Monday, December 1, 2025

Colored Library


 کراچی کھوڑی گارڈن اصل میں وکٹورین دور کا ایک چھوٹا سا باغیچہ تھا جو ایک وقت تک کتاب دوست آرٹسٹوں کی جنت رھا ۔ ۔ ۔ 

باغیچہ تو خوبصورت تھا ہی لیکن خاص طور پر اس لیے کہ اس کے مرکزی گیٹ کے باہری اطراف کتاب مارکیٹ تھی جہاں دنیا بھر کی بڑی بڑی بک پبلشنگ کمپنیز کی کباڑ کہنا تو مناسب نہیں لیکن کچھ پرانی کتابیں بہت بڑے بڑے لاٹ کی شکل یا محدود تعداد میں آتی تھیں ،

جن میں پرنٹنگ، مسنگ پیجز یا بائنڈنگ کے کچھ معمولی سے مسائل ہوتے یا پھر وہ بالکل ٹھیک حالت میں ہونے کے باوجود وہاں آ جاتی تھیں ۔

جو دوست لائٹ ہاؤس سے لے کر بولٹن مارکیٹ اور ٹاور تک کے علاقے کو جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ یہ کس قدر پر ہجوم انتہائی شور شرابے سے بھرپور گنجان علاقہ ہے ۔

مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دنیا کے ہر قسم کے مٹیریل کی مارکیٹ ہے جس میں آرٹ مٹیریل بھی شامل ہے 

جسے لینے کے لیے آرٹسٹوں کو یہاں جانا ہی پڑتا ہے لیکن جس قدر ہم خوشی خوشی وہاں جایا کرتے تھے اس کی اہم وجہ یہ کتابوں کا مرکز ہوتا تھا جہاں ایسی ایسی نایاب کتابیں مناسب قیمت میں ہاتھ لگتیں کہ جیسے مچھلی پکڑنے والوں کے ہاتھ توقع سے بڑی مچھلی لگتی ہے ۔

دکاندار گو کہ بہت گھاگ ہو چکے تھے اور وہ اس دور میں بھی منہ پھاڑ کر قیمت مانگتے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کتاب کے قدردان آرٹسٹ بس پریشان سا منہ بنا کے قیمت کم تو کرواتے مگر دل میں پھوٹتے لڈو کے ساتھ کتابیں لے کر گھر کو آتے ۔


شاید یہ 2005 کی بات ہے جب یہاں  ایسا لاٹ آیا جس میں ایک سیریز کا نام تھا،

Colored Library,

یہ مختلف ازمز اور آرٹسٹوں پر تقریباً چالیس نمبروں کا سلسلہ تھا ،

اور ایک وقت میں یہ تمام نمبر دستیاب تھے ،

اور میں نے بس دیکھا اور دیکھتے ہی انہیں خرید لیا،

اتفاق سے انہی دنوں میرے والد کے ایک آرٹسٹ دوست  گھر تشریف لائے تو انہیں یہ بے حد پسند آئیں ۔ ۔ انہوں نے کہا کہ شاید بیٹا جب بھی جاؤ تو یہ ایک سیٹ میرے لیے بھی لے آنا میں نے اسی وقت  انہیں یہ تمام نمبرز تحفے میں دے دیئے،

لیکن جب دوبارہ میں اپنے لیے خریدنے گیا تو پھر مجھے یہ مکمل 40 والیم نہ ملے بلکہ 36 ملے ۔

لیکن یہ چھتیس بھی بہت تھے ۔

ان کے شروع میں آرٹسٹ کی لائف اس کے کام پر کچھ تبصرہ اور پھر آگے ہر ایک پیج پر پینٹنگ اور دوسری طرف اس پینٹنگ کے بارے تھوڑی سی ڈسکرپشن تھی اور یہ اس انداز سے تھی کہ پیج پر کافی اسپیس خالی بھی تھی ، میں نے اس میں چند کتابوں کے  خالی حصوں پر بال پوائنٹ سے ان کے تراجم بھی لکھے ،

کچھ دوست جب ان کتابوں میں اس ترجمے کو دیکھتے تو بہت حیران ہوتے کہ یہ کس کمپنی نے شائع کی ہیں جس نے ساتھ اردو ترجمہ بھی شائع کیا ہے ؟

جب میں انہیں بتاتا کہ یہ میں نے خود ہاتھ سے لکھا ہے تو وہ بہت حیران ہوتے ۔

ٹھیک ہے آج کچھ دوست جو میرے اس شوق اور جنون کو ٹھرک کا نام دیتے ہیں تو وہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں کرتے ورنہ ایسی دیوانگی کو با مقصد ہونے میں اور کیا نام دیا جا سکتا ہے ؟

Colored Library,

کہ یہ بک سیریز ہی اپنے مختلف خوشنما رنگوں میں  آج تک میرے پاس محفوظ نہیں بلکہ نہ جانے اس کتاب گلی کی کتنی خوبصورت اور رنگین یادیں آج بھی خیالوں کا حصہ ہیں 

جو اکثر کسی خواب کی صورت میں اپنا آپ ضرور دہراتی رہتی ہیں ،

نہ جانے کتنی بار خواب میں خود کو اسی کتاب گلی میں پاتا ہوں ، کسی گمشدہ جنت کی خواہش کی طرح ۔ ۔ 

اور کوئی جانا پہچانا دکاندار مجھے کہہ رہا ہوتا ہے لیجیے صاحب نئی کتاب آئی ہے تمام بک گئی یہ ایک آپ کے لیے سنبھال کے رکھی ہوئی تھی ۔


شاہد حسین 

30 نومبر 25

Saturday, November 29, 2025

Abdali to Angries


 برصغیر کی تعمیرات پر دیگر خطوں سے حملہ آور ہونے والوں کے اثرات ۔


احمد شاہ ابدالی،

1748 سے 1772 تک 25 سالہ مدت میں افغانستان سے بر صغیر پر تقریباً سات سے آٹھ بار حملہ آور ہوا،

اور یہ 25 سالہ دورانیہ ہی اس کا برصغیر پر اقتدار کا دور بھی ہے ۔

کیونکہ اس کا مقصد یہاں اپنے اقتدار کو طوالت دینا نہیں بلکہ ایسی عسکری مہمات تھیں جن کے بنیادی اغراض و مقاصد خطے پر افغان تسلط اثر رسوخ اور مالی مفادات حاصل کرنا تھا ۔

اپنے 25 سالہ دور میں اس نے بر صغیر کے خطے کے لیے کیا تعمیری سرگرمیاں سرانجام دیں ان کا تعلق زیادہ تر اس کے مالی مفادات سے ہی جڑا ہے جیسے کہ ٹیکس کا سخت نظام ، اور سماجی حوالے سے بیوہ عورتوں کی شادی سے متعلق قوانین ہیں ۔

جبکہ متحدہ ہندوستان میں اس کی تعمیرات کوئی خاص مثالیں نہیں ملتی لیکن ہندوستان سے 

حاصل کی گئی دولت سے کابل کے گرد وال سٹی بنوائی گئی اور قندھار میں احمد شاہی نام سے ایک نیا شہر بنایا گیا ۔

لیکن بر صغیر میں موجود دولت کے حصول کے لیے تعمیرات کو نقصان ضرور پہنچایا گیا جن میں خاص طور پر دہلی کے لال قلعے کے ایک حصے میں بنی چھت میں استعمال ہونے والے سونے کو نکلوا کر بھی پگھلوایا اور ابدالی نے اسے اپنے خزانے میں شامل کیا ۔

ٹھیک ٹھیک اعداد و شمار حاصل کرنا تو بہت مشکل ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق ابدالی نے اپنے 25 سالہ دور میں ہندوستان سے تقریبا 100 ٹن سے زائد سونا لوٹا ۔

مگر برصغیر کے اکثریتی مسلمان ابدالی کو ایک ہیرو کے طور پر مانتے ہیں گو کہ ابدالی نے اسلام کے پھیلاؤ میں کوئی خاص کردار ادا نہیں کیا لیکن اس کے دور میں مسلمانوں کو ہندوؤں اور سکھوں کے مقابل ایک مزہبی سیاسی و زہنی برتری حاصل ہوئی ۔

بر صغیر میں احمد شاہ عبدالی کے دور میں ہی انگریز سرکار نے ہندوستان پر قبضہ جمانا شروع کیا مگر احمد شاہ عبدالی کی انگریز سرکار سے کوئی خاص براہ راست جنگ نہیں ہوئی اس کا زیادہ تر ہدف مرہٹے اور مغل تھے ۔


1757 سے 1857 تک ہندوستان پر ایک صدی انگریز کمپنی نے اور پھر 1857 کی آزادی کی جنگ کے بعد 1947 تک 90 سال براہ راست برٹش سرکار نے ہندوستان پر حکومت کی ،

190 سال کے کل دور حکومت میں انگریز نے برصغیر کو جو لوٹا اس کا اندازہ ٹھیک ٹھیک عددوں میں لگانا تو مشکل ہے لیکن کچھ قریب قریب تخمینہ لگایا جائے تو ،

190 سال میں 6400 ٹن سے زائد سونا لوٹا گیا ,

اب اس دولت کو اگر احمد شاہ ابدالی کے دور کی مدت اور مقدار سے 

موازنہ کیا جائے تو ایک اندازے کے مطابق ابدالی نے 25 سالہ دور اقتدار میں برصغیر سے ہر سال چار ٹن سونا لوٹا،

جبکہ انگریز سرکار نے 190 سالہ دور اقتدار میں ہر سال 34 ٹن سونا لوٹا ۔

اسی طرح اگر دونوں کے طرز حکومت میں ان کی یہاں سے حاصل کی گئی دولت کو خطے پر خرچ کرنے کے طور دیکھا جائے تو ،

ابدالی نے تمام تر حاصل شدہ دولت کا تقریباً 10 سے 15 فیصد جو بر صغیر پر خرچ کیا وہ صرف اور صرف اپنے عسکری انتظامی امور پر تھا ،

جبکہ انگریز سرکار نے جو 20 سے 25 فیصد خرچ کیا اس میں بھی گو کہ اپنے عسکری انتظامی امور پر ایک بڑا حصہ تھا مگر کہیں اقتدار کو طوالت دینے کے لیے انفراسٹرکچر پر اور اسی طرح عوام کو کچھ نہ کچھ شہری سہولتیں دینے جیسے امور پر بھی تھا جس میں تعلیم صحت ریلوے ، سڑکیں ذرائع آمدرفت ثقافتی سرگرمیاں اور فوجی و شہری تعمیرات تھیں ۔

جس کی وجہ سے اس خطے کی سماجی وہ ثقافتی تہذیب پر ان کے گہرے اثرات ثبت ہوئے ۔

لیکن اس خطے کی ایک بڑی مسلم اکثریت ابدالی کو اپنے مذہبی عقائد و جذبات کی بنا پر آزادی کا ہیرو جبکہ انگریز سرکار کو آقائی جبر و تسلط رکھنے والے سامراج کے طور دیکھتی اور یاد کرتی ہے ۔


شاہد حسین 

21 نومبر 25

عینک والا جن


 جی عاصم زبیری بھائی اور حفیظ طاہر صاحب بلا شبہ یہ عینک والا جن ایک وقت میں ہمارے بچوں پر بری طرح سے قابض تھا،

سچ کہا جائے تو ہم پر بھی 😍

 


یہ بات ٹھیک ہے کہ 

ہومر کی اوڈیسی نے داستانوں کے سفر کی شروعات میں اہم کردار ادا کیا 

لیکن پھر عرب ٹیلز ،

ہزار داستان، طلسم ہوش ربا ،حاتم طائی ، پھر بر صغیر میں قصہ چہار درویش اور دیگر بہت سی سینہ بہ سینہ چلنے والی داستانوں نے جہاں بچوں کی شعوری ترقی و اخلاقی تربیت میں بہت مضبوط کردار ادا کیا وہیں ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشنے میں بچوں کے کچھ رسائل وغیرہ کے ذریعے اور پھر اسی تسلسل میں پی ٹی وی نے بھی تفریحی وقت فراہم کرنے میں بہت اہم حصہ ادا کیا ۔ ۔ ۔ 


اور پھر ہم نے یہ تمام ذمہ داری کمپیوٹر ، موبائل فون اور اس پر دستیاب دیگر خطوں کے مٹیریل پر ڈال دی ۔


کیا اب آج کے بچے جادو کی نگری میں اڑتے گھوڑے قالین پریاں اور چڑیلوں کے قصے نہیں سننا چاہتے ؟

جی آج بھی مغرب میں یہ سب جاری و ساری ہے ہیری پوٹر بک سیریز کی ریکارڈ فروخت کوئی زیادہ پرانی بات نہیں ہے ، او ٹی ٹی پلیٹ فارمز پر بچوں کی ایسی سیریز کا آج بھی ہجوم ہے ،

لیکن ہم نے اپنے بچوں کو بڑا کر دیا ہے ۔

اور سمجھ لیا ہے کہ انہیں اب اس قسم کی خرافات کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، لیکن کیا یہ سچ ہے ؟


شاہد حسین 

29 نومبر 25

کشمیر کی کلی


 کیا کہانیاں اور داستانیں صرف بچوں کے لیے ہوتی ہیں ؟


سچ تو یہ ہے کہ ہم بڑے بھی ہو جائیں تو قصے کہانیاں اور داستانیں ہمیں متاثر ضرور کرتی بس ہم اس میں سے تصورات کو کم کرتے ہوئے کچھ حقیقت کے قریب لانا شروع کر دیتے  ہیں جیسے کہ مجھے یاد ہے کہ تاریخ پڑھنا جو کہ کچھ لوگوں کے لیے خاصہ بورنگ سا موضوع ہوتا ہے لیکن برصغیر کے ایک بہت بڑے لکھاری الیاس سیتا پوری صاحب اس موضوع کو حقیقت اور تصور کے درمیان رکھتے ہوئے یا ایک بنت بنتے ہوئے ہمارے لیے بہت ہی دلچسپ بنا دیتے تھے ۔

اتفاق سے ان دنوں میری بیٹی میری لائبریری کی بہت سی کتابوں کو تصویری طور پر کمپائل کر رہی ہے ۔


جس میں ایک وقت میں میرے پاس الیاس سیتا پوری صاحب کی جو بہت سی کتابیں موجود تھیں مگر دوستوں کے مطالعے کے ذوق اور مہربانی نے انہیں سنبھالنے رکھنے کے جھنجھٹ میں مجھے کافی سہولت فراہم کر دی ہے 😄

تو اب شاید بہت کم ہیں ،اگر آپ کے مطالعے میں کبھی ان کی کتابیں  آئی ہوں تو یقیناً آپ نے ان میں تاریخ کے نہاں خانوں میں چھپی بہت سی کہانیوں کو کسی فلم کی طرح سے اپنے تصور میں دیکھا ہوگا ۔ 

 انہی داستانوں کو یاد کرتے ہوئے  الیاس سیتا پوری صاحب کی صاحبزادی ،زنوبیہ الیاس جو خوش قسمتی سے دوستوں میں شمار  ہیں انہیں بھی گروپ میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے یقینا وہ اس حوالے سے کچھ اپنی یادداشتیں ہم سے ضرور شیئر کریں گیں ۔

 


شاہد حسین 

29 نومبر 25

Friday, October 3, 2025

Decorative Art


 Nisar Ahmad:

ویسے یہاں کون کون ایسا سمجھتا ہے کہ وہ آرٹ کر رہا ہے ؟؟

اور کون اپنے آپ کو ڈیکوریٹو آرٹ سے جوڑ رہا ہے ؟


Shahid Hussain:

دیکھا جائے تو اس موضوع پر ہم بہت بار بات کر چکے ہیں 

لیکن پھر بھی 

کسی سوال کی ترتیب بھی ہر بار جواب کی ترتیب بھی بدلتی ہے ،

یوں سمجھیے کہ جیسے ہم کسی میگنیفائن گلاس سے ہر بار کسی پیٹرن کو کسی مختلف زاویے سے یا مختلف مقام سے زیادہ نمایاں کر کے دیکھتے ہیں ۔

اصل میں تو اس سوال کے پیچھے معنی کچھ اور ہے کہ کیا ہم کمرشل آرٹ کرتے ہیں یعنی صرف کام بیچنے کے لیے ؟ 


اس کا ایک ابتدائی جواب تو یہ ہوگا کہ 

دنیا کے تمام آرٹسٹ دراصل ڈیکوریٹو آرٹ ہی کرتے ہیں ،


آگے بڑھتے ہوئےطریقہ اور مقاصد اصل میں اس میں بالکل اس طرح سے فرق لے کر آتے ہیں جس طرح سے ہم اکثر شاعری کی مثال دیتے ہیں 

کہ دنیا کی تمام شاعری اصل میں نظم کہلاتی ہے ،

لیکن پھر اس میں کسی بھی بنیاد پر تھوڑا تھوڑا فرق ،

اس کی اصناف طے کرتے ہوئے اسے غزل ، حمد نعت نوحہ مرثیہ سلام یا شاعری وہ نظم کی دیگر اصناف میں بدلتا ہے ۔


35 سے 40 ہزار سال پہلے جو ارٹسٹ شکار پر جانے کی بجائے دیواروں پر کام کر رہے تھے وہ بھی آرائش و زیبائش کر رہے تھے ،

اج بھی چاہے کوئی دیوار پر لگانے کے لیے پینٹنگ بناتا ہے 

یا کسی کونے یا ٹیبل پر رکھنے کے لیے مجسمہ اصل میں وہ کہیں نہ کہیں ایک ایسی آرائش ہے جس کا تعلق ہماری جمالیات سے ہے ۔

تو پھر وہ کون سی بات ہے جو اسے خالص آرائشی آرٹ سے خالص آرٹ میں بدلتی ہے ؟


یہ مقام سب سے پیچیدہ ہوتا ہے ،

جیسے کہ جب ہم اس آرٹ کو مقدس کر دیتے ہیں تو پھر ہم خود ہی اسے آرائشی نہیں کہتے ،

یعنی اس کے آرائشی ہونے سے انکار کر دیتے ہیں 

دوسرا مرحلہ،

اسان لفظوں میں کہوں گا کہ ہماری جمالیاتی اخلاقیات ہوتی ہیں ۔

اب یہاں ایک مثال دیتا ہوں کہ اج سے ہزاروں سال پہلے کا انسان مٹی اور دیگر اشیاء سے رنگ بنا بنا کر دیواروں پر ہاتھوں کے نشان بنا کر ان کی ارائش و زیبائش کر رہا تھا 

مجھے اتفاق سے ایک ایسا گھر دیکھنے کا موقع ملا 

جہاں دو ذہنی طور پر معذور بچے رہ رہے تھے ،

تو وہ ٹوائلٹ میں اپنی شٹ دیواروں پر لگا لگا کر مختلف پیٹرن بناتے تھے ۔


اب ہزاروں سال پہلے کا انسان ذہنی طور پر اس قدر پختگی حاصل کر چکا تھا کہ وہ جمالیات کے جو معنی سمجھ رہا تھا

اگر اج کے دور میں رہنے والے دو بچے ذہنی طور پر پختہ نہیں ہیں تو ان کا جمالیاتی معیار مٹیریل کے چناؤ میں بالکل بدل جائے گا ۔


اپ قدیم نقادوں کو اگر پڑھیں تو وہ جمالیات اور اخلاقیات کو باہم ملا کر بات کرتے ہیں 

اور ہم سمجھ نہیں پاتے کہ ارٹ میں اخلاقیات کہاں سے آ جاتی ہیں ،

جبکہ اخلاقیات اصل میں انسان کے جمالیاتی بیہیویئرز ہیں جو اپنی ہزارہا شکلیں رکھتے ہیں 

اور اپ دوست اج مجھ سے فوری جواب مانگ رہے ہیں 

جبکہ یہ موضوع بہت طویل ہے،

اس لیے میں اس کی سادہ سی مثال دیتا ہوں کہ میرے والد نے تمام زندگی ڈیکوریٹو آرٹ کیا،

لیکن انہوں نے جن رویوں سےکیا وہ بلکل وہی تھے جو خالص تخلیقی آرٹ کرنے والوں کے ہوتے ہیں ۔

میں نے بھی تمام زندگی ڈیکوریٹو آرٹ کیا لیکن اسے جس انوالومنٹ کے ساتھ بہت سے مادی مقاصد پسے پشت ڈالتے ہوئے کیا ،

مجھے لگتا ہی نہیں ہے کہ میں نے خالص ڈیکوریٹو آرٹ کیا


تو کئی بار ہمارے مختلف مقاصد اور کئی بار ہمارا طریقہ کار ، رویہ اور ٹریٹمنٹ ڈیکوریٹو آرٹ کے معنی وہ مقاصد بدلتا رہتا ہے ۔

شاہد حسین 

5 مئی 25

Thursday, October 2, 2025

Color Psychology


 Abbas Kamaangar: 

رنگوں کے استعمال سے متعلق کچھ سوال رکھ رہا ہوں ۔


پینٹنگ کیلیئے رنگوں کا انتخاب کس فارمولے کے تحت ہونا چاہیے ؟

1  کلر وھیل کی مدد سے  ؟

2 رنگوں کے نفسیاتی اثرات کو مد نظر رکھتے ہوئے ؟

3 یااپنی کلر پیلٹ بنانی چاہیے ؟


Shahid Hussain:

عباس کمان کمانگر صاحب کے ان سوالات پر دوستوں کا اس قدر دلچسپ اور ہما جہت مکالمہ ہوا ہے کہ اس پر اب مزید کہنے کے لیے میرے پاس کچھ بچا ہی نہیں ،

سوائے اس خواہش کے کہ اس قدر مزیدار مکالمے میں اپنی طرف سے کچھ کہہ کر حصے دار بننے کی خواہش ہے ۔


رنگ !

ہمارے اطراف ہر شے میں بکھرے پڑے ہیں ، مگر ہم انہیں دیکھتے اپنی الگ انفرادی صلاحیت کی بنیاد پر ہیں ،

یہ ہماری آنکھ کے،

Receptors,

 ریسپٹرز ہوتے ہیں جو ایک خاص پراسس کے ذریعے

 بنیادی طور پر تین رنگوں،

گرین ریڈ اور بلو 

 سے ان کے پھر سیکنڈری مکس ،

یلو سیان اور مجنٹا بناتے اور پھر دیگر چلے جاتے ہیں ۔ 

یہ انسانی آنکھ اور روشنی کے تال میل کا ایک پیچیدہ پروسس ہے ۔


کچھ لوگوں میں جب یہی ریسپٹر اپنا کام ٹھیک طرح سے نہیں کرتے تو انہیں بہت سے کلرز نظر نہیں بھی آتے ،

جتنے کلر بلائنڈ کہا جاتا ہے ۔

یہی مسئلہ حیات رکھنے والی دیگر مخلوقات میں سے بھی کئی کی آنکھوں میں ہوتا ہے ۔

Receptors,

کی سائنس کو آرٹ میں ، 

Impressionists,

نے اپنے کام میں بہت زیادہ ڈسکس کیا اور پھر پوائنٹلسٹس نے بھی ۔


بالکل اسی طرح اگر رنگوں کے استعمال کا آرٹ میں جائزہ لیا جائے تو ، وہاں آگے بڑھتے ہوئے حالات کچھ یوں پیش آتے ہیں کہ کچھ فنکار پیدائشی طور پر کلرسٹ ہوتے ہیں ، ان میں رنگوں سے دلچسپی اور ان کے استعمال کی نالج وجدانی طور پر موجود ہوتی ہے۔


ہم اکثر مصور بچوں کو بڑے انہماک مگر بے ساختگی سے رنگوں کو انتہائی دلچسپ ترتیب اور توازن سے استعمال کرتے ہوئے دیکھتے ہیں ،

جبکہ کچھ فنکار ڈرائنگ مجسمہ سازی اور پینٹنگ میں انتہائی مہارت حاصل کرنے کے باوجود رنگوں کے استعمال میں وہ بچوں والی بے ساختگی اور اعتماد حاصل نہیں کر پاتے ۔

بس اسی بات سے سمجھیے کہ ایک ڈومینو کا گیم شروع ہوتا ہے جس میں رنگوں کی سائنس کو سمجھنے کی کوشش کی گئی 

اس میں ان کے ٹمپریچر سے لے کر انسانی نفسیات اور مزاج پر تاثراتی اثرات ، اور رنگوں کی اسپرچول معنویت کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ۔

اور پھر یہ بھی دیکھا گیا کہ یہ نفسیاتی تاثرات اور معنویت یکساں سائنسی نتائج رکھنے کے باوجود آرٹ کے اظہار میں یکساں نہیں ہوتے ۔


سرخ رنگ کو ہی لے لیجئے یہ زندگی کی علامت بھی ہے ، خوشی کی بھی اور خطرے کی بھی اور اسی طرح سے اس کے کئی معنی ہیں۔


پیلے رنگ کو لیجیے 

یہ روشنی کا رنگ بھی ہے اداسی اور موت کا بھی ،

اسی طرح سے تمام رنگوں کے ساتھ یہ معاملات درپیش ہیں ۔

یہی نہیں بلکہ یہ رنگ کسی دوسرے رنگ کے ساتھ ملا کر یا اس کے ساتھ رکھ کر دیکھے جائیں تو اسی تناسب سے یہ اپنے بصری اثرات بدلتے رہتے ہیں ۔

یہاں میں سب سے پہلے پیٹ موندریاں کی مثال دوں گا،

جس نے اپنی کلر فیلڈ پینٹنگز میں اس سائنٹیفک نظریے کو پیش کیا 

کہ ہر کلر کا ایک مختلف ویژول ویٹ ہے ۔

جو اپنے ویژول سائز میں مختلف ہونے کے باوجود مساوی بھی ہو سکتا ہے ۔


پھر اسی طرح رنگوں کے نفسیاتی جذباتی اور روحانی 

استعمال پر تو ہم کنڈنسکی یا بہت سے فاوٌسٹ آرٹسٹوں کے علاوہ کسی خاص آرٹسٹ کا نام مینشن کر ہی نہیں سکتے کہ اکثریتی پینٹر آرٹسٹوں نے رنگوں کو اپنے وجدانی تخلیقی اظہار کے لیے رنگوں کی دریافت شدہ سائنس کو بھی استعمال کیا اور خود اپنی مرضی سے اپنی پیلٹ کو اپنے جذباتی نفسیاتی روحانی اظہار کے لیے استعمال کیا ، تو ان ہزاروں کے نام کیسے لکھے جائیں ۔

یوں سمجھیے کہ ہر فنکار کی تخلیق ایک ایسے والٹ میں موجود ہوتی ہے جسے نکالنے کے لیے وہ ڈرائیونگ کے اصولوں کی طرح کلر وہیل کی نالج کو اپنے اندر محفوظ رکھتے ہوئے بھی اور اپنی کلر پیلٹ پر کلر ویل کی مختلف کمبینیشنز کے مطابق مختلف نمبرز اور ترتیب کو استعمال کرتا ہے ۔


شاہد حسین 

5 مئی 25 ۔

Wednesday, October 1, 2025

Karachi Crime History


 اگر کراچی میں جرائم کی تاریخ کو بہت مختصراً بیان کیا جائے تو ،

1947، سے پہلے 

کراچی میں جرائم بس برائے نام ہوں گے کیونکہ،

یہاں تقسیم سے پہلے مسلمانوں کے علاوہ پارسی, ہندو ، گجراتی ،میمن کاٹھیاواڑ کاروباری اور ہنرمند طبقے کے علاوہ گوروں کی محدود تعداد اور اینگلو انڈینز یا ان کے ساتھ ساتھ بہت کم لوگ وہ آباد تھے جو اپنی فطرت یا مزاج میں جرم یا فساد کرنے کا عنصر رکھتے تھے ۔


تقسیم کے بعد جو مہاجرین ہندوستان سے آئے ان میں ایک خاصی اکثریت پڑھے لکھے شریف النفس جنہیں عام طور پر کچھ ڈرپوک بھی سمجھا جاتا ہے ان لوگوں کی اچھی خاصی تعداد تھی جبکہ ایک وہ طبقہ بھی ان میں تھا جو 

ضروری نہیں تھا کہ ان خصوصیات کا حامل تھا مگر وہ صرف اردو اسپیکنگ مہاجر ہونے کی بنا پر اپنے آپ کو مہذب ہی سمجھتے اور کہلوانا یا ثابت کرنا چاہتے تھے ۔


لہذا ایک مدت تک بلکہ یوں کہا جائے کہ دو دہائیوں تک وہ لوگ ایسے ہی رہے اور 70 کی دہائی تک یہ لوگ اگر کچھ بدمعاشی وغیرہ کرتے بھی تھے محدود سے آپسی لڑائی جھگڑے اور اگر پڑھے لکھے منظم تو وہ جماعت اسلامی جیسے کسی سیاسی پلیٹ فارم سے کرتے تھے ۔


جبکہ اسٹریٹ کرائمز میں تقسیم کے بعد کچھ سندھ پنجاب اور خیبر پختون خواہ سے آنے والے مہاجرین نے کراچی کے اکثریتی لوگوں کو شریف النفس امن پسند دیکھتے ہوئے یہاں اپنے پاؤں جمانے کے لیے چھوٹے موٹے یا منظم بدمعاش گروہ بنانے شروع کر دیے ۔


جس میں دادا گیری، بھتہ کلچر سے لے کے پھر چوری ڈکیتی قتل اور گلیوں بازاروں میں سنسان جگہوں اور رات دیر گئے ڈھکے چھپے طریقے سے وارداتیں ہوتی تھیں ۔


1980 کے بعد انتہائی سائنٹیفک بنیادوں پر کراچی اور حیدراباد کی تمام تر کریمنل ذمہ داری ایم کیو ایم اور اس کے دیگر بننے والے ذیلی گروپس نے لے لی ، جس میں گلی محلوں تک سے انتہائی منظم انداز میں پڑھے لکھے لوگوں سے لے کر عام 

اردو سپیکنگ طبقے کو جس میں جرائم کرنے کی کوئی نہ کوئی صلاحیت موجود تھی انہیں اس میں شامل کیا گیا ، چھوٹے چھوٹے بچوں کو اسلحہ تھما دیا گیا اور پھر کراچی اور حیدرآباد پر صرف اور صرف ایم کیو ایم کا ہی راج تھا ، اور ایم کیو ایم نے جرائم کی جو تاریخ رقم کی ہے وہ صرف عقل کے اندھے ہی ہیں جنہیں نظر نہیں آتی ورنہ اس 25 سے تیس سالہ دور کی خوفناکی کی مثال اور کسی دور سے نہیں دی جا سکتی ۔

اور پھر ایم کیو ایم کے عفریت کو قابو میں لانے کی تیاری شروع ہو گئی ،

جس کے لیے اسے اس کے اندر سے بھی اور باہر سے بھی توڑا گیا یوں ایم کیو ایم کی اصل حالت کو تقریباً ختم کر کے اسے کچھ نئی اشکال میں تقسیم و ترتیب دیا گیا ،

بہت سے لوگ شاید اس بات کا یقین نہ کریں کہ آج کراچی میں پی ٹی ائی کا ونگ دراصل ایم کیو ایم کے آشیرواد کا ہی مرہون منت ہے ،

کیونکہ دونوں کا مدر اور فادر خالق ایک ہے ۔

فرق صرف یہ ہے کہ 

پی ٹی آئی نے کراچی کی کرائم مارکیٹ کو کنٹرول کرنے کے لیے افغانیوں کا سہارا لیا ہے ، جو عام لوگوں کو پختون ہی لگتے ہیں اور کراچی کے وہ پرانے پختون جو اپنی داداگری کی صلاحیت میں کمزور ہو چکے ہیں وہ بھی خود کو افغان سمجھے جانے پر فخر کرتے ہیں اور بڑی خوشی سے قبول کرتے ہیں کہ ہاں کراچی کی تمام بدمعاشی پر ابھی بھی ان کا کنٹرول ہے مگر اب حقیقت یہ ہے کہ کراچی کے تقریباً پچاس فیصد جرائم پر اکیلے افغانیوں کا کنٹرول ہے ، اور انہیں مذہبی گروپس کی بھی حمایت حاصل ہے ۔

جبکہ باقی 50 فیصد پر دیگر اقوام میں سے حصہ بقدر جثہ ہے ۔

لیکن جن کا 50 فیصد ہے وہ یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں جبکہ بقایہ 50 فیصد میں جن کا تھوڑا تھوڑا حصہ ایک دوسرے میں تقسیم ہے وہ اس قدر احمق ہیں کہ ایک دوسرے کو ہی الزام دیتے رہتے ہیں ۔

اور موج وہ کر رہے ہیں جن کا سب سے زیادہ ہولڈ ہے یا جن کے مفادات کراچی کے حالات کی خرابی سے جڑے ہیں ۔

مگر یہ تمام باتیں ان لوگوں کی اکثریت کو سمجھانا اور یقین دلانا بہت مشکل ہے ۔



شاہد حسین 

یکم اکتوبر 25

Monday, September 22, 2025

Journey of Portraits


 Renaissance ,

رینئسانس سے لے کر آج تک تقریباً 700 سالہ دورانیے کو اگر دیکھا جائے تو کیا اس میں پورٹریٹ آرٹ کسی ایک اکیڈمک اصول کے تحت دیکھا سمجھا جا سکتا ہے ؟


ان کی پیمائش انچز یا سینٹی میٹرز کے فرق سے تو کی جا سکتی ہے لیکن کیا ان میں فن کے اصول و ضوابط ، یا جمالیاتی پیمانے یکساں طور دیکھے جا سکتے ہیں ؟


نہیں یہ ناممکن ہی نہیں ، مناسب بھی نہیں ہے ۔

ہمیں کے مختلف ادوار انداز و اطوار کے تحت ہی دیکھنا اور ان کی تنقیدی قدر کو طے کرنا ہوتا ہے ۔

اور پھر موجودہ عہد میں تو یہ اور زیادہ کھلے دروازوں کے ساتھ وسعت پا چکا ہے ،

اسی لیے میں کسی فنکار دوست کے کام پر بات کرتے ہوئے پہلے اس سے 

اس کے کام بارے اس کے اپنے خیال کو جاننا چاہتا ہوں ۔

خود فنکار نے خود اپنے کام کو کس خانے میں رکھتے ہوئے پیش کیا ہے یہ جاننا بہت ضروری ہو جاتا ہے ،

پھر اس کے بعد بھی اس انداز یا جونرا کو سامنے رکھتے ہوئے اس پر رائے جو دی جاتی وہ اسی کے اصول و ضوابط کے مطابق ہوتے ہوئے بھی کہیں نہ کہیں ہماری ذاتی پرسپشن بھی ہوتی ہے ،

جس کا تعلق ہماری وابستگیوں مشاہدات زندگی کے حالات و واقعات کے ساتھ ہوتا ہے ،


شرجیل کا چارکول پورٹریٹ ورک،

اگر کلاسک اسکول کے اصول و ضوابط اور پرفیکشن کے طور دیکھا جائے گا 

تو میں وہاں اسے فٹ نہیں دیکھتا ،

نہ ہی یہ اپنی پرفیکشن میں موجودہ دور کے ہائپر ریلزم میں شمار ہو سکتا ہے ،

ظاہر ہے کہ اس کا تعلق ، تاثراتی مصوری کے زمرے میں آتا ہے ،

جو صرف مسکراہٹ کا پیغام ہی نہیں بلکہ دیکھنے والے کہ تاثرات کو وصول کرنے کے الگ الگ زاویوں سے ہو سکتا ہے ،

جیسے کہ مجھے ان میں مسکراہٹ کے باوجود ایک عجیب سی اداسی محسوس ہوئی ، جیسے کہ ان میں سے زیادہ تر لوگ اس دنیا سے جا چکے ہیں اور ہم ان کی روح کو دیکھ رہے ہیں ۔

یا پھر ان کا لائٹ گرے سے وائٹ ٹون میں ہونا ، کہیں مجھے اپنے کام سے وابستگی کا احساس دیتا ہے جس میں ہمارے پلاسٹر میں بنے ہوئے پورٹریٹس اپنے چہرے کے اتار چڑھاؤ اور ٹیکسچر سے روشنی کے ساتھ کھیل کھیلتے ہوئے بالکل یہی تاثر دیتے ہیں ۔


تو یہاں میں اس کام کو کسی دور کے اکیڈمک اصول و ضوابط اور پرفیکشن سے نہیں بلکہ تاثراتی اور اپنی وابستگی کی بنیاد پر پسندیدگی 

کی سند دے رہا ہوں ۔


یقیناً دوسرے دوست خود اپنے اصول و ضوابط کی بنیاد پر اپنی رائے دے سکتے ہیں ،

اور جنہوں نے بھی دی میں نے اسے بہت انجوائے کیا ۔

اس سے بہت کچھ سیکھنے سمجھنے کو ملا ۔

یہی ہماری اس محفل کا مقصد ہے ۔


شاہد حسین 

11 اپریل 25

تنقید اور انصاف


 کیا ہم کسی فنکار کے آرٹ پر تنقید کرتے ہوئے کلی طور پر انصاف کر سکتے ہیں ؟


میرے خیال میں تو شاید انصاف اس دنیا کے ہر معاملے میں مشکل ترین عمل ہے ۔

دنیا بھر کے بین الاقوامی معاملات سے لے کر چند افراد کے مابین کسی لین دین کو دیکھ لیجئے ،

باہمی رویے دیکھ لیجئے غرض ہر وہ شعبہ جہاں بھی انصاف کی ضرورت درپیش آ سکتی ہے وہاں ضروری نہیں کہ انصاف دستیاب بھی ہو ۔

تو پھر آرٹ میں یا 

آرٹ پر تنقید کے لیے بنائی گئی کسی محفل میں دوستوں کے درمیان یہ کیسے ممکن ہے ؟

آرٹ جو کہ اپنے صدیوں کے سفر میں کسی ایک اسکول یا کسی یونیورسل ضابطے کے تحت رہا ہی نہیں ہے بلکہ وقت کے مختلف ادوار میں 

انسانی سوچ اور فہم کے بدلتے پیمانوں کے ساتھ بدلاؤ کا شکار رہا ہے ، 

جہاں ہمیں صرف کسی کو شیشہ دکھانے جیسے اکیڈمک اصول و ضوابط نہیں دیکھنے ہوتے بلکہ باہمی تعلقات کی اخلاقیات کے ایک ایسے پیچیدہ ضابطے کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہوتا ہے اور کسی کی تعریف اصول و ضوابط کے تحت بھی کی جا سکتی ہے ، ہمیں اپنی نالج کے تحت بھی کرنی ہوتی ہے جبکہ سامنے والے کی قوت برداشت کو بھی دیکھنا ہوتا ہے ۔


پھر اس میں غالب امکان ایسی ذاتی پرسپشن کا ہوتا ہے جس کا علاقہ اصل میں ہماری وابستگیوں کے ساتھ جڑا ہوتا ہے ۔

وہ چاہے کسی دوست کے ساتھ ہو 

یا خود ہماری زندگی کے سفر اور اس کے احوال اور حالات کے ساتھ ہو ،

جیسے کہ یہاں اب مجھے اپنے ذاتی کام کی مثال دینی پڑے گی آپ نے غور کیا ہوگا کہ میں اپنا کام آپ دوستوں کے سامنے بہت کم رکھتا ہوں ،

کیونکہ اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے چند کہ میں خود بھی اسے بہت ہائی گریڈ دیتا ہی نہیں ہوں ، پھر میرا مقصد اپنی تعریف ہوتا ہی نہیں ، میرا خالص مقصد آرٹ پر ایسا مکالمہ ہے جسے حاصل کرنے کے لیے مجھے اپنے کام کی تعریف کے عمل کو مائنس کرنا ضروری ہوتا ہے ۔

لیکن اگر کبھی رکھا جائے تو کتنے دوست اس پر بات کرتے ہیں ؟

میں آج تک گروپ کے کئی دوستوں پر کم و بیش دس دس آرٹیکل لکھ چکا ہوں بتائیے میرا کام کتنے دوستوں نے کبھی ڈھونڈ کر اس پر کوئی تحریر لکھی ہے ؟

جبکہ اس کے موازنے میں آپ دیکھیں تو 

اگر گروپ کا کوئی دوست اپنا کام یہاں تنقید کے لیے رکھتا ہے تو اگر وہ ٹائم زون کے فرق کی وجہ سے بھی مجھے غیر حاضر دیکھتا ہے تو مجھے تنقید کا نشانہ یا پھر احتجاج کی کوئی اور صورت ضرور نکالتا ہے ۔

جبکہ مجموعی طور پر میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ اکثر دوست میری کی گئی تعریف کو ردی کی ٹوکری میں ڈالتے ہیں جبکہ معمولی سی تنقید پرسیخ پا ہو جاتے ہیں تو کیا ان کا یہ جوابی رد عمل منصفانہ کہا جا سکتا ہے ؟

یعنی دیکھا جائے تو تھوڑی بہت متوازن تنقید بھی تب ہی ممکن ہو پاتی ہے جب برداشت کا دعوی کرنے والا سچ میں اپنے اندر تنقید سننے کی قوت برداشت رکھتا ہو ۔ دوسروں پر تنقید کسی اور طرح سے جبکہ خود اپنے لیے معیار کوئی اور نہ رکھتا ہو 

جبکہ اس صورت میں تو وہ نقاد کے سامنے بہت ہی کڑا پیمانہ رکھ دیتا ہے کہ اگر اپ سخت تنقید نہیں کریں گے تو آپ کو تنقید کرنی آتی نہیں ہے اور اگر آپ سخت تنقید کریں گے تو اس کا طریقہ کار یوں یوں ہونا چاہیے ورنہ اسے میں برداشت نہیں کروں گا ،

تو بتائیے کہ پھر نقاد جائے کہاں ؟

اسی لیے میں اکثر سخت تنقید نہیں کر پاتا ، جس پر میں بہت سخت طعنے بھی سنتا رہا ہوں ۔ ۔ ۔


میری کوشش ہوتی ہے کہ کسی بھی فنکار دوست کے کام میں ان خصوصیات پر بات کی جائے جو مثبت ہیں ،

یہ بات ٹھیک ہے کہ گروپ کے بے شمار دوست شاید اس خصوصیت کی بنیاد پر میری بہت ریسپیکٹ کرتے ہیں ،

مجھ سے محبت کرتے ہیں خلوص اور وابستگی کا ایسا اظہار کرتے ہیں کہ میں اس کے بوجھ سے خود کو دبا ہوا اور شرمندہ محسوس کرتا ہوں ، اور اس پریشانی میں بھی ہوتا ہوں کہ میری یہ اضافی تعریف بہت سے دوستوں کو گراں گزر سکتی ہے ۔

لیکن خراب رویے کرنے والوں کی بھی ایک طویل فہرست ہے ، جن کے بارے کبھی انصاف نہیں ہو پاتا ، 

دیکھیے ہم اکثر کسی حاکم کو اس نظر سے دیکھتے ہیں کہ اسے پروٹوکول ملتا ہے تو اس کی کیا وجہ ہوتی ہے ؟

اس کی وجہ سمپل یہ ہوتی ہے کہ وہ خادم بھی سب سے بڑا ہوتا ہے ،

میرے دوست اکثر مجھ پر الزام لگاتے ہیں کہ آپ دوسروں سے توقعات رکھتے ہیں ،

لیکن جواب میں میری کوئی بات نہیں سمجھتا کہ اصل میں دوسرے بھی تو مجھ سے بے شمار توقعات رکھتے ہیں ، اس فرق کو سمجھنے کے لیے کون بحث کرے گا ؟

گزشتہ روز بھی ایک دوست سے بات ہو رہی تھی تو اس نے جو جواب دیا وہ یہ تھا کہ دراصل ایک تو آپ نے اپنے مزاج کو سب سے زیادہ برداشت کرنے والا ثابت کیا ہے ، اور دوسرا آپ میزبانی کا عہدہ سنبھالے ہوئے ہیں ،

لیکن اس سے پہلے کہ میں اس سے پوچھتا کہ مجھے جو ذہنی اذیت دی جاتی ہے اس کے بارے منصفانہ رویہ نہ کرنے والے یہ کیسے فرض کر لیتے ہیں کہ میں نے قوت برداشت میں خود کو لازمی طور سب سے عظیم عہدے کے لیے پیش کیا ہوا ہے ،

یا یہ بھی کہ میں کب کہتا ہوں کہ کسی محفل میں میزبانی کا عہدہ صرف میرے لیے ہی مختص کر دیا جائے ؟

میں اب اس کے بارے کیا وضاحت دوں کہ 

جب فائزہ کا گروپ ختم ہو گیا تھا تو یہ چند دوست تھے جنہوں نے ضد کر کے نیا گروپ بنوایا تھا ، اور پھر وہ جب بے شمار گروپ ختم ہو گئے تو یہ موجودہ تنقیدی گروپ بھی ایک دوست کی ہی طویل پرزور فرمائش پر ہی بنایا گیا ، تو اگر میں ان دوستوں سے سوال کروں کہ وہ اس کی فرمائش مجھ سے ہی کیوں کرتے ہیں ؟

کیا اس لیے کہ اس کی میزبانی کا بوجھ مجھ پر آئے ؟


تو یہاں وہ جواب دیں گے کہ نہیں یہ آپ کی شخصیت کی مقناطیسیت ہے ،

آپ کا اچھا اخلاق اور خلوص ہے اور یہاں تک کہ کئی دوست اسے میری نالج بھی کہیں گے ۔

لیکن ان تمام باتوں کے درمیان مجھ سے وابستہ توقعات تو دیکھی جا سکتی ہیں لیکن انصاف کہیں نہیں ہو سکتا ۔


ہم اسی طرح زیادہ تر معاملات میں محبت خلوص وابستگیوں کے کھیل میں الجھے رہتے ہیں ، جس میں انصاف بس کہیں کہیں تھوڑا بہت اتفاقاً ہو جاتا مگر 

یہ یقینی نہیں ہوتا ۔

پھر ہم سوچتے ہیں کہ ایسا کھیل کھیلا ہی کیوں جائے ؟

اب یہ بالکل ایک الگ بات ہے کہ ہم لوجیکل ذمہ داریوں کے لیے ہی نہیں بنائے گئے کہیں نہ کہیں ہمیں بے مقصد سے کھیل کھیلنے ہی ہوتے ہیں جن کے فیصلے انصاف پر ہوں یا نہ ہوں ۔


صرف یہی نہیں ہزاروں سوالات ہیں خواہشات کی طرح کہ ہر خواہش پہ دم نکلے ،

لیکن وہ سوالات نشاندہی کرتے ہیں کہ اصل میں ہمارے درمیان انصاف کہیں نہیں ہوتا ،

تو پھر آرٹ میں تعریف یا تنقید پر یہ کیسے ممکن ہے ؟


کیا میں آپ دوستوں سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر آپ ایک اچھے تنقید نگار بننا چاہتے ہیں تو باہمی رویوں میں انصاف کرنا سیکھیے ؟

یقینا آپ میں سے بہت سے دوست شاید اس سے اتفاق نہیں کریں گے ، وہ آرٹ اور ہمارے سماجی و اخلاقی رویوں کو الگ الگ دیکھیں گے ۔

مگر میں نے ہمیشہ ان سب کو ایک ساتھ دیکھنے کی کوشش کی ہے ۔


یہ بات ٹھیک ہے کہ اس پیچیدہ گنجلک کو ایک ساتھ دیکھنے نے مجھ سے بہت کچھ چھین لیا 

مگر میرا موضوع یہی رہا ہے ۔

آرٹ جمالیات اور اخلاقیات ان سب کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے ۔


شاہد حسین 

11 اپریل 25

Friday, September 12, 2025

فن آور طاقت


 Shahid Hussain:

12 Sep 25.


 دوست اب یقیناً جانتے ہیں کہ ہمارا مقصد ہی بشمول پاکستان کے تمام مشہور لیجنڈ ، عہد حاضر کے مصوروں  اور ان فنکاروں پر بھی بات کرنا، جو کہیں گزرتے وقت کی دھول میں گمنام ہوتے گئے یا انہیں ان کے وقت میں بھی  فنی قد و قامت کے اعتبار سے  جانا نہیں گیا ،

لیکن اکثر دیکھا گیا کہ جب ہم کسی بھی غیر معروف شہرت سے محروم رہ جانے والے فنکار پر بات کرتے ہیں تو کچھ دوست یہ بھی رائے دیتے ہیں کہ دیکھیے اگر اس فنکار میں دم خم ہوتا تو وہ یقیناً خود کو منوا لیتا ۔


کیا یہ رائے ٹھیک ہے ؟

کیا کسی باشعور سماج کا کسی فنکار کی کامیابی کو جانچنے کا یہ طریقہ کار درست ہے ؟


یہ تو طاقت اور فن  کو ناپنے کا ایک طرح سے پسماندہ سماجوں کا گوریلا رویہ ہے ۔


انسانی ارتقاء کی کہانی دراصل طاقت سے شعور تک کا سفر ہے۔

 ابتدائی حیوانی دنیا میں، خصوصاً گوریلوں جیسے جانداروں میں، کسی کی اہمیت کا معیار صرف ایک تھا، "طاقت" یعنی جو لڑائی کے میدان میں غالب آ جائے، وہی لیڈر، وہی قابلِ قبول۔

 اس ماحول میں فن، احساس یا فہم کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔


انسان جب شعور اور تہذیب کی طرف بڑھا تو اس کے پیمانے بدلنے لگے۔ فن، علم، فکر اور اخلاقیات کو بھی مقام ملا، یوں شاعر کو اس کے لفظوں سے، مصور کو اس کے رنگوں سے اور ادیب کو اس کی فکر سے پہچانا جانے لگا۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ دنیا کے کئی پسماندہ سماج آج بھی اسی گوریلا رویے کے اسیر ہیں۔


ایسے معاشروں میں کسی فنکار یا دانشور کی اصل شناخت کو اس وقت تک تسلیم نہیں کیا جاتا جب تک وہ زندگی کے کسی مادی میدان میں "فتح" حاصل نہ کرے۔ گویا شاعر کی عظمت اس کی شاعری میں نہیں بلکہ اس کی ایسی عملی کامیابی میں ہے، جہاں اس کی مشاعروں میں کامیابی یا شعری مجموعوں کی عوامی پذیرائی ہے ۔

 مصور کی قدر اس کے فن پارے میں نہیں بلکہ اس کی پینٹنگ کی قیمت ، شہرت یا کوئی مقابلہ جیتنے میں ہے۔

اس طرح سے تو علم اور تخلیق وہاں ثانوی ہو جاتے ہیں، اور کامیابی کی پرانی تعریف، یعنی کسی میدان میں دوسروں کو شکست دینا  ہی سب کچھ ٹھہرتی ہے۔


یہ رویہ اس بات کی علامت ہے کہ ایسے معاشرے ابھی تک ذہنی ارتقاء کے اس مرحلے سے آگے نہیں بڑھ پائے جہاں فن اور فکر کو اپنی اصل بنیاد پر سراہا جاتا ہے۔

جبکہ ترقی یافتہ سماج اس فرق کو سمجھتے ہیں کہ فنکار کا اصل مقام اس کی تخلیق ہے، نہ کہ اس کی دنیاوی جیت۔ 

وہ اپنے اندر فہم و فراست کی ایسی انکھ رکھتے ہیں جس میں وہ شہرت وہ کامیابی کو ثانوی حیثیت دیتے ہیں اور کسی فنکار کے فن کی اصل اساس کو پہچانتے ہیں ۔


جب تک پسماندہ معاشرے اس حقیقت کو قبول نہیں کرتے، وہ "انسانی شعور" کے بجائے "گوریلا شعور" میں ہی قید رہیں گے۔


شاہد حسین 

12 ستمبر 25

Tuesday, September 9, 2025

Omens of Doom


 Do floods threaten food security in Pakistan - BBC URDU

BBC News اردو

Sep 6

2025

flood

foodsecurity

punjab۔

پاکستان میں پچھلے دو ماہ سے جاری بارشوں، کلاؤڈ برسٹس اور سیلابی ریلوں کا سلسلہ گاؤں، گھر، کھیت، مویشی بہت کچھ بہا کر لے جا چکا ہے۔ اِس سال اب تک پنجاب اور خیبر پختون خوا سب سے زیادہ متاثر ہونے والے صوبے ہیں اور سندھ میں ایک سوپر فلڈ، یعنی بہت بڑے سیلاب کے بارے میں خبردار کیا جا رہا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اِس طرح کے وسیع اور تباہ کن سیلاب جو کہ اب ایک معمول کی بات بنتے جا رہے ہیں کیا ان سے پاکستان میں فوڈ سکیورٹی کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے ؟

کیا پاکستان نے کوئی لانگ ٹرم فلڈ ریزیلیئنس سٹریٹجی یا سیلاب کے نقصان سے بچنے کی کوئی سٹریٹیجی بنائی ہے؟

 اس ہفتے کے سیربین میں ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی ہے۔

میزبان: عالیہ نازکی

پروڈیوسر: عارف شمیم

ویژول پروڈیوسر: سید علی کاظمی

رپورٹر: ترہب اصغر

کیمرہ پرسن: وقاص انور۔


یہ بی بی سی اردو نیوز سیربین کی پاکستان کے تباہ کن سیلاب کے بارے ایک رپورٹ ہے ۔

جبکہ گزشتہ مدت سے اب پاکستان میں ایسی آفتیں معمول بنتی جا رہی ہیں ۔

یہ تو سچ ہے 

ماحولیاتی بدلاؤ کی وجہ سے یہ دنیا تباہ ہونے والی ہے ۔


اب یہ اعلان یا صدا کسی مذہبی شخصیت کی طرف سے نہیں ہے جسے انسان کو اپنی اخلاقیات درست کرنے کے لیے خدا کی طرف سے نصیحت کے احکامات و ڈرانے کے لئے قیامت کی خبر دینے والا یا اسے انسانی تصوراتی خدشات سمجھ کر نظر انداز کر دیا جائے ،

بلکہ اب یہ اعداد و شمار پر مبنی سائنس کہہ رہی ہے ، جس سے ایسے شواہد مل رہے ہیں کہ اب بڑے بڑے انکاری بھی انکار نہیں کر سکتے ۔


لیکن اب ہمارے سوچنے والوں کی سامنے بہت سے سوالات ہیں ۔


جن تباہیوں کی ابتدا ہو چکی ہے کیا ان کا ریشو دنیا بھر میں یکساں ہے ؟


یہ تباہیاں وہاں زیادہ نقصان کر رہی ہیں جنہوں نے جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کو اپنایا ، یا وہاں جہاں ایسا نہیں کیا گیا ؟


کیا انسان کا نیچر سے جڑنے کا سادہ طرز زندگی بہتر تھا 

اور جو قومیں اس پر عمل پیرا تھیں کیا وہ سروائیو کر سکیں اور آگے سروائیو کر سکیں گیں ؟

یا وہ سروائیو کریں گیں جنہوں نے نیچر کو پہلے تباہ کیا جس سے ماحولیاتی بدلاؤ اور تباہی شروع ہوئی اور پھر انہوں نے خود کو محفوظ بنا لیا ؟


اب دنیا کے وہ خطے جنہوں نے ماحولیاتی تباہی میں زیادہ کردار تو ادا نہیں کیا لیکن تباہی کا نقصان سب سے زیادہ بھگت رہے ہیں وہاں کا سوچ بچار کرنے والا طبقہ کیا کرے ؟


اگر وہ فنکار اور خاص طور پہ مصور طبقہ ہے تو کیا کردار ادا کرے ؟


کہیں وہ دوست درست تو نہیں ہیں جو یہ کہہ رہے ہیں کہ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہوئے لوگوں کا آرٹ سے اب کیا لینا دینا؟ 


دنیا بھر میں ماحولیاتی آگاہی دینے کے لیے جو آرٹ کے خلاف ری ایکشن دیا جاتا ہے کہیں وہ درست تو نہیں ؟ 


اگر آرٹ آگاہی دینے کا ہی باعث ہے تو جہاں جہاں اب تباہیاں آ چکی ہیں ان بدحال بے گھر ، بھوکے اور بے شمار مسائل سے دوچار لوگوں کو آرٹ کے ذریعے آگاہی دینے کا کیا فائدہ ؟


اور سوچ بچار کرنے والے ہم فنکاروں کا آرٹ کے بحث مباحثوں میں الجھنے کا اب کیا فائدہ ؟ 


 تو کیا ٹک ٹاک پر فنی ویڈیوز دیکھی جائیں ؟

سابقہ اور موجودہ حکومتوں کو الزام دینے کے مباحثے سنے جائیں ؟


فلمیں دیکھی جائیں ؟

اپنا پسندیدہ میوزک سنا جائے ؟

مطالعہ کیا جائے یا گئے دنوں کی خوبصورتیوں کو یاد کیا جائے ؟

کیا جائے ؟

امید ہے دوست کسی ایک سوال کا تو جواب ضرور دیں گے ۔


شاہد حسین 

9 ستمبر 25

Thursday, September 4, 2025

KALI YUG 1963


 1955 سے 1975 تک میرے والد ناظر حسین صاحب نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں بطور اسکلپٹر ، اورنامنٹ موڈلر اور سیٹ ڈیزائنر کے ایک مصروف وقت گزارا پھر 1985 تک یہ سلسلہ رفتہ رفتہ بالکل معدوم ہو گیا ۔

اس کی بہت سی وجوہات ہیں جو  پاکستانی فلم انڈسٹری سے متعلقین یا فلموں کا شوق رکھنے والے جانتے ہیں ۔


آج ہمیں اس دور کی بہت سی پاکستانی فلموں کا کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی شکل میں ریکارڈ مل ہی جاتا ہے لیکن عجیب اتفاق ہوا کہ 

جن فلموں کے لیے میرے والد نے بہت خاص کام کیے خاص طور پر وہی فلمیں کسی بھی محفوظ یا واضح شکل میں عدم دستیاب ہو گئیں ۔


جیسے کہ 1976 میں نیفڈیک نے ایک فلم بنائی ،


Human Happiness.

 بدھا کے موضوع پر جس کے ڈائریکٹر تھے اے جے کاردار لیکن وہ فلم مکمل ہونے کے باوجود انگلینڈ میں جب لیبارٹری پروسیسنگ کے لیے گئی تو پھر کبھی پاکستان واپس نہ آئی ، جس میں میرے والد نے بدھا کے مجسمے کے کئی مختلف سائزز کے ورژن بنائے تھے لیکن خاص طور پر ایک 14 فٹ ہائٹ کا مجسمہ تھا جسے کراچی کے قریب ہالے جی جھیل کے کنارے نصب کر کے ارد گرد بانسوں سے ایک ٹیمپل تعمیر کر کے شوٹنگ کی گئی تھی ۔


اسی طرح سے دیگر کئی فلموں میں جو اس دور میں بڑے بڑے مجسمے اور سیٹس لگائے گئے ان کا کوئی بہتر حالت میں ریکارڈ دریافت اور تلاش کرنا ناممکن ہو گیا ۔


1962 میں ایک اٹالین کمپنی کالی دیوی کے مندر میں ایک تہوار دسہرے کو موضوع بناتے ہوئے ہندوستان میں ایک فلم مکمل کرنا چاہتی تھی جس کے اختتام پر انہوں نے کالی دیوی کے مندر کو تباہ ہوتے دکھانا تھا مگر بہت سی وجوہات کی بنا پر ہندوستان نے انہیں اس فلم کی وہاں پروڈکشن کی اجازت نہ دی ،

چونکہ انہیں اس فلم کے لیے ایسے بہت سے معاون اداکاروں کی ضرورت تھی جو اپنے چہرے مہرے سے ہندوستانی لگتے

لہذا انہوں نے اسے پاکستان میں مکمل کرنے کا فیصلہ کیا ،


یوں 1962 میں اس فلم کا کام لاہور کے سٹوڈیوز میں شروع ہوا ،

انہیں یہاں پر اس فلم کے سیٹس کے لیے اورنامنٹ اور مجسمے بنانے کے لیے 

ایک آرٹسٹ کی ضرورت تھی اور یہ دور میرے والد کا فلم انڈسٹری میں بہترین کام کرنے والے کے حوالے سے 

عزت اور شہرت کا دور تھا سو اس کا کام انہیں سونپ دیا گیا ۔

میری تو پیدائش ہی 1962 دسمبر کی ہے لیکن اس دور کی بے شمار خوبصورت یادیں تھیں جو میرے والد مجھ سے اکثر ذکر کرتے تھے ،


کہ کس طرح سے وہ بہت سے کام اپنی اس مینول ٹیکنیکس سے کرتے تھے جنہیں اٹالین سیٹ ڈیزائنر جو کہ ساتھ آئے ہوئے تھے وہ بھی دیکھ کر حیران ہوتے تھے ،

اور ان میں سے اکثر لوگ ابا کے اسٹوڈیو میں ان کے ساتھ بہت وقت گزارتے ،

وہ ان کے ساتھ یہاں کے مقامی کھانے کھاتے اور اس میں شامل مرچوں کی تعریف اپنے انداز میں کرتے ، 

پھر اسی طرح اس فلم کے کچھ دیواری مجسمے براہ راست اسٹوڈیو کے فلورز پر بنائے گئے ،

(فلورز ان بڑے بڑے ہالز کو کہتے ہیں جہاں سیٹس لگائے جاتے ہیں)

تو جب وہاں کئی راتوں کو جاگ جاگ کر ان پر کام ہو رہا ہوتا تو ابو  بتاتے تھے کہ وہاں جو چند معاون ساتھ موجود ہوتے ان کے لیے اچھا خاصا خوف کا ماحول بن جاتا تھا ۔ 


جب اس فلم کا کام مکمل ہو گیا اور اٹالین پروڈکشن ٹیم پاکستان سے واپس جا رہی تھی تو وہ میرے والد کو اٹلی ساتھ لے جانا چاہتے تھے ،


لیکن اب اس بات کو کیسے بیان کیا جائے کہ میرے والد عجیب من موجی درویش اور ایسے عجیب مزاج شخص تھے کہ ،

اس کی آج کے وقت میں تعارف و وضاحت دینا انتہائی مشکل کام ہے بہرحال وہ اپنی فیملی کے ساتھ گہری اور دیگر جذباتی وابستگیوں کی بنیاد پر نہیں گئے ۔

اور ان کے لیے یہ وقت اور اٹلی جانے کی پیشکش میں تب زیادہ خوبصورت یاد کا عنصر پیدا ہوا جب انہیں بہت بعد میں کچھ گمنامی اور نظر اندازی کے وقت کا سامنا کرنا پڑا،


لیکن تب تک اس دور کی خوبصورت یادوں کا بھی  کوئی تصویری یا ڈاکومنٹڈ پروف ڈھونڈنا مشکل ہو چکا تھا ،

یہ فلم اور اس فلم کا نام میرے والد کی یادداشت سے ہی نہیں بلکہ پاکستانی فلم سے منسلک بہت سے لوگوں کی یادوں سے بالکل بھلا دیا گیا تھا اور پاکستانی فلم ڈیٹا بیس تو کیا خود اٹالین ڈیٹا بیس سے اسے ڈھونڈنا مشکل ہو چکا تھا ۔


31 دسمبر 2008 میں میرے والد کا انتقال ہو گیا ۔

میں ان کی زندگی میں بھی ان کے کام کو ان کی بیان کی گئی یادوں کو کچھ نہ کچھ سنبھالنے کا اہتمام تو کرتا تھا مگر ان کے بعد تو جیسے میرے لیے یہ کسی مقدس فریضے کی طرح سے ہو گیا ۔

لیکن مسئلہ تھا کہ وقت قسمت اور کچھ خود انہوں نے بھی اپنے کام اور خود سے جڑی چیزوں کو اس طرح سے چھپایا تھا کہ انہیں ڈھونڈنا کسی ناممکن کام کی طرح سے مشکل تھا ۔

لیکن یہ بھی سچ ہے کہ یہ مشکل کے باوجود مجھے عجیب کسی طلسماتی دنیا کے کھیل کی طرح سے دریافت ہوتے تھے ۔


 میرے والد نے اپنی زندگی میں جو یادگاری کام کیے تھے ان میں سے ایک 1967 میں راولپنڈی کمیٹی چوک میں لاہور ایورنیو سٹوڈیو کے مالک اغا جی اے گل صاحب کا بننے والا ایک سینما شبستان بھی تھا جس کے دیواری مجسموں کا کام کیا گیا ، جسے ہم اکثر جب بھی راولپنڈی جاتے تو فلم دیکھنے کے بہانے دیکھنے جاتے تھے ۔


31 دسمبر 2008 میں میرے والد کے انتقال کے بعد ،

2013 میں میں شبستان سینما کی ہسٹری انٹرنیٹ پر ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اچانک ایک اشتہار پر نظر پڑی کہ سینما بک رہا ہے ،

میں نے اس کے اس دور کے موجودہ مالک آغا جی گل صاحب کے بیٹے اعجاز گل صاحب سے رابطہ کیا اور ان سے اپنے والد کا تعارف کروانے کے بعد ملاقات کا وقت مانگا جو اس وقت اسلام اباد جیو ٹی وی کے لیے 

کسی عہدے دار کے طور پر کام کر رہے تھے ۔

میں نے اس ملاقات میں اعجاز گل صاحب کو انتہائی نفیس مہذب اور ہمدرد شخص پایا جب میں نے ان سے یہ گزارش کی کہ آپ کا سینما تو بک رہا ہے جس پر لازمی کوئی شاپنگ پلازہ بنے گا تو میرے والد کا یہ کام تو شاید ضائع چلا جائے تو کیا آپ مجھے یہ اتارنے کی اجازت دے سکتے ہیں ؟


یقین جانیے انہوں نے اس قدر خوبصورت الفاظ کہے کہ آج بھی وہ میرے دل پر نقش ہیں ۔


انہوں نے کہا شاہد صاحب آپ کے والد ناظر حسین صاحب ایک عظیم فنکار تھے ان کا یہ کام ہمارے سینما کا تاج رہا ہے ، اور میرے لیے یہ بڑی خوشی کی بات ہوگی کہ آج اس تاج کو میں اس کے صحیح حقدار کے حوالے کر دوں ۔


سچ میں اعجاز گل صاحب ایک بڑے باپ کے بڑے بیٹے ہیں ، 

میں آپ کو باقی کی تفصیل بتا نہیں سکتا کہ اس سلسلے میں کام کو اتارنے کے لیے سینما کی انتظامیہ نے مجھ سے کس قدر تعاون کیا ، جب رات 12 بجے آخری شو ختم ہو جاتا تو ہم جلدی جلدی وہاں بانسوں سے پرانچ لگاتے اور وہاں سے کام کو اتارنا شروع کرتے ۔


غالباً جولائی 2014 میں ہم نے یہ کام مکمل کیا ۔


اسی دوران میں نے اعجاز گل صاحب سے اس اٹالین فلم ،

KALI YUG.

The mystery of the Indian temple. 1963.

کے بارے بھی دریافت کیا جبکہ تب تک مجھے اس فلم کا ٹھیک نام بھی نہیں مل سکا تھا ،کہ کیا ایورنیو سٹوڈیو کے پاس اس کا کوئی ریکارڈ دستیاب ہوگا ؟


تو اعجاز گل صاحب نے کہا کہ شاہد صاحب ہم خود بھی اس فلم کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور میں نے اس سلسلے میں کئی بار اٹالین ایمبیسی سے رابطہ بھی کیا ہے لیکن فی الحال اس کے بارے کوئی ڈیٹا نہیں مل پا رہا ۔


لیکن میں نے اس فلم کو ڈھونڈنے کی کوشش کو ترک نہیں کیا اور میری اس سلسلے میں کھوج جاری رہی ،


اور پھر اب سے کوئی ڈیڑھ ماہ پہلے بالآخر مجھے اس فلم کا ریکارڈ یوٹیوب پر دستیاب ہو گیا،

جب میں نے اسے دریافت کیا تو یہ کوئی دو ماہ پہلے فلم اپلوڈ کی گئی تھی ۔

اور پھر میں اسے دیکھ کر حیران ہو گیا کہ اس میں جو کالی دیوی کا اور دیگر مجسمے بنائے گئے تھے جو سیٹس لگائے گئے  اور اس میں اورنامنٹس تھیں وہ بالکل ویسے ہی تھیں جیسی میرے والد اپنی یادوں کو کسی کہانی کی طرح بیان کرتے اور کچھ اسکیچز کرتے ہوئے بتایا کرتے تھے ۔


یہ بھی شکر ہے کہ یہ فلم بہت اچھے رزلٹ میں ہے لہذا 

اس میں ان کے کام کی بہت سی کوالٹیز کو بخوبی دیکھا جا سکتا ہے ۔


اس فلم کے حوالے سے میں ان یاداشتوں کو اپنے والد اور اپنے استاد ناظر حسین سے منسوب کرتے ہوئے استاد ڈے پر انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں ۔


شاہد حسین 

15 جون 25

Monday, September 1, 2025

Ghalib Baqar's Work


 غالب باقر صاحب کے کام کو محفوظ کرنے کے حوالے سے آپ سب دوستوں کے رنجیدگی و سنجیدگی کے ساتھ 

رائے دینے کا سلسلہ قابل ستائش ہے ۔


دیکھیے دوستو فنکار کی زندگی مشرق و مغرب دونوں میں ریشو کے فرق کے ساتھ 

دکھ والم ، ذاتی بے ترتیبی سے لے کر سماجی ناہمواری کا کہیں نہ کہیں شکار تو ہوتی ہے ۔

میں نے اپنی زندگی میں جمیل نقش صاحب جیسے فنکار بہت کم دیکھے جو زندگی کے معاملات سے لے کر ، گھریلو آرائش و زیبائش میں چائے کا کپ کہاں رکھنا ہے اور پینٹنگ کے سبجیکٹ میں کوئی ابجیکٹ کہاں رکھنا ہے وہ اسے نہ صرف جانتے ہیں بلکہ امپلیمنٹ کرنا بھی جانتے ہیں ۔


جبکہ زیادہ تر فنکار 

خود اپنی ذات زندگی اور کام کو ترتیب دینے میں اکثر ناکام ہو جاتے ہیں اور یہ ذمہ داری سماج یا متعلقہ شعبوں و اداروں پر آتی ہے ۔


میں نے جو مشرق و مغرب کا تھوڑا سا مشاہدہ کیا تو اس فرق کو میں اس مثال سے بیان کروں گا کہ ،

گھروں کو شفٹ کرنا انتہائی مشکل ترین کام ہوتا ہے ،

مگر مغرب میں اس کام کے لیے ادارے اور کمپنیز موجود ہوتی ہیں جنہیں بلا کر تمام زمہ داری دے دی جاتی ہے وہ گھر میں چھوڑ جانے والے سامان کو شیٹس سے ڈھانپ کر اور لے جانے والی ضروری اشیاء کو انتہائی مہارت سے نہ صرف پیک کرتے ہیں بلکہ اسے منتقل کر کے اپنا مناسب معاوضہ لے کر آپ کو خدا حافظ کہتے ہیں۔

جبکہ ہمارے خطوں میں مخلص اور ولی درویش قسم کے مزدور دوست ڈھونڈے جاتے ہیں جو دوست سے وفاداری کے اس درجے پر ہوتے ہے کہ آتے ہوئے گھر کا کچرہ بھی پیک کر کے لے آتے ہیں اور معاوضہ بھی نہیں لیتے ۔


یہ صرف ایک مثال ہے ورنہ ہمارے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ غالب باقر صاحب کے کام کو کیسے سمیٹا جائے اور مینج کیا جائے کہ وہ نہ صرف اپنی قدر و قیمت سے جانا جائے بلکہ ایک فنکار کے کام کی حیثیت سے محفوظ بھی کیا جائے ۔

ظاہر ہے کہ اس میں ایک ایسی ذمہ داری کی انوالومنٹ مطلوب ہے جو اس میں وقت بھی صرف کرے گی اور سرمایہ بھی انوالو ہوگا ، جیسے کہ اسے فریمنگ وغیرہ کروانا پھر اس کی نمائش کا اہتمام کرنا اور اس کے بعد پھر مالی معاملات کو دیکھنا ،


ہمارے یہاں اکثر ایسے منصوبے اس لیے ناکام ہو جاتے ہیں کہ ہمیں اس میں ایسے مخلص لوگوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے 

جو ذمہ داری تو پوری ادا کریں لیکن 

پھر اس سے جڑے دیگر ریڑرنز میں منصفانہ حقدار کیسے ٹھہریں ہم یہ معاملہ نہیں دیکھ پاتے ۔


میں سمجھتا ہوں کہ سب سے اہم اس کا کوئی بہتر میکنزم دریافت کرنا ہوتا ہے۔


ہم اس بات پہ نہیں الجھتے کہ یہاں ایک فنکار کا کام بے ترتیب ہے یا نہیں ہے 

برائے مہربانی آپ دوست یہ تجاویز دیجئے کہ اسے اب 

ترتیب کیسے کیا جائے ،

اور اگر یہ منظم ہو کر ایک مناسب سی فریمنگ کے ساتھ کہیں نمائش ہوتا ہے تو ہم میں سے کتنے فنکار دوست اپنی اپنی گنجائش کے مطابق پھر اسے کسی یادگاری تحفے کی طرح سے خریدنے کی ذمہ داری بھی لے سکتے ہیں ۔

یا پھر ایک ایسی معیاری آرٹ گیلری یا ادارہ جو اسے اس کے صحیح قدردانوں کے ہاتھوں تک پہنچانے کی ذمہ داری لے سکے بلکہ اس سے حاصل ہونے والے ہر طرح کے ریٹرنز کو خود کتنا اور فیملی تک کس طرح پہنچانا ہے یہ بھی بہتر طور مینج ہو سکے ۔


شاہد حسین 

26 اگست 25

Potato Chips


 ایک بندہ لندن آگیا لیکن اسے انگریزی نہیں آتی تھی ،

تو اس نے اپنے ایک دوست سے پوچھا کہ اگر میں کچھ کھانے ریسٹورنٹ میں جاؤں تو وہاں مجھے کوئی چیز کس طرح سے منگوانی ہے ؟

دوست نے کہا کہ جب آرڈر کرنا ہو بس ایک لفظ یاد کر لو ،

Potato chips ,


کچھ وقت کے بعد وہ بندہ پھر اپنے دوست کے پاس گیا اور کہا کہ یار میں ایک ہی چیز کھا کھا کر تنگ آگیا ہوں ،

مجھے کچھ تو اور بھی سکھاؤ !


تو دوست نے کہا ٹھیک ہے اب یہ یاد کر لو ،

Corn Soup , 🍲 

اس نے یہ بھی یاد کر لیا اور جب ریسٹورنٹ جا کر آرڈر کیا تو ویٹرس نے اس سے پوچھا ،

What size ?

Large Medium or Small ?

اب وہ بندہ جس نے ابھی یہ جملے سیکھے ہی نہیں تھے گھبرا کر بولا ،

Potato chips 😆


یہ لطیفہ مجھے یوں یاد آیا کہ آج گروپ میں ایک دوست فاروق افتاب نے تنگ آ کر اپنے دل کی بات کہی کہ بھئی میں تھک گیا ہوں ہر طرف ایک ہی نام سن سن کر کیا پاکستان میں ایک ہی آرٹسٹ ہے صادقین صادقین اور صادقین ؟؟؟


اب ہمارا گروپ جو کہ ہر سال صادقین صاحب پر مکالمے کا اہتمام کرتا ہے ،اور اس پر یقین رکھتا ہے کہ واقعی ہی وہ ایک بڑے بلکہ عظیم فنکار تھے ،

لیکن ان کی عوامی شہرت کئی بار ذہن میں یہ سوال تو پیدا کرتی ہے جسے ہم اظہار کرنے کی ہمت نہیں کر پاتے ۔


یہ تو بھلا ہو ایک دوستوں کی بے تکلف محفل کا جس میں ہم کافی حد تک اپنے دل کی باتیں زبان پر لے آتے ہیں ۔


لیکن اب یہاں اہم بات یہ بھی ہے کہ کیا خود کو اس قدر شہرت و دوام دینے میں خود صادقین صاحب قصوروار ہیں ؟


اور کیا وہ زندگی میں دانستہ اس کا اہتمام کرتے رہے ؟


دیکھیے اس موضوع پر تو انہیں بہت سے قریب سے جاننے والے ہی زیادہ بہتر رائے دے سکتے ہیں ، کہ ان کا ایک عام بلکہ شہرت یافتہ تاثر تو ایک درویش صفت فنکار کا ہے ،

لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بہت سے فنکار کسی مجزوب کی حالت میں بھی خود کو آشکار کرنے کی حالت سے بے خبر نہیں ہوتے ،

تو کیا صادقین صاحب بھی ایسے ہی تھے ؟


اس بات کو ہم رہنے دیتے ہیں ہم اس پہلو سے دیکھتے ہیں کہ ایک سماج کسی ایک ہی شخص کو کسی خاص وہ اعلی مقام پر یکتا حالت پر کیسے فائض اور قبول کرتا ہے ؟


تو دراصل ہمارے یہاں عام لوگوں کو دیکھا جائے تو مصوری کی زیادہ گہرائی سے نالج نہیں رہی ہے ،

بہت سے حالات و اسباب مل کر ان کے سامنے کسی آرٹ یا کسی آرٹسٹ کو نمایاں کر دیتے ہیں یا خاص بنا دیتے ہیں تو جیسے وہ اسے بس یاد کر لیتے ہیں ،

اور انہیں اگر آرٹ کی ویرییشن یا دوسرے آرٹسٹوں کے بارے بتانے کی کوشش بھی کی جائے تو وہ اسے نہیں سمجھ پاتے اور جھٹ سے وہی دہرا دیتے ہیں جو انہیں یاد ہو چکا ہوتا ہے ،

وہ چاہے پوٹیٹو چپس ہو یا صادقین ۔


شاہد حسین 

27 اگست 25

Cymatics


 اسے Cymatics کہتے ہیں۔


 سائمیٹکس ان بصری نمونوں کا مطالعہ ہے جو اس وقت ابھرتے ہیں جب کسی سطح پر کوئی ذرات جیسے ریت، ارتعاش یا آواز کی لہروں کا نشانہ بنتے ہیں۔ اور ارتعاش کی وجہ سے ریت کے ذرات خود کو پیچیدہ نمونوں میں ترتیب دیتے ہوئے اکثر جیومیٹرک شکلیں اور ہم آہنگی ظاہر کرتے ہیں۔


 سائیمیٹکس پیٹرنز کو فن کی مختلف شکلوں میں دیکھا اور استعمال کیا گیا ہے، جس میں موسیقی کا تصور بھی شامل ہے، اور مختلف قسم کے کمپن کے تحت ذرات اور مواد کے رویے کو سمجھنے کے لیے سائنسی سیاق و سباق میں بھی اس کا مطالعہ کیا گیا ہے۔

اس متعالعے کا اگر حاصل دیکھا جائے تو اس پوری کائنات کی تخلیق کی اساس موسیقی کو قرار دیا جا سکتا ہے یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس کائنات کی مکمل تخلیق اس قدر ترتیب اور توازن رکھتی ہے جو 

کسی سمفنی و موسیقی سے ہی ڈیفائن کی جا سکتی ہے ۔

اور جیسے یہ کائنات 

کوئی خوبصورت سمفنی ہے جو مادے کی شکل اختیار کر گئی ہے ۔

اس کے پیٹرن تو بہت سی مختلف مختلف شکلوں میں بنتے ہیں مگر میں نے دائرے کا انتخاب اس لیے کیا ہے کہ کائنات کی لامتناہی تخلیق کو دائرے سے ہی تشبیہ دی جاتی ہے ۔


عافی بھائی میں آپ کے میوزک کے مجموعی جونرہ اور نالج کو 

جس آفاقی مقام پر سمجھتا ہوں ،

جس میں فوک اور تصوف ، کے بنیادی اجزاء کلاسیکل موسیقی کی پیچیدہ بندشوں میں ڈھلتے ہیں وہاں میں اگر اس موضوع پر آپ کی کوئی کتاب دیکھتا ہوں تو اس کے سرورق کے لیے میرے ذہن میں جو ڈیزائن آتا ہے وہ کچھ اسی قسم کا آتا ہے ،

جبکہ آپ جو سرورق سوچتے ہیں وہ اسے شاعری کے حوالے سے سوچتے ہیں ،

اس میں کوئی شک نہیں کہ شاعری بھی اپنے اندر تخیل کی ایک وسیع دنیا رکھتی ہے مگر نہ جانے کیوں میں موسیقی کو اس معاملے میں شاعری سے آگے دیکھتا ہوں 

اسی لیے میں سرورق کے معاملے 

 میں اسے شاعری سے نہیں بلکہ موسیقی کے زاویے سے دیکھنا چاہتا ہوں ۔


اور اسی لیے میں آپ سے اپنا خیال شیئر نہیں کر رہا تھا 

کہ ہو سکتا ہے آپ کو یہ بالکل بھی نہ بھائے ،

لیکن بہرحال آپ کی محبت خلوص بھری دوستی کے سامنے 

میری رائے کا رد ہو جانا کوئی اہمیت نہیں رکھتا ۔


شاہد حسین 

9 اپریل 25

Art and Society


 1 Sep 25.


کیا آرٹ سماج کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے ؟


کائنات کی تخلیق اور اس میں کوئی بھی تحریک کا منبع 

کوئی خیال ہے ؟


یہ ایک قدیم فلسفہ جسے اگر ہم نہ بھی ڈسکس کریں تو معلوم شدہ حیات میں حرکت کسی نہ کسی خیال کی مرہون منت تو ضرور ہے ،

خیال جو کسی غبار کی طرح پیدا ہوتا ہے اور پھر اسے کوئی کمانڈ ایبل شکل دینے میں ایک تصور پیدا ہوتا ہے اور تصور ایک تصویر پیدا کرتا ہے ۔

اور یہ تصویر کسی خالق میں پہلے سے موجود نہ ہوتے ہوئے بھی بالکل نئے طور وجود پا سکتی ہے اور کئی بار ہمیں پہلے سے موجود تصویریں نئی اشکال کا موجب بن سکتی ہیں ۔


بس یہ اسی طرح کا ایک پیچیدہ تال میل ہے ،

اب یہ بات تو ایک سائنس بن چکی ہے کہ بے شمار ساکت یا متحرک تصاویر ہماری ایک ،

Visual Memory

بناتی ہیں اور پھر اسی میموری کی بنیاد پر ہم ایک رائے بناتے ہیں یا تاثر بناتے ، اور یہی رائے اور تاثر ہماری کسی حرکت کو تحریک دیتے ہیں ۔


تو یوں سمجھیے کہ 

اصل میں آرٹ سماج کو کچھ اس طرح سے بدلتا ہے کہ ہم اسے براہ راست مشاہدہ نہیں کر پاتے ،

جیسے کہ 

چاند کی بدلتی تاریخیں سمندر پر اثر انداز ہوتی ہیں، خاص طور پر مدوجزر کے عمل میں۔ چاند کی قوت ثقل یا کشش کا اثر سمندر کی لہروں پر پڑتا ہے، جس کی وجہ سے سمندر میں مدوجزر پیدا ہوتا ہے۔ جب چاند کسی سمندر کے اوپر ہوتا ہے، تو اس کی کشش ثقل کے باعث سمندر کی سطح بلند ہو جاتی ہے اور مد پیدا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، جب چاند اس سمندر سے دور ہوتا ہے، تو سمندر کی سطح نیچی ہو جاتی ہے اور جزر پیدا ہوتا ہے۔


تاہم، ایک اور بھی خیال کہ چاند کی تاریخیں انسانی ذہن پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں لیکن چاند کا پاگلوں یا نفسیاتی بیماریوں پر اثر ایک متنازع موضوع ہے۔

 قدیم یونانی فلسفیوں اور سائنسدانوں کا ماننا تھا کہ چاند کی مختلف حالتوں کا اثر پودوں، جانوروں اور انسانوں پر پڑتا ہے، لیکن جدید سائنس فلحال اس بات کی تصدیق نہیں کرتی۔ بعض تحقیقاتی مطالعات نے چاند کی پوری شکل اور انسان کی نیند کے قدرتی عمل یا حیاتیاتی گھڑی پر اثر کو نوٹ کیا ہے، جس کے نتیجے میں نیند کا دورانیہ کم ہو سکتا ہے اور نفساتی امراض کے دورے، ڈیپریشن، خودکشی اور قتل کے واقعات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ 

لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جو کچھ سائنس ڈیفائن کر رہی ہے کیا انسانی ذہن پر اثر انداز ہونے کے حوالے سے یہ کیا کم ہے ؟


لیکن اسی حوالے سے گفتگو میں اور بھی کئی پہلو ہیں جسے اگر بہت مختصر کیا جائے تو 

اس دنیا میں ماحولیات کو خطرناک سطح پر لے جانے میں سب سے بڑا مسئلہ دولت ہے ،

اور فرض کیجئے کہ آرٹ کے ذریعے سے ماحولیات کی آگاہی دی جا رہی ہے اور پھر آرٹ ہی اگر خود دولت کے حصول کا مسئلہ بن جائے تو اس کا کیا کیا جائے ؟


جی ہاں یہ ایک الگ سنگین مسئلہ ہے جس کی ایک مثال تو میں آج فیس بک پر دیکھ رہا تھا کہ پاکستان کے ایک مشہور آرٹسٹ کا کام ڈالرز کی قیمت میں مگر پاکستانی کروڑوں روپے میں بک رہا تھا ،

اور نیچے بے شمار دوستوں کے کمنٹس تھے کہ وہ کام فیک ہے ،

اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو اگر وہ فیک نہ بھی ہوتا تو میرے جمالیاتی ذوق پر وہ کام کسی طور بھی مجھے کروڑوں روپے میں خریدنے پر راغب نہیں کر سکتا تھا ۔

اب سوچنے کی بات تھی کہ وہ کام نہ ہی اس آرٹسٹ کا سب سے بہترین کام تھا اور زیادہ تر لوگوں کی رائے کے مطابق وہ اوریجنل بھی نہیں تھا تو پھر وہ اتنا مہنگا کیوں ہے ؟


جبکہ بہت سے آرٹسٹوں کا کام بہت معیاری ہونے کے باوجود مہنگا تو کیا مناسب قیمت بھی کیوں نہیں پاتا؟؟


بہرحال سوالات تو بہت سے ہیں ۔ ۔ ۔ 



شاہد حسین 

یکم ستمبر 25

Friday, August 29, 2025

Qasam us Waqt Ki 1968


 Shahid Hussain:

11 May 25.


ہندوستان پاکستان کے درمیان ہونے والی حالیہ جھڑپوں کی یہ جنگ جس مقام پر وقتی طور پر سہی تھمی ہے، وقت کے اس حصے میں فتح پاکستان کو ملی ہے ۔

اور بلا شبہ اس کا زیادہ تر کریڈٹ پاکستان ایئر فورس کے شاہینوں کو جاتا ہے جنہوں نے دشمن کو دندان شکن جواب دیا ہے ۔ 

ہر وقوعہ وقت کے کسی بھی حصے میں گزرے اپنے پیچھے نشانات میں بہت سے اعداد و شمار چھوڑ جاتا ہے ،

جن پر تحقیقات کرنے والے تحقیق کرتے ہیں نتائج بنائے جاتے اور پھر نئی اچیومنٹس کی توقعات کے لیے کام شروع ہو جاتا ہے ۔

اس جنگ میں سب سے زیادہ کریٹیکل کردار ہندوستانی نیوز میڈیا کا دیکھا گیا جو دراصل اب بولی وڈ کی ہی دوسری شکل ہے ۔


 پاکستان کا فنون سے جڑا ہی نہیں بلکہ عام طبقہ بھی بڑی مدت سے چاہتا ہے کہ ہماری فلم بھی کم از کم اتنی طاقتور ضرور ہونی چاہیے جو ہندوستانی فلموں میں پاکستان کے خلاف جھوٹا زہر اگلا جاتا ہے اس کا اسے اس محاذ پر بھی منہ توڑ جواب دیا جائے ۔

لیکن بدقسمتی سے طویل مدت سے فلم ہمارا نظر انداز ترین شعبہ ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید ہماری دسترس سے دور جا رہا ہے ۔

یہ بھی حیرانی کی بات ہے کہ ایک ابتدائی دور میں اس حوالے سے کچھ کام ہو رہا تھا مگر نہ جانے پھر یہ کام کس نظر ہو گیا ۔

بہرحال اسی موضوع اور اسی وقت کے حوالے سے آپ دوستوں سے ایک پرانی تحریر شیئر کر رہا ہوں ، جو پاکستان ایئر فورس پر بنائی گئی شاید پہلی اور آخری فلم تھی

جس کا نام تھا ،

"قسم اس وقت کی"

 

دو ڈھائی دہائیاں پہلے  اس حوالے سے ایک کوشش کی گئی تھی جب ھالی وڈ میں کچھ فلمی سرگرمیاں سرانجام دینے والے پاکستانی محمود سپرا نے ایک فلم ،

"سورج پہ دستک"

بنانی چاہی اور اس میں اس فلم قسم اس وقت کی کے ایک گانے کو بھی استعمال کیا گیا 

مگر یہ فلم مکمل نہ ہو سکی لہذا قسم اس وقت کی ہی اس موضوع پر اکلوتی فلم کہی جا سکتی ہے ۔

   

شاہد حسین 

11 مئی 25 


1967، کے دسمبر میں  میرے والد ناظر حسین صاحب 

اپنے بڑے بھائی سے کاروباری اور گھریلو اختلافات کی وجہ سے اپنے فلم کے عروج کا دور چھوڑ کر کراچی شفٹ ہو گئے ۔

یہ شہر ان کے لئے بالکل اجنبی تھا 

سوائے سلیم چچا جو ان کے شاگرد   سے زیادہ دوست تھے اور اس دوران کراچی میوزیم میں جوب کر رہے تھے اس لئے آرٹسٹوں کے حلقے میں خاصی جان پہچان رکھتے تھے ۔


انہوں نے ابو کی مختلف لوگوں سے ملاقاتوں کے سلسلے میں ان کے میو اسکول فیلو آرٹسٹ آفتاب ظفر صاحب سے ملاقات کروائی

تو انہوں نے ابا کو اپنے بالکل نئے قائم کئیے ہوئے آرٹ اسکول ، پاکستان آرٹ انسٹیٹیوٹ میں اسکلپٹر کلاس لینے کی اس کنڈیشن میں آفر کی کہ وہ وہاں ساتھ کچھ شیئرنگ میں اپنے کمیشنڈ پروجیکٹس بھی کر سکتے ہیں ۔


1968 یہ وہ وقت تھا جب قسم اس وقت کی ، فلم کا کچھ کام کراچی میں بھی ہو رہا تھا جس میں اس فلم کی اسٹلز اور پوسٹرز وغیرہ پر کام ہو رہا تھا جو پین اینڈ آنک میں آفتاب ظفر صاحب بنا رہے تھے ۔

جبکہ اس فلم کے ڈائریکٹر اے جے کاردار صاحب تھے جو ،

1959 میں غالباً پاکستان کی پہلی آرٹ فلم بنا چکے تھے ،

The Day Shall Dawn ,

جاگو ہوا سویرا ،

جسے بین الاقوامی طور پر سراہا گیا اور یہ پاکستان کی پہلی  فارن لینگویج کیٹگری میں بتیسویں آسکر  کے لیے بھیجی گئی فلم تھی ، جو وہاں سلیکٹ تو نہ کی گئی لیکن پہلے ماسکو انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں اس نے سونے کا تمغہ حاصل کیا ۔

تو "قسم اس وقت کی" کے بھی یہی ڈائریکٹراور فیض احمد فیض صاحب نے اس کا سکرین پلے لکھا تھا ،اور یہ پاکستان ایئر فورس پر بنے والی بھی پہلی  لحاظہ یہ ایک اہم فلم تھی ۔

اس کا کچھ کام میرے والد کے حصے میں بھی آیا یہ پلاسٹر آف پیرس میں بننے والے وہ فائٹر جہاز تھے 

جو اس وقت پاکستان  ایئرفورس کے استعمال میں تھے ،

جن کے ماڈلز بھی فراہم کیے گئے تھے ۔ 

میری عمر اس وقت چھ سال تھی اور ان ماڈل مگر کھلونا نما ہوائی جہازوں میں میرا دلچسپی لینا لازم تھا ،جنہیں ہاتھوں میں تھامے اُڑاتے ہوئے ان کی بابت جب میں ابو سے بات کرتا تو وہ مجھے تب میری اس ایج میں بھی بڑی تفصیل سے وجہ بتائی کہ یہ پلاسٹر آف پیرس میں کیوں بن رہے ہیں ۔

اے جے کاردار صاحب ایک پروفیشنل فلم ڈائریکٹر تھے وہ اس فلم کے لیے لائبریری فلمز اسٹاک استعمال نہیں کرنا چاہتے تھے ،

لائبریری اسٹاک سے مطلب انگریزی فلموں کے وہ ٹکڑے ہیں جن میں جنگوں کی تباہی اور دیگر بے شمار مناظر موجود ہوتے تھے جنہیں ہمارے فلم میکر فلم کا بجٹ بچانے کے لئے ان کا استعمال کرلیتے تھے لیکن وہ بہت سے ٹیکنیکل مسائل کی وجہ سے فلم میں الگ سے پہچانے جاتے تھے ۔

اسی لئیے کاردار صاحب انہیں خود پکچرائز کرنا چاہتے تھے ،

چنانچہ پلاسٹر آف پیرس کے جہازوں کو پینٹڈ سکائی پر رکھ کر بلاسٹ کرکے پکچرائز کیا گیا تھا ۔

11 دسمبر 1969 کو یہ فلم ریلیز ہوئی ، ابا ہمیں دکھانے لے کر گئے لیکن وہ جن جہازوں کو میں بڑے شوق سے بنتے ہوئے دیکھتا رہا

انہیں تباہ ہونے کے مناظر نہ دیکھ سکا اور تقریباً  فلم میں نے سو کر گزار دی ۔

بعد میں پتہ چلا کہ یہ فلم بہت سے لوگوں نے اسی طرح دیکھی ،یوں کہ یہ فلم بری طرح سے فلاپ ہوگئی تھی ،

لیکن اس کا ریکارڈ کہیں نہ کہیں ہونا چاہیے تھا ،جو کہ نہیں رکھا گیا اور وہ جو میرے ابا کے کریڈٹ پر ایک اہم فلم کے کریڈٹ ٹائٹلز میں نام ہونا تھا ،

اس فلم کے ساتھ وہ بھی کھو گیا ۔


شاہد حسین

3 جون 22

Sunday, August 24, 2025

Ghalib Baqar


 گزشتہ دنوں غالب باقر بھائی کے انتقال پر ملال کے موقع پر ،

ہمارے واٹس ایپ گروپ کے وہ دوست جو یہاں فیس بک گروپ میں شامل نہیں ہے انہوں نے جن تعزیتی کلمات کا اظہار کیا ان میں سے بھی جو کچھ تفصیلات لیے ہوئے تھے انہیں بھی اکٹھا کر کے یہاں شیئر کیا جا رہا ہے ۔


شاہد حسین۔


 15 Aug 25 

 Cezanne Naqsh: 

Iam so Deeply shocked and saddened by the sudden passing of  Ghalib Baqar. 


Ghalib bhai,  beyond his art, he was a generous mentor and a gentle soul whose presence will be greatly missed


May his journey ahead be filled with the beauty he so lovingly created for this world.


 Shahid Hussain: 

انا للہ وانا الیہ راجعون ،


نثار بھائی ان کا تو بس چند روز پہلے معلوم ہوا تھا کہ کوئی چھوٹا سا ایکسیڈنٹ ہوا ہے ۔


یہ ان کی وفات وجہ سے باعث کیسے بنا؟


بہت افسوس ہوا کس قدر عارضی ہے زندگی ، نہ صرف بہت اچھے فنکار بلکہ بہت سلجھے ہوئے اور آرٹ کی وسیع نالج رکھنے والے استاد فنکار ،

اللہ انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے ۔


 Jamil Ahmad:

 Inna lila hay waina elahay rajaon. Allah pak un kay darjat blund farmay. Ameen very sad.


 Hanif Shahzad: 

Boht he afsosnak news hai yaqeen hi nahe aa raha hai ayesa lgta tha k jld sayhatyab ho jayn gay yae hamaray art screen ka 1 shining star tha Allah merhom ki maghfrt frmaye aur sub family members aur friends ko sabr atta frmaye


 Sadia Atif: 

انا للہ و انا الیہ راجعون۔    

پاکستان کے معروف اور باکمال فنکار غالب باقر صاحب کے انتقال کی خبر سن کر دل بے حد رنجیدہ ہے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی بات ہے کہ انہوں نے اپنے ایک نامکمل کام کے اوپر مجھ سے ڈسکس کیا تھا۔ پانچ سال پہلے میں نے ان کے کام کے اوپر ان کے اصرار پر ایک ویڈیو بنائی تھی اور کچھ عرصہ پہلے انہوں نے ایک اور ویڈیو بنانے کو کہا تھا جس میں انہوں نے ریکویسٹ کی تھی کہ میرا بعد والا کام بھی اس ویڈیو کے اندر شامل کیا جائے۔۔ مگر افسوس وہ کام ان کی زندگی میں ادھورا رہ گیا۔۔

 انہوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور منفرد فن کے ذریعے نہ صرف پاکستان کی ثقافت و فنونِ لطیفہ کو نکھارا بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک روشن مثال قائم کی۔ ان کا ہر کام ایک زندہ شاہکار کی مانند تھا، جو فن کی گہرائی، خوبصورتی اور سچائی کا آئینہ دار ہے۔


غالب باقر صاحب کا فن اور ان کی محنت ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ ان کی کمی کبھی پوری نہیں ہو سکتی، مگر ان کا چھوڑا ہوا تخلیقی ورثہ ہمیشہ دلوں کو روشنی دیتا رہے گا۔

اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند کرے اور لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ آمین۔


 Akbar Ali:

 Hum Sabko Khuda ki Khudai me rehna chahye aur Sab k liye Duaa aur Mohabbat k sath... yaqqenan Sacha Ensaan Roth kr ezhaar he karta hi appno sey.

 Yasmeen Aziz ,

*ڈھونڈوگےاگر ملکوں ملکوں 

ملنےکےنہیں نایاب ہیں ہم*


غالب باقر باکمال مصور ،درویش صفت بہترین انسان میرا بہت پیارا دوست جو مصوری میں میرا ہم جماعت تھا وہ مصوری کی دنیا کا جادو گر تھا جب وہ اپنے برش کو رنگوں میں ڈبو کر کینوس پہ بکھیرتا تو ایسا لگتا جیسے ہم کسی جادوگر کے زیر اثر ایک ایسی تصوراتی دنیا میں پہنچ گئے جہاں ہر طرف رنگ ہی رنگ بکھرے ہوں لیکن وہ تمام رنگ جادوگر کے مکمل قبضے میں ہوں اور اس کے اگے ہاتھ باندھے کھڑے ہوں باقر کی مصوری پہ بات کرنے کے لئے یہاں بہت سے نامور مصور موجود ہیں میں یہاں بات کروں گی کہ وہ انسان کیسا تھا اور دوست کیسا تھا میرا باقر کے ساتھ تعلق ایک فیملی ممبر جیسا بھی تھا باقر کے والد محترم پروفیسر مجتبی حسین اردو کے ایک نامور تنقید نگار تھے آپ بلوچستان یونیورسٹی میں اردو ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ بھی رہے اور کوئٹہ میں وہ میرے بہنوئی کے پڑوسی بھی تھے یوں ہمارے تعلقات نسلوں پہ محیط ہیں باقر ایک بڑے علمی اور ادبی خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود انتہائی سادہ اور صوفیانہ مزاج رکھتے۔۔۔ تھے کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے مجھے بے حد دکھ محسوس ہو رہا ہے لیکن ایک اطمینان یہ بھی ہے کہ باقر اپنے فن پاروں اور اپنی شاندار یادوں کے ذریعے ہمیشہ ہمارے دلوں میں جگمگاتا رہے گا  باقر فطرتا ایک سادہ اور لاابالی طبیعت کا مالک تھا وہ تو اپنی زات سے ہی بے خبر تھا وہ کسی اور کی زات کو کیا کریدتا وہ ایک ایسا درویش تھا جو صرف اپنی مصوری کا دھمال ڈالتا جو رنگوں میں اس طرح کھو گیا تھا کہ خود کو ہی گم کر بیٹھا تھا اس کی زات میں ایک ایسی انکساری تھی کہ وہ اپنے سامنے آنے والے ہر چھوٹے بڑے شخص کو یہ احساس دلا دیتا کہ وہ قدآور ہےباقر ایک ایسا ہیرا تھا جو ناتراشیدہ تھا یعنی بالکل خالص اللہ تعالی غالب باقر کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے آمین

یاسمین عزیز ۔


 Sheji Kazmi: 

 غالب باقر مرحوم ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

۔

ابھی پچھلے سال آرٹس کونسل کی ایک تقریب میں غالب باقر سے تعارف ہوا، تقریب کے بعد، ہال سے باہر ایک کونے میں سگریٹ نوشی کرتے ہوئے غالب میرے پاس آئے اور کرید کرید کر مجھ سے میرے پس منظر کی تفصیلات پوچھنے لگے، مجھ ان کا اور ان سے میرا غائبانہ تعارف تو تھا، میں نے بھی ان کی شہرت سن رکھی تھی اور وہ بھی میرے بارے میں خاصی سن گن رکھتے تھے۔ مگر ان کے 'کریدنے' کی صلاحیت سے میں نے بڑا لطف اٹھایا، وہ مخاطب کے بارے میں سب کچھ جاننا چاہتے تھے، میرے نزدیک یہ ایک بڑی اچھی خوبی ہے! میں نے بھی کوئی تفصیل نہیں چھپائی۔ ان کے چہرے کے تاثرات اور متجسس آنکھیں بہت دلچسپی سے مخاطب پر جمی تھیں۔

پھر اپنے بارے میں بہت کچھ بتایا!

اگلے دن ہی مجھے فیس بُک پر 'دوستی'  کا پیغام موصول ہوا، اور وہ میری اپلوڈز پر اپنے تاثرات کا اظہار کرنے لگے۔ میں ان کے کام کو تو پہلے ہی سراہتا تھا، ان کی متحرک شخصیت سے آشنائی پہلی مرتبہ ہوئی۔

افسوس ان سے پہلی بالمشافہ ملاقات ہی آخری ثابت ہوئی جس کا بے حد افسوس ہے، مگر ان کے بہت جلد دنیا سے رخصت ہونے کا بہت صدمہ ہے! کاش ان سے ایک تسلسل سے ملاقاتیں رہتیں!

پاکستانی فنکاروں کی اس چھوٹی سی دنیا سے ان کے اچانک چلے جانے سے بہت تکلیف پہنچی!

پروردگار ان کی عالم برزخ کی منزلیں آسان کرے، اور انکو اونچا مقام عطا فرمائے! الہٰی آمین!! پروردگار

💔😢🤲💐


شجیع کاظمی 


 Shahid Hussain: 

شجیع کاظمی بھائی میں نے مشاہدہ کیا کہ فارمی مرغیوں کے پنجرے سے جب کوئی مرغی والا ذبح کرنے کے لیے مرغی نکالتا ہے تو دیگر مرغیاں سوائے خوفزدہ ہونے کے کوئی خاص احتجاجی آواز نہیں نکالتیں،

جبکہ گھر کی پالتو مرغیوں میں سے کسی کو اس مقصد سے دڑبے سے نکالیں تو دوسری مرغیاں دیر تک احتجاج کرتی ہیں ،

اب اج ہی بدلتی دنیا میں ہم انسان بالکل فارمی مرغیوں کی طرح ہوتے جا رہے ہیں ہمارے درمیان سے کوئی چلا جائے ہم صرف ایک دن کے لیے دکھی ہوتے ہیں 

دوسرے دن زندگی اپنی لگی بندھی ڈگر پر رواں دواں ہو جاتی ہے ۔


لیکن اس فنکار طبقے کا کیا جو حساسیت اور دیگر انسانی جذبوں کی شدت میں دوسرے لوگوں سے بہت مختلف ہونے کا داعی ہوتا ہے ؟

کیوں کہ وہ انہی خصوصیات کی بنیاد پر تو ایک اچھا تخلیق کار ہوتا ہے تو وہ دوسرے لوگوں کی طرح آج کی دنیا میں روبوٹ کیسے بن سکتا ہے ۔


ہم نے بڑی مدت یہاں دوستوں سے گزارش کی کہ جب ہمارے درمیان سے کوئی فنکار دوست چلا جائے تو اس کے لیے دعائیہ کلمات ضرور کہیے مگر جو دوست اس سے کوئی بھی تعلق واسطہ رکھتے رہے ہیں اور جتنی حد تک اس دوست کی شخصیت سے واقف ہیں کم از کم اپنا وہ احوال تھوڑا سا ضرور بیان کریں ،

ضروری نہیں کہ اس میں وہ کسی بہترین لکھاری کی خصوصیات رکھتے ہوں بلکہ بس محفل میں بیان کیے جانے والی  سچائی ، بے ساختگی اور تھوڑی سی ترتیب کے امتزاج سے کسی کا شخصی خاکہ یا کسی ملاقات کا احوال بیان کر دیجئے بس کافی ہے ۔

مگر دوست مان کر ہی نہیں دیے ،

شجیع کاظمی بھائی اپ کا بہت شکریہ اپ فلم ٹی وی ڈرامہ پروڈکشن اور اسی سے منسلک دیگر شعبوں سے تعلق رکھتے ہوئے ایک انتہائی حساس انسان ہیں،

تو یقیناً آپ ایک اچھے لکھاری ہیں جو بہت اچھی ابزرویشن رکھتا ہے اور اپ نے اس ملاقات کے احوال میں اسے بڑی خوبی سے بیان کیا ہے لیکن پھر بھی یہ ایک ایسا ٹرو اظہار ہے جو کسی فنکار کا دوسرے فنکار کے جانے کے بعد اس کی یاد بیان کرنے اور ہمیں مدد دینے میں ایک بہترین مثال بھی ہے ۔

اللہ غالب باقر بھائی کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے ، آمین یارب العالمین ۔


شاہد حسین 

18 اگست 25

Akbar Khan


 Farhan Awan:

22 Aug 25.


 اکبر خان 17 جون 1961 کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے اور 21 اگست 2023 کو کراچی میں تقریباً رات 9 بجے اس دار فانی سے رخصت ہوگئے ۔ مجھے جہاں تک یاد ہے ان کا اصل نام سید اکبر تھا مگر وہ اپنی والدہ کی نسبت سے اکبر خان لکھتے تھے انہیں اپنی والدہ سے بہت زیادہ لگاؤ اور محبت تھی وہ اپنے والد سے بھی بہت محبت کرتے تھے ۔ اکبر خان ایم۔ اے۔ پاس ایک پڑھے لکھے انسان تھے اور اردو ادب سے خاص لگاؤ رکھتے تھے۔فنون لطیفہ ان کی رگ و پے میں شامل تھا اتنا جنون کہ اپنے کیریئر کا آغاز شادی بیاہ اور دوسری تقریبات میں وڈیو گرافی سے کیا اور اپنی بے پناہ مہارت کی وجہ سے ملک کی بڑی شخصیات کے قریب اور پسندیدہ رہے یہاں نام میں اس لئے نہیں بتا سکتا کہ اکبر پسند نہیں کرتے تھے وہ تو بغیر سہارے کے اپنی ہی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اپنی پہچان بنانا چاہتے تھے اور پھر اللّٰہ نے انہیں کامیابی بھی عطا کی۔ اکبر خان سے میری پہلی ملاقات 1990-91 میں آرٹس کونسل میں ایک تھیٹر ورکشاپ کے دوران ہوئی جو ایسی دوستی میں ڈھل گئی کہ کراچی میں اکبر خان سے زیادہ حقیقی دوستی کا معیار نظر نہیں آیا دوستی کے جن معنوں پر اکبر پورا اترتا تھا اس کے جانے کے بعد دوستی کے سابقہ معنے اردو لغت میں تبدیل کرنے کو جی چاہتا ہے۔ میں نے اکبر کے والد کو بغیر کسی غرض کے ہمسائیوں اور محلے داروں کے کام کرتے اور مدد کرتے دیکھا ہے وہ نہایت ڈاؤن ٹو ارتھ مگر با وقار انسان تھے اس لحاظ سے اکبر اپنے والد کی طرح ہی تھے بلکہ میں نے تو اکبر کو اپنے محلے سے ایک قدم آگے ہر کسی کی بے لوث مدد کرتے ہمدردی کے شدید جزبے کے ساتھ عملی طور پر دیکھا ہے آج بہت سے اکبر کو جاننے والے لوگوں کو میں نے یہ تک کہتے سنا ہے کہ اکبر اس دور کا درویش صوفی تھا اور میں سو فیصد اس سے متفق ہوں وہ واقعی ایک درویش صوفی تھا وہ میری ذات کا حصہ تھا میں اس کے بغیر خود کو ادھورا محسوس کرتا ہوں یہ ادراک اسے بھی تھا، میرا جی چاہتا ہے اکبر ملے تو اسے بے شمار محبت دوں اور ساتھ ساتھ خوب لڑوں کہ سب جانتے ہوئے اس نے اتنی جلدی کیوں کی، کیوں دنیا چھوڑ گیا ،ایزل آرٹ گیلری بنانے اور چلانے میں میرا دست راست تھا اب میں کیسے اس گیلری کو اکیلا چلاؤں ، ہم نے مل کر بہت ساری ایگزیبیشن کی ہیں اب میں اکیلا یہ سب کیسے کروں میرے لئے یہ سب بہت مشکل ہے میرا گیلری میں دل نہیں لگتا مگر یہ اکبر خان کی بنائی گیلری ہے ایزل آرٹ گیلری نام اکبر کا دیا ہوا ہے میں اسے کیسے چھوڑ دوں مگر پھر سوچتا ہوں اکبر تو مجھے کسی صورت نہیں چھوڑتا یہ تو سب اللہ کے کام ہیں وہ معبود ہے مالک ہے اس سے تو نہیں لڑا جا سکتا سوال نہیں کیا جا سکتا یوں میرے سوال ادھورے رہ جاتے ہیں اللہ صبر دے دیتا ہے۔ دوستو آپ سوچتے ہوں گے میں یہ کیا باتیں لے بیٹھا ، ہاں تو میں اکبر کے بارے میں بتا رہا تھا اکبر ایک مکمل اور اعلیٰ صلاحیتوں کا مالک آرٹسٹ تھا وہ ایک اعلیٰ ایکٹر تھا سب جانتے ہیں مگر ایکٹر کے ساتھ ایک بہترین ڈائریکٹر ، رائٹر اور مختلف گیٹ اپ کا ماہر میک اپ آرٹسٹ بھی تھآ ۔ اکبر خان ایک مصور اور مجسمہ ساز بھی تھا مجسمہ سازی میں ملک کے مایہ ناز مجسمہ ساز انجم ایاز اس کے استاد تھے اکبر کی پینٹنگز اور مجسموں کی نمائش بہت سی بڑی گیلریوں میں کامیابی سے ہو ئیں ۔ایزل آرٹ گیلری میں اکبر کی پینٹنگز کی سولو نمائش ہوئی ۔اکبر مجسمہ سازی میں مہارت رکھتا تھا زیادہ پتھر پر کام کرتا تھا مگر کووڈ کے زمانے میں بھی وہ چین سے نہیں بیٹھا اس نے اپنی بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں کے بل پر لوہے کے کوڑ کباڑ سے نہایت تخلیقی کام کیا اور بہت سے مجسمے بنائے اور اس طرح ایزل آرٹ گیلری میں اس اچھوتے خیال سے تخلیق پائے مجسموں کی ایک کامیاب نمائش ہوئی ۔ اکبر کی شخصیت پر جتنا لکھتے جائیں نہ جی بھرتا ہے اور نہ ہی مواد کم پڑتا ہے مگر اختصار کی ضرورت کے تحت آج ہم اکبر کی برسی کے موقع پر اس کی اگلی منزلوں کی آسانی ، گناہوں کی معافی اور جنت میں اعلیٰ مقام عطا ہونے کی ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ مضمون ختم کرتے ہیں۔ اللّٰہ پاک میرے دوست کے اہل خانہ کوصبر جمیل عطا فرمائے اور بچوں کو خوب ترقی دے روشن نصیب عطا کرے آمین ثم آمین 💖۔


فرحان اعوان 

22 اگست 25 ۔


Farhan Aalam:

فیس بک سے فرحان عالم کی تحریر ۔



اکبر خان کی آج دوسری برسی ہے کل سے کوشش کر رہا ہوں کچھ پوسٹ کروں مگر اکبر کی برسی، یہ الفاظ مجھے بے سدھ سا کردیتے ہیں اتنا دکھ ، قرب کی ایسی کیفیت ہوش اڑا دیتی ہے۔ اکبر خان جو ایک اداکار ، ڈائریکٹر ، مصور اور مجسمہ ساز کے طور پہچان رکھتا ہے وہ بہت اچھا انسان تھا ایسا ہمدرد دوسروں کی آسانیوں کے لئے انتھک محنت اور کوشش کرنے والا درویش میں نے حقیقت میں اکبر خان کی صورت میں ہی دیکھا ہے وہ دوستوں کے درمیان  ایک مضبوط پل تھا ۔ ہردلعزیز اکبر میرا عزیز ترین ساتھی بلکہ میرے ذات کا حصہ تھا آج کے دن نے ہم سے چھین لیا ، آج اکبر خان کی برسی ہے وہ ہمیشہ کے لیے ہمیں چھوڑ کر چلا گیا یہ ہی حقیقت ہے۔ اللّٰہ پاک اکبر خان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین ۔

فرحان عالم


 Imran Zaib: 

اکبر خان واقعی بہت پیارا معصوم انسان تھا، ہر کسی سے خوش اخلاقی سے ملنا اکبر خان کا وتِیرہ تھا، اکبر خان بہت اچھے اداکار تھے پر بَد قسمتی سے انھیں اچھا رول اور ڈائریکٹر نہیں ملا، اکبر خان بھاری بھاری مجسمے بناتے تھے، جِس میں انکے استاد انجم ایاز تھے، اکبر بھائی کو دل کا مریض ہونے کے بعد میں نے اُن سے کئی دفعہ کہا کہ آپ کو سَب جانتے ہیں اب آپ پینٹنگز بھی کرو، پھر انکو استاد کی شکل میں عبدل جبار ملا جِس نے انھیں پینٹنگز میں اچھا گائیڈ کیا پھر اکبرخان بھائی اچھی پینٹنگز بھی کرنے لگے، مجھے دیکھ کر اکبر بھائی کی آنکھوں میں ایک پیاری سی چمک آجاتی، شاید وہ چمک انکی آنکھوں میں سَب سے ملنے پر آتی ہو، پر مجھ سے انھیں خاص انسیت تھی شاید بھائی انعام راجا کہ وجہ سے جنھیں وہ استادوں والا درجہ دیتے تھے،  بھائی انعام راجا کے انتقال کے بعد وہ مجھے اپنا چھوٹا بھائی جیسا سمجھتے، اکثر میرا رشتہ لگانے کے چَکر میں بھی رہتے، میری شادی ہونے کے بعد مجھے نوشے میاں، نوشے میاں کہتے، شُکر گزار قسم کے انسان تھے، میں کہتا اکبر بھائی آپ کافی سنئیر ہوگئے ہیں پر آپ کو بڑے رول کیوں نہیں ملتے، کہتے اللہ کا شکر ہے اب میں اچھے لیول کے اداکاروں میں شمار ہوتا ہوں، میں کہتا اکبر بھائی آپ کا فیس بہت ایکسپریسیو ہے بَس پینسل سے اپنی آئی بَرو گہری کرلیں تو اور زبردست تاثر آۓ گا، پر وہ اُس میں ہی خوش تھے، واقعی اوپر والا اچھے لوگوں کو اپنے پاس جلدی بلا لیتا ہے، اللہ تعالیٰ اکبر خان بھائی کی مغفرت فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین ثم آمین 🤲🏻🤲🏻🤲🏻❤️


Shahid Hussain:

 گروپ کے بہت سے دوستوں کی طرح 

اکبر خان سے بھی میری کراچی میں رہتے ہوئے بھی ملاقات نہیں ہو سکی تھی ،

جس کی کئی بہت سی پیچیدہ وجوہات ہیں جن کا ذکر پھر کبھی سہی لیکن مختصر کہوں تو ان تمام وجوہات کا ذمہ دار میں خود ہوں ،

ورنہ اکبر خان سے جب میری گروپ کے ذریعے سے دوستی ہوئی تو مجھے وہ بالکل وہی دوست لگا جن سے آپ کو فاصلے سے بھی دوستی کے باوجود فاصلہ محسوس نہیں ہوتا ۔


وہ اپنے مزاج میں اس قدر نرمی و انکساری رکھتا تھا 

کہ لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ اپنی ذات  میں ایک انجمن لیے بہت کچھ سمیٹے بیٹھا ہے ۔

زیادہ تر لوگ اسے اداکار ہونے کے حوالے سے جانتے تھے جبکہ وہ بہت اچھا پینٹر مجسم ساز جو بہت سے موضوعات اور میڈیمز میں تجربات کرنے جانتا تھا 

معلوم ہوا کہ اسے اردو ادب سے بے حد لگاؤ تھا لیکن میں نے بہت سے لوگ دیکھے جو ادب سے لگاؤ کے باوجود با ادب نہیں ہوتے مگر  اکبر خان  سچ میں ایک انتہائی مہذب با ادب شخص ،

بلکہ دوست شخص تھا ۔


بس بڑی حیرانی ہوتی ہے کہ آج ہم تیزی سے کتنی عجیب دنیا کا حصہ بنتے جا رہے ہیں کہ،

جس دن کوئی شخص اس دنیا سے جاتا ہے بس چند روز 

ہم چند لوگوں کو کچھ دعائیہ اور تعزیتی کلمات کہتے دیکھتے ہیں بس اس کے بعد اگلے سال تک کوئی کسی کو یاد ہی نہیں رکھتا ،


آخر ہمارے کسی کو یاد رکھنے کے  پیمانے پہلے کیا تھے اور اب کیا ہیں ؟


اس کے جواب میں کوئی مشکل فلسفہ نہیں ہے ، پہلے کسی کا بہترین مخلص دوست ہونا کافی ہوتا تھا ، پھر ایک دور آیا جب کوئی بہت ہی کامیاب فنکار ہو تب ہم اس سے اپنا تعلق بعد تک جوڑتے تھے ،

لیکن اب ہم اس دور میں داخل ہو گئے ہیں جہاں جب تک کسی سے مادی مفادات کا تعلق ہے بس تب تک تعلق ہے ۔


تو پھر تو ہم سچ میں خود ہی اس اس دنیا کے سماجی نظام کو کسی دیمک کی طرح لگ چکے ہیں ، 

جس پہ جب ہمارا ہی وجود محفوظ نہیں ہمیں ہی یہ احساس ہو رہا ہے کہ کوئی ہمیں ہمارے جانے کے بعد دوسرے دن یاد نہیں رکھے گا تو پھر بتائیے اس سماجی نظام کی تعمیر کی ذمہ داری کون لے گا ؟ 

کیونکہ شاید اس دنیا میں اگر سب نہیں تو بہت سے لوگ شاید اس امید پر بھی اچھے کام کرتے ہیں کہ کوئی انہیں جانے کے بعد کچھ وقت تک یاد کر لے گا ۔


بہرحال شاید بات بہت زیادہ گھمبھیر ہو گئی ، لیکن کوشش تو یہی رہی کہ جو فنکار دوست ہم میں سے دنیا سے جائے اس سے جن کا بھی جو بھی تعلق واسطہ ہے وہ کوشش کر کے یا تو اس کے کام پر کچھ اظہار خیال کریں یا اسے کچھ نہ کچھ اپنے تعلق کے حوالوں سے ذکر ضرور کریں،

اگر ہم کسی فنکار کو بہت سی دنیاوی کامیابیوں کے فیتے سے ناپ کر بڑا فنکار نہیں بھی کہہ سکتے تو اچھا دوست تو کہتے ہی ہے نا ،

ہم تو اسے پہچانتے ہی ہیں جانتے ہی ہیں نا ، تو کیا ان باتوں یادوں کا بھی ذکر نہ کیا جائے ؟


فرحان اعوان تمہارا بہت شکریہ تم نے اکبر خان کے حوالے سے اپنے ذاتی جذبات کا اظہار کیا 

اتفاق سے اکبر کی برسی پر ایک اور جو تحریر فیس بک پر نظر ائی وہ بھی کسی فرحان نامی شخص کی ہی ہے ،


اکبر خان بہت نفیس انسان تھا بہترین دوست تھا مگر شاید دوستی کا حق ادا کرنے کے لیے اور اس کے لیے دکھی ہونے کے لیے اس کے نصیب میں فرحان ہی آئے فرحان جس کے معنی خوشی اور شادمانی کے ہیں ،

جو یقیناً اپ دوستوں نے اکبر خان کی زندگی میں اس کے ساتھ وقت گزارتے ہوئے ضرور محسوس کی ہوگی ۔


اللہ اکبر خان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے ۔


شاہد حسین 

22 اگست 25

AAN 1952


 Shahid Hussain:

23 Aug 25.


 1952 میں ریلیز ہونے والی دلیپ کمار صاحب کی شہرہ آفاق فلم ،

"آن" کے بارے میں کیا کہوں اس پر جتنا کچھ لکھا جا چکا ہوگا شاید اسے اکٹھا کیا جائے تو کئی کتابوں کا مواد بن جائے ،

لہذا میں اس حوالے سے صرف ان یادوں کا ذکر کروں گا جن کا تعلق میرے والد ناظر حسین صاحب سے ہے ۔


جو اس دور میں میو سکول آف ارٹ میں زیر تعلیم تھے ،

اور وہیں کے ایک مجسمہ سازی کے استاد جن کا نام  نور خان اور ان کا لاہور کے قدیمی علاقے اچھرہ کے قریب اسٹوڈیو تھا وہاں ان کے پاس پارٹ ٹائم معاونت کے لیے بھی جاتے تھے ۔ 


1953 میں میرے والد میو اسکول  آف آرٹ سے پاس آؤٹ ہوئے تو دلیپ کمار صاحب اور ان کی آن فلم کا ہر طرف طوطی بول رہا تھا اور میرے ابا  تو دلیپ صاحب پہلے سے ہی دیوانے تھے سو فلم کے پوسٹر پر موجود ان کے اس پوز کو انہوں نے تقریباً 18 انچ سائز میں بنا کر انہیں خراج تحسین پیش کیا جسے جو دیکھتا یہی کہتا کہ اسے تو دلیپ صاحب تک پہنچنا چاہیے ،

گو اس مجسمے کو وہ دلیپ کمار صاحب تک تو نہ پہنچا سکے لیکن یہ مجسمہ  میرے والد کو لاہور کے فلم سٹوڈیوز تک  پہنچانے کا ذریعہ ضرور بن گیا۔


1954 میں جب وہ ایور نیو اسٹوڈیو کام کی تلاش میں گئے تو وہ اسی مجسمے کو ساتھ لے کر گئے ،

آغا جی اے گل صاحب نے نہ صرف اسے بے حد سراہا بلکہ ان کا کام دیکھتے ہی انہیں بطور مجسمہ ساز اور ماڈلر کے ملازمت بھی دے دی ۔

گو کہ وہاں کے پہلے سے موجود سینیئر مجسمہ ساز جن کا نام شاید غلام نبی تھا  نے انہیں مٹی اور پلاسٹر کی بوریاں ڈھونے میں لگا دیا مگر میرے ابا عجیب مست ملنگ قسم کے بندے تھے ، 

جہاں ان کے عشق کا معاملہ ہوتا اپنی شیریں کے لئے بڑی سے بڑی چٹان کھودنے کی مشقت میں جت جاتے ،

اور جہاں عشق نہ ہوتا وہاں بادشاہت کوٹھوکر مار دیتے ۔ 


وہ 11 ستمبر  کو پیدا ہوئے تھے ،

ایک وقت میں جب میں نے ان کے برج کی خصوصیات پڑھیں تو میں حیران ہو گیا جیسے لکھنے والے نے میرے ابا سے پوچھ پوچھ کر لکھی تھیں ۔


بہرحال تھوڑے ہی وقت بعد آغا جی اے گل صاحب نے اتفاقاً جب میرے آبا کو بڑی دلجمی سے مزدوری میں مشغول دیکھا تو انہوں نے سینیئر مجسمہ ساز کو بلا کر پوچھا کہ آپ کے خیال میں کیا میں نے اس لڑکے کو اس کام کے لیے رکھا ہے ؟


یوں اس طرح سے میرے ابا کا بطور مجسمہ ساز اور اورنامنٹ ماڈلر کے فلم انڈسٹری میں دور شروع ہوا ،

اور پھر وہ اپنے حقیقی شوق کی مشقت میں مصروف ہو گئے تقریبا پچیس سال سے زائد تک ۔ ۔  

یہ وہ دور ہے جب کاسٹیوم یعنی تاریخی موضوعات کی فلمیں بھی تواتر سے بنا کرتی تھیں سو بے شمار فلمیں ہیں جن کا اکثر ذکر کرتا رہتا ہوں ،

لیکن آج خاص طور پر آن فلم کا جب یہ  گانا ایک دوست نے بھیجا ،

"آگ لگی تن من میں دل کو پڑا تھامنا"

میں نے دیکھا سنا تو بہت سی یادیں دماغ کے پردہ سکرین پر نمودار بلکہ کچھ واضح ہو گئیں ،


میں نے یہ فلم 1980 میں تب دیکھی جب وی سی آر کا دور شروع ہوا لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے یہ فلم تب کچھ زیادہ سمجھ نہ آئی شاید کہیں سوتی جاگتی  کیفیت کی وجہ سے اور اس کے بعد پھر دوبارہ دیکھی بھی نہ گئی ،

لیکن آج جب یہ گانا دیکھا تو اس میں موجود مچھلیوں کے مجسمے نے بچپن کی یادوں کو واضح کر دیا ۔


میری پیدائش 1962 کی ہے لیکن 1965 تک کی بھی کئی یا داشتیں میرے کہیں ذہن کا خانوں میں محفوظ ہیں اور مجھے یاد ہے کہ میرے ابا کے اسٹوڈیو میں تقریباً چھ فٹ ہائٹ کی اسی قسم کی مچھلیوں کہ مجسے بنائے گئے تھے جنہیں میں حیرت اور شوق سے اس وقت بھی دیکھتا رہا تھا ۔

بس ان میں فرق یہ تھا کہ مچھلیوں کی دمیں پیچھے کی جانب مڑی ہوئی تھیں اور وہ اپنی مجسمہ سازی کی کوالٹیز میں کچھ اٹالین خصوصیات لیے ہوئے ہیں اس سے بہت زیادہ اچھی تھیں ،

دراصل اس دور میں 

جو بھی فلمیں بنتیں ان کے موضوعات اور سیٹس لگائے جاتے یا اس میں مجسمے رکھے جاتے، کہیں نہ کہیں ان کی انسپریشن ہندوستانی فلموں سے تو لی جاتیں ۔ ۔ تو اس طرح سے مجھے آج یہ معلوم ہوا کہ یقیناً وہ مچھلیاں اسی کا تسلسل تھیں ،

اب مسئلہ یہ ہے کہ ہماری اس دور کی فلموں کا کہیں کوئی ہائی ڈیفینیشن تو کیا مناسب رزلٹ میں بھی ریکارڈ دستیاب ہی نہیں ،جبکہ ہندوستان اپنی فلموں کو محفوظ کرنے میں بہت حد تک نہ صرف کامیاب رہا جبکہ ان کو دوسرے فارمیٹ میں منتقل کرنے میں بھی اس نے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا ،

 اس دور کی بہت سی بلیک اینڈ وائٹ فلموں کو کلرڈ کرنے کا سلسلہ تک جاری ہے ۔

اب ہمارا کیا کیجئے کہ نہ ہم اپنی قدیم عمارتوں ، نہ لائیبریریوں نہ آرٹ اور نہ ہی دیگر تہذیبی ورثے کی بے شمار نشانیوں کو 

محفوظ کرنے میں سنجیدہ ہی نہیں ہو سکے تو فلم اس میں اہم ہونے کے اعتبار سے کہاں آور کیا جگہ پائے گی ؟


سوائے کہ اپنی یادوں کو بس کسی نہ کسی حوالے سے جوڑ جاڑ کر بیان کر دیا جائے ۔


شاہد حسین 

23 اگست 25


 Syed Shahab Shah: 

بہت ہی شاندار پیرائے میں ایک فکر انگیز تحریر۔ ♥️♥️


Nisar Ahmed:

شاہد بھائی آپ کے پاس وہ مضبوط یادیں ہیں اور ایسے فنکار کی جدوجہد سامنے ہے جو عام لوگوں کے ساتھ نہیں ہیں ، تو ایسی یادیں دن بدن تنگ بھی کرتی ہیں اور بہت سے سوالات زہن میں جنم لیتے ہیں کہ اسوقت ابا ویسا کر لیتے تو ایسا ہو جاتا یوں کر لیتے تو یوں ہو جاتا ۔ ۔  لیکن یہ سب ہمارے بس میں نہیں ہے

یہ یادیں دکھی کر رہی ہوتی ہیں یا مزید توانا سمجھنا مشکل ہے

 بہت معزرت کے ساتھ ،

مجھے لگتا ہے آپ بھاگ رہے ہیں یادوں سے اور مسائل سے اور آرٹ میں گم ہو کے سب کچھ بھولنا چاہتے ہیں.....شاید


Shahid Hussain: 


نثار بھائی،

اپ کی بات کا جواب یہ ہے کہ 

یادوں میں گم دکھی تو میں ہمیشہ رہتا ہوں ۔ ۔ ۔ 


اب وہاں سے مجھے توانائی ملتی ہے یا نہیں اس کا فیصلہ تو شاید آپ دوست ہی بہتر کر سکتے ہیں ۔ ۔ ۔ 

میں تو یہی کہہ سکتا ہوں کہ انہی دکھوں کی وجہ سے تو میں آرٹ پر اتنا لکھتا ہوں بولتا ہوں جو اب پتہ نہیں کم ہے یا زیادہ لیکن میں یادوں سے بھاگنا نہیں چاہتا ۔ ۔ ۔ 


میرے ابا اپنے کام میں اپنے دور میں سمجھیے جوالا مکھی تھے ۔ ۔ 

روشن چراغ تھے ،

ہیرا تھے ۔ ۔ ۔


اپنے دور میں انہوں نے اپنے ارد گرد کے لوگوں سے  بے حد عزت پائی  لیکن وہ جس اصل مقام کے حقدار تھے انہیں وہ نہیں ملا ،

کہیں کامیابی اور شہرت سے وہ بچ بچا کر نکلتے اور کہیں یہ دونوں ان سے اس طرح سے ان کے ساتھ ہمیشہ یہ آنکھ مچولی کا سلسلہ جاری رہا ،

جبکہ یہ دونوں چیزیں کسی فنکار کی کوئی غیر ضروری ضرورت نہیں ہوتی بلکہ لازمی ضرورت ہوتی ہیں ۔


وہ اکثر ایک تمثیلی قصہ بیان کرتے تھے 

جس میں ایک کمہار کو قیمتی پتھر زمین پر پڑا ملتا ہے تو وہ اسے اپنے گدھے کے گلے میں ٹانگ دیتا ہے ،

پاس سے گزرنے والا ایک جوہری اس پتھر کو پہچان کر کمہار سے وہ پتھر خریدنے کے لیے قیمت پوچھتا ہے تو تم کمہار بہت معمولی قیمت بتاتا ہے شاید چند سکے 

جوہری فورا ادا کر کے وہ پتھر خرید لیتا ہے ،

چند قدم چل کے اپنی ہتھیلی میں اس پتھر کو بغور دیکھنا چاہتا ہے تو 

وہ ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے ،

کچھ طنزیہ ہنسی کے ساتھ جوہری پتھر کو مخاطب کر کے کہتا ہے ،

واہ گدھے کے گلے میں تھے تو خوش تھے میرے ہاتھ میں ائے تو ریت ہو گئے ؟


اس پتھر میں سے آواز آتی ہے کہ تم تو جوہری تھے تمہیں تو میرا ٹھیک مول لگانا چاہیے تھا  ۔


تو افسوس کی بات یہ ہے کہ انہیں اس دور میں عام لوگوں سے تو عزت ملی لیکن جو لوگ ان کا کام کرنے والے تھے سمجھنے والے تھے انہوں نے انہیں نہیں پہچانا،

انہوں نے جان بوجھ کر ان کا نام مٹانے کی کوشش کی انہیں پیچھے کرنے کی کوشش کی جبکہ وہ صرف اپنا کام کرنا جانتے تھے 

پیچھے دھکیلنے والوں کی تو مرضی جانتے ہی وہ خود پیچھے چلے جاتے تھے ۔ 

ان کی اسی ان کے حلقہ احباب کی طرف سے دی گئی یا ان کی خود سے چنی ہوئی ناکامی نے مجھے یہ توانائی دی کہ کسی فنکار کے کام کو دنیاوی کامیابیوں کی فیتے سے نہیں ناپنا چاہیے 

اگر ہم کام جانتے ہیں تو پھر ہمیں اپنی اس نالج سے 

چاہے وہ فنکار شہرت یافتہ ہے یا گمنام ۔ ۔  کسی بڑے اونچے مقام پر ہے یا گہری تاریک جگہ ،

ہمیں ضرور اس کا کام پہچان کر اسے عزت دینی چاہیے ۔


اب میں اپنے اس مقصد میں کتنی توانائی رکھتا ہوں یہ تو آپ دوست بہتر جانتے ہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ دوسرے بہت سے لوگ بھی اس بات کو جان سکیں اور اس روش کو اپنا سکیں اس مقصد میں کامیابی تو مجھے بھی شاید نہیں مل سکی ۔


شاہد حسین


 Atif Aleem:

 جی شاہد بھائی بہت فکر انگیز تحریر ہے۔ گزارش یہ ہے کہ میں بھی اسی نہج پر یہ سوچ رہا تھا کہ کتنی جلدی ہماری بہت سی تاریخی چیزیں قصہ پارینہ بن گئی اور ان کا کوئی pictorial record تک موجود نہیں۔نہ ہی کوئی ارکائف ہے۔ دنیا کے ممالک میں خصوصا برطانیہ میں اور امریکہ میں اس طرح  کے لینڈ مارک اور مونومنٹ محفوظ کیے جاتے ہیں۔ کم از کم کہیں نہ کہیں سے آپ کو اس کی پرانی تصویریں مل جاتی ہیں۔ ہماری پاکستانی فلموں کے پرنٹ اتنے دھندلے ہیں کیئر ڈیجیٹل میں پریزرو ہونے کے باوجود بالکل ہی خراب کوالٹی ہے۔ جبکہ دنیا بھر کی پرانی فلموں کو کیا خوبصورت طریقے سے ریسٹور کیا گیا ہے اور اب وہ کلیکشن کا حصہ بن گئی ہیں ۔میں یہی سوچتا ہوں کہ جب انسپریشن کا کوئی ذریعہ ہی نہیں تو اپ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ کوئی بہتر کام وجود میں ائے۔ قومی سطح پر ہم اتنے بے حس ہیں کہ اب نہ کوئی کتاب پڑھتے ہیں نہ تاریخ سے کوئی سبق اخذ کرتے ہیں۔ اگر کوئی معلومات ہے بھی تو وہ کہیں ریپیٹیشن سے سینہ بہ سینہ منتقل ہو گئی ہے۔  آرٹ ایک تسلسل کا نام ہے۔اب اگر ایک زنجیر میں سے کڑیاں ہی غائب ہو جائیں تو اپ اس زنجیر کو مکمل کیسے کہیں گے۔


Shahid Hussain:

 جی عاطف بہت شکریہ ،

یار تمہاری اس بات سے مجھے 

"André Malraux" 


 آندرے مالرو کا یہ جملہ یاد آگیا ،

"Art is a revolt against fate"

 جو ایک فرانسیسی مصنف اور فلاسفر تھا۔ انگریزی سے ترجمہ کیا جائے تو ، مالرو نے ایک بار کہا تھا کہ،

 "آرٹ انسانی بدقسمتی کے خلاف بغاوت ہے "


آندرے مالرو کے مطابق، آرٹ کا مقصد انسانی زندگی کی بے بسی اور تقدیر کے خلاف مزاحمت کرنا ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ آرٹ انسانی وجود کی گہرائیوں کو ظاہر کرتا ہے اور زندگی کے مشکل پہلوؤں کا سامنا کرنے کی ہمت دیتا ہے۔

Malraux 

کے خیالات آرٹ کی دنیا میں بہت اثر انگیز رہے ہیں، اور ان کا نظریہ آج بھی فنکاروں اور آرٹ کے حلقے سے تعلق رکھنے والوں کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ 


مگر میں سمجھتا ہوں کہ اسے ہمارے خطے میں اس کے ٹھیک سیاق و سباق سے نہیں سمجھا گیا ،

لیکن جو میں نے قیمتی پتھر، گدھے اور جوہری کا تمصیلی قصہ بیان کیا ہے دیکھا جائے تو وہ قصہ اسی بات کی وضاحت دیتا ہے کہ ،

اگر اپ آرٹ کو سمجھتے ہیں تو پھر اس ظاہری یا چھپے ہوئے نظام کے تحت جن لوگوں کی خصوصیات اپ کو نظر نہیں آتیں یا اپ کے اندر سے کوئی منفی تحریک انہیں نظر انداز کرنے پر مجبور کرتی ہے ،


اس تمام نظام کو شکست دیتے ہوئے 

ان مٹی کیچڑ میں لپٹے جواہر کو تلاش کرنے پہچاننے کی صلاحیت آپ میں ہونی چاہیے ،


اب عاطف بتائیے کہ کیا سچ میں ہمارے یہاں یہ صلاحیت ڈیویلپ ہوئی ؟

Abbas Kamangar:

آپ کی بات درست ہے۔  ہمارے ملک میں آرٹ کو محض سجاوٹ کی کوئی ایسی چیز سمجج لیا گیا ہے جس سے لطف اندوز ہوا جاسکے مگر دیکھا جائے تو اس کے پیچھے ورثے میں ملی وہ سوچ ہے جو  نسل در نسل چلی آ رہی ہے یہ تو سب کو معلوم ہے کہ ہماری آرت کی تاریخ ہمیشہ سے درباری چلی آرہی ہے مغل سے لیکر انگریز تک ان سب کو خوش کرنے کیلئے آرٹ کیا گیا پاکستان میں گل جی اور صادقین بھی درباری آرٹ کرتے رہے اور اب بھی ہر مصور یہ چاہتا ہے کہ کسی طرح میں دربار سے منسلک ہوجائے یا ایسا کام کرے جس سے خریدار خوش ہوکر پینٹنگ خریدے ہمارے ماحول میں  اس سوچ کی جڑیں بہت مظبوط ہیں NCA کے اسٹوڈنٹس اب کوشیش کر رہے ہیں سماجی حالات کو پینٹ کرنے کی مگر وہ ایک خاص حلقے تک محدود ہے۔


Shahid Hussain:

 جی عباس بھائی چلیے این سی اے یا کسی اور بڑے ادارے کی تو پھر بھی اپنے طالب علموں پر ایک بڑی مضبوط چھاپ اور بیک ہوتی ہے ،

لیکن ان کرییٹو کام کرنے والوں کا کیا جو ایسے اداروں کی چھتر چھایا اور مضبوط گراؤنڈ نہیں رکھتے ، 

وہ تو بیچارے بالکل ہی تاریک راہوں میں مارے جاتے ہیں ۔


یہاں احمد فراز کی غزل کے ابتدائی اور آخری اشعار پیش کروں گا ،


"صحرا تو بوند کو بھی ترستا دکھائی دے

بادل سمندروں پہ برستا دکھائی دے

جنسِ ہنر کا کون خریدار ہے فراز

ہیرا، کہ پتھروں سے بھی سستا دکھائی دے"

 اسی بات کی مزید وضاحت میں یہاں 

جون ایلیا کا بھی شعر پیش کیا جا سکتا ہے جس میں ایک فنکار دل جلا 

اپنے فن کی داد پانے کے لیے کچھ اس طرح سے گویا ہوتا ہے ۔

بولتے کیوں نہیں مرے حق میں 

آبلے  پڑ   گئے ہیں  زبان میں کیا؟

 تو بتائیے دوست کیا کیا جائے !


شاہد حسین 

23 اگست 25