Friday, September 12, 2025

فن آور طاقت


 Shahid Hussain:

12 Sep 25.


 دوست اب یقیناً جانتے ہیں کہ ہمارا مقصد ہی بشمول پاکستان کے تمام مشہور لیجنڈ ، عہد حاضر کے مصوروں  اور ان فنکاروں پر بھی بات کرنا، جو کہیں گزرتے وقت کی دھول میں گمنام ہوتے گئے یا انہیں ان کے وقت میں بھی  فنی قد و قامت کے اعتبار سے  جانا نہیں گیا ،

لیکن اکثر دیکھا گیا کہ جب ہم کسی بھی غیر معروف شہرت سے محروم رہ جانے والے فنکار پر بات کرتے ہیں تو کچھ دوست یہ بھی رائے دیتے ہیں کہ دیکھیے اگر اس فنکار میں دم خم ہوتا تو وہ یقیناً خود کو منوا لیتا ۔


کیا یہ رائے ٹھیک ہے ؟

کیا کسی باشعور سماج کا کسی فنکار کی کامیابی کو جانچنے کا یہ طریقہ کار درست ہے ؟


یہ تو طاقت اور فن  کو ناپنے کا ایک طرح سے پسماندہ سماجوں کا گوریلا رویہ ہے ۔


انسانی ارتقاء کی کہانی دراصل طاقت سے شعور تک کا سفر ہے۔

 ابتدائی حیوانی دنیا میں، خصوصاً گوریلوں جیسے جانداروں میں، کسی کی اہمیت کا معیار صرف ایک تھا، "طاقت" یعنی جو لڑائی کے میدان میں غالب آ جائے، وہی لیڈر، وہی قابلِ قبول۔

 اس ماحول میں فن، احساس یا فہم کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔


انسان جب شعور اور تہذیب کی طرف بڑھا تو اس کے پیمانے بدلنے لگے۔ فن، علم، فکر اور اخلاقیات کو بھی مقام ملا، یوں شاعر کو اس کے لفظوں سے، مصور کو اس کے رنگوں سے اور ادیب کو اس کی فکر سے پہچانا جانے لگا۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ دنیا کے کئی پسماندہ سماج آج بھی اسی گوریلا رویے کے اسیر ہیں۔


ایسے معاشروں میں کسی فنکار یا دانشور کی اصل شناخت کو اس وقت تک تسلیم نہیں کیا جاتا جب تک وہ زندگی کے کسی مادی میدان میں "فتح" حاصل نہ کرے۔ گویا شاعر کی عظمت اس کی شاعری میں نہیں بلکہ اس کی ایسی عملی کامیابی میں ہے، جہاں اس کی مشاعروں میں کامیابی یا شعری مجموعوں کی عوامی پذیرائی ہے ۔

 مصور کی قدر اس کے فن پارے میں نہیں بلکہ اس کی پینٹنگ کی قیمت ، شہرت یا کوئی مقابلہ جیتنے میں ہے۔

اس طرح سے تو علم اور تخلیق وہاں ثانوی ہو جاتے ہیں، اور کامیابی کی پرانی تعریف، یعنی کسی میدان میں دوسروں کو شکست دینا  ہی سب کچھ ٹھہرتی ہے۔


یہ رویہ اس بات کی علامت ہے کہ ایسے معاشرے ابھی تک ذہنی ارتقاء کے اس مرحلے سے آگے نہیں بڑھ پائے جہاں فن اور فکر کو اپنی اصل بنیاد پر سراہا جاتا ہے۔

جبکہ ترقی یافتہ سماج اس فرق کو سمجھتے ہیں کہ فنکار کا اصل مقام اس کی تخلیق ہے، نہ کہ اس کی دنیاوی جیت۔ 

وہ اپنے اندر فہم و فراست کی ایسی انکھ رکھتے ہیں جس میں وہ شہرت وہ کامیابی کو ثانوی حیثیت دیتے ہیں اور کسی فنکار کے فن کی اصل اساس کو پہچانتے ہیں ۔


جب تک پسماندہ معاشرے اس حقیقت کو قبول نہیں کرتے، وہ "انسانی شعور" کے بجائے "گوریلا شعور" میں ہی قید رہیں گے۔


شاہد حسین 

12 ستمبر 25

No comments: