنی بھی بند کر دی یہ کہہ کر کہ شاہد بیکار ہے ، آرٹ پر بامقصد مکالمہ میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔

تو اگر ہم با مقصد مکالمے میں کامیاب نہیں ہیں تو پھر لوگوں کو ایک ساتھ جمع کر کے بس نمائش کی خبر دینا 

کسی کے انتقال کی یا پھر ادھر ادھر کی چیزیں شیئر کرنے والے تو بہت سے گروپس موجود ہیں۔ 


جن میں کئی میں تو ہم خود بھی موجود ہیں ۔

اگر گروپ کی بیشمار مشکلات کا ذکر کیا جائے تو شاید سب سے اہم یہ بھی رہی کہ بدقسمتی سے ہمارا ملک طویل مدت سے سیاسی عدم استحکام ، سماجی ناہمواریوں ، لاقانونیت شدید معاشی بحران اور ہوش ربا مہنگائی کا شکار ہے ،

جس سے سماج کا سوائے محدود طبقہ امراء کے علاوہ ہر شخص بتدریج شکار ہے ،اس میں ایک فنکار جو صرف دانشور نہیں بلکہ کسی بھی سماج کا حساس ترین فرد ہوتا ہے اسے آپ کہاں تک آرٹ کی لوری یا اس کے سامنے پینڈولم لہرا سکتے ہیں ؟


ہاں جو ہمیں اس سلسلے میں ان سے شکوہ رہا وہ یہ کہ فنکار کو سب سے زیادہ باشعور ہونے کی وجہ سے ان تمام معاملات میں یا تو اپنے کام یعنی آرٹ کے ذریعے یا کسی پبلک فورم پر اپنی سیاسی پارٹیوں اور شخصیات سے وابستگیوں سے بالاتر ہو کر ممکنہ حد تک منصفانہ اور غیر جانبدارانہ رائے کا اظہار کرنا چاہیے ، ووٹ وہ چاہیں کسی کو بھی دیں ۔

لیکن ایسا نہیں ہو پاتا فنکار بطور تھنکر بھی ان وابستگیوں سے باہر نکل نہیں پاتے اور یہ ذمہ داری صرف میزبان کو ہی سنبھالنی پڑتی ہے ۔

اور یقیناً یہ بھی ایک بہت بڑا بوجھ رہا ۔

چونکہ ملک کے خراب نظام کے خلاف جو تیسری مضبوط ترین پارٹی ابھر کر سامنے آئی گزشتہ چار پانچ سالوں سے اسی کا رویہ سب سے زیادہ ایگریسو رہا ،

جب ہم نے دوستوں کو یہاں بات نہیں کرنے دی تو وہ سمجھے کہ شاید میزبان کا سیاسی جھکاؤ ان سیاسی پارٹیز کی طرف ہے جو مدتوں سے اس ملک کو تباہی کی طرف دھکیل رہی ہیں ۔

انہیں میزبان کی ذہنی صحت کا یقین ہی نہ ہو سکا کہ اگر وہ کسی نئی پارٹی سے وابستگی کچھ معاملات پر اختلاف یاامید نہیں رکھتا تو اس کا قطعی مطلب یہ نہیں کہ وہ سابقہ کا حمایتی ہے ۔

بہرحال ۔ ۔ ۔ 

طویل مدت اس غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنے اور گروپ کو خالصتاً آرٹ کے ٹریک پر رواں رکھنے کا بوجھ بھی اٹھانا پڑا ، 

آج پی ائی اے کی تباہی اور اس کے کوڑیوں کے دام لگنے کی داستان مجھے اپنے اس گروپس سے بھی مماثل لگی 

فرق صرف یہ ہے کہ پی آئی اے کا بوجھ عوام پر لاد دیا گیا ،

اور اس گروپ کا بوجھ میزبان پر ۔ ۔ 

اب مجھے پرواہ نہیں ہے بیشک آپ سیاست پر بھی بات کریں گے تو ہی اچھا ہے کسی اسمبلی کی طرح گروپ ٹوٹنے میں بھی یہ عمل مددگار ہی رہے گا ۔ ۔ ۔  


شاہد حسین 

 6 نومبر 24