شکر الحمدللہ جنگ روکنے کے اعلان سے بڑے پیمانے پر ہونے والی جنگ رک گئی ہے ۔
آپ تو جانتے ہیں فنکاروں کی اکثریت ہمیشہ جنگ سے نفرت کرتی ہے ۔
بالکل اسی طرح ہماری کوشش تو آرٹ پر بات کرنے کی ہے جس کا تعلق دنیا بھر سے ہونا چاہیے لیکن اہمیت ہمارے خطے کے آرٹ کی ہے جو کہ مکالمے پر یقین نہیں رکھتا اور ہماری اندرونی و بیرونی جنگوں نے بھی ان کوششوں کو سبوتاژ کیا ہے ۔
خیر دوستوں کی محفل میں پھر سے آرٹ پر ہی بات ہو گی ۔
NO WAR,
دیکھیے اس حوالے سے تمام باتیں بالکل سچ ہیں کہ جنگ قابل نفرت ہوتی ہے ۔
مگر یہ کی ہی کیوں جاتی ہے ؟
اس سوال کا تعلق انسان کی ہزاروں سالہ پرانی تاریخ سے ہے ، جس پر سینکڑوں نہیں شاید ہزاروں کتابیں لکھی جا چکی ہیں تو کیا ہم کسی ایک تحریر میں اس یا اس سے جڑے کئی سوالوں کے جوابات کا احاطہ کر سکتے ہیں ؟
اور وہ بھی مجھ جیسے شخص کی تحریر میں جس کا جو تھوڑا بہت مطالعہ ہے وہ بس فن مصوری سے ہی متعلق ہے ۔
اور پھر اب تو ویسے بھی ہم ایک ایسے دور میں ہیں جہاں بس ادھوری باتیں کی جاتی ہیں
جنہیں کبھی کوئی سمجھ ہی نہیں پاتا ، اور مکمل بات سننے پڑھنے کا کسی کے پاس وقت ہی نہیں، تو جواب کوئی کیا دے گا ان کے حل کیا دے گا ؟
پون صدی سے حاصل شدہ ملک میں ہم ابھی تک بنیادی سوالات سے آگے کیا بڑھتے بنیادی ضرورتیں ہی نہیں حاصل کر سکے ۔
وہ جو ابتدائی دور میں سماجی و اقتصادی اداروں میں کچھ بڑھوتی ہو رہی تھی اور فنون و ثقافت میں ترقی ہو رہی تھی وہ بھی گنواں بیٹھے ۔
بجائے اس کے کہ ہم
آج کسی سپر پاور کی طرح سے نہ سہی مگر دنیا میں ایک باوقار معاشی و اقتصادی طور مضبوط ملک کی حیثیت سے جانے جاتے ہم خود اپنے نظریات میں ہی ٹوٹ پھوٹ اور شکست کا شکار ہوتے چلے گئے،
اب تو یہ آواز عام ہو گئی ہے کہ کیا پاکستان بنانے کا فیصلہ درست تھا ؟
لیکن جب ہم نے ایک محفل میں دوستوں کے سامنے سوال رکھا کہ کیا آپ اپنے ان اباؤ اجداد کا گریبان پکڑ سکتے ہیں جنہوں نے اس کا فیصلہ کیا تھا ؟
یا اب کیا ہو سکتا ہے تو اس کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا ۔
آج ہی ایک دوست نے ہمارے ایئر مارشل اصغر خان صاحب کی ایک ویڈیو شیئر کی جس میں وہ بڑے دھڑلے سے فرما رہے تھے کہ کشمیر جس کی وجہ سے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان آج تک جنگیں ہو رہی ہے اس کا پاکستان سے الحاق نہ ہونے میں خود پاکستان ہی قصوروار تھا ،تو پھر کشمیر کا تنازعہ دونوں ممالک کے درمیان رکھنے کا مقصد کیا تھا ؟
کیا آج کوئی پاکستانی ایسے آسان سے سوالوں کے جواب حاصل کر سکتا ہے ؟
چلیے میں ان کے اپنی ناقص عقل و علم سے کچھ جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں ۔
ہزاروں سال پہلے سے جب انسان شکار کے ذریعے خوراک حاصل کرتا تھا تب بھی اسے ان جگہوں کے لیے جہاں اسے شکار باسانی ملتا تھا ان پر اجارہ داری قائم کرنے کے لیے اسے جنگ کرنی پڑتی تھی ۔
اور اسی میں فتح کی بنیاد پہ طے ہوتا تھا کہ اسے خوراک ملے گی یا نہیں ۔
ہزاروں سال سے وہ طاقتور انسان جو بنیادی ضرورتوں کے باوجود اپنی انا کی ہزاروں خواہشیں پوری نہیں کر پاتے وہ اسے جنگ کے ذریعے ہی پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
ہزاروں سال سے جنگ دنیا کا سب سے منافع بخش کاروبار ہے ۔
اور ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی آج بھی جنگیں انہی بنیادوں پر دنیا بھر میں ہو رہی ہیں ۔
بیچ میں دہائیوں سے لے کر سینکڑوں سالوں کا وقفہ آتا تھا ، مگر اب یہ وقفے مختصر ہو رہے ہیں ۔
ذرا غور تو کیجئے صرف نصف صدی میں آپ نے اپنے ارد گرد کتنی جنگیں دیکھی ہیں اس کا جواب تو ڈھونڈئیے ۔
تو پھر آپ یقیناً کچھ ایسے حقائق جاننے کی جانب ضرور بڑھیں گے ، جہاں آپ کو اندازہ ہوگا کہ ،
ہمارا یہ خطہ جسے ہم برٹش کمپنی کی آمد سے پہلے امن اور چین و سکون کا گہوارہ قرار دیتے ہیں یہ مستقل بنیادوں پر امن چین سکون کا گہوارہ کبھی تھا ہی نہیں ۔
وہ انگریز صاحب بہادر جس نے ، 145 سال تجارتی کمپنی کی شکل میں اور پھر 190 سال باقاعدہ بادشاہت کی شکل میں ہم پر حکومت کی ۔ ۔ ۔
جسے پھر ہم سمجھتے ہیں کہ بڑی مشکل سے ہم نے نکالا لیکن کیا یہ سچ ہے کہ ہم نے اسے نکال دیا ؟
جواب یا سچ تو یہ ہے کہ سامراجی دنیا
نو آبادیات میں غلاموں پر ایسی براہ راست حکومت کرنے کی شکل تبدیل کر رہی تھی جس میں اسے انہیں
انفراسٹرکچر سے لے کر تعلیم اور دیگر بنیادی سہولتیں دینی پڑیں ، لہذا وہ اب اپنی کالونیوں کو ممکنہ حد تک ٹھیکے پر دینے کی طرف جا رہے تھے جس میں رہنے والے غلام نہیں کنزیومر تھے ۔
ان سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی یافتہ ممالک کو چاہے ضرورت کی اشیاء اگانی تھیں یا بنانی تھیں یا اسلحہ بیچنا تھا اس کے لیے انہیں مارکیٹس کی ضرورت تھی ۔
یا یوں سمجھیے کچھ خطے بنائے ہی لیبارٹری کے مقصد سے جا رہے تھے ، جہاں پروڈکٹس سے لے کر نئی دوائیاں بھی وہیں ٹیسٹ کی جانی اور نئے اسلحے بھی بیچے جانے اور کنزیومرزکے بیہیویئرز کو بھی چیک کرنا تھا ،
اور پھر ان مارکیٹس میں اپنے تحفظات کا خیال رکھنے کے لیے سیکورٹی ایجنسیز کی ضرورت تھی ۔
طاقتوروں اور کمزوروں کی شطرنج کے مہروں کی بناوٹ کی طرح ضرورت تھی اور انہیں کھیلنے کے لیے ان خطوں کو ٹکڑوں میں بانٹنے کی ضرورت بھی تھی ۔
تاکہ اگر ایک خانے میں چال نہ چلی جا سکے تو دوسرے میں چل لی جائے ایک مہرہ ان کے احکامات نہ مانے تو دوسرے کے ذریعے اس سے منوائے جائیں ۔
لہذا اگر غور کیا جائے تو یہ کام تو انگریز جاتے جاتے بڑے بہترین طریقے سے کر کے گیا ہے ۔
یہ تو چائنہ جیسے کچھ ممالک تھے جنہوں نے بڑی کوشش ڈسپلن اور مستقل مزاجی سے ان کے کھیل کو سمجھا اور بازی پلٹی ۔
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ دنیا کی سپر پاور سمجھے جانے والا چین بھی ابھی تک خود کو ان زنجیروں سے پوری طرح آزاد نہیں کروا سکا ۔
لیکن خیر ہمارا موضوع ہمارا خطہ بر صغیر انڈو پاک ہے ۔
جس کی تقسیم سے ہم نے کیا حاصل کیا ؟
مسلمانوں کی الگ ریاست ؟
دیکھیے ہندوستان میں بسنے والی ہندو اکثریت اگر ہماری دشمن تھی تو اس کو چنوتی دینے والے دوسری بڑی اکثریت
مسلمان تھی جو اس پارٹیشن سے چار حصوں میں تقسیم ہو گئی اور ہندوؤں کے نقطہ نظر کے مطابق
دیکھا جائے تو وہ مسلمانوں کی طاقتور شر انگیزی سے ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گئے ۔
جو ان کی صدیوں سے قائم مذہبی ثقافتی و سماجی بناوٹ اور شناخت کو رفتہ رفتہ متاثر کرتے چلے آ رہے تھے ۔
یہاں تک کہ وہ افغانستان جہاں سے وہ گزشتہ ایک ہزار سال سے خود پر ہونے والے حملوں کی زد میں آتے رہتے تھے ،
اس کے راستے میں انہوں نے ایک آہنی سیسہ پلائی ہوئی دیوار یا ایسا بفرزون بنا دیا جہاں اب وہ اس علاقے کے رہنے والے جانیں اور افغانستان جانے والا معاملہ تھا ۔
اور آپ دیکھئیے کہ تقریبا نصف صدی یعنی 45 سال سے افغانستان ہمیں دیکھ رہا ہے اور ہم افغانستان کو ،مجال ہے جو ہندوستان تک اس کا کوئی ایک شرارا بھی پہنچے ۔
تو انگریز جاتے جاتے
اب وہ ہندو لیڈران یا تھنکرز کوئی بھی تھے ان کے ساتھ ایک بہترین ڈیل بنا کر گیا تھا ۔
اور یہاں کے کھیل میں انہیں پہلے سے ہی ایک طاقتور مہرے یا کھلاڑی کی حیثیت دے کر گیا ۔
تب ہی اس نے انہیں ایک بہترین محفوظ مستقبل کے ساتھ طاقتور خطہ الاٹ کیا تھا ، جو اپنی مذہبی ثقافتی سرگرمیوں میں آزاد تھے مغرب کے لیے انتہائی بہترین مارکیٹ اور خود ان کی مارکیٹ میں اپنی پروڈکٹ پہنچانے کے لیے آزاد تھے جبکہ پاکستان کو ایک ایسا خطہ الاٹ ہوا جس نے مستقل ٹوٹ پھوٹ کے مسائل اور در اندازی سے نمٹتے ہوئے اپنے تمام وسائل کا بڑا حصہ صرف غیر ملکی اشیائے ضرورت ہی نہیں ، اسلحے کی خریداری پر صرف کرنا تھا ،
اور ہندوستان کے اپنی اوقات سے بڑھنے کی صورت میں کبھی اس سے اور کبھی اسے سبق سکھانا تھا ۔
یا دوسری مثال یوں ہے کہ ایک کھلاڑی کو ہمیشہ وارم اپ کرنے کے لیے ساتھی کھلاڑی فراہم کرنا تھا ۔
تو بتائیے ان دونوں کے درمیان مستقل جنگ بندی کیسے کروائی جائے ؟
خود پاکستانی قوم اس معاملے میں کنفیوز ہے ،
بتائیے جو بھی ہندوستان سے امن کی بات کرنے میں ایک حد سے آگے بڑھتا ہے وہ طاقتوروں سے تو بعد میں ، سب سے پہلے وہ اپنی قوم کا غدار نہیں قرار پاتا ؟
اور اس سلسلے میں حقائق بتانے میں اگر ہم اپنے بچوں کو ٹھیک نصاب نہیں پڑھا رہے تو کیا ہمارا تھنکر طبقہ بچوں کے لیے ایسی کتابیں تحریر کر رہا ہے جس میں وہ انہیں آسان حقائق بتانے سے ابتدا کریں تاکہ آنے والا مستقبل پرامن ہو سکے ؟
ہمارے تھنکر کو تو اب ان مسائل اور موضوعات سے ہی فرصت نہیں کہ جن کی وجہ سے ہم مزید اپنے اندر سے کھوکھلے ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔
تو بتائیے جنگ کیسے روکی جائے ؟
شکر ہے کہ فلحال ایک بڑی جنگ کے امکانات رک گئے ہیں ، ریفری نے سیٹی بجا دی ہے ،
لیکن غور کریں تو سیٹی اس صورت میں بجی ہے جب ان کے فیورٹ پہلوان کو مار پڑنے ہی والی تھی اور اس پہلوان کی شکست کی صورت میں ان کی بنائی ہوئی بڑی بڑی پروڈکٹس کی مارکیٹ ڈاؤن ہونے والی تھی ، شاید اس بار پہلوان ایسا ناک آؤٹ ہوتا کہ اس کو بیچی جانے والی اور اس کے نام سے بننے والی تمام پروڈکٹس ہی اپنی ویلیو ڈاؤن کر لیتیں ،
لہذا جنگ روکنے کی سیٹی بجا دی گئی ۔
شکر ہوا ہم امن سے محبت کرنے والوں کو بھی چین مل گیا ۔
مگر کیا ہندوستان مذاکرات کی ایسی ٹیبل پر آ سکے گا جہاں کشمیر سمیت پاکستان کے آبی مسائل ، ایک دوسرے کے ملک میں دہشت گردی کو سپورٹ ، اور باہمی تجارت جیسے معاملات کو برابری کی بنیاد پر حل کرنے میں معاونت دی جائے ؟
اور دونوں ممالک امن و سکون سے اپنے بجٹ کا بڑا حصہ عوام کی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی پر اور ان کی صحت و تعلیم پر خرچ کر سکیں ،جس سے پھر آگے بڑھتے ہوئے ترقی کے دیگر خواب پورے کیے جا سکیں ۔
نہیں یہ معاملات کبھی حل نہیں ہوں گے ـ
اور ایسے معاملات جو حل کرنے کی کوشش کرے گا ۔ ۔ ۔
تو پھر کیا کیا جائے ؟
بس یہی کہ یا تو اس کھیل میں پاکستان کی جس مہرے کی حیثیت سے اہمیت ہے وہ اس مہرے کے مطابق اپنا کھیل جاری رکھے ، یا پھر سب سے طاقتور کھلاڑی سے خود کو طاقتور ثابت کر دے ۔
اور یہاں کھیل سے مراد صرف جنگ نہیں ،
بہت سے محاذ ہیں ۔
شاہد حسین
10 مئی 25
No comments:
Post a Comment