Shahid Hussain:
11 May 25.
ہندوستان پاکستان کے درمیان ہونے والی حالیہ جھڑپوں کی یہ جنگ جس مقام پر وقتی طور پر سہی تھمی ہے، وقت کے اس حصے میں فتح پاکستان کو ملی ہے ۔
اور بلا شبہ اس کا زیادہ تر کریڈٹ پاکستان ایئر فورس کے شاہینوں کو جاتا ہے جنہوں نے دشمن کو دندان شکن جواب دیا ہے ۔
ہر وقوعہ وقت کے کسی بھی حصے میں گزرے اپنے پیچھے نشانات میں بہت سے اعداد و شمار چھوڑ جاتا ہے ،
جن پر تحقیقات کرنے والے تحقیق کرتے ہیں نتائج بنائے جاتے اور پھر نئی اچیومنٹس کی توقعات کے لیے کام شروع ہو جاتا ہے ۔
اس جنگ میں سب سے زیادہ کریٹیکل کردار ہندوستانی نیوز میڈیا کا دیکھا گیا جو دراصل اب بولی وڈ کی ہی دوسری شکل ہے ۔
پاکستان کا فنون سے جڑا ہی نہیں بلکہ عام طبقہ بھی بڑی مدت سے چاہتا ہے کہ ہماری فلم بھی کم از کم اتنی طاقتور ضرور ہونی چاہیے جو ہندوستانی فلموں میں پاکستان کے خلاف جھوٹا زہر اگلا جاتا ہے اس کا اسے اس محاذ پر بھی منہ توڑ جواب دیا جائے ۔
لیکن بدقسمتی سے طویل مدت سے فلم ہمارا نظر انداز ترین شعبہ ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید ہماری دسترس سے دور جا رہا ہے ۔
یہ بھی حیرانی کی بات ہے کہ ایک ابتدائی دور میں اس حوالے سے کچھ کام ہو رہا تھا مگر نہ جانے پھر یہ کام کس نظر ہو گیا ۔
بہرحال اسی موضوع اور اسی وقت کے حوالے سے آپ دوستوں سے ایک پرانی تحریر شیئر کر رہا ہوں ، جو پاکستان ایئر فورس پر بنائی گئی شاید پہلی اور آخری فلم تھی
جس کا نام تھا ،
"قسم اس وقت کی"
دو ڈھائی دہائیاں پہلے اس حوالے سے ایک کوشش کی گئی تھی جب ھالی وڈ میں کچھ فلمی سرگرمیاں سرانجام دینے والے پاکستانی محمود سپرا نے ایک فلم ،
"سورج پہ دستک"
بنانی چاہی اور اس میں اس فلم قسم اس وقت کی کے ایک گانے کو بھی استعمال کیا گیا
مگر یہ فلم مکمل نہ ہو سکی لہذا قسم اس وقت کی ہی اس موضوع پر اکلوتی فلم کہی جا سکتی ہے ۔
شاہد حسین
11 مئی 25
1967، کے دسمبر میں میرے والد ناظر حسین صاحب
اپنے بڑے بھائی سے کاروباری اور گھریلو اختلافات کی وجہ سے اپنے فلم کے عروج کا دور چھوڑ کر کراچی شفٹ ہو گئے ۔
یہ شہر ان کے لئے بالکل اجنبی تھا
سوائے سلیم چچا جو ان کے شاگرد سے زیادہ دوست تھے اور اس دوران کراچی میوزیم میں جوب کر رہے تھے اس لئے آرٹسٹوں کے حلقے میں خاصی جان پہچان رکھتے تھے ۔
انہوں نے ابو کی مختلف لوگوں سے ملاقاتوں کے سلسلے میں ان کے میو اسکول فیلو آرٹسٹ آفتاب ظفر صاحب سے ملاقات کروائی
تو انہوں نے ابا کو اپنے بالکل نئے قائم کئیے ہوئے آرٹ اسکول ، پاکستان آرٹ انسٹیٹیوٹ میں اسکلپٹر کلاس لینے کی اس کنڈیشن میں آفر کی کہ وہ وہاں ساتھ کچھ شیئرنگ میں اپنے کمیشنڈ پروجیکٹس بھی کر سکتے ہیں ۔
1968 یہ وہ وقت تھا جب قسم اس وقت کی ، فلم کا کچھ کام کراچی میں بھی ہو رہا تھا جس میں اس فلم کی اسٹلز اور پوسٹرز وغیرہ پر کام ہو رہا تھا جو پین اینڈ آنک میں آفتاب ظفر صاحب بنا رہے تھے ۔
جبکہ اس فلم کے ڈائریکٹر اے جے کاردار صاحب تھے جو ،
1959 میں غالباً پاکستان کی پہلی آرٹ فلم بنا چکے تھے ،
The Day Shall Dawn ,
جاگو ہوا سویرا ،
جسے بین الاقوامی طور پر سراہا گیا اور یہ پاکستان کی پہلی فارن لینگویج کیٹگری میں بتیسویں آسکر کے لیے بھیجی گئی فلم تھی ، جو وہاں سلیکٹ تو نہ کی گئی لیکن پہلے ماسکو انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں اس نے سونے کا تمغہ حاصل کیا ۔
تو "قسم اس وقت کی" کے بھی یہی ڈائریکٹراور فیض احمد فیض صاحب نے اس کا سکرین پلے لکھا تھا ،اور یہ پاکستان ایئر فورس پر بنے والی بھی پہلی لحاظہ یہ ایک اہم فلم تھی ۔
اس کا کچھ کام میرے والد کے حصے میں بھی آیا یہ پلاسٹر آف پیرس میں بننے والے وہ فائٹر جہاز تھے
جو اس وقت پاکستان ایئرفورس کے استعمال میں تھے ،
جن کے ماڈلز بھی فراہم کیے گئے تھے ۔
میری عمر اس وقت چھ سال تھی اور ان ماڈل مگر کھلونا نما ہوائی جہازوں میں میرا دلچسپی لینا لازم تھا ،جنہیں ہاتھوں میں تھامے اُڑاتے ہوئے ان کی بابت جب میں ابو سے بات کرتا تو وہ مجھے تب میری اس ایج میں بھی بڑی تفصیل سے وجہ بتائی کہ یہ پلاسٹر آف پیرس میں کیوں بن رہے ہیں ۔
اے جے کاردار صاحب ایک پروفیشنل فلم ڈائریکٹر تھے وہ اس فلم کے لیے لائبریری فلمز اسٹاک استعمال نہیں کرنا چاہتے تھے ،
لائبریری اسٹاک سے مطلب انگریزی فلموں کے وہ ٹکڑے ہیں جن میں جنگوں کی تباہی اور دیگر بے شمار مناظر موجود ہوتے تھے جنہیں ہمارے فلم میکر فلم کا بجٹ بچانے کے لئے ان کا استعمال کرلیتے تھے لیکن وہ بہت سے ٹیکنیکل مسائل کی وجہ سے فلم میں الگ سے پہچانے جاتے تھے ۔
اسی لئیے کاردار صاحب انہیں خود پکچرائز کرنا چاہتے تھے ،
چنانچہ پلاسٹر آف پیرس کے جہازوں کو پینٹڈ سکائی پر رکھ کر بلاسٹ کرکے پکچرائز کیا گیا تھا ۔
11 دسمبر 1969 کو یہ فلم ریلیز ہوئی ، ابا ہمیں دکھانے لے کر گئے لیکن وہ جن جہازوں کو میں بڑے شوق سے بنتے ہوئے دیکھتا رہا
انہیں تباہ ہونے کے مناظر نہ دیکھ سکا اور تقریباً فلم میں نے سو کر گزار دی ۔
بعد میں پتہ چلا کہ یہ فلم بہت سے لوگوں نے اسی طرح دیکھی ،یوں کہ یہ فلم بری طرح سے فلاپ ہوگئی تھی ،
لیکن اس کا ریکارڈ کہیں نہ کہیں ہونا چاہیے تھا ،جو کہ نہیں رکھا گیا اور وہ جو میرے ابا کے کریڈٹ پر ایک اہم فلم کے کریڈٹ ٹائٹلز میں نام ہونا تھا ،
اس فلم کے ساتھ وہ بھی کھو گیا ۔
شاہد حسین
3 جون 22
No comments:
Post a Comment