Monday, May 12, 2025

Peace and War


 باشعور لوگوں کی آراء ضروری نہیں صرف فیکٹس پر ہی مبنی ہوں بلکہ ان کی ایسی خواہشات سے بھی جڑی ہوتی ہیں جو دراصل ان کے باشعور ہونے کی ہی غماز ہوتی ہیں ۔

جیسے کہ پاکستان اور ہندوستان کا باشعور طبقہ جنگ نہیں چاہتا ۔


اب دنیا کے کسی بھی خطے یا ملک میں یہ طبقہ ہمیشہ اکثریت کے مقابل بہت کم ہوتا ہے ۔


اور اکثر اکثریت کے طوفان اور سیلاب کے سامنے وہ کس قدر بھی مخالف جانے کی طاقت رکھتا ہو ، اس بہاؤ میں بہنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔


بہت سے سمجھدار لوگ جنگ سے انکار اور امن کی خواہش میں یہی کہہ رہے تھے کہ یہ جنگ نہیں ہوگی نہیں ہوگی نہیں ہوگی ۔ ۔ 

کچھ اسے دونوں طرف کے جنگی کاروبار اور جنون میں مبتلا لوگوں کا شوق قرار دے رہے تھے ، لیکن اگر ایسی تسلیاں حقائق پر بھی مبنی ہوں تو یہ کسی کام کی نہیں ہوتیں جب جنگ شروع ہو جاتی ہے ۔


اور اب جنگ شروع ہو چکی ہے ۔


11 مارچ 2025 کو 

کوئٹہ سے پشاور جانے والی پیسنجر ٹرین جعفر ایکسپریس کو ہائی جیک کر کے 18 فوجی جوانوں سمیت دیگر سویلین 31 لوگوں کو شہید کر دیا گیا جو عید کی چھٹیاں گزارنے اپنے گھروں کو جا رہے تھے ۔

 دنیا بھر میں ہر حساس دل باشعور انسان نے اس واقعے کو انتہائی المناک اور افسوسناک قرار دیا ۔

اس سانحے میں مقامی علیحدگی پسند ہی نہیں ہندوستان کی معاونت کا ثبوت بھی پاکستان نے حاصل کرنے کا دعوی کیا مگر اس نے جوابی کاروائی میں ہندوستان سے جنگ کا اعلان نہیں کیا ۔

جبکہ ہندوستان نے جواب میں اسے پاکستان کے ہی ناراض لوگوں کی کاروائی قرار دیا ۔


سچ یہ ہے کہ، ہندوستان طویل مدت 1971 سے پاکستان میں علیحدگی پسندوں کو واضح دعوؤں کے ساتھ پاکستان میں دہشت گردانہ کاروائیوں کے لیے ہر ہر طریقے سے سپورٹ کرتا ہے ۔

جسے وہ اپنی فلم اور فلمی ٹائپ میڈیا پر کسی بہادرانہ سٹیٹمنٹ کی طرح ،

"گھس کر مارنے"

سے اعلان کرتا ہے ۔ 


22 اپریل 2025 کو بھارتی مقبوضہ کشمیر میں چند عسکریت پسندوں نے سیاحوں پر حملہ کر کے 26 افراد کو ہلاک کر دیا ۔

اسے بھی پاکستان سمیت حساس دل اور باشعور لوگوں نے انتہائی دکھی کرنے والا المیہ ہی قرار دیا ۔


اب یہ ان دونوں ممالک کی بدقسمتی ہے کہ طویل مدتی تجربے کے باوجود دونوں ممالک اپنی اپنی ریاستوں میں ناراض لوگوں کو کچلنے کی کوشش تو کرتے ہیں منانے کی نہیں ۔

جیسے کہ خود ہندوستان میں اگر بہت سی ریاستوں میں چھوت چھات ذات پات ، مزہبی اور دیگر سماجی ناانصافیوں کی وجوہات پر علیحدگی پسند تنظیموں کو نہ بھی دیکھا جائے 

تو کشمیر اور خالصتان بہت واضح مثال ٹھوس ثبوتوں اور حقیقت کی طرح موجود ہیں ۔

لیکن ان دونوں حصوں میں جب بھی کبھی کوئی احتجاجی سانحہ یا المیہ رونما ہوتا ہے ہندوستان بغیر ثبوت فراہم کیے نہ صرف پاکستان پر الزام لگاتا ، جوابی کاروائی کرتا ہے بلکہ کھل کر اعلان جنگ کرتا ہے ۔ 

تو اس بار بھی پاکستان کی کسی بین الاقوامی ادارے کی طرف سے شفاف تحقیقات کی پیشکش کے باوجود ہندوستان نے پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔


سو اب جنگ شروع ہے ۔


بتائیے اب باشعور طبقہ کیا کر سکتا ہے ؟

جب بم گرتا ہے تباہی مچتی ہے تو گو کہ اس کے لیے ہر شخص کسی اپنے قریبی کی طرح ہوتا ہے لیکن اس باشعور طبقے کے بھی گھر کے افراد اس میں موجود ہوتے ہیں ۔

ان زخمیوں اور شہیدوں کی لاشوں پر جب وہ جنگ سے انکار کرتا ہے ،

تو صرف بزدل اور ڈرپوک ہی نہیں اپنی قوم کا غدار بھی قرار پاتا ہے ۔


 یہ اعلانیہ جنگ پاکستان نے شروع نہیں کی ،

اور پاکستان کا عام آدمی جو بھی کہتا رہا ہو ہمارے مقتدر اداروں اور باشعور حلقوں نے جنگ کو ٹالنے کی کوششی کی ۔ ۔ اتنی کہ قوم انہیں بیکار ، بزدل اور ناکارہ و ناکام کہہ رہی تھی ۔

میرا آپ فنکار دوستوں سے سوال ہے کہ کیا ہمیں ابھی بھی جنگ سے نفرت اور انکار کی ریت میں منہ دبانا چاہیے ،

یا منہ نکال کر سر بلند کر کے اپنے اداروں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے ؟


براہ راست جنگ میں لڑنے کے لیے ہم شریک نہیں ہو سکتے لیکن اب اس حوالے سے ہماری رائے جو یقیناً اثر رکھتی ہے وہ کیا ہونی چاہیے ؟


شاہد حسین 

10 مئی 25

No comments: