Walking in Beauty,
کے ٹائٹل سے بائیں جانب دو مل کر کام کرنے والے ہسپانوی آرٹسٹوں،
Coderch & Malavia"
کا 2023 میں کیا گیا کام ہے ۔
جو چھوٹے سائز میں مکیٹ تقریباً 14 انچ اونچا اور 10 انچ چوڑا ہے ،
جبکہ اس کا ایکچول سائز ،
تقریباً 85 انچ اونچا اور 69 انچز چوڑا ہے اور اس کا میڈیم ہے برؤنز یعنی کانسی ہے ۔
یہ دونوں ہسپانوی فنکار انسانی جسم کی خوبصورتی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اپنے مجسموں کے لیے جانے جاتے ہیں، اور اکثر ان کے موضوعات، رقص اور تھیٹر سے متاثر تھیمز کے ذریعے کسی بے اختیار اضطراری حرکت اور جذبات کی عکاسی کرتے ہیں۔
کوڈرچ اور ملاویہ دونوں مل کر کام کرتے، اور اپنی فنکارانہ حساسیتوں کو نہ صرف اپنی عملی ماہرانہ صلاحیت بلکہ کونسیپٹ میں بھی باہمی مشاورت سے ملا کر بہترین ماڈلز کی مدد لیتے ہوئے مجسمے بناتے ہیں۔
دائیں جانب ،
Kneeling Runner,
کے ٹائٹل سے میرا 1998 میں کیا گیا کام ہے ،
جس کا سائز ، تقریباً 14 انچ اونچائی اور تقریبا 18 انچ چوڑائی تھی ،
اور اس کا میڈیم پلاسٹر آف پیرس تھا ۔
اس میں بھی میں نے ایک نوجوان خاتون کھلاڑی کو دوڑنے سے پہلے کی پوزیشن میں جھک کر بیٹھے ہوئے بنایا تھا ، اسے برہنہ بنانے کا مقصد اسے کسی علاقائی یا ثقافتی پہچان کے بغیر ایک خوبصورت انسانی جسم کے طور پر اس کی متحرک ترین حالت سے لمحہ بھر پہلے کو بیان کرنا تھا ، لیکن اس میں کسی ماڈل کی مدد نہیں لی گئی تھی سوائے کچھ مختلف رسالوں میں موجود تصاویر کے جو کہ اگر ایک ہی پوسٹ کے مختلف اینگل سے نہ لی گئی ہوں تو مسلز کو حقیقی انداز میں سٹڈی کرنا مشکل ہوتا ہے ۔
اس کا تاریخی حوالہ یونان کی اسپارٹن خواتین تھا جنہیں مردوں کے شانہ بشانہ بالکل برابری کی بنیاد پر جنگ اور کھیلوں کے لیے جسمانی اور ذہنی طور پر تیار کیا جاتا تھا ،
تاکہ وہ صحت مند اور مضبوط انسان اور مائیں بنیں عام طور پر وہ ایسے لباس پہنتی تھیں جو انہیں روزمرہ کے عام معمولات میں آسانی دیتا تھا لیکن خاص طور پر مذہبی اور کھیلوں کی تقریبات میں وہ مکمل طور پر برہنہ ہوتی تھیں جو اس وقت یونانی معاشرے میں بھی ایک مختلف و اچھنبے کی بات سمجھی جاتی تھی ۔
لیکن میرا اس کے نیوڈ بنانے کا مقصد نسوانی جسم کی خوبصورتی اور نزاکت کو طاقت کے عنصر کے طور پر بھی پیش کرنا تھا ۔
اسی دوران کراچی میں ایک ملینیم شو ہو رہا تھا جس میں
دنیا بھر سے آرٹ ویورز اور کریٹکس نے شرکت کرنی تھی اور آرٹسٹوں کو اس نمائش میں اپنا کام دو مراکز پر جمع کروانا تھا ، جس میں سے پھر کچھ کام کہیں پبلش کرنے کے لیے سلیکٹ ہونا تھا ۔
ایک علی امام صاحب کی بوٹ بیسن پر موجود گیلری میں اور دوسرا آرٹس کونسل کراچی پر ، میں نے اپنا یہ کام آرٹس کونسل میں رکھوایا ، اس دور میں موبائل فون عام نہیں تھا ، لیکن ایک دوست کے ذریعے لینڈ لائن فون پر پیغام ملتا رہا کہ وہاں بہت سے آرٹسٹوں نے اس کام کو سراہتے ہوئے میرے بارے حیران ہو کر پوچھا تھا کہ یہ کس کا کام ہے ؟
یہاں تک کہ ایک دوست نے تو مذاق سے یہ بھی فون کر دیا کہ آپ کا کام ونرز میں سلیکٹ ہو گیا ہے ۔
جبکہ سچ میں جس انٹرنیشنل ڈیلیگیشن نے آنا تھا معلوم ہوا کہ اسے علی امام صاحب نے
بس بوٹ بیسن پر موجود اپنی گیلری کا وزٹ کروایا اور وہ وہیں سے واپس چلے گئے تھے ۔
خیر میرا یہ کام نمائش ختم ہونے کے بعد میرے پاس واپس آگیا اس دور میں اس قسم کا کام کسی کمرشل گیلری پر رکھوانا مشکل تھا ، بہرحال کچھ وقت کے بعد میرے سٹوڈیو سے ہی میرے ایک بائر نے یہ کام خرید لیا ،
وہ اپنے گھر کے لیے بھی مجھ سے اکثر کچھ نہ کچھ انٹیریئر اور ڈیکوریٹو آرٹ کے حوالے سے کام کرواتے رہتے تھے ، اسی سلسلے میں میں ایک دن ان سے ملنے گیا تو ان کے گھر کے برابر ہی ایک خالی پلاٹ تھا ،
میں دروازے کی بیل بجانے والا تھا کہ اس خالی پلاٹ میں میری کچرے میں ایک چیز پر نظر پڑی ، جو شاید کوئی ٹوٹا ہوا مجسمہ تھا میں نے قریب جا کر دیکھا تو وہ یہی میرا کام تھا ۔
میں ذہنی طور پر انتہائی شاکڈ ہو گیا بہرحال میں نے اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے ان سے ملاقات کی وہ بہت نفیس شخص اور میرے بڑے اچھے دوست تھے اور آج بھی ہیں ،
حال احوال کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ جو اسکپچر میں نے آپ کو دیا تھا وہ باہر کچرے میں ٹوٹا ہوا پڑا ہے اگر تو وہ غلطی سے ٹوٹ گیا تھا تو آپ مجھے بتاتے میں اسے ریپیئر کر دیتا ؟
وہ انتہائی افسوس اور شرمندگی سے سر جھکا کر کہنے لگے کہ شاہد مجھے تو وہ بہت عزیز تھا ،
بس میرے گھر ایک قابل احترام مہمان آئے جنہوں نے اسے غصے سے توڑ دیا ،
میں نے اپنے ملازم سے کہا تھا کہ اسے کہیں دور پھینک آوُ مجھے افسوس ہے کہ اس کاہل نے اسے ایسی جگہ پھینکا کہ تمہیں بھی یہ نظر آگیا میں چاہتا ہی نہیں تھا کہ تمہیں معلوم ہو کہ یہ ٹوٹ چکا ہے ۔
بہرحال مجھے افسوس تو ہوا لیکن میں نے ان سے اجازت لی کہ کیا اسے میں وہاں سے اٹھا کر لے جاؤں ؟
انہوں نے کہا کہ شاہد مجھے اور شرمندہ نہ کرو !
سو میں اسے لے آیا ، اور فرصت کے اس وقت کی تلاش کرتا رہا جس میں میں اسے دوبارہ سے ریپیئر کر سکوں ۔
لیکن اس دور میں یہ فرصت بالکل بھی دستیاب نہیں ہوتی تھی اور مجھے تھوڑے تھوڑے وقت کے بعد اپنے اسٹوڈیو کی جگہ اتنی بار تبدیل کرنا پڑتی تھی کہ اس میں میں ذہنی طور پر ایسی حالت میں ہوتا تھا کہ اضافی سامان تو کیا اپنا بے شمار سنبھالا ہوا کام خود اپنے ہاتھوں سے توڑتا تھا ،
تو اس میں ایک پہلے سے ٹوٹی ہوئی چیز کو بھلا میں کیسے سنبھالتا ،
سو آج اس کا کوئی نشان باقی نہیں ہے سوائے اس عام سے کیمرے سے کھینچی ہوئی دھندلی تصویر اور کچھ دھندلی یادوں کے ۔
شاہد حسین
28 فروری 25