سلواڈور ڈالی کا خیال تھا کہ
Hypnagogic،
ھیپناگوجک،
حالت، بیداری اور نیند کے درمیان کا دورانیہ، تخلیقی تحریک کا ایک طاقتور ذریعہ ہے۔ اس نے "چابی کے ساتھ نیند" کے نام سے ایک تکنیک تیار کی، جہاں وہ اپنے ہاتھ میں ایک چابی لے کر سونے بیٹھتا، جو گرنے پر اسے بیدار کر دیتی، جس سے وہ نیم غنودگی، ہپناگوجک حالت سے لمحہ بہ لمحہ اپنے دماغ میں موجود تصاویر اور خیالات تک رسائی حاصل کر سکتا تھا۔
سرل ازم کا صحیح ترجمہ، دراصل ہے سپر حقیقت پسندی یا ماوراء حقیقت پسندی ،
تو اس موومنٹ میں بہت سے آرٹسٹوں نے کام کیا لیکن ڈالی کی لاشعوری ذہن میں گہری دلچسپی اور اس تکنیک کے امتزاج سے اس نے اپنی بہت سی مشہور پینٹنگز کو تخلیق کیا۔
Hypnagogia,
سے ایک تخلیقی ٹول کے طور پر
ڈالی نے ،
Hypnagogic,
سوتی جاگتی، اسٹیٹ آف مائنڈ کو شعور اور لاشعوری ذہن کے درمیان ایک پل کے طور پر دیکھا، ایک ایسی جگہ جہاں حقیقت اور تخیل کے درمیان کی سرحدیں دھندلی ہو کرملتی ہیں۔
"چابی کے ساتھ نیند"،
ڈالی کی تحریروں میں تفصیل سے بیان کی گئی اس تکنیک میں ایک مائیکرو نیپ یعنی مختصر نیند شامل تھی جس میں فنکار اپنے ہاتھ میں ایک چابی لے کر سو جاتا جو جب مکمل نیند میں چلے جانے کی وجہ سے ہاتھ سے گر جاتی تو اس کے شور کی وجہ سے آرٹسٹ کو کچھ بیدار کرتی تھی اور اسے ہپناگوجک حالت میں اس کے دماغ میں موجود فوٹوگرافک یاداشت کی طرح محفوظ مناظر تک لمحہ بہ لمحہ نظاروں کو حاصل کرنے کی رسائی دیتی تھی۔
اس غیر شعوری ذہن کے ساتھ ڈالی کی دلچسپی، سرل ازم ، ماوراء حقیقت پسندانہ تحریک کی مجموعی خصوصیات نے اسے تخلیقی الہام کے لیے ہپناگوجک حالت کی صلاحیت میں خاص طور پر دلچسپی پیدا کی۔
اس تکنیک نے بعد میں کچھ سائنسی دلچسپی بھی حاصل کی ہےاور تحقیق کے ذریعے تخلیقی سوچ کو فروغ دینے کے لیے ہپناگوجیا کی صلاحیت کو مزید تلاش کیا جا رہا ہے ۔
لیکن دراصل یہ وہ طریقہ ہے جو بہت سے فنکاروں کے بغیر کسی سائنسی تحقیقی نتائج کے خود ان کے ذاتی مشاہدات میں آتا رہتا ہے ، اور یہ ہر فنکار کا مختلف اور انفرادی بھی ہو سکتا ہے ،
جیسے کہ ہمارے گروپ میں اکثر اس سوال پر بحث بھی ہوئی کہ کیا فنکار کے لیے اپنی خوابدہ تخلیقی صلاحیتوں کو بیدار کرنے کے لیے کسی نشہ آور چیز کا استعمال بطور ٹرگر یا ایکسیلیٹر کے معاون رہتا ہے ؟
اب اس پر تحقیق تو یہ کہتی ہے کہ بہت معمولی مقدار
Creative Cognition,
کو کچھ بڑھاوا دے سکتی ہے لیکن زیادہ استعمال اس تخلیقی صلاحیت کو متاثر یعنی کم بھی کرتا ہے ۔
اور کئی بار یہ ان فنکاروں میں بھی زیادہ موجود ہوتا ہے
جو ہمیں اپنی شعوری زندگی میں زیادہ فعال یا پرفیکٹ نہیں نظر آتے ۔
اسی طرح سے اگر میں اپنا ذاتی تجربہ بیان کروں تو میں چونکہ جاگتی حالت میں دن کے 14سے 15 گھنٹے اپنے کام "آرائشی اورنامنٹ" میں کسی مزدور کی طرح جتہ رہتا تھا اور پھر مکمل حالت نیند میں بھی ایسے،
Ornamental Notives,
اورنامنٹل موٹوز
آرائشی نمونے خواب میں دیکھتا تھا جن کے ریفرنس پہلے کہیں موجود نہیں ہوتے تھے ۔
جنہیں میں صبح اٹھ کر ڈرا کرلیتا اور پھر انہیں بنا کر اپنے استعمال میں لاتا تھا ۔
تو خلاصہ یہ ہےکہ ،
کئی بار ہماری فنون کے کسی بھی شعبے سے متعلق تخلیقی صلاحیتوں کی جو حقیقی آماجگاہ ہے وہ ہمارے دماغ کے شعوری حصے سے کہیں زیادہ اس کی درمیان سے آخری شعوری حد سے شروع ہو کر گہرے
لاشعور یا تحت الشعور میں موجود ہوتی ہیں ،
جن تک رسائی نیم خوابیدہ سے گہری نیند تک میں حاصل کی جا سکتی ہے ۔
شاہد حسین
یکم مئی 25


No comments:
Post a Comment