Monday, September 22, 2025

تنقید اور انصاف


 کیا ہم کسی فنکار کے آرٹ پر تنقید کرتے ہوئے کلی طور پر انصاف کر سکتے ہیں ؟


میرے خیال میں تو شاید انصاف اس دنیا کے ہر معاملے میں مشکل ترین عمل ہے ۔

دنیا بھر کے بین الاقوامی معاملات سے لے کر چند افراد کے مابین کسی لین دین کو دیکھ لیجئے ،

باہمی رویے دیکھ لیجئے غرض ہر وہ شعبہ جہاں بھی انصاف کی ضرورت درپیش آ سکتی ہے وہاں ضروری نہیں کہ انصاف دستیاب بھی ہو ۔

تو پھر آرٹ میں یا 

آرٹ پر تنقید کے لیے بنائی گئی کسی محفل میں دوستوں کے درمیان یہ کیسے ممکن ہے ؟

آرٹ جو کہ اپنے صدیوں کے سفر میں کسی ایک اسکول یا کسی یونیورسل ضابطے کے تحت رہا ہی نہیں ہے بلکہ وقت کے مختلف ادوار میں 

انسانی سوچ اور فہم کے بدلتے پیمانوں کے ساتھ بدلاؤ کا شکار رہا ہے ، 

جہاں ہمیں صرف کسی کو شیشہ دکھانے جیسے اکیڈمک اصول و ضوابط نہیں دیکھنے ہوتے بلکہ باہمی تعلقات کی اخلاقیات کے ایک ایسے پیچیدہ ضابطے کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہوتا ہے اور کسی کی تعریف اصول و ضوابط کے تحت بھی کی جا سکتی ہے ، ہمیں اپنی نالج کے تحت بھی کرنی ہوتی ہے جبکہ سامنے والے کی قوت برداشت کو بھی دیکھنا ہوتا ہے ۔


پھر اس میں غالب امکان ایسی ذاتی پرسپشن کا ہوتا ہے جس کا علاقہ اصل میں ہماری وابستگیوں کے ساتھ جڑا ہوتا ہے ۔

وہ چاہے کسی دوست کے ساتھ ہو 

یا خود ہماری زندگی کے سفر اور اس کے احوال اور حالات کے ساتھ ہو ،

جیسے کہ یہاں اب مجھے اپنے ذاتی کام کی مثال دینی پڑے گی آپ نے غور کیا ہوگا کہ میں اپنا کام آپ دوستوں کے سامنے بہت کم رکھتا ہوں ،

کیونکہ اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے چند کہ میں خود بھی اسے بہت ہائی گریڈ دیتا ہی نہیں ہوں ، پھر میرا مقصد اپنی تعریف ہوتا ہی نہیں ، میرا خالص مقصد آرٹ پر ایسا مکالمہ ہے جسے حاصل کرنے کے لیے مجھے اپنے کام کی تعریف کے عمل کو مائنس کرنا ضروری ہوتا ہے ۔

لیکن اگر کبھی رکھا جائے تو کتنے دوست اس پر بات کرتے ہیں ؟

میں آج تک گروپ کے کئی دوستوں پر کم و بیش دس دس آرٹیکل لکھ چکا ہوں بتائیے میرا کام کتنے دوستوں نے کبھی ڈھونڈ کر اس پر کوئی تحریر لکھی ہے ؟

جبکہ اس کے موازنے میں آپ دیکھیں تو 

اگر گروپ کا کوئی دوست اپنا کام یہاں تنقید کے لیے رکھتا ہے تو اگر وہ ٹائم زون کے فرق کی وجہ سے بھی مجھے غیر حاضر دیکھتا ہے تو مجھے تنقید کا نشانہ یا پھر احتجاج کی کوئی اور صورت ضرور نکالتا ہے ۔

جبکہ مجموعی طور پر میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ اکثر دوست میری کی گئی تعریف کو ردی کی ٹوکری میں ڈالتے ہیں جبکہ معمولی سی تنقید پرسیخ پا ہو جاتے ہیں تو کیا ان کا یہ جوابی رد عمل منصفانہ کہا جا سکتا ہے ؟

یعنی دیکھا جائے تو تھوڑی بہت متوازن تنقید بھی تب ہی ممکن ہو پاتی ہے جب برداشت کا دعوی کرنے والا سچ میں اپنے اندر تنقید سننے کی قوت برداشت رکھتا ہو ۔ دوسروں پر تنقید کسی اور طرح سے جبکہ خود اپنے لیے معیار کوئی اور نہ رکھتا ہو 

جبکہ اس صورت میں تو وہ نقاد کے سامنے بہت ہی کڑا پیمانہ رکھ دیتا ہے کہ اگر اپ سخت تنقید نہیں کریں گے تو آپ کو تنقید کرنی آتی نہیں ہے اور اگر آپ سخت تنقید کریں گے تو اس کا طریقہ کار یوں یوں ہونا چاہیے ورنہ اسے میں برداشت نہیں کروں گا ،

تو بتائیے کہ پھر نقاد جائے کہاں ؟

اسی لیے میں اکثر سخت تنقید نہیں کر پاتا ، جس پر میں بہت سخت طعنے بھی سنتا رہا ہوں ۔ ۔ ۔


میری کوشش ہوتی ہے کہ کسی بھی فنکار دوست کے کام میں ان خصوصیات پر بات کی جائے جو مثبت ہیں ،

یہ بات ٹھیک ہے کہ گروپ کے بے شمار دوست شاید اس خصوصیت کی بنیاد پر میری بہت ریسپیکٹ کرتے ہیں ،

مجھ سے محبت کرتے ہیں خلوص اور وابستگی کا ایسا اظہار کرتے ہیں کہ میں اس کے بوجھ سے خود کو دبا ہوا اور شرمندہ محسوس کرتا ہوں ، اور اس پریشانی میں بھی ہوتا ہوں کہ میری یہ اضافی تعریف بہت سے دوستوں کو گراں گزر سکتی ہے ۔

لیکن خراب رویے کرنے والوں کی بھی ایک طویل فہرست ہے ، جن کے بارے کبھی انصاف نہیں ہو پاتا ، 

دیکھیے ہم اکثر کسی حاکم کو اس نظر سے دیکھتے ہیں کہ اسے پروٹوکول ملتا ہے تو اس کی کیا وجہ ہوتی ہے ؟

اس کی وجہ سمپل یہ ہوتی ہے کہ وہ خادم بھی سب سے بڑا ہوتا ہے ،

میرے دوست اکثر مجھ پر الزام لگاتے ہیں کہ آپ دوسروں سے توقعات رکھتے ہیں ،

لیکن جواب میں میری کوئی بات نہیں سمجھتا کہ اصل میں دوسرے بھی تو مجھ سے بے شمار توقعات رکھتے ہیں ، اس فرق کو سمجھنے کے لیے کون بحث کرے گا ؟

گزشتہ روز بھی ایک دوست سے بات ہو رہی تھی تو اس نے جو جواب دیا وہ یہ تھا کہ دراصل ایک تو آپ نے اپنے مزاج کو سب سے زیادہ برداشت کرنے والا ثابت کیا ہے ، اور دوسرا آپ میزبانی کا عہدہ سنبھالے ہوئے ہیں ،

لیکن اس سے پہلے کہ میں اس سے پوچھتا کہ مجھے جو ذہنی اذیت دی جاتی ہے اس کے بارے منصفانہ رویہ نہ کرنے والے یہ کیسے فرض کر لیتے ہیں کہ میں نے قوت برداشت میں خود کو لازمی طور سب سے عظیم عہدے کے لیے پیش کیا ہوا ہے ،

یا یہ بھی کہ میں کب کہتا ہوں کہ کسی محفل میں میزبانی کا عہدہ صرف میرے لیے ہی مختص کر دیا جائے ؟

میں اب اس کے بارے کیا وضاحت دوں کہ 

جب فائزہ کا گروپ ختم ہو گیا تھا تو یہ چند دوست تھے جنہوں نے ضد کر کے نیا گروپ بنوایا تھا ، اور پھر وہ جب بے شمار گروپ ختم ہو گئے تو یہ موجودہ تنقیدی گروپ بھی ایک دوست کی ہی طویل پرزور فرمائش پر ہی بنایا گیا ، تو اگر میں ان دوستوں سے سوال کروں کہ وہ اس کی فرمائش مجھ سے ہی کیوں کرتے ہیں ؟

کیا اس لیے کہ اس کی میزبانی کا بوجھ مجھ پر آئے ؟


تو یہاں وہ جواب دیں گے کہ نہیں یہ آپ کی شخصیت کی مقناطیسیت ہے ،

آپ کا اچھا اخلاق اور خلوص ہے اور یہاں تک کہ کئی دوست اسے میری نالج بھی کہیں گے ۔

لیکن ان تمام باتوں کے درمیان مجھ سے وابستہ توقعات تو دیکھی جا سکتی ہیں لیکن انصاف کہیں نہیں ہو سکتا ۔


ہم اسی طرح زیادہ تر معاملات میں محبت خلوص وابستگیوں کے کھیل میں الجھے رہتے ہیں ، جس میں انصاف بس کہیں کہیں تھوڑا بہت اتفاقاً ہو جاتا مگر 

یہ یقینی نہیں ہوتا ۔

پھر ہم سوچتے ہیں کہ ایسا کھیل کھیلا ہی کیوں جائے ؟

اب یہ بالکل ایک الگ بات ہے کہ ہم لوجیکل ذمہ داریوں کے لیے ہی نہیں بنائے گئے کہیں نہ کہیں ہمیں بے مقصد سے کھیل کھیلنے ہی ہوتے ہیں جن کے فیصلے انصاف پر ہوں یا نہ ہوں ۔


صرف یہی نہیں ہزاروں سوالات ہیں خواہشات کی طرح کہ ہر خواہش پہ دم نکلے ،

لیکن وہ سوالات نشاندہی کرتے ہیں کہ اصل میں ہمارے درمیان انصاف کہیں نہیں ہوتا ،

تو پھر آرٹ میں تعریف یا تنقید پر یہ کیسے ممکن ہے ؟


کیا میں آپ دوستوں سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر آپ ایک اچھے تنقید نگار بننا چاہتے ہیں تو باہمی رویوں میں انصاف کرنا سیکھیے ؟

یقینا آپ میں سے بہت سے دوست شاید اس سے اتفاق نہیں کریں گے ، وہ آرٹ اور ہمارے سماجی و اخلاقی رویوں کو الگ الگ دیکھیں گے ۔

مگر میں نے ہمیشہ ان سب کو ایک ساتھ دیکھنے کی کوشش کی ہے ۔


یہ بات ٹھیک ہے کہ اس پیچیدہ گنجلک کو ایک ساتھ دیکھنے نے مجھ سے بہت کچھ چھین لیا 

مگر میرا موضوع یہی رہا ہے ۔

آرٹ جمالیات اور اخلاقیات ان سب کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے ۔


شاہد حسین 

11 اپریل 25

No comments: