Sunday, August 24, 2025

Akbar Khan


 Farhan Awan:

22 Aug 25.


 اکبر خان 17 جون 1961 کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے اور 21 اگست 2023 کو کراچی میں تقریباً رات 9 بجے اس دار فانی سے رخصت ہوگئے ۔ مجھے جہاں تک یاد ہے ان کا اصل نام سید اکبر تھا مگر وہ اپنی والدہ کی نسبت سے اکبر خان لکھتے تھے انہیں اپنی والدہ سے بہت زیادہ لگاؤ اور محبت تھی وہ اپنے والد سے بھی بہت محبت کرتے تھے ۔ اکبر خان ایم۔ اے۔ پاس ایک پڑھے لکھے انسان تھے اور اردو ادب سے خاص لگاؤ رکھتے تھے۔فنون لطیفہ ان کی رگ و پے میں شامل تھا اتنا جنون کہ اپنے کیریئر کا آغاز شادی بیاہ اور دوسری تقریبات میں وڈیو گرافی سے کیا اور اپنی بے پناہ مہارت کی وجہ سے ملک کی بڑی شخصیات کے قریب اور پسندیدہ رہے یہاں نام میں اس لئے نہیں بتا سکتا کہ اکبر پسند نہیں کرتے تھے وہ تو بغیر سہارے کے اپنی ہی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اپنی پہچان بنانا چاہتے تھے اور پھر اللّٰہ نے انہیں کامیابی بھی عطا کی۔ اکبر خان سے میری پہلی ملاقات 1990-91 میں آرٹس کونسل میں ایک تھیٹر ورکشاپ کے دوران ہوئی جو ایسی دوستی میں ڈھل گئی کہ کراچی میں اکبر خان سے زیادہ حقیقی دوستی کا معیار نظر نہیں آیا دوستی کے جن معنوں پر اکبر پورا اترتا تھا اس کے جانے کے بعد دوستی کے سابقہ معنے اردو لغت میں تبدیل کرنے کو جی چاہتا ہے۔ میں نے اکبر کے والد کو بغیر کسی غرض کے ہمسائیوں اور محلے داروں کے کام کرتے اور مدد کرتے دیکھا ہے وہ نہایت ڈاؤن ٹو ارتھ مگر با وقار انسان تھے اس لحاظ سے اکبر اپنے والد کی طرح ہی تھے بلکہ میں نے تو اکبر کو اپنے محلے سے ایک قدم آگے ہر کسی کی بے لوث مدد کرتے ہمدردی کے شدید جزبے کے ساتھ عملی طور پر دیکھا ہے آج بہت سے اکبر کو جاننے والے لوگوں کو میں نے یہ تک کہتے سنا ہے کہ اکبر اس دور کا درویش صوفی تھا اور میں سو فیصد اس سے متفق ہوں وہ واقعی ایک درویش صوفی تھا وہ میری ذات کا حصہ تھا میں اس کے بغیر خود کو ادھورا محسوس کرتا ہوں یہ ادراک اسے بھی تھا، میرا جی چاہتا ہے اکبر ملے تو اسے بے شمار محبت دوں اور ساتھ ساتھ خوب لڑوں کہ سب جانتے ہوئے اس نے اتنی جلدی کیوں کی، کیوں دنیا چھوڑ گیا ،ایزل آرٹ گیلری بنانے اور چلانے میں میرا دست راست تھا اب میں کیسے اس گیلری کو اکیلا چلاؤں ، ہم نے مل کر بہت ساری ایگزیبیشن کی ہیں اب میں اکیلا یہ سب کیسے کروں میرے لئے یہ سب بہت مشکل ہے میرا گیلری میں دل نہیں لگتا مگر یہ اکبر خان کی بنائی گیلری ہے ایزل آرٹ گیلری نام اکبر کا دیا ہوا ہے میں اسے کیسے چھوڑ دوں مگر پھر سوچتا ہوں اکبر تو مجھے کسی صورت نہیں چھوڑتا یہ تو سب اللہ کے کام ہیں وہ معبود ہے مالک ہے اس سے تو نہیں لڑا جا سکتا سوال نہیں کیا جا سکتا یوں میرے سوال ادھورے رہ جاتے ہیں اللہ صبر دے دیتا ہے۔ دوستو آپ سوچتے ہوں گے میں یہ کیا باتیں لے بیٹھا ، ہاں تو میں اکبر کے بارے میں بتا رہا تھا اکبر ایک مکمل اور اعلیٰ صلاحیتوں کا مالک آرٹسٹ تھا وہ ایک اعلیٰ ایکٹر تھا سب جانتے ہیں مگر ایکٹر کے ساتھ ایک بہترین ڈائریکٹر ، رائٹر اور مختلف گیٹ اپ کا ماہر میک اپ آرٹسٹ بھی تھآ ۔ اکبر خان ایک مصور اور مجسمہ ساز بھی تھا مجسمہ سازی میں ملک کے مایہ ناز مجسمہ ساز انجم ایاز اس کے استاد تھے اکبر کی پینٹنگز اور مجسموں کی نمائش بہت سی بڑی گیلریوں میں کامیابی سے ہو ئیں ۔ایزل آرٹ گیلری میں اکبر کی پینٹنگز کی سولو نمائش ہوئی ۔اکبر مجسمہ سازی میں مہارت رکھتا تھا زیادہ پتھر پر کام کرتا تھا مگر کووڈ کے زمانے میں بھی وہ چین سے نہیں بیٹھا اس نے اپنی بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں کے بل پر لوہے کے کوڑ کباڑ سے نہایت تخلیقی کام کیا اور بہت سے مجسمے بنائے اور اس طرح ایزل آرٹ گیلری میں اس اچھوتے خیال سے تخلیق پائے مجسموں کی ایک کامیاب نمائش ہوئی ۔ اکبر کی شخصیت پر جتنا لکھتے جائیں نہ جی بھرتا ہے اور نہ ہی مواد کم پڑتا ہے مگر اختصار کی ضرورت کے تحت آج ہم اکبر کی برسی کے موقع پر اس کی اگلی منزلوں کی آسانی ، گناہوں کی معافی اور جنت میں اعلیٰ مقام عطا ہونے کی ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ مضمون ختم کرتے ہیں۔ اللّٰہ پاک میرے دوست کے اہل خانہ کوصبر جمیل عطا فرمائے اور بچوں کو خوب ترقی دے روشن نصیب عطا کرے آمین ثم آمین 💖۔


فرحان اعوان 

22 اگست 25 ۔


Farhan Aalam:

فیس بک سے فرحان عالم کی تحریر ۔



اکبر خان کی آج دوسری برسی ہے کل سے کوشش کر رہا ہوں کچھ پوسٹ کروں مگر اکبر کی برسی، یہ الفاظ مجھے بے سدھ سا کردیتے ہیں اتنا دکھ ، قرب کی ایسی کیفیت ہوش اڑا دیتی ہے۔ اکبر خان جو ایک اداکار ، ڈائریکٹر ، مصور اور مجسمہ ساز کے طور پہچان رکھتا ہے وہ بہت اچھا انسان تھا ایسا ہمدرد دوسروں کی آسانیوں کے لئے انتھک محنت اور کوشش کرنے والا درویش میں نے حقیقت میں اکبر خان کی صورت میں ہی دیکھا ہے وہ دوستوں کے درمیان  ایک مضبوط پل تھا ۔ ہردلعزیز اکبر میرا عزیز ترین ساتھی بلکہ میرے ذات کا حصہ تھا آج کے دن نے ہم سے چھین لیا ، آج اکبر خان کی برسی ہے وہ ہمیشہ کے لیے ہمیں چھوڑ کر چلا گیا یہ ہی حقیقت ہے۔ اللّٰہ پاک اکبر خان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین ۔

فرحان عالم


 Imran Zaib: 

اکبر خان واقعی بہت پیارا معصوم انسان تھا، ہر کسی سے خوش اخلاقی سے ملنا اکبر خان کا وتِیرہ تھا، اکبر خان بہت اچھے اداکار تھے پر بَد قسمتی سے انھیں اچھا رول اور ڈائریکٹر نہیں ملا، اکبر خان بھاری بھاری مجسمے بناتے تھے، جِس میں انکے استاد انجم ایاز تھے، اکبر بھائی کو دل کا مریض ہونے کے بعد میں نے اُن سے کئی دفعہ کہا کہ آپ کو سَب جانتے ہیں اب آپ پینٹنگز بھی کرو، پھر انکو استاد کی شکل میں عبدل جبار ملا جِس نے انھیں پینٹنگز میں اچھا گائیڈ کیا پھر اکبرخان بھائی اچھی پینٹنگز بھی کرنے لگے، مجھے دیکھ کر اکبر بھائی کی آنکھوں میں ایک پیاری سی چمک آجاتی، شاید وہ چمک انکی آنکھوں میں سَب سے ملنے پر آتی ہو، پر مجھ سے انھیں خاص انسیت تھی شاید بھائی انعام راجا کہ وجہ سے جنھیں وہ استادوں والا درجہ دیتے تھے،  بھائی انعام راجا کے انتقال کے بعد وہ مجھے اپنا چھوٹا بھائی جیسا سمجھتے، اکثر میرا رشتہ لگانے کے چَکر میں بھی رہتے، میری شادی ہونے کے بعد مجھے نوشے میاں، نوشے میاں کہتے، شُکر گزار قسم کے انسان تھے، میں کہتا اکبر بھائی آپ کافی سنئیر ہوگئے ہیں پر آپ کو بڑے رول کیوں نہیں ملتے، کہتے اللہ کا شکر ہے اب میں اچھے لیول کے اداکاروں میں شمار ہوتا ہوں، میں کہتا اکبر بھائی آپ کا فیس بہت ایکسپریسیو ہے بَس پینسل سے اپنی آئی بَرو گہری کرلیں تو اور زبردست تاثر آۓ گا، پر وہ اُس میں ہی خوش تھے، واقعی اوپر والا اچھے لوگوں کو اپنے پاس جلدی بلا لیتا ہے، اللہ تعالیٰ اکبر خان بھائی کی مغفرت فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین ثم آمین 🤲🏻🤲🏻🤲🏻❤️


Shahid Hussain:

 گروپ کے بہت سے دوستوں کی طرح 

اکبر خان سے بھی میری کراچی میں رہتے ہوئے بھی ملاقات نہیں ہو سکی تھی ،

جس کی کئی بہت سی پیچیدہ وجوہات ہیں جن کا ذکر پھر کبھی سہی لیکن مختصر کہوں تو ان تمام وجوہات کا ذمہ دار میں خود ہوں ،

ورنہ اکبر خان سے جب میری گروپ کے ذریعے سے دوستی ہوئی تو مجھے وہ بالکل وہی دوست لگا جن سے آپ کو فاصلے سے بھی دوستی کے باوجود فاصلہ محسوس نہیں ہوتا ۔


وہ اپنے مزاج میں اس قدر نرمی و انکساری رکھتا تھا 

کہ لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ اپنی ذات  میں ایک انجمن لیے بہت کچھ سمیٹے بیٹھا ہے ۔

زیادہ تر لوگ اسے اداکار ہونے کے حوالے سے جانتے تھے جبکہ وہ بہت اچھا پینٹر مجسم ساز جو بہت سے موضوعات اور میڈیمز میں تجربات کرنے جانتا تھا 

معلوم ہوا کہ اسے اردو ادب سے بے حد لگاؤ تھا لیکن میں نے بہت سے لوگ دیکھے جو ادب سے لگاؤ کے باوجود با ادب نہیں ہوتے مگر  اکبر خان  سچ میں ایک انتہائی مہذب با ادب شخص ،

بلکہ دوست شخص تھا ۔


بس بڑی حیرانی ہوتی ہے کہ آج ہم تیزی سے کتنی عجیب دنیا کا حصہ بنتے جا رہے ہیں کہ،

جس دن کوئی شخص اس دنیا سے جاتا ہے بس چند روز 

ہم چند لوگوں کو کچھ دعائیہ اور تعزیتی کلمات کہتے دیکھتے ہیں بس اس کے بعد اگلے سال تک کوئی کسی کو یاد ہی نہیں رکھتا ،


آخر ہمارے کسی کو یاد رکھنے کے  پیمانے پہلے کیا تھے اور اب کیا ہیں ؟


اس کے جواب میں کوئی مشکل فلسفہ نہیں ہے ، پہلے کسی کا بہترین مخلص دوست ہونا کافی ہوتا تھا ، پھر ایک دور آیا جب کوئی بہت ہی کامیاب فنکار ہو تب ہم اس سے اپنا تعلق بعد تک جوڑتے تھے ،

لیکن اب ہم اس دور میں داخل ہو گئے ہیں جہاں جب تک کسی سے مادی مفادات کا تعلق ہے بس تب تک تعلق ہے ۔


تو پھر تو ہم سچ میں خود ہی اس اس دنیا کے سماجی نظام کو کسی دیمک کی طرح لگ چکے ہیں ، 

جس پہ جب ہمارا ہی وجود محفوظ نہیں ہمیں ہی یہ احساس ہو رہا ہے کہ کوئی ہمیں ہمارے جانے کے بعد دوسرے دن یاد نہیں رکھے گا تو پھر بتائیے اس سماجی نظام کی تعمیر کی ذمہ داری کون لے گا ؟ 

کیونکہ شاید اس دنیا میں اگر سب نہیں تو بہت سے لوگ شاید اس امید پر بھی اچھے کام کرتے ہیں کہ کوئی انہیں جانے کے بعد کچھ وقت تک یاد کر لے گا ۔


بہرحال شاید بات بہت زیادہ گھمبھیر ہو گئی ، لیکن کوشش تو یہی رہی کہ جو فنکار دوست ہم میں سے دنیا سے جائے اس سے جن کا بھی جو بھی تعلق واسطہ ہے وہ کوشش کر کے یا تو اس کے کام پر کچھ اظہار خیال کریں یا اسے کچھ نہ کچھ اپنے تعلق کے حوالوں سے ذکر ضرور کریں،

اگر ہم کسی فنکار کو بہت سی دنیاوی کامیابیوں کے فیتے سے ناپ کر بڑا فنکار نہیں بھی کہہ سکتے تو اچھا دوست تو کہتے ہی ہے نا ،

ہم تو اسے پہچانتے ہی ہیں جانتے ہی ہیں نا ، تو کیا ان باتوں یادوں کا بھی ذکر نہ کیا جائے ؟


فرحان اعوان تمہارا بہت شکریہ تم نے اکبر خان کے حوالے سے اپنے ذاتی جذبات کا اظہار کیا 

اتفاق سے اکبر کی برسی پر ایک اور جو تحریر فیس بک پر نظر ائی وہ بھی کسی فرحان نامی شخص کی ہی ہے ،


اکبر خان بہت نفیس انسان تھا بہترین دوست تھا مگر شاید دوستی کا حق ادا کرنے کے لیے اور اس کے لیے دکھی ہونے کے لیے اس کے نصیب میں فرحان ہی آئے فرحان جس کے معنی خوشی اور شادمانی کے ہیں ،

جو یقیناً اپ دوستوں نے اکبر خان کی زندگی میں اس کے ساتھ وقت گزارتے ہوئے ضرور محسوس کی ہوگی ۔


اللہ اکبر خان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے ۔


شاہد حسین 

22 اگست 25

No comments: