Friday, February 14, 2025

ترجمے کا دن


 Syed Shahab Shah:


 اگر آپ کو پورے جہان کی بادشاہی بھی مل جائے تو ایسی بادشاہی کا کیا فائدہ؟ اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ آپ کے غم مزید بڑھ جائیں گے۔


انصاف اور مساوات کے ساتھ توازن رکھنا انتہائی مشکل کام ہے۔ کچھ چیزوں کو کم کروگے تو کچھ اور زیادہ ہوجائے گی۔


کیا تمہارے اپنے غم کم ہیں جو پوری دنیا کے غم اپنے سر لینا چاہتے ہو؟


ایسے تخت کا کیا کرنا جس پر دن رات رونا پڑے؟


بادشاہ (حکمران) ایسا ہے جیسے خچروں کی بھیڑ میں سب سے بڑا خچر آگے آگے ہو۔


جانوروں کا بڑا بادشاہ سب سے بڑا جانور ہوتا ہے۔


یہ دنیا کتے کی دم کی مانند ہے جو نہ کبھی سیدھی ہوگی اور نہ ہی ٹھیک۔


اس کا رنگ کالی بلی جیسا ہے، جتنا دھولو اتنی ہی مزید کالی ہوگی۔


بادشاہی تب بنتی ہے جب آدھے لوگ آدھے لوگوں کو قتل کریں۔


اور جب ایک انسان دوسرے کے گوشت کو اپنے گھر کے کتوں کو کھلا کھلا کر ان کا پیٹ بھر دے۔


ایسی زندگی کا مقصد کیا کہ جب تم باغ کی رکھوالی کرو اور بلبلوں کو قتل کرو اور گلابوں کو روند ڈالو۔ 


اے رب! اگر تُو مجھے پورے جہاں کی بادشاہی دے بھی دے تو میں اسے ایسے ہی باہر پھینک دوں گا جیسے لوگ گوبر اپنے گھر سے باہر کچرے پر پھینکتے ہیں۔


دو گھڑی کی زندگی کو میں لڑائی جھگڑوں میں نہیں گزار سکتا۔


ظلم سے بھری ہوئی بھڑکتی ہوئی ہانڈی کے اوپر کوئی دوسرا سر رکھ دے۔


مجھے کچھ گلاب دے دے اور ایک بہت لاڈلا محبوب۔


دریا کے کنارے ایک باغیچہ دے دے۔


اور اس دریا کے کنارے درخت کے سائے تلے میں بیٹھا رہوں۔


اور خوب آرام سے مزے مزے کی غزلیں لکھا کروں۔


کبھی محبوب سے التجائیں کروں اور کبھی برا بھلا ملّا کو کہوں۔


ساقی اور ساغر کی بے حساب تعریفیں کروں اس بے حس سماج کو۔ 


اے اللہ! کبھی کبھی میں تجھ سے بچوں کی طرح گلے شکوے کروں۔


کبھی کبھی زندگی کی امیدیں، اور کبھی حسرت و یاس سے بھری آہیں۔


کبھی رباب، کبھی ہلکی موسیقی، کبھی جام، کبھی دلبر۔


کبھی رنگوں کی دنیا میں ڈوب جانا، اور  جہاں سے مکمل بے خبر۔


بادشاہی انہیں دے جو اس کا زور برداشت کرسکیں۔


جن کے ہاتھ قصائی کے ہوں، اور جن کی خصلت زہریلے سانپ کی طرح ہو۔


جو خود کے لیے اپنے بھائی کو قتل کر سکے۔


جو غریبوں کا گوشت کھا کر ہضم کر سکے۔


وہی سر تاج پہن سکتا ہے جو قتل عام اس طرح کرے جیسے مہلک وبا۔


جو ببر شیر کی طرح دھاڑتا ہو، چیرتا ہو، اور اژدہا کی طرح خوف پھیلاتا ہو۔


تخت بھی تیز تلواروں اور طاقت کے استعمال کے بغیر برقرار نہیں رہ سکتا۔


بادشاہ جتنے بھی زیادہ ہوں اتنی ہی دنیا برباد ہوگی۔


بڑا بادشاہ سب سے بڑی جھونک ہوتا ہے، یہ خون اور پیپ سے پلتا ہے۔


بادشاہی آگ کی طرح جلانے اور راکھ کرنے پر پلتی ہے۔


ہمارے رب ہم پر اپنا خاص فضل کرے اور ہمیں اس بلا سے نجات دلا دے۔


کسی بڑے گدھے کے اوپر ہیرے جواہرات سے بھری یہ بوری رکھ دے۔


صاحب اس گدھے سے ہمارے لیے سفارش کر دے۔


کہ خیال رکھنا کہیں غنی کو لات نہ مار دے۔

شاعر ، غنی خان 



 Syed Shahab Shah: 

کاش، میں غنی خان کی اس عالمگیر شاعری کا ترجمہ اسی گہرائی اور وسعت کے ساتھ کر سکتا۔

اس میں پوری دنیا کے حکمرانوں کی بربریت، ظلم و استحصال اور بادشاہوں کی خصلت کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔


Shahid Hussain:

 یورپ میں ،

مجموعی طور پر ڈھائی سو کے قریب زبانیں بولی جاتی ہیں ،

جن میں سے 24 کو یورپی یونین باقاعدہ ریکگنائز کرتی ہے ۔


ٹھیک ہے کہ تقریبا آٹھ دہائی  پہلے یورپ شدید جنگ سے گزرا ، مگر اس کے بعد یورپ متحد ہو گیا ۔

اب سوچنے کی بات ہے کہ ڈھائ سو کے قریب زبانیں بولنے والا وسیع خطہ متحد کیسے ہو گیا ؟


دیکھیے اس کی بہت سی وجوہات ہیں آپسی بہت سے کمپرومائز ہیں ، جن میں سب سے اہم اقتصادی ترقی کے حوالے سے ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ ہے ،

اور اس کے بعد ایک دوسرے کی خاص خاص زبانوں کا احترام ہے اور ان کی انڈرسٹینڈنگ ہے ۔

جس میں وہاں تراجم نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔

جن میں ایک نے دوسرے کی کتاب کو نہ صرف ترجمہ کیا بلکہ کئی بار ایک ہی کتاب میں دو تین زبانیں کے آپشن موجود ہوتے اور پھر ان کی فلمیں کئی زبانوں میں ڈب ہوتی رہیں اب تو ایمازون اور نیٹ فلیکس جیسی مووی سٹریمنگ سائٹس پر بیشتر فلمیں درجن بھر سے زائد زبانوں میں دستیاب ہوتی ہیں ۔


اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ترجمہ اصل روح کو پوری طرح سے منتقل نہیں کر پاتا ،

لیکن پھر بھی اس کا ایک مجموعی تاثر ، یا ایک ایسا خاکہ ضرور منتقل کرتا ہے جسے پھر دوسرے انسان خود اپنے احساسات اور جذبات کی مدد سے آمیزش سے ترجمہ کر لیتے ہیں لیکن کہیں نہ کہیں وہ ابتدائی ترجمہ بہت ضروری ہوتا ہے جس میں پہلے ہم کسی لفظ کے معنی کو ہی نہیں جان پاتے جبکہ ترجمے سے جان لیتے ہیں۔


اور اس سلسلے میں ہمارے خطے میں بڑی کوتاہی کی گئی ہے ،اور تو اور ہم اپنے ملک میں مختلف زبانوں کے بہت بڑے بڑے شاعر اور ادیبوں تک کو نہیں جان سکے ،

ایک دوسرے کی بات کو ٹھیک طرح سے نہیں سمجھ سکے نہ سمجھا سکے ۔ 

آج اتفاق سے مجھے ایک دوست اعجاز ملک نے ذاتی طور نصرت فتح علی کا پنجابی گیت بھیجا ہے جو میری مادری زبان ہے لہذا اس کو تو میں پوری طرح سے محسوس کر پا رہا ہوں جبکہ دوسرے دوست اکرم دوست نے بلوچی گیت بھیجا ہوا ہے ،

جس کی دھن میں موجود تاثرات تو میں وصول کر پا رہا ہوں لیکن لفظوں میں چھپی معنویت  سے میں نابلد ہوں ناواقف ہوں ۔



شہاب بھائی آپ ان باریک باتوں کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں ، اور پھر ان کا سدباب بھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔


آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے نہ صرف اس گیت کو ایک گلوکارہ کی خوبصورت گائی ہوئی آواز اور دھن کے ساتھ شیئر کیا ،

بلکہ اسے اصل شاعری اور پھر اس کے ترجمے کے ساتھ بھی ہمارے ساتھ اشتراک کیا ،

میں سمجھ رہا ہوں کہ آپ اس کے باوجود  اپنے آپ میں ایک بے بسی محسوس کر رہے ہیں کہ شاید آپ پوری طرح سے شاعری کا مفہوم ہم تک نہیں پہنچا پا رہے ، میں کہوں گا نہیں آپ بے فکر ہو جائیے ، اس مٹیریل ورلڈ کی کچھ دقتوں کی اگر حد بندیاں انسانی کوششوں سے توڑ دی جائیں جیسے کہ ترجمے کی ابتدائی دقت تو پھر اس کے بعد ہماری روح کے پاس ایک اپنی ایپ موجود ہوتی ہے جو کہیں نہ کہیں حقیقی تاثرات سے اگے بڑھتے ہوئے  اس کی روح کو بھی ترجمہ کر لیتی ہے ۔


ہمارے ساتھ مکمل لوازمات کے ساتھ شیئر کرنے کا بہت شکریہ 😊❤️ 


شاہد حسین

18 جنوری 25


 Syed Shahab Shah: 

واہ واہ واہ!


 اسے اگر میں آمد گردانتا ہوں تو آپ کے علمی اور فکری اوج کمال  کی نفی ہو جائے گی۔ آپ نے انتہائی محنت، مسلسل جدوجہد اور اعلیٰ اقدار کو قائم رکھنے کے لیے بہت کٹھن وقت گزارا ہے اور سخت محنت کی ہے۔ اور اس کا یہ بیّن ثبوت ہے کہ آپ کی تحریروں میں وہ کمال اور علم موجود ہے جس کا مقابلہ تو دور کی بات، قریب پہنچنا بھی ناممکن ہے۔

آپ نے فوراً اتنی مستند تحریر لکھی۔ میں تو ششدر رہ گیا۔ اور حیرانی سے کہیں زیادہ مجھے خوشی ہوئی۔

شاہد بھائی، میں آپ کا بےحد ممنون و مشکور ہوں۔


سید شہاب شاہ 

18 جنوری 25

No comments: