امریکہ میں الیکشن ہو چکے ،پاکستان میں لوگ ابھی بھی منصفانہ چاہتے ہیں ۔
ہم نے بھی کوشش کی کہ گروپ کو ختم کرنے سے پہلے
252 میں سے ان 182 دوستوں سے رائے ضرور لی جائے
جو رائے دینے کا آپشن رکھتے ہیں ،
حسب معمول چند دوستوں نے ہی اس رائے میں حصہ لیا ،
لیکن اس میں سے بھی اکثریت کی رائے یہی رہی کہ گروپ کو بند نہ کیا جائے ،
تو اس فیصلے کو مانتا ہوں لیکن بند کرنے یا نہ کرنے بارے اس طویل مکالمے کے باوجود میں اپنا مقدمہ مکمل طور ضرور رکھوں گا ،
کیونکہ جب وہ دوست بھی ساتھ نہیں دیں گے جن کے لیے میں بات کرتا ہوں ، تو پھر اپنی بات مجھے خود ہی مکمل کرنی پڑے گی ۔
ہمارے اس گروپ سے پہلے اصل میں تو فائزہ کا گروپ تھا ،
کیا اس نے ذمہ داریوں سے تنگ اور مایوس ہو کر گروپ نہیں چھوڑ دیا تھا ؟
ہمارے بہت اہم اور ایکٹو ممبر مقبول صاحب ، گروپ ممبران کے رسپانس نہ دینے پر ناراض نہیں ہوتے تھے ؟
اور اسی وجہ سے میری مدتوں کی دوستی بھی خراب ہوئی ،
میرا 35 سال پرانا دوست چترا پریتم
کیا گروپ میں اپنی انسلٹ محسوس کرنے پر ناراض ہو کر نہیں گیا اور مجھ سے تعلق بھی ٹوٹا ؟
تنقیدی مکالمے میں عاطف علیم ہمیشہ ساتھ دیتا تھا وہ لوگوں کی سرد مہری پر مایوس ہو کر خاموش نہیں ہوا ؟
عجب خان نے ایک وقت میں کوئی 50 کے قریب دوستوں پر تعارفی ویڈیوز بنائی اور بہت کچھ لکھا بولا ، وہ کیوں خاموش ہو گئے ؟
اعجاز خان بکس ریڈ کرتے تھے وہ کیوں خاموش ہو گئے ؟
ہما واثق اور طیبہ عزیز کتابوں کو ٹرانسلیٹ کر رہی تھیں وہ کیوں خاموش ہو گئیں ؟
نازیہ اور صوفیہ نے بھی کتابوں کو آرٹ ازمز اور پینٹنگ ریڈنگ سلسلے شروع کیے وہ کیوں خاموش ہو گئیں ؟
سعدیہ عاطف نے بہت سے گریٹ ماسٹرز پر ویڈیو بنائیں مکالمے میں حصہ لیا وہ کیوں خاموش ہو گئی ؟
اسی طرح سے سیزان نقش ، پرویز خان ، سعید ندرت ابراہیم رامے اور بہت سے دیگر دوست ہیں جنہوں نے گروپ میں بات کرنی بھی بند کر دی یہ کہہ کر کہ شاہد بیکار ہے ، آرٹ پر بامقصد مکالمہ میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔
تو اگر ہم با مقصد مکالمے میں کامیاب نہیں ہیں تو پھر لوگوں کو ایک ساتھ جمع کر کے بس نمائش کی خبر دینا
کسی کے انتقال کی یا پھر ادھر ادھر کی چیزیں شیئر کرنے والے تو بہت سے گروپس موجود ہیں۔
جن میں کئی میں تو ہم خود بھی موجود ہیں ۔
اگر گروپ کی بیشمار مشکلات کا ذکر کیا جائے تو شاید سب سے اہم یہ بھی رہی کہ بدقسمتی سے ہمارا ملک طویل مدت سے سیاسی عدم استحکام ، سماجی ناہمواریوں ، لاقانونیت شدید معاشی بحران اور ہوش ربا مہنگائی کا شکار ہے ،
جس سے سماج کا سوائے محدود طبقہ امراء کے علاوہ ہر شخص بتدریج شکار ہے ،اس میں ایک فنکار جو صرف دانشور نہیں بلکہ کسی بھی سماج کا حساس ترین فرد ہوتا ہے اسے آپ کہاں تک آرٹ کی لوری یا اس کے سامنے پینڈولم لہرا سکتے ہیں ؟
ہاں جو ہمیں اس سلسلے میں ان سے شکوہ رہا وہ یہ کہ فنکار کو سب سے زیادہ باشعور ہونے کی وجہ سے ان تمام معاملات میں یا تو اپنے کام یعنی آرٹ کے ذریعے یا کسی پبلک فورم پر اپنی سیاسی پارٹیوں اور شخصیات سے وابستگیوں سے بالاتر ہو کر ممکنہ حد تک منصفانہ اور غیر جانبدارانہ رائے کا اظہار کرنا چاہیے ، ووٹ وہ چاہیں کسی کو بھی دیں ۔
لیکن ایسا نہیں ہو پاتا فنکار بطور تھنکر بھی ان وابستگیوں سے باہر نکل نہیں پاتے اور یہ ذمہ داری صرف میزبان کو ہی سنبھالنی پڑتی ہے ۔
اور یقیناً یہ بھی ایک بہت بڑا بوجھ رہا ۔
چونکہ ملک کے خراب نظام کے خلاف جو تیسری مضبوط ترین پارٹی ابھر کر سامنے آئی گزشتہ چار پانچ سالوں سے اسی کا رویہ سب سے زیادہ ایگریسو رہا ،
جب ہم نے دوستوں کو یہاں بات نہیں کرنے دی تو وہ سمجھے کہ شاید میزبان کا سیاسی جھکاؤ ان سیاسی پارٹیز کی طرف ہے جو مدتوں سے اس ملک کو تباہی کی طرف دھکیل رہی ہیں ۔
انہیں میزبان کی ذہنی صحت کا یقین ہی نہ ہو سکا کہ اگر وہ کسی نئی پارٹی سے وابستگی کچھ معاملات پر اختلاف یاامید نہیں رکھتا تو اس کا قطعی مطلب یہ نہیں کہ وہ سابقہ کا حمایتی ہے ۔
بہرحال ۔ ۔ ۔
طویل مدت اس غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنے اور گروپ کو خالصتاً آرٹ کے ٹریک پر رواں رکھنے کا بوجھ بھی اٹھانا پڑا ،
آج پی ائی اے کی تباہی اور اس کے کوڑیوں کے دام لگنے کی داستان مجھے اپنے اس گروپس سے بھی مماثل لگی
فرق صرف یہ ہے کہ پی آئی اے کا بوجھ عوام پر لاد دیا گیا ،
اور اس گروپ کا بوجھ میزبان پر ۔ ۔
اب مجھے پرواہ نہیں ہے بیشک آپ سیاست پر بھی بات کریں گے تو ہی اچھا ہے کسی اسمبلی کی طرح گروپ ٹوٹنے میں بھی یہ عمل مددگار ہی رہے گا ۔ ۔ ۔
شاہد حسین
6 نومبر 24
No comments:
Post a Comment