Shahid Hussain:
23 Aug 25.
1952 میں ریلیز ہونے والی دلیپ کمار صاحب کی شہرہ آفاق فلم ،
"آن" کے بارے میں کیا کہوں اس پر جتنا کچھ لکھا جا چکا ہوگا شاید اسے اکٹھا کیا جائے تو کئی کتابوں کا مواد بن جائے ،
لہذا میں اس حوالے سے صرف ان یادوں کا ذکر کروں گا جن کا تعلق میرے والد ناظر حسین صاحب سے ہے ۔
جو اس دور میں میو سکول آف ارٹ میں زیر تعلیم تھے ،
اور وہیں کے ایک مجسمہ سازی کے استاد جن کا نام نور خان اور ان کا لاہور کے قدیمی علاقے اچھرہ کے قریب اسٹوڈیو تھا وہاں ان کے پاس پارٹ ٹائم معاونت کے لیے بھی جاتے تھے ۔
1953 میں میرے والد میو اسکول آف آرٹ سے پاس آؤٹ ہوئے تو دلیپ کمار صاحب اور ان کی آن فلم کا ہر طرف طوطی بول رہا تھا اور میرے ابا تو دلیپ صاحب پہلے سے ہی دیوانے تھے سو فلم کے پوسٹر پر موجود ان کے اس پوز کو انہوں نے تقریباً 18 انچ سائز میں بنا کر انہیں خراج تحسین پیش کیا جسے جو دیکھتا یہی کہتا کہ اسے تو دلیپ صاحب تک پہنچنا چاہیے ،
گو اس مجسمے کو وہ دلیپ کمار صاحب تک تو نہ پہنچا سکے لیکن یہ مجسمہ میرے والد کو لاہور کے فلم سٹوڈیوز تک پہنچانے کا ذریعہ ضرور بن گیا۔
1954 میں جب وہ ایور نیو اسٹوڈیو کام کی تلاش میں گئے تو وہ اسی مجسمے کو ساتھ لے کر گئے ،
آغا جی اے گل صاحب نے نہ صرف اسے بے حد سراہا بلکہ ان کا کام دیکھتے ہی انہیں بطور مجسمہ ساز اور ماڈلر کے ملازمت بھی دے دی ۔
گو کہ وہاں کے پہلے سے موجود سینیئر مجسمہ ساز جن کا نام شاید غلام نبی تھا نے انہیں مٹی اور پلاسٹر کی بوریاں ڈھونے میں لگا دیا مگر میرے ابا عجیب مست ملنگ قسم کے بندے تھے ،
جہاں ان کے عشق کا معاملہ ہوتا اپنی شیریں کے لئے بڑی سے بڑی چٹان کھودنے کی مشقت میں جت جاتے ،
اور جہاں عشق نہ ہوتا وہاں بادشاہت کوٹھوکر مار دیتے ۔
وہ 11 ستمبر کو پیدا ہوئے تھے ،
ایک وقت میں جب میں نے ان کے برج کی خصوصیات پڑھیں تو میں حیران ہو گیا جیسے لکھنے والے نے میرے ابا سے پوچھ پوچھ کر لکھی تھیں ۔
بہرحال تھوڑے ہی وقت بعد آغا جی اے گل صاحب نے اتفاقاً جب میرے آبا کو بڑی دلجمی سے مزدوری میں مشغول دیکھا تو انہوں نے سینیئر مجسمہ ساز کو بلا کر پوچھا کہ آپ کے خیال میں کیا میں نے اس لڑکے کو اس کام کے لیے رکھا ہے ؟
یوں اس طرح سے میرے ابا کا بطور مجسمہ ساز اور اورنامنٹ ماڈلر کے فلم انڈسٹری میں دور شروع ہوا ،
اور پھر وہ اپنے حقیقی شوق کی مشقت میں مصروف ہو گئے تقریبا پچیس سال سے زائد تک ۔ ۔
یہ وہ دور ہے جب کاسٹیوم یعنی تاریخی موضوعات کی فلمیں بھی تواتر سے بنا کرتی تھیں سو بے شمار فلمیں ہیں جن کا اکثر ذکر کرتا رہتا ہوں ،
لیکن آج خاص طور پر آن فلم کا جب یہ گانا ایک دوست نے بھیجا ،
"آگ لگی تن من میں دل کو پڑا تھامنا"
میں نے دیکھا سنا تو بہت سی یادیں دماغ کے پردہ سکرین پر نمودار بلکہ کچھ واضح ہو گئیں ،
میں نے یہ فلم 1980 میں تب دیکھی جب وی سی آر کا دور شروع ہوا لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے یہ فلم تب کچھ زیادہ سمجھ نہ آئی شاید کہیں سوتی جاگتی کیفیت کی وجہ سے اور اس کے بعد پھر دوبارہ دیکھی بھی نہ گئی ،
لیکن آج جب یہ گانا دیکھا تو اس میں موجود مچھلیوں کے مجسمے نے بچپن کی یادوں کو واضح کر دیا ۔
میری پیدائش 1962 کی ہے لیکن 1965 تک کی بھی کئی یا داشتیں میرے کہیں ذہن کا خانوں میں محفوظ ہیں اور مجھے یاد ہے کہ میرے ابا کے اسٹوڈیو میں تقریباً چھ فٹ ہائٹ کی اسی قسم کی مچھلیوں کہ مجسے بنائے گئے تھے جنہیں میں حیرت اور شوق سے اس وقت بھی دیکھتا رہا تھا ۔
بس ان میں فرق یہ تھا کہ مچھلیوں کی دمیں پیچھے کی جانب مڑی ہوئی تھیں اور وہ اپنی مجسمہ سازی کی کوالٹیز میں کچھ اٹالین خصوصیات لیے ہوئے ہیں اس سے بہت زیادہ اچھی تھیں ،
دراصل اس دور میں
جو بھی فلمیں بنتیں ان کے موضوعات اور سیٹس لگائے جاتے یا اس میں مجسمے رکھے جاتے، کہیں نہ کہیں ان کی انسپریشن ہندوستانی فلموں سے تو لی جاتیں ۔ ۔ تو اس طرح سے مجھے آج یہ معلوم ہوا کہ یقیناً وہ مچھلیاں اسی کا تسلسل تھیں ،
اب مسئلہ یہ ہے کہ ہماری اس دور کی فلموں کا کہیں کوئی ہائی ڈیفینیشن تو کیا مناسب رزلٹ میں بھی ریکارڈ دستیاب ہی نہیں ،جبکہ ہندوستان اپنی فلموں کو محفوظ کرنے میں بہت حد تک نہ صرف کامیاب رہا جبکہ ان کو دوسرے فارمیٹ میں منتقل کرنے میں بھی اس نے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا ،
اس دور کی بہت سی بلیک اینڈ وائٹ فلموں کو کلرڈ کرنے کا سلسلہ تک جاری ہے ۔
اب ہمارا کیا کیجئے کہ نہ ہم اپنی قدیم عمارتوں ، نہ لائیبریریوں نہ آرٹ اور نہ ہی دیگر تہذیبی ورثے کی بے شمار نشانیوں کو
محفوظ کرنے میں سنجیدہ ہی نہیں ہو سکے تو فلم اس میں اہم ہونے کے اعتبار سے کہاں آور کیا جگہ پائے گی ؟
سوائے کہ اپنی یادوں کو بس کسی نہ کسی حوالے سے جوڑ جاڑ کر بیان کر دیا جائے ۔
شاہد حسین
23 اگست 25
Syed Shahab Shah:
بہت ہی شاندار پیرائے میں ایک فکر انگیز تحریر۔ ♥️♥️
Nisar Ahmed:
شاہد بھائی آپ کے پاس وہ مضبوط یادیں ہیں اور ایسے فنکار کی جدوجہد سامنے ہے جو عام لوگوں کے ساتھ نہیں ہیں ، تو ایسی یادیں دن بدن تنگ بھی کرتی ہیں اور بہت سے سوالات زہن میں جنم لیتے ہیں کہ اسوقت ابا ویسا کر لیتے تو ایسا ہو جاتا یوں کر لیتے تو یوں ہو جاتا ۔ ۔ لیکن یہ سب ہمارے بس میں نہیں ہے
یہ یادیں دکھی کر رہی ہوتی ہیں یا مزید توانا سمجھنا مشکل ہے
بہت معزرت کے ساتھ ،
مجھے لگتا ہے آپ بھاگ رہے ہیں یادوں سے اور مسائل سے اور آرٹ میں گم ہو کے سب کچھ بھولنا چاہتے ہیں.....شاید
Shahid Hussain:
نثار بھائی،
اپ کی بات کا جواب یہ ہے کہ
یادوں میں گم دکھی تو میں ہمیشہ رہتا ہوں ۔ ۔ ۔
اب وہاں سے مجھے توانائی ملتی ہے یا نہیں اس کا فیصلہ تو شاید آپ دوست ہی بہتر کر سکتے ہیں ۔ ۔ ۔
میں تو یہی کہہ سکتا ہوں کہ انہی دکھوں کی وجہ سے تو میں آرٹ پر اتنا لکھتا ہوں بولتا ہوں جو اب پتہ نہیں کم ہے یا زیادہ لیکن میں یادوں سے بھاگنا نہیں چاہتا ۔ ۔ ۔
میرے ابا اپنے کام میں اپنے دور میں سمجھیے جوالا مکھی تھے ۔ ۔
روشن چراغ تھے ،
ہیرا تھے ۔ ۔ ۔
اپنے دور میں انہوں نے اپنے ارد گرد کے لوگوں سے بے حد عزت پائی لیکن وہ جس اصل مقام کے حقدار تھے انہیں وہ نہیں ملا ،
کہیں کامیابی اور شہرت سے وہ بچ بچا کر نکلتے اور کہیں یہ دونوں ان سے اس طرح سے ان کے ساتھ ہمیشہ یہ آنکھ مچولی کا سلسلہ جاری رہا ،
جبکہ یہ دونوں چیزیں کسی فنکار کی کوئی غیر ضروری ضرورت نہیں ہوتی بلکہ لازمی ضرورت ہوتی ہیں ۔
وہ اکثر ایک تمثیلی قصہ بیان کرتے تھے
جس میں ایک کمہار کو قیمتی پتھر زمین پر پڑا ملتا ہے تو وہ اسے اپنے گدھے کے گلے میں ٹانگ دیتا ہے ،
پاس سے گزرنے والا ایک جوہری اس پتھر کو پہچان کر کمہار سے وہ پتھر خریدنے کے لیے قیمت پوچھتا ہے تو تم کمہار بہت معمولی قیمت بتاتا ہے شاید چند سکے
جوہری فورا ادا کر کے وہ پتھر خرید لیتا ہے ،
چند قدم چل کے اپنی ہتھیلی میں اس پتھر کو بغور دیکھنا چاہتا ہے تو
وہ ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے ،
کچھ طنزیہ ہنسی کے ساتھ جوہری پتھر کو مخاطب کر کے کہتا ہے ،
واہ گدھے کے گلے میں تھے تو خوش تھے میرے ہاتھ میں ائے تو ریت ہو گئے ؟
اس پتھر میں سے آواز آتی ہے کہ تم تو جوہری تھے تمہیں تو میرا ٹھیک مول لگانا چاہیے تھا ۔
تو افسوس کی بات یہ ہے کہ انہیں اس دور میں عام لوگوں سے تو عزت ملی لیکن جو لوگ ان کا کام کرنے والے تھے سمجھنے والے تھے انہوں نے انہیں نہیں پہچانا،
انہوں نے جان بوجھ کر ان کا نام مٹانے کی کوشش کی انہیں پیچھے کرنے کی کوشش کی جبکہ وہ صرف اپنا کام کرنا جانتے تھے
پیچھے دھکیلنے والوں کی تو مرضی جانتے ہی وہ خود پیچھے چلے جاتے تھے ۔
ان کی اسی ان کے حلقہ احباب کی طرف سے دی گئی یا ان کی خود سے چنی ہوئی ناکامی نے مجھے یہ توانائی دی کہ کسی فنکار کے کام کو دنیاوی کامیابیوں کی فیتے سے نہیں ناپنا چاہیے
اگر ہم کام جانتے ہیں تو پھر ہمیں اپنی اس نالج سے
چاہے وہ فنکار شہرت یافتہ ہے یا گمنام ۔ ۔ کسی بڑے اونچے مقام پر ہے یا گہری تاریک جگہ ،
ہمیں ضرور اس کا کام پہچان کر اسے عزت دینی چاہیے ۔
اب میں اپنے اس مقصد میں کتنی توانائی رکھتا ہوں یہ تو آپ دوست بہتر جانتے ہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ دوسرے بہت سے لوگ بھی اس بات کو جان سکیں اور اس روش کو اپنا سکیں اس مقصد میں کامیابی تو مجھے بھی شاید نہیں مل سکی ۔
شاہد حسین
Atif Aleem:
جی شاہد بھائی بہت فکر انگیز تحریر ہے۔ گزارش یہ ہے کہ میں بھی اسی نہج پر یہ سوچ رہا تھا کہ کتنی جلدی ہماری بہت سی تاریخی چیزیں قصہ پارینہ بن گئی اور ان کا کوئی pictorial record تک موجود نہیں۔نہ ہی کوئی ارکائف ہے۔ دنیا کے ممالک میں خصوصا برطانیہ میں اور امریکہ میں اس طرح کے لینڈ مارک اور مونومنٹ محفوظ کیے جاتے ہیں۔ کم از کم کہیں نہ کہیں سے آپ کو اس کی پرانی تصویریں مل جاتی ہیں۔ ہماری پاکستانی فلموں کے پرنٹ اتنے دھندلے ہیں کیئر ڈیجیٹل میں پریزرو ہونے کے باوجود بالکل ہی خراب کوالٹی ہے۔ جبکہ دنیا بھر کی پرانی فلموں کو کیا خوبصورت طریقے سے ریسٹور کیا گیا ہے اور اب وہ کلیکشن کا حصہ بن گئی ہیں ۔میں یہی سوچتا ہوں کہ جب انسپریشن کا کوئی ذریعہ ہی نہیں تو اپ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ کوئی بہتر کام وجود میں ائے۔ قومی سطح پر ہم اتنے بے حس ہیں کہ اب نہ کوئی کتاب پڑھتے ہیں نہ تاریخ سے کوئی سبق اخذ کرتے ہیں۔ اگر کوئی معلومات ہے بھی تو وہ کہیں ریپیٹیشن سے سینہ بہ سینہ منتقل ہو گئی ہے۔ آرٹ ایک تسلسل کا نام ہے۔اب اگر ایک زنجیر میں سے کڑیاں ہی غائب ہو جائیں تو اپ اس زنجیر کو مکمل کیسے کہیں گے۔
Shahid Hussain:
جی عاطف بہت شکریہ ،
یار تمہاری اس بات سے مجھے
"André Malraux"
آندرے مالرو کا یہ جملہ یاد آگیا ،
"Art is a revolt against fate"
جو ایک فرانسیسی مصنف اور فلاسفر تھا۔ انگریزی سے ترجمہ کیا جائے تو ، مالرو نے ایک بار کہا تھا کہ،
"آرٹ انسانی بدقسمتی کے خلاف بغاوت ہے "
آندرے مالرو کے مطابق، آرٹ کا مقصد انسانی زندگی کی بے بسی اور تقدیر کے خلاف مزاحمت کرنا ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ آرٹ انسانی وجود کی گہرائیوں کو ظاہر کرتا ہے اور زندگی کے مشکل پہلوؤں کا سامنا کرنے کی ہمت دیتا ہے۔
Malraux
کے خیالات آرٹ کی دنیا میں بہت اثر انگیز رہے ہیں، اور ان کا نظریہ آج بھی فنکاروں اور آرٹ کے حلقے سے تعلق رکھنے والوں کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔
مگر میں سمجھتا ہوں کہ اسے ہمارے خطے میں اس کے ٹھیک سیاق و سباق سے نہیں سمجھا گیا ،
لیکن جو میں نے قیمتی پتھر، گدھے اور جوہری کا تمصیلی قصہ بیان کیا ہے دیکھا جائے تو وہ قصہ اسی بات کی وضاحت دیتا ہے کہ ،
اگر اپ آرٹ کو سمجھتے ہیں تو پھر اس ظاہری یا چھپے ہوئے نظام کے تحت جن لوگوں کی خصوصیات اپ کو نظر نہیں آتیں یا اپ کے اندر سے کوئی منفی تحریک انہیں نظر انداز کرنے پر مجبور کرتی ہے ،
اس تمام نظام کو شکست دیتے ہوئے
ان مٹی کیچڑ میں لپٹے جواہر کو تلاش کرنے پہچاننے کی صلاحیت آپ میں ہونی چاہیے ،
اب عاطف بتائیے کہ کیا سچ میں ہمارے یہاں یہ صلاحیت ڈیویلپ ہوئی ؟
Abbas Kamangar:
آپ کی بات درست ہے۔ ہمارے ملک میں آرٹ کو محض سجاوٹ کی کوئی ایسی چیز سمجج لیا گیا ہے جس سے لطف اندوز ہوا جاسکے مگر دیکھا جائے تو اس کے پیچھے ورثے میں ملی وہ سوچ ہے جو نسل در نسل چلی آ رہی ہے یہ تو سب کو معلوم ہے کہ ہماری آرت کی تاریخ ہمیشہ سے درباری چلی آرہی ہے مغل سے لیکر انگریز تک ان سب کو خوش کرنے کیلئے آرٹ کیا گیا پاکستان میں گل جی اور صادقین بھی درباری آرٹ کرتے رہے اور اب بھی ہر مصور یہ چاہتا ہے کہ کسی طرح میں دربار سے منسلک ہوجائے یا ایسا کام کرے جس سے خریدار خوش ہوکر پینٹنگ خریدے ہمارے ماحول میں اس سوچ کی جڑیں بہت مظبوط ہیں NCA کے اسٹوڈنٹس اب کوشیش کر رہے ہیں سماجی حالات کو پینٹ کرنے کی مگر وہ ایک خاص حلقے تک محدود ہے۔
Shahid Hussain:
جی عباس بھائی چلیے این سی اے یا کسی اور بڑے ادارے کی تو پھر بھی اپنے طالب علموں پر ایک بڑی مضبوط چھاپ اور بیک ہوتی ہے ،
لیکن ان کرییٹو کام کرنے والوں کا کیا جو ایسے اداروں کی چھتر چھایا اور مضبوط گراؤنڈ نہیں رکھتے ،
وہ تو بیچارے بالکل ہی تاریک راہوں میں مارے جاتے ہیں ۔
یہاں احمد فراز کی غزل کے ابتدائی اور آخری اشعار پیش کروں گا ،
"صحرا تو بوند کو بھی ترستا دکھائی دے
بادل سمندروں پہ برستا دکھائی دے
جنسِ ہنر کا کون خریدار ہے فراز
ہیرا، کہ پتھروں سے بھی سستا دکھائی دے"
اسی بات کی مزید وضاحت میں یہاں
جون ایلیا کا بھی شعر پیش کیا جا سکتا ہے جس میں ایک فنکار دل جلا
اپنے فن کی داد پانے کے لیے کچھ اس طرح سے گویا ہوتا ہے ۔
بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے ہیں زبان میں کیا؟
تو بتائیے دوست کیا کیا جائے !
شاہد حسین
23 اگست 25