Friday, February 28, 2025

Lost 1

 

Walking in Beauty,

کے ٹائٹل سے بائیں جانب دو مل کر کام کرنے والے ہسپانوی آرٹسٹوں، 

Coderch & Malavia" 

کا 2023 میں کیا گیا کام ہے ۔

جو چھوٹے سائز میں مکیٹ تقریباً 14 انچ اونچا اور 10 انچ چوڑا ہے ،

جبکہ اس کا ایکچول سائز ،

تقریباً 85 انچ اونچا اور 69 انچز چوڑا ہے اور اس کا میڈیم ہے برؤنز یعنی کانسی ہے ۔

یہ دونوں ہسپانوی فنکار انسانی جسم کی خوبصورتی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اپنے  مجسموں کے لیے جانے جاتے ہیں، اور اکثر ان کے موضوعات، رقص اور تھیٹر سے متاثر تھیمز کے ذریعے کسی بے اختیار اضطراری حرکت اور جذبات کی عکاسی کرتے ہیں۔ 

 کوڈرچ اور ملاویہ  دونوں مل کر کام کرتے، اور اپنی فنکارانہ حساسیتوں کو نہ صرف اپنی عملی ماہرانہ صلاحیت بلکہ کونسیپٹ میں بھی باہمی مشاورت سے ملا کر بہترین ماڈلز کی  مدد لیتے ہوئے  مجسمے بناتے ہیں۔ 


 دائیں جانب ،

Kneeling Runner,

کے ٹائٹل سے میرا 1998 میں کیا گیا کام ہے ،

جس کا سائز ، تقریباً 14 انچ اونچائی اور تقریبا 18 انچ چوڑائی تھی ،

اور اس کا میڈیم پلاسٹر آف پیرس تھا ۔

اس میں بھی میں نے ایک نوجوان خاتون کھلاڑی کو دوڑنے سے پہلے کی پوزیشن میں جھک کر بیٹھے ہوئے بنایا تھا ، اسے برہنہ بنانے کا مقصد اسے کسی علاقائی یا ثقافتی پہچان کے بغیر ایک خوبصورت انسانی جسم کے طور پر اس کی متحرک ترین حالت سے لمحہ بھر پہلے کو بیان کرنا تھا ، لیکن اس میں کسی ماڈل کی مدد نہیں لی گئی تھی سوائے کچھ مختلف رسالوں میں موجود تصاویر کے جو کہ اگر ایک ہی پوسٹ کے مختلف اینگل سے نہ لی گئی ہوں تو مسلز کو حقیقی انداز میں سٹڈی کرنا مشکل ہوتا ہے ۔

اس کا تاریخی حوالہ یونان کی اسپارٹن خواتین تھا جنہیں مردوں کے شانہ بشانہ بالکل برابری کی بنیاد پر جنگ اور کھیلوں کے لیے جسمانی اور ذہنی طور پر تیار کیا جاتا تھا ، 

تاکہ وہ صحت مند اور مضبوط انسان اور مائیں بنیں عام طور پر وہ ایسے لباس پہنتی تھیں جو انہیں روزمرہ کے عام معمولات میں آسانی دیتا تھا لیکن خاص طور پر مذہبی اور کھیلوں کی تقریبات میں وہ مکمل طور پر برہنہ ہوتی تھیں جو اس وقت یونانی معاشرے میں بھی ایک مختلف و اچھنبے کی بات سمجھی  جاتی تھی ۔

لیکن میرا اس کے نیوڈ بنانے کا مقصد نسوانی جسم کی خوبصورتی اور نزاکت کو طاقت کے عنصر کے طور پر بھی پیش کرنا تھا ۔

اسی دوران کراچی میں ایک ملینیم شو ہو رہا تھا جس میں 

دنیا بھر سے آرٹ ویورز اور کریٹکس نے شرکت کرنی تھی اور آرٹسٹوں کو اس نمائش میں اپنا کام دو مراکز پر جمع کروانا تھا ، جس میں سے پھر کچھ کام کہیں پبلش کرنے کے لیے سلیکٹ ہونا تھا ۔


ایک علی امام صاحب کی بوٹ بیسن پر موجود گیلری میں اور دوسرا آرٹس کونسل کراچی پر ، میں نے اپنا یہ کام آرٹس کونسل میں رکھوایا ، اس دور میں موبائل فون عام نہیں تھا ، لیکن ایک دوست کے ذریعے لینڈ لائن فون پر پیغام ملتا رہا کہ وہاں بہت سے آرٹسٹوں نے اس کام کو سراہتے ہوئے میرے بارے حیران ہو کر پوچھا تھا کہ یہ کس کا کام ہے ؟

یہاں تک کہ ایک دوست نے تو مذاق سے یہ بھی فون کر دیا کہ آپ کا کام ونرز میں سلیکٹ ہو گیا ہے ۔

جبکہ سچ میں جس انٹرنیشنل ڈیلیگیشن نے آنا تھا معلوم ہوا کہ اسے علی امام صاحب نے 

بس بوٹ بیسن پر موجود اپنی گیلری کا وزٹ کروایا اور وہ وہیں سے واپس چلے گئے تھے ۔


خیر میرا یہ کام نمائش ختم ہونے کے بعد میرے پاس واپس آگیا اس دور میں اس قسم کا کام کسی کمرشل گیلری پر رکھوانا مشکل تھا ، بہرحال کچھ وقت کے بعد میرے سٹوڈیو سے ہی میرے ایک بائر نے یہ کام خرید لیا ،

وہ اپنے گھر کے لیے بھی مجھ سے اکثر کچھ نہ کچھ انٹیریئر اور ڈیکوریٹو آرٹ کے حوالے سے کام کرواتے رہتے تھے ، اسی سلسلے میں میں ایک دن ان سے ملنے گیا تو ان کے گھر کے برابر ہی ایک خالی پلاٹ تھا ،

میں دروازے کی بیل بجانے والا تھا کہ اس خالی پلاٹ میں میری کچرے میں ایک چیز پر نظر پڑی ، جو شاید کوئی ٹوٹا ہوا مجسمہ تھا میں نے قریب جا کر دیکھا تو وہ یہی میرا کام تھا ۔

میں ذہنی طور پر انتہائی شاکڈ ہو گیا بہرحال میں نے اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے ان سے ملاقات کی وہ بہت نفیس شخص اور میرے بڑے اچھے دوست تھے اور آج بھی ہیں ،

حال احوال کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ جو اسکپچر میں نے آپ کو دیا تھا وہ باہر کچرے میں ٹوٹا ہوا پڑا ہے اگر تو وہ غلطی سے ٹوٹ گیا تھا تو آپ مجھے بتاتے میں اسے ریپیئر کر دیتا ؟

وہ انتہائی افسوس اور شرمندگی سے سر جھکا کر کہنے لگے کہ شاہد مجھے تو وہ بہت عزیز تھا ،

بس میرے گھر ایک قابل احترام مہمان آئے جنہوں نے اسے غصے سے توڑ دیا ،

میں نے اپنے ملازم سے کہا تھا کہ اسے کہیں دور پھینک آوُ مجھے افسوس ہے کہ اس کاہل نے اسے ایسی جگہ پھینکا کہ تمہیں بھی یہ نظر آگیا میں چاہتا ہی نہیں تھا کہ تمہیں معلوم ہو کہ یہ ٹوٹ چکا ہے ۔


بہرحال مجھے افسوس تو ہوا لیکن میں نے ان سے اجازت لی کہ کیا اسے میں وہاں سے اٹھا کر لے جاؤں ؟

انہوں نے کہا کہ شاہد مجھے اور شرمندہ نہ کرو !

سو میں اسے لے آیا ، اور فرصت کے اس وقت کی تلاش کرتا رہا جس میں میں اسے دوبارہ سے ریپیئر کر سکوں ۔

لیکن اس دور میں یہ فرصت  بالکل بھی دستیاب نہیں ہوتی تھی اور مجھے تھوڑے تھوڑے وقت کے بعد اپنے اسٹوڈیو کی جگہ اتنی بار تبدیل کرنا پڑتی تھی کہ اس میں میں ذہنی طور پر ایسی حالت میں ہوتا تھا کہ اضافی سامان تو کیا اپنا بے شمار سنبھالا ہوا کام خود اپنے ہاتھوں سے توڑتا تھا ،

تو اس میں ایک پہلے سے ٹوٹی ہوئی چیز کو بھلا میں کیسے سنبھالتا ،

سو آج اس کا کوئی نشان باقی نہیں ہے سوائے اس عام سے کیمرے سے کھینچی ہوئی دھندلی تصویر اور کچھ دھندلی یادوں کے ۔


شاہد حسین 

28 فروری 25

Thursday, February 27, 2025

The Submission


 شبلی یا شبلی کے کام پر بات کرنے کے لیے میرا اس سے اپنا تعلق بتانا بڑا ضروری ہے ،

شبلی صرف میرے چھوٹے بھائی شہزاد کا دوست ہی نہیں اس نے بھی ہمیشہ مجھے اپنا بڑا بھائی ہی سمجھا ہے ،

جب وہ بی این یو کا سٹوڈنٹ اور وہاں موجود سلیمہ ہاشمی راشد رانا اور آرٹ کی تعلیم دینے میں دیگر دیوقامت اساتذہ سے سیکھتا تھا ،

وہیں اس کی مجھ سے بھی ملاقاتیں اور گفتگو جاری رہتی تھی ،

جس دن اس کا تھیسس تھا اس کے دیواری سائز گرڈ کے کام پر میری اس سے خوب بات ہوئی تھی ،

یہ گرڈ اس کے کام میں صرف ،

Piet Mondrian,

کی ٹو ڈائمنشنل کائناتی سچائیوں سے متعلق ہی نہیں بلکہ ظہور الاخلاق اور شبلی کے پسندیدہ استاد راشد رانا کی ذاتی سچائیوں سے بھی متاثر تھی ۔

اور میں نے اس سے تب ہی کہا تھا کہ بہت جلد تم اس میں اپنی زبان بھی بولو گے ، اور پھر میں نے شبلی منیر کو اپنے کام میں کسی طاقتور گھوڑے کی طرح سرپٹ دوڑتے دیکھا ، کسی کانکن کی طرح اپنی ذات میں مسلسل کھدائی کرتے دیکھا ، اور یہ سب وہ خاموشی سے نہیں کرتا تھا وہ خوب خوب الجھتا تھا سماج سے لوگوں سے ناراض ہوتا تھا یہاں تک کہ خدا سے بھی ۔ ۔ ۔ ۔ 


لیکن مجھے معلوم تھا کہ وہ ایک دن ،

SUBMISSION,

کے مقام پر بھی پہنچے گا ۔

دراصل ہم نہیں جانتے ، یا یوں کہیے کہ ہم سب کچھ نہیں جانتے کہ ہماری ذات کے انکار کب ہمارا اقرار بن جاتے ہیں ، کب ہمارے جھگڑے کسی ذات سے عشق اور ہماری اپنی انا کا انکار بن جاتے ہیں ۔


شبلی ہمیشہ اپنے کام میں مجھ سے رائے ضرور لیتا ہے اس بار بھی اس نے جب اپنے نئے کام پر رائے طلب کی تو میں نے کہا نہیں میں اس بار تمہارا کام دیکھے بغیر اپنی رائے دوں گا ،

بس دل چاہا اس سے یہ کھیل کھیلنے کو ، مجھے نہیں معلوم کہ میں اس کا جب کام اب یہ لکھنے کے بعد دیکھوں گا تو اس میں مجھے کیا کچھ نیا نظر آئے گا ،

جو میرے لکھے ہوئے کا انکار کرے گا لیکن مجھے اب اس اقرار اور انکار کی پرواہ ہی نہیں ہے ،

بس میں تو جتنا شبلی کو جانتا ہوں اس میں میں اس کا کام دیکھے بغیر ہی اس پر یہ کہوں گا کہ وہ دوڑنا جانتا ہے ، وہ کھوجنا جانتا ہے ، اسے زندگی میں جو کان دستیاب ہوئی ، وہ بے شک کوئلوں کی تھی مگر وہ اس میں سے ہیرے نکالنے جانتا ہے ۔

یقینا اس بار بھی وہ بہت قیمتی ہیرے تراش کر لایا ہوگا ۔


شبلی تمہارے لیے بہت سی نیک خواہشات ۔


شاہد حسین 

26 فروری 25

اسلام اور موسیقی


 Saeed Ibraheem:


ایک اہم سوال

جملہ قسم کے ذہنی زوال کے باوجود ملک میں مذہبی سوچ رکھنے والوں کی عظیم اکثریت ہے جس کے عقیدے کے مطابق موسیقی حرام ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر ان کی رائے مانتے ہوئے موسیقی پر مکمل پابندی عائد کردی جائے تو ہماری سوچ اور رویوں پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟


سعید ابراہیم

23 فروری 25


 Shahid Hussain: 

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے اگر میں سب سے پہلے اپنی رائے کو مختصراً بیان کر دوں تو ،


اگر انسان کی اس دنیا کی سخت ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے اس کے تمام اعمال اور افعال میں سے ،

موسیقی اور ایسے ہی دیگر بظاہر غیر ضروری نظر آنے والے لبریکنٹس کو نکال دیا جائے تو اس کی جسمانی فطری اور روحانی بناوٹ کے تمام پہلوؤں میں بس یا تو مشین بچے گی یا ۔ ۔ ۔ ۔



لیکن اس سادہ سے سوال پر آج ہم بات کیوں نہیں کر سکتے

جواب کیوں نہیں دے سکتے اس کے لیے ایک تفصیل درکار ہے اب وہ دوست جو اس موضوع میں دلچسپی رکھتے ہیں کچھ تفصیل پڑھ سکتے ہیں ۔


ہزاروں سال سے جاری انسان کے جسمانی تبدیلیوں کے ارتقاء 

کو تو ہم آج بہت سے سائنسی ثبوتوں اور شواہد سے دیکھ سکتے ہیں ،

مگر اس کے عقل و شعور کی کوششوں اور ترقی میں اس کے جمالیاتی افعال نے کس طرح مدد کی ،

اس کے لیے ہمیں اس کی تقریباً 40 ہزار سال پرانی سپین اور فرانس کی غاروں کی چھت و دیواری مصوری سے لے کر ، 

انڈس ویلی سولائزیشن ، میںسو پوٹیمیا ، مصر اور یونان سے لے کر مایا تہذیب ، اجنتا الورا کی غاریں بدھ مت اور اس کے بعد کئی بہت سے تسلسل میں موجود ،

مٹیریل کی بے شمار ابتدائی دقتوں کے باوجود کوئلے اور معدنیات سے بنائے گئے رنگوں، کہیں فریسکو، پھر آگے بڑھتے ہوئے پتھر لکڑی مٹی ، پکی ہوئی مٹی ، اور پھر مختلف دھاتوں میں 

مصوری مجسمہ سازی اور دیگر دستکاری سے جڑے فنون میں یہ سب کچھ دیکھ سکتے ہیں ۔

اوڈیسی ، اور دیگر داستانوں میں لٹریچر بھی کسی نہ کسی شکل میں پڑھا جا سکتا ہے ، کہ اس نے کس طرح سے سرد راتوں میں آگ سے روشن الاؤ کے گرد بیٹھ کر اپنے روز کے معمولات سے لے کر ایک دوسرے کو تصوراتی کہانیاں سنائی ہوں گیں ۔


مگر موسیقی ؟

موسیقی کسی دھن کی شکل میں ہمارے پاس صرف اس دور کی دستیاب ہے جسے کسی نہ کسی طور فوک میوزک ، کلاسک راگ راگنیوں اور گائکی کی شکل میں استادوں نے اپنے شاگردوں کو منتقل کیا ،یا میوزیکل نوٹس کے ذریعے سے لکھا ۔

وگرنہ قدیم موسیقی ہمارے پاس صرف اسی دور کی دستیاب ہے جب اسے ریکارڈ کرنے کا انتظام ہوا ۔


لیکن اس سے انکار نہیں ہے کہ ،انسان کے شعوری ارتقاء میں مصوری ، دستکاری ، ادب ، رقص اور موسیقی نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے ۔

اس دنیا کی پر مشقت ذمہ داریوں میں انسان کو کہیں نہ کہیں تو سستانے کے لیے کسی گھنے درخت کی چھاؤں کی ضرورت پڑتی ہے ، جس کے پھل کے چند دانے وہ ہاتھ بڑھا کر صرف بھوک ہی نہیں بلکہ اپنی ذائقے کو محسوس کرنے کی حس کو بھی تسکین دے سکے ، وہ پرندوں کی چہچہاہٹ کو سنتے ہوئے محظوظ ہو سکے ، جو اس کے تھکے جسم کے اعصاب کو تقویت دیتے ہوئے اس کی روح تک کو لطیف کرنے میں مدد دے سکے ۔

تو ان فنون نے انسان کو شعوری ترقی دینے میں اس کے اعصاب ہی نہیں بلکہ روح تک کو تسکین دیتے ہوئے بہت اہم کردار ادا کیا ہے ۔

 لیکن بے شمار ضرورتوں ، بنیادی دو بھوکوں سے لے کر انسانی خواہشات ، لالچ حرص ہوس کی فطرت رکھنے والوں سے لے کر ایثار قربانی کرنے والے انسانوں پر مشتمل گروہی اور سماجی پیچیدہ نظام میں ،

ایک دوسرے سے میل برت کرنے میں 

اخلاقی تربیت بھی ایک اہم ترین ضرورت رہی ہے ۔


جس کے لیے ایک مکتب فکر کہتا ہے کہ مذاہب اتارے گئے 

ایک کہتا ہے کہ کرییٹ کیئے گئے ،

اگر ہم دونوں سے الگ الگ بحث نہ بھی کریں تو بھی ایک بات تو اہم ہے کہ انسانوں کی اخلاقی تربیت میں 

مذاہب کی ضرورت تو رہی تب ہی تو یا اتارے گئے یا اس نے خود کرییٹ کیے اور ان کا کردار بھی اہم رہا ہے ۔


جس طرح سے ہزاروں سال سے قدیم فلسفیوں نے ،

انسان سماج اور خدا کے درمیان آزادانہ سوچ بچار و فکر کو جاری رکھا ،

بالکل اسی طرح سے مذہبی فلسفیوں نے اسے کسی نظام ، قانون یا پروٹوکول کی طرح نافذ بھی کرنا چاہا ،

مدتوں سے لے کر آج تک ان کے نفاذ کے لیے ریاستی مشینری سے بھی کام لیا جاتا رہا ۔

اب یہاں ایک پیچیدہ مرحلہ آتا ہے 

کہ انسانوں کی ایک اکثریت جو اپنی اخلاقی تربیت میں 

90 فیصد باتیں ماننے پر تیار ہی نہیں ہوتی ،

وہ 90 فیصد اس بات پر یقین ضرور رکھتے ہیں کہ کوئی انہیں سمجھانے والا اچھے اعمال کی تربیت و ترغیب دینے والا ہونا چاہیے ، کوئی انہیں اچھے عمل پر شاباش دینے والا برے اعمال پر سزا دینے والا اور پھر معاف کرنے والا ضرور ہونا چاہیے ۔


لیکن اگر اپ ان سے پوچھیں کہ آپ میں سے اچھے اعمال پر عمل کرنے والے کتنے ہونے چاہیے ؟

اس کا کبھی تسلی بخش جواب نہیں ملتا ۔

ہزاروں سال سے جہاں انسان کی مطلوبہ یا غیر مطلوبہ خواہش پر،

مذاہب وجود میں آتے رہے، اور وہ انسانوں کی تربیت بھی کرتے رہے ، کہیں بہت سخت اصول و ضوابط سے تو کہیں ان میں نرمیاں اور تبدیلیاں جاری رہیں ،

کہیں شہد کی مکھیوں اور چیونٹیوں کے گروہی نظام کی طرح انسانی سماج میں بھی اونچ نیچ کو رائج کیا گیا تو کہیں اسے ختم کرنے کی کوشش کی گئی ،

کہیں کامیابی ہوئی تو کہیں نہیں ہوئی ۔


اسی طرح کہیں کچھ احکامات مبہم غیر واضح یا نرمی سے دیے گئے ،

جبکہ کچھ کے بارے سخت لہجہ اختیار کیا گیا ،

مگر ان مذاہب کے ماننے والوں نے کمال ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے ، اپنی مرضی سے ان میں رد و بدل کیا ۔


جیسے کہ ایک مذہب کے ماننے والوں کے بارے کہا جاتا ہے کہ انہیں حکم دیا گیا تھا کہ طمع کو چھوڑ دوں 

مگر انہوں نے تمباکو چھوڑ دیا ۔


یا یہ بالکل اس طرح سے ہے کہ جیسے آپ 

بچے سے کہیں کہ ،

چائے کم پیا کرو یہ صحت کے لیے نقصان دہ ہے ،

لیکن شراب بالکل نہ پینا کیونکہ یہ تمہاری اخلاقیات کے لیے بھی نقصان دہ ہے ، مگر بچہ کمال ہوشیاری سے چائے پینا تو بالکل چھوڑ دے مگر شراب کی بوتل ہاتھ سے کبھی جانے نہ دے ۔


میں سمجھتا ہوں کہ ہزاروں سال سے انسان اور دیگر مذہبی اقوام کی طرح ہم مسلمان بھی اس عمل سے بچ نہیں سکے ،

ہمیں ہماری اخلاقی تربیت کے لیے جو بہت سے سخت احکامات دیے گئے تھے ، اور بار بار دیے گئے آج ان پر شاید بہت مختصر سی تعداد عمل کرتی ہوگی ،

مگر جن اعمال کے بارے ہلکے پھلکے مبہم اشاروں سے کچھ محتاط رہنے کا کہا گیا ، ان میں ہم نے انتہائی سختی اختیار کر لی ،

ایسے کلیور قسم کے ہیر پھیر سے اب ہماری اخلاقیات آج کہاں پر ہیں ،

اس کا ہم اپنی ارد گرد سماجی زندگی میں بہت اچھی طرح مشاہدہ کر سکتے ہیں ،


ہم میں سے زیادہ تر کے ہاتھوں نہ کسی کی عزت محفوظ ہے نہ اس کی جان نہ ہی اس کا مال ، جبکہ خدا کے احکامات میں نہ جانے کتنی بار کسی کا مال ناحق کھانے سے منع کیا گیا اور اس پر سخت سزا کی وعید سنائی گئی 

معمولی سے مسلکی اور فقہی اختلاف پر ہم ایک دوسرےکو قتل کرنے کے در پہ رہتے ہیں ، پر "کاپر" کا فتوی لگا دیتے ہیں 

 باقی کام کسی بپھرے ہجوم کے ذریعے خود ہی آسان ہو جاتا ہے ۔

جبکہ ناحق ایک انسانی جان کا قتل انسانیت کا قتل کہا گیا ہے ۔

اپنی عبادت گاہوں کو خدا کا گھر کہتے ہیں اسے ہی ایک دوسرے کے خون سے غسل دیتے رہتے ہیں ،

کسی کے پاس امانت رکھوا دیجئے اسے قرض دے دیجئے مجال ہے جو آپ کو واپس ملے ،

اس کے ساتھ مل کر کوئی کاروبار کر لیجئے مجال ہے جو وہ آپ کو دھیلے کا بھی فائدہ ہونے دے 

یا صرف تب تک جب تک وہ اپ کا پورا مال ہڑپ کر لے ۔

صفائی نصف ایمان ہے مگر کیا مجال جو کوئی گلی محلہ اور کھانے پینے کا سامان آپ کو صاف ملے ۔

 پانچ سال سے لے کر 

75 سال تک کی عورت محفوظ نہیں 

ماڈرن تعلیمی مراکز سے لے کر مدرسوں تک میں بچے محفوظ نہیں ،


مقدس کتاب کی پرنٹنگ کرنے کے نام پر لوگوں کو حج عمرہ کروانے کے نام لوگوں کا اربوں روپیہ کھا جانے والے 

خوفناک سے خوفناک قاتل جنسی درندے ، 

آزاد دندناتے پھرتے ہیں ، تھانوں تو کیا عدالتوں سے فخریہ انداز میں باہر آتے ہیں ، اور سماج میں بلا خوف و خطر گھومتے پھرتے ہیں ۔

مگر کسی پر مذہبی حوالے سے شک و شبہ سے کوئی جھوٹا الزام ، لگ جائے ، اس حوالے سے کوئی سوچ اور فکر کی بات کرتا نظر آئے ، اس کی خیر نہیں ہے ،


تو پھر بتائیے کیا کیا جائے ؟

مصوری رقص موسیقی اور ایسے ہی کچھ فنون ،

جائز ہیں یا حرام ہیں ؟

ان پر اکثر سوال تو سامنے آتا رہتا ہے ،

مگر بتائیے جس طرح کا ہجوم سامنے ہے ان موضوعات پر کھل کر بات کیسے ہو سکتی ہے ؟


قدیم دور سے ہی بہت سے بدلتے خیالات کے حامل مذہبی علماء نے اکثر ان کی وضاحت کی کوشش کی ہے ، ان میں سے راستے نکالنے کی کوشش کی ہے ،

چاہے وہ ہمارے صوفی درویش تھے ، جن میں حضرت امیر خسرو کا نام بہت اہم ہے اسی طرح سے اور بھی کئی ، 

جنہوں نے قوالی سے لے کر حالات موسیقی اور راگ راگنیوں پر بہت کام کیا ، یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر میں موسیقی کے بہت بڑے بڑے نام آپ کو مسلمانوں کے بھی نظر آتے ہیں ، اسی طرح اج بھی بہت سے علماء ان موضوعات پر کام کرتے ہیں ،

مگر شدت پسند مذہبی لوگ ؟


آج خاص طور پر اگر پاکستان کی بات کی جائے تو پاکستان گزشتہ تقریباً نصف صدی سے ایسے حالات سے گزر رہا ہے جس میں ہمارے اخلاقی معاملات میں دن بدن گراوٹ لیکن کچھ خاص کٹر قسم کے مذہبی رجحانات رکھنے والی شدت پسندی میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے ۔


اب اس کا حل کیا کیا جائے ؟

ایک درد دل رکھنے والا مفکر طبقہ اس پر ہمیشہ سے سوچتا رہا ہے ،

کیا بدلاؤ لانے کی کوششیں اتنی طاقتور ہیں کہ وہ بڑھتی ہوئی شدت پسندی کے طوفان کو روک پائیں ؟

گو کہ بہت آسان ہے کہ آپ اگر مذہبی احکامات پر ہی عمل کرنا چاہتے ہیں تو قران کو ترجمے سے پڑھیے ، اور بہت سے احکامات کی خود تفصیلات کو تلاش کیجیے ،

مگر ہم یہ نہیں کرتے اور ہم قدیم تشریحات کو ہی فالو کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

جس کے اثرات و نتائج میں تین طرح کے طبقات وجود میں آ رہے ،


پہلا ،کٹر قسم کے مذہبی نظریات رکھنے والے ، جن میں بہت مختصر تعداد اخلاقیات پر عملیت پسندی بھی رکھتی ہے ۔

دوسرا ،مذہب سے بالکل انکار کرنے والے مگر ان میں کئی لوگ اخلاقیات میں بہترین مقام پر ہو سکتے ہیں ۔

اور تیسرا جو سب سے زیادہ اکثریت میں ہے وہ ہے بظاہر مذہب کا نام لیوا مگر عملی طور پر ہر طرح کی اخلاقیات سے بے نیاز ۔


شاہد حسین 

24 فروری 25

فلسطین کا نوحہ


 جن احباب نے مکالمے میں اپنی رائے دی ان کا بہت بہت شکریہ ،


دوستو آپ جانتے ہیں، میری تو یہی کوشش ہوتی ہے کہ 

گفتگو میں خالصتاً مصوری اور فنون کے موضوعات تک محدود رہا جائے ،


لیکن آپ میں ہی سے کوئی نہ کوئی دوست ایسے موضوع کی طرف ڈرائیو ضرور کرتا ہے 

جو کسی بھی حساس دل کو متاثر کرنے والا ہوتا ہے ،

اور لوجیکل وجوہات تلاش کرنے والوں کو تڑپانے جیسا ہوتا ہے کہ کیا بس یہی کافی ہے کہ ہم ان پوسٹس کو دیکھیں سنیں اور آگے بڑھ جائیں ؟

 کیا ہم اللہ کی وہ مخلوق نہیں ہیں کہ ان حادثات و واقعات کے پیچھے وجوہات کو جاننے سوچنے سمجھنے کی کوشش کریں ؟


کتنی عجیب بات ہے کہ کچھ معاملات میں اگر آپ سائنس کو مانتے ہوئے انسان کی ابتدا کو حیوان قرار دے دیں یا پھر چاہے آپ مذہب کو مانتے ہوئے 

اس کو ابتدا سے ہی اعلی ترین خصوصیت کی حامل مخلوق انسان قرار دیتے ہیں ،

ان میں کچھ معاملات یکساں ہی قرار پاتے ہیں ۔


جیسے کہ اگر تو انسان اپنی ابتدا میں حیوان ہے تو تب بھی اسے علم کا ایک حصہ وجدانی طور پر تو ملتا ہے ۔


اور اگر وہ اپنی ابتدائی تخلیق سے ہی انسان ہے تو تب بھی اللہ نے اسے علم ایک حصہ ودیعت کر کے بھیجا ہے ۔


پھر اس سے آگے بڑھتے ہوئے انسان جب حیوان سے الگ و مختلف ہوتا ہے تو وہ مشاہدے سے سیکھنے والی مخلوق قرار پاتا ہے ،

پھر تحقیق جستجو سوال جواب ، اقرار انکار اپنے آباؤ اجداد کے فراہم کردہ تجربات اور اپنے نئے مشاہدات سے اپنے علم میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے ۔


لیکن کیا دنیا کے تمام انسان علم حاصل کرنے اور شعوری ترقی کی ان تمام صفات اور کوششوں میں یکساں ہوتے ہیں ؟


نہیں دیکھا یہ گیا ہے کہ وقت کے مختلف حصوں میں مختلف خطوں میں مختلف مختلف اقوام اس سلسلے میں کچھ تو ہمیشہ سے سبقت میں رہی ہیں اور کچھ اپنی سبقت میں بدلتی رہی ہیں ،

کچھ اقوام بہت عروج حاصل کر کے جب سہل پسند ہو جاتی ہیں تو پھر زوال پذیر ہو جاتی ہیں ،

پھر کچھ اقوام جب زوال میں انتہائی پستی میں چلی جاتی ہیں تو وہاں سے ٹکرا کر پھر ابھر کر عروج کے مقام پر آتی ہیں ،


اس کے بارے اللہ نے قران میں بھی کہا ہے کہ ہم قوموں کی حالت ان کی اپنی کوششوں اور کوششوں میں کوتاہی و نافرمانی کی بنیاد پر بدلتے رہتے ہیں ،اور ایک قوم کی جگہ دوسری قوم کو لے آتے ہیں ۔

یہاں یہ بات ذہن میں رکھی جائے کہ ایسا اللہ صرف اپنی مرضی سے نہیں کرتا بلکہ انسانوں کی غلطی کوتاہی اور نافرمانی کی بنیاد پر ۔ ۔ 


لیکن ان تمام اقوام میں ہمارا موضوع ہے مسلمان قوم !

کیا آج علم انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس جدید ترین دور میں 

جب ہمارے پاس علم کے بھی خزانے دستیاب ہیں ، اور ٹیکنالوجی کی بدولت ان تک رسائی انتہائی اسان اور مشاہدے کا بھی ہجوم دستیاب ہے ، تو کیا ہم سیکھنے اور سمجھنے والی قوموں میں شمار ہو رہے ہیں ؟


یقینا خوش فہمی بھی ایک بہت بڑی نعمت ہے ، لیکن حقیقت تو اس کے بالکل برعکس ہے ۔



مسلمان قوم جسے اللہ کی طرف سے سب سے پہلا پیغام علم حاصل کرنے کا ملتا ہے وہ علم حاصل کرنے میں اج کس مقام پر ہے ؟


جس کے ایمان کا نصف صفائی ہے ، تجارت جس کے نبی کا پیشہ ہے ، امانت اور ایمانداری جن کا لازمی وصف ہے دشمن سے لڑنا جس کے ایمان کا حصہ ہے وہ قوم ان سب معاملات میں کہاں کھڑی ہے ؟


1258 میں جب ہلاکو خان نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور مسلمانوں کے سروں کے مینار بنا دیے تو وہ اپس میں فقہی معاملات پر الجھنے اور جھگڑنے میں مصروف تھے ،


آج بھی نصف صدی سے لبنان ، لیبیا ، عراق ، بوسنیا ، شام , یمن ، افغانستان اور فلسطین میں مسلمانوں کو نیست و نابود کر کے رکھ دیا گیا ہے ،

لیکن ہمارے اپس میں فقہی مسائل اور ان کی بنیاد پر نفرت ختم ہی نہیں ہو رہی ، ہم ابھی بھی منتظر ہیں کہ کب ایران اور عربوں کی باری آتی ہے ،

ہم اپنے درمیان شیعہ سنی کی لڑائی ختم ہی نہیں کر پا رہے ۔


تقریباً 1400 سال پہلے جب اس اختلاف اور فساد کی ابتدا ہوئی تو جہاں تک معاملات کچھ دھندلکوں میں چھپے ہیں انہیں جانے دیجئے ، مگر جہاں ملوکیت جمہور کے مقابل کھل کر سامنے آگئی تھی مسلمان تو اسے بھی نہیں سمجھ سکے ،

اگر اس کی آسان وضاحت کی جائے تو ملوکیت میں عوام کی تمام ریسورسز پر شہنشاہیت کا قبضہ ہوتا ہے ، جبکہ جمہوریت میں ان پر عوام کا اختیار ہوتا ہے ، 1400 سال گزر گئے مگر مسلمان اج بھی یہ فرق ہی نہیں سمجھ سکے ،

تو پھر ہم سیکھنے میں کس مقام پر کھڑے ہیں ؟


جس نبی کو ہم مانتے ہیں محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ان کی اولاد ایک ایسا نظام چاہتی تھی جو شہنشاہیت تو نہیں تھا ، لیکن جو لوگ اس نظام کو نہیں چاہتے تھے وہ انہیں میدان کربلا میں شہید کر رہے تھے ،


اور ان شہیدوں کی یاد منانے والوں کو اج بھی قابل تنقید سمجھا جاتا ہے ،


کافر قرار دیا جاتا ہے اس ہونے والے ظلم کو شک شبہ اور شرعی احکامات کی آڑ میں چھپایا جاتا ہے ان کی تعلیمات کو چھپایا جاتا ہے ، اور ان کی بات کرنے والوں کو اور ان واقعات کو نوحوں کی شکل میں بیان کرنے والوں کو واجب القتل قرار دیا جاتا ہے ، 

لیکن کیا اج ہم فلسطین کا نوحہ بیان نہیں کر رہے ہیں ؟


یہ سب باتیں مسلمانوں کی اکثریت کو سمجھ کیوں نہیں آتی ہیں ؟

اگر ہم نے اپنے تاریخی سانحات کو نوحوں کی شکل میں بیان کرنے کو لازم سمجھا ہوتا تو یقینا ہم ان سے کچھ نہ کچھ سیکھتے بھی ۔


گزشتہ روز خاندان اہل بیت کے ایک امام کا ایسا قول پڑھ رہا تھا جو ایک سائنسی وضاحت تھی ،

لیکن ایک اکثریت نے صرف شیعہ تعصب میں اسے غلط قرار دیا ہوا تھا ،


میں نے اسی وقت وہی سوال چیٹ جی پی ٹی پر رکھا اس کا وہی جواب تھا جو 1400 سال پہلے امام کی اس تعلیم میں موجود تھا ،


تو آج مسلمانوں کی اکثریت اس چیٹ جی پی ٹی جیسی علمی سہولت سے فائدہ اٹھانے میں کس مقام پر کھڑی ہے ؟

اور وہ جن مسائل میں خواہ مخواہ الجھتی ہے ان کے جوابات وہاں سے تلاش کیوں نہیں کر لیتی ہے ؟

اور ان پر دنیا بھر میں جو ایک ایسا نظام مسلط ہے جو انہی کے حقوق غصب کر رہا ہے ،

انہیں وہ سمجھ کیوں نہیں آرہا ہے ؟


وہ شیعہ سنی کو چھوڑ دیں ، قران ان کے سامنے ہے ،

ترجمے کی سہولتیں ان کے سامنے ہیں وہ خود اسے پڑھ کر بہت سی باتوں کو واضح کیوں نہیں کر لیتے ہیں انہیں مان کیوں نہیں لیتے انہیں سمجھ کیوں نہیں لیتے ہیں ؟


ساڑھے چار ہزار سال پہلے ہمارے خطے کی قوم شہری تعمیر میں انتہائی ڈسپلنڈ تھی ،

کیا اج ہم اس میں ترقی کر سکے ؟

آج ہمارے اکثریتی مسلم ممالک کے شہروں میں بے ہنگم تجاوزات بے ترتیب تعمیرات عام ہیں ،

جبکہ ہمیں راستوں کو کشادہ رکھنے کا حکم دیا گیا تھا ،


ہمیں یہ باتیں سمجھ کیوں نہیں آتیں ، ابھی رمضان آنے والے ہیں ہر مسلمان روزہ رکھنے کے معاملے میں سختی سے عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے ، نئے رجحانات میں تو نہ بزرگوں کو چھوٹ دی جاتی ہے نہ بیماروں اور نہ بچوں کو ،ہر طرف پابندی لگ جاتی ہے ۔


مگر کیا ملاوٹ شدہ 

گندگی سے بھرپور ،

اور مہنگی اشیاء پر بھی پابندی لگتی ہے ؟

سب سے زیادہ ہماری تعلیمات میں ہی یہ باتیں عام ہیں کہ اس دنیا کو مستقل ٹھکانہ نہ سمجھو دولت کے حصول میں دوسروں کے مفادات کو کچلنے میں حد سے آگے نہ بڑھو ، مگر ہم اپنی تعلیمات پر عمل میں کہاں کھڑے ہیں ؟


اور ایسی ہی بد اعمالیوں کا نتیجہ صرف ہمارے زوال نہیں بلکہ دنیا بھر میں ہماری ذلت و رسوائی ، اور تباہی کی صورت نکل رہا ہے ۔

مگر ۔ ۔ ۔ ۔ 

شاہد حسین 

27 فروری 25

Monday, February 24, 2025

The Smokewomen


 تمباکو نوشی نقصان دہ ہے یہ تو ہم سب جانتے ہیں ، لیکن کسی خاتون کے حوالے سے اس شوق کو بہت زیادہ کریٹیکل یا مختلف انداز سے کیوں دیکھا جاتا ہے ؟


یہ سوال میری خاتون دوست کے ساتھ ایک مکالمے کا حصہ ہے ، جسے ایک سماجی سروے کے طور پر آپ دوستوں کے سامنے بھی رکھ رہا ہوں آپ کی اس میں کیا رائے ہے ؟

گزارش ہے کہ اس پر اپنی رائے دیجئے مصنوعی ذہانت سے مدد نہ لیجئے 🙂


اس سوالیہ تحریر کے لیے پینٹنگ ،

Portrait of Suzanne,

کو لیا گیا ہے جو بیلجیم کے آرٹسٹ آگسٹی لیویک کی ہے ۔

Auguste Leveque

 1866 سے 1921 تک کا مصور تھا جو اپنے کام میں حقیقت پسندی اور علامت دونوں سے متاثر رہا ۔

 Levêque 

پینٹر ہونے کے ساتھ ایک مجسمہ ساز، شاعر اور آرٹ تھیوریشین بھی تھا۔


شاہد حسین 

18 فروری 25

Sharjah Wood


 شارجہ میڈیا سٹی (شمس) کے ایک پرجوش منصوبے کے ساتھ بین الاقوامی فلمی صنعت میں ڈرامائی قدم اٹھا رہا ہے۔  

'شارجہ ووڈ' کے نام سے یہ اختراعی پروجیکٹ امارات کو سنیما پروڈکشن کے ایک علاقائی مرکز کے طور پر قائم کرنے کی کوشش کرنا ہے، جس سے متحدہ عرب امارات کے میڈیا کے منظر نامے میں انقلاب برپا ہو گا۔


 اس پروجیکٹ میں جدید ترین سنیما اسٹوڈیوز، میڈیا اسٹارٹ اپس کے لیے ایک SME سنٹر، اور میڈیا کے پیشہ ور افراد کے لیے ایک علیحدہ رہائشی کمیونٹی ہے۔ یہ سہولیات فلم سازوں کو اپنے خیالات کو حقیقت میں بدلنے کے لیے اعلیٰ ترین سہولیات کے ساتھ کام کرنے کے قابل بنائیں گی۔


 شمس کی چانس پروڈکشن سہولت کے نئے افتتاح کے ساتھ، یہ منصوبہ خطے میں فلم سازی کی صنعت کو بدل دے گا۔ وژن ایک خود ساختہ تخلیقی ماحول قائم کرنا ہے جو ہنر اور جدت کو فروغ دیتا ہے۔ 


 بنیادی طور پر، شارجہ ووڈ ڈیجیٹل جدت، پائیداری، اور ٹیکنالوجی اپ گریڈ پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ چونکہ یہ بین الاقوامی فلم پروڈیوسروں اور سرمایہ کاروں کو راغب کرتا ہے، یہ متحدہ عرب امارات کی تخلیقی معیشت کے لیے ترقی کا ایک بڑا محرک ثابت ہوگا۔

21 Feb 25 

Facebook page 

Tribune Trends.

 

 آج سے 30 سال پہلے جب کراچی سے شائع ہونے والی ایک چھوٹے سے رسالے میں مجھے لکھنے کا موقع ملا ،

تو اس میں دوسری تحریر اس موضوع پر تھی کہ ،

عربوں کے پاس چونکہ مالی وسائل بہت زیادہ ہیں ،

تو انہیں ہالی وڈ کے پیٹرن پر ایک علاقائی اجتماعی فلم انڈسٹری کا قیام عمل میں لانا چاہیے ، کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہندوستان کی فلم انڈسٹری شاید ہالی وڈ سے فلمیں بنانے میں تعداد میں زیادہ بڑی ہے 

مگر خاص طور پر وہ اپنے پڑوسیوں اور خطے کے ٹیلنٹ کو قبول کرنے میں کچھ تنگ نظری کا شکار رہے ہیں ۔


80 کی دہائی کے ایک خاص وقت تک روس کے ساتھ جب ان کے تعلقات اچھے رہے تو ان کی بہت سی فلموں میں ڈانس کورس میں جو ہم بہت ہی خوبصورت معاون اداکارائیں دیکھتے تھے وہ زیادہ تر رشین ہوتی تھیں ،

اسی طرح سے ان کی فلم پراسیسنگ کا بہت سا کام بھی روس میں ہوتا تھا ،

شاید دیگر ٹیکنیکل سہولتیں بھی ،

مگر ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے خطے کے دیگر پڑوسی یا ان سے متصل ممالک کی چھوٹی چھوٹی فلم انڈسٹریز سے جڑے فنکاروں یا ٹیکنیشنز کو بھی اپنے پاس جگہ دی ہو ،

جبکہ ہالی وڈ ایک ملک اور اس کی سٹیٹ میں تو ہے مگر وہ اپنی حیثیت میں ایک الگ دنیا ہے 

جہاں دنیا بھر کے انویسٹرز ، فنکار اور ٹیکنیشنز مل کر کام کرتے ہیں 

اور وہاں سے بن کر جو پروڈکٹ یعنی فلم باہر آتی ہے ،

وہ فلم ہالی وڈ کی ہوتی ہے ۔

یہ تو بھلا ہو اب آج کے سوشل میڈیا کا جس کی وجہ سے بہت سی تفصیلات ہمیں معلوم ہو جاتی ہیں ورنہ اس سے پہلے تو ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتا تھا جب تک کہ ،

ان کی فلم میں کوئی ہمارا اداکار نہیں ہوتا تھا جسے ہم سکرین پر دیکھتے تھے ، اس کے علاوہ ہم جان ہی نہیں پاتے تھے کہ پیچھے ٹیکنیشنز میں کون کون سے لوگ ہمارے خطے یا ممالک سے تعلق رکھتے ہیں ۔


شرمین عبید چنائے جیسے لوگوں کا ایوارڈ لینا وہ ایک الگ موضوع ہے 

اور آج شاید بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ سکرین پر نظر آنے والے صرف فرحان طاہر نہیں ، بلکہ پس پردہ عطا اللہ عیسی خیلوی صاحب کی بیٹی بھی بہت سی بڑی بڑی فلموں کی اینیمیشن میں شامل ہے ۔


لیکن پھر بھی ان بڑی انڈسٹریز میں ہمارے ٹیکنیشنز تو کیا فنکاروں تک کا داخلہ آسان نہیں ہے ۔


تو اس سلسلے میں ان عرب ممالک جن کے پاس دولت کے انبار ہیں ، اور وسیع ریگستان ہیں ، ان کے لیے کوئی مشکل نہیں ہے کہ وہ وہاں پر ایک ایسی فلم انڈسٹری بنائیں ،

جہاں پر تمام عرب ریاستوں کے ساتھ ساتھ اس خطے کے 

دیگر بہت سے ممالک کہ فلم شعبے سے تعلق رکھنے والے ذہین اور قابل لوگ شامل ہو کر فلم اور ویب سیریز وغیرہ بنائیں ،

نیٹ فلیکس اور ایمازون پرائم جیسے اپنے ،

OTT,

پلیٹ فارم بنائیں ،

تو یہاں اس سلسلے میں بھی بہت کام اور بڑی ترقی ہو سکتی ہے جو اس خطے کے معاشی معاملات ہی نہیں بلکہ بہت سے پیچیدہ سیاسی ، سماجی معاملات سمیت لوگوں کی سوچ اور فکر کو بدلنے میں معاون ہو سکتی ہے ۔


فلم اور اسی طرح کے دیگر میڈیمز آج کی دنیا میں کتنے طاقتور اور اہمیت کے حامل ہیں ہم اسے ابھی تک سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہو پا رہے اور اگر اس سلسلے میں کچھ کام ہو رہا ہے تو یہ بہت خوش آئند ہے ۔


شاہد حسین 

24 فروری 25

IQBAL HUSSAIN


 گہری تاریکیوں میں بھوتوں چھلاووں کی بارات کی طرح روشن ہو جانے والے بازاروں کے بارے بات ہمارے موضوع کو بہت طویل کر دے گی ،

بس منیر نیازی کا شعر ان کے بارے کہا جا سکتا ہے ،


"کج شہر دے لوگ بھی ظالم سن ،

کچھ سانوں مرن دا شوق وی سی "


لیکن اسی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے

آج کے پاکستان کے نامور مصور ،

اقبال حسین صاحب کو کون نہیں جانتا !

 

اور حفیظ جالندھری صاحب نے شاید ایسے ہی لوگوں کے لیے یہ شعر کہا ہے ،


"حفِیظ اہلِ زباں 

کب مانتے تھے

بڑے زوروں سے منوایا گیا ہُوں"


اسی طرح میں سمجھتا ہوں کہ اقبال حسین نے بیسویں صدی کے مشہور فرنچ رائٹر ناولسٹ ،

آندرے مارلوکس کی بات کو بھی سچ کر دکھایا ،

"Art is a rebellion against fate."

-Andre Malraux


آرٹ بدقسمتی کے خلاف بغاوت ہے ۔


میں نہیں سمجھتا کہ اقبال حسین نے کسی آرٹ فل طریقے سے اپنی پیدائشی طور مل جانے والی خامیوں کمزوریوں ، محرومیوں یا بدقسمتی کو ہتھیار بنایا ، بس اس نے بڑی سادہ خوبصورتی سے اپنی زندگی کے وہ حصے جو تاریک تھے یا خالی رہ گئے 

اس نے انہیں اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کے رنگوں سے پر کر دیا ۔


ہاں یہ ضرور ہے کہ ان خالی جگہوں پہ بہت سے سوالات ابھی بھی موجود ہیں اور ان کے جوابات ہمیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے ، کہ ہمارا کوئی بھی گمنامی میں بیٹھا فنکار ہمیں تب ہی کیوں نظر آتا ہے ،

جب تک وہ فنکار دیوتاؤں کے اولمپس پہاڑ پر نہیں چڑھتا ،

یا وہاں سے کوئی اولمپیا دیوی اپنی خوش قسمتی کی روشن مشعل لے کر 

 اس فنکار تک نہیں پہنچتی ؟

وہی سماج ترقیافتہ اور باشعور کہلاتے ہیں جو ایسی بدقسمتیوں کے خلاف بغاوت ہی نہیں انہیں شکست بھی دیتے ہیں ۔


شاہد حسین 

23 فروری 25

Friday, February 14, 2025

ترجمے کا دن


 Syed Shahab Shah:


 اگر آپ کو پورے جہان کی بادشاہی بھی مل جائے تو ایسی بادشاہی کا کیا فائدہ؟ اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ آپ کے غم مزید بڑھ جائیں گے۔


انصاف اور مساوات کے ساتھ توازن رکھنا انتہائی مشکل کام ہے۔ کچھ چیزوں کو کم کروگے تو کچھ اور زیادہ ہوجائے گی۔


کیا تمہارے اپنے غم کم ہیں جو پوری دنیا کے غم اپنے سر لینا چاہتے ہو؟


ایسے تخت کا کیا کرنا جس پر دن رات رونا پڑے؟


بادشاہ (حکمران) ایسا ہے جیسے خچروں کی بھیڑ میں سب سے بڑا خچر آگے آگے ہو۔


جانوروں کا بڑا بادشاہ سب سے بڑا جانور ہوتا ہے۔


یہ دنیا کتے کی دم کی مانند ہے جو نہ کبھی سیدھی ہوگی اور نہ ہی ٹھیک۔


اس کا رنگ کالی بلی جیسا ہے، جتنا دھولو اتنی ہی مزید کالی ہوگی۔


بادشاہی تب بنتی ہے جب آدھے لوگ آدھے لوگوں کو قتل کریں۔


اور جب ایک انسان دوسرے کے گوشت کو اپنے گھر کے کتوں کو کھلا کھلا کر ان کا پیٹ بھر دے۔


ایسی زندگی کا مقصد کیا کہ جب تم باغ کی رکھوالی کرو اور بلبلوں کو قتل کرو اور گلابوں کو روند ڈالو۔ 


اے رب! اگر تُو مجھے پورے جہاں کی بادشاہی دے بھی دے تو میں اسے ایسے ہی باہر پھینک دوں گا جیسے لوگ گوبر اپنے گھر سے باہر کچرے پر پھینکتے ہیں۔


دو گھڑی کی زندگی کو میں لڑائی جھگڑوں میں نہیں گزار سکتا۔


ظلم سے بھری ہوئی بھڑکتی ہوئی ہانڈی کے اوپر کوئی دوسرا سر رکھ دے۔


مجھے کچھ گلاب دے دے اور ایک بہت لاڈلا محبوب۔


دریا کے کنارے ایک باغیچہ دے دے۔


اور اس دریا کے کنارے درخت کے سائے تلے میں بیٹھا رہوں۔


اور خوب آرام سے مزے مزے کی غزلیں لکھا کروں۔


کبھی محبوب سے التجائیں کروں اور کبھی برا بھلا ملّا کو کہوں۔


ساقی اور ساغر کی بے حساب تعریفیں کروں اس بے حس سماج کو۔ 


اے اللہ! کبھی کبھی میں تجھ سے بچوں کی طرح گلے شکوے کروں۔


کبھی کبھی زندگی کی امیدیں، اور کبھی حسرت و یاس سے بھری آہیں۔


کبھی رباب، کبھی ہلکی موسیقی، کبھی جام، کبھی دلبر۔


کبھی رنگوں کی دنیا میں ڈوب جانا، اور  جہاں سے مکمل بے خبر۔


بادشاہی انہیں دے جو اس کا زور برداشت کرسکیں۔


جن کے ہاتھ قصائی کے ہوں، اور جن کی خصلت زہریلے سانپ کی طرح ہو۔


جو خود کے لیے اپنے بھائی کو قتل کر سکے۔


جو غریبوں کا گوشت کھا کر ہضم کر سکے۔


وہی سر تاج پہن سکتا ہے جو قتل عام اس طرح کرے جیسے مہلک وبا۔


جو ببر شیر کی طرح دھاڑتا ہو، چیرتا ہو، اور اژدہا کی طرح خوف پھیلاتا ہو۔


تخت بھی تیز تلواروں اور طاقت کے استعمال کے بغیر برقرار نہیں رہ سکتا۔


بادشاہ جتنے بھی زیادہ ہوں اتنی ہی دنیا برباد ہوگی۔


بڑا بادشاہ سب سے بڑی جھونک ہوتا ہے، یہ خون اور پیپ سے پلتا ہے۔


بادشاہی آگ کی طرح جلانے اور راکھ کرنے پر پلتی ہے۔


ہمارے رب ہم پر اپنا خاص فضل کرے اور ہمیں اس بلا سے نجات دلا دے۔


کسی بڑے گدھے کے اوپر ہیرے جواہرات سے بھری یہ بوری رکھ دے۔


صاحب اس گدھے سے ہمارے لیے سفارش کر دے۔


کہ خیال رکھنا کہیں غنی کو لات نہ مار دے۔

شاعر ، غنی خان 



 Syed Shahab Shah: 

کاش، میں غنی خان کی اس عالمگیر شاعری کا ترجمہ اسی گہرائی اور وسعت کے ساتھ کر سکتا۔

اس میں پوری دنیا کے حکمرانوں کی بربریت، ظلم و استحصال اور بادشاہوں کی خصلت کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔


Shahid Hussain:

 یورپ میں ،

مجموعی طور پر ڈھائی سو کے قریب زبانیں بولی جاتی ہیں ،

جن میں سے 24 کو یورپی یونین باقاعدہ ریکگنائز کرتی ہے ۔


ٹھیک ہے کہ تقریبا آٹھ دہائی  پہلے یورپ شدید جنگ سے گزرا ، مگر اس کے بعد یورپ متحد ہو گیا ۔

اب سوچنے کی بات ہے کہ ڈھائ سو کے قریب زبانیں بولنے والا وسیع خطہ متحد کیسے ہو گیا ؟


دیکھیے اس کی بہت سی وجوہات ہیں آپسی بہت سے کمپرومائز ہیں ، جن میں سب سے اہم اقتصادی ترقی کے حوالے سے ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ ہے ،

اور اس کے بعد ایک دوسرے کی خاص خاص زبانوں کا احترام ہے اور ان کی انڈرسٹینڈنگ ہے ۔

جس میں وہاں تراجم نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔

جن میں ایک نے دوسرے کی کتاب کو نہ صرف ترجمہ کیا بلکہ کئی بار ایک ہی کتاب میں دو تین زبانیں کے آپشن موجود ہوتے اور پھر ان کی فلمیں کئی زبانوں میں ڈب ہوتی رہیں اب تو ایمازون اور نیٹ فلیکس جیسی مووی سٹریمنگ سائٹس پر بیشتر فلمیں درجن بھر سے زائد زبانوں میں دستیاب ہوتی ہیں ۔


اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ترجمہ اصل روح کو پوری طرح سے منتقل نہیں کر پاتا ،

لیکن پھر بھی اس کا ایک مجموعی تاثر ، یا ایک ایسا خاکہ ضرور منتقل کرتا ہے جسے پھر دوسرے انسان خود اپنے احساسات اور جذبات کی مدد سے آمیزش سے ترجمہ کر لیتے ہیں لیکن کہیں نہ کہیں وہ ابتدائی ترجمہ بہت ضروری ہوتا ہے جس میں پہلے ہم کسی لفظ کے معنی کو ہی نہیں جان پاتے جبکہ ترجمے سے جان لیتے ہیں۔


اور اس سلسلے میں ہمارے خطے میں بڑی کوتاہی کی گئی ہے ،اور تو اور ہم اپنے ملک میں مختلف زبانوں کے بہت بڑے بڑے شاعر اور ادیبوں تک کو نہیں جان سکے ،

ایک دوسرے کی بات کو ٹھیک طرح سے نہیں سمجھ سکے نہ سمجھا سکے ۔ 

آج اتفاق سے مجھے ایک دوست اعجاز ملک نے ذاتی طور نصرت فتح علی کا پنجابی گیت بھیجا ہے جو میری مادری زبان ہے لہذا اس کو تو میں پوری طرح سے محسوس کر پا رہا ہوں جبکہ دوسرے دوست اکرم دوست نے بلوچی گیت بھیجا ہوا ہے ،

جس کی دھن میں موجود تاثرات تو میں وصول کر پا رہا ہوں لیکن لفظوں میں چھپی معنویت  سے میں نابلد ہوں ناواقف ہوں ۔



شہاب بھائی آپ ان باریک باتوں کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں ، اور پھر ان کا سدباب بھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔


آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے نہ صرف اس گیت کو ایک گلوکارہ کی خوبصورت گائی ہوئی آواز اور دھن کے ساتھ شیئر کیا ،

بلکہ اسے اصل شاعری اور پھر اس کے ترجمے کے ساتھ بھی ہمارے ساتھ اشتراک کیا ،

میں سمجھ رہا ہوں کہ آپ اس کے باوجود  اپنے آپ میں ایک بے بسی محسوس کر رہے ہیں کہ شاید آپ پوری طرح سے شاعری کا مفہوم ہم تک نہیں پہنچا پا رہے ، میں کہوں گا نہیں آپ بے فکر ہو جائیے ، اس مٹیریل ورلڈ کی کچھ دقتوں کی اگر حد بندیاں انسانی کوششوں سے توڑ دی جائیں جیسے کہ ترجمے کی ابتدائی دقت تو پھر اس کے بعد ہماری روح کے پاس ایک اپنی ایپ موجود ہوتی ہے جو کہیں نہ کہیں حقیقی تاثرات سے اگے بڑھتے ہوئے  اس کی روح کو بھی ترجمہ کر لیتی ہے ۔


ہمارے ساتھ مکمل لوازمات کے ساتھ شیئر کرنے کا بہت شکریہ 😊❤️ 


شاہد حسین

18 جنوری 25


 Syed Shahab Shah: 

واہ واہ واہ!


 اسے اگر میں آمد گردانتا ہوں تو آپ کے علمی اور فکری اوج کمال  کی نفی ہو جائے گی۔ آپ نے انتہائی محنت، مسلسل جدوجہد اور اعلیٰ اقدار کو قائم رکھنے کے لیے بہت کٹھن وقت گزارا ہے اور سخت محنت کی ہے۔ اور اس کا یہ بیّن ثبوت ہے کہ آپ کی تحریروں میں وہ کمال اور علم موجود ہے جس کا مقابلہ تو دور کی بات، قریب پہنچنا بھی ناممکن ہے۔

آپ نے فوراً اتنی مستند تحریر لکھی۔ میں تو ششدر رہ گیا۔ اور حیرانی سے کہیں زیادہ مجھے خوشی ہوئی۔

شاہد بھائی، میں آپ کا بےحد ممنون و مشکور ہوں۔


سید شہاب شاہ 

18 جنوری 25

تنقید کے اصول و ضوابط


 کسی بھی مصورانہ کام کی تفصیلات پر "تجزیہ"

اس کی طرف توجہ مبذول کرتا ہے اور یہ ناظرین کے نقطہ نظر کو وسیع کرتا ہے لیکن،  

 کسی ماسٹر کے کام کا تعارف، تفصیل، یا تجزیہ لکھتے وقت کیا سوچا جاتا ہے؟ 

 کون سے سوالات پوچھے جاتے ہیں، اور کیا ان سوالات کا کوئی مخصوص فارمولہ آرٹ مورخین نے وضع کیا ہے؟

ناجیہ شعیب ۔

 

 

جی ناجیہ ،جب کسی ماسٹر کے کام پر تجزیہ کیا جاتا ہے تو آرٹ مورخین اور نقاد کئی اہم پہلوؤں پر غور کرتے ہیں جنہیں کسی مخصوص ضابطے یا مرحلہ وار ترتیب میں بیان کرنا مشکل ہے ،

کیونکہ کسی مصورانہ کام پر تجزیہ یا رائے دینا بھی ایک ایسا تخلیقی عمل ہے جس کی ابتدا کے کچھ مخصوص اصول و ضوابط تو یقیناً وضع کیے جا سکتے ہیں لیکن پھر وہ آگے بڑھتے ہوئے اپنی ترتیب اور تکمیل میں کہاں تک جا سکتا ہے یہ طے کرنا مشکل ہوتا ہے ۔

اس کی مثال بالکل یوں ہے جیسے کسی مصورانہ شاہکار پر بات کرنا بھی ایسے ٹاسک کی طرح ہوتا ہے جو کسی خاص موضوع پر لکھے جانے والے ناول نگار یا کہانی کار کے سامنے ہوتا ہے ،

یا پھر کسی ناول پر بنائی جانے والی فلم کے ڈائریکٹر کے پاس ، اور اسی طرح کسی خاص فلمی سچویشن پر لکھے گئے گیت اور اس کی بنائی گئی دھن کا ہوتا ہے ۔

جو اپنے موضوع ، سچویشن، موڈ وغیرہ کی حد بندیاں تو دیتے ہیں مگر کوئی شاعر یا موسیقار اسے تخلیق کرنے میں اپنے فن کے کس درجہ کمال تک پہنچتا ہے یہ پھر سب کا الگ الگ معیار مقام اور راستہ ہوتا ہے ۔


لہذا ایک مصورانہ شاہکار کے تجزیہ میں تعارف، وضاحت اور تشریح کے دوران عام سوچ کے عمل اور پوچھے گئے سوالات کے کسی مخصوص پیٹرن کی وضاحت کرنی مشکل ہے ۔

لیکن پھر بھی ایک مختصر خاکہ ،


 ابتدائی تعارف

 میں پس منظر کی معلومات .

  فنکار کون ہے، اور اس کے بارے تعارف؟ 


 دوسرے مرحلے میں رسمی تجزیہ کرتے ہوئے بصری عناصر کیا ہیں، جیسے ساخت، رنگ پیلیٹ، روشنی، اور سائے ؟

اسی طرح دیگر قابل ذکر بصری عناصر کیا ہیں،ان کے اعداد و شمار، اشیاء، یا منظر؟ 

 یا کوئی کام کیوں اہم ہے، اور یہ آرٹ کے تاریخی تناظر اور تسلسل میں کیا تعاون کرتا ہے؟. 

 فنکار نے کام بنانے کے لیے کون سے میٹیریل اور تکنیک کا استعمال کیا؟

بصری عناصر کو کس طرح ترتیب دیا گیا ہے، اور کمپوزیشن کے کون سے اصول کام کرتے ہیں؟


  کوئی آرٹ ورک کس طرح ثقافتی اور تاریخی سیاق و سباق کی عکاسی یا اسے چیلنج کرتا ہے جس میں اسے تخلیق کیا گیا تھا یا ہے؟

یعنی کون سے تاریخی، ثقافتی، اور سماجی عوامل نے فن پارے کی تخلیق کو متاثر کیا؟


چوتھا مرحلہ کام کا تعلق کس فنکارانہ تحریک یا انداز سے ہے، اور اس کا اسی دور کے دوسرے کاموں سے کیا تعلق اور تقابل ہے؟

 

Iconography,

 اگر کام علامتی ہے اور اس میں علامتی اشکال، یا اشارے موجود ہیں، تو ان کا کیا مطلب ہے؟

فنکار کے اس کام کو تخلیق کرنے کے مقاصد یا ارادے کیا تھے؟ اور آرٹ ورک کے بارے فنکار اور کریٹک کی طرف سے اسے کسی معیار پر قائم ثابت کرنے کے لیے کیا دلیل یا دعویٰ کیا جائے گا؟


مجموعی طور آرٹ ورک کا کیا مطلب ہے، اور یہ کون سے پیغامات یا موضوعات کو اپنے ناظرین تک پہنچاتا ہے؟

 

تو اگر ہم خلاصہ بیان کریں تو آرٹ مورخین کے ذریعہ کسی آرٹ کا تجزیہ کرنے کے لیے وضع کردہ کوئی خاص لگا بندھا پیٹرن نہیں ہے، بلکہ یہ دراصل بنیادی رہنمائی کے سوالات اور اصولوں کا ایک مجموعہ ہے۔ 

جس کے تحت آرٹ مورخین اور ناقدین مختلف طریقوں کو اختیار کرتے ہیں، تھوڑی مزید وضاحت کی جائے تو ،


 فارملزم ، یعنی آرٹ ورک کے بصری عناصر اور ساخت کا تجزیہ کرنا۔

 Iconography,

 علامتوں، اور اشارات کی تشریح کرنا۔

 کسی آرٹ ورک کے ثقافتی، سماجی اور تاریخی تناظر کا جائزہ لینا۔

جیسے کام میں پولیٹیکل 

معاملات ہیں تو اس خطے یا ریاست کے معاملات کی تاریخی وضاحت ،

 فیمنسٹ آرٹ ہسٹری میں جنس، طاقت اور نمائندگی کے مسائل پر غور کرتے ہوئے، فیمنسٹ لینس کے ذریعے آرٹ ورک کا تجزیہ کرنا۔

 ان اور ایسے ہی دیگر موضوعات پر مختلف سوالات اور طریقہ کار پر چلتے اور غور کرنے سے فن کے مورخین اور نقاد کسی شاہکار کا جامع تجزیہ اور تشریح فراہم کر سکتے ہیں۔

رہی بات بیان کردہ ترتیب کی تو یہ ترتیب بھی یکساں نہیں رہتی 

ہر فنکار اس کا ہر مختلف کام اپنے مختلف مختلف موضوعات میں کسی بھی آرٹ پر بات کرنے والے کریٹک کی نالج ، موضوع سے دلچسپی ، یا آرٹسٹ سے اس کے تعلق کی بنیاد پر بھی تجزیہ مختلف مختلف ہو سکتا ہے ،

یہاں تعلق سے مراد کسی کریٹک کا کسی فنکار سے رسمی تعارف یا پھر اس کا اس کے ماضی اور حال کے کام سے پوری طرح آگاہ ہونے پر بھی انحصار کرتا ہے ۔  

ابھی بھی یہ تحریر بہت محدود وضاحت ہے ، دیگر تفصیل میں 

کسی آرٹ کریٹک کے بہت سے مزاجی چناؤ بھی ہو سکتے ہیں جن کی بنیاد پر وہ اپنے ٹیکنیکل یا سائنٹیفک تجزیے کو کچھ ھارش پوئیٹک یا ایموشنل بھی کر سکتا ہے ۔

مزید وضاحت کسی سوال کی بنیاد پر بھی ہو سکتی ہے یا دیگر دوستوں میں سے کوئی دوست رائے دے سکتا ہے ۔


شاہد حسین 

26 جنوری 25

Thursday, February 13, 2025

ایرانی اور سیلانی


 ستر کی دہائی تک کراچی کی خوبصورت یادوں سے جڑا ہوا طبقہ ایرانی ہوٹل نہیں بھولتا ، وہاں کی مکس اور سیپریٹ چائے ، مسکا بن ،ہمارے روایتی سے مختلف ذائقوں کے کھانے بہت ہی سوندھی سی خوشبو والی روٹی

سرامکس ٹائلز والی دیواریں اور قدیم لکڑی یا کین کے فرنیچر والے گمبھیر سے ماحول میں ویٹروں اور برتنوں کے ملے جلے شور کی آوازیں آج بھی ہماری یادوں کا حصہ ہیں ۔

اور پھر وہ کیفے اور ہوٹل بند ہوتے چلے گئے ،

نہ جانے کیوں ؟


اور نئے کھلتے چلے گئے ، جن میں سب سے پر ہجوم سیلانی ہیں ،

لیکن پھر انہی میں اچانک نہ جانے کہاں سے ایک ایرانی آگیا اور اس نے پھر سے وہی قدیم انداز کا کیفے کھول لیا ،

اس کا جنون تھا کہ میں سب کچھ ویسا ہی واپس لاؤں گا جو کہیں کھو چکا ہے ،

مگر عجیب معاملہ ہوا !

لوگ اتے تھے کھانا کھاتے تھے اور بل ادا کیے بغیر خاموشی سے چلے جاتے ،

کیفے کا مالک حیران پریشان ہر وقت کاؤنٹر چھوڑ چھوڑ گاہکوں کے پیچھے بھاگتا اور بڑی درخواست کرتا کہ بھائی صاحب بل تو ادا کر دیں ،

کھانا کھا کر جاتے ہوئے گاک حیران نظروں سے مالک کی طرف دیکھ کر کہتے 

بھائی ہم تو ہمیشہ سیلانی پر کھانا کھا کر خاموشی سے چلے جاتے ہیں ،

وہاں تو کبھی کسی نے ادائیگی کا نہیں کہا ؟

ایرانی مالک بڑی لجاجت اور بے بسی سے کہتا کہ جناب وہ سیلانی ہے یہ ہوٹل ایرانی ہے ،

ادھر کچھ نہ کچھ تو ادائیگی کرنی پڑے گی ،

گاہک اس کا ہاتھ جھٹک کر کہتے جاؤ بھائی اس سیلانی کو دیکھو اس نے تو کبھی کسی کا ہاتھ نہیں پکڑا ،

ایرانی بہت مدت ہوٹل میں آنے اور کھانا کھانے والوں کو ایرانی اور سیلانی کا فرق سمجھانے کی کوشش کرتا رہا مگر کسی کو سمجھ نہ آیا ۔ ۔ ۔ سنا ہے دوبارہ سے کھلنے والا پرانی یادوں کو لوٹانے کا خواب دیکھنے اور وعدہ پورا کرنے والا وہ ایرانی ہوٹل بھی بند ہو گیا ہے ۔


بیڑا ترے سیلانی کا 

اس کی وجہ سے اس ایرانی کا بھٹہ بیٹھ گیا ۔


شاہد حسین 

27 جنوری 25

پھٹی جینز


 یہ گھٹنوں سے پینٹ پھاڑنے کی شرارت ، 20ویں صدی میں گھٹنوں میں دو گول سوراخ کر کے،

Joseph Beuys,

نے کی تھی،

جو 21ویں صدی میں پوری پینٹ کو 

لیرو لیر ، اور پھتی پھتی کرنے کا باعث بن گئی ،

اور گھٹنوں سے شروع ہو کر پیٹ کے قریب قریب پہنچ گئی ۔

یہ کام نیویارک گوگن ہائیم میوزیم میں دیکھا جا سکتا ہے ۔

شاہد حسین

 29 جنوری 25

Art of Sarcasm


 Art of Sarcasm in advertisement!!!


Sarcasm،

کا عام طور معنی طنز ہے جس سے مراد ایسے الفاظ کے استعمال کو کہتے ہیں جن کا مطلب اس کے برعکس ہو جو آپ واقعی کہنا چاہتے ہیں، خاص طور پر کسی کی توہین کرنے کے لیے، یا اسے چڑانے کےلیے، یا محض مضحکہ خیز طور ہونے کے لیے۔ 

 مثال کے طور پر، یہ کہنا کہ "وہ واقعی سب سے اوپر ہیں" ایسے لوگوں کو بیان کرنے کے لیے جو بہت غیر منظم ہیں ،

یا پھر کوئی ایسی چیز جسے آپ عام سمجھ رہے ہیں مگر وہ عام نہیں ہے لہذا اس معاملے میں اپ ٹھیک نہیں ہیں ۔

اس طرح سے سارک ازم کے معنی اپنے استعمال کی ویرییشن میں صرف طنز سے کہیں زیادہ وسیع ہو جاتے ہیں ۔


دائیں طرف کا امیج ،

René Magritte,

 کی 1929 کی پینٹنگ،

" یہ پائپ نہیں ہے" 

(جسے یہ پائپ بھی کہا جاتا ہے) ایک حقیقت پسندانہ شاہکار ہے جو الفاظ، تصاویر اور اشیاء کے درمیان تعلق کو چیلنج کرتا ہے۔

جس کا آسان مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی تصویر میں حقیقت پسندی کے ساتھ نظر انے والی چیز بھی اصل میں وہ نہیں ہے جو اصل ہوتی ہے ۔

  پینٹنگ میں فرانسیسی فقرے،

 "Ceci n'est pas une pipe" 

("یہ پائپ نہیں ہے") کے ساتھ ایک تفصیلی پائپ دکھایا گیا ہے جس کے نیچے کرسیو اسکرپٹ میں لکھا گیا ہے۔ 

The Treachery of Images ,

اس میں بڑی ذہانت سے زبان اور معنی کے درمیان فرق کو بھی نمایاں کیا ہے۔  Magritte نے الفاظ اور تصویر کو اس انداز میں ملایا کہ وہ ہمیں جملے ، لفظ اور بیان کی گئی شئے کی اہمیت پر سوال اٹھانے پر مجبور کرتا ہے۔

جبکہ بائیں طرف نیویارک میں چلنے والی سب وے میں 

بیئر کے اشتہار کے ساتھ اسی کیپشن کو بیئر کے اشتہار میں استعمال کیا گیا ہے ،

جس میں پرانی کیپشن کو بس ایسی یاد دہانی کے طور ہے "جیسا کہ آپ جانتے ہیں" اور یہ بھی کہ یہ بھی کوئی آرڈنری بیئر نہیں اور نہ ہی یہ اس کا اشتہار ہے ۔


شاہد حسین 

13 فروری 25

سیکھے ہیں مصوری


 عظیم شاعر غالب اپنے مصوری کے شوق کے بارے کچھ یوں گویا ہوتے ہیں ،


"سیکھے ہیں مہ رخوں کے لیے ہم مصوری 

تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے "


جبکہ مشہور مصور صادقین ،

اپنی خطاطی کی تعریف میں اپنی رباعی کے آخری دو مصرعوں میں کچھ یوں کلام کرتے ہیں ،


"مولیٰ نے حسینوں سے وفا کے بدلے،

دنیا میں ہمیں لوح و قلم بخشے ہیں "

مصوری اور شاعری کے یہ دونوں عظیم حضرات اپنے شوق کو مہمیز دینے میں 

عشق مجازی کو علامت یا حقیقت تو ضرور بتا رہے ہیں ۔


لیکن میں نے مصوری پر کیوں لکھنا شروع کیا ،

یقین جانیے اس میں وجہ سراسر مصوری سے ہی عشق تھی ، یا پھر چلیے یوں کہہ لیجئے کہ عقل و فہم کی دیوی کو ہی رام کرنا تھا ۔

مشاہدہ اور دیکھے ہوئے پر سوچنے کی جیسے ہی ابتدا ہوئی ، تو گھر میں کلاسک اور حقیقت سے قریب تر سمجھے جانے والی جمالیاتی مصوری کو ہی دیکھا اور سمجھا ، جبکہ بیسویں صدی کی مصوری میں ایسا بہت کچھ دیکھنے کو ملا جو سمجھ سے بالاتر تھا، اور میں اسے صرف اس خیال سے رد نہیں کر سکتا تھا کہ چونکہ یہ مجھے سمجھ نہیں آتی تو یہ اپنی حیثیت میں کوئی معنی ہی نہیں رکھتی ، لہزا مجھے اس کے معنی تلاش کرنے تھے سو،

1995 سے میں نے باقاعدہ بڑی شد و مد کے ساتھ بیسویں صدی کی مصوری کا مطالعہ شروع کیا اور اسے بہتر طور سمجھنے کے لیے آسان لفظوں میں ترجمہ اور تحریر کا سلسلہ شروع کیا ۔

شائد دوسروں کو سکھانا بعد میں مقصد بنا پہلے خود سمجھنا تھا جو آج بھی جاری ہے ۔


شاہد حسین 

13 فروری 25

Piet Mondrian


 Piet Mondrian

 کا کلر فیلڈ کام، جسے ان کی "کمپوزیشن" سیریز کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اس کی معنویت کی جڑیں فن، فطرت اور انسانی تجربے کے بارے میں ان کے فلسفیانہ خیالات میں پیوست ہیں۔

جس کے کلیدی اصول کچھ اس طرح سے ہیں ،


  Mondrian،

کا فلسفہ نیو پلاسٹیسزم ، Neoplasticism پر مبنی ہے، جو خالص شکل، رنگ اور اسپیس کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ اس نے رنگ اور ساخت کی جذباتی اور روحانی خصوصیات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے فن سے ،

Representational ,

جس کا اردو ترجمہ واضح شکلی وضاحت اور کسی بیانیے کو ختم کرنے کی کوشش کی۔


  موندریان کا خیال تھا کہ آرٹ کو توازن اور ہم آہنگی کے اس مقصد کےحصول کے لیے کوشش کرنی چاہیے، جو کائنات کی بنیادی ترتیب کی عکاسی کرتا ہے۔ اس نے اسی ترتیب کو جیومیٹریکل اشکال، لکیروں اور خالص رنگوں کے زریعے ، توازن کا احساس پیدا اور منتقل کرنے کے لیے استعمال کیا۔ 


 

 موندریان کے کام کی اہم خصوصیت اس کی آرٹ میں آفاقیت کی خواہش ہے جو انفرادی تجربات اور ثقافتی حدود سے بالاتر ہو۔  

اس نے ایسا فن تخلیق کرنے کی کوشش کی جسے ہر کوئی سمجھ سکے اور اس کی تعریف کر سکے، چاہے اس کا تعلق کسی بھی خطے یا ثقافت سے ہو دیکھنے والا ان سب سے بالاتر ہو کر اس کام کو دیکھے۔


 موندریان کے کلر فیلڈ کام میں گہری روحانیت ہے، جو تھیوسفی میں اس کی دلچسپی اور اس کے آفاقی، نظریات کے ساتھ باہم جڑے ہوئے پورے تصور کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کا خیال تھا کہ آرٹ شعور کی ان اعلیٰ حالتوں تک رسائی کا ذریعہ ہے جو خدا یا نیچر کو کسی وجدان یا ادراک کی طرح سے جاننے یا اس کا تجربہ کرنےکا ذریعہ ہو سکتا ہے۔

جس سے گزرنے اور دوسروں کو گزارنے کا پروسس بہت مختصر اور غیر پیچیدہ ہونا چاہیے ،

اور یہی اس کے خالص رنگوں اور سادہ ترین اشکال میں دیکھا جا سکتا ہے ۔

اس کا کچھ کام نیویارک گوگنہائم میوزیم میں موجود ہے ۔


یکم فروری 1944,

نیویارک میں ہی اس نے وفات پائی ۔



شاہد حسین 

یکم فروری 25

بھڑاس


 بھڑاس 

  ـــــــــ  


کوئی عالم فاضل محقق نہ ہونے کے باوجود ،

انسان بطور فرد اسکی نفسیات اور اس کے اجتماعی سماجی رویوں کا مشاہدہ اور ان پر سوچنا میرا ہمیشہ سے پسندیدہ موضوع ضرور رہا ہے ۔

 اور جب یہ آپ کی عادت ہی نہیں بلکہ مزاج ہو تو پھر ہم بغیر کسی مشکل کے اپنے معمول کے مطابق یہ عمل کرتے ہیں ۔


   اس شوق میں دیگر بہت سے مشاہدات کے ساتھ میں نے دیکھا کہ یہ جو انسان میں غصہ فرسٹریشن ایک احتجاج نفرت ، چاہے دوسروں کے لیے یا خود اپنے لیے اور اس کا پھر اظہار ہے ، یہ کہاں سے آتا ہے کیوں آتا ہے ؟

 کیا لازم ہے کہ اس پر مصیبتوں و ناکامیوں کے پہاڑ ٹوٹتے ہیں ، وہ کسی ظالم جابر نظام کے مسائل اور ماحول کا شکار ہوتا ہے تب یا بغیر وجہ کے بھی آتا ہے ؟

 وہ کبھی خود کو یا زیادہ تر دوسروں کو قصور وار کیوں سمجھتا ہے ؟

اگر وہ سوسائٹی کو الزام دیتا ہے تو کہاں سوسائٹی ذمہ دار ہوتی ہے اور کہاں کوئی سسٹم اور کہاں وہ خود ،اس حوالے سے یہ اور بہت سے دیگر سوالات پیدا ہوتے رہے ۔

اگر آپ اس کی آسان مثال دیکھیں تو ایک ایسا گھر جس میں کسی بچے کو بہت سی محرومیوں سے گزرنا پڑے یہ غصہ احتجاج نفرت اس میں تو ہو ہی سکتا ہے لیکن جسے بہت توجہ لاڈ اور پیار ملے اس میں کیوں ہوتا ہے ؟

عدم مساوات اور ناانصافی کے شکار سماج میں بھی نوجوان بوتلوں کے بم بنا بنا کر کسی پر پھینک سکتے ہیں ،

اور کسی خوشحال اور ہر طرح کی سہولت دینے والے سماج میں بھی نوجوان بچے شراب پی کر اس کی بوتلیں فٹ پاتھ پر چکنا چور کر سکتے ہیں ۔

لہذا اس کا کوئی ایک کرائٹیریا یا سیٹ پیٹرن نہیں ہے بس یہ انسان کے اندر پیدا ضرور ہوتا ہے ۔


  چند روز پہلے ہمارے دوست منصور زبیری بھائی نے بتایا کہ وہ اپریل میں پینٹنگ اور مجسمہ سازی کی ایک نمائش کا انعقاد کرنے جا رہے ہیں ،

جس کا عنوان ہے ،

"بھڑاس" 

تو جب انہوں نے مجھے اس پر کچھ لکھنے کی دعوت دی تو میرے لیے یہ پہلے سے ہی دلچسپی کا حامل موضوع تھا ۔


بَھڑاس کے معانی تو ہم جانتے ہی ہیں لیکن مزید وضاحت میں ،

جوش.حرارت یعنی مزاج کی گرمی.دل کا بخار ، .غم ، رنج.

 یا فکر، طیش میں آکر کسی پر سخت لفظوں میں ظاہر کیا جانے والا ذہنی عدم اطمینان، کدورت وغیرہ ہے ۔

بَھڑاس کے دیگر مترادفات،

غُصَّہ تَعَصُّب عَداوَت بُغْض دُشْمَنی کِینَہ

اور مزید اس سے متعلق چند محاورے،

دِل کی بَھڑاس نِکالْنا

(بُرا بھلا کہہ کر یا رو دھو کر) دل کی کدورت دور کرنا، جی ٹھنڈا کرنا، غم و غصّہ وغیرہ ظاہر کرنا ہے ۔

اب اگر ان تمام انسانی اعمال افعال رویے احساسات کیفیات و جذبات سے ظاہر ہونے والے عناصر کو دیکھا جائے تو آپ کا کیا خیال ہے کہ ہم انہیں ، صرف منفی یا انسانی طبیعت کے کچرے کا اخراج کہہ سکتے ہیں ؟


نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ یہ وجوہات کے کسی بھی ایندھن کے جلنے سے اور رد عمل کی طرح اس سے پیدا ہونے والی توانائی کی بے شمار مختلف مختلف صورتیں ہیں ،

جنہیں اگر کسی بھی باتصویر لغت کی شکل دی جائے تو ان میں سے ہر ہر تصویر وہی ہوگی جو کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی دور میں ہمارے آرٹ کا حصہ رہی ہے ۔


یہ بات ٹھیک ہے کہ صرف یہی اجزاء مصوری کا حصہ نہیں بلکہ امید ، سہانے خواب ، عقیدت ،عشق محبت سے لے کر دیگر بہت سے خوبصورت اور جمالیاتی اجزاء کا بھی آرٹ میں اہم کردار ہے،

خاص طور پر اگر ہمارے خطے کی بات کی جائے تو یہاں کسی بھی سماجی خرابی ،ظلم و جبر سے لے کر دیگر مسائل تک کے ردعمل میں زیادہ تر جو ہماری مصوری نے کردار ادا کیا ہے وہ کسی محبوبہ یا،ایسی شفیق مامتا کا کیا ہے جس نے بالکل فریدہ خانم جی کی ایک گمنام لوری کی طرح سے سماج کو تسلی دی ہے ،


 "تیرے لیے یہ مصیبت اٹھائی ہے سو جا سو جا سو جا ،

تو بے قصور ہے میرا بھی جرم کوئی نہیں ۔ ۔ ۔ "

لیکن اگر دنیا بھر میں دیکھا جائے تو انسانی مزاج اور اس کی نفسیات کے بہت سے پیچیدہ پہلوؤں سے لے کر اس کے عملی اظہار ری ایکشن و احتجاج میں مصوری کا بہت اہم کردار رہا ہے ۔

Expressionism, 

Abstract expressionism, 

Surrealism,

Dadaism,

Social realism ,

and Protest art,

میں سے پروٹیسٹ آرٹ تو خاص طور پر ایسی ہی خصوصیات کے اظہار کا حامل رہا ،

اس میں چاہے ، گرافیٹی آرٹ سب سے اہم رہا جس میں کسی بھی ریاست کے ظلم و جبر کا شکار نوجوان یا پرجوش مصوروں نے رات کی تاریکی میں چھپ کر دیواروں کو یا ہر دستیاب سطح کو پینٹ کیا، سلوگن لکھے ، پوسٹر بنائے یا کارٹون یہاں تک کہ لٹریچر میں بھی اس کا بہت اہم کردار رہا یہ سب اصل میں "بھڑاس" ہی تھے ۔


موجودہ حالات میں پاکستان طویل مدت سے جس طرح کی صورتحال سے گزر رہا ہے ، اس کی اگر تفصیلات نہ بھی بیان کی جائیں تو ہر فرد اور سماج کے کسی بھی درجے پر موجود افراد ان سے گزر ہی رہے ہیں ،

جس کے سبب یا رد عمل میں ان کے اندر یہ ویکیوم یا بھاپ پیدا ہو رہی ہے،

اور میں سمجھتا ہوں کہ ان افراد میں سے مصوروں کو اس نمائش کے ذریعے اسے اظہار کرنے کا بہت ہی بہترین موقع دیا جا رہا ہے ۔

کیونکہ اس قسم کے بہت سے تجربات کے نتائج موجود ہیں جو بتاتے ہیں کہ بھڑاس کے نام پر نکالے گئے تمام بظاہر غیر جمالیاتی یا غیر تعمیری سمجھے جانے والے اخراج کے بعد جو طبیعت میں ٹھہراؤ بچتا ہے وہ پھر توانائی کی ایک دوسری سوفٹ شکل ہوتی ہے ۔

اور کسی بھی سماج کی تعمیر میں یہ ٹھنڈی اور گرم دونوں تاریں توانائی دوڑانے کا کام کرتی ہیں ۔


شاہد حسین 

7 فروری 25

رنگ بہاروں نے بھرا


 Ajab Khan:

 "رنگ بہاروں نے بھرا میرے جیون میں." 

  واقعی یہ رنگ آج کی انڈین  بہاروں کے موقف ینگ یوتھ نے ہی بھرا ھے. 

کمال کردیا ھے.

 Nisar Ahmed:

 درست کہا.... بس یہ معلوم نہیں کہ یہ اپنا حسن کھو رہا ہے یا چار چاند لگا رہا ہے۔

 Ajab Khan:

 دلاری.........

نثار بھائی اس سے پہلے یقیناً آپ نے مغل اعظم کا کلر ورژن دیکھا ہوگا اس میں کلر خاصے شارپ اور سیچوریشن میں تیکھے تھے یا مجھے لگے ہیں،

اس گانے میں بڑے بھلے لگ رہے ہیں.

اچھا ہم چونکہ اس جنریشن سے ہیں جس نے بلیک اینڈ وائٹ کا شباب اور کلر کا جوبن دیکھا ھے. تصویر کی حد تک بلیک وائٹ اپنا چارم رکھتی ھے، فلم کے معاملے میں کلر فلموں نے عادت بگاڑ دی ھے۔

 Shahid Hussain: 

نثار بھائی بلیک اینڈ وائٹ دور سے اصل میں ہماری ایک نوسٹیلجک ایفلئییشن ہے ،

بالکل اسی طرح سے جیسے محلے میں کسی کے پرانے کھنڈر مکان سے ہماری ایک جذباتی وابستگی بن جاتی ہے اور جس دن وہاں کے مکین اسے تعمیر کرواتے ہیں ،


ہمیں ایک ٹھیس سی لگتی ہے ،

او تیرے کی !

یہ گھر تو نیا بن گیا ،


بالکل اسی طرح سے ہمیں پرانی بلیک اینڈ وائٹ فلموں کو رنگین ہوتے دیکھ کر تھوڑی مایوسی ہوتی ہے،

لیکن میں اسے پوزیٹو سمجھتا ہوں 

کہ اس دور کو زندہ رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے ،

غور کیجئے کہ ,

1956 کی چوری چوری فلم کے اس گانے میں موجود گمنام رقاصائیں تو کیا ، ہیروئن تک مٹی میں مل چکی ،

لیکن وہ آج ہمیں اپنے اسی دور کے رنگین جاموں میں زندگی کے رنگ بکھیرتی سبز کھیتوں میں رقص کرتی نظر آرہی ہیں ۔

اگر یہ پوری فلم ہی رنگین ہو گئی ہے تو میں تو اسے ضرور دیکھوں گا 😍


شاہد حسین 

13 فروری 25

Tuesday, February 11, 2025

Rashid Rana


 [10/9/24] 

Shahid Hussain:

 راشد رانا بھائی 

  یوں لگتا ہے سیف الدین سیف یہ شعر  خاص طور پر آپ کے لیے کہہ چکے ہیں ،


سیفؔ انداز بیاں رنگ بدل دیتا ہے 

ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں ۔


جنگ اس دنیا پر ہمیشہ سے برپا رہی ہے اور اپنی سرزمین اپنے وطن کے لیے مر مٹنے کا درس ہمیشہ سے ہی انسان کی ترجیحی ضرورت رہا ہے ،

لیکن ! 

آج کی شور مچاتی دنیا میں ہمارے خود حفاظتی یا بہادری جیسے  بنیادی اور خالص مقاصد بھی کس قدر پیچیدہ اور کنفیوز ہو چکے ہیں 

اسے آپ نے اس آرٹ ورک مجموعے کی بکھری ٹکڑیوں میں بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے یا یوں کہیے دیکھنے والوں تک منتقل کیا ہے ۔


ٹھیک ہے کہ کوئی بات نئی نہیں زمانے میں ، مگر آپ  ہمیشہ اپنے ڈھنگ سے بات کہنے کا فن خوب جانتے ہیں ۔

آپ کے لیے بہت سی نیک خواہشات  ۔

شاہد حسین 

9 اکتوبر 24


[10/10/24] Rashid Rana: 

شاہد بھائی

میرے نزدیک کسی بھی تخلیق کامعنی وہ کہانی نہیں جو بتانا مقصود ہوبلکہ اس کا اصل مفہوم تو اس کا انداز بیاں ہے۔ 


یعنیُ کہ  کسی بات کو  بتانے کا طریقہ ہی اس کے اصل معنی ہیں۔ اور یہ بات ہم غالب کی شاعری میں شدت سے  محسوس کر سکتے ہیں۔

Ustad Bashiruddin


 امین رحمان بھائی 

میری بصارت تو کافی متاثر ہو رہی ہے ،

مگر شکر ہے کہ مصوری کو دیکھنے کی بصیرت ابھی تک کام کر رہی ہے 😊 


آپ کے والد محترم 

استاد بشیر الدین صاحب کی ڈرائنگز گو کہ فون کی چھوٹی سی اسکرین پر ویڈیو میں دیکھی ہیں ،

مگر بلا شبہ وہ ایک گریٹ ماسٹر کی بہت بڑی ڈرائنگز ہیں جو ایک خاص دور کی نمائندگی کرتے ہوئے بھی اپنی الگ شناخت رکھتی ہیں ۔


سب سے اہم کہ وہ اپنے اندر تاثرات کی 

ایک گہری خصوصیات لیے ہوئے ہیں ، جو انہیں اس دور کے دیگر بہت سے لیجنڈز سے بہت منفرد دکھاتی ہیں ، جن پر بہت کچھ لکھا جا سکتا اور چکا ہوگا ،

یہاں میں سب سے خاص کا ذکر کروں تو وہ ایک اداسی اور گھمبھیرتا ہے جو ان کے کام میں بہت نمایاں محسوس ہوتی ہے ، اب یہ اداسی اور یاسیت کیا بشیر الدین صاحب کے مزاج کا حصہ تھی ؟

یہ تو آپ ہی بہتر بتا سکتے ہیں ،

کاش میری ان سے ملاقات ہوئی ہوتی ۔


کیونکہ باوجود کام میں گہری سنجیدگی کے وہ اپنے چہرے و مزاج میں انتہائی شفیق استاد اور شخصیت ضرور نظر آتے ہیں ۔

اور یقیناً دیگر فنکارانہ خصوصیات کے ساتھ ساتھ اپنے مزاج کی شائستگی اور دھیما پن بھی آپ کو اپنے والد سے وراثت میں ملا ہے ۔


امین بھائی آپ جب سے گروپ میں شامل ہیں جانتے ہیں کہ میں نے کبھی اپنی طرف سے دوستوں کے کام پر بات کرنے میں کسی تخصیص سے کام نہیں لیا ، جو بھی فرق رہا یہ ان کی وجہ سے رھا ،


میں نے اپنی طرف سے اس سلسلے میں ہمیشہ دوستوں سے یکساں خلوص اور سچائی کا درجہ رکھا ،

کہتے ہیں کہ اچھی دوستی شکوے شکایت سے ماورہ ہونی چاہیے ،

نہیں میرا اس پر یقین نہیں ہے ،

میرے خیال میں اچھی دوستی سچائی پر بیسڈ ہونی چاہیے جس میں اگر شکوے شکایت ہے تو وہ بھی کر لینے چاہیں 

اب میں تو یہاں تک بھی پرواہ نہیں کرتا کہ دوست ناراض بھی ہوتے ہیں تو ہو جائیں ،

جیسے کہ آج میں آپ کو ناراض کرنے والا ہوں ۔


آپ کو گروپ کے بے شمار مقاصد میں سے یہ مقصد کیوں نہ بھایا کہ ہم اپنی بہت سی مرتی ہوئی اقدار کو زندہ رکھنے کی کوشش میں ،

اپنے آرٹسٹ لیونگ لیجنڈز پر ان کی سالگرہ کے موقع اور دنیا سے جا چکے اساتذہ پر ان کی برسی کے موقع پر ضرور ان کو یاد کرنا چاہتے رہے ہیں ،


دیکھیے دنیا بھر کی اقوام میں قدیم روایات اور اقدار دم توڑ رہی ہیں ،

لیکن ہر سوسائٹی کا وہ حساس فنکار طبقہ ہی ہوتا ہے جو اقدار کی ڈوبتی کشتی میں آخری دم تک موجود رہتا ہے ۔

کیا ایسا نہیں ہے ؟

بلکہ آپ تو خود بھی اسی کشتی کے ناخدا ہیں ، جو انہیں روایت پر کام کر رہے ہیں ،

دیکھیے آپ کے والد جیسے فنکار ضروری نہیں ہوتا کہ ایسی ہی کوششوں سے زندہ رکھے جاتے ہیں 

بلا شبہ وہ اپنے فن کی بدولت ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ، مگر کہیں نہ کہیں اس میں ایک قدردان سوسائٹی کا کردار اہم ترین ضرور ہوتا ہے ، تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہماری سوسائٹی سچ میں قدردان سوسائٹی ہے ؟


یقینا آپ کا جواب نہیں میں ہونا چاہیے 


تو پھر ایسی صورتحال میں فنکار کی فیملی شاگردوں ، مختصر سہی قدردانوں اور ہم جیسے لوگوں کو آگے بڑھنا چاہیے اور یہی ہم کر رہے تھے ۔


یہاں جن بھی لیجنڈز پر بات ہوتی رہی کہیں نہ کہیں ان میں ہمارے ساتھ وہ لوگ مددگار ضرور رہے جو ان کے فیملی ممبر یا شاگردوں کے طور پر بالکل اولمپک کے کھلاڑی کی طرح سے مشل کو تھام کر آگے لے کر بڑھ رہے تھے ،

ہماری کہی ہوئی بات میں صرف ان کی تائید بھی اگر شامل ہو جاتی رہی تو ہمیں بات کہنے میں آسانی ہو جاتی تھی ،

بتائیے آپ نے اپنے والد صاحب کا ہم سے کبھی ذکر کیوں نہیں کیا ؟

ان کی برسی کے موقع پر کوئی پوسٹ یہاں شیئر کیوں نہیں کی ؟


ہم بس دو تین لیجنڈز پر مددگار دوستوں کے ساتھ ہی جب بات کرتے رہے اور الزامات سنتے رہے تو یقین جانیے ایسی ہی وجوہات سے ہمیں لگا کہ ہم ناکام ہو رہے ہیں ، کئی بار ہم نے یہاں اپنے دیگر مرحوم اساتذہ پر بات کی تو ان کی نہ فیملی میں سے کسی نے یہاں جواب دے کر بات بڑھانے کی کوشش کی اور نہ ہی ان کے کسی شاگرد اور گروپ کے کسی دیگر دوست نے ،

تو بتائیے صرف ایک پوسٹ لگانے سے پھر کیا ہوتا ہے ؟


مجھے جتنے اساتذہ کی برسیوں کی تاریخیں یاد تھیں میں اکثر ان پہ یہاں پوسٹ شیئر کرتا رہا ،

میرے دو تین دوست حیران ہوتے تھے کہ شاہد صاحب آپ کو یہ تاریخیں کیسے یاد رہتی ہیں ؟

بس میں نے ایک کیلنڈر بنایا ہوا تھا 

جیسے کہ پچھلے مہینے اکتوبر میں 

18 اکتوبر کو استاد اللہ بخش صاحب کی برسی تھی ۔

22 اکتوبر کو فیضی رحمین صاحب ، اور 31 اکتوبر کو زبیدہ آغا کی برسی تھی ۔


میں تھک چکا تھا میں لہذا میں نے ان کے بارے پوسٹ نہیں لگائی اور کسی اور دوست کو بھی یاد نہیں رہی ،

تو مطلب کہ میں اپنی جگہ ٹھیک تھا کہ ہم اپنے گروپ کے کئی مقاصد میں ناکام رہے ۔

مجھے بتائیے آپ جیسے اچھے اور حساس دوستوں نے بھی ساتھ کیوں نہیں دیا ؟

مجھے معلوم ہے کہ آپ کے والد جیسے اساتذہ ہماری اس چھوٹی سی محفل میں ایک دو دن یاد کر لینے اور ٹریبیوٹ دینے کی وجہ سے بڑے فنکار نہیں ہیں 

ان کی شخصیات ان سرگرمیوں سے کہیں زیادہ بڑی ہیں ،

لیکن کیا اس محفل میں آپ جیسے تمام بڑے فنکار دوستوں کی محفل اسے ایسی محفل نہیں بناتی کہ ہم اپنی روایات پر عمل کرنے میں خود کو اس ذمہ داری پر فائز سمجھ سکیں ؟


آپ جیسے دوستوں نے کیوں نہیں ساتھ دیا ؟


شاید ہم اس محفل کو اس لائق نہ بنا سکے 

لیکن بہرحال آپ ان کے شایان شان جس تقریب کا اہتمام کر رہے ہیں ، آپ کی ان کوششوں کو ضرور سلام ہے۔ 


یقیناً آپ کے والد کو آپ جیسے بیٹے پر فخر رہا ہوگا ،

اللہ استاد بشیر الدین صاحب کے درجات بلند فرمائے ، اور آپ کو ایسی سرگرمیوں کو جاری رکھنے میں ہمت اور کامیابی دے ۔ 


شاہد حسین 

22 نومبر 24

Jamil Naqsh


 25 دسمبر ،

دنیائے مصوری پر اپنے مصورانہ اسلوب کے گہرے نقوش چھوڑنے والے لیجنڈ ، جمیل نقش کا یوم پیدائش ہے ۔


مجھے ان کا باقاعدہ شاگرد ہو کر مصوری سیکھنے کا موقع تو نہ ملا لیکن میں نے مصوری سے بھی بڑے آرٹ یعنی زندگی کے آرٹ ، جس میں ہمیں نہ جانے کتنے اسلوب سیکھنے پڑتے ہیں ان میں سے بہت سے مجھے ان سے ملاقاتوں اور گفتگو میں سیکھنے کا موقع ملا جن کے نقوش ہمیشہ میری یادداشتوں میں روشن و محفوظ رہے ۔


شاہد حسین 

25 دسمبر 24

Kamil Khan Mumtaz


 روزانہ کسی بھی وقت،

80 کی دہائی اور اس سے پہلے کا میوزک سننا میرا معمول ہے ۔


رات کو مغل اعظم کے گانے سن رہا تھا جس میں لتا جی کا اکبر بادشاہ کے دربار میں گایا ہوا مشہور گانا "جب پیار کیا تو ڈرنا کیا"

چل رہا تھا تو میری بیٹی کہنے لگی کہ ،

مغل اعظم اپنے دور کی بڑی مشہور فلم ہے لیکن مجھے اس کے گانے کبھی بھی بہت خاص متاثر کن نہیں لگے ، بلکہ کچھ عجیب سے لگتے ہیں ۔


چونکہ وہ اپنی رائے دینے میں ہمیشہ کمفرٹیبل ہوتی ہے اور آرکیٹیکچر شعبے سے منسلک رہی ہے تو میں نے اسی حوالے سے اس سے سوال کیا کہ فرض کرو تمہیں ،

1526 سے 1857 تک کے ٹائم پیریڈ کی فلم کے لیے ،

کوئی عمارت دکھانی ہو تو وہ اپنے باہری ڈیزائن سے اپنی اندرونی آرائش اور اس میں لگی پینٹنگز میں کس دور کی وضاحت کرے گی ؟


اس کا جواب تھا کہ جی ہاں ظاہر ہے پندرہویں صدی کے رینائسانس سے لیکر 

سترہویں صدی کے 

Baroque,

یا پھر اٹھارویں صدی کے ،

Rococo,

اسٹائل میں ہی عمارت اپنے انداز میں کسی بھی آرائشی یا آرٹ ورک کے حوالے سے اسی ٹائم پیریڈ کی ہو گی ،

میں نے کہا تو پھر بالکل اسی طرح سے 

مغل اعظم بھی ایک خاص مغل دور کی نمائندہ فلم ہے ،

جس کے میوزک کو اس دور کے قریب بھی رکھا گیا اور اس میں جدت کا پہلو بھی اس لیے شامل کیا گیا کہ وہ موجودہ دور میں بھی قبولیت پا سکے ،

اگر اسے بالکل اسی قدیم دور کا ہی بنا دیا جاتا تو شاید وہ اپنے فلم ریلیز ہونے کے دور میں بھی بہت محدود لوگ تک پسندیدگی حاصل کرپاتا،

جیسے کہ ہم اپنے خطے میں ریکارڈ پلیر کے ابتدائی دور کا جو میوزک سنتے ہیں ، وہ اپنے گائکی کے تمام عناصر میں میوزک کی جانکاری رکھنے والے ایک محدود طبقے سے آگے قبولیت نہیں پاتا ،

جبکہ اس سے بھی سابقہ دور کو بیان کرتی مغل اعظم کے گانوں نے قدیم خصوصیات کو برقرار رکھتے ہوئے نئی جنریشن کو بھی متاثر کیا ،

پھر اس کی شاعری اپنے دور کی ایک انقلابی شاعری نظر آتی ہے ،

اسی گانے کو ہی لیا جائے ،

"جب پیار کیا تو ڈرنا کیا "

قدیم روایات سے بغاوت کی بڑی ہی جاندار مثال ہے ،

اسی طرح سے فلم کے ڈائریکٹر نے اسے پکچرائز کرنے میں ،

عمارتی آرائش میں استعمال ہونے والے عکسی شیشوں کی مدد سے ایک طاقتور حکمران کو دکھایا کہ اب یہ آواز صرف ایک فرد کی نہیں بلکہ ہر سو پھیلی عوام الناس یا بدلتے سماج کی آواز ہے ،

اور ایسی ہی دیگر بہت سی خصوصیات نے مل کر ہی دراصل مغل اعظم کو ایک عظیم فلم اور اس کے میوزک سمیت دیگر تمام شعبوں کو خاص بنایا ہے ۔


فلم سے تعمیرات کے موضوع پر آتے آتے میرے ذہن میں ہمارے ملک کے بہت ہی مایہ ناز آرکیٹیکٹ کامل خان ممتاز صاحب کا نام آیا ، جن کے نام کے معنوں کو اگر دیکھا جائے تو 

کامل یعنی جامع بے عیب اور ممتاز یعنی منفرد ہونا ہے ،

جبکہ بہت سے لوگ ماہر تعمیرات ہونے کے حوالے سے ان پر تنقید بھی کرتے ہیں کہ وہ تعمیرات میں بس قدیم روایات کو لے کر چل رہے ہیں ، اور کوئی نئی تخلیقی اپروچ اس میں شامل نہیں کرتے ،

یہاں میں وضاحت کر دوں کہ یہ دیگر چند لوگوں کا ان کے بارے خیال ہے میرا نہیں ہے ۔

میں تو انہیں اسم بامسمی یعنی اپنے نام کے معنوں کا عکاسی ہی سمجھتا ہوں ،

جو دوست انہیں نہیں جانتے وہ ان کے بارے تفصیل سے اگر مطالعہ کر لیں تو جان لیں گے کہ انہوں نے تعمیرات کی جدید نالج حاصل کرنے کے باوجود ، خود کو اس شوق میں اپنی ثقافت یا روایات کے علمبردار کے طور پر وقف رکھا ہے ۔

انہیں ہم رسمی طور پر،

"Revivalists"

بھی کہہ سکتے ہیں، 

لیکن پھر بھی ضروری نہیں ہوتا کہ یہ لوگ یہی متمع نظر رکھتے ہیں کہ کسی بھی نئے دور کے تمام لوگ بس اپنی قدیم روایات پر ہی چلتے ہوئے ویسے ہی گھر بنائیں اسی طرح کے لباس پہنیں اور ہر عمل سے یوں لگے کہ جیسے بس وہی دور دہرایا جا رہا ہے ۔

نہیں ایسا نہیں ہے ! بلکہ وہ کچھ خاص شعبوں میں ثقافت کے قدیم عناصر کو لے کر چل رہے ہوتے ہیں یا انہیں محفوظ رکھنا چاہتے ہیں ، 

جیسے موسیقی میں گائکی کے کسی خاص انداز ، یا دیگر فنون میں کسی قدیم اسلوب اور ٹیکنیک کو لے کر چلتا ہے بالکل اسی طرح ۔ ۔ 

اور ہم جانتے ہیں کہ اس حوالے سے ان کی خدمات بہت زیادہ اور خاص ہیں ۔

کوئی بھی سماج اپنے ڈائل پر کسی بھی دور کا کوئی بھی وقت رکھتا ہو،

لیکن اس کے میکنزم میں ، اس کے ماضی کی بہت سی روایات اقدار اور ان کی جذباتی اور روحانی خوبصورتیوں پر مشتمل بہت سی گراریاں کام کر رہی ہوتی ہیں ،

اور وہ سب مل کر ہی کسی بھی دور کو بناتی اور وقت کو مجموعی طور ظاہر کرتی ہیں ۔


اگر ان میں سے کوئی ایک گراری بھی اپنا کام ٹھیک نہیں کرے گی ،

تو وقت کے ڈائل کی کوئی نہ کوئی سوئی کہیں نہ کہیں ضرور اٹکے گی ۔


بہرحال یہ میری رائے ہے دوست اس پر اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔


شاہد حسین 

13 جنوری 25

Ahmad Habib


 میرے والد جو میرے استاد بھی تھے ان کے اور میرے درمیان احترام و ہم آہنگی کے امتزاج پر مبنی دوستی کے بارے  کہیے یا کسی بھی تعلق میں اس خصوصیت کی تعریف میں میرے والد ایک بادشاہ اور وزیر کا قصہ سناتے تھے کہ ،


 کوئی بادشاہ اور اس کا وزیر خاص و دوست کسی پرسکون دریا میں تیرتی کشتی میں بیٹھے محو گفتگو تھے اور بادشاہ نے اپنے وزیر سے ایک سوال پوچھ رکھا تھا جس کا جواب ابھی وزیر کے لبوں پر آیا ہی چاہتا تھا کہ اسی اثنا میں کشتی کسی بھنور میں پھنس کر الٹ گئی ،

بادشاہ کہیں تو وزیر کہیں ، دونوں کے درمیان فاصلہ اور طویل وقت حائل ہو گیا ۔


اس غیر حاضری میں مملکت پر قبضہ ہو گیا ، جسے مدت لگی چھڑانے میں ،اور پھر بالاخر وہی حالات واپس آئے بادشاہ اور اس کا وزیر بھی دریا میں اسی مقام پر اسی طرح  سے کشتی میں بیٹھے پھر سے ہم کلام ہوئے اور بادشاہ نے اپنے وزیر سے پوچھا ، ہاں تو میں کیا کہہ رہا تھا ؟

اور جناب وزیر صاحب نے وہی جواب ادا کیا جو طویل مدت پہلے ان کے لبوں پہ آتا آتا رہ گیا تھا ۔ ۔ ۔ 

میری اور احمد حبیب کی دوستی میں نہ کوئی بادشاہ ہے نہ کوئی وزیر  لیکن ذہنی ہم آہنگی اور مکالمے کا معیار بالکل اسی قصے کی طرح ہے ۔

ہم مدتوں بات نہیں کرتے لیکن جب کرتے ہیں تو سلسلہ بلکل وہیں سے شروع ہوتا ہے جہاں سے ٹوٹا ہو ۔ ۔ 

کبھی احساس ہی نہیں ہوتا کہ درمیان میں وقت کے دریا کا کتنا پانی گزر چکا ۔


ابھی گزشتہ دنوں بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ احمد حبیب اپنی زندگی پر ایک کتاب لکھ چکا ہے ،

جس میں ظاہر ہے کہ وہ اپنی گزری زندگی بارے جو کچھ کہنا چاہتا ہے ضرور کہے گا ،

لیکن انسان اس زندگی اور سماج کے ساتھ کچھ عجیب طرح سے جڑا ہے کہ  جہاں یہاں یہ اہم ہوتا ہے کہ ہم خود کو کتنا جانتے ہیں وہیں یہ بھی اہم ہوتا ہے کہ دوسرے ہمیں کس طرح سے دیکھتے ہیں ، لہذا سوچا کہ جو میں احمد حبیب کو جانتا ہوں وہ بھی مختصراً ضرور بیان کروں ۔

میرے سامنے احمد حبیب کا سب سے پہلا تعارف ایک انتہائی نفیس ، خوش مزاج اور کمال درجے کی معنی خیز مسکراہٹ کے پیچھے اپنی  گھمبیر سنجیدگی کو چھپائی ہوئی شخصیت ہے ، جو اپنی عملی زندگی میں ڈرامہ تھیٹر ، اداکاری ، مصوری، شاعری ادب موسیقی اور نہ جانے فن کی کن کن جہتوں میں مصروف بکھرا پڑا ہے ،

لیکن میں اسے مجموعی طور سب سے زیادہ طاقتور بطور ہدایت کار دیکھتا ہوں جو خود اپنے وجود کی ان خصوصیات کے ہجوم کو کوئی ترتیب دینے کی انتہائی اعلی صلاحیت رکھتا ہے ۔


گو کسی بھی فنکار کے لیے اپنی تخلیقی خواہشات کے اژدہام میں چناؤ کی دقت سے آزاد ہونا بہت مشکل ہوتا ہے کہ وہ 

کئی بار اپنی توانائیوں کو اپنے بہت سے مشاغل کے خانوں میں بکھیر دینا تو چاہتا ہے ، لیکن ان میں سے خود کو سمیٹے کہاں کہاں یہ بہت مشکل ہو جاتا ہے ۔

یعنی پھر اس کے لیے بہت ہی مشکل  ہوتا ہے کہ وہ ہر خانے میں اپنے مکمل وجود کی توانائیوں کے ساتھ موجود ہو ،

جبکہ احمد حبیب میں یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے کہ وہ ہر خانے میں تقسیم ہونے کے باوجود وہاں مکمل طور موجود ہوتا ہے ۔

لہذا یوں مجھے اس میں ہدایتکار یعنی ترتیب دینے والے کی صلاحیت سب سے زیادہ نظر آتی ہے 

اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس خوبی کا حامل کوئی فنکار اپنی ذات میں بے ترتیب نہیں ہوسکتا 

لیکن کئی بار اس کے لیے اپنی بے ترتیب ذات  شہر آفاق مصور ورمیر کے اس سٹوڈیو کی طرح ہوتی ہے جہاں جو چیز جس طرح سے رکھی ہوتی ہے اسے وہ اسی طرح سے عزیز ہوتی ہے ۔

اور اس نے اسی بے ترتیبی سے ہی اپنی تخلیق مکمل کرنی ہوتی ہے 

چاہے وہ اس کا کوئی فن پارہ ہو ، زندگی کا سفر یا اس کی اپنی ذات پر خود لکھی ہوئی کتاب ۔

تو ہو سکتا ہے جب ہم 

احمد حبیب کی خود نوشت کا مطالعہ کریں 

تو اس میں صرف ترتیب ہی نہیں اسکا

بہت سی ٹوٹ پھوٹ سے گزرنا بھی دیکھیں ،

لیکن کوئی بھی بڑا فنکار اصل میں اسی پروسیس سے گزر کر ہی مکمل ہونے کے مقام تک پہنچتا ہے ۔

اور یقیناً آج احمد حبیب وہاں موجود ہے ۔

احمد حبیب کے لیے بہت سی نیک خواہشات کامیابیوں کی دعاؤں کے ساتھ۔


شاہد حسین

15 جنوری 25

Sadequain 25


 صادقین ، وہ لیجنڈ فنکار جو نا صرف اپنے فن کی قد و قامت کی بنیاد پر دنیائے مصوری میں جانے گئے بلکہ ، عوامی سطح پر بھی انہیں وہ مقبولیت و پزیرائی ملی جو ہمارے خطے میں کم مصوروں کے حصے میں آتی ہے ۔


ہمارے عظیم مصوروں کے خاص دنوں پر اجتماعی مکالمے کا جو مقصد رہا اس سلسلے میں ہمارے گروپ میں گزشتہ چند سالوں سے جس فنکار پر سب سے زیادہ مکالمہ ہوا وہ بھی صادقین صاحب ہیں ، جسے اکٹھا کیا جائے تو ایک کتابی شکل تو بن سکتی ہے ۔


 لیکن اس سال یوں لگ رہا تھا جیسے،

سیاہ لکیروں سے بنائے جانے والے شاہکاروں کے اس تخلیق کار پر لکھنے کے میرے مارکر اب سوکھ رہے ہیں لیکن !

 9 فروری کی شام میرے والد کے دوست سلیم خان جو بڑی مدت سے کینیڈا میں مقیم ہیں ، ان کا فون آگیا ،

 کچھ حال احوال کے بعد انہوں نے اپنی پرانی یادداشتوں کا اس دور سے ذکر شروع کیا جب ان کی ملاقات 1964 میں صادقین صاحب سے تب ہوئی جب وہ شاید فرانس سے ابھی نئے نئے واپس آئے تھے ،

سلیم چچا کراچی میوزیم میں جاب کرتے اور مصوری کے حلقے میں سرگرم تھے ، یوں باہمی بہت سے معاملات کی ہم آہنگی کی بنیاد پر اس دور میں ان کا کافی ملنا جلنا رہا ،

اور انہوں نے یہ بھی بتایا کہ انہی ملاقاتوں کے دوران صادقین صاحب نے انہیں ایک ڈرائنگ پینٹنگ حسب عادت تحفے میں دی تھی ،

اس کی سلیم چچا سے تصویر مانگی ہے مل گئی تو ان کی یادداشتوں کو کبھی کسی وقت تحریری صورت میں بیان کرنے کی کوشش کروں گا ۔


کافی طویل گفتگو کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ چچا جان کیا آپ کو یاد ہے کہ آنے والی کل صادقین صاحب کی برسی کا دن ہے ؟

تو انہوں نے بتایا کہ نہیں انہیں بالکل یاد نہیں ہے ،

اب یہ اتفاقات کیسے ہوتے ہیں یہ تو میں نہیں جانتا لیکن یہ اتفاقات میرے مارکر میں لکھنے کی روشنائی ضرور بھر دیتے ہیں ۔


شاہد حسین 

10 فروری 25


 دوستو آپ جانتے ہیں ،


آج 30 ستمبر ورلڈ ٹرانسلیشن ڈے ,

عالمی یوم ترجمہ  ہے ۔


جب ہم گلوبل ویلج کی بات کرتے ہیں ،

دنیا کو قریب لانے کی بات کرتے ہیں تو دنیا بھر کی مختلف تہذیبوں ثقافتوں اور زبانوں کی الگ الگ اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ،

اور جہاں دنیا بھر کے انسان اپنے جذباتی اظہار میں اور ان کی دوسروں تک منتقلی میں کسی زبان اور اس کے ترجمے کے محتاج نہیں ہیں ،

وہیں کسی تہذیب اور اس کی ثقافت و ادب کا ان کی زبان میں ہونا اور اس کے ترجمے کی دوسری زبان میں منتقلی کی اہمیت سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا ،

خاص طور پر سائنس اور فنون کی تکنیکی معلومات کیلئے تراجم لازمی حیثیت رکھتے ہیں


ہمارے گروپ کے جیسے کہ دیگر بہت سے مقاصد رہے وہیں فنون خاص طور پر مصوری کی جدید تحاریک اور ان پر مبنی کتب کا

اردو میں ترجمہ بھی رہا ہے ،

اس مقصد میں ہمارے ساتھ بہت سے لوگ چلے ،

لیکن وہ بہت جلدی ہمارا ساتھ چھوڑتے رہے لیکن پھر بھی وہ چند نام جو انگریزی کتب یا مضامین کے تراجم کے حوالے سے ہمارے ساتھ آج بھی کام کر رہے ہیں ،


ان کو میں آج خراج تحسین ضرور پیش کرنا چاہوں گا ۔

سعید ندرت صاحب ،

شائستہ مومن ،

عمران زیب

سعدیہ عاطف اور

نازیہ شاہد ،

یہ وہ لوگ ہیں جو آج بھی مستقل مزاجی سے انگریزی کتب اور مضامین کا ترجمہ جاری رکھے ہوئے ہیں ،


ویسے ہم ان کے بھی شکرگزار ہیں جو 

مصوری پر اپنے طور پر تحقیقی انداز میں لکھ رہے ہیں ،

لیکن خاص طور پر آج چونکہ  انٹرنیشنل ٹرانسلیشن ڈے ہے

لہذا ہم نے ان دوستوں کا خاص طور پر شکریہ ادا کیا جو ٹرانسلیشن بھی کر رہے ہیں ۔


شاہد حسین

  1. 30 ستمبر 22