Monday, May 19, 2025

پورا چاند


 مکمل روشن چاند کی طرف دیکھتے ہوئے کسی شخص نے قریب سے گزرتے دوسرے سے پوچھا !

بھائی صاحب آج چاند کی کیا تاریخ ہے ؟

ان صاحب نے لمحہ بھر سوچا پھر جواب دیا، یار ہم کو کیا معلوم ہم تو اِدھر پردیسی ہے ۔

کوئی آرٹسٹ اور اس کا کام بھی کسی سماج میں کسی روشن چاند کی طرح ہوتا ہے ،جس دیکھ کر اس کی تعریف کے لیے ضروری نہیں ہوتا کہ آپ کا تعلق اسی شہر قبیلے یا آرٹ کے اس اسکول یعنی انداز سے ہو۔

روشن چاند کی تاریخ نہ بتاپانے میں تو کسی شخص کی معصومیت وجہ ہو سکتی ہے ،

لیکن جب ہم فنکار خود سے مختلف کام کرنے والے کسی دوسرے جونرہ سے تعلق رکھنے والے یا ہمارے حلقہ احباب سے باہر فنکار کے کام پر رائے نہیں دے پاتے تو یقین جانیے اس کی وجہ ہماری معصومیت نہیں کچھ اور ہوتی ہے ۔


جب کہ ہمارے یہاں المیہ تو یہ ہے کہ کسی بھی لیجنڈ فنکار کا ایک شاگرد اور دوست بھی تعلق واسطوں کے ہزار راستے ہونے کے باوجود ان پر بات کرنے کے ہر راستے کو مسدود پاتا ہے ۔

نہ بات کرنے کے ہزار بہانے ڈھونڈتا ہے ۔


یوں ہمارے یہاں ہمارے لیجنڈز یا فنکاروں پر کھل کر بات ہی نہیں ہو پاتی ،

اور پھر ۔ ۔ ۔ 

یہی فنکار کہیں خود ایک مقام پر پہنچ کر شکوہ کرتے ہیں ، کمال ہے کوئی ہمارے بارے بات ہی نہیں کرتا ۔ ۔ ۔ !


شاہد حسین 

19 مئی 25

Mustaches


 کسی گاؤں میں ،

اونچی ذات کے راجپوت  نے گاؤں میں سب سے بڑی مونچھیں رکھی ہوئی تھیں۔


اسی گاؤں میں نچلی  ذات سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے بھی مونچھیں رکھ لیں بلکہ راجپوت سے بھی بڑی رکھ لیں ،

راجپوت کے لیے یہ بہت توہین آمیز بات تھی ،

اس نے اس سے کہا کہ اس گاؤں میں یا تو میں یا پھر تم ۔ ۔ 

نچلی ذات والے نے مونچھیں منڈوانے سے انکار کر دیا ۔


فیصلہ پنچوں کے پاس چلا گیا انہوں نے فیصلہ کیا کہ ٹھیک ہے دونوں کے درمیان ڈوئیل ہوگا یعنی زندگی اور موت کا مقابلہ جو بچ جائے گا وہی مونچھیں رکھے گا ۔


راجپوت گھر گیا اور اس نے اپنی بیوی سمیت تمام گھر والوں کو قتل کر دیا 

کہ ہو سکتا ہے کل میں زندہ نہ بچوں 

تو میرے بعد میری فیملی کا کیا ہوگا ،


اور دوسرے دن وہ مقابلے کے مقام پر پہنچ گیا ، جب وہ وہاں پہنچا جو نچلی ذات والا مونچھیں صاف کروا کے آ چکا تھا۔


اس نے آ کے کہا کہ میں نے گھر جا کے سوچا اور فیصلہ کیا کہ ٹھیک ہے میں مونچھوں کے بغیر ہی ٹھیک ہوں ۔  


اصل میں بات ذات پات اونچی نسل یا نچلے طبقے کی نہیں ہے ،

اعلی اقدار رکھنے والی اقوام اور افراد کو اپنے عہد یا اپنی بات کا پاس رکھنا ہوتا ہے ،

عرب یقیناً ایک وقت میں دنیا کی افضل ترین قوم رہے ،

ہماری مقدس ہستیوں کا بھی یہیں سے تعلق ہے لیکن کیا عرب ان اعلی اقدار کو لے کر آگے چل رہے ہیں ؟


موجودہ عرب حکمران خاندان نے اپنے شدت پسند مسلک سے پوری اسلامی دنیا کا تشخص بدل دیا ،

انہیں خواتین کے حوالے سے نقاب چہرہ چھپانے یا دکھانے میں مسائل سے دوچار کر دیا وہ تعلیم حاصل کر سکتی ہیں یا نہیں اس حوالے سے بے شمار مسائل پیدا کر دیے ،

آرٹ موسیقی دیگر فنون اور خواتین کے حقوق سمیت اور جہاد مسلم دنیا شدت پسند نظریات کا شکار ہو کر پوری دنیا میں مسائل کا شکار ہو گئی ،

خاص طور پر سب سے زیادہ نقصان اہل تشیع کو اٹھانا پڑا ،

اور اب عرب اپنا چہرہ بدل رہے ہیں ،


بہت اچھی بات ہے کوئی بھی خرابی جب بھی ٹھیک ہو جائے تب بھی اچھا ہے ، لیکن کیا عرب صدیوں سے  مسلم امہ کو پہنچانے والے نقصان کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار ہیں ؟


کیا وہ اس پر کسی سے معذرت کرنا چاہیں گے یا بس مغربی اقوام کے  اقاؤں کو خوش کرنے سے ہی تسلی حاصل کر لیں گے ؟


شاہد حسین 

19 مئی 25

Saturday, May 17, 2025

Art and Literature


 گزشتہ دنوں میرے دوست شرجیل نے کہا کہ مجھے اس موضوع پر اپنی رائے دیجئے ،


"نوجوانوں کو سماجی و اقتصادی طور بااختیار بنانے میں فن اور ادب کا کردار"


اتفاق سے دو روز بعد ایک دوست شایان علی نے کہا کہ وہ اپنے علاقے کے نوجوانوں کہ کچھ رجحانات کو بدلنے کے لیے وہاں آرٹ کو فروغ دینا چاہتے ہیں ، اور اس سلسلے میں ایک سکول قائم کیا گیا ہے جس کے لیے انہیں میری مشاورت درکار تھی ۔


تو مجھے ان دونوں باتوں میں اپنی رائے ایک ہی موضوع لگی ۔


آرٹ اور لٹریچر کی معلوم شدہ تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جس قدر کے ہمیں 45 ہزار سال پہلے کا غاروں کی دیواروں پر کیا گیا آرٹ دستیاب ہے ،

اس دیواری آرٹ میں دراصل وہ اپنے 

واقعات کو ہی السٹریٹ کرتے تھے 

لیکن پھر بھی رات کو جلتی آگ کے اطراف بیٹھ کر جو وہ ایک دوسرے کو یا اپنے بچوں کو کہانیاں سناتے ہوں گے وہ آج ہمیں دستیاب نہیں ہیں ۔


لیکن انسانی تہذیب و تمدن اور اس کی شعوری ترقی میں آرٹ اور لٹریچر کا کیا کردار ہے یہ اب 

یوں سمجھیے کہ اس کے جینز میں موجود ہے ۔

اب شاید اس کی افادیت کو ہمیں ڈیفائن کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے بس یہ کسی ادراک کی طرح ہم میں محفوظ ہے ۔


اور آج تک دنیا کی ہر تہذیب اور ثقافت اپنی نئی جنریشن کی تربیت و ترقی میں اسے اہم ہی سمجھتی ہے ۔

ہمارے زندگی کے حقیقی معاملات پر مبنی واقعات و تصورات اور تخیل پر مبنی کہانیاں یہ سب ہمیں کہیں نہ کہیں عملی زندگی میں توانائی دیتی ہیں مہمیز کرتی ہیں اور آرٹ ہمارے تصورات کو عملی شکل دینے کی ضرورت میں ترتیب و توازن سکھاتا ہے ۔

مجھے آج بھی تقریباً 35 سال پہلے ہمارے گریٹ ماسٹر 

جمیل نقش سے ہونے والی ایک گفتگو یاد ہے ۔

جس میں ان کے مجھ سے پوچھے گئے کچھ اسی سوال کے جواب میں میں نے کہا تھا 

کہ جناب میں تو سمجھتا ہوں کہ ایک آرٹسٹ اچھا کسان بھی ہو سکتا ہے اور وہ اچھی چائے بھی بنا سکتا ہے ۔

اور یقین جانیے میں آج بھی اپنی اس رائے پر قائم ہوں ۔


شاہد حسین 

17 مئی 25

Monday, May 12, 2025

جنگ اور پاکستان


 کیا موجودہ جنگ پاکستان جیت سکے گا ؟

یہ بات تو سچ ہے کہ 

بڑی طویل مدت سے افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات اور اندرونی حالات کی وجہ سے پاکستان ہندوستان سے جنگ نہیں چاہتا تھا ۔


جبکہ ہندوستان انہی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے طویل مدت سے پاکستان کو جنگ کے لیے اکسا رہا تھا ، 

وہ بڑے دھڑلے سے پاکستان میں چاہے افغانستان کے ذریعے یا بلوچستان اور دیگر حصوں سے تخریب کاروں دہشت گردوں کی سہولت کاری تو کر رہا تھا 

پاکستان اس حوالے سے کئی بار بین الاقوامی اداروں یہاں تک کہ دوست ممالک کے سامنے ثبوت رکھتا رہا مگر پاکستان کی اب کوئی کمزور آواز سنتا ہی نہیں ۔

ہندوستان اپنی سرحدوں سے لیکر بین الاقوامی ہر محاذ اور پاکستان کے اندرونی معاملات سے لے کر یہاں کے لوگوں کے ذہنوں پر اپنے طاقتور میڈیا فلم تک کے ذریعے مستقل پاکستان پر جنگ مسلط کیے ہوئے ہے جبکہ پاکستان کی تقریباً ہر حکومت اور طاقتور اداروں کی ہر قیادت جواب دینے میں مدت سے 

ایسی مصلحتوں کا شکار ہے ، جسے ہر حکومت کے حامی سپورٹ کرتے ہیں جبکہ اس کے مخالف بزدلی کا طعنہ دیتے ہیں ،

اس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ 

ایک حکومت میں در اندازی کرنے والے جہاز کو مار گرا کر اس کے پائلٹ کو گرفتار کر کے خاطر مدارت کر کے واپس بھیجنے کو اس حکومت کے حامی اپنی قیادت کی اعلی ظرفی جبکہ دوسرے کی بالکل ویسے ہی کسی کارکردگی کو بزدلانہ حرکت سمجھتے ہیں ۔

پاکستان کی عوام گزشتہ نصف صدی سے اس قدر کنفیوز ہو چکی ہے کہ ہندوستان جس کے پاکستان کی تقسیم سے بڑے مقاصد یہ پورے ہوئے کہ اسے مسلمانوں کی طاقتور عددی حیثیت سے نجات مل گئی اور مدتوں سے در اندازی کرنے والے افغانستان سے نجات مل گئی وہ پھر بھی پاکستان سے دشمنی نبھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا پاکستان کو دو ٹکڑے کرنے کے باوجود مزید ٹکڑوں میں بانٹنا چاہتا ہے اور اج اسے ان مقاصد میں مدد دینے کے لیے ایک ایسی طاقتور ریاست کی مدد حاصل ہے جو کسی طور بھی پاکستان کا ایٹمی وجود برداشت کرتی ہی نہیں ہے ۔

مگر پاکستان کی عوام اس بات کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ۔


 افغانستان جو کہ پاکستان کی ابتدا سے لے کر آج تک اس کا دشمن ملک رہا ہے وہ اس کے جنگ سے پریشان پناہ گزینوں کی 45 سال سے میزبانی کرنے کے باوجود ان سے گالیاں کھا کر اور ان کی ہر طرح کی کرمنل اور دہشت گردانہ سرگرمیاں برداشت کر کے انہیں اپنا مسلمان بھائی سمجھتا ہے ۔

اور اگر کوئی حکومت انہیں واپس بھیجنے کی بات کرتی ہے تو وہ ان کے راستے میں ڈٹ کے دیوار بن کے کھڑا ہو جاتا ہے ۔

تو اب ذرا غور کیجئے ایک ایسا ملک جو ایک طرف اپنے دشمن ہندوستان دوسری طرف پیدائشی دشمن افغانستان ایک طرف فقہی نظریاتی دشمن ایران سے گھرا ہوا ہے دوسری طرف اندرونی طور اس کی عوام دوست دشمن کی ناتمیز رکھتی ہے نہ اس کی مدتوں سے جاری اسٹریٹجی سے واقف ہے ،

کہ ہندوستان کس کس ترکیب سے اسے نقصان دے رہا ہے ،

اور افغانستان اپنے پناہ گزینوں کے ذریعے کس طرح سے تقریباً پاکستان پر قبضہ کر چکا ہے ،

جبکہ خود اس کے اپنے تین صوبے پاکستان کے اکثریتی صوبے پنجاب کو بات بات پر گالیاں دیتے اور علیحدہ ہونے کی دھمکی دیتے رہتے ہیں ، لیکن بلوچستان کے لوگوں کو ان پر قابض ہونے والے افغانیوں سے کوئی مسئلہ نہیں ، 

خیبر پختون خواہ کے پشتونوں کو ان کے کاروبار پر قابض ہو جانے والے افغانیوں سے کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ وہ انہیں اپنا نسلی برادر سمجھتے ہیں ۔ سندھیوں کو ان افغانیوں سے کوئی مسئلہ نہیں بس انہیں مسئلہ ہے تو پنجابیوں اور پنجابی فوج سے ۔


پھر مدت سے کرپٹ حکمرانوں سے ستائی ہوئے عوام جس سیاسی قیادت پر سب سے زیادہ ٹرسٹ کرتی ہے اسے موجودہ حکومت نے جیل میں بند کیا ہوا ہے لہذا اس سیاسی پارٹی کی اکثریتی عوام موجودہ جنگ میں فوج کی کسی بھی کارگزاری کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ، چاہے فوج کے گرائے جانے والے کسی جہاز کا ملبہ ان کے پڑوسی کے گھر پہ ہی کیوں نہ گرا ہو وہ اسے اپنی فوج اور ناپسندیدہ حکومت کا جھوٹ قرار دے رہے ہیں ۔


اور یوں لگ رہا ہے جیسے وہ پوری شدت سے انتظار کر رہے ہیں کہ کب وہ اپنی گلیوں میں ہندوستانی فوج کے ٹینکوں کو گشت کرتا ہوا دیکھیں گے اور انہیں پھولوں کے گلدستے پیش کریں گے ۔


جنگی حکمت عملیوں میں جھوٹ اور فریب اپنے ٹیکنیکل معنی تبدیل کر دیتا ہے اور یہ وار سٹریٹجی کا ایک لازمی حصہ قرار پاتا ہے ،

آج جب کہ میڈیا انتہائی ترقی پر ہے لیکن ہندوستان مسلسل اپنے لوگوں کو جھوٹ بول کر ان کی ہمت بڑھا رہا ہے اور وہاں کی اکثریتی عوام اپنے اس جھوٹے میڈیا پر آنکھیں بند کر کے یقین کر رہی ہے ،


جبکہ پاکستان کی اکثریتی عوام اپنے میڈیا کی چاہے کچھ پرسنٹ ہی سہی مگر سچی خبروں پر بھی یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور کسی طور بھی اپنا مورال اور ہمت بہتر نہیں کرنا چاہتی ۔

بلکہ سچ کہا جائے تو سمجھ ہی نہیں آرہا کہ وہ چاہتی کیا ہے ؟

کیا وہ پاکستان کو ہندوستان پر قبضے کو کسی الحاق کی صورت میں دیکھنا چاہتی ہے ؟

اور اس کے خیال میں اس فوج جس سے وہ اب نفرت کرتی ہے اس کی شکست سے ہندوستان کی فوج اس کے لیے زیادہ بہتر ثابت ہوگی ؟

تو یہ تجربہ بنگلہ دیش کی عوام کر چکی ہے اور اب وہاں پر پاکستان سے دوبارہ الحاق کی بات ہو رہی ہے ۔


مگر موجودہ پاکستان کی عوام ان سب باتوں کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔

تو کیا ان حالات میں سوچا جا سکتا ہے کہ کوئی عوام مکمل یکجہتی کے ساتھ اپنے دشمن سے جنگ کے لیے تیار ہے ؟

یہ انتہائی گمبھیر صورتحال ہے ، اس میں سب سے پہلے تو اللہ سے مدد کی دعا اور کسی معجزے کی توقع کی جانی چاہیے،

اور پھر پاکستانی فوج جو شاید ہر طرح کے عالمی دباؤ اور مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دشمن کو منہ توڑ جواب دے دے ۔


شاید پھر یہاں کی عوام اپنے دشمنوں کی دشمنی اور دوستوں کی دوستی میں تمیز اور اس پر یقین کر لیں ۔


شاہد حسین 

8 مئی 25

Peace and War


 باشعور لوگوں کی آراء ضروری نہیں صرف فیکٹس پر ہی مبنی ہوں بلکہ ان کی ایسی خواہشات سے بھی جڑی ہوتی ہیں جو دراصل ان کے باشعور ہونے کی ہی غماز ہوتی ہیں ۔

جیسے کہ پاکستان اور ہندوستان کا باشعور طبقہ جنگ نہیں چاہتا ۔


اب دنیا کے کسی بھی خطے یا ملک میں یہ طبقہ ہمیشہ اکثریت کے مقابل بہت کم ہوتا ہے ۔


اور اکثر اکثریت کے طوفان اور سیلاب کے سامنے وہ کس قدر بھی مخالف جانے کی طاقت رکھتا ہو ، اس بہاؤ میں بہنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔


بہت سے سمجھدار لوگ جنگ سے انکار اور امن کی خواہش میں یہی کہہ رہے تھے کہ یہ جنگ نہیں ہوگی نہیں ہوگی نہیں ہوگی ۔ ۔ 

کچھ اسے دونوں طرف کے جنگی کاروبار اور جنون میں مبتلا لوگوں کا شوق قرار دے رہے تھے ، لیکن اگر ایسی تسلیاں حقائق پر بھی مبنی ہوں تو یہ کسی کام کی نہیں ہوتیں جب جنگ شروع ہو جاتی ہے ۔


اور اب جنگ شروع ہو چکی ہے ۔


11 مارچ 2025 کو 

کوئٹہ سے پشاور جانے والی پیسنجر ٹرین جعفر ایکسپریس کو ہائی جیک کر کے 18 فوجی جوانوں سمیت دیگر سویلین 31 لوگوں کو شہید کر دیا گیا جو عید کی چھٹیاں گزارنے اپنے گھروں کو جا رہے تھے ۔

 دنیا بھر میں ہر حساس دل باشعور انسان نے اس واقعے کو انتہائی المناک اور افسوسناک قرار دیا ۔

اس سانحے میں مقامی علیحدگی پسند ہی نہیں ہندوستان کی معاونت کا ثبوت بھی پاکستان نے حاصل کرنے کا دعوی کیا مگر اس نے جوابی کاروائی میں ہندوستان سے جنگ کا اعلان نہیں کیا ۔

جبکہ ہندوستان نے جواب میں اسے پاکستان کے ہی ناراض لوگوں کی کاروائی قرار دیا ۔


سچ یہ ہے کہ، ہندوستان طویل مدت 1971 سے پاکستان میں علیحدگی پسندوں کو واضح دعوؤں کے ساتھ پاکستان میں دہشت گردانہ کاروائیوں کے لیے ہر ہر طریقے سے سپورٹ کرتا ہے ۔

جسے وہ اپنی فلم اور فلمی ٹائپ میڈیا پر کسی بہادرانہ سٹیٹمنٹ کی طرح ،

"گھس کر مارنے"

سے اعلان کرتا ہے ۔ 


22 اپریل 2025 کو بھارتی مقبوضہ کشمیر میں چند عسکریت پسندوں نے سیاحوں پر حملہ کر کے 26 افراد کو ہلاک کر دیا ۔

اسے بھی پاکستان سمیت حساس دل اور باشعور لوگوں نے انتہائی دکھی کرنے والا المیہ ہی قرار دیا ۔


اب یہ ان دونوں ممالک کی بدقسمتی ہے کہ طویل مدتی تجربے کے باوجود دونوں ممالک اپنی اپنی ریاستوں میں ناراض لوگوں کو کچلنے کی کوشش تو کرتے ہیں منانے کی نہیں ۔

جیسے کہ خود ہندوستان میں اگر بہت سی ریاستوں میں چھوت چھات ذات پات ، مزہبی اور دیگر سماجی ناانصافیوں کی وجوہات پر علیحدگی پسند تنظیموں کو نہ بھی دیکھا جائے 

تو کشمیر اور خالصتان بہت واضح مثال ٹھوس ثبوتوں اور حقیقت کی طرح موجود ہیں ۔

لیکن ان دونوں حصوں میں جب بھی کبھی کوئی احتجاجی سانحہ یا المیہ رونما ہوتا ہے ہندوستان بغیر ثبوت فراہم کیے نہ صرف پاکستان پر الزام لگاتا ، جوابی کاروائی کرتا ہے بلکہ کھل کر اعلان جنگ کرتا ہے ۔ 

تو اس بار بھی پاکستان کی کسی بین الاقوامی ادارے کی طرف سے شفاف تحقیقات کی پیشکش کے باوجود ہندوستان نے پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔


سو اب جنگ شروع ہے ۔


بتائیے اب باشعور طبقہ کیا کر سکتا ہے ؟

جب بم گرتا ہے تباہی مچتی ہے تو گو کہ اس کے لیے ہر شخص کسی اپنے قریبی کی طرح ہوتا ہے لیکن اس باشعور طبقے کے بھی گھر کے افراد اس میں موجود ہوتے ہیں ۔

ان زخمیوں اور شہیدوں کی لاشوں پر جب وہ جنگ سے انکار کرتا ہے ،

تو صرف بزدل اور ڈرپوک ہی نہیں اپنی قوم کا غدار بھی قرار پاتا ہے ۔


 یہ اعلانیہ جنگ پاکستان نے شروع نہیں کی ،

اور پاکستان کا عام آدمی جو بھی کہتا رہا ہو ہمارے مقتدر اداروں اور باشعور حلقوں نے جنگ کو ٹالنے کی کوششی کی ۔ ۔ اتنی کہ قوم انہیں بیکار ، بزدل اور ناکارہ و ناکام کہہ رہی تھی ۔

میرا آپ فنکار دوستوں سے سوال ہے کہ کیا ہمیں ابھی بھی جنگ سے نفرت اور انکار کی ریت میں منہ دبانا چاہیے ،

یا منہ نکال کر سر بلند کر کے اپنے اداروں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے ؟


براہ راست جنگ میں لڑنے کے لیے ہم شریک نہیں ہو سکتے لیکن اب اس حوالے سے ہماری رائے جو یقیناً اثر رکھتی ہے وہ کیا ہونی چاہیے ؟


شاہد حسین 

10 مئی 25

No War


 شکر الحمدللہ جنگ روکنے کے اعلان سے بڑے پیمانے پر ہونے والی جنگ رک گئی ہے ۔

آپ تو جانتے ہیں فنکاروں کی اکثریت ہمیشہ جنگ سے نفرت کرتی ہے ۔

بالکل اسی طرح ہماری کوشش تو آرٹ پر بات کرنے کی ہے جس کا تعلق دنیا بھر سے ہونا چاہیے لیکن اہمیت ہمارے خطے کے آرٹ کی ہے جو کہ مکالمے پر یقین نہیں رکھتا اور  ہماری اندرونی و بیرونی جنگوں نے بھی ان کوششوں کو سبوتاژ کیا ہے ۔


 خیر دوستوں کی   محفل میں پھر سے آرٹ پر ہی بات ہو گی ۔ 

NO WAR,

دیکھیے اس حوالے سے تمام باتیں بالکل سچ ہیں کہ جنگ قابل نفرت ہوتی ہے ۔


مگر یہ کی ہی کیوں جاتی ہے ؟

اس سوال کا تعلق انسان کی ہزاروں سالہ پرانی تاریخ سے ہے ، جس پر سینکڑوں نہیں شاید ہزاروں کتابیں لکھی جا چکی ہیں تو کیا ہم کسی ایک تحریر میں اس یا اس سے جڑے کئی سوالوں کے جوابات کا احاطہ کر سکتے ہیں ؟


اور وہ بھی مجھ جیسے شخص کی تحریر میں جس کا جو تھوڑا بہت مطالعہ ہے وہ بس فن مصوری سے ہی متعلق ہے ۔


اور پھر اب تو ویسے بھی ہم ایک ایسے دور میں ہیں جہاں بس ادھوری باتیں کی جاتی ہیں 

جنہیں کبھی کوئی سمجھ ہی نہیں پاتا ، اور مکمل بات سننے پڑھنے کا کسی کے پاس وقت ہی نہیں،  تو جواب کوئی کیا دے گا ان کے حل کیا دے گا ؟


پون صدی سے حاصل شدہ ملک میں ہم ابھی تک بنیادی سوالات سے آگے کیا بڑھتے  بنیادی ضرورتیں ہی نہیں حاصل کر سکے ۔

وہ جو ابتدائی دور میں سماجی و اقتصادی اداروں میں کچھ بڑھوتی ہو رہی تھی اور فنون و ثقافت میں ترقی ہو رہی تھی وہ بھی  گنواں بیٹھے ۔

بجائے اس کے کہ ہم 

آج کسی سپر پاور کی طرح سے نہ سہی مگر دنیا میں ایک باوقار  معاشی و اقتصادی طور مضبوط ملک کی حیثیت سے جانے جاتے ہم خود اپنے نظریات میں ہی ٹوٹ پھوٹ اور شکست کا شکار ہوتے چلے گئے،

اب تو یہ آواز عام ہو گئی ہے کہ کیا پاکستان بنانے کا فیصلہ درست تھا ؟


لیکن جب ہم نے ایک محفل میں دوستوں کے سامنے سوال رکھا کہ کیا آپ اپنے ان اباؤ اجداد کا گریبان پکڑ سکتے ہیں جنہوں نے اس کا فیصلہ کیا تھا ؟

 یا اب کیا ہو سکتا ہے تو اس کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا ۔

آج ہی ایک دوست نے ہمارے ایئر مارشل اصغر خان صاحب کی ایک ویڈیو شیئر کی جس میں وہ بڑے دھڑلے سے فرما رہے تھے کہ کشمیر جس کی وجہ سے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان آج تک جنگیں ہو رہی ہے اس کا پاکستان سے الحاق نہ ہونے میں خود پاکستان ہی قصوروار تھا ،تو پھر کشمیر کا تنازعہ دونوں ممالک کے درمیان رکھنے کا مقصد کیا تھا ؟

کیا آج کوئی پاکستانی ایسے آسان سے سوالوں کے جواب حاصل کر سکتا ہے ؟

چلیے میں ان کے اپنی ناقص عقل و علم سے کچھ جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں ۔


ہزاروں سال پہلے سے جب انسان شکار کے ذریعے خوراک حاصل کرتا تھا تب بھی اسے ان جگہوں کے لیے جہاں اسے شکار باسانی ملتا تھا ان پر اجارہ داری قائم کرنے کے لیے اسے جنگ کرنی پڑتی تھی ۔

اور اسی میں فتح کی بنیاد پہ طے ہوتا تھا کہ اسے خوراک ملے گی یا نہیں ۔


ہزاروں سال سے وہ طاقتور انسان جو بنیادی ضرورتوں کے باوجود اپنی انا کی ہزاروں خواہشیں پوری نہیں کر پاتے وہ اسے جنگ کے ذریعے ہی پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

ہزاروں سال سے جنگ دنیا کا سب سے منافع بخش کاروبار ہے ۔


اور ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی آج بھی جنگیں انہی بنیادوں پر دنیا بھر میں ہو رہی ہیں ۔

بیچ میں دہائیوں سے لے کر سینکڑوں سالوں کا وقفہ آتا تھا ، مگر اب یہ وقفے مختصر ہو رہے ہیں ۔

ذرا غور تو کیجئے صرف نصف صدی میں آپ نے اپنے ارد گرد کتنی جنگیں دیکھی ہیں اس کا جواب تو ڈھونڈئیے ۔ 


تو پھر آپ یقیناً کچھ ایسے حقائق جاننے کی جانب ضرور بڑھیں گے ، جہاں آپ کو اندازہ ہوگا کہ ،

ہمارا یہ خطہ جسے ہم برٹش کمپنی کی آمد سے پہلے امن اور چین و سکون کا گہوارہ قرار دیتے ہیں یہ مستقل بنیادوں پر امن چین سکون کا گہوارہ کبھی تھا ہی نہیں ۔


وہ انگریز صاحب بہادر جس نے ، 145 سال تجارتی کمپنی کی شکل میں اور پھر 190 سال باقاعدہ بادشاہت کی شکل میں ہم پر حکومت کی ۔ ۔ ۔ 

جسے پھر ہم سمجھتے ہیں کہ بڑی مشکل سے ہم نے نکالا لیکن کیا یہ سچ ہے کہ ہم نے اسے نکال دیا ؟


جواب یا سچ تو یہ ہے کہ سامراجی دنیا 

نو آبادیات میں غلاموں پر ایسی براہ راست حکومت کرنے کی شکل تبدیل کر رہی تھی جس میں اسے انہیں 

انفراسٹرکچر سے لے کر تعلیم اور دیگر بنیادی سہولتیں دینی پڑیں ، لہذا وہ اب اپنی کالونیوں کو ممکنہ حد تک ٹھیکے پر دینے کی طرف جا رہے تھے جس میں رہنے والے غلام نہیں کنزیومر تھے ۔

ان سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی یافتہ ممالک کو چاہے ضرورت کی اشیاء اگانی تھیں یا بنانی تھیں یا اسلحہ بیچنا تھا اس کے لیے انہیں مارکیٹس کی ضرورت تھی ۔

یا یوں سمجھیے کچھ خطے بنائے ہی لیبارٹری کے مقصد سے جا رہے تھے ، جہاں پروڈکٹس سے لے کر نئی دوائیاں بھی وہیں ٹیسٹ کی جانی  اور نئے اسلحے بھی بیچے جانے اور کنزیومرزکے بیہیویئرز کو بھی چیک کرنا تھا ،  

اور پھر ان مارکیٹس میں اپنے تحفظات کا خیال رکھنے کے لیے سیکورٹی ایجنسیز کی ضرورت تھی ۔

طاقتوروں اور کمزوروں کی شطرنج کے مہروں کی بناوٹ کی طرح ضرورت تھی  اور انہیں کھیلنے کے لیے  ان خطوں کو ٹکڑوں میں بانٹنے کی ضرورت بھی تھی ۔

تاکہ اگر ایک خانے میں چال نہ چلی جا سکے تو دوسرے میں چل لی جائے ایک مہرہ ان کے احکامات نہ مانے تو دوسرے کے ذریعے اس سے منوائے جائیں ۔

لہذا اگر غور کیا جائے تو یہ کام تو انگریز جاتے جاتے بڑے بہترین طریقے سے کر کے گیا ہے ۔


یہ تو چائنہ جیسے کچھ ممالک تھے جنہوں نے بڑی کوشش ڈسپلن اور مستقل مزاجی سے ان کے کھیل کو سمجھا اور بازی پلٹی ۔

لیکن یہ بھی سچ ہے کہ دنیا کی سپر پاور سمجھے جانے والا چین بھی ابھی تک خود کو ان زنجیروں سے پوری طرح آزاد نہیں کروا سکا ۔


 لیکن خیر ہمارا موضوع ہمارا خطہ بر صغیر انڈو پاک ہے ۔

جس کی تقسیم سے ہم نے کیا حاصل کیا ؟

مسلمانوں کی الگ ریاست ؟

دیکھیے ہندوستان میں بسنے والی ہندو اکثریت اگر ہماری دشمن تھی تو اس کو چنوتی دینے والے دوسری بڑی اکثریت 

مسلمان تھی جو اس پارٹیشن سے چار حصوں میں تقسیم ہو گئی اور ہندوؤں کے نقطہ نظر کے مطابق 

دیکھا جائے تو وہ مسلمانوں کی طاقتور شر انگیزی سے ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گئے ۔

جو ان کی صدیوں سے قائم مذہبی ثقافتی و سماجی بناوٹ اور شناخت کو رفتہ رفتہ متاثر کرتے چلے آ رہے تھے ۔

یہاں تک کہ وہ افغانستان جہاں سے وہ گزشتہ ایک ہزار سال سے خود پر ہونے والے حملوں کی زد میں آتے رہتے تھے ،

اس کے راستے میں انہوں نے ایک آہنی سیسہ پلائی ہوئی دیوار یا ایسا بفرزون بنا دیا جہاں اب وہ اس علاقے کے رہنے والے جانیں اور افغانستان جانے والا معاملہ تھا ۔

 اور آپ دیکھئیے کہ تقریبا نصف صدی یعنی 45 سال سے افغانستان ہمیں دیکھ رہا ہے اور ہم افغانستان کو ،مجال ہے جو ہندوستان تک اس کا کوئی ایک شرارا بھی پہنچے ۔

تو انگریز جاتے جاتے 

اب وہ ہندو لیڈران یا تھنکرز کوئی بھی تھے ان کے ساتھ ایک بہترین ڈیل بنا کر گیا تھا ۔

اور یہاں کے کھیل میں انہیں پہلے سے ہی ایک طاقتور مہرے یا کھلاڑی کی حیثیت دے کر گیا ۔

تب ہی اس نے انہیں ایک بہترین محفوظ مستقبل کے ساتھ طاقتور خطہ الاٹ کیا تھا ، جو اپنی مذہبی ثقافتی سرگرمیوں میں آزاد تھے مغرب کے لیے انتہائی بہترین مارکیٹ اور خود ان کی مارکیٹ میں اپنی پروڈکٹ پہنچانے کے لیے آزاد تھے  جبکہ پاکستان کو ایک ایسا خطہ الاٹ ہوا جس نے مستقل ٹوٹ پھوٹ کے مسائل اور در اندازی سے نمٹتے ہوئے اپنے تمام وسائل کا بڑا حصہ صرف غیر ملکی اشیائے ضرورت ہی نہیں ، اسلحے کی خریداری پر صرف کرنا تھا ،

 اور ہندوستان کے اپنی اوقات سے بڑھنے کی صورت میں کبھی اس سے اور کبھی اسے  سبق سکھانا تھا ۔

یا دوسری مثال یوں ہے کہ ایک کھلاڑی کو ہمیشہ وارم اپ کرنے کے لیے ساتھی کھلاڑی فراہم کرنا تھا ۔

تو بتائیے ان دونوں کے درمیان مستقل جنگ بندی کیسے کروائی جائے ؟


خود پاکستانی قوم اس معاملے میں کنفیوز ہے ،

بتائیے جو بھی ہندوستان سے امن کی بات کرنے میں ایک حد سے آگے بڑھتا ہے وہ طاقتوروں سے تو بعد میں ، سب سے پہلے وہ اپنی قوم کا غدار نہیں قرار پاتا ؟

اور اس سلسلے میں حقائق بتانے میں اگر ہم اپنے بچوں کو ٹھیک نصاب نہیں پڑھا رہے تو کیا ہمارا تھنکر طبقہ بچوں کے لیے ایسی کتابیں تحریر کر رہا ہے جس میں وہ انہیں آسان حقائق بتانے سے ابتدا کریں تاکہ آنے والا مستقبل پرامن ہو سکے  ؟

ہمارے تھنکر کو تو اب ان مسائل اور موضوعات سے ہی فرصت نہیں کہ جن کی وجہ سے ہم مزید اپنے اندر سے کھوکھلے ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔


تو بتائیے جنگ کیسے روکی جائے ؟


شکر ہے کہ فلحال ایک بڑی جنگ کے امکانات رک گئے ہیں ، ریفری نے سیٹی بجا دی ہے ، 

لیکن غور کریں تو سیٹی اس صورت میں بجی ہے جب ان کے فیورٹ پہلوان کو مار پڑنے ہی والی تھی اور اس پہلوان کی شکست کی صورت میں ان کی بنائی ہوئی بڑی بڑی پروڈکٹس کی مارکیٹ ڈاؤن ہونے والی تھی ، شاید اس بار پہلوان ایسا ناک آؤٹ ہوتا کہ اس کو بیچی جانے والی اور اس کے نام سے بننے والی تمام پروڈکٹس ہی اپنی ویلیو ڈاؤن کر لیتیں ،

لہذا جنگ روکنے کی سیٹی بجا دی گئی ۔


شکر ہوا ہم امن سے محبت کرنے والوں کو بھی چین مل گیا ۔


مگر کیا ہندوستان مذاکرات کی ایسی ٹیبل پر آ سکے گا جہاں کشمیر سمیت پاکستان کے آبی مسائل ، ایک دوسرے کے ملک میں دہشت گردی کو سپورٹ ، اور باہمی تجارت جیسے معاملات کو برابری کی بنیاد پر حل کرنے میں معاونت دی جائے ؟ 

اور دونوں ممالک امن و سکون سے اپنے بجٹ کا بڑا حصہ عوام کی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی پر اور ان کی صحت و تعلیم پر خرچ کر سکیں ،جس سے پھر آگے بڑھتے ہوئے ترقی کے دیگر خواب پورے کیے جا سکیں ۔


نہیں یہ معاملات کبھی حل نہیں ہوں گے ـ

اور ایسے معاملات جو حل کرنے کی کوشش کرے گا ۔ ۔ ۔ 

تو پھر کیا کیا جائے ؟

بس یہی کہ یا تو اس کھیل میں پاکستان کی جس مہرے کی حیثیت سے اہمیت ہے وہ اس مہرے کے مطابق اپنا کھیل جاری رکھے ، یا پھر سب سے طاقتور کھلاڑی سے خود کو طاقتور ثابت کر دے ۔

اور یہاں کھیل سے مراد صرف جنگ نہیں ،

بہت سے محاذ ہیں ۔


شاہد حسین 

10 مئی 25

Mansoor Rahi


 منصور راہی صاحب 

آج 12 مئی ان کی پہلی برسی ہے ،

ایک سال گزر گیا !

معلوم ہی نہیں ہوا لگتا ہے ابھی چند ماہ پہلے کی بات ہے ۔

شاید وقت کی ہم ہی کسی اور طرح سے پیمائش کرتے ہیں ورنہ یہ تو دوڑے چلا جاتا ہے ۔


راہی صاحب ایک بہترین نفیس شفیق انسان ، گریٹ آرٹسٹ جن کے کام پر میں کچھ پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہیں محفوظ ہوگا کبھی وہ شئیر بھی کر دوں گا مزید بھی لکھوں گا ۔ ۔ 

لیکن میں آج ان کے استاد ہونے کی حیثیت پر بات کروں گا کہ اگر میں مبالغے سے کام نہیں لے رہا تو شاید پاکستان میں سب سے زیادہ ان کے شاگرد ہیں ۔

اس کی وجہ پہلے کراچی سکول آف آرٹ جیسا ادارہ جس نے پاکستان کو 

نہ صرف آرٹسٹ بلکہ مشہور آرٹسٹوں کی کثیر تعداد دی ، اور وہ وہاں پر استاد تھے ۔

پھر ٹی وی پر صبح صبح ان کی آمد مصوری کے بیشمار طالب علموں کو ان کے حلقہ شاگردی میں شامل کرنے کا باعث بنی اور پھر خود ان کی ذات جو کہ شاید خالق نے بنائی ہی مصوری کے استاد ہونے کے لیے تھی ۔

جی ہاں یقیناً اپ نے اس بات کا مشاہدہ کیا ہوگا کہ کسی فن کا استاد ہونا ایک بالکل الگ خصوصیات کا حامل ہوتا ہے اور وہ ان خصوصیات میں مجسم استاد تھے ۔

کاش مجھے زندگی میں ان سے ملاقات اور بالمشافہ سیکھنے کا موقع ملتا ۔

تو شاید میں ایک بات بہت بہتر طور پر جان پاتا کہ آخر ایسی کیا وجہ تھی کہ انہیں بے شمار شاگرد ملے جنہوں نے ان سے کام سیکھنے میں ان کی بطور استاد فراخ دلی سے فیضیاب ہوتے ہوئے بہترین شاگرد ہونے کا حق ادا کیا لیکن ایسے شاگرد بہت کم ملے جو ان پر بات کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے جو ان کے ساتھ گزرے وقت ان سے سنی ہوئی باتوں کو بیان کرنے کی خاصیت بھی رکھتے ۔

یقین جانیے جب سے ہم نے دوستوں کی ایک ایسی محفل کا اہتمام کیا جس میں ہماری کوشش رہی کہ صرف فنکاروں کو ان کے جانے کے بعد یا ان کی برسی کے موقع پر ہی نہیں بلکہ ان کی یہ جنم دن پر بھی انہیں ٹربیوٹ دیا جائے ان کے کام ان کی شخصیت پر بات کی جائے ، اور ہم نے تقریباً پاکستان کے ہر بڑے فنکار کہ یا تو کسی بچے یا پھر ان کے شاگردوں میں سے شاگردوں کو شامل کیا مگر ۔ ۔ ۔ 

اپنے استادوں کو ٹربیوٹ دینے والے دوست ہمیں بہت کم دستیاب ہوئے ،

شاید یہ خصوصیت ہمارے خطے میں ہی ناپید ہے ۔

اس کے لیے صرف راہی صاحب کے شاگردوں کو الزام نہیں دیا جا سکتا شاید آج یہ شکوہ اس لیے کیا کہ وہ تعداد میں بہت زیادہ ہیں ۔

منصور راہی صاحب جو بلا شبہ بہت بڑے فنکار تھے اور ان کا شاگردوں کا حلقہ جس قدر وسیع تھا اس کے پاس تو ان کی داستانیں ہی کبھی ختم نہیں ہونی چاہیے تھیں ۔ 


آج یہاں ان پر بات کرنے کے حوالے سے میں خاص طور پر ان کی شاگرد خاص یاسمین عزیز کا ذکر ضرور کروں گا جو نہ صرف بڑے اہتمام سے منصور راہی صاحب پر ہمیشہ بات کرتی رہی ہیں بلکہ وہ مصوری سے جڑے دیگر فنکاروں پر بھی باقاعدگی سے لکھتی اور بات کرتی ہیں اور سچ میں وہ ایک نہ صرف لائق شاگرد مصورہ بلکہ راہی صاحب کی اچھی دوست ہونے کا بھی حق ادا کر رہی ہیں ان کا بہت بہت شکریہ ۔


اللہ منصور راہی صاحب کو جنت الفردوس میں اعلی مقام دے ،

 

شاہد حسین 

12 مئی 25

Meaning of Night


 Meaning of Night ,1927.

René Magritte


 "Meaning of Night"

  رینی میگریٹ کہ اس پینٹنگ پر ایک علامتی و فکری تجزیہ ۔


رینی میگریٹ (René Magritte) بیسویں صدی کے مایہ ناز بیلجئین سورئلسٹ مصور تھے، جن کے فن پارے حقیقت ، خواب، مرئی و غیر مرئی، موجود اور غائب جیسے تصورات کے درمیان باریک فکری حدوں پر سوال وجواب کرتے ہیں۔

 "Meaning of Night" 

بھی ان میں سے اسی سلسلے کی ایک پُراسرار اور گہرے معنویت سے بھرپور پینٹنگ ہے۔ 

یہ پینٹنگ بظاہر سادہ سی لگتی ہے، مگر اس کا ہر عنصر اپنے اندر ایک علامتی جہاں رکھتا ہے۔

پینٹنگ میں دو مرد ایک ہی طرز کے لباس میں کھڑے ہیں سیاہ اورکوٹ، ٹائی، اور بو ٹوپی۔ ایک کا چہرہ بند انکھوں سے ناظر کی طرف جبکہ، دوسرا پیٹھ کیے کھڑا ہے۔

اگر ان کا علامتی مفہوم جانا جائے تو ، دو مرد ! خودی اور وجود یعنی انا اور ذات کی تقسیم ہیں ۔

 یہ دونوں ایک ہی شخص کے دو پہلو ہو سکتے ہیں۔

"ظاہری خود" اور "باطنی خود"۔


سامنے نظر انے والا چہرہ معاشرے کے سامنے پیش کی گئی اس کی شخصیت ہے، بند آنکھیں خواب یا نیند کی حالت جبکہ پیٹھ کیا شخص وہ ہے جو خود اپنے آپ کو دیکھتا ہے، یا جو خود سے بھی پوشیدہ ہے۔

سورئلسٹ آرٹ میں آئینہ اور عکس اس موومنٹ کے بہت سے آرٹسٹوں کے کام میں بار بار استعمال ہوتے رہے ہیں تاکہ یہ سوال اٹھایا جا سکے کہ ہماری ذات اور زندگی کی اصل حقیقت کیا ہے؟


 یہ دونوں شخص بھی ایک دوسرے کا عکس محسوس ہوتے ہیں، مگر وہ آئینے میں نہیں، بلکہ ایک ہی کینوس پر موجود ہیں۔


دوسرا اہم بصری عنصر نسوانی ہاتھ اور کسی جانور یا پرندے کی فر (Fur) ہے ۔

ایک بڑے سے نرم، فر کی مانند شے پینٹنگ کے نمایاں حصے میں تیرتی ہوئی نظر آرہی ہے، جسے عورت کے ایک سفید دستانہ پہنے جبکہ دوسرے فر زدہ ہاتھ تھامے ہوئے ہیں۔ عورت خود موجود نہیں، فقط ہاتھ ہیں ۔


ان کا علامتی مفہوم 

کسی مکمل عورت کی عدم موجودگی اور اس کی "یاد" یا اس کی "جذباتی خلا" کو ظاہر کرتی ہے۔ صرف ہاتھوں کی موجودگی ماضی کی کسی محبت یا جذبے کی ادھوری موجودگی کی علامت ہے۔


"فر" عموماً نرمی، نسوانیت، اور شہوانیت (sensuality) کی علامت ہوتا ہے۔ مگر یہ ایک "مُردہ جانور" کی کھال بھی ہو سکتا ہے، جو حسن اور موت کو ایک ساتھ جوڑتا ہے۔

اور ان کو چھونا ہر کسی کے لیے مختلف مختلف اہمیت اور معنویت کا حامل ہوتا ہے ۔

ہاتھ اور فر فضا میں معلق ہیں، جیسے خواب یا خیال، حقیقت سے منقطع، غیر حقیقی۔


پینٹنگ کے مجموعی منظر میں ریت، بادل اور سمندر یہ سب مل کر ایک خوابیدہ منظر کو پیش کر رہے ہیں ۔


 زمین ساحل سمندر جیسی ہے، لیکن زمین سمندر سے بلند مقام پر ہے جسے ہم ایک ایج سے دیکھ سکتے ہیں۔

زمین پر بادل بکھرے ہوئے ہیں اور افق پر ایک سیاہ سمندر اور آسمان دکھائی دیتاہے ۔

جس کا علامتی مفہوم یہ ہو سکتا ہے کہ ،

یہ سب باہم مدغم مگر ریت وقت اور فنا کی علامت ہے۔ ہر چیز وقت کے ساتھ مٹتی جاتی ہے۔

بادل عام طور پر آسمان سے تعلق رکھتے ہیں، مگر یہاں زمین پر بکھرے ہیں۔ یہ غیر حقیقی کیفیت، خواب، یا لاشعور کی علامت ہیں۔ بادلوں کا زمین پر ہونا حقیقت اور واہمے کی حد کو مٹاتے ہوئے ایک مقام پر لاتا ہے۔


اسی طرح سیاہ سمندر نفسیاتی سطح پر لاشعور (subconscious) کی علامت ہے ،

ایک گہری، ان دیکھی دنیا، جو انسان کے شعور سے پرے موجود ہے۔


اندھیرا آسمان اور "رات" کا تصور خوف، اسرار اور غیر یقینی مستقبل کی نمائندگی کرتا ہے


 رنگوں کے استعمال پر بات کی جائے تو ،

سورئلسٹ فنکار زیادہ تر رنگوں کو جذباتی اور نفسیاتی کیفیتوں کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔

یہاں مدھم سیاہ، خاکی اور سرمئی رنگ انسان کے ذہن میں چھپی الجھن، خاموشی، اور کسی گہری سوچ کی نمائندگی کرتے ہیں۔


نیوٹرل رنگ پینٹنگ کو خواب اور حقیقت کے درمیان معلق رکھتے ہیں، جو سورئلسٹ وژن کا بنیادی عنصر ہے۔


اس پینٹنگ کی فکری اور نفسیاتی جہت کو دیکھیں تو ،

میگریٹ کے فن کا مقصد صرف خوبصورتی دکھانا نہیں، بلکہ سوالات اٹھانا ہے:

ہم جو دیکھتے ہیں، وہی سچ کیوں مانیں؟


کیا ہمارا عکس ہم جیسے ہی ہوتا ہے؟ یا ہم خود اپنے عکس سے بھی مختلف ہیں؟


خواب اور حقیقت کی سرحد کہاں ختم ہوتی ہے؟


یہ اور ایسے ہی دیگر سوالات Freudian نفسیات اور سورئلسٹ فلسفے کی بنیاد ہیں۔ 

"Meaning of Night" 

ان ہی سوالات کو بصری صورت میں پیش کرتی ہے۔


"Meaning of Night" 

صرف ایک تصویر نہیں بلکہ ایک خواب ، ایک ایسا خواب جو انسانی شعور، لاشعور، یادداشت، خواہش اور الجھن کے درمیان معلق ہے۔ رینی مارگریٹ نے اس پینٹنگ کے ذریعے ایک ایسا منظر تخلیق کیا ہے جو بظاہر خاموش ہے، مگر اپنے اندر لا تعداد سوالات، جذبات، اور علامتیں سموئے ہوئے ہے۔


یہ فن پارہ ناظر سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ صرف دیکھے نہیں، بلکہ غور کرے، سوال کرے، اور اپنی ذات کے آئینے میں جھانکے۔


 ترتیب و تحریر ،

شاہد حسین 

11 مئی 25

Sunday, May 11, 2025

Mother's Day


 When Family is the only Shelter.

جب خاندان ہی واحد پناہ گاہ ہو۔


 2014 ،فلسطین غزہ میں -

 ملاک متر ،  13 سال کی تھی جس کا بطور مصورہ کیریئر کا آغاز اس دور میں ہوا جب اس کے علاقے پر اسرائیلی بمباری ہو رہی تھی ، تو اس کا کہنا ہے کہ ان حالات میں میرے اندر موجود ، 

 "منفی توانائی کو خارج کرنے" اور "موت کے خوف" سے بچنے کا راستہ تلاش کرتے ہوئے، میں نے پانی کے رنگوں کا ایک ڈبہ اٹھایا اور پینٹ کرنے لگی۔  وہ کہتی ہیں کہ یہ بس اس کے زندہ رہنے کا طریقہ تھا، اس نے مزید کہاکہ ،"میرا فن میرے دل سے پینٹ کرنے کے تجربات کے حوالے سے  میرے احساسات کی نمائندگی کرتا ہے۔"


دوستو 12 مئی ،

دنیا بھر میں ماؤں کا دن منانے سے منسوب ہے ،

جنگ کے موضوع نے 

اس دن کے حوالے سے کچھ تحریر کرنے میں تاخیر کر دی ۔ ۔ ۔ 

جبکہ یہ جنگیں جو کہیں بھی لڑی جائیں شاید سب سے زیادہ ماؤں کے جذبات اور روح کو متاثر کرتی ہیں ،

سلام ہے ان تمام ماؤں کو جن کے بچے ان کی زندگی میں ان کی آنکھوں کے سامنے ان جنگوں کی نظر ہو جاتے ہیں ، 

سلام ہے ان بچوں کو جو ان جنگوں کی وجہ سے بچپن میں ہی اپنی ماؤں کی چھاؤں اور خاندان کے تحفظ سے محروم ہو جاتے ہیں ۔

کاش وہ قدیم تصور  کرہ ارض کے تمام انسان اپنا لیں جس میں وہ اس پوری دنیا کو اپنی دھرتی ماں کہتے ہیں ۔


تو کاش ہماری یہ دھرتی ماں اس پر بسنے والے اپنے تمام بچوں کے لیے ہمیشہ کے لیے امن کی دنیا بن جائے ۔


شاہد حسین 

12 مئی 25

Thursday, May 1, 2025

HYPNAGOGIC


 سلواڈور ڈالی کا خیال تھا کہ

 Hypnagogic،

ھیپناگوجک،

 حالت، بیداری اور نیند کے درمیان کا دورانیہ، تخلیقی تحریک کا ایک طاقتور ذریعہ ہے۔  اس نے "چابی کے ساتھ نیند" کے نام سے ایک تکنیک تیار کی، جہاں وہ اپنے ہاتھ میں ایک چابی لے کر سونے بیٹھتا، جو گرنے پر اسے بیدار کر دیتی، جس سے وہ نیم غنودگی، ہپناگوجک حالت سے لمحہ بہ لمحہ اپنے دماغ میں موجود تصاویر اور خیالات تک رسائی حاصل کر سکتا تھا۔ 

سرل ازم کا صحیح ترجمہ، دراصل ہے سپر حقیقت پسندی یا ماوراء حقیقت پسندی ،

تو اس موومنٹ میں بہت سے آرٹسٹوں نے کام کیا لیکن ڈالی کی لاشعوری ذہن میں گہری دلچسپی اور اس تکنیک کے امتزاج سے اس نے اپنی بہت سی مشہور پینٹنگز کو تخلیق کیا۔ 


 Hypnagogia,

 سے ایک تخلیقی ٹول کے طور پر

 ڈالی نے ،

Hypnagogic,

 سوتی جاگتی، اسٹیٹ آف مائنڈ کو شعور اور لاشعوری ذہن کے درمیان ایک پل کے طور پر دیکھا، ایک ایسی جگہ جہاں حقیقت اور تخیل کے درمیان کی سرحدیں دھندلی ہو کرملتی ہیں۔ 


 "چابی کے ساتھ نیند"،

ڈالی کی تحریروں میں تفصیل سے بیان کی گئی اس تکنیک میں ایک مائیکرو نیپ یعنی مختصر نیند شامل تھی جس میں فنکار اپنے ہاتھ میں ایک چابی لے کر سو جاتا جو جب مکمل نیند میں چلے جانے کی وجہ سے ہاتھ سے گر جاتی تو اس کے شور کی وجہ سے آرٹسٹ کو کچھ بیدار کرتی تھی اور اسے ہپناگوجک حالت میں اس کے دماغ میں موجود فوٹوگرافک یاداشت کی طرح محفوظ مناظر تک لمحہ بہ لمحہ نظاروں کو حاصل کرنے کی رسائی دیتی تھی۔ 


اس غیر شعوری ذہن کے ساتھ ڈالی کی دلچسپی، سرل ازم ، ماوراء حقیقت پسندانہ تحریک کی مجموعی خصوصیات نے اسے تخلیقی الہام کے لیے ہپناگوجک حالت کی صلاحیت میں خاص طور پر دلچسپی پیدا کی۔ 


 اس تکنیک نے بعد میں کچھ سائنسی دلچسپی بھی حاصل کی ہےاور تحقیق کے ذریعے تخلیقی سوچ کو فروغ دینے کے لیے ہپناگوجیا کی صلاحیت کو مزید تلاش کیا جا رہا ہے ۔ 

لیکن دراصل یہ وہ طریقہ ہے جو بہت سے فنکاروں کے بغیر کسی سائنسی تحقیقی نتائج کے خود ان کے ذاتی مشاہدات میں آتا رہتا ہے ، اور یہ ہر فنکار کا مختلف اور انفرادی بھی ہو سکتا ہے ،

جیسے کہ ہمارے گروپ میں اکثر اس سوال پر بحث بھی ہوئی کہ کیا فنکار کے لیے اپنی خوابدہ تخلیقی صلاحیتوں کو بیدار کرنے کے لیے کسی نشہ آور چیز کا استعمال بطور ٹرگر یا ایکسیلیٹر کے معاون رہتا ہے ؟

 اب اس پر تحقیق تو یہ کہتی ہے کہ بہت معمولی مقدار 

Creative Cognition,

کو کچھ بڑھاوا دے سکتی ہے لیکن زیادہ استعمال اس تخلیقی صلاحیت کو متاثر یعنی کم بھی کرتا ہے ۔

اور کئی بار یہ ان فنکاروں میں بھی زیادہ موجود ہوتا ہے 

جو ہمیں اپنی شعوری زندگی میں زیادہ فعال یا پرفیکٹ نہیں نظر آتے ۔

اسی طرح سے اگر میں اپنا ذاتی تجربہ بیان کروں تو میں چونکہ جاگتی حالت میں دن کے 14سے 15 گھنٹے اپنے کام "آرائشی اورنامنٹ" میں کسی مزدور کی طرح جتہ رہتا تھا اور پھر مکمل حالت نیند میں بھی ایسے،

Ornamental Notives, 

 اورنامنٹل موٹوز

آرائشی نمونے خواب میں دیکھتا تھا جن کے ریفرنس پہلے کہیں موجود نہیں ہوتے تھے ۔

جنہیں میں صبح اٹھ کر ڈرا کرلیتا اور پھر انہیں بنا کر اپنے استعمال میں لاتا تھا ۔


تو خلاصہ یہ ہےکہ ،

کئی بار ہماری فنون کے کسی بھی شعبے سے متعلق تخلیقی صلاحیتوں کی جو حقیقی آماجگاہ ہے وہ ہمارے دماغ کے شعوری حصے سے کہیں زیادہ اس کی درمیان سے آخری شعوری حد سے شروع ہو کر گہرے 

 لاشعور یا تحت الشعور میں موجود ہوتی ہیں ،

جن تک رسائی نیم خوابیدہ سے گہری نیند تک میں حاصل کی جا سکتی ہے ۔


شاہد حسین 

یکم مئی 25