کسی گاؤں میں ،
اونچی ذات کے راجپوت نے گاؤں میں سب سے بڑی مونچھیں رکھی ہوئی تھیں۔
اسی گاؤں میں نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے بھی مونچھیں رکھ لیں بلکہ راجپوت سے بھی بڑی رکھ لیں ،
راجپوت کے لیے یہ بہت توہین آمیز بات تھی ،
اس نے اس سے کہا کہ اس گاؤں میں یا تو میں یا پھر تم ۔ ۔
نچلی ذات والے نے مونچھیں منڈوانے سے انکار کر دیا ۔
فیصلہ پنچوں کے پاس چلا گیا انہوں نے فیصلہ کیا کہ ٹھیک ہے دونوں کے درمیان ڈوئیل ہوگا یعنی زندگی اور موت کا مقابلہ جو بچ جائے گا وہی مونچھیں رکھے گا ۔
راجپوت گھر گیا اور اس نے اپنی بیوی سمیت تمام گھر والوں کو قتل کر دیا
کہ ہو سکتا ہے کل میں زندہ نہ بچوں
تو میرے بعد میری فیملی کا کیا ہوگا ،
اور دوسرے دن وہ مقابلے کے مقام پر پہنچ گیا ، جب وہ وہاں پہنچا جو نچلی ذات والا مونچھیں صاف کروا کے آ چکا تھا۔
اس نے آ کے کہا کہ میں نے گھر جا کے سوچا اور فیصلہ کیا کہ ٹھیک ہے میں مونچھوں کے بغیر ہی ٹھیک ہوں ۔
اصل میں بات ذات پات اونچی نسل یا نچلے طبقے کی نہیں ہے ،
اعلی اقدار رکھنے والی اقوام اور افراد کو اپنے عہد یا اپنی بات کا پاس رکھنا ہوتا ہے ،
عرب یقیناً ایک وقت میں دنیا کی افضل ترین قوم رہے ،
ہماری مقدس ہستیوں کا بھی یہیں سے تعلق ہے لیکن کیا عرب ان اعلی اقدار کو لے کر آگے چل رہے ہیں ؟
موجودہ عرب حکمران خاندان نے اپنے شدت پسند مسلک سے پوری اسلامی دنیا کا تشخص بدل دیا ،
انہیں خواتین کے حوالے سے نقاب چہرہ چھپانے یا دکھانے میں مسائل سے دوچار کر دیا وہ تعلیم حاصل کر سکتی ہیں یا نہیں اس حوالے سے بے شمار مسائل پیدا کر دیے ،
آرٹ موسیقی دیگر فنون اور خواتین کے حقوق سمیت اور جہاد مسلم دنیا شدت پسند نظریات کا شکار ہو کر پوری دنیا میں مسائل کا شکار ہو گئی ،
خاص طور پر سب سے زیادہ نقصان اہل تشیع کو اٹھانا پڑا ،
اور اب عرب اپنا چہرہ بدل رہے ہیں ،
بہت اچھی بات ہے کوئی بھی خرابی جب بھی ٹھیک ہو جائے تب بھی اچھا ہے ، لیکن کیا عرب صدیوں سے مسلم امہ کو پہنچانے والے نقصان کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار ہیں ؟
کیا وہ اس پر کسی سے معذرت کرنا چاہیں گے یا بس مغربی اقوام کے اقاؤں کو خوش کرنے سے ہی تسلی حاصل کر لیں گے ؟
شاہد حسین
19 مئی 25
No comments:
Post a Comment