(3)
مذہبی حکایات کو لیجیے یا قدیم قصے کہانیوں اور تصورات کو سب میں یہی ہے کہ انسان اپنی سرشت میں کسی جنت نظیر سماج میں بھی کوئی پابندی یا اصول و ضوابط پسند نہیں کرتا اور ان سے آزاد ہونا چاہتا ہے ۔
اب وہ اس کی فطرت کے عکاس تصورات کو قصے کہانیاں کہہ کر رد تو کرتا ہے لیکن آج اس قدر ترقی کرنے کے باوجود بھی یہ سوال تو اپنی جگہ ہے کہ وہ اپنی لامحدود خواہشات کو پانے یا ان کا مجموعہ کسی آزادی کی صورت حاصل کرنے کے لیے کسی ایسے سمندر میں کہاں تک جانا چاہتا یا جا سکتا ہے جہاں اسے ان کی کسی بھی صورت ادائیگی کے حالات بھی بھگتنے پڑ سکتے ہیں ؟
نہیں وہ ایسے حالات جو اس مادی دنیا کے ہر سماج میں کسی نہ کسی رد عمل کی طرح کے پیکج کی صورت میں موجود ہیں وہ انہیں خود پر لینے کی ذمہ داری ادا نہیں کرنا چاہتا ۔
تو یہ کیسے ممکن ہے ؟
یہی تو وہ مسئلہ ہے جس کا وہ حل نہ آج تک تلاش کر سکا اور نہ ہی کبھی کر سکے گا جب تک وہ اس بات کو نہیں سمجھے گا کہ اسے
ہر سہولت آسائش یا نعمت کی کچھ نہ کچھ ادائیگی کم یا زیادہ ، کسی نہ کسی مختلف صورت میں تو کرنی پڑ سکتی ہے ۔
اور ان ادائیگیوں کو توازن میں لانے کے لیےہم سب کی لمٹس میں فرق ہو سکتا ہے لیکن کہیں نہ کہیں ہمیں حدود و قیود کا بند تو باندھنا اور خود پر روک تو لگانی پڑتی ہے ۔
شاہد حسین
13 جولائی 25


No comments:
Post a Comment