شبلی یا شبلی کے کام پر بات کرنے کے لیے میرا اس سے اپنا تعلق بتانا بڑا ضروری ہے ،
شبلی صرف میرے چھوٹے بھائی شہزاد کا دوست ہی نہیں اس نے بھی ہمیشہ مجھے اپنا بڑا بھائی ہی سمجھا ہے ،
جب وہ بی این یو کا سٹوڈنٹ اور وہاں موجود سلیمہ ہاشمی راشد رانا اور آرٹ کی تعلیم دینے میں دیگر دیوقامت اساتذہ سے سیکھتا تھا ،
وہیں اس کی مجھ سے بھی ملاقاتیں اور گفتگو جاری رہتی تھی ،
جس دن اس کا تھیسس تھا اس کے دیواری سائز گرڈ کے کام پر میری اس سے خوب بات ہوئی تھی ،
یہ گرڈ اس کے کام میں صرف ،
Piet Mondrian,
کی ٹو ڈائمنشنل کائناتی سچائیوں سے متعلق ہی نہیں بلکہ ظہور الاخلاق اور شبلی کے پسندیدہ استاد راشد رانا کی ذاتی سچائیوں سے بھی متاثر تھی ۔
اور میں نے اس سے تب ہی کہا تھا کہ بہت جلد تم اس میں اپنی زبان بھی بولو گے ، اور پھر میں نے شبلی منیر کو اپنے کام میں کسی طاقتور گھوڑے کی طرح سرپٹ دوڑتے دیکھا ، کسی کانکن کی طرح اپنی ذات میں مسلسل کھدائی کرتے دیکھا ، اور یہ سب وہ خاموشی سے نہیں کرتا تھا وہ خوب خوب الجھتا تھا سماج سے لوگوں سے ناراض ہوتا تھا یہاں تک کہ خدا سے بھی ۔ ۔ ۔ ۔
لیکن مجھے معلوم تھا کہ وہ ایک دن ،
SUBMISSION,
کے مقام پر بھی پہنچے گا ۔
دراصل ہم نہیں جانتے ، یا یوں کہیے کہ ہم سب کچھ نہیں جانتے کہ ہماری ذات کے انکار کب ہمارا اقرار بن جاتے ہیں ، کب ہمارے جھگڑے کسی ذات سے عشق اور ہماری اپنی انا کا انکار بن جاتے ہیں ۔
شبلی ہمیشہ اپنے کام میں مجھ سے رائے ضرور لیتا ہے اس بار بھی اس نے جب اپنے نئے کام پر رائے طلب کی تو میں نے کہا نہیں میں اس بار تمہارا کام دیکھے بغیر اپنی رائے دوں گا ،
بس دل چاہا اس سے یہ کھیل کھیلنے کو ، مجھے نہیں معلوم کہ میں اس کا جب کام اب یہ لکھنے کے بعد دیکھوں گا تو اس میں مجھے کیا کچھ نیا نظر آئے گا ،
جو میرے لکھے ہوئے کا انکار کرے گا لیکن مجھے اب اس اقرار اور انکار کی پرواہ ہی نہیں ہے ،
بس میں تو جتنا شبلی کو جانتا ہوں اس میں میں اس کا کام دیکھے بغیر ہی اس پر یہ کہوں گا کہ وہ دوڑنا جانتا ہے ، وہ کھوجنا جانتا ہے ، اسے زندگی میں جو کان دستیاب ہوئی ، وہ بے شک کوئلوں کی تھی مگر وہ اس میں سے ہیرے نکالنے جانتا ہے ۔
یقینا اس بار بھی وہ بہت قیمتی ہیرے تراش کر لایا ہوگا ۔
شبلی تمہارے لیے بہت سی نیک خواہشات ۔
شاہد حسین
26 فروری 25
No comments:
Post a Comment