Saturday, August 9, 2025

Wet Canwas


 2000 کے قریب قریب کی بات ہے جب پاکستان میں کمپیوٹر ،انٹرنیٹ اور ویب سائٹس کا استعمال عام ہو رہا تھا ،

تو اسی دور میں ،

Wet Canvas,

 نامی ایک آرٹ کے مختلف میڈئیمز پر کریٹیکل اور تعریفی 

فیڈ بیک دینے کی سائٹ کا قیام عمل میں آیا جو جلد ہی دنیا بھر کے مصوروں کا پسندیدہ فورم بن گئی اور اسی دور میں ہمارے دوست مقبول احمد میں اور دیگر دوست بھی اس فورم کا حصہ بنتے چلے گئے ۔


اس سائٹ کا کانسپٹ ہی یہی تھا کہ آپ نے جو کام کیا ہے اسے بس گیت سمجھیے گیلی حالت میں ہی دوستوں کی محفل میں شیئر کر دیں اور اس پر دوستوں سے رائے لیں ،

ایک حصے میں صرف تعریف ہوتی تھی جبکہ ایک حصے میں کریٹیکل رائے دی جاتی تھی ۔


 ہم اکثر اپنا کام وہاں شیئر کرتے اور اس سائٹ کو خوب انجوائے کرتے لیکن کہیں نہ کہیں ہمارا اپسی ایک مکالمہ ضرور تھا کہ ہمارے یہاں پر بھی ہمارے فنکاروں کے لیے کوئی ایسی سائٹ ہونی چاہیے جہاں ہم اپنی زبان میں کسی دوستانہ محفل کی طرح اپنے فنکار دوستوں کے کام پر بات کر سکیں ۔

2015 سے 16 تک 

پھر یہی کانسپٹ تھا جو واٹس ایپ پر گروپ بنانے کی سہولت ملنے کے بعد 

 چند دوستوں نے شروع کیا ۔

اس دور میں فیس بک پہلے سے ہی بہت عام ہو چکا تھا جس پر ارٹسٹ دوست اپنا اکاؤنٹ بنا کر اپنا کام شیئر کرتے تھے ،

مگر اس پر بہت سے لوگوں کے لیے لکھنا بولنا آج ہی کی طرح مشکل تھا لہذا بات چند تعریفی جملوں سے آگے نہیں جاتی تھی ۔

جبکہ ہمارا خیال تھا کہ جس طرح سے کوئی بھی کھیل کھیلنے والے دوسرے کھلاڑیوں کے کھیل پر تبصرہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں ،

یہاں تک کہ کوئی مکینیکل کام کرنے والے بھی اپنے درمیان اچھے مکینکس کے کام پر رائے دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں،

شاعر اور ادیب تو اس سلسلے میں کمال طریقے کی داد اور تنقیدی مکالمہ کرنے میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں تو کہیں نہ کہیں ایک مصور طبقہ بھی اپنا کام کرتے ہوئے ایسے تجربات سے ضرور گزرتا ہے جو 

مصوری سے تعلق رکھنے والوں کے یونیورسل احساسات و جذبات اور دیگر روحانی کیفیات سے لے کر ٹیکنیکی اعتبار سے بہت سے معاملات میں ایسی یکساں ضرور ہوتی ہیں جن کے بارے ایک مصور بھی دوسرے مصور کے کام پر بات کر سکتا ہے ،

وہ چاہے مٹیریل کے بارے معلومات ہوں ، کینوس سٹریچ کرنے سے لے کر پرائم کرنے تک اور اسی طرح سے مصوری کے بارے بہت سی ٹیکنیکی معلومات سے لے کر اس کی تعریف اور تنقید تک کرنے کے حوالے سے صرف کوئی کریٹک یا لکھاری ہی نہیں بلکہ ایک مصور بھی اپنے پاس معلومات ضرور رکھتا ہے ۔


تو ہم نے ایسے دوستوں پر مشتمل گروپ بنانے کی کوشش کی جس میں کسی بھی مخصوص ٹائم فریم کے اندر کوئی مصور اپنا کام سمجھیے کہ 

تازہ بہ تازہ ایزل پر رکھی حالت میں ہی 

دوستوں سے شیئر کر دے ۔

اور اس پر چاہے دوستوں کی محدود سی محفل ہو لیکن ہر کوئی اپنی چند ریڈی میڈ قسم کے جملوں سے بڑھ کر رائے ضرور دے ۔ 

ابتدائی دور میں ہمارے اس خیال کو بہت پذیرائی ملی ،

بیس سے بائیس دوستوں کے گروپ میں 70 فیصد دوست رائے ضرور دیتے تھے ،

پھر ہمارے گروپ کی شہرت بڑھنے لگی اور دوستوں کے دوست شامل ہوتے چلے گئے ، 

اور یوں ڈھائی سو سے زائد دوست بھی گروپ میں شامل ہو گئے ،

مگر پھر ہمارا کونسپٹ اپنے نمبر کھونے لگا ، یہاں تک کہ کم ہوتے ہوتے یہاں تک پہنچ گیا ۔


اب یہاں سوچنے کی بات تھی کہ ایسا کیوں ہوا ؟


اس کی بالکل بنیادی باتوں میں دو تین ہیں جن میں سے کسی ایک کو پہلی قرار دینا مشکل ہے لیکن پھر بھی اگر اس کی ترتیب بیان کی جائے تو ،

وہ جو تقریباً ایک درجن کے قریب ایسے اساتذہ دوست تھے ان کے درمیان اپس میں کچھ ایگو کے مسائل آنے لگ گئے اور وہ ٹیم ٹوٹتی چلی گئی ۔ ۔ 


دوسرا اہم مسئلہ تھا کہ ہم فنکار دوستوں کو اپنا کام گروپ میں رکھنے کے لیے کچھ ابتدائی شرائط پوری کرنے کا کہتے تھے ،

جیسے کہ اپنے کام کا میڈیم ، سائز ، ٹائٹل ، اگر کانسپچول کام ہے تو اپنا کانسپٹ ،  سٹیٹمنٹ یا تھوڑا سا اپنے بارے تعارف اور اسی طرح دوستوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ وضاحت کہ وہ صرف تعریف چاہتے ہیں مشورہ یا کڑی تنقید ؟

 وہ یہ بنیادی شرائط ضرور پوری کریں ،

جبکہ وہ بس خاموشی سے اپنا کام شیئر کرنا اور اس کے علاوہ ایسی کوئی ریکوائرمنٹ پوری نہیں کرنا چاہتے تھے ۔

تیسری اہم وجہ میں 

مہمان بنائے جانے والے دوست تعریف تو خاموشی سے سنتے رہتے تھے مگر تھوڑی سی تنقید پر بھی بھڑک اٹھتے ،

اور تنقید کرنے والے کو پلٹ کر ایسا جواب دیتے کہ تنقید کرنے والا صرف تنقید سے ہی نہیں تعریف سے بھی توبہ کر لیتا ۔


جبکہ متوازن رائے دینے والوں کو جواب میں کئی بار 

خاموشی یا پھر دو چار لفظی  شکریے سے نواز دیا جاتا ،


اور اس میں یہ نہ خیال رکھا جاتا کہ ایک ایسا سماج جہاں پر کپڑوں کو رنگنے والا استاد سوڈے کی چٹکی ملانا بھی شاگردوں کو بڑی مشکل سے بتاتا ہو ، وہاں اگر کوئی آرٹسٹ استاد اپنی زندگی بھر کے تجربے کو کسی تعریف مشورے یا تنقید کی شکل میں 

بیان کر رہا ہے تو اسے شکریہ بھی کم از کم اتنے الفاظ میں اگر نہ سہی مگر کم از کم کچھ ہماری اعلی تہذیبی ثقافتی اقدار کے مطابق کچھ نہ کچھ ضرور مطابقت کے مطابق ہو ، مگر ان باتوں کا خیال نہ رکھا گیا ۔


اسی طرح سے چوتھے اہم ترین مسئلے میں جب کئی بار خود ان تکنیکی رائے دینے والے اساتذہ نے گروپ میں اپنا کام رکھا تو وہ بہت سے دوست جن کے کام پر وہ رائے دیتے رہتے تھے وہ تک ان کے کام پر منہ میں خاموشی گھنگنیاں ڈال کر بیٹھے رہتے تھے ،

اس جواز کے تحت کہ اپ اساتذہ کے سامنے ہم کوئی بات کرنے کی کوئی اہلیت حیثیت و ہمت بھلا کہاں رکھتے ہیں ،

جس نے ٹیکنیکلی طور رائے دینے والے اساتذہ کو رفتہ رفتہ بالکل خاموش کر دیا ،

سوائے مجھ جیسے دو تین دیوانوں کو جو خاموش نہیں ہونا چاہتے تھے ،

ان میں سے میں نے تو باقاعدہ ان وجوہات کو بیان اور بہت سے دوستوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ دیکھیے یہ وہ وجوہات ہیں جو اس گروپ کو خاموشی کی طرف لے کر جا رہی ہیں ،

مگر وہ جواب میں مجھ سے بحث کرتے تھے اور مجھے مکو ٹھپ قسم کے حل بتاتے تھے کہ نہیں اپ اپنا کام جاری رکھیے ،

اور یہ مشورہ بالکل ایسے ہی ہوتا 

جیسے کسی شخص کو فٹبال کھیلنے کی ٹیم دستیاب نہ ہو رہی ہو مگر اسے کہا جائے کہ تم اپنا کھیل جاری رکھو ۔

تو جس کی پوائنٹ کو نہیں سمجھا گیا 


وہ اوور آل ارٹسٹ کمیونٹی کی اکثریت  کی ایک ایسی خود ہٹ دھرمی یا غرضی  تھی جس میں وہ اپنے کام پر تو بات کروانی یا کرنی جانتے تھے مگر کسی بھی دوسرے فنکار کے کام پر اپنی رائے نہیں دینا چاہتے تھے ۔


اور اپنی اس خاموشی کی بے شمار علتیں ، دقتیں اور وضاحتیں تو دیتے تھے مگر اس کے نتائج کو سمجھنا یا ان سے متفق ہونا نہیں چاہتے تھے ۔

وہ بس ایک ایسا ائیڈیل اور بے لاس قسم کا نظام چاہتے تھے جو انہیں اپنے علمی تجربات کی ادائیگی تو کرے مگر انہیں جواب میں کچھ لوٹانا نہ پڑے ،

دوسرے تو ان کے کام کو اہم سمجھتے ہوئے اس پر اپنی رائے دیں مگر وہ دوسروں کے کام پر اپنی رائے دینے میں اپنے علمی تنگی ، یا کسی بھی دقت کو جواز بنا کر خاموش رہیں ۔

کئی بار تو وہ اپنی خاموشی کو ہی سب سے مقدس ترین جواز کے طور پر پیش کرتے ،

اور پھر یہی مقدس عقیدہ دوسرے بھی اپناتے چلے گئے ۔


یہاں تک کہ یہ بہترین مقصد ہی فوت ہو گیا ۔


شاہد حسین 

20 جنوری 25

No comments: