Friday, September 12, 2025

فن آور طاقت


 Shahid Hussain:

12 Sep 25.


 دوست اب یقیناً جانتے ہیں کہ ہمارا مقصد ہی بشمول پاکستان کے تمام مشہور لیجنڈ ، عہد حاضر کے مصوروں  اور ان فنکاروں پر بھی بات کرنا، جو کہیں گزرتے وقت کی دھول میں گمنام ہوتے گئے یا انہیں ان کے وقت میں بھی  فنی قد و قامت کے اعتبار سے  جانا نہیں گیا ،

لیکن اکثر دیکھا گیا کہ جب ہم کسی بھی غیر معروف شہرت سے محروم رہ جانے والے فنکار پر بات کرتے ہیں تو کچھ دوست یہ بھی رائے دیتے ہیں کہ دیکھیے اگر اس فنکار میں دم خم ہوتا تو وہ یقیناً خود کو منوا لیتا ۔


کیا یہ رائے ٹھیک ہے ؟

کیا کسی باشعور سماج کا کسی فنکار کی کامیابی کو جانچنے کا یہ طریقہ کار درست ہے ؟


یہ تو طاقت اور فن  کو ناپنے کا ایک طرح سے پسماندہ سماجوں کا گوریلا رویہ ہے ۔


انسانی ارتقاء کی کہانی دراصل طاقت سے شعور تک کا سفر ہے۔

 ابتدائی حیوانی دنیا میں، خصوصاً گوریلوں جیسے جانداروں میں، کسی کی اہمیت کا معیار صرف ایک تھا، "طاقت" یعنی جو لڑائی کے میدان میں غالب آ جائے، وہی لیڈر، وہی قابلِ قبول۔

 اس ماحول میں فن، احساس یا فہم کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔


انسان جب شعور اور تہذیب کی طرف بڑھا تو اس کے پیمانے بدلنے لگے۔ فن، علم، فکر اور اخلاقیات کو بھی مقام ملا، یوں شاعر کو اس کے لفظوں سے، مصور کو اس کے رنگوں سے اور ادیب کو اس کی فکر سے پہچانا جانے لگا۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ دنیا کے کئی پسماندہ سماج آج بھی اسی گوریلا رویے کے اسیر ہیں۔


ایسے معاشروں میں کسی فنکار یا دانشور کی اصل شناخت کو اس وقت تک تسلیم نہیں کیا جاتا جب تک وہ زندگی کے کسی مادی میدان میں "فتح" حاصل نہ کرے۔ گویا شاعر کی عظمت اس کی شاعری میں نہیں بلکہ اس کی ایسی عملی کامیابی میں ہے، جہاں اس کی مشاعروں میں کامیابی یا شعری مجموعوں کی عوامی پذیرائی ہے ۔

 مصور کی قدر اس کے فن پارے میں نہیں بلکہ اس کی پینٹنگ کی قیمت ، شہرت یا کوئی مقابلہ جیتنے میں ہے۔

اس طرح سے تو علم اور تخلیق وہاں ثانوی ہو جاتے ہیں، اور کامیابی کی پرانی تعریف، یعنی کسی میدان میں دوسروں کو شکست دینا  ہی سب کچھ ٹھہرتی ہے۔


یہ رویہ اس بات کی علامت ہے کہ ایسے معاشرے ابھی تک ذہنی ارتقاء کے اس مرحلے سے آگے نہیں بڑھ پائے جہاں فن اور فکر کو اپنی اصل بنیاد پر سراہا جاتا ہے۔

جبکہ ترقی یافتہ سماج اس فرق کو سمجھتے ہیں کہ فنکار کا اصل مقام اس کی تخلیق ہے، نہ کہ اس کی دنیاوی جیت۔ 

وہ اپنے اندر فہم و فراست کی ایسی انکھ رکھتے ہیں جس میں وہ شہرت وہ کامیابی کو ثانوی حیثیت دیتے ہیں اور کسی فنکار کے فن کی اصل اساس کو پہچانتے ہیں ۔


جب تک پسماندہ معاشرے اس حقیقت کو قبول نہیں کرتے، وہ "انسانی شعور" کے بجائے "گوریلا شعور" میں ہی قید رہیں گے۔


شاہد حسین 

12 ستمبر 25

Tuesday, September 9, 2025

Omens of Doom


 Do floods threaten food security in Pakistan - BBC URDU

BBC News اردو

Sep 6

2025

flood

foodsecurity

punjab۔

پاکستان میں پچھلے دو ماہ سے جاری بارشوں، کلاؤڈ برسٹس اور سیلابی ریلوں کا سلسلہ گاؤں، گھر، کھیت، مویشی بہت کچھ بہا کر لے جا چکا ہے۔ اِس سال اب تک پنجاب اور خیبر پختون خوا سب سے زیادہ متاثر ہونے والے صوبے ہیں اور سندھ میں ایک سوپر فلڈ، یعنی بہت بڑے سیلاب کے بارے میں خبردار کیا جا رہا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اِس طرح کے وسیع اور تباہ کن سیلاب جو کہ اب ایک معمول کی بات بنتے جا رہے ہیں کیا ان سے پاکستان میں فوڈ سکیورٹی کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے ؟

کیا پاکستان نے کوئی لانگ ٹرم فلڈ ریزیلیئنس سٹریٹجی یا سیلاب کے نقصان سے بچنے کی کوئی سٹریٹیجی بنائی ہے؟

 اس ہفتے کے سیربین میں ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی ہے۔

میزبان: عالیہ نازکی

پروڈیوسر: عارف شمیم

ویژول پروڈیوسر: سید علی کاظمی

رپورٹر: ترہب اصغر

کیمرہ پرسن: وقاص انور۔


یہ بی بی سی اردو نیوز سیربین کی پاکستان کے تباہ کن سیلاب کے بارے ایک رپورٹ ہے ۔

جبکہ گزشتہ مدت سے اب پاکستان میں ایسی آفتیں معمول بنتی جا رہی ہیں ۔

یہ تو سچ ہے 

ماحولیاتی بدلاؤ کی وجہ سے یہ دنیا تباہ ہونے والی ہے ۔


اب یہ اعلان یا صدا کسی مذہبی شخصیت کی طرف سے نہیں ہے جسے انسان کو اپنی اخلاقیات درست کرنے کے لیے خدا کی طرف سے نصیحت کے احکامات و ڈرانے کے لئے قیامت کی خبر دینے والا یا اسے انسانی تصوراتی خدشات سمجھ کر نظر انداز کر دیا جائے ،

بلکہ اب یہ اعداد و شمار پر مبنی سائنس کہہ رہی ہے ، جس سے ایسے شواہد مل رہے ہیں کہ اب بڑے بڑے انکاری بھی انکار نہیں کر سکتے ۔


لیکن اب ہمارے سوچنے والوں کی سامنے بہت سے سوالات ہیں ۔


جن تباہیوں کی ابتدا ہو چکی ہے کیا ان کا ریشو دنیا بھر میں یکساں ہے ؟


یہ تباہیاں وہاں زیادہ نقصان کر رہی ہیں جنہوں نے جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کو اپنایا ، یا وہاں جہاں ایسا نہیں کیا گیا ؟


کیا انسان کا نیچر سے جڑنے کا سادہ طرز زندگی بہتر تھا 

اور جو قومیں اس پر عمل پیرا تھیں کیا وہ سروائیو کر سکیں اور آگے سروائیو کر سکیں گیں ؟

یا وہ سروائیو کریں گیں جنہوں نے نیچر کو پہلے تباہ کیا جس سے ماحولیاتی بدلاؤ اور تباہی شروع ہوئی اور پھر انہوں نے خود کو محفوظ بنا لیا ؟


اب دنیا کے وہ خطے جنہوں نے ماحولیاتی تباہی میں زیادہ کردار تو ادا نہیں کیا لیکن تباہی کا نقصان سب سے زیادہ بھگت رہے ہیں وہاں کا سوچ بچار کرنے والا طبقہ کیا کرے ؟


اگر وہ فنکار اور خاص طور پہ مصور طبقہ ہے تو کیا کردار ادا کرے ؟


کہیں وہ دوست درست تو نہیں ہیں جو یہ کہہ رہے ہیں کہ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہوئے لوگوں کا آرٹ سے اب کیا لینا دینا؟ 


دنیا بھر میں ماحولیاتی آگاہی دینے کے لیے جو آرٹ کے خلاف ری ایکشن دیا جاتا ہے کہیں وہ درست تو نہیں ؟ 


اگر آرٹ آگاہی دینے کا ہی باعث ہے تو جہاں جہاں اب تباہیاں آ چکی ہیں ان بدحال بے گھر ، بھوکے اور بے شمار مسائل سے دوچار لوگوں کو آرٹ کے ذریعے آگاہی دینے کا کیا فائدہ ؟


اور سوچ بچار کرنے والے ہم فنکاروں کا آرٹ کے بحث مباحثوں میں الجھنے کا اب کیا فائدہ ؟ 


 تو کیا ٹک ٹاک پر فنی ویڈیوز دیکھی جائیں ؟

سابقہ اور موجودہ حکومتوں کو الزام دینے کے مباحثے سنے جائیں ؟


فلمیں دیکھی جائیں ؟

اپنا پسندیدہ میوزک سنا جائے ؟

مطالعہ کیا جائے یا گئے دنوں کی خوبصورتیوں کو یاد کیا جائے ؟

کیا جائے ؟

امید ہے دوست کسی ایک سوال کا تو جواب ضرور دیں گے ۔


شاہد حسین 

9 ستمبر 25

Thursday, September 4, 2025

KALI YUG 1963


 1955 سے 1975 تک میرے والد ناظر حسین صاحب نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں بطور اسکلپٹر ، اورنامنٹ موڈلر اور سیٹ ڈیزائنر کے ایک مصروف وقت گزارا پھر 1985 تک یہ سلسلہ رفتہ رفتہ بالکل معدوم ہو گیا ۔

اس کی بہت سی وجوہات ہیں جو  پاکستانی فلم انڈسٹری سے متعلقین یا فلموں کا شوق رکھنے والے جانتے ہیں ۔


آج ہمیں اس دور کی بہت سی پاکستانی فلموں کا کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی شکل میں ریکارڈ مل ہی جاتا ہے لیکن عجیب اتفاق ہوا کہ 

جن فلموں کے لیے میرے والد نے بہت خاص کام کیے خاص طور پر وہی فلمیں کسی بھی محفوظ یا واضح شکل میں عدم دستیاب ہو گئیں ۔


جیسے کہ 1976 میں نیفڈیک نے ایک فلم بنائی ،


Human Happiness.

 بدھا کے موضوع پر جس کے ڈائریکٹر تھے اے جے کاردار لیکن وہ فلم مکمل ہونے کے باوجود انگلینڈ میں جب لیبارٹری پروسیسنگ کے لیے گئی تو پھر کبھی پاکستان واپس نہ آئی ، جس میں میرے والد نے بدھا کے مجسمے کے کئی مختلف سائزز کے ورژن بنائے تھے لیکن خاص طور پر ایک 14 فٹ ہائٹ کا مجسمہ تھا جسے کراچی کے قریب ہالے جی جھیل کے کنارے نصب کر کے ارد گرد بانسوں سے ایک ٹیمپل تعمیر کر کے شوٹنگ کی گئی تھی ۔


اسی طرح سے دیگر کئی فلموں میں جو اس دور میں بڑے بڑے مجسمے اور سیٹس لگائے گئے ان کا کوئی بہتر حالت میں ریکارڈ دریافت اور تلاش کرنا ناممکن ہو گیا ۔


1962 میں ایک اٹالین کمپنی کالی دیوی کے مندر میں ایک تہوار دسہرے کو موضوع بناتے ہوئے ہندوستان میں ایک فلم مکمل کرنا چاہتی تھی جس کے اختتام پر انہوں نے کالی دیوی کے مندر کو تباہ ہوتے دکھانا تھا مگر بہت سی وجوہات کی بنا پر ہندوستان نے انہیں اس فلم کی وہاں پروڈکشن کی اجازت نہ دی ،

چونکہ انہیں اس فلم کے لیے ایسے بہت سے معاون اداکاروں کی ضرورت تھی جو اپنے چہرے مہرے سے ہندوستانی لگتے

لہذا انہوں نے اسے پاکستان میں مکمل کرنے کا فیصلہ کیا ،


یوں 1962 میں اس فلم کا کام لاہور کے سٹوڈیوز میں شروع ہوا ،

انہیں یہاں پر اس فلم کے سیٹس کے لیے اورنامنٹ اور مجسمے بنانے کے لیے 

ایک آرٹسٹ کی ضرورت تھی اور یہ دور میرے والد کا فلم انڈسٹری میں بہترین کام کرنے والے کے حوالے سے 

عزت اور شہرت کا دور تھا سو اس کا کام انہیں سونپ دیا گیا ۔

میری تو پیدائش ہی 1962 دسمبر کی ہے لیکن اس دور کی بے شمار خوبصورت یادیں تھیں جو میرے والد مجھ سے اکثر ذکر کرتے تھے ،


کہ کس طرح سے وہ بہت سے کام اپنی اس مینول ٹیکنیکس سے کرتے تھے جنہیں اٹالین سیٹ ڈیزائنر جو کہ ساتھ آئے ہوئے تھے وہ بھی دیکھ کر حیران ہوتے تھے ،

اور ان میں سے اکثر لوگ ابا کے اسٹوڈیو میں ان کے ساتھ بہت وقت گزارتے ،

وہ ان کے ساتھ یہاں کے مقامی کھانے کھاتے اور اس میں شامل مرچوں کی تعریف اپنے انداز میں کرتے ، 

پھر اسی طرح اس فلم کے کچھ دیواری مجسمے براہ راست اسٹوڈیو کے فلورز پر بنائے گئے ،

(فلورز ان بڑے بڑے ہالز کو کہتے ہیں جہاں سیٹس لگائے جاتے ہیں)

تو جب وہاں کئی راتوں کو جاگ جاگ کر ان پر کام ہو رہا ہوتا تو ابو  بتاتے تھے کہ وہاں جو چند معاون ساتھ موجود ہوتے ان کے لیے اچھا خاصا خوف کا ماحول بن جاتا تھا ۔ 


جب اس فلم کا کام مکمل ہو گیا اور اٹالین پروڈکشن ٹیم پاکستان سے واپس جا رہی تھی تو وہ میرے والد کو اٹلی ساتھ لے جانا چاہتے تھے ،


لیکن اب اس بات کو کیسے بیان کیا جائے کہ میرے والد عجیب من موجی درویش اور ایسے عجیب مزاج شخص تھے کہ ،

اس کی آج کے وقت میں تعارف و وضاحت دینا انتہائی مشکل کام ہے بہرحال وہ اپنی فیملی کے ساتھ گہری اور دیگر جذباتی وابستگیوں کی بنیاد پر نہیں گئے ۔

اور ان کے لیے یہ وقت اور اٹلی جانے کی پیشکش میں تب زیادہ خوبصورت یاد کا عنصر پیدا ہوا جب انہیں بہت بعد میں کچھ گمنامی اور نظر اندازی کے وقت کا سامنا کرنا پڑا،


لیکن تب تک اس دور کی خوبصورت یادوں کا بھی  کوئی تصویری یا ڈاکومنٹڈ پروف ڈھونڈنا مشکل ہو چکا تھا ،

یہ فلم اور اس فلم کا نام میرے والد کی یادداشت سے ہی نہیں بلکہ پاکستانی فلم سے منسلک بہت سے لوگوں کی یادوں سے بالکل بھلا دیا گیا تھا اور پاکستانی فلم ڈیٹا بیس تو کیا خود اٹالین ڈیٹا بیس سے اسے ڈھونڈنا مشکل ہو چکا تھا ۔


31 دسمبر 2008 میں میرے والد کا انتقال ہو گیا ۔

میں ان کی زندگی میں بھی ان کے کام کو ان کی بیان کی گئی یادوں کو کچھ نہ کچھ سنبھالنے کا اہتمام تو کرتا تھا مگر ان کے بعد تو جیسے میرے لیے یہ کسی مقدس فریضے کی طرح سے ہو گیا ۔

لیکن مسئلہ تھا کہ وقت قسمت اور کچھ خود انہوں نے بھی اپنے کام اور خود سے جڑی چیزوں کو اس طرح سے چھپایا تھا کہ انہیں ڈھونڈنا کسی ناممکن کام کی طرح سے مشکل تھا ۔

لیکن یہ بھی سچ ہے کہ یہ مشکل کے باوجود مجھے عجیب کسی طلسماتی دنیا کے کھیل کی طرح سے دریافت ہوتے تھے ۔


 میرے والد نے اپنی زندگی میں جو یادگاری کام کیے تھے ان میں سے ایک 1967 میں راولپنڈی کمیٹی چوک میں لاہور ایورنیو سٹوڈیو کے مالک اغا جی اے گل صاحب کا بننے والا ایک سینما شبستان بھی تھا جس کے دیواری مجسموں کا کام کیا گیا ، جسے ہم اکثر جب بھی راولپنڈی جاتے تو فلم دیکھنے کے بہانے دیکھنے جاتے تھے ۔


31 دسمبر 2008 میں میرے والد کے انتقال کے بعد ،

2013 میں میں شبستان سینما کی ہسٹری انٹرنیٹ پر ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اچانک ایک اشتہار پر نظر پڑی کہ سینما بک رہا ہے ،

میں نے اس کے اس دور کے موجودہ مالک آغا جی گل صاحب کے بیٹے اعجاز گل صاحب سے رابطہ کیا اور ان سے اپنے والد کا تعارف کروانے کے بعد ملاقات کا وقت مانگا جو اس وقت اسلام اباد جیو ٹی وی کے لیے 

کسی عہدے دار کے طور پر کام کر رہے تھے ۔

میں نے اس ملاقات میں اعجاز گل صاحب کو انتہائی نفیس مہذب اور ہمدرد شخص پایا جب میں نے ان سے یہ گزارش کی کہ آپ کا سینما تو بک رہا ہے جس پر لازمی کوئی شاپنگ پلازہ بنے گا تو میرے والد کا یہ کام تو شاید ضائع چلا جائے تو کیا آپ مجھے یہ اتارنے کی اجازت دے سکتے ہیں ؟


یقین جانیے انہوں نے اس قدر خوبصورت الفاظ کہے کہ آج بھی وہ میرے دل پر نقش ہیں ۔


انہوں نے کہا شاہد صاحب آپ کے والد ناظر حسین صاحب ایک عظیم فنکار تھے ان کا یہ کام ہمارے سینما کا تاج رہا ہے ، اور میرے لیے یہ بڑی خوشی کی بات ہوگی کہ آج اس تاج کو میں اس کے صحیح حقدار کے حوالے کر دوں ۔


سچ میں اعجاز گل صاحب ایک بڑے باپ کے بڑے بیٹے ہیں ، 

میں آپ کو باقی کی تفصیل بتا نہیں سکتا کہ اس سلسلے میں کام کو اتارنے کے لیے سینما کی انتظامیہ نے مجھ سے کس قدر تعاون کیا ، جب رات 12 بجے آخری شو ختم ہو جاتا تو ہم جلدی جلدی وہاں بانسوں سے پرانچ لگاتے اور وہاں سے کام کو اتارنا شروع کرتے ۔


غالباً جولائی 2014 میں ہم نے یہ کام مکمل کیا ۔


اسی دوران میں نے اعجاز گل صاحب سے اس اٹالین فلم ،

KALI YUG.

The mystery of the Indian temple. 1963.

کے بارے بھی دریافت کیا جبکہ تب تک مجھے اس فلم کا ٹھیک نام بھی نہیں مل سکا تھا ،کہ کیا ایورنیو سٹوڈیو کے پاس اس کا کوئی ریکارڈ دستیاب ہوگا ؟


تو اعجاز گل صاحب نے کہا کہ شاہد صاحب ہم خود بھی اس فلم کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور میں نے اس سلسلے میں کئی بار اٹالین ایمبیسی سے رابطہ بھی کیا ہے لیکن فی الحال اس کے بارے کوئی ڈیٹا نہیں مل پا رہا ۔


لیکن میں نے اس فلم کو ڈھونڈنے کی کوشش کو ترک نہیں کیا اور میری اس سلسلے میں کھوج جاری رہی ،


اور پھر اب سے کوئی ڈیڑھ ماہ پہلے بالآخر مجھے اس فلم کا ریکارڈ یوٹیوب پر دستیاب ہو گیا،

جب میں نے اسے دریافت کیا تو یہ کوئی دو ماہ پہلے فلم اپلوڈ کی گئی تھی ۔

اور پھر میں اسے دیکھ کر حیران ہو گیا کہ اس میں جو کالی دیوی کا اور دیگر مجسمے بنائے گئے تھے جو سیٹس لگائے گئے  اور اس میں اورنامنٹس تھیں وہ بالکل ویسے ہی تھیں جیسی میرے والد اپنی یادوں کو کسی کہانی کی طرح بیان کرتے اور کچھ اسکیچز کرتے ہوئے بتایا کرتے تھے ۔


یہ بھی شکر ہے کہ یہ فلم بہت اچھے رزلٹ میں ہے لہذا 

اس میں ان کے کام کی بہت سی کوالٹیز کو بخوبی دیکھا جا سکتا ہے ۔


اس فلم کے حوالے سے میں ان یاداشتوں کو اپنے والد اور اپنے استاد ناظر حسین سے منسوب کرتے ہوئے استاد ڈے پر انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں ۔


شاہد حسین 

15 جون 25

Monday, September 1, 2025

Ghalib Baqar's Work


 غالب باقر صاحب کے کام کو محفوظ کرنے کے حوالے سے آپ سب دوستوں کے رنجیدگی و سنجیدگی کے ساتھ 

رائے دینے کا سلسلہ قابل ستائش ہے ۔


دیکھیے دوستو فنکار کی زندگی مشرق و مغرب دونوں میں ریشو کے فرق کے ساتھ 

دکھ والم ، ذاتی بے ترتیبی سے لے کر سماجی ناہمواری کا کہیں نہ کہیں شکار تو ہوتی ہے ۔

میں نے اپنی زندگی میں جمیل نقش صاحب جیسے فنکار بہت کم دیکھے جو زندگی کے معاملات سے لے کر ، گھریلو آرائش و زیبائش میں چائے کا کپ کہاں رکھنا ہے اور پینٹنگ کے سبجیکٹ میں کوئی ابجیکٹ کہاں رکھنا ہے وہ اسے نہ صرف جانتے ہیں بلکہ امپلیمنٹ کرنا بھی جانتے ہیں ۔


جبکہ زیادہ تر فنکار 

خود اپنی ذات زندگی اور کام کو ترتیب دینے میں اکثر ناکام ہو جاتے ہیں اور یہ ذمہ داری سماج یا متعلقہ شعبوں و اداروں پر آتی ہے ۔


میں نے جو مشرق و مغرب کا تھوڑا سا مشاہدہ کیا تو اس فرق کو میں اس مثال سے بیان کروں گا کہ ،

گھروں کو شفٹ کرنا انتہائی مشکل ترین کام ہوتا ہے ،

مگر مغرب میں اس کام کے لیے ادارے اور کمپنیز موجود ہوتی ہیں جنہیں بلا کر تمام زمہ داری دے دی جاتی ہے وہ گھر میں چھوڑ جانے والے سامان کو شیٹس سے ڈھانپ کر اور لے جانے والی ضروری اشیاء کو انتہائی مہارت سے نہ صرف پیک کرتے ہیں بلکہ اسے منتقل کر کے اپنا مناسب معاوضہ لے کر آپ کو خدا حافظ کہتے ہیں۔

جبکہ ہمارے خطوں میں مخلص اور ولی درویش قسم کے مزدور دوست ڈھونڈے جاتے ہیں جو دوست سے وفاداری کے اس درجے پر ہوتے ہے کہ آتے ہوئے گھر کا کچرہ بھی پیک کر کے لے آتے ہیں اور معاوضہ بھی نہیں لیتے ۔


یہ صرف ایک مثال ہے ورنہ ہمارے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ غالب باقر صاحب کے کام کو کیسے سمیٹا جائے اور مینج کیا جائے کہ وہ نہ صرف اپنی قدر و قیمت سے جانا جائے بلکہ ایک فنکار کے کام کی حیثیت سے محفوظ بھی کیا جائے ۔

ظاہر ہے کہ اس میں ایک ایسی ذمہ داری کی انوالومنٹ مطلوب ہے جو اس میں وقت بھی صرف کرے گی اور سرمایہ بھی انوالو ہوگا ، جیسے کہ اسے فریمنگ وغیرہ کروانا پھر اس کی نمائش کا اہتمام کرنا اور اس کے بعد پھر مالی معاملات کو دیکھنا ،


ہمارے یہاں اکثر ایسے منصوبے اس لیے ناکام ہو جاتے ہیں کہ ہمیں اس میں ایسے مخلص لوگوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے 

جو ذمہ داری تو پوری ادا کریں لیکن 

پھر اس سے جڑے دیگر ریڑرنز میں منصفانہ حقدار کیسے ٹھہریں ہم یہ معاملہ نہیں دیکھ پاتے ۔


میں سمجھتا ہوں کہ سب سے اہم اس کا کوئی بہتر میکنزم دریافت کرنا ہوتا ہے۔


ہم اس بات پہ نہیں الجھتے کہ یہاں ایک فنکار کا کام بے ترتیب ہے یا نہیں ہے 

برائے مہربانی آپ دوست یہ تجاویز دیجئے کہ اسے اب 

ترتیب کیسے کیا جائے ،

اور اگر یہ منظم ہو کر ایک مناسب سی فریمنگ کے ساتھ کہیں نمائش ہوتا ہے تو ہم میں سے کتنے فنکار دوست اپنی اپنی گنجائش کے مطابق پھر اسے کسی یادگاری تحفے کی طرح سے خریدنے کی ذمہ داری بھی لے سکتے ہیں ۔

یا پھر ایک ایسی معیاری آرٹ گیلری یا ادارہ جو اسے اس کے صحیح قدردانوں کے ہاتھوں تک پہنچانے کی ذمہ داری لے سکے بلکہ اس سے حاصل ہونے والے ہر طرح کے ریٹرنز کو خود کتنا اور فیملی تک کس طرح پہنچانا ہے یہ بھی بہتر طور مینج ہو سکے ۔


شاہد حسین 

26 اگست 25

Potato Chips


 ایک بندہ لندن آگیا لیکن اسے انگریزی نہیں آتی تھی ،

تو اس نے اپنے ایک دوست سے پوچھا کہ اگر میں کچھ کھانے ریسٹورنٹ میں جاؤں تو وہاں مجھے کوئی چیز کس طرح سے منگوانی ہے ؟

دوست نے کہا کہ جب آرڈر کرنا ہو بس ایک لفظ یاد کر لو ،

Potato chips ,


کچھ وقت کے بعد وہ بندہ پھر اپنے دوست کے پاس گیا اور کہا کہ یار میں ایک ہی چیز کھا کھا کر تنگ آگیا ہوں ،

مجھے کچھ تو اور بھی سکھاؤ !


تو دوست نے کہا ٹھیک ہے اب یہ یاد کر لو ،

Corn Soup , 🍲 

اس نے یہ بھی یاد کر لیا اور جب ریسٹورنٹ جا کر آرڈر کیا تو ویٹرس نے اس سے پوچھا ،

What size ?

Large Medium or Small ?

اب وہ بندہ جس نے ابھی یہ جملے سیکھے ہی نہیں تھے گھبرا کر بولا ،

Potato chips 😆


یہ لطیفہ مجھے یوں یاد آیا کہ آج گروپ میں ایک دوست فاروق افتاب نے تنگ آ کر اپنے دل کی بات کہی کہ بھئی میں تھک گیا ہوں ہر طرف ایک ہی نام سن سن کر کیا پاکستان میں ایک ہی آرٹسٹ ہے صادقین صادقین اور صادقین ؟؟؟


اب ہمارا گروپ جو کہ ہر سال صادقین صاحب پر مکالمے کا اہتمام کرتا ہے ،اور اس پر یقین رکھتا ہے کہ واقعی ہی وہ ایک بڑے بلکہ عظیم فنکار تھے ،

لیکن ان کی عوامی شہرت کئی بار ذہن میں یہ سوال تو پیدا کرتی ہے جسے ہم اظہار کرنے کی ہمت نہیں کر پاتے ۔


یہ تو بھلا ہو ایک دوستوں کی بے تکلف محفل کا جس میں ہم کافی حد تک اپنے دل کی باتیں زبان پر لے آتے ہیں ۔


لیکن اب یہاں اہم بات یہ بھی ہے کہ کیا خود کو اس قدر شہرت و دوام دینے میں خود صادقین صاحب قصوروار ہیں ؟


اور کیا وہ زندگی میں دانستہ اس کا اہتمام کرتے رہے ؟


دیکھیے اس موضوع پر تو انہیں بہت سے قریب سے جاننے والے ہی زیادہ بہتر رائے دے سکتے ہیں ، کہ ان کا ایک عام بلکہ شہرت یافتہ تاثر تو ایک درویش صفت فنکار کا ہے ،

لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بہت سے فنکار کسی مجزوب کی حالت میں بھی خود کو آشکار کرنے کی حالت سے بے خبر نہیں ہوتے ،

تو کیا صادقین صاحب بھی ایسے ہی تھے ؟


اس بات کو ہم رہنے دیتے ہیں ہم اس پہلو سے دیکھتے ہیں کہ ایک سماج کسی ایک ہی شخص کو کسی خاص وہ اعلی مقام پر یکتا حالت پر کیسے فائض اور قبول کرتا ہے ؟


تو دراصل ہمارے یہاں عام لوگوں کو دیکھا جائے تو مصوری کی زیادہ گہرائی سے نالج نہیں رہی ہے ،

بہت سے حالات و اسباب مل کر ان کے سامنے کسی آرٹ یا کسی آرٹسٹ کو نمایاں کر دیتے ہیں یا خاص بنا دیتے ہیں تو جیسے وہ اسے بس یاد کر لیتے ہیں ،

اور انہیں اگر آرٹ کی ویرییشن یا دوسرے آرٹسٹوں کے بارے بتانے کی کوشش بھی کی جائے تو وہ اسے نہیں سمجھ پاتے اور جھٹ سے وہی دہرا دیتے ہیں جو انہیں یاد ہو چکا ہوتا ہے ،

وہ چاہے پوٹیٹو چپس ہو یا صادقین ۔


شاہد حسین 

27 اگست 25

Cymatics


 اسے Cymatics کہتے ہیں۔


 سائمیٹکس ان بصری نمونوں کا مطالعہ ہے جو اس وقت ابھرتے ہیں جب کسی سطح پر کوئی ذرات جیسے ریت، ارتعاش یا آواز کی لہروں کا نشانہ بنتے ہیں۔ اور ارتعاش کی وجہ سے ریت کے ذرات خود کو پیچیدہ نمونوں میں ترتیب دیتے ہوئے اکثر جیومیٹرک شکلیں اور ہم آہنگی ظاہر کرتے ہیں۔


 سائیمیٹکس پیٹرنز کو فن کی مختلف شکلوں میں دیکھا اور استعمال کیا گیا ہے، جس میں موسیقی کا تصور بھی شامل ہے، اور مختلف قسم کے کمپن کے تحت ذرات اور مواد کے رویے کو سمجھنے کے لیے سائنسی سیاق و سباق میں بھی اس کا مطالعہ کیا گیا ہے۔

اس متعالعے کا اگر حاصل دیکھا جائے تو اس پوری کائنات کی تخلیق کی اساس موسیقی کو قرار دیا جا سکتا ہے یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس کائنات کی مکمل تخلیق اس قدر ترتیب اور توازن رکھتی ہے جو 

کسی سمفنی و موسیقی سے ہی ڈیفائن کی جا سکتی ہے ۔

اور جیسے یہ کائنات 

کوئی خوبصورت سمفنی ہے جو مادے کی شکل اختیار کر گئی ہے ۔

اس کے پیٹرن تو بہت سی مختلف مختلف شکلوں میں بنتے ہیں مگر میں نے دائرے کا انتخاب اس لیے کیا ہے کہ کائنات کی لامتناہی تخلیق کو دائرے سے ہی تشبیہ دی جاتی ہے ۔


عافی بھائی میں آپ کے میوزک کے مجموعی جونرہ اور نالج کو 

جس آفاقی مقام پر سمجھتا ہوں ،

جس میں فوک اور تصوف ، کے بنیادی اجزاء کلاسیکل موسیقی کی پیچیدہ بندشوں میں ڈھلتے ہیں وہاں میں اگر اس موضوع پر آپ کی کوئی کتاب دیکھتا ہوں تو اس کے سرورق کے لیے میرے ذہن میں جو ڈیزائن آتا ہے وہ کچھ اسی قسم کا آتا ہے ،

جبکہ آپ جو سرورق سوچتے ہیں وہ اسے شاعری کے حوالے سے سوچتے ہیں ،

اس میں کوئی شک نہیں کہ شاعری بھی اپنے اندر تخیل کی ایک وسیع دنیا رکھتی ہے مگر نہ جانے کیوں میں موسیقی کو اس معاملے میں شاعری سے آگے دیکھتا ہوں 

اسی لیے میں سرورق کے معاملے 

 میں اسے شاعری سے نہیں بلکہ موسیقی کے زاویے سے دیکھنا چاہتا ہوں ۔


اور اسی لیے میں آپ سے اپنا خیال شیئر نہیں کر رہا تھا 

کہ ہو سکتا ہے آپ کو یہ بالکل بھی نہ بھائے ،

لیکن بہرحال آپ کی محبت خلوص بھری دوستی کے سامنے 

میری رائے کا رد ہو جانا کوئی اہمیت نہیں رکھتا ۔


شاہد حسین 

9 اپریل 25

Art and Society


 1 Sep 25.


کیا آرٹ سماج کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے ؟


کائنات کی تخلیق اور اس میں کوئی بھی تحریک کا منبع 

کوئی خیال ہے ؟


یہ ایک قدیم فلسفہ جسے اگر ہم نہ بھی ڈسکس کریں تو معلوم شدہ حیات میں حرکت کسی نہ کسی خیال کی مرہون منت تو ضرور ہے ،

خیال جو کسی غبار کی طرح پیدا ہوتا ہے اور پھر اسے کوئی کمانڈ ایبل شکل دینے میں ایک تصور پیدا ہوتا ہے اور تصور ایک تصویر پیدا کرتا ہے ۔

اور یہ تصویر کسی خالق میں پہلے سے موجود نہ ہوتے ہوئے بھی بالکل نئے طور وجود پا سکتی ہے اور کئی بار ہمیں پہلے سے موجود تصویریں نئی اشکال کا موجب بن سکتی ہیں ۔


بس یہ اسی طرح کا ایک پیچیدہ تال میل ہے ،

اب یہ بات تو ایک سائنس بن چکی ہے کہ بے شمار ساکت یا متحرک تصاویر ہماری ایک ،

Visual Memory

بناتی ہیں اور پھر اسی میموری کی بنیاد پر ہم ایک رائے بناتے ہیں یا تاثر بناتے ، اور یہی رائے اور تاثر ہماری کسی حرکت کو تحریک دیتے ہیں ۔


تو یوں سمجھیے کہ 

اصل میں آرٹ سماج کو کچھ اس طرح سے بدلتا ہے کہ ہم اسے براہ راست مشاہدہ نہیں کر پاتے ،

جیسے کہ 

چاند کی بدلتی تاریخیں سمندر پر اثر انداز ہوتی ہیں، خاص طور پر مدوجزر کے عمل میں۔ چاند کی قوت ثقل یا کشش کا اثر سمندر کی لہروں پر پڑتا ہے، جس کی وجہ سے سمندر میں مدوجزر پیدا ہوتا ہے۔ جب چاند کسی سمندر کے اوپر ہوتا ہے، تو اس کی کشش ثقل کے باعث سمندر کی سطح بلند ہو جاتی ہے اور مد پیدا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، جب چاند اس سمندر سے دور ہوتا ہے، تو سمندر کی سطح نیچی ہو جاتی ہے اور جزر پیدا ہوتا ہے۔


تاہم، ایک اور بھی خیال کہ چاند کی تاریخیں انسانی ذہن پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں لیکن چاند کا پاگلوں یا نفسیاتی بیماریوں پر اثر ایک متنازع موضوع ہے۔

 قدیم یونانی فلسفیوں اور سائنسدانوں کا ماننا تھا کہ چاند کی مختلف حالتوں کا اثر پودوں، جانوروں اور انسانوں پر پڑتا ہے، لیکن جدید سائنس فلحال اس بات کی تصدیق نہیں کرتی۔ بعض تحقیقاتی مطالعات نے چاند کی پوری شکل اور انسان کی نیند کے قدرتی عمل یا حیاتیاتی گھڑی پر اثر کو نوٹ کیا ہے، جس کے نتیجے میں نیند کا دورانیہ کم ہو سکتا ہے اور نفساتی امراض کے دورے، ڈیپریشن، خودکشی اور قتل کے واقعات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ 

لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جو کچھ سائنس ڈیفائن کر رہی ہے کیا انسانی ذہن پر اثر انداز ہونے کے حوالے سے یہ کیا کم ہے ؟


لیکن اسی حوالے سے گفتگو میں اور بھی کئی پہلو ہیں جسے اگر بہت مختصر کیا جائے تو 

اس دنیا میں ماحولیات کو خطرناک سطح پر لے جانے میں سب سے بڑا مسئلہ دولت ہے ،

اور فرض کیجئے کہ آرٹ کے ذریعے سے ماحولیات کی آگاہی دی جا رہی ہے اور پھر آرٹ ہی اگر خود دولت کے حصول کا مسئلہ بن جائے تو اس کا کیا کیا جائے ؟


جی ہاں یہ ایک الگ سنگین مسئلہ ہے جس کی ایک مثال تو میں آج فیس بک پر دیکھ رہا تھا کہ پاکستان کے ایک مشہور آرٹسٹ کا کام ڈالرز کی قیمت میں مگر پاکستانی کروڑوں روپے میں بک رہا تھا ،

اور نیچے بے شمار دوستوں کے کمنٹس تھے کہ وہ کام فیک ہے ،

اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو اگر وہ فیک نہ بھی ہوتا تو میرے جمالیاتی ذوق پر وہ کام کسی طور بھی مجھے کروڑوں روپے میں خریدنے پر راغب نہیں کر سکتا تھا ۔

اب سوچنے کی بات تھی کہ وہ کام نہ ہی اس آرٹسٹ کا سب سے بہترین کام تھا اور زیادہ تر لوگوں کی رائے کے مطابق وہ اوریجنل بھی نہیں تھا تو پھر وہ اتنا مہنگا کیوں ہے ؟


جبکہ بہت سے آرٹسٹوں کا کام بہت معیاری ہونے کے باوجود مہنگا تو کیا مناسب قیمت بھی کیوں نہیں پاتا؟؟


بہرحال سوالات تو بہت سے ہیں ۔ ۔ ۔ 



شاہد حسین 

یکم ستمبر 25

Friday, August 29, 2025

Qasam us Waqt Ki 1968


 Shahid Hussain:

11 May 25.


ہندوستان پاکستان کے درمیان ہونے والی حالیہ جھڑپوں کی یہ جنگ جس مقام پر وقتی طور پر سہی تھمی ہے، وقت کے اس حصے میں فتح پاکستان کو ملی ہے ۔

اور بلا شبہ اس کا زیادہ تر کریڈٹ پاکستان ایئر فورس کے شاہینوں کو جاتا ہے جنہوں نے دشمن کو دندان شکن جواب دیا ہے ۔ 

ہر وقوعہ وقت کے کسی بھی حصے میں گزرے اپنے پیچھے نشانات میں بہت سے اعداد و شمار چھوڑ جاتا ہے ،

جن پر تحقیقات کرنے والے تحقیق کرتے ہیں نتائج بنائے جاتے اور پھر نئی اچیومنٹس کی توقعات کے لیے کام شروع ہو جاتا ہے ۔

اس جنگ میں سب سے زیادہ کریٹیکل کردار ہندوستانی نیوز میڈیا کا دیکھا گیا جو دراصل اب بولی وڈ کی ہی دوسری شکل ہے ۔


 پاکستان کا فنون سے جڑا ہی نہیں بلکہ عام طبقہ بھی بڑی مدت سے چاہتا ہے کہ ہماری فلم بھی کم از کم اتنی طاقتور ضرور ہونی چاہیے جو ہندوستانی فلموں میں پاکستان کے خلاف جھوٹا زہر اگلا جاتا ہے اس کا اسے اس محاذ پر بھی منہ توڑ جواب دیا جائے ۔

لیکن بدقسمتی سے طویل مدت سے فلم ہمارا نظر انداز ترین شعبہ ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید ہماری دسترس سے دور جا رہا ہے ۔

یہ بھی حیرانی کی بات ہے کہ ایک ابتدائی دور میں اس حوالے سے کچھ کام ہو رہا تھا مگر نہ جانے پھر یہ کام کس نظر ہو گیا ۔

بہرحال اسی موضوع اور اسی وقت کے حوالے سے آپ دوستوں سے ایک پرانی تحریر شیئر کر رہا ہوں ، جو پاکستان ایئر فورس پر بنائی گئی شاید پہلی اور آخری فلم تھی

جس کا نام تھا ،

"قسم اس وقت کی"

 

دو ڈھائی دہائیاں پہلے  اس حوالے سے ایک کوشش کی گئی تھی جب ھالی وڈ میں کچھ فلمی سرگرمیاں سرانجام دینے والے پاکستانی محمود سپرا نے ایک فلم ،

"سورج پہ دستک"

بنانی چاہی اور اس میں اس فلم قسم اس وقت کی کے ایک گانے کو بھی استعمال کیا گیا 

مگر یہ فلم مکمل نہ ہو سکی لہذا قسم اس وقت کی ہی اس موضوع پر اکلوتی فلم کہی جا سکتی ہے ۔

   

شاہد حسین 

11 مئی 25 


1967، کے دسمبر میں  میرے والد ناظر حسین صاحب 

اپنے بڑے بھائی سے کاروباری اور گھریلو اختلافات کی وجہ سے اپنے فلم کے عروج کا دور چھوڑ کر کراچی شفٹ ہو گئے ۔

یہ شہر ان کے لئے بالکل اجنبی تھا 

سوائے سلیم چچا جو ان کے شاگرد   سے زیادہ دوست تھے اور اس دوران کراچی میوزیم میں جوب کر رہے تھے اس لئے آرٹسٹوں کے حلقے میں خاصی جان پہچان رکھتے تھے ۔


انہوں نے ابو کی مختلف لوگوں سے ملاقاتوں کے سلسلے میں ان کے میو اسکول فیلو آرٹسٹ آفتاب ظفر صاحب سے ملاقات کروائی

تو انہوں نے ابا کو اپنے بالکل نئے قائم کئیے ہوئے آرٹ اسکول ، پاکستان آرٹ انسٹیٹیوٹ میں اسکلپٹر کلاس لینے کی اس کنڈیشن میں آفر کی کہ وہ وہاں ساتھ کچھ شیئرنگ میں اپنے کمیشنڈ پروجیکٹس بھی کر سکتے ہیں ۔


1968 یہ وہ وقت تھا جب قسم اس وقت کی ، فلم کا کچھ کام کراچی میں بھی ہو رہا تھا جس میں اس فلم کی اسٹلز اور پوسٹرز وغیرہ پر کام ہو رہا تھا جو پین اینڈ آنک میں آفتاب ظفر صاحب بنا رہے تھے ۔

جبکہ اس فلم کے ڈائریکٹر اے جے کاردار صاحب تھے جو ،

1959 میں غالباً پاکستان کی پہلی آرٹ فلم بنا چکے تھے ،

The Day Shall Dawn ,

جاگو ہوا سویرا ،

جسے بین الاقوامی طور پر سراہا گیا اور یہ پاکستان کی پہلی  فارن لینگویج کیٹگری میں بتیسویں آسکر  کے لیے بھیجی گئی فلم تھی ، جو وہاں سلیکٹ تو نہ کی گئی لیکن پہلے ماسکو انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں اس نے سونے کا تمغہ حاصل کیا ۔

تو "قسم اس وقت کی" کے بھی یہی ڈائریکٹراور فیض احمد فیض صاحب نے اس کا سکرین پلے لکھا تھا ،اور یہ پاکستان ایئر فورس پر بنے والی بھی پہلی  لحاظہ یہ ایک اہم فلم تھی ۔

اس کا کچھ کام میرے والد کے حصے میں بھی آیا یہ پلاسٹر آف پیرس میں بننے والے وہ فائٹر جہاز تھے 

جو اس وقت پاکستان  ایئرفورس کے استعمال میں تھے ،

جن کے ماڈلز بھی فراہم کیے گئے تھے ۔ 

میری عمر اس وقت چھ سال تھی اور ان ماڈل مگر کھلونا نما ہوائی جہازوں میں میرا دلچسپی لینا لازم تھا ،جنہیں ہاتھوں میں تھامے اُڑاتے ہوئے ان کی بابت جب میں ابو سے بات کرتا تو وہ مجھے تب میری اس ایج میں بھی بڑی تفصیل سے وجہ بتائی کہ یہ پلاسٹر آف پیرس میں کیوں بن رہے ہیں ۔

اے جے کاردار صاحب ایک پروفیشنل فلم ڈائریکٹر تھے وہ اس فلم کے لیے لائبریری فلمز اسٹاک استعمال نہیں کرنا چاہتے تھے ،

لائبریری اسٹاک سے مطلب انگریزی فلموں کے وہ ٹکڑے ہیں جن میں جنگوں کی تباہی اور دیگر بے شمار مناظر موجود ہوتے تھے جنہیں ہمارے فلم میکر فلم کا بجٹ بچانے کے لئے ان کا استعمال کرلیتے تھے لیکن وہ بہت سے ٹیکنیکل مسائل کی وجہ سے فلم میں الگ سے پہچانے جاتے تھے ۔

اسی لئیے کاردار صاحب انہیں خود پکچرائز کرنا چاہتے تھے ،

چنانچہ پلاسٹر آف پیرس کے جہازوں کو پینٹڈ سکائی پر رکھ کر بلاسٹ کرکے پکچرائز کیا گیا تھا ۔

11 دسمبر 1969 کو یہ فلم ریلیز ہوئی ، ابا ہمیں دکھانے لے کر گئے لیکن وہ جن جہازوں کو میں بڑے شوق سے بنتے ہوئے دیکھتا رہا

انہیں تباہ ہونے کے مناظر نہ دیکھ سکا اور تقریباً  فلم میں نے سو کر گزار دی ۔

بعد میں پتہ چلا کہ یہ فلم بہت سے لوگوں نے اسی طرح دیکھی ،یوں کہ یہ فلم بری طرح سے فلاپ ہوگئی تھی ،

لیکن اس کا ریکارڈ کہیں نہ کہیں ہونا چاہیے تھا ،جو کہ نہیں رکھا گیا اور وہ جو میرے ابا کے کریڈٹ پر ایک اہم فلم کے کریڈٹ ٹائٹلز میں نام ہونا تھا ،

اس فلم کے ساتھ وہ بھی کھو گیا ۔


شاہد حسین

3 جون 22

Sunday, August 24, 2025

Ghalib Baqar


 گزشتہ دنوں غالب باقر بھائی کے انتقال پر ملال کے موقع پر ،

ہمارے واٹس ایپ گروپ کے وہ دوست جو یہاں فیس بک گروپ میں شامل نہیں ہے انہوں نے جن تعزیتی کلمات کا اظہار کیا ان میں سے بھی جو کچھ تفصیلات لیے ہوئے تھے انہیں بھی اکٹھا کر کے یہاں شیئر کیا جا رہا ہے ۔


شاہد حسین۔


 15 Aug 25 

 Cezanne Naqsh: 

Iam so Deeply shocked and saddened by the sudden passing of  Ghalib Baqar. 


Ghalib bhai,  beyond his art, he was a generous mentor and a gentle soul whose presence will be greatly missed


May his journey ahead be filled with the beauty he so lovingly created for this world.


 Shahid Hussain: 

انا للہ وانا الیہ راجعون ،


نثار بھائی ان کا تو بس چند روز پہلے معلوم ہوا تھا کہ کوئی چھوٹا سا ایکسیڈنٹ ہوا ہے ۔


یہ ان کی وفات وجہ سے باعث کیسے بنا؟


بہت افسوس ہوا کس قدر عارضی ہے زندگی ، نہ صرف بہت اچھے فنکار بلکہ بہت سلجھے ہوئے اور آرٹ کی وسیع نالج رکھنے والے استاد فنکار ،

اللہ انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے ۔


 Jamil Ahmad:

 Inna lila hay waina elahay rajaon. Allah pak un kay darjat blund farmay. Ameen very sad.


 Hanif Shahzad: 

Boht he afsosnak news hai yaqeen hi nahe aa raha hai ayesa lgta tha k jld sayhatyab ho jayn gay yae hamaray art screen ka 1 shining star tha Allah merhom ki maghfrt frmaye aur sub family members aur friends ko sabr atta frmaye


 Sadia Atif: 

انا للہ و انا الیہ راجعون۔    

پاکستان کے معروف اور باکمال فنکار غالب باقر صاحب کے انتقال کی خبر سن کر دل بے حد رنجیدہ ہے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی بات ہے کہ انہوں نے اپنے ایک نامکمل کام کے اوپر مجھ سے ڈسکس کیا تھا۔ پانچ سال پہلے میں نے ان کے کام کے اوپر ان کے اصرار پر ایک ویڈیو بنائی تھی اور کچھ عرصہ پہلے انہوں نے ایک اور ویڈیو بنانے کو کہا تھا جس میں انہوں نے ریکویسٹ کی تھی کہ میرا بعد والا کام بھی اس ویڈیو کے اندر شامل کیا جائے۔۔ مگر افسوس وہ کام ان کی زندگی میں ادھورا رہ گیا۔۔

 انہوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور منفرد فن کے ذریعے نہ صرف پاکستان کی ثقافت و فنونِ لطیفہ کو نکھارا بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک روشن مثال قائم کی۔ ان کا ہر کام ایک زندہ شاہکار کی مانند تھا، جو فن کی گہرائی، خوبصورتی اور سچائی کا آئینہ دار ہے۔


غالب باقر صاحب کا فن اور ان کی محنت ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ ان کی کمی کبھی پوری نہیں ہو سکتی، مگر ان کا چھوڑا ہوا تخلیقی ورثہ ہمیشہ دلوں کو روشنی دیتا رہے گا۔

اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند کرے اور لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ آمین۔


 Akbar Ali:

 Hum Sabko Khuda ki Khudai me rehna chahye aur Sab k liye Duaa aur Mohabbat k sath... yaqqenan Sacha Ensaan Roth kr ezhaar he karta hi appno sey.

 Yasmeen Aziz ,

*ڈھونڈوگےاگر ملکوں ملکوں 

ملنےکےنہیں نایاب ہیں ہم*


غالب باقر باکمال مصور ،درویش صفت بہترین انسان میرا بہت پیارا دوست جو مصوری میں میرا ہم جماعت تھا وہ مصوری کی دنیا کا جادو گر تھا جب وہ اپنے برش کو رنگوں میں ڈبو کر کینوس پہ بکھیرتا تو ایسا لگتا جیسے ہم کسی جادوگر کے زیر اثر ایک ایسی تصوراتی دنیا میں پہنچ گئے جہاں ہر طرف رنگ ہی رنگ بکھرے ہوں لیکن وہ تمام رنگ جادوگر کے مکمل قبضے میں ہوں اور اس کے اگے ہاتھ باندھے کھڑے ہوں باقر کی مصوری پہ بات کرنے کے لئے یہاں بہت سے نامور مصور موجود ہیں میں یہاں بات کروں گی کہ وہ انسان کیسا تھا اور دوست کیسا تھا میرا باقر کے ساتھ تعلق ایک فیملی ممبر جیسا بھی تھا باقر کے والد محترم پروفیسر مجتبی حسین اردو کے ایک نامور تنقید نگار تھے آپ بلوچستان یونیورسٹی میں اردو ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ بھی رہے اور کوئٹہ میں وہ میرے بہنوئی کے پڑوسی بھی تھے یوں ہمارے تعلقات نسلوں پہ محیط ہیں باقر ایک بڑے علمی اور ادبی خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود انتہائی سادہ اور صوفیانہ مزاج رکھتے۔۔۔ تھے کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے مجھے بے حد دکھ محسوس ہو رہا ہے لیکن ایک اطمینان یہ بھی ہے کہ باقر اپنے فن پاروں اور اپنی شاندار یادوں کے ذریعے ہمیشہ ہمارے دلوں میں جگمگاتا رہے گا  باقر فطرتا ایک سادہ اور لاابالی طبیعت کا مالک تھا وہ تو اپنی زات سے ہی بے خبر تھا وہ کسی اور کی زات کو کیا کریدتا وہ ایک ایسا درویش تھا جو صرف اپنی مصوری کا دھمال ڈالتا جو رنگوں میں اس طرح کھو گیا تھا کہ خود کو ہی گم کر بیٹھا تھا اس کی زات میں ایک ایسی انکساری تھی کہ وہ اپنے سامنے آنے والے ہر چھوٹے بڑے شخص کو یہ احساس دلا دیتا کہ وہ قدآور ہےباقر ایک ایسا ہیرا تھا جو ناتراشیدہ تھا یعنی بالکل خالص اللہ تعالی غالب باقر کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے آمین

یاسمین عزیز ۔


 Sheji Kazmi: 

 غالب باقر مرحوم ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

۔

ابھی پچھلے سال آرٹس کونسل کی ایک تقریب میں غالب باقر سے تعارف ہوا، تقریب کے بعد، ہال سے باہر ایک کونے میں سگریٹ نوشی کرتے ہوئے غالب میرے پاس آئے اور کرید کرید کر مجھ سے میرے پس منظر کی تفصیلات پوچھنے لگے، مجھ ان کا اور ان سے میرا غائبانہ تعارف تو تھا، میں نے بھی ان کی شہرت سن رکھی تھی اور وہ بھی میرے بارے میں خاصی سن گن رکھتے تھے۔ مگر ان کے 'کریدنے' کی صلاحیت سے میں نے بڑا لطف اٹھایا، وہ مخاطب کے بارے میں سب کچھ جاننا چاہتے تھے، میرے نزدیک یہ ایک بڑی اچھی خوبی ہے! میں نے بھی کوئی تفصیل نہیں چھپائی۔ ان کے چہرے کے تاثرات اور متجسس آنکھیں بہت دلچسپی سے مخاطب پر جمی تھیں۔

پھر اپنے بارے میں بہت کچھ بتایا!

اگلے دن ہی مجھے فیس بُک پر 'دوستی'  کا پیغام موصول ہوا، اور وہ میری اپلوڈز پر اپنے تاثرات کا اظہار کرنے لگے۔ میں ان کے کام کو تو پہلے ہی سراہتا تھا، ان کی متحرک شخصیت سے آشنائی پہلی مرتبہ ہوئی۔

افسوس ان سے پہلی بالمشافہ ملاقات ہی آخری ثابت ہوئی جس کا بے حد افسوس ہے، مگر ان کے بہت جلد دنیا سے رخصت ہونے کا بہت صدمہ ہے! کاش ان سے ایک تسلسل سے ملاقاتیں رہتیں!

پاکستانی فنکاروں کی اس چھوٹی سی دنیا سے ان کے اچانک چلے جانے سے بہت تکلیف پہنچی!

پروردگار ان کی عالم برزخ کی منزلیں آسان کرے، اور انکو اونچا مقام عطا فرمائے! الہٰی آمین!! پروردگار

💔😢🤲💐


شجیع کاظمی 


 Shahid Hussain: 

شجیع کاظمی بھائی میں نے مشاہدہ کیا کہ فارمی مرغیوں کے پنجرے سے جب کوئی مرغی والا ذبح کرنے کے لیے مرغی نکالتا ہے تو دیگر مرغیاں سوائے خوفزدہ ہونے کے کوئی خاص احتجاجی آواز نہیں نکالتیں،

جبکہ گھر کی پالتو مرغیوں میں سے کسی کو اس مقصد سے دڑبے سے نکالیں تو دوسری مرغیاں دیر تک احتجاج کرتی ہیں ،

اب اج ہی بدلتی دنیا میں ہم انسان بالکل فارمی مرغیوں کی طرح ہوتے جا رہے ہیں ہمارے درمیان سے کوئی چلا جائے ہم صرف ایک دن کے لیے دکھی ہوتے ہیں 

دوسرے دن زندگی اپنی لگی بندھی ڈگر پر رواں دواں ہو جاتی ہے ۔


لیکن اس فنکار طبقے کا کیا جو حساسیت اور دیگر انسانی جذبوں کی شدت میں دوسرے لوگوں سے بہت مختلف ہونے کا داعی ہوتا ہے ؟

کیوں کہ وہ انہی خصوصیات کی بنیاد پر تو ایک اچھا تخلیق کار ہوتا ہے تو وہ دوسرے لوگوں کی طرح آج کی دنیا میں روبوٹ کیسے بن سکتا ہے ۔


ہم نے بڑی مدت یہاں دوستوں سے گزارش کی کہ جب ہمارے درمیان سے کوئی فنکار دوست چلا جائے تو اس کے لیے دعائیہ کلمات ضرور کہیے مگر جو دوست اس سے کوئی بھی تعلق واسطہ رکھتے رہے ہیں اور جتنی حد تک اس دوست کی شخصیت سے واقف ہیں کم از کم اپنا وہ احوال تھوڑا سا ضرور بیان کریں ،

ضروری نہیں کہ اس میں وہ کسی بہترین لکھاری کی خصوصیات رکھتے ہوں بلکہ بس محفل میں بیان کیے جانے والی  سچائی ، بے ساختگی اور تھوڑی سی ترتیب کے امتزاج سے کسی کا شخصی خاکہ یا کسی ملاقات کا احوال بیان کر دیجئے بس کافی ہے ۔

مگر دوست مان کر ہی نہیں دیے ،

شجیع کاظمی بھائی اپ کا بہت شکریہ اپ فلم ٹی وی ڈرامہ پروڈکشن اور اسی سے منسلک دیگر شعبوں سے تعلق رکھتے ہوئے ایک انتہائی حساس انسان ہیں،

تو یقیناً آپ ایک اچھے لکھاری ہیں جو بہت اچھی ابزرویشن رکھتا ہے اور اپ نے اس ملاقات کے احوال میں اسے بڑی خوبی سے بیان کیا ہے لیکن پھر بھی یہ ایک ایسا ٹرو اظہار ہے جو کسی فنکار کا دوسرے فنکار کے جانے کے بعد اس کی یاد بیان کرنے اور ہمیں مدد دینے میں ایک بہترین مثال بھی ہے ۔

اللہ غالب باقر بھائی کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے ، آمین یارب العالمین ۔


شاہد حسین 

18 اگست 25

Akbar Khan


 Farhan Awan:

22 Aug 25.


 اکبر خان 17 جون 1961 کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے اور 21 اگست 2023 کو کراچی میں تقریباً رات 9 بجے اس دار فانی سے رخصت ہوگئے ۔ مجھے جہاں تک یاد ہے ان کا اصل نام سید اکبر تھا مگر وہ اپنی والدہ کی نسبت سے اکبر خان لکھتے تھے انہیں اپنی والدہ سے بہت زیادہ لگاؤ اور محبت تھی وہ اپنے والد سے بھی بہت محبت کرتے تھے ۔ اکبر خان ایم۔ اے۔ پاس ایک پڑھے لکھے انسان تھے اور اردو ادب سے خاص لگاؤ رکھتے تھے۔فنون لطیفہ ان کی رگ و پے میں شامل تھا اتنا جنون کہ اپنے کیریئر کا آغاز شادی بیاہ اور دوسری تقریبات میں وڈیو گرافی سے کیا اور اپنی بے پناہ مہارت کی وجہ سے ملک کی بڑی شخصیات کے قریب اور پسندیدہ رہے یہاں نام میں اس لئے نہیں بتا سکتا کہ اکبر پسند نہیں کرتے تھے وہ تو بغیر سہارے کے اپنی ہی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اپنی پہچان بنانا چاہتے تھے اور پھر اللّٰہ نے انہیں کامیابی بھی عطا کی۔ اکبر خان سے میری پہلی ملاقات 1990-91 میں آرٹس کونسل میں ایک تھیٹر ورکشاپ کے دوران ہوئی جو ایسی دوستی میں ڈھل گئی کہ کراچی میں اکبر خان سے زیادہ حقیقی دوستی کا معیار نظر نہیں آیا دوستی کے جن معنوں پر اکبر پورا اترتا تھا اس کے جانے کے بعد دوستی کے سابقہ معنے اردو لغت میں تبدیل کرنے کو جی چاہتا ہے۔ میں نے اکبر کے والد کو بغیر کسی غرض کے ہمسائیوں اور محلے داروں کے کام کرتے اور مدد کرتے دیکھا ہے وہ نہایت ڈاؤن ٹو ارتھ مگر با وقار انسان تھے اس لحاظ سے اکبر اپنے والد کی طرح ہی تھے بلکہ میں نے تو اکبر کو اپنے محلے سے ایک قدم آگے ہر کسی کی بے لوث مدد کرتے ہمدردی کے شدید جزبے کے ساتھ عملی طور پر دیکھا ہے آج بہت سے اکبر کو جاننے والے لوگوں کو میں نے یہ تک کہتے سنا ہے کہ اکبر اس دور کا درویش صوفی تھا اور میں سو فیصد اس سے متفق ہوں وہ واقعی ایک درویش صوفی تھا وہ میری ذات کا حصہ تھا میں اس کے بغیر خود کو ادھورا محسوس کرتا ہوں یہ ادراک اسے بھی تھا، میرا جی چاہتا ہے اکبر ملے تو اسے بے شمار محبت دوں اور ساتھ ساتھ خوب لڑوں کہ سب جانتے ہوئے اس نے اتنی جلدی کیوں کی، کیوں دنیا چھوڑ گیا ،ایزل آرٹ گیلری بنانے اور چلانے میں میرا دست راست تھا اب میں کیسے اس گیلری کو اکیلا چلاؤں ، ہم نے مل کر بہت ساری ایگزیبیشن کی ہیں اب میں اکیلا یہ سب کیسے کروں میرے لئے یہ سب بہت مشکل ہے میرا گیلری میں دل نہیں لگتا مگر یہ اکبر خان کی بنائی گیلری ہے ایزل آرٹ گیلری نام اکبر کا دیا ہوا ہے میں اسے کیسے چھوڑ دوں مگر پھر سوچتا ہوں اکبر تو مجھے کسی صورت نہیں چھوڑتا یہ تو سب اللہ کے کام ہیں وہ معبود ہے مالک ہے اس سے تو نہیں لڑا جا سکتا سوال نہیں کیا جا سکتا یوں میرے سوال ادھورے رہ جاتے ہیں اللہ صبر دے دیتا ہے۔ دوستو آپ سوچتے ہوں گے میں یہ کیا باتیں لے بیٹھا ، ہاں تو میں اکبر کے بارے میں بتا رہا تھا اکبر ایک مکمل اور اعلیٰ صلاحیتوں کا مالک آرٹسٹ تھا وہ ایک اعلیٰ ایکٹر تھا سب جانتے ہیں مگر ایکٹر کے ساتھ ایک بہترین ڈائریکٹر ، رائٹر اور مختلف گیٹ اپ کا ماہر میک اپ آرٹسٹ بھی تھآ ۔ اکبر خان ایک مصور اور مجسمہ ساز بھی تھا مجسمہ سازی میں ملک کے مایہ ناز مجسمہ ساز انجم ایاز اس کے استاد تھے اکبر کی پینٹنگز اور مجسموں کی نمائش بہت سی بڑی گیلریوں میں کامیابی سے ہو ئیں ۔ایزل آرٹ گیلری میں اکبر کی پینٹنگز کی سولو نمائش ہوئی ۔اکبر مجسمہ سازی میں مہارت رکھتا تھا زیادہ پتھر پر کام کرتا تھا مگر کووڈ کے زمانے میں بھی وہ چین سے نہیں بیٹھا اس نے اپنی بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں کے بل پر لوہے کے کوڑ کباڑ سے نہایت تخلیقی کام کیا اور بہت سے مجسمے بنائے اور اس طرح ایزل آرٹ گیلری میں اس اچھوتے خیال سے تخلیق پائے مجسموں کی ایک کامیاب نمائش ہوئی ۔ اکبر کی شخصیت پر جتنا لکھتے جائیں نہ جی بھرتا ہے اور نہ ہی مواد کم پڑتا ہے مگر اختصار کی ضرورت کے تحت آج ہم اکبر کی برسی کے موقع پر اس کی اگلی منزلوں کی آسانی ، گناہوں کی معافی اور جنت میں اعلیٰ مقام عطا ہونے کی ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ مضمون ختم کرتے ہیں۔ اللّٰہ پاک میرے دوست کے اہل خانہ کوصبر جمیل عطا فرمائے اور بچوں کو خوب ترقی دے روشن نصیب عطا کرے آمین ثم آمین 💖۔


فرحان اعوان 

22 اگست 25 ۔


Farhan Aalam:

فیس بک سے فرحان عالم کی تحریر ۔



اکبر خان کی آج دوسری برسی ہے کل سے کوشش کر رہا ہوں کچھ پوسٹ کروں مگر اکبر کی برسی، یہ الفاظ مجھے بے سدھ سا کردیتے ہیں اتنا دکھ ، قرب کی ایسی کیفیت ہوش اڑا دیتی ہے۔ اکبر خان جو ایک اداکار ، ڈائریکٹر ، مصور اور مجسمہ ساز کے طور پہچان رکھتا ہے وہ بہت اچھا انسان تھا ایسا ہمدرد دوسروں کی آسانیوں کے لئے انتھک محنت اور کوشش کرنے والا درویش میں نے حقیقت میں اکبر خان کی صورت میں ہی دیکھا ہے وہ دوستوں کے درمیان  ایک مضبوط پل تھا ۔ ہردلعزیز اکبر میرا عزیز ترین ساتھی بلکہ میرے ذات کا حصہ تھا آج کے دن نے ہم سے چھین لیا ، آج اکبر خان کی برسی ہے وہ ہمیشہ کے لیے ہمیں چھوڑ کر چلا گیا یہ ہی حقیقت ہے۔ اللّٰہ پاک اکبر خان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین ۔

فرحان عالم


 Imran Zaib: 

اکبر خان واقعی بہت پیارا معصوم انسان تھا، ہر کسی سے خوش اخلاقی سے ملنا اکبر خان کا وتِیرہ تھا، اکبر خان بہت اچھے اداکار تھے پر بَد قسمتی سے انھیں اچھا رول اور ڈائریکٹر نہیں ملا، اکبر خان بھاری بھاری مجسمے بناتے تھے، جِس میں انکے استاد انجم ایاز تھے، اکبر بھائی کو دل کا مریض ہونے کے بعد میں نے اُن سے کئی دفعہ کہا کہ آپ کو سَب جانتے ہیں اب آپ پینٹنگز بھی کرو، پھر انکو استاد کی شکل میں عبدل جبار ملا جِس نے انھیں پینٹنگز میں اچھا گائیڈ کیا پھر اکبرخان بھائی اچھی پینٹنگز بھی کرنے لگے، مجھے دیکھ کر اکبر بھائی کی آنکھوں میں ایک پیاری سی چمک آجاتی، شاید وہ چمک انکی آنکھوں میں سَب سے ملنے پر آتی ہو، پر مجھ سے انھیں خاص انسیت تھی شاید بھائی انعام راجا کہ وجہ سے جنھیں وہ استادوں والا درجہ دیتے تھے،  بھائی انعام راجا کے انتقال کے بعد وہ مجھے اپنا چھوٹا بھائی جیسا سمجھتے، اکثر میرا رشتہ لگانے کے چَکر میں بھی رہتے، میری شادی ہونے کے بعد مجھے نوشے میاں، نوشے میاں کہتے، شُکر گزار قسم کے انسان تھے، میں کہتا اکبر بھائی آپ کافی سنئیر ہوگئے ہیں پر آپ کو بڑے رول کیوں نہیں ملتے، کہتے اللہ کا شکر ہے اب میں اچھے لیول کے اداکاروں میں شمار ہوتا ہوں، میں کہتا اکبر بھائی آپ کا فیس بہت ایکسپریسیو ہے بَس پینسل سے اپنی آئی بَرو گہری کرلیں تو اور زبردست تاثر آۓ گا، پر وہ اُس میں ہی خوش تھے، واقعی اوپر والا اچھے لوگوں کو اپنے پاس جلدی بلا لیتا ہے، اللہ تعالیٰ اکبر خان بھائی کی مغفرت فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین ثم آمین 🤲🏻🤲🏻🤲🏻❤️


Shahid Hussain:

 گروپ کے بہت سے دوستوں کی طرح 

اکبر خان سے بھی میری کراچی میں رہتے ہوئے بھی ملاقات نہیں ہو سکی تھی ،

جس کی کئی بہت سی پیچیدہ وجوہات ہیں جن کا ذکر پھر کبھی سہی لیکن مختصر کہوں تو ان تمام وجوہات کا ذمہ دار میں خود ہوں ،

ورنہ اکبر خان سے جب میری گروپ کے ذریعے سے دوستی ہوئی تو مجھے وہ بالکل وہی دوست لگا جن سے آپ کو فاصلے سے بھی دوستی کے باوجود فاصلہ محسوس نہیں ہوتا ۔


وہ اپنے مزاج میں اس قدر نرمی و انکساری رکھتا تھا 

کہ لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ اپنی ذات  میں ایک انجمن لیے بہت کچھ سمیٹے بیٹھا ہے ۔

زیادہ تر لوگ اسے اداکار ہونے کے حوالے سے جانتے تھے جبکہ وہ بہت اچھا پینٹر مجسم ساز جو بہت سے موضوعات اور میڈیمز میں تجربات کرنے جانتا تھا 

معلوم ہوا کہ اسے اردو ادب سے بے حد لگاؤ تھا لیکن میں نے بہت سے لوگ دیکھے جو ادب سے لگاؤ کے باوجود با ادب نہیں ہوتے مگر  اکبر خان  سچ میں ایک انتہائی مہذب با ادب شخص ،

بلکہ دوست شخص تھا ۔


بس بڑی حیرانی ہوتی ہے کہ آج ہم تیزی سے کتنی عجیب دنیا کا حصہ بنتے جا رہے ہیں کہ،

جس دن کوئی شخص اس دنیا سے جاتا ہے بس چند روز 

ہم چند لوگوں کو کچھ دعائیہ اور تعزیتی کلمات کہتے دیکھتے ہیں بس اس کے بعد اگلے سال تک کوئی کسی کو یاد ہی نہیں رکھتا ،


آخر ہمارے کسی کو یاد رکھنے کے  پیمانے پہلے کیا تھے اور اب کیا ہیں ؟


اس کے جواب میں کوئی مشکل فلسفہ نہیں ہے ، پہلے کسی کا بہترین مخلص دوست ہونا کافی ہوتا تھا ، پھر ایک دور آیا جب کوئی بہت ہی کامیاب فنکار ہو تب ہم اس سے اپنا تعلق بعد تک جوڑتے تھے ،

لیکن اب ہم اس دور میں داخل ہو گئے ہیں جہاں جب تک کسی سے مادی مفادات کا تعلق ہے بس تب تک تعلق ہے ۔


تو پھر تو ہم سچ میں خود ہی اس اس دنیا کے سماجی نظام کو کسی دیمک کی طرح لگ چکے ہیں ، 

جس پہ جب ہمارا ہی وجود محفوظ نہیں ہمیں ہی یہ احساس ہو رہا ہے کہ کوئی ہمیں ہمارے جانے کے بعد دوسرے دن یاد نہیں رکھے گا تو پھر بتائیے اس سماجی نظام کی تعمیر کی ذمہ داری کون لے گا ؟ 

کیونکہ شاید اس دنیا میں اگر سب نہیں تو بہت سے لوگ شاید اس امید پر بھی اچھے کام کرتے ہیں کہ کوئی انہیں جانے کے بعد کچھ وقت تک یاد کر لے گا ۔


بہرحال شاید بات بہت زیادہ گھمبھیر ہو گئی ، لیکن کوشش تو یہی رہی کہ جو فنکار دوست ہم میں سے دنیا سے جائے اس سے جن کا بھی جو بھی تعلق واسطہ ہے وہ کوشش کر کے یا تو اس کے کام پر کچھ اظہار خیال کریں یا اسے کچھ نہ کچھ اپنے تعلق کے حوالوں سے ذکر ضرور کریں،

اگر ہم کسی فنکار کو بہت سی دنیاوی کامیابیوں کے فیتے سے ناپ کر بڑا فنکار نہیں بھی کہہ سکتے تو اچھا دوست تو کہتے ہی ہے نا ،

ہم تو اسے پہچانتے ہی ہیں جانتے ہی ہیں نا ، تو کیا ان باتوں یادوں کا بھی ذکر نہ کیا جائے ؟


فرحان اعوان تمہارا بہت شکریہ تم نے اکبر خان کے حوالے سے اپنے ذاتی جذبات کا اظہار کیا 

اتفاق سے اکبر کی برسی پر ایک اور جو تحریر فیس بک پر نظر ائی وہ بھی کسی فرحان نامی شخص کی ہی ہے ،


اکبر خان بہت نفیس انسان تھا بہترین دوست تھا مگر شاید دوستی کا حق ادا کرنے کے لیے اور اس کے لیے دکھی ہونے کے لیے اس کے نصیب میں فرحان ہی آئے فرحان جس کے معنی خوشی اور شادمانی کے ہیں ،

جو یقیناً اپ دوستوں نے اکبر خان کی زندگی میں اس کے ساتھ وقت گزارتے ہوئے ضرور محسوس کی ہوگی ۔


اللہ اکبر خان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے ۔


شاہد حسین 

22 اگست 25

AAN 1952


 Shahid Hussain:

23 Aug 25.


 1952 میں ریلیز ہونے والی دلیپ کمار صاحب کی شہرہ آفاق فلم ،

"آن" کے بارے میں کیا کہوں اس پر جتنا کچھ لکھا جا چکا ہوگا شاید اسے اکٹھا کیا جائے تو کئی کتابوں کا مواد بن جائے ،

لہذا میں اس حوالے سے صرف ان یادوں کا ذکر کروں گا جن کا تعلق میرے والد ناظر حسین صاحب سے ہے ۔


جو اس دور میں میو سکول آف ارٹ میں زیر تعلیم تھے ،

اور وہیں کے ایک مجسمہ سازی کے استاد جن کا نام  نور خان اور ان کا لاہور کے قدیمی علاقے اچھرہ کے قریب اسٹوڈیو تھا وہاں ان کے پاس پارٹ ٹائم معاونت کے لیے بھی جاتے تھے ۔ 


1953 میں میرے والد میو اسکول  آف آرٹ سے پاس آؤٹ ہوئے تو دلیپ کمار صاحب اور ان کی آن فلم کا ہر طرف طوطی بول رہا تھا اور میرے ابا  تو دلیپ صاحب پہلے سے ہی دیوانے تھے سو فلم کے پوسٹر پر موجود ان کے اس پوز کو انہوں نے تقریباً 18 انچ سائز میں بنا کر انہیں خراج تحسین پیش کیا جسے جو دیکھتا یہی کہتا کہ اسے تو دلیپ صاحب تک پہنچنا چاہیے ،

گو اس مجسمے کو وہ دلیپ کمار صاحب تک تو نہ پہنچا سکے لیکن یہ مجسمہ  میرے والد کو لاہور کے فلم سٹوڈیوز تک  پہنچانے کا ذریعہ ضرور بن گیا۔


1954 میں جب وہ ایور نیو اسٹوڈیو کام کی تلاش میں گئے تو وہ اسی مجسمے کو ساتھ لے کر گئے ،

آغا جی اے گل صاحب نے نہ صرف اسے بے حد سراہا بلکہ ان کا کام دیکھتے ہی انہیں بطور مجسمہ ساز اور ماڈلر کے ملازمت بھی دے دی ۔

گو کہ وہاں کے پہلے سے موجود سینیئر مجسمہ ساز جن کا نام شاید غلام نبی تھا  نے انہیں مٹی اور پلاسٹر کی بوریاں ڈھونے میں لگا دیا مگر میرے ابا عجیب مست ملنگ قسم کے بندے تھے ، 

جہاں ان کے عشق کا معاملہ ہوتا اپنی شیریں کے لئے بڑی سے بڑی چٹان کھودنے کی مشقت میں جت جاتے ،

اور جہاں عشق نہ ہوتا وہاں بادشاہت کوٹھوکر مار دیتے ۔ 


وہ 11 ستمبر  کو پیدا ہوئے تھے ،

ایک وقت میں جب میں نے ان کے برج کی خصوصیات پڑھیں تو میں حیران ہو گیا جیسے لکھنے والے نے میرے ابا سے پوچھ پوچھ کر لکھی تھیں ۔


بہرحال تھوڑے ہی وقت بعد آغا جی اے گل صاحب نے اتفاقاً جب میرے آبا کو بڑی دلجمی سے مزدوری میں مشغول دیکھا تو انہوں نے سینیئر مجسمہ ساز کو بلا کر پوچھا کہ آپ کے خیال میں کیا میں نے اس لڑکے کو اس کام کے لیے رکھا ہے ؟


یوں اس طرح سے میرے ابا کا بطور مجسمہ ساز اور اورنامنٹ ماڈلر کے فلم انڈسٹری میں دور شروع ہوا ،

اور پھر وہ اپنے حقیقی شوق کی مشقت میں مصروف ہو گئے تقریبا پچیس سال سے زائد تک ۔ ۔  

یہ وہ دور ہے جب کاسٹیوم یعنی تاریخی موضوعات کی فلمیں بھی تواتر سے بنا کرتی تھیں سو بے شمار فلمیں ہیں جن کا اکثر ذکر کرتا رہتا ہوں ،

لیکن آج خاص طور پر آن فلم کا جب یہ  گانا ایک دوست نے بھیجا ،

"آگ لگی تن من میں دل کو پڑا تھامنا"

میں نے دیکھا سنا تو بہت سی یادیں دماغ کے پردہ سکرین پر نمودار بلکہ کچھ واضح ہو گئیں ،


میں نے یہ فلم 1980 میں تب دیکھی جب وی سی آر کا دور شروع ہوا لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے یہ فلم تب کچھ زیادہ سمجھ نہ آئی شاید کہیں سوتی جاگتی  کیفیت کی وجہ سے اور اس کے بعد پھر دوبارہ دیکھی بھی نہ گئی ،

لیکن آج جب یہ گانا دیکھا تو اس میں موجود مچھلیوں کے مجسمے نے بچپن کی یادوں کو واضح کر دیا ۔


میری پیدائش 1962 کی ہے لیکن 1965 تک کی بھی کئی یا داشتیں میرے کہیں ذہن کا خانوں میں محفوظ ہیں اور مجھے یاد ہے کہ میرے ابا کے اسٹوڈیو میں تقریباً چھ فٹ ہائٹ کی اسی قسم کی مچھلیوں کہ مجسے بنائے گئے تھے جنہیں میں حیرت اور شوق سے اس وقت بھی دیکھتا رہا تھا ۔

بس ان میں فرق یہ تھا کہ مچھلیوں کی دمیں پیچھے کی جانب مڑی ہوئی تھیں اور وہ اپنی مجسمہ سازی کی کوالٹیز میں کچھ اٹالین خصوصیات لیے ہوئے ہیں اس سے بہت زیادہ اچھی تھیں ،

دراصل اس دور میں 

جو بھی فلمیں بنتیں ان کے موضوعات اور سیٹس لگائے جاتے یا اس میں مجسمے رکھے جاتے، کہیں نہ کہیں ان کی انسپریشن ہندوستانی فلموں سے تو لی جاتیں ۔ ۔ تو اس طرح سے مجھے آج یہ معلوم ہوا کہ یقیناً وہ مچھلیاں اسی کا تسلسل تھیں ،

اب مسئلہ یہ ہے کہ ہماری اس دور کی فلموں کا کہیں کوئی ہائی ڈیفینیشن تو کیا مناسب رزلٹ میں بھی ریکارڈ دستیاب ہی نہیں ،جبکہ ہندوستان اپنی فلموں کو محفوظ کرنے میں بہت حد تک نہ صرف کامیاب رہا جبکہ ان کو دوسرے فارمیٹ میں منتقل کرنے میں بھی اس نے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا ،

 اس دور کی بہت سی بلیک اینڈ وائٹ فلموں کو کلرڈ کرنے کا سلسلہ تک جاری ہے ۔

اب ہمارا کیا کیجئے کہ نہ ہم اپنی قدیم عمارتوں ، نہ لائیبریریوں نہ آرٹ اور نہ ہی دیگر تہذیبی ورثے کی بے شمار نشانیوں کو 

محفوظ کرنے میں سنجیدہ ہی نہیں ہو سکے تو فلم اس میں اہم ہونے کے اعتبار سے کہاں آور کیا جگہ پائے گی ؟


سوائے کہ اپنی یادوں کو بس کسی نہ کسی حوالے سے جوڑ جاڑ کر بیان کر دیا جائے ۔


شاہد حسین 

23 اگست 25


 Syed Shahab Shah: 

بہت ہی شاندار پیرائے میں ایک فکر انگیز تحریر۔ ♥️♥️


Nisar Ahmed:

شاہد بھائی آپ کے پاس وہ مضبوط یادیں ہیں اور ایسے فنکار کی جدوجہد سامنے ہے جو عام لوگوں کے ساتھ نہیں ہیں ، تو ایسی یادیں دن بدن تنگ بھی کرتی ہیں اور بہت سے سوالات زہن میں جنم لیتے ہیں کہ اسوقت ابا ویسا کر لیتے تو ایسا ہو جاتا یوں کر لیتے تو یوں ہو جاتا ۔ ۔  لیکن یہ سب ہمارے بس میں نہیں ہے

یہ یادیں دکھی کر رہی ہوتی ہیں یا مزید توانا سمجھنا مشکل ہے

 بہت معزرت کے ساتھ ،

مجھے لگتا ہے آپ بھاگ رہے ہیں یادوں سے اور مسائل سے اور آرٹ میں گم ہو کے سب کچھ بھولنا چاہتے ہیں.....شاید


Shahid Hussain: 


نثار بھائی،

اپ کی بات کا جواب یہ ہے کہ 

یادوں میں گم دکھی تو میں ہمیشہ رہتا ہوں ۔ ۔ ۔ 


اب وہاں سے مجھے توانائی ملتی ہے یا نہیں اس کا فیصلہ تو شاید آپ دوست ہی بہتر کر سکتے ہیں ۔ ۔ ۔ 

میں تو یہی کہہ سکتا ہوں کہ انہی دکھوں کی وجہ سے تو میں آرٹ پر اتنا لکھتا ہوں بولتا ہوں جو اب پتہ نہیں کم ہے یا زیادہ لیکن میں یادوں سے بھاگنا نہیں چاہتا ۔ ۔ ۔ 


میرے ابا اپنے کام میں اپنے دور میں سمجھیے جوالا مکھی تھے ۔ ۔ 

روشن چراغ تھے ،

ہیرا تھے ۔ ۔ ۔


اپنے دور میں انہوں نے اپنے ارد گرد کے لوگوں سے  بے حد عزت پائی  لیکن وہ جس اصل مقام کے حقدار تھے انہیں وہ نہیں ملا ،

کہیں کامیابی اور شہرت سے وہ بچ بچا کر نکلتے اور کہیں یہ دونوں ان سے اس طرح سے ان کے ساتھ ہمیشہ یہ آنکھ مچولی کا سلسلہ جاری رہا ،

جبکہ یہ دونوں چیزیں کسی فنکار کی کوئی غیر ضروری ضرورت نہیں ہوتی بلکہ لازمی ضرورت ہوتی ہیں ۔


وہ اکثر ایک تمثیلی قصہ بیان کرتے تھے 

جس میں ایک کمہار کو قیمتی پتھر زمین پر پڑا ملتا ہے تو وہ اسے اپنے گدھے کے گلے میں ٹانگ دیتا ہے ،

پاس سے گزرنے والا ایک جوہری اس پتھر کو پہچان کر کمہار سے وہ پتھر خریدنے کے لیے قیمت پوچھتا ہے تو تم کمہار بہت معمولی قیمت بتاتا ہے شاید چند سکے 

جوہری فورا ادا کر کے وہ پتھر خرید لیتا ہے ،

چند قدم چل کے اپنی ہتھیلی میں اس پتھر کو بغور دیکھنا چاہتا ہے تو 

وہ ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے ،

کچھ طنزیہ ہنسی کے ساتھ جوہری پتھر کو مخاطب کر کے کہتا ہے ،

واہ گدھے کے گلے میں تھے تو خوش تھے میرے ہاتھ میں ائے تو ریت ہو گئے ؟


اس پتھر میں سے آواز آتی ہے کہ تم تو جوہری تھے تمہیں تو میرا ٹھیک مول لگانا چاہیے تھا  ۔


تو افسوس کی بات یہ ہے کہ انہیں اس دور میں عام لوگوں سے تو عزت ملی لیکن جو لوگ ان کا کام کرنے والے تھے سمجھنے والے تھے انہوں نے انہیں نہیں پہچانا،

انہوں نے جان بوجھ کر ان کا نام مٹانے کی کوشش کی انہیں پیچھے کرنے کی کوشش کی جبکہ وہ صرف اپنا کام کرنا جانتے تھے 

پیچھے دھکیلنے والوں کی تو مرضی جانتے ہی وہ خود پیچھے چلے جاتے تھے ۔ 

ان کی اسی ان کے حلقہ احباب کی طرف سے دی گئی یا ان کی خود سے چنی ہوئی ناکامی نے مجھے یہ توانائی دی کہ کسی فنکار کے کام کو دنیاوی کامیابیوں کی فیتے سے نہیں ناپنا چاہیے 

اگر ہم کام جانتے ہیں تو پھر ہمیں اپنی اس نالج سے 

چاہے وہ فنکار شہرت یافتہ ہے یا گمنام ۔ ۔  کسی بڑے اونچے مقام پر ہے یا گہری تاریک جگہ ،

ہمیں ضرور اس کا کام پہچان کر اسے عزت دینی چاہیے ۔


اب میں اپنے اس مقصد میں کتنی توانائی رکھتا ہوں یہ تو آپ دوست بہتر جانتے ہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ دوسرے بہت سے لوگ بھی اس بات کو جان سکیں اور اس روش کو اپنا سکیں اس مقصد میں کامیابی تو مجھے بھی شاید نہیں مل سکی ۔


شاہد حسین


 Atif Aleem:

 جی شاہد بھائی بہت فکر انگیز تحریر ہے۔ گزارش یہ ہے کہ میں بھی اسی نہج پر یہ سوچ رہا تھا کہ کتنی جلدی ہماری بہت سی تاریخی چیزیں قصہ پارینہ بن گئی اور ان کا کوئی pictorial record تک موجود نہیں۔نہ ہی کوئی ارکائف ہے۔ دنیا کے ممالک میں خصوصا برطانیہ میں اور امریکہ میں اس طرح  کے لینڈ مارک اور مونومنٹ محفوظ کیے جاتے ہیں۔ کم از کم کہیں نہ کہیں سے آپ کو اس کی پرانی تصویریں مل جاتی ہیں۔ ہماری پاکستانی فلموں کے پرنٹ اتنے دھندلے ہیں کیئر ڈیجیٹل میں پریزرو ہونے کے باوجود بالکل ہی خراب کوالٹی ہے۔ جبکہ دنیا بھر کی پرانی فلموں کو کیا خوبصورت طریقے سے ریسٹور کیا گیا ہے اور اب وہ کلیکشن کا حصہ بن گئی ہیں ۔میں یہی سوچتا ہوں کہ جب انسپریشن کا کوئی ذریعہ ہی نہیں تو اپ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ کوئی بہتر کام وجود میں ائے۔ قومی سطح پر ہم اتنے بے حس ہیں کہ اب نہ کوئی کتاب پڑھتے ہیں نہ تاریخ سے کوئی سبق اخذ کرتے ہیں۔ اگر کوئی معلومات ہے بھی تو وہ کہیں ریپیٹیشن سے سینہ بہ سینہ منتقل ہو گئی ہے۔  آرٹ ایک تسلسل کا نام ہے۔اب اگر ایک زنجیر میں سے کڑیاں ہی غائب ہو جائیں تو اپ اس زنجیر کو مکمل کیسے کہیں گے۔


Shahid Hussain:

 جی عاطف بہت شکریہ ،

یار تمہاری اس بات سے مجھے 

"André Malraux" 


 آندرے مالرو کا یہ جملہ یاد آگیا ،

"Art is a revolt against fate"

 جو ایک فرانسیسی مصنف اور فلاسفر تھا۔ انگریزی سے ترجمہ کیا جائے تو ، مالرو نے ایک بار کہا تھا کہ،

 "آرٹ انسانی بدقسمتی کے خلاف بغاوت ہے "


آندرے مالرو کے مطابق، آرٹ کا مقصد انسانی زندگی کی بے بسی اور تقدیر کے خلاف مزاحمت کرنا ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ آرٹ انسانی وجود کی گہرائیوں کو ظاہر کرتا ہے اور زندگی کے مشکل پہلوؤں کا سامنا کرنے کی ہمت دیتا ہے۔

Malraux 

کے خیالات آرٹ کی دنیا میں بہت اثر انگیز رہے ہیں، اور ان کا نظریہ آج بھی فنکاروں اور آرٹ کے حلقے سے تعلق رکھنے والوں کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ 


مگر میں سمجھتا ہوں کہ اسے ہمارے خطے میں اس کے ٹھیک سیاق و سباق سے نہیں سمجھا گیا ،

لیکن جو میں نے قیمتی پتھر، گدھے اور جوہری کا تمصیلی قصہ بیان کیا ہے دیکھا جائے تو وہ قصہ اسی بات کی وضاحت دیتا ہے کہ ،

اگر اپ آرٹ کو سمجھتے ہیں تو پھر اس ظاہری یا چھپے ہوئے نظام کے تحت جن لوگوں کی خصوصیات اپ کو نظر نہیں آتیں یا اپ کے اندر سے کوئی منفی تحریک انہیں نظر انداز کرنے پر مجبور کرتی ہے ،


اس تمام نظام کو شکست دیتے ہوئے 

ان مٹی کیچڑ میں لپٹے جواہر کو تلاش کرنے پہچاننے کی صلاحیت آپ میں ہونی چاہیے ،


اب عاطف بتائیے کہ کیا سچ میں ہمارے یہاں یہ صلاحیت ڈیویلپ ہوئی ؟

Abbas Kamangar:

آپ کی بات درست ہے۔  ہمارے ملک میں آرٹ کو محض سجاوٹ کی کوئی ایسی چیز سمجج لیا گیا ہے جس سے لطف اندوز ہوا جاسکے مگر دیکھا جائے تو اس کے پیچھے ورثے میں ملی وہ سوچ ہے جو  نسل در نسل چلی آ رہی ہے یہ تو سب کو معلوم ہے کہ ہماری آرت کی تاریخ ہمیشہ سے درباری چلی آرہی ہے مغل سے لیکر انگریز تک ان سب کو خوش کرنے کیلئے آرٹ کیا گیا پاکستان میں گل جی اور صادقین بھی درباری آرٹ کرتے رہے اور اب بھی ہر مصور یہ چاہتا ہے کہ کسی طرح میں دربار سے منسلک ہوجائے یا ایسا کام کرے جس سے خریدار خوش ہوکر پینٹنگ خریدے ہمارے ماحول میں  اس سوچ کی جڑیں بہت مظبوط ہیں NCA کے اسٹوڈنٹس اب کوشیش کر رہے ہیں سماجی حالات کو پینٹ کرنے کی مگر وہ ایک خاص حلقے تک محدود ہے۔


Shahid Hussain:

 جی عباس بھائی چلیے این سی اے یا کسی اور بڑے ادارے کی تو پھر بھی اپنے طالب علموں پر ایک بڑی مضبوط چھاپ اور بیک ہوتی ہے ،

لیکن ان کرییٹو کام کرنے والوں کا کیا جو ایسے اداروں کی چھتر چھایا اور مضبوط گراؤنڈ نہیں رکھتے ، 

وہ تو بیچارے بالکل ہی تاریک راہوں میں مارے جاتے ہیں ۔


یہاں احمد فراز کی غزل کے ابتدائی اور آخری اشعار پیش کروں گا ،


"صحرا تو بوند کو بھی ترستا دکھائی دے

بادل سمندروں پہ برستا دکھائی دے

جنسِ ہنر کا کون خریدار ہے فراز

ہیرا، کہ پتھروں سے بھی سستا دکھائی دے"

 اسی بات کی مزید وضاحت میں یہاں 

جون ایلیا کا بھی شعر پیش کیا جا سکتا ہے جس میں ایک فنکار دل جلا 

اپنے فن کی داد پانے کے لیے کچھ اس طرح سے گویا ہوتا ہے ۔

بولتے کیوں نہیں مرے حق میں 

آبلے  پڑ   گئے ہیں  زبان میں کیا؟

 تو بتائیے دوست کیا کیا جائے !


شاہد حسین 

23 اگست 25

Saturday, August 9, 2025

Wet Canwas


 2000 کے قریب قریب کی بات ہے جب پاکستان میں کمپیوٹر ،انٹرنیٹ اور ویب سائٹس کا استعمال عام ہو رہا تھا ،

تو اسی دور میں ،

Wet Canvas,

 نامی ایک آرٹ کے مختلف میڈئیمز پر کریٹیکل اور تعریفی 

فیڈ بیک دینے کی سائٹ کا قیام عمل میں آیا جو جلد ہی دنیا بھر کے مصوروں کا پسندیدہ فورم بن گئی اور اسی دور میں ہمارے دوست مقبول احمد میں اور دیگر دوست بھی اس فورم کا حصہ بنتے چلے گئے ۔


اس سائٹ کا کانسپٹ ہی یہی تھا کہ آپ نے جو کام کیا ہے اسے بس گیت سمجھیے گیلی حالت میں ہی دوستوں کی محفل میں شیئر کر دیں اور اس پر دوستوں سے رائے لیں ،

ایک حصے میں صرف تعریف ہوتی تھی جبکہ ایک حصے میں کریٹیکل رائے دی جاتی تھی ۔


 ہم اکثر اپنا کام وہاں شیئر کرتے اور اس سائٹ کو خوب انجوائے کرتے لیکن کہیں نہ کہیں ہمارا اپسی ایک مکالمہ ضرور تھا کہ ہمارے یہاں پر بھی ہمارے فنکاروں کے لیے کوئی ایسی سائٹ ہونی چاہیے جہاں ہم اپنی زبان میں کسی دوستانہ محفل کی طرح اپنے فنکار دوستوں کے کام پر بات کر سکیں ۔

2015 سے 16 تک 

پھر یہی کانسپٹ تھا جو واٹس ایپ پر گروپ بنانے کی سہولت ملنے کے بعد 

 چند دوستوں نے شروع کیا ۔

اس دور میں فیس بک پہلے سے ہی بہت عام ہو چکا تھا جس پر ارٹسٹ دوست اپنا اکاؤنٹ بنا کر اپنا کام شیئر کرتے تھے ،

مگر اس پر بہت سے لوگوں کے لیے لکھنا بولنا آج ہی کی طرح مشکل تھا لہذا بات چند تعریفی جملوں سے آگے نہیں جاتی تھی ۔

جبکہ ہمارا خیال تھا کہ جس طرح سے کوئی بھی کھیل کھیلنے والے دوسرے کھلاڑیوں کے کھیل پر تبصرہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں ،

یہاں تک کہ کوئی مکینیکل کام کرنے والے بھی اپنے درمیان اچھے مکینکس کے کام پر رائے دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں،

شاعر اور ادیب تو اس سلسلے میں کمال طریقے کی داد اور تنقیدی مکالمہ کرنے میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں تو کہیں نہ کہیں ایک مصور طبقہ بھی اپنا کام کرتے ہوئے ایسے تجربات سے ضرور گزرتا ہے جو 

مصوری سے تعلق رکھنے والوں کے یونیورسل احساسات و جذبات اور دیگر روحانی کیفیات سے لے کر ٹیکنیکی اعتبار سے بہت سے معاملات میں ایسی یکساں ضرور ہوتی ہیں جن کے بارے ایک مصور بھی دوسرے مصور کے کام پر بات کر سکتا ہے ،

وہ چاہے مٹیریل کے بارے معلومات ہوں ، کینوس سٹریچ کرنے سے لے کر پرائم کرنے تک اور اسی طرح سے مصوری کے بارے بہت سی ٹیکنیکی معلومات سے لے کر اس کی تعریف اور تنقید تک کرنے کے حوالے سے صرف کوئی کریٹک یا لکھاری ہی نہیں بلکہ ایک مصور بھی اپنے پاس معلومات ضرور رکھتا ہے ۔


تو ہم نے ایسے دوستوں پر مشتمل گروپ بنانے کی کوشش کی جس میں کسی بھی مخصوص ٹائم فریم کے اندر کوئی مصور اپنا کام سمجھیے کہ 

تازہ بہ تازہ ایزل پر رکھی حالت میں ہی 

دوستوں سے شیئر کر دے ۔

اور اس پر چاہے دوستوں کی محدود سی محفل ہو لیکن ہر کوئی اپنی چند ریڈی میڈ قسم کے جملوں سے بڑھ کر رائے ضرور دے ۔ 

ابتدائی دور میں ہمارے اس خیال کو بہت پذیرائی ملی ،

بیس سے بائیس دوستوں کے گروپ میں 70 فیصد دوست رائے ضرور دیتے تھے ،

پھر ہمارے گروپ کی شہرت بڑھنے لگی اور دوستوں کے دوست شامل ہوتے چلے گئے ، 

اور یوں ڈھائی سو سے زائد دوست بھی گروپ میں شامل ہو گئے ،

مگر پھر ہمارا کونسپٹ اپنے نمبر کھونے لگا ، یہاں تک کہ کم ہوتے ہوتے یہاں تک پہنچ گیا ۔


اب یہاں سوچنے کی بات تھی کہ ایسا کیوں ہوا ؟


اس کی بالکل بنیادی باتوں میں دو تین ہیں جن میں سے کسی ایک کو پہلی قرار دینا مشکل ہے لیکن پھر بھی اگر اس کی ترتیب بیان کی جائے تو ،

وہ جو تقریباً ایک درجن کے قریب ایسے اساتذہ دوست تھے ان کے درمیان اپس میں کچھ ایگو کے مسائل آنے لگ گئے اور وہ ٹیم ٹوٹتی چلی گئی ۔ ۔ 


دوسرا اہم مسئلہ تھا کہ ہم فنکار دوستوں کو اپنا کام گروپ میں رکھنے کے لیے کچھ ابتدائی شرائط پوری کرنے کا کہتے تھے ،

جیسے کہ اپنے کام کا میڈیم ، سائز ، ٹائٹل ، اگر کانسپچول کام ہے تو اپنا کانسپٹ ،  سٹیٹمنٹ یا تھوڑا سا اپنے بارے تعارف اور اسی طرح دوستوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ وضاحت کہ وہ صرف تعریف چاہتے ہیں مشورہ یا کڑی تنقید ؟

 وہ یہ بنیادی شرائط ضرور پوری کریں ،

جبکہ وہ بس خاموشی سے اپنا کام شیئر کرنا اور اس کے علاوہ ایسی کوئی ریکوائرمنٹ پوری نہیں کرنا چاہتے تھے ۔

تیسری اہم وجہ میں 

مہمان بنائے جانے والے دوست تعریف تو خاموشی سے سنتے رہتے تھے مگر تھوڑی سی تنقید پر بھی بھڑک اٹھتے ،

اور تنقید کرنے والے کو پلٹ کر ایسا جواب دیتے کہ تنقید کرنے والا صرف تنقید سے ہی نہیں تعریف سے بھی توبہ کر لیتا ۔


جبکہ متوازن رائے دینے والوں کو جواب میں کئی بار 

خاموشی یا پھر دو چار لفظی  شکریے سے نواز دیا جاتا ،


اور اس میں یہ نہ خیال رکھا جاتا کہ ایک ایسا سماج جہاں پر کپڑوں کو رنگنے والا استاد سوڈے کی چٹکی ملانا بھی شاگردوں کو بڑی مشکل سے بتاتا ہو ، وہاں اگر کوئی آرٹسٹ استاد اپنی زندگی بھر کے تجربے کو کسی تعریف مشورے یا تنقید کی شکل میں 

بیان کر رہا ہے تو اسے شکریہ بھی کم از کم اتنے الفاظ میں اگر نہ سہی مگر کم از کم کچھ ہماری اعلی تہذیبی ثقافتی اقدار کے مطابق کچھ نہ کچھ ضرور مطابقت کے مطابق ہو ، مگر ان باتوں کا خیال نہ رکھا گیا ۔


اسی طرح سے چوتھے اہم ترین مسئلے میں جب کئی بار خود ان تکنیکی رائے دینے والے اساتذہ نے گروپ میں اپنا کام رکھا تو وہ بہت سے دوست جن کے کام پر وہ رائے دیتے رہتے تھے وہ تک ان کے کام پر منہ میں خاموشی گھنگنیاں ڈال کر بیٹھے رہتے تھے ،

اس جواز کے تحت کہ اپ اساتذہ کے سامنے ہم کوئی بات کرنے کی کوئی اہلیت حیثیت و ہمت بھلا کہاں رکھتے ہیں ،

جس نے ٹیکنیکلی طور رائے دینے والے اساتذہ کو رفتہ رفتہ بالکل خاموش کر دیا ،

سوائے مجھ جیسے دو تین دیوانوں کو جو خاموش نہیں ہونا چاہتے تھے ،

ان میں سے میں نے تو باقاعدہ ان وجوہات کو بیان اور بہت سے دوستوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ دیکھیے یہ وہ وجوہات ہیں جو اس گروپ کو خاموشی کی طرف لے کر جا رہی ہیں ،

مگر وہ جواب میں مجھ سے بحث کرتے تھے اور مجھے مکو ٹھپ قسم کے حل بتاتے تھے کہ نہیں اپ اپنا کام جاری رکھیے ،

اور یہ مشورہ بالکل ایسے ہی ہوتا 

جیسے کسی شخص کو فٹبال کھیلنے کی ٹیم دستیاب نہ ہو رہی ہو مگر اسے کہا جائے کہ تم اپنا کھیل جاری رکھو ۔

تو جس کی پوائنٹ کو نہیں سمجھا گیا 


وہ اوور آل ارٹسٹ کمیونٹی کی اکثریت  کی ایک ایسی خود ہٹ دھرمی یا غرضی  تھی جس میں وہ اپنے کام پر تو بات کروانی یا کرنی جانتے تھے مگر کسی بھی دوسرے فنکار کے کام پر اپنی رائے نہیں دینا چاہتے تھے ۔


اور اپنی اس خاموشی کی بے شمار علتیں ، دقتیں اور وضاحتیں تو دیتے تھے مگر اس کے نتائج کو سمجھنا یا ان سے متفق ہونا نہیں چاہتے تھے ۔

وہ بس ایک ایسا ائیڈیل اور بے لاس قسم کا نظام چاہتے تھے جو انہیں اپنے علمی تجربات کی ادائیگی تو کرے مگر انہیں جواب میں کچھ لوٹانا نہ پڑے ،

دوسرے تو ان کے کام کو اہم سمجھتے ہوئے اس پر اپنی رائے دیں مگر وہ دوسروں کے کام پر اپنی رائے دینے میں اپنے علمی تنگی ، یا کسی بھی دقت کو جواز بنا کر خاموش رہیں ۔

کئی بار تو وہ اپنی خاموشی کو ہی سب سے مقدس ترین جواز کے طور پر پیش کرتے ،

اور پھر یہی مقدس عقیدہ دوسرے بھی اپناتے چلے گئے ۔


یہاں تک کہ یہ بہترین مقصد ہی فوت ہو گیا ۔


شاہد حسین 

20 جنوری 25

Group Orchestra


 Group Orchestra,


ترقی یافتہ تہذیبوں یا جہاں موسیقی بہت ترقی پر ہے 

وہاں آپ گروپ اورکیسٹرا کی اکثر مثالیں دیکھتے ہیں ،

جن میں بہت سے سازندے مل کر جو اجتماعی دھن بجاتے ہیں وہ جوش ولولے اور دیگر انسانی جذبات کو  متاثر کرنے میں اپنی مثال اپ ہوتی ہیں 

اصل میں صرف موسیقی ہی نہیں ایک ترقی یافتہ سماج اپنے دیگر اعمال اور افعال میں بھی گروپ اورکیسٹرا کی طرح ہی کسی بھی کام کو کسی سمفنی کی طرح سے انجام دیتا ہے ،

جس میں ہر ایک کا جہاں جہاں جو جو پارٹ ہوتا ہے وہ اسے پلے کرتا ہے ،

بہترین یا قدرے کم تر تو ہو سکتا ہے لیکن نہ کوئی کسی سے کم نہ کسی سے زیادہ کی توقع رکھتا ہے سوائے جس کا جو حصہ ہے وہ اسے اپنی پوری صلاحیت سے بجائے ۔ ۔ 


جبکہ جو سماج اجتماعی اعمال اور افعال کی صلاحیت نہیں رکھتے ،

وہاں گروپ اورکیسٹرا کی تمام ذمہ داریاں اور لوازمات کسی اکیلے شخص کو ہی پورے کرنے پڑتے ہیں ۔


شاہد حسین 

15 جنوری 25

شہزادی اور مٹر


 یہ خوبصورت السٹریشن ، تمثیل ایک کہانی کی ہے جس کا عنوان ہے "حقیقی شہزادی" لیکن عام طور پر یہ کہانی "شہزادی اور مٹر" کے نام سے جانی جاتی ہے، 

اس السٹریشن کو فرانسیسی مصور ایڈمنڈ ڈولک نے 1911 میں بنایا ۔ 

 Dulac 

ان بہت سے عظیم فنکاروں میں سے ایک ہے جو بیسویں صدی کے اوائل میں لوک قدیم داستانوں اور کہانیوں کو باتصویر کرنے کے سنہری دور سے تعلق رکھتے تھے۔ 

 یہاں نظر آنے والی تصویر ایک رنگین پلیٹ ہے، لیکن اصل میں اسے Dulac نے کاغذ پر پانی کے رنگ، گواچ، قلم اور سیاہی کا استعمال کرتے ہوئے کھینچا تھا۔


 "The Real Princess" ("The Princess and the Pea") 

کی کہانی پہلی بار 1835 میں شائع ہوئی تھی۔ یہ بہت سی ، 

Fairy tales 

 پریوں کی کہانیوں میں سے ایک تھی جسے ہنس کرسچن اینڈرسن نے Tales, Told for Children, First Collection میں رکھا تھا۔ اس کہانی میں ایک شہزادہ شادی کے لیے ایک حقیقی شہزادی کی تلاش میں ہے۔ 

جبکہ ہر وہ دوشیزہ جو خود کو حقیقی شہزادی کے طور پر پیش کرتی ہے وہ حقیقی شہزادی نہیں ہوتی۔ جب اس کہانی کی ہیروئین حقیقی شہزادی بارش کے طوفان کے دوران شہزادے کے قلعے میں پناہ لیتی ہے تو وہ اپنے آپ کو شہزادی کے طور پر متعارف کراتی ہے۔ شہزادے کی ماں شہزادی ہونے کی دعویدار لڑکی کو رات گزارنے کی دعوت دے کر جانچنے کی غرض سے بیس گدوں اور بیس لحافوں کے درمیان ایک مٹر رکھ دیتی ہے۔ 

جس کی وجہ سے لڑکی کو رات بھر نیند آنے میں سخت دقت ہوتی ہے اور بے شمار گدوں میں چھپے مٹر کی موجودگی سے جاگتی رہتی ہے۔ اس کی شاہی حساسیت شہزادے کو بتاتی ہے کہ لڑکی دراصل ایک حقیقی شہزادی ہے یوں دونوں کی شادی ہو جاتی ہے اور مٹر کو شاہی میوزیم میں مستقل نمائش کے لیے رکھا جاتا ہے۔ ہینس کرسچن اینڈرسن نے کہا ہے کہ اس نے پہلی بار یہ کہانی اس وقت سنی جب وہ 1800 کی دہائی کے اوائل میں اوڈینس، ڈنمارک میں بچپن گزار رہے تھے ۔


 اس ٹکڑے میں، مصور ڈولک نے شہزادی کو گدوں اور بستروں کی تہوں کے اوپر بیٹھا دکھایا ہے۔

جیسے وہ نیند سے اٹھ بیٹھی اور چین لگ رہی ہے۔ 

جبکہ شہزادی اس بات سے ناواقف ہے کہ بستر کے درمیان ایک مٹر چھپایا ہوا ہے۔ اس کا نرم اور حساس شاہی پرورش شدہ خون فوراً مٹر کو بستر میں ایک سخت جگہ سمجھتا ہے، جو اس کی نیند کو متاثر کرتا ہے۔ اگر آپ قریب سے دیکھیں تو آپ نیلے اور سفید چیکر والے بستر کے اوپر مٹر کو دیکھ سکتے ہیں، جسے حال ہی میں بستر سے گرا ہوا دکھایا گیا ہے۔


 ویکیپیڈیا، سے ترجمہ ،


Hans Christian Andersen,

نے اس کہانی کا ماخذ اپنے بچپن کی سنی ہوئی ڈینش کہانی کو بتایا ہے ،


جبکہ اس کا سب سے پرانا ذکر کتھاسریتساگرا کی 12ویں کتاب ("کہانی کی ندیوں کا سمندر") میں پایا جاتا ہے، 

 سنسکرت میں ایک کام جو 11ویں صدی میں سومادیو نے مرتب کیا تھا ، اور اپنی پرانی اصل حالت میں اب یہ ناپید ہو چکا ہے  


یہ درحقیقت چوبیس کہانیوں پر مشتمل تھا،جس میں پھر پچسویں کہانی شامل کی گئی اور یوں یہ بیتال پچیسی کے نام سے مشہور ہوئیں ۔


ویتالا کی یہ کہانیاں ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں پڑھی گئیں اور ان کا ہندوستانی مقامی زبانوں کے ساتھ کئی بین الاقوامی زبانوں میں بھی ترجمہ کیا گیا ہے ۔


اسی میں یہ کہانی بھی ہے کہ ایک شہزادے کی جانچ کے لیے اس کے بستر میں ایک بال چھپا دیا جاتا ہے جس کا نشان صبح اس کی کمر پر موجود ہوتا ہے ۔


ایک وقت میں دور درشن پر اسے سیریز کے طور پر بھی بنایا گیا تھا ۔

لیکن جو مزہ ان کہانیوں میں ہے وہ اس سیریز میں نہیں تھا ۔


شاہد حسین 

2 دسمبر 24

تصویری کہانیاں


 ہندوستان میں قصوں کہانیوں اور دیو مالائی افسانوں کو باتصویر کتابی شکل میں بیان کرنے کی تاریخ تقریباً 2,000-2,500 سال پرانی ہے۔

 بہت نمایاں تاریخ تقریباً ،2,000 سال پرانی ہے، جس میں گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ مختلف فنکارانہ روایات، پرنٹنگ ٹیکنالوجیز، اور ثقافتی اثرات اس بھرپور ورثے میں حصہ ڈالتے رہے ہیں۔


 یہاں ایک مختصر ٹائم لائن ہے،


 پام کے پتوں کے مخطوطات (500 قبل مسیح - 1500 عیسوی) پام کے پتوں کے مصدقہ مخطوطات، جیسے بدھ مت اور جین کے مخطوطات میں دیو مالائی داستانیں ،کہانیاں، اور افسانے شامل ہیں۔


 مغلوں کی منی ایچر پینٹنگز (1526 - 1756 عیسوی) مغل فنکاروں نے مسودات کی تصویر کشی کی جس میں بابر نامہ ، اکبر نامہ اور حمزہ نامہ وغیرہ شامل ہیں۔


 کمپنی اسکول کی پینٹنگز (1750 - 1850 عیسوی) ہندوستانی فنکاروں نے، یورپی طرز و طریقِ سے متاثر ہوکر، مصوری کے مسودات اور پینٹنگز تخلیق کیں۔


 کالی گھاٹ پینٹنگز (1800 - 1900 عیسوی) کالی گھاٹ کے فنکاروں نے افسانوی اور لوک کہانیوں کی تصویر کشی کی۔


 لیتھوگرافک پرنٹس (1850 - 1900 عیسوی) لیتھوگرافک پرنٹنگ جو قدیم دور میں پتھر پر اور پھر میٹل شیٹ پر ہوتیں میں تصویری کتابوں کی بڑے پیمانے پر تیاری ممکن ہوئی ۔


 جدید ہندوستانی عکاسی (1900 عیسوی - موجودہ) معاصر ہندوستانی مصور بچوں کی لوک کہانیوں، اور افسانوی کہانیوں کے لیے کتابوں میں تصویری سے لے کر متحرک میڈیا کے لیے (اینی میٹڈ) عکاسی کرتے ہیں۔



ترجمہ و ترتیب،

شاہد حسین 

یکم دسمبر 24

Tuesday, July 22, 2025

Notions of Narration II"

 

Shahid Hussain: "Notions of Narration II" 


راشد رانا کا یہ کام بظاہر ایک بصری معمہ

 (Visual Enigma) 

کی صورت میں سامنے آتا ہے، مگر اس کی تہوں میں گم شدہ بیانیوں اور تاریخ کے چُھپے زخموں کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے۔ کلاسیکی مغربی مصوری ، جیسا کہ روبنز کے شاہکار کو جب اس طرح ٹکڑوں میں بانٹ کر ازسرِنو ترتیب دیا جاتا ہے تو ناظر نہ صرف ماضی کے جانے پہچانے مانوس منظر سے کٹ جاتا ہے بلکہ ایک اجنبی مگر پراسرار دنیا میں داخل ہو جاتا ہے جہاں ہر ٹکڑا ایک نیا سوال بن کر ابھرتا ہے۔


یہ ، fragmentation محض تصویری تجربہ نہیں بلکہ ثقافتی شناخت، تاریخ اور تشریحات کے تسلسل کو توڑنے کی ایک بامعنی کوشش بھی ہے۔ رانا ہمیں بتاتے ہیں کہ بیانیہ کبھی مکمل نہیں ہوتا، ہر تصویر، ہر داستان، جب ایک نئے تناظر میں رکھی جائے تو اس کے معنی بدل جاتے ہیں۔


یہ کام تجسس، حیرت، اور ناظر کی ذاتی وجدان کو جھنجھوڑنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے ، جیسے ماضی کا ایک خواب ہو جو بکھرا ہوا ہو، اور ہم اس کی کڑیاں جوڑنے کی لاحاصل کوشش میں محو ہو جائیں۔ یہی وہ کشمکش ہے جو راشد رانا کے فن کو ایک فکری مکالمہ بنا دیتی ہے۔


بطور ناظر، میں اس بات کو شدت سے محسوس کرتا ہوں کہ راشد رانا نے یہاں نہ صرف کلاسیکی مصوری کے ساتھ مکالمہ کیا ہے بلکہ تاریخ کے معنوں کو بھی re-contextualize کیا ہے۔ یہ کام ہمیں اپنے ،

 cultural memory 

کے ساتھ نیا تعلق قائم کرنے کی دعوت دیتا ہے ایک ایسا حیران کن تعلق جو ماضی کو دوبارہ لکھنے یا دیکھنے کی جرات پیدا کرتا ہے۔


شاہد حسین 

22 جولائی 25


 Rashid Rana:

 Thank you Shahid bhai 

Your reading of my work allows me to view my own work with a fresh perspective 🙏🌷

Sunday, July 13, 2025

Homeless.


 (4)


کسی نے حضرت علی علیہ السلام سے سوال کیا کہ ،

خدا تو ہر شخص کے رزق کا وعدہ کرتا ہے پھر بہت سے لوگ اس دنیا میں بھوکے کیوں سوتے ہیں ؟

انہوں نے جواب دیا کہ خدا تو اپنا وعدہ پورا کرتا ہے لیکن اس دنیا میں اس کے وہ بندے جنہیں اس نے طاقت و اختیار دیا ہے وہ اس کا ناحق فائدہ اٹھاتے ہوئے کمزوروں کے رزق کو غصب کرتے ہوئے اس کی فراہمی میں رکاوٹ بنتے ہیں ۔


یہ دراصل ایک ایسے 

پیچیدہ ریاستی اور سماجی غیر منصفانہ تقسیم کے نظام کی وضاحت ہے جسے انسان یا تو آج بھی سمجھ نہیں سکا یا سمجھنا نہیں چاہتا۔


مجھ سے میرے ایک دوست محسن شکیل بھائی نے گروپ میں ایک بار سوال کیا کہ ،

امریکہ تو لینڈ اف اپورچونٹی کہلاتا ہے تو وہاں لوگ بے گھر کیسے ہو جاتے ہیں ؟

جن کی تعداد 2024 کے اعداد و شمار کے مطابق تقریبا آٹھ لاکھ کے قریب ہے ۔

تو میں نے انہیں جواب دیا کہ یہ بالکل ٹھیک ہے کہ ایک غیر منصفانہ سماجی نظام تو یہاں پر بھی کہیں نہ کہیں کسی شکل میں موجود ہے ،


مگر وہیں یہاں پر اپنی لا متناہی خواہشات اور سماجی ذمہ داریوں کے لین دین سے آزادی حاصل کرنے میں ان کی ایک اکثریت خود ایسی زندگی کا چناؤ کر بیٹھتی ہے جس میں پھر وہ مکان سے اور بے شمار سہولتوں و آسائشوں کے حوالے سے گھر جیسی جنت سے بھی نکالے جاتے ہیں ۔



شاہد حسین 

13 جولائی 25 ۔

خواہشات کا سمندر


 (3)


مذہبی حکایات کو لیجیے یا قدیم قصے کہانیوں اور تصورات کو سب میں یہی ہے کہ انسان اپنی سرشت میں کسی جنت نظیر سماج میں بھی کوئی پابندی یا اصول و ضوابط پسند نہیں کرتا اور ان سے آزاد ہونا چاہتا ہے ۔


اب وہ اس کی فطرت کے عکاس تصورات کو قصے کہانیاں کہہ کر رد تو کرتا ہے لیکن آج اس قدر ترقی کرنے کے باوجود بھی یہ سوال تو اپنی جگہ ہے کہ وہ اپنی لامحدود خواہشات کو پانے یا ان کا مجموعہ کسی آزادی کی صورت حاصل کرنے کے لیے کسی ایسے سمندر میں کہاں تک جانا چاہتا یا جا سکتا ہے جہاں اسے ان کی کسی بھی صورت ادائیگی کے حالات بھی بھگتنے پڑ سکتے ہیں ؟ 


نہیں وہ ایسے حالات جو اس مادی دنیا کے ہر سماج میں کسی نہ کسی رد عمل کی طرح کے پیکج کی صورت میں موجود ہیں وہ انہیں خود پر لینے کی ذمہ داری ادا نہیں کرنا چاہتا ۔


تو یہ کیسے ممکن ہے ؟

یہی تو وہ مسئلہ ہے جس کا وہ حل نہ آج تک تلاش کر سکا اور نہ ہی کبھی کر سکے گا جب تک وہ اس بات کو نہیں سمجھے گا کہ اسے 

ہر سہولت آسائش یا نعمت کی کچھ نہ کچھ ادائیگی کم یا زیادہ ، کسی نہ کسی مختلف صورت میں تو کرنی پڑ سکتی ہے ۔

اور ان ادائیگیوں کو توازن میں لانے کے لیےہم سب کی لمٹس میں فرق ہو سکتا ہے لیکن کہیں نہ کہیں ہمیں حدود و قیود کا بند تو باندھنا اور خود پر روک تو لگانی پڑتی ہے ۔


شاہد حسین 

13 جولائی 25

Optical art and society 3


 Optical Illusion


اسی بصری دھوکے کی طرح ،بہت سے معاملات میں ہم بس جیسے پانی کی سطح پر 

ایک عکس دیکھتے ہیں ،

جو محدود بھی ہو سکتا ہے اور بہت وسیع بھی لیکن بس وہ سطح پر ہوتا ہے ۔ ۔  

گہرائی میں کیا ہے وہ ہم نہیں جانتے ۔


گہرائی میں کئی بار سطح سے بالکل برعکس بہت پیچیدہ معاملات ہوتے ہیں اور ہم میں سے کسی کے پاس ان کا صحیح تجزیہ کرنے کی نہ فرصت ہوتی ہے اور نہ کئی بار سوجھ بوجھ ۔


لہذا ہم بس سطحی معاملات کو دیکھ کر سطحی تجزیہ کرتے ہیں ۔


ہمارا سماج ابھی بھی ایسی قدیم اقدار پر قائم ہے جس میں کسی شخص کی کئی روز قبل ہو جانے والی موت کے باعث تنہا لاش کا ملنا انتہائی چونکانے والا دل دہلانے دکھی اور پریشان کرنے والا واقعہ اور عمل ہو سکتا ہے ۔


مگر ہم بہت سی باتوں میں اپنے کچھ قدامت پرست اور جدید دنیا کے بدلے ہوئے سماج کے درمیان بہت سی بدلتی ہوئی اقدار روایات اور ان کی پیچیدہ وجوہات کو نہیں جان پا رہے ہیں ۔


ابھی ہم ان پرانی بندشوں کو توڑ رہے ہیں جس میں ہمارے بڑے عزیز و اقارب یا ارد گرد دیگر سماجی اختیار رکھنے والے افراد کسی جنریشن کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے تھے ان کی آزادی اور خود مختاری پر قدغنیں پابندیاں اور اپنی اجارہ داری رکھتے تھے ،

لیکن اس کے ساتھ وہ ان کی بہت سی ذمہ داریاں بھی ادا کرتے اور ان سے طلب بھی کرتے تھے ،

تو ایک طرح سے وہ ایک قدیم پیکج تھا ، جبکہ نئے بدلتے ہوئے نظام میں نئی جنریشن آزادی خود مختاری اور بہت سے معاملات میں اپنی مرضی کا چناؤ چاہتی ہے ، لیکن یہاں اس کا اپنی اس سابقہ جنریشن سے کلیش آ رہا ہے جہاں پھر وہ دونوں جب اپنی اپنی توقعات پوری ہوتی نہیں دیکھ رہے تو وہ اپنی ذمہ داریوں سے بھی پیچھے ہٹ رہے ہیں 

جبکہ ہمارا ایک قدامت پرست اور نئے دور کا حامی طبقہ اپنی مرضی سے ان مختلف پیکجز کی سہولتوں اور ذمہ داریوں کو آپس میں گڈمڈ کر رہا ہے یا ان کو آپس میں بدل رہا ہے ۔

اسے آسان مثالوں سے سمجھتے ہیں ۔

ایک شخص کہتا ہے کہ میں سمندر کے کنارے لگی جوار بھٹا کی وارننگ کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی زندگی اور اپنی مرضی کا مالک ہوں کہ میں آگے گہرائی تک جانے کا ایڈونچر اور اس کے مزے لے سکوں ،اور اس سلسلے میں کوئی نہ مجھے روک ٹوک کرے اور نہ کوئی میری واچنگ کرے ، مگر جیسے ہی میں ڈوبنے لگوں یا ڈوب چکوں تو میری مدد کے لیے اسی لمحے کوئی ہاتھ میرے بہت قریب ہونا چاہیے ۔


بتائیے کیا یہاں عمل اور توقع میں تضاد نہیں ہے ؟

بالکل اسی طرح سے آج کی جنریشن میں کوئی شخص کوئی فرد اپنی تمام خاندانی اقدار وہ روایات کو توڑتے ہوئے اپنی مرضی اور چناؤ سے ایسی زندگی گزارنا چاہتا ہے ، جو اپنے انگریڈئینٹ کی ایسی فہرست رکھتی ہے 

جو دیگر افراد کی مرضی اور ان کی خواہشات و اقدار سے مطابقت نہیں رکھتیں تو بتائیے کہ ان کے پاس اس کے سوا کیا چارہ ہے کہ وہ اس شخص کو اس کے راستے پر ٹ کی زندگی یا اس کے کمرے میں تنہا چھوڑ کر لا تعلق ہو جائیں ؟


کیا ان کے پاس ایسی کوئی مرضی یا چناؤ کا اختیار نہیں ہوتا ؟

ان باہمی توقعات اور ذمہ داریوں کے تال میل شرائط و ضوابط کو کیسے سمجھا جائے اور طے کیا جانا چاہیے ؟


شاہد حسین 

12 جولائی 25

Optical art and society


 (1)

ان دونوں تصاویر میں چہرے کا رنگ ایک جیسا ہے مگر نظر آنے میں دائیں طرف گرے ہے اور دوسرا سفید ،

 یہ ایسا کیوں ہے ؟


ان دونوں امیجز کو  خاص مقام سے جوڑ کر ہم ابھی بطور ثبوت دیکھتے ہیں ۔


(2)

دراصل یہ ایک نظری مغالطہ (optical illusion) ہے جو ،

 "afterimage effect"

 یا "simultaneous contrast"

 کہلاتا ہے۔

 دونوں تصویروں میں چہرے کا رنگ واقعی ایک ہی ہے، لیکن وہ ہمیں مختلف اس لیے دکھائی دیتا ہے کیونکہ ،

بائیں طرف چہرے کا پس منظر زیادہ گہرا سبز ہے جبکہ 

دائیں طرف چہرے کا پس منظر ہلکا پیلا ہے۔

ہوتا یہ ہے کہ انسانی آنکھ اور دماغ کسی رنگ کو اس کے ارد گرد کے رنگوں کے ساتھ موازنہ کر کے دیکھتے ہیں۔

 چنانچہ گہرے پس منظر کے سامنے ہلکا رنگ زیادہ روشن یا سفید لگتا ہے۔

اور ہلکے پس منظر کے سامنے وہی ہلکا یا سفید رنگ قدرے گہرا یا سلیٹی گرے محسوس ہوتا ہے۔


 (Contrast Illusion )

کی وضاحت,

اسے "simultaneous contrast illusion" کہتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ ایک ہی رنگ کا ٹکڑا جب مختلف بیک گراؤنڈز پر رکھا جاتا ہے، تو وہ مختلف دکھائی دیتا ہے۔

ترجمہ و ترتیب 

شاہد حسین 

12 جولائی 25


Friday, July 11, 2025

بوسنیا نسل کشی


 بوسنیا جنگ (1992-1995)

جو کہ ، 11 سے 13 جولائی 95 کو اختتام پذیر ہوئی 

 کے دوران،

 تخمینوں کے مطابق ، جنہیں یہاں اے ائی کی مدد سے ترتیب دیا گیا ہے ۔ 

1,00,000 سے 1,10,000،

افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے تقریباً 70% مسلمان (بوسنیاک) تھے۔ یعنی 70,000 سے 77,000 بوسنیائی مسلمان اس جنگ میں شہید ہوئے۔ اس کے علاوہ، تقریباً 20,000 سے 30,000 خواتین کے ساتھ جنسی تشدد کیا گیا، جن میں سے اکثریت مسلمان تھیں۔  


اس نسل کش جنگ میں مسلم اور عرب دنیا کا کردار، 

ایران، ترکی، سعودی عرب، پاکستان، سوڈان اور دیگر مسلم ممالک نے بوسنیا کی حکومت کو ہتھیاروں، فنڈز اور رضاکاروں کی شکل میں مدد فراہم کی۔  

 سب سے زیادہ ایران نے بوسنیائی فوج کو اسلحہ اور تربیت دی، جبکہ ترکی نے سیاسی سطح پر بوسنیا کی حمایت کی اور NATO کی مداخلت کو فروغ دیا اور ترکی نے ملائیشیا، انڈونیشیا اور کئی عرب ممالک نے مل کر پناہ گزینوں کے لیے خوراک، ادویات اور دیگر امداد بھیجی۔  


  Organisation of Islamic Cooperation (OIC)

 نے بوسنیا کے حق میں اقوام متحدہ میں سفارتی دباؤ بڑھایا اور سربیا کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کی کوششیں کیں۔  

سعودی عرب نے "Al-Haramain Foundation" جیسے اداروں کے ذریعے امدادی کام کیے۔ اسی طرح سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک نے مالی امداد بھیجی اور بین الاقوامی فورمز پر بوسنیا کے حق میں آواز اٹھائی۔ جو کہ عربوں کے دنیا بھر میں طاقتور اثر رسوخ کے سامنے بہرحال ایک کمزور کردار رہا ۔ 

 کچھ عرب اور دیگر مسلم ممالک (خاص طور پر افغان جنگ سے واپس آنے والے) رضاکاروں نے بوسنیائی فوج کے ساتھ مل کر لڑائی میں حصہ لیا یوں مسلم ممالک سے تعلق رکھنے والے رضاکار فوجیوں کی مدد نے انہیں مزاحمت جاری رکھنے میں مدد دی

 تاہم، ان میں سے کچھ گروہوں پر بعد میں انتہا پسندی کے الزامات لگے۔  

 مجموعی طور مسلم دنیا نے بوسنیا کی حمایت میں اہم کردار ادا تو کیا، لیکن یہ مدد NATO کی فوجی مداخلت (1995) تک محدود رہی، جس کے بعد سرب فورسز پیچھے ہٹ گئیں اور ڈے ٹن معاہدہ (1995) کے تحت جنگ ختم ہوئی۔ لیکن اس خانہ جنگی میں بوسنیائی مسلمانوں کو بہت بڑا جانی نقصان اٹھانا پڑا۔


ان اعداد و شمار پر مبنی تحریر کا اختتام ہمارے آرٹ ادب اور فلم سے تعلق رکھنے والے دوستوں سے اس سوال پر کر رہا ہوں

کہ دنیا بھر میں جن اقوام پر ظلم اور جبر کے ذریعے جنگ مسلط کی گئی یا ان کا قتل عام ہوا ان میں سے عقلی و شعوری ترقی یافتہ اقوام نے ہمیشہ ان سانحات کو یاد رکھا اس پر حقائق کے ساتھ لکھا یا افسانوی تصوراتی اور شاعرانہ انداز سے لکھا مصوری کی فلمیں اور ڈرامے بنائے ۔

کیا مسلم ورلڈ نے بوسنیا میں ہونے والی مسلم نسل کشی کے اس موضوع پر گزشتہ 30 سالوں میں ان حوالوں سے کچھ خاطر خواہ کام کیا ؟


ترجمہ و ترتیب 

شاہد حسین 

11 جولائی 25

Thursday, July 10, 2025

PTV public


 1968 ،میں جب ہماری فیملی کراچی  شفٹ ہوئی تو 1967 سے ہی میرے والد وہاں پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی کے علاقے میں چنیسر ہالٹ لوکل ٹرین اسٹیشن کے پاس  ٹیلے پر موجود گھر  رہائش  کے لیے لے چکے تھے ۔

یہ دور جہاں پاکستان کے حالات اور کراچی کے ماحول کے حوالے سے بہت اہم تھا ۔ وہیں یہ ہماری فیملی کے لیے بھی ایک مختلف دور تھا ۔

والد لاہور سے  کچھ فیملی کے اختلافات کی وجہ سے اپنا فلم انڈسٹری میں بطور سیٹ ڈیزائنر کے تقریباً عروج کا وقت اور بہترین کمائی کا    

دور چھوڑ کر آئے تھے جبکہ یہاں ابو کی وقتی جاب اور دیگر محدود وسائل کی وجہ سے آمدن کوئی خاص نہ ہونے کے باوجود کچھ کمپرومائزز اور گھر کی بجٹنگ سے ہم تفریح کے مواقع بھی نکال رہے تھے۔ 


جیسے کہ ہر ہفتے اگر نہیں تو دو ہفتے بعد فلم بھی دیکھی جاتی تھی اور کہیں نہ کہیں پارکس اور تفریحی مقامات پر بھی ہمیں ضرور لے جایا جاتا تھا ۔


ایک تفریحی مقام ہل پارک تو بالکل گھر کے قریب ہی تھا  جو اس دور میں ابھی نیا نیا تعمیر ہو رہا تھا 

لیکن جو ہو چکا تھا وہ بھی اتنا خوبصورت اور اس دور کے سادہ لوگوں کی تفریحی ضرورت کو پوری کرنے کے لیے بہت طور کافی تھا ،

یہی وہ وقت بھی ہے جب یہاں پر فلپس یا این ای سی کمپنی کی طرف سے

پبلک ٹی وی لگائے گئے تھے ، جن کا پاکستان کراچی ٹی وی سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ اس کا ایک اپنا نشریاتی سٹیشن ہل پارک پر ہی موجود تھا جو پاکستان کی فلمیں اور گانوں کے پروگرام چلاتا تھا ۔


دوسری جگہ شاید فریر ہال تھی جہاں پر یہ ٹی وی لگائے گئے تھے ہم بچوں کو بہت سی تفریحی آزادی تو تھی لیکن اس طرح کے پبلک پلیس پر بیٹھ کر ٹی وی دیکھنا ہمیں اس دور میں بھی الاؤ نہیں تھا ۔


جبکہ یہی وہ دور بھی تھا جب پاکستان کے دور دراز غیر ترقی یافتہ علاقوں سے بہت سے لوگ تیزی سے روزگار کی تلاش میں کراچی منتقل ہو رہے تھے جو یقیناً اس دور میں بہت خوشحال نہیں تھے  اور جو یہاں کے مقامی تھے ان کے پاس بھی یہ جدید آسائشی اشیاء عام طور پر موجود نہیں تھیں لہذا یہاں پر لوگوں کا ایک ہجوم اکٹھا ہوا ہوتا تھا ۔

اور یہ بھی اسی دور کا ایک نمائندہ اشتہار ہے ۔


شاہد حسین 

10 جولائی 25 ۔