1955 سے 1975 تک میرے والد ناظر حسین صاحب نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں بطور اسکلپٹر ، اورنامنٹ موڈلر اور سیٹ ڈیزائنر کے ایک مصروف وقت گزارا پھر 1985 تک یہ سلسلہ رفتہ رفتہ بالکل معدوم ہو گیا ۔
اس کی بہت سی وجوہات ہیں جو پاکستانی فلم انڈسٹری سے متعلقین یا فلموں کا شوق رکھنے والے جانتے ہیں ۔
آج ہمیں اس دور کی بہت سی پاکستانی فلموں کا کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی شکل میں ریکارڈ مل ہی جاتا ہے لیکن عجیب اتفاق ہوا کہ
جن فلموں کے لیے میرے والد نے بہت خاص کام کیے خاص طور پر وہی فلمیں کسی بھی محفوظ یا واضح شکل میں عدم دستیاب ہو گئیں ۔
جیسے کہ 1976 میں نیفڈیک نے ایک فلم بنائی ،
Human Happiness.
بدھا کے موضوع پر جس کے ڈائریکٹر تھے اے جے کاردار لیکن وہ فلم مکمل ہونے کے باوجود انگلینڈ میں جب لیبارٹری پروسیسنگ کے لیے گئی تو پھر کبھی پاکستان واپس نہ آئی ، جس میں میرے والد نے بدھا کے مجسمے کے کئی مختلف سائزز کے ورژن بنائے تھے لیکن خاص طور پر ایک 14 فٹ ہائٹ کا مجسمہ تھا جسے کراچی کے قریب ہالے جی جھیل کے کنارے نصب کر کے ارد گرد بانسوں سے ایک ٹیمپل تعمیر کر کے شوٹنگ کی گئی تھی ۔
اسی طرح سے دیگر کئی فلموں میں جو اس دور میں بڑے بڑے مجسمے اور سیٹس لگائے گئے ان کا کوئی بہتر حالت میں ریکارڈ دریافت اور تلاش کرنا ناممکن ہو گیا ۔
1962 میں ایک اٹالین کمپنی کالی دیوی کے مندر میں ایک تہوار دسہرے کو موضوع بناتے ہوئے ہندوستان میں ایک فلم مکمل کرنا چاہتی تھی جس کے اختتام پر انہوں نے کالی دیوی کے مندر کو تباہ ہوتے دکھانا تھا مگر بہت سی وجوہات کی بنا پر ہندوستان نے انہیں اس فلم کی وہاں پروڈکشن کی اجازت نہ دی ،
چونکہ انہیں اس فلم کے لیے ایسے بہت سے معاون اداکاروں کی ضرورت تھی جو اپنے چہرے مہرے سے ہندوستانی لگتے
لہذا انہوں نے اسے پاکستان میں مکمل کرنے کا فیصلہ کیا ،
یوں 1962 میں اس فلم کا کام لاہور کے سٹوڈیوز میں شروع ہوا ،
انہیں یہاں پر اس فلم کے سیٹس کے لیے اورنامنٹ اور مجسمے بنانے کے لیے
ایک آرٹسٹ کی ضرورت تھی اور یہ دور میرے والد کا فلم انڈسٹری میں بہترین کام کرنے والے کے حوالے سے
عزت اور شہرت کا دور تھا سو اس کا کام انہیں سونپ دیا گیا ۔
میری تو پیدائش ہی 1962 دسمبر کی ہے لیکن اس دور کی بے شمار خوبصورت یادیں تھیں جو میرے والد مجھ سے اکثر ذکر کرتے تھے ،
کہ کس طرح سے وہ بہت سے کام اپنی اس مینول ٹیکنیکس سے کرتے تھے جنہیں اٹالین سیٹ ڈیزائنر جو کہ ساتھ آئے ہوئے تھے وہ بھی دیکھ کر حیران ہوتے تھے ،
اور ان میں سے اکثر لوگ ابا کے اسٹوڈیو میں ان کے ساتھ بہت وقت گزارتے ،
وہ ان کے ساتھ یہاں کے مقامی کھانے کھاتے اور اس میں شامل مرچوں کی تعریف اپنے انداز میں کرتے ،
پھر اسی طرح اس فلم کے کچھ دیواری مجسمے براہ راست اسٹوڈیو کے فلورز پر بنائے گئے ،
(فلورز ان بڑے بڑے ہالز کو کہتے ہیں جہاں سیٹس لگائے جاتے ہیں)
تو جب وہاں کئی راتوں کو جاگ جاگ کر ان پر کام ہو رہا ہوتا تو ابو بتاتے تھے کہ وہاں جو چند معاون ساتھ موجود ہوتے ان کے لیے اچھا خاصا خوف کا ماحول بن جاتا تھا ۔
جب اس فلم کا کام مکمل ہو گیا اور اٹالین پروڈکشن ٹیم پاکستان سے واپس جا رہی تھی تو وہ میرے والد کو اٹلی ساتھ لے جانا چاہتے تھے ،
لیکن اب اس بات کو کیسے بیان کیا جائے کہ میرے والد عجیب من موجی درویش اور ایسے عجیب مزاج شخص تھے کہ ،
اس کی آج کے وقت میں تعارف و وضاحت دینا انتہائی مشکل کام ہے بہرحال وہ اپنی فیملی کے ساتھ گہری اور دیگر جذباتی وابستگیوں کی بنیاد پر نہیں گئے ۔
اور ان کے لیے یہ وقت اور اٹلی جانے کی پیشکش میں تب زیادہ خوبصورت یاد کا عنصر پیدا ہوا جب انہیں بہت بعد میں کچھ گمنامی اور نظر اندازی کے وقت کا سامنا کرنا پڑا،
لیکن تب تک اس دور کی خوبصورت یادوں کا بھی کوئی تصویری یا ڈاکومنٹڈ پروف ڈھونڈنا مشکل ہو چکا تھا ،
یہ فلم اور اس فلم کا نام میرے والد کی یادداشت سے ہی نہیں بلکہ پاکستانی فلم سے منسلک بہت سے لوگوں کی یادوں سے بالکل بھلا دیا گیا تھا اور پاکستانی فلم ڈیٹا بیس تو کیا خود اٹالین ڈیٹا بیس سے اسے ڈھونڈنا مشکل ہو چکا تھا ۔
31 دسمبر 2008 میں میرے والد کا انتقال ہو گیا ۔
میں ان کی زندگی میں بھی ان کے کام کو ان کی بیان کی گئی یادوں کو کچھ نہ کچھ سنبھالنے کا اہتمام تو کرتا تھا مگر ان کے بعد تو جیسے میرے لیے یہ کسی مقدس فریضے کی طرح سے ہو گیا ۔
لیکن مسئلہ تھا کہ وقت قسمت اور کچھ خود انہوں نے بھی اپنے کام اور خود سے جڑی چیزوں کو اس طرح سے چھپایا تھا کہ انہیں ڈھونڈنا کسی ناممکن کام کی طرح سے مشکل تھا ۔
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ یہ مشکل کے باوجود مجھے عجیب کسی طلسماتی دنیا کے کھیل کی طرح سے دریافت ہوتے تھے ۔
میرے والد نے اپنی زندگی میں جو یادگاری کام کیے تھے ان میں سے ایک 1967 میں راولپنڈی کمیٹی چوک میں لاہور ایورنیو سٹوڈیو کے مالک اغا جی اے گل صاحب کا بننے والا ایک سینما شبستان بھی تھا جس کے دیواری مجسموں کا کام کیا گیا ، جسے ہم اکثر جب بھی راولپنڈی جاتے تو فلم دیکھنے کے بہانے دیکھنے جاتے تھے ۔
31 دسمبر 2008 میں میرے والد کے انتقال کے بعد ،
2013 میں میں شبستان سینما کی ہسٹری انٹرنیٹ پر ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اچانک ایک اشتہار پر نظر پڑی کہ سینما بک رہا ہے ،
میں نے اس کے اس دور کے موجودہ مالک آغا جی گل صاحب کے بیٹے اعجاز گل صاحب سے رابطہ کیا اور ان سے اپنے والد کا تعارف کروانے کے بعد ملاقات کا وقت مانگا جو اس وقت اسلام اباد جیو ٹی وی کے لیے
کسی عہدے دار کے طور پر کام کر رہے تھے ۔
میں نے اس ملاقات میں اعجاز گل صاحب کو انتہائی نفیس مہذب اور ہمدرد شخص پایا جب میں نے ان سے یہ گزارش کی کہ آپ کا سینما تو بک رہا ہے جس پر لازمی کوئی شاپنگ پلازہ بنے گا تو میرے والد کا یہ کام تو شاید ضائع چلا جائے تو کیا آپ مجھے یہ اتارنے کی اجازت دے سکتے ہیں ؟
یقین جانیے انہوں نے اس قدر خوبصورت الفاظ کہے کہ آج بھی وہ میرے دل پر نقش ہیں ۔
انہوں نے کہا شاہد صاحب آپ کے والد ناظر حسین صاحب ایک عظیم فنکار تھے ان کا یہ کام ہمارے سینما کا تاج رہا ہے ، اور میرے لیے یہ بڑی خوشی کی بات ہوگی کہ آج اس تاج کو میں اس کے صحیح حقدار کے حوالے کر دوں ۔
سچ میں اعجاز گل صاحب ایک بڑے باپ کے بڑے بیٹے ہیں ،
میں آپ کو باقی کی تفصیل بتا نہیں سکتا کہ اس سلسلے میں کام کو اتارنے کے لیے سینما کی انتظامیہ نے مجھ سے کس قدر تعاون کیا ، جب رات 12 بجے آخری شو ختم ہو جاتا تو ہم جلدی جلدی وہاں بانسوں سے پرانچ لگاتے اور وہاں سے کام کو اتارنا شروع کرتے ۔
غالباً جولائی 2014 میں ہم نے یہ کام مکمل کیا ۔
اسی دوران میں نے اعجاز گل صاحب سے اس اٹالین فلم ،
KALI YUG.
The mystery of the Indian temple. 1963.
کے بارے بھی دریافت کیا جبکہ تب تک مجھے اس فلم کا ٹھیک نام بھی نہیں مل سکا تھا ،کہ کیا ایورنیو سٹوڈیو کے پاس اس کا کوئی ریکارڈ دستیاب ہوگا ؟
تو اعجاز گل صاحب نے کہا کہ شاہد صاحب ہم خود بھی اس فلم کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور میں نے اس سلسلے میں کئی بار اٹالین ایمبیسی سے رابطہ بھی کیا ہے لیکن فی الحال اس کے بارے کوئی ڈیٹا نہیں مل پا رہا ۔
لیکن میں نے اس فلم کو ڈھونڈنے کی کوشش کو ترک نہیں کیا اور میری اس سلسلے میں کھوج جاری رہی ،
اور پھر اب سے کوئی ڈیڑھ ماہ پہلے بالآخر مجھے اس فلم کا ریکارڈ یوٹیوب پر دستیاب ہو گیا،
جب میں نے اسے دریافت کیا تو یہ کوئی دو ماہ پہلے فلم اپلوڈ کی گئی تھی ۔
اور پھر میں اسے دیکھ کر حیران ہو گیا کہ اس میں جو کالی دیوی کا اور دیگر مجسمے بنائے گئے تھے جو سیٹس لگائے گئے اور اس میں اورنامنٹس تھیں وہ بالکل ویسے ہی تھیں جیسی میرے والد اپنی یادوں کو کسی کہانی کی طرح بیان کرتے اور کچھ اسکیچز کرتے ہوئے بتایا کرتے تھے ۔
یہ بھی شکر ہے کہ یہ فلم بہت اچھے رزلٹ میں ہے لہذا
اس میں ان کے کام کی بہت سی کوالٹیز کو بخوبی دیکھا جا سکتا ہے ۔
اس فلم کے حوالے سے میں ان یاداشتوں کو اپنے والد اور اپنے استاد ناظر حسین سے منسوب کرتے ہوئے استاد ڈے پر انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں ۔
شاہد حسین
15 جون 25