Monday, May 12, 2025

جنگ اور پاکستان


 کیا موجودہ جنگ پاکستان جیت سکے گا ؟

یہ بات تو سچ ہے کہ 

بڑی طویل مدت سے افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات اور اندرونی حالات کی وجہ سے پاکستان ہندوستان سے جنگ نہیں چاہتا تھا ۔


جبکہ ہندوستان انہی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے طویل مدت سے پاکستان کو جنگ کے لیے اکسا رہا تھا ، 

وہ بڑے دھڑلے سے پاکستان میں چاہے افغانستان کے ذریعے یا بلوچستان اور دیگر حصوں سے تخریب کاروں دہشت گردوں کی سہولت کاری تو کر رہا تھا 

پاکستان اس حوالے سے کئی بار بین الاقوامی اداروں یہاں تک کہ دوست ممالک کے سامنے ثبوت رکھتا رہا مگر پاکستان کی اب کوئی کمزور آواز سنتا ہی نہیں ۔

ہندوستان اپنی سرحدوں سے لیکر بین الاقوامی ہر محاذ اور پاکستان کے اندرونی معاملات سے لے کر یہاں کے لوگوں کے ذہنوں پر اپنے طاقتور میڈیا فلم تک کے ذریعے مستقل پاکستان پر جنگ مسلط کیے ہوئے ہے جبکہ پاکستان کی تقریباً ہر حکومت اور طاقتور اداروں کی ہر قیادت جواب دینے میں مدت سے 

ایسی مصلحتوں کا شکار ہے ، جسے ہر حکومت کے حامی سپورٹ کرتے ہیں جبکہ اس کے مخالف بزدلی کا طعنہ دیتے ہیں ،

اس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ 

ایک حکومت میں در اندازی کرنے والے جہاز کو مار گرا کر اس کے پائلٹ کو گرفتار کر کے خاطر مدارت کر کے واپس بھیجنے کو اس حکومت کے حامی اپنی قیادت کی اعلی ظرفی جبکہ دوسرے کی بالکل ویسے ہی کسی کارکردگی کو بزدلانہ حرکت سمجھتے ہیں ۔

پاکستان کی عوام گزشتہ نصف صدی سے اس قدر کنفیوز ہو چکی ہے کہ ہندوستان جس کے پاکستان کی تقسیم سے بڑے مقاصد یہ پورے ہوئے کہ اسے مسلمانوں کی طاقتور عددی حیثیت سے نجات مل گئی اور مدتوں سے در اندازی کرنے والے افغانستان سے نجات مل گئی وہ پھر بھی پاکستان سے دشمنی نبھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا پاکستان کو دو ٹکڑے کرنے کے باوجود مزید ٹکڑوں میں بانٹنا چاہتا ہے اور اج اسے ان مقاصد میں مدد دینے کے لیے ایک ایسی طاقتور ریاست کی مدد حاصل ہے جو کسی طور بھی پاکستان کا ایٹمی وجود برداشت کرتی ہی نہیں ہے ۔

مگر پاکستان کی عوام اس بات کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ۔


 افغانستان جو کہ پاکستان کی ابتدا سے لے کر آج تک اس کا دشمن ملک رہا ہے وہ اس کے جنگ سے پریشان پناہ گزینوں کی 45 سال سے میزبانی کرنے کے باوجود ان سے گالیاں کھا کر اور ان کی ہر طرح کی کرمنل اور دہشت گردانہ سرگرمیاں برداشت کر کے انہیں اپنا مسلمان بھائی سمجھتا ہے ۔

اور اگر کوئی حکومت انہیں واپس بھیجنے کی بات کرتی ہے تو وہ ان کے راستے میں ڈٹ کے دیوار بن کے کھڑا ہو جاتا ہے ۔

تو اب ذرا غور کیجئے ایک ایسا ملک جو ایک طرف اپنے دشمن ہندوستان دوسری طرف پیدائشی دشمن افغانستان ایک طرف فقہی نظریاتی دشمن ایران سے گھرا ہوا ہے دوسری طرف اندرونی طور اس کی عوام دوست دشمن کی ناتمیز رکھتی ہے نہ اس کی مدتوں سے جاری اسٹریٹجی سے واقف ہے ،

کہ ہندوستان کس کس ترکیب سے اسے نقصان دے رہا ہے ،

اور افغانستان اپنے پناہ گزینوں کے ذریعے کس طرح سے تقریباً پاکستان پر قبضہ کر چکا ہے ،

جبکہ خود اس کے اپنے تین صوبے پاکستان کے اکثریتی صوبے پنجاب کو بات بات پر گالیاں دیتے اور علیحدہ ہونے کی دھمکی دیتے رہتے ہیں ، لیکن بلوچستان کے لوگوں کو ان پر قابض ہونے والے افغانیوں سے کوئی مسئلہ نہیں ، 

خیبر پختون خواہ کے پشتونوں کو ان کے کاروبار پر قابض ہو جانے والے افغانیوں سے کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ وہ انہیں اپنا نسلی برادر سمجھتے ہیں ۔ سندھیوں کو ان افغانیوں سے کوئی مسئلہ نہیں بس انہیں مسئلہ ہے تو پنجابیوں اور پنجابی فوج سے ۔


پھر مدت سے کرپٹ حکمرانوں سے ستائی ہوئے عوام جس سیاسی قیادت پر سب سے زیادہ ٹرسٹ کرتی ہے اسے موجودہ حکومت نے جیل میں بند کیا ہوا ہے لہذا اس سیاسی پارٹی کی اکثریتی عوام موجودہ جنگ میں فوج کی کسی بھی کارگزاری کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ، چاہے فوج کے گرائے جانے والے کسی جہاز کا ملبہ ان کے پڑوسی کے گھر پہ ہی کیوں نہ گرا ہو وہ اسے اپنی فوج اور ناپسندیدہ حکومت کا جھوٹ قرار دے رہے ہیں ۔


اور یوں لگ رہا ہے جیسے وہ پوری شدت سے انتظار کر رہے ہیں کہ کب وہ اپنی گلیوں میں ہندوستانی فوج کے ٹینکوں کو گشت کرتا ہوا دیکھیں گے اور انہیں پھولوں کے گلدستے پیش کریں گے ۔


جنگی حکمت عملیوں میں جھوٹ اور فریب اپنے ٹیکنیکل معنی تبدیل کر دیتا ہے اور یہ وار سٹریٹجی کا ایک لازمی حصہ قرار پاتا ہے ،

آج جب کہ میڈیا انتہائی ترقی پر ہے لیکن ہندوستان مسلسل اپنے لوگوں کو جھوٹ بول کر ان کی ہمت بڑھا رہا ہے اور وہاں کی اکثریتی عوام اپنے اس جھوٹے میڈیا پر آنکھیں بند کر کے یقین کر رہی ہے ،


جبکہ پاکستان کی اکثریتی عوام اپنے میڈیا کی چاہے کچھ پرسنٹ ہی سہی مگر سچی خبروں پر بھی یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور کسی طور بھی اپنا مورال اور ہمت بہتر نہیں کرنا چاہتی ۔

بلکہ سچ کہا جائے تو سمجھ ہی نہیں آرہا کہ وہ چاہتی کیا ہے ؟

کیا وہ پاکستان کو ہندوستان پر قبضے کو کسی الحاق کی صورت میں دیکھنا چاہتی ہے ؟

اور اس کے خیال میں اس فوج جس سے وہ اب نفرت کرتی ہے اس کی شکست سے ہندوستان کی فوج اس کے لیے زیادہ بہتر ثابت ہوگی ؟

تو یہ تجربہ بنگلہ دیش کی عوام کر چکی ہے اور اب وہاں پر پاکستان سے دوبارہ الحاق کی بات ہو رہی ہے ۔


مگر موجودہ پاکستان کی عوام ان سب باتوں کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔

تو کیا ان حالات میں سوچا جا سکتا ہے کہ کوئی عوام مکمل یکجہتی کے ساتھ اپنے دشمن سے جنگ کے لیے تیار ہے ؟

یہ انتہائی گمبھیر صورتحال ہے ، اس میں سب سے پہلے تو اللہ سے مدد کی دعا اور کسی معجزے کی توقع کی جانی چاہیے،

اور پھر پاکستانی فوج جو شاید ہر طرح کے عالمی دباؤ اور مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دشمن کو منہ توڑ جواب دے دے ۔


شاید پھر یہاں کی عوام اپنے دشمنوں کی دشمنی اور دوستوں کی دوستی میں تمیز اور اس پر یقین کر لیں ۔


شاہد حسین 

8 مئی 25

No comments: