یہ خوبصورت السٹریشن ، تمثیل ایک کہانی کی ہے جس کا عنوان ہے "حقیقی شہزادی" لیکن عام طور پر یہ کہانی "شہزادی اور مٹر" کے نام سے جانی جاتی ہے،
اس السٹریشن کو فرانسیسی مصور ایڈمنڈ ڈولک نے 1911 میں بنایا ۔
Dulac
ان بہت سے عظیم فنکاروں میں سے ایک ہے جو بیسویں صدی کے اوائل میں لوک قدیم داستانوں اور کہانیوں کو باتصویر کرنے کے سنہری دور سے تعلق رکھتے تھے۔
یہاں نظر آنے والی تصویر ایک رنگین پلیٹ ہے، لیکن اصل میں اسے Dulac نے کاغذ پر پانی کے رنگ، گواچ، قلم اور سیاہی کا استعمال کرتے ہوئے کھینچا تھا۔
"The Real Princess" ("The Princess and the Pea")
کی کہانی پہلی بار 1835 میں شائع ہوئی تھی۔ یہ بہت سی ،
Fairy tales
پریوں کی کہانیوں میں سے ایک تھی جسے ہنس کرسچن اینڈرسن نے Tales, Told for Children, First Collection میں رکھا تھا۔ اس کہانی میں ایک شہزادہ شادی کے لیے ایک حقیقی شہزادی کی تلاش میں ہے۔
جبکہ ہر وہ دوشیزہ جو خود کو حقیقی شہزادی کے طور پر پیش کرتی ہے وہ حقیقی شہزادی نہیں ہوتی۔ جب اس کہانی کی ہیروئین حقیقی شہزادی بارش کے طوفان کے دوران شہزادے کے قلعے میں پناہ لیتی ہے تو وہ اپنے آپ کو شہزادی کے طور پر متعارف کراتی ہے۔ شہزادے کی ماں شہزادی ہونے کی دعویدار لڑکی کو رات گزارنے کی دعوت دے کر جانچنے کی غرض سے بیس گدوں اور بیس لحافوں کے درمیان ایک مٹر رکھ دیتی ہے۔
جس کی وجہ سے لڑکی کو رات بھر نیند آنے میں سخت دقت ہوتی ہے اور بے شمار گدوں میں چھپے مٹر کی موجودگی سے جاگتی رہتی ہے۔ اس کی شاہی حساسیت شہزادے کو بتاتی ہے کہ لڑکی دراصل ایک حقیقی شہزادی ہے یوں دونوں کی شادی ہو جاتی ہے اور مٹر کو شاہی میوزیم میں مستقل نمائش کے لیے رکھا جاتا ہے۔ ہینس کرسچن اینڈرسن نے کہا ہے کہ اس نے پہلی بار یہ کہانی اس وقت سنی جب وہ 1800 کی دہائی کے اوائل میں اوڈینس، ڈنمارک میں بچپن گزار رہے تھے ۔
اس ٹکڑے میں، مصور ڈولک نے شہزادی کو گدوں اور بستروں کی تہوں کے اوپر بیٹھا دکھایا ہے۔
جیسے وہ نیند سے اٹھ بیٹھی اور چین لگ رہی ہے۔
جبکہ شہزادی اس بات سے ناواقف ہے کہ بستر کے درمیان ایک مٹر چھپایا ہوا ہے۔ اس کا نرم اور حساس شاہی پرورش شدہ خون فوراً مٹر کو بستر میں ایک سخت جگہ سمجھتا ہے، جو اس کی نیند کو متاثر کرتا ہے۔ اگر آپ قریب سے دیکھیں تو آپ نیلے اور سفید چیکر والے بستر کے اوپر مٹر کو دیکھ سکتے ہیں، جسے حال ہی میں بستر سے گرا ہوا دکھایا گیا ہے۔
ویکیپیڈیا، سے ترجمہ ،
Hans Christian Andersen,
نے اس کہانی کا ماخذ اپنے بچپن کی سنی ہوئی ڈینش کہانی کو بتایا ہے ،
جبکہ اس کا سب سے پرانا ذکر کتھاسریتساگرا کی 12ویں کتاب ("کہانی کی ندیوں کا سمندر") میں پایا جاتا ہے،
سنسکرت میں ایک کام جو 11ویں صدی میں سومادیو نے مرتب کیا تھا ، اور اپنی پرانی اصل حالت میں اب یہ ناپید ہو چکا ہے
یہ درحقیقت چوبیس کہانیوں پر مشتمل تھا،جس میں پھر پچسویں کہانی شامل کی گئی اور یوں یہ بیتال پچیسی کے نام سے مشہور ہوئیں ۔
ویتالا کی یہ کہانیاں ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں پڑھی گئیں اور ان کا ہندوستانی مقامی زبانوں کے ساتھ کئی بین الاقوامی زبانوں میں بھی ترجمہ کیا گیا ہے ۔
اسی میں یہ کہانی بھی ہے کہ ایک شہزادے کی جانچ کے لیے اس کے بستر میں ایک بال چھپا دیا جاتا ہے جس کا نشان صبح اس کی کمر پر موجود ہوتا ہے ۔
ایک وقت میں دور درشن پر اسے سیریز کے طور پر بھی بنایا گیا تھا ۔
لیکن جو مزہ ان کہانیوں میں ہے وہ اس سیریز میں نہیں تھا ۔
شاہد حسین
2 دسمبر 24
No comments:
Post a Comment