Tuesday, July 22, 2025

Notions of Narration II"

 

Shahid Hussain: "Notions of Narration II" 


راشد رانا کا یہ کام بظاہر ایک بصری معمہ

 (Visual Enigma) 

کی صورت میں سامنے آتا ہے، مگر اس کی تہوں میں گم شدہ بیانیوں اور تاریخ کے چُھپے زخموں کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے۔ کلاسیکی مغربی مصوری ، جیسا کہ روبنز کے شاہکار کو جب اس طرح ٹکڑوں میں بانٹ کر ازسرِنو ترتیب دیا جاتا ہے تو ناظر نہ صرف ماضی کے جانے پہچانے مانوس منظر سے کٹ جاتا ہے بلکہ ایک اجنبی مگر پراسرار دنیا میں داخل ہو جاتا ہے جہاں ہر ٹکڑا ایک نیا سوال بن کر ابھرتا ہے۔


یہ ، fragmentation محض تصویری تجربہ نہیں بلکہ ثقافتی شناخت، تاریخ اور تشریحات کے تسلسل کو توڑنے کی ایک بامعنی کوشش بھی ہے۔ رانا ہمیں بتاتے ہیں کہ بیانیہ کبھی مکمل نہیں ہوتا، ہر تصویر، ہر داستان، جب ایک نئے تناظر میں رکھی جائے تو اس کے معنی بدل جاتے ہیں۔


یہ کام تجسس، حیرت، اور ناظر کی ذاتی وجدان کو جھنجھوڑنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے ، جیسے ماضی کا ایک خواب ہو جو بکھرا ہوا ہو، اور ہم اس کی کڑیاں جوڑنے کی لاحاصل کوشش میں محو ہو جائیں۔ یہی وہ کشمکش ہے جو راشد رانا کے فن کو ایک فکری مکالمہ بنا دیتی ہے۔


بطور ناظر، میں اس بات کو شدت سے محسوس کرتا ہوں کہ راشد رانا نے یہاں نہ صرف کلاسیکی مصوری کے ساتھ مکالمہ کیا ہے بلکہ تاریخ کے معنوں کو بھی re-contextualize کیا ہے۔ یہ کام ہمیں اپنے ،

 cultural memory 

کے ساتھ نیا تعلق قائم کرنے کی دعوت دیتا ہے ایک ایسا حیران کن تعلق جو ماضی کو دوبارہ لکھنے یا دیکھنے کی جرات پیدا کرتا ہے۔


شاہد حسین 

22 جولائی 25


 Rashid Rana:

 Thank you Shahid bhai 

Your reading of my work allows me to view my own work with a fresh perspective 🙏🌷

Sunday, July 13, 2025

Homeless.


 (4)


کسی نے حضرت علی علیہ السلام سے سوال کیا کہ ،

خدا تو ہر شخص کے رزق کا وعدہ کرتا ہے پھر بہت سے لوگ اس دنیا میں بھوکے کیوں سوتے ہیں ؟

انہوں نے جواب دیا کہ خدا تو اپنا وعدہ پورا کرتا ہے لیکن اس دنیا میں اس کے وہ بندے جنہیں اس نے طاقت و اختیار دیا ہے وہ اس کا ناحق فائدہ اٹھاتے ہوئے کمزوروں کے رزق کو غصب کرتے ہوئے اس کی فراہمی میں رکاوٹ بنتے ہیں ۔


یہ دراصل ایک ایسے 

پیچیدہ ریاستی اور سماجی غیر منصفانہ تقسیم کے نظام کی وضاحت ہے جسے انسان یا تو آج بھی سمجھ نہیں سکا یا سمجھنا نہیں چاہتا۔


مجھ سے میرے ایک دوست محسن شکیل بھائی نے گروپ میں ایک بار سوال کیا کہ ،

امریکہ تو لینڈ اف اپورچونٹی کہلاتا ہے تو وہاں لوگ بے گھر کیسے ہو جاتے ہیں ؟

جن کی تعداد 2024 کے اعداد و شمار کے مطابق تقریبا آٹھ لاکھ کے قریب ہے ۔

تو میں نے انہیں جواب دیا کہ یہ بالکل ٹھیک ہے کہ ایک غیر منصفانہ سماجی نظام تو یہاں پر بھی کہیں نہ کہیں کسی شکل میں موجود ہے ،


مگر وہیں یہاں پر اپنی لا متناہی خواہشات اور سماجی ذمہ داریوں کے لین دین سے آزادی حاصل کرنے میں ان کی ایک اکثریت خود ایسی زندگی کا چناؤ کر بیٹھتی ہے جس میں پھر وہ مکان سے اور بے شمار سہولتوں و آسائشوں کے حوالے سے گھر جیسی جنت سے بھی نکالے جاتے ہیں ۔



شاہد حسین 

13 جولائی 25 ۔

خواہشات کا سمندر


 (3)


مذہبی حکایات کو لیجیے یا قدیم قصے کہانیوں اور تصورات کو سب میں یہی ہے کہ انسان اپنی سرشت میں کسی جنت نظیر سماج میں بھی کوئی پابندی یا اصول و ضوابط پسند نہیں کرتا اور ان سے آزاد ہونا چاہتا ہے ۔


اب وہ اس کی فطرت کے عکاس تصورات کو قصے کہانیاں کہہ کر رد تو کرتا ہے لیکن آج اس قدر ترقی کرنے کے باوجود بھی یہ سوال تو اپنی جگہ ہے کہ وہ اپنی لامحدود خواہشات کو پانے یا ان کا مجموعہ کسی آزادی کی صورت حاصل کرنے کے لیے کسی ایسے سمندر میں کہاں تک جانا چاہتا یا جا سکتا ہے جہاں اسے ان کی کسی بھی صورت ادائیگی کے حالات بھی بھگتنے پڑ سکتے ہیں ؟ 


نہیں وہ ایسے حالات جو اس مادی دنیا کے ہر سماج میں کسی نہ کسی رد عمل کی طرح کے پیکج کی صورت میں موجود ہیں وہ انہیں خود پر لینے کی ذمہ داری ادا نہیں کرنا چاہتا ۔


تو یہ کیسے ممکن ہے ؟

یہی تو وہ مسئلہ ہے جس کا وہ حل نہ آج تک تلاش کر سکا اور نہ ہی کبھی کر سکے گا جب تک وہ اس بات کو نہیں سمجھے گا کہ اسے 

ہر سہولت آسائش یا نعمت کی کچھ نہ کچھ ادائیگی کم یا زیادہ ، کسی نہ کسی مختلف صورت میں تو کرنی پڑ سکتی ہے ۔

اور ان ادائیگیوں کو توازن میں لانے کے لیےہم سب کی لمٹس میں فرق ہو سکتا ہے لیکن کہیں نہ کہیں ہمیں حدود و قیود کا بند تو باندھنا اور خود پر روک تو لگانی پڑتی ہے ۔


شاہد حسین 

13 جولائی 25

Optical art and society 3


 Optical Illusion


اسی بصری دھوکے کی طرح ،بہت سے معاملات میں ہم بس جیسے پانی کی سطح پر 

ایک عکس دیکھتے ہیں ،

جو محدود بھی ہو سکتا ہے اور بہت وسیع بھی لیکن بس وہ سطح پر ہوتا ہے ۔ ۔  

گہرائی میں کیا ہے وہ ہم نہیں جانتے ۔


گہرائی میں کئی بار سطح سے بالکل برعکس بہت پیچیدہ معاملات ہوتے ہیں اور ہم میں سے کسی کے پاس ان کا صحیح تجزیہ کرنے کی نہ فرصت ہوتی ہے اور نہ کئی بار سوجھ بوجھ ۔


لہذا ہم بس سطحی معاملات کو دیکھ کر سطحی تجزیہ کرتے ہیں ۔


ہمارا سماج ابھی بھی ایسی قدیم اقدار پر قائم ہے جس میں کسی شخص کی کئی روز قبل ہو جانے والی موت کے باعث تنہا لاش کا ملنا انتہائی چونکانے والا دل دہلانے دکھی اور پریشان کرنے والا واقعہ اور عمل ہو سکتا ہے ۔


مگر ہم بہت سی باتوں میں اپنے کچھ قدامت پرست اور جدید دنیا کے بدلے ہوئے سماج کے درمیان بہت سی بدلتی ہوئی اقدار روایات اور ان کی پیچیدہ وجوہات کو نہیں جان پا رہے ہیں ۔


ابھی ہم ان پرانی بندشوں کو توڑ رہے ہیں جس میں ہمارے بڑے عزیز و اقارب یا ارد گرد دیگر سماجی اختیار رکھنے والے افراد کسی جنریشن کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے تھے ان کی آزادی اور خود مختاری پر قدغنیں پابندیاں اور اپنی اجارہ داری رکھتے تھے ،

لیکن اس کے ساتھ وہ ان کی بہت سی ذمہ داریاں بھی ادا کرتے اور ان سے طلب بھی کرتے تھے ،

تو ایک طرح سے وہ ایک قدیم پیکج تھا ، جبکہ نئے بدلتے ہوئے نظام میں نئی جنریشن آزادی خود مختاری اور بہت سے معاملات میں اپنی مرضی کا چناؤ چاہتی ہے ، لیکن یہاں اس کا اپنی اس سابقہ جنریشن سے کلیش آ رہا ہے جہاں پھر وہ دونوں جب اپنی اپنی توقعات پوری ہوتی نہیں دیکھ رہے تو وہ اپنی ذمہ داریوں سے بھی پیچھے ہٹ رہے ہیں 

جبکہ ہمارا ایک قدامت پرست اور نئے دور کا حامی طبقہ اپنی مرضی سے ان مختلف پیکجز کی سہولتوں اور ذمہ داریوں کو آپس میں گڈمڈ کر رہا ہے یا ان کو آپس میں بدل رہا ہے ۔

اسے آسان مثالوں سے سمجھتے ہیں ۔

ایک شخص کہتا ہے کہ میں سمندر کے کنارے لگی جوار بھٹا کی وارننگ کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی زندگی اور اپنی مرضی کا مالک ہوں کہ میں آگے گہرائی تک جانے کا ایڈونچر اور اس کے مزے لے سکوں ،اور اس سلسلے میں کوئی نہ مجھے روک ٹوک کرے اور نہ کوئی میری واچنگ کرے ، مگر جیسے ہی میں ڈوبنے لگوں یا ڈوب چکوں تو میری مدد کے لیے اسی لمحے کوئی ہاتھ میرے بہت قریب ہونا چاہیے ۔


بتائیے کیا یہاں عمل اور توقع میں تضاد نہیں ہے ؟

بالکل اسی طرح سے آج کی جنریشن میں کوئی شخص کوئی فرد اپنی تمام خاندانی اقدار وہ روایات کو توڑتے ہوئے اپنی مرضی اور چناؤ سے ایسی زندگی گزارنا چاہتا ہے ، جو اپنے انگریڈئینٹ کی ایسی فہرست رکھتی ہے 

جو دیگر افراد کی مرضی اور ان کی خواہشات و اقدار سے مطابقت نہیں رکھتیں تو بتائیے کہ ان کے پاس اس کے سوا کیا چارہ ہے کہ وہ اس شخص کو اس کے راستے پر ٹ کی زندگی یا اس کے کمرے میں تنہا چھوڑ کر لا تعلق ہو جائیں ؟


کیا ان کے پاس ایسی کوئی مرضی یا چناؤ کا اختیار نہیں ہوتا ؟

ان باہمی توقعات اور ذمہ داریوں کے تال میل شرائط و ضوابط کو کیسے سمجھا جائے اور طے کیا جانا چاہیے ؟


شاہد حسین 

12 جولائی 25

Optical art and society


 (1)

ان دونوں تصاویر میں چہرے کا رنگ ایک جیسا ہے مگر نظر آنے میں دائیں طرف گرے ہے اور دوسرا سفید ،

 یہ ایسا کیوں ہے ؟


ان دونوں امیجز کو  خاص مقام سے جوڑ کر ہم ابھی بطور ثبوت دیکھتے ہیں ۔


(2)

دراصل یہ ایک نظری مغالطہ (optical illusion) ہے جو ،

 "afterimage effect"

 یا "simultaneous contrast"

 کہلاتا ہے۔

 دونوں تصویروں میں چہرے کا رنگ واقعی ایک ہی ہے، لیکن وہ ہمیں مختلف اس لیے دکھائی دیتا ہے کیونکہ ،

بائیں طرف چہرے کا پس منظر زیادہ گہرا سبز ہے جبکہ 

دائیں طرف چہرے کا پس منظر ہلکا پیلا ہے۔

ہوتا یہ ہے کہ انسانی آنکھ اور دماغ کسی رنگ کو اس کے ارد گرد کے رنگوں کے ساتھ موازنہ کر کے دیکھتے ہیں۔

 چنانچہ گہرے پس منظر کے سامنے ہلکا رنگ زیادہ روشن یا سفید لگتا ہے۔

اور ہلکے پس منظر کے سامنے وہی ہلکا یا سفید رنگ قدرے گہرا یا سلیٹی گرے محسوس ہوتا ہے۔


 (Contrast Illusion )

کی وضاحت,

اسے "simultaneous contrast illusion" کہتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ ایک ہی رنگ کا ٹکڑا جب مختلف بیک گراؤنڈز پر رکھا جاتا ہے، تو وہ مختلف دکھائی دیتا ہے۔

ترجمہ و ترتیب 

شاہد حسین 

12 جولائی 25


Friday, July 11, 2025

بوسنیا نسل کشی


 بوسنیا جنگ (1992-1995)

جو کہ ، 11 سے 13 جولائی 95 کو اختتام پذیر ہوئی 

 کے دوران،

 تخمینوں کے مطابق ، جنہیں یہاں اے ائی کی مدد سے ترتیب دیا گیا ہے ۔ 

1,00,000 سے 1,10,000،

افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے تقریباً 70% مسلمان (بوسنیاک) تھے۔ یعنی 70,000 سے 77,000 بوسنیائی مسلمان اس جنگ میں شہید ہوئے۔ اس کے علاوہ، تقریباً 20,000 سے 30,000 خواتین کے ساتھ جنسی تشدد کیا گیا، جن میں سے اکثریت مسلمان تھیں۔  


اس نسل کش جنگ میں مسلم اور عرب دنیا کا کردار، 

ایران، ترکی، سعودی عرب، پاکستان، سوڈان اور دیگر مسلم ممالک نے بوسنیا کی حکومت کو ہتھیاروں، فنڈز اور رضاکاروں کی شکل میں مدد فراہم کی۔  

 سب سے زیادہ ایران نے بوسنیائی فوج کو اسلحہ اور تربیت دی، جبکہ ترکی نے سیاسی سطح پر بوسنیا کی حمایت کی اور NATO کی مداخلت کو فروغ دیا اور ترکی نے ملائیشیا، انڈونیشیا اور کئی عرب ممالک نے مل کر پناہ گزینوں کے لیے خوراک، ادویات اور دیگر امداد بھیجی۔  


  Organisation of Islamic Cooperation (OIC)

 نے بوسنیا کے حق میں اقوام متحدہ میں سفارتی دباؤ بڑھایا اور سربیا کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کی کوششیں کیں۔  

سعودی عرب نے "Al-Haramain Foundation" جیسے اداروں کے ذریعے امدادی کام کیے۔ اسی طرح سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک نے مالی امداد بھیجی اور بین الاقوامی فورمز پر بوسنیا کے حق میں آواز اٹھائی۔ جو کہ عربوں کے دنیا بھر میں طاقتور اثر رسوخ کے سامنے بہرحال ایک کمزور کردار رہا ۔ 

 کچھ عرب اور دیگر مسلم ممالک (خاص طور پر افغان جنگ سے واپس آنے والے) رضاکاروں نے بوسنیائی فوج کے ساتھ مل کر لڑائی میں حصہ لیا یوں مسلم ممالک سے تعلق رکھنے والے رضاکار فوجیوں کی مدد نے انہیں مزاحمت جاری رکھنے میں مدد دی

 تاہم، ان میں سے کچھ گروہوں پر بعد میں انتہا پسندی کے الزامات لگے۔  

 مجموعی طور مسلم دنیا نے بوسنیا کی حمایت میں اہم کردار ادا تو کیا، لیکن یہ مدد NATO کی فوجی مداخلت (1995) تک محدود رہی، جس کے بعد سرب فورسز پیچھے ہٹ گئیں اور ڈے ٹن معاہدہ (1995) کے تحت جنگ ختم ہوئی۔ لیکن اس خانہ جنگی میں بوسنیائی مسلمانوں کو بہت بڑا جانی نقصان اٹھانا پڑا۔


ان اعداد و شمار پر مبنی تحریر کا اختتام ہمارے آرٹ ادب اور فلم سے تعلق رکھنے والے دوستوں سے اس سوال پر کر رہا ہوں

کہ دنیا بھر میں جن اقوام پر ظلم اور جبر کے ذریعے جنگ مسلط کی گئی یا ان کا قتل عام ہوا ان میں سے عقلی و شعوری ترقی یافتہ اقوام نے ہمیشہ ان سانحات کو یاد رکھا اس پر حقائق کے ساتھ لکھا یا افسانوی تصوراتی اور شاعرانہ انداز سے لکھا مصوری کی فلمیں اور ڈرامے بنائے ۔

کیا مسلم ورلڈ نے بوسنیا میں ہونے والی مسلم نسل کشی کے اس موضوع پر گزشتہ 30 سالوں میں ان حوالوں سے کچھ خاطر خواہ کام کیا ؟


ترجمہ و ترتیب 

شاہد حسین 

11 جولائی 25

Thursday, July 10, 2025

PTV public


 1968 ،میں جب ہماری فیملی کراچی  شفٹ ہوئی تو 1967 سے ہی میرے والد وہاں پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی کے علاقے میں چنیسر ہالٹ لوکل ٹرین اسٹیشن کے پاس  ٹیلے پر موجود گھر  رہائش  کے لیے لے چکے تھے ۔

یہ دور جہاں پاکستان کے حالات اور کراچی کے ماحول کے حوالے سے بہت اہم تھا ۔ وہیں یہ ہماری فیملی کے لیے بھی ایک مختلف دور تھا ۔

والد لاہور سے  کچھ فیملی کے اختلافات کی وجہ سے اپنا فلم انڈسٹری میں بطور سیٹ ڈیزائنر کے تقریباً عروج کا وقت اور بہترین کمائی کا    

دور چھوڑ کر آئے تھے جبکہ یہاں ابو کی وقتی جاب اور دیگر محدود وسائل کی وجہ سے آمدن کوئی خاص نہ ہونے کے باوجود کچھ کمپرومائزز اور گھر کی بجٹنگ سے ہم تفریح کے مواقع بھی نکال رہے تھے۔ 


جیسے کہ ہر ہفتے اگر نہیں تو دو ہفتے بعد فلم بھی دیکھی جاتی تھی اور کہیں نہ کہیں پارکس اور تفریحی مقامات پر بھی ہمیں ضرور لے جایا جاتا تھا ۔


ایک تفریحی مقام ہل پارک تو بالکل گھر کے قریب ہی تھا  جو اس دور میں ابھی نیا نیا تعمیر ہو رہا تھا 

لیکن جو ہو چکا تھا وہ بھی اتنا خوبصورت اور اس دور کے سادہ لوگوں کی تفریحی ضرورت کو پوری کرنے کے لیے بہت طور کافی تھا ،

یہی وہ وقت بھی ہے جب یہاں پر فلپس یا این ای سی کمپنی کی طرف سے

پبلک ٹی وی لگائے گئے تھے ، جن کا پاکستان کراچی ٹی وی سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ اس کا ایک اپنا نشریاتی سٹیشن ہل پارک پر ہی موجود تھا جو پاکستان کی فلمیں اور گانوں کے پروگرام چلاتا تھا ۔


دوسری جگہ شاید فریر ہال تھی جہاں پر یہ ٹی وی لگائے گئے تھے ہم بچوں کو بہت سی تفریحی آزادی تو تھی لیکن اس طرح کے پبلک پلیس پر بیٹھ کر ٹی وی دیکھنا ہمیں اس دور میں بھی الاؤ نہیں تھا ۔


جبکہ یہی وہ دور بھی تھا جب پاکستان کے دور دراز غیر ترقی یافتہ علاقوں سے بہت سے لوگ تیزی سے روزگار کی تلاش میں کراچی منتقل ہو رہے تھے جو یقیناً اس دور میں بہت خوشحال نہیں تھے  اور جو یہاں کے مقامی تھے ان کے پاس بھی یہ جدید آسائشی اشیاء عام طور پر موجود نہیں تھیں لہذا یہاں پر لوگوں کا ایک ہجوم اکٹھا ہوا ہوتا تھا ۔

اور یہ بھی اسی دور کا ایک نمائندہ اشتہار ہے ۔


شاہد حسین 

10 جولائی 25 ۔

پی ٹی وی اشتہار


 1968 ،میں جب ہماری فیملی کراچی شفٹ ہوئی تو 1967 سے ہی میرے والد وہاں پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی کے علاقے میں چنیسر ہالٹ لوکل ٹرین اسٹیشن کے پاس ٹیلے پر موجود گھر رہائش کے لیے لے چکے تھے ۔

یہ دور جہاں پاکستان کے حالات اور کراچی کے ماحول کے حوالے سے بہت اہم تھا ۔ وہیں یہ ہماری فیملی کے لیے بھی ایک مختلف دور تھا ۔

والد لاہور سے کچھ فیملی کے اختلافات کی وجہ سے اپنا فلم انڈسٹری میں بطور سیٹ ڈیزائنر کے تقریباً عروج کا وقت اور بہترین کمائی کا    

دور چھوڑ کر آئے تھے جبکہ یہاں ابو کی وقتی جاب اور دیگر محدود وسائل کی وجہ سے آمدن کوئی خاص نہ ہونے کے باوجود کچھ کمپرومائزز اور گھر کی بجٹنگ سے ہم تفریح کے مواقع بھی نکال رہے تھے۔ 


جیسے کہ ہر ہفتے اگر نہیں تو دو ہفتے بعد فلم بھی دیکھی جاتی تھی اور کہیں نہ کہیں پارکس اور تفریحی مقامات پر بھی ہمیں ضرور لے جایا جاتا تھا ۔


ایک تفریحی مقام ہل پارک تو بالکل گھر کے قریب ہی تھا جو اس دور میں ابھی نیا نیا تعمیر ہو رہا تھا 

لیکن جو ہو چکا تھا وہ بھی اتنا خوبصورت اور اس دور کے سادہ لوگوں کی تفریحی ضرورت کو پوری کرنے کے لیے بہت طور کافی تھا ،

یہی وہ وقت بھی ہے جب یہاں پر فلپس یا این ای سی کمپنی کی طرف سے

پبلک ٹی وی لگائے گئے تھے ، جن کا پاکستان کراچی ٹی وی سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ اس کا ایک اپنا نشریاتی سٹیشن ہل پارک پر ہی موجود تھا جو پاکستان کی فلمیں اور گانوں کے پروگرام چلاتا تھا ۔


دوسری جگہ شاید فریر ہال تھی جہاں پر یہ ٹی وی لگائے گئے تھے ہم بچوں کو بہت سی تفریحی آزادی تو تھی لیکن اس طرح کے پبلک پلیس پر بیٹھ کر ٹی وی دیکھنا ہمیں اس دور میں بھی الاؤ نہیں تھا ۔


جبکہ یہی وہ دور بھی تھا جب پاکستان کے دور دراز غیر ترقی یافتہ علاقوں سے بہت سے لوگ تیزی سے روزگار کی تلاش میں کراچی منتقل ہو رہے تھے جو یقیناً اس دور میں بہت خوشحال نہیں تھے اور جو یہاں کے مقامی تھے ان کے پاس بھی یہ جدید آسائشی اشیاء عام طور پر موجود نہیں تھیں لہذا یہاں پر لوگوں کا ایک ہجوم اکٹھا ہوا ہوتا تھا ۔

اور یہ بھی اسی دور کا ایک نمائندہ اشتہار ہے ۔


شاہد حسین 

10 جولائی 25 ۔