میرے والد جو میرے استاد بھی تھے ان کے اور میرے درمیان احترام و ہم آہنگی کے امتزاج پر مبنی دوستی کے بارے کہیے یا کسی بھی تعلق میں اس خصوصیت کی تعریف میں میرے والد ایک بادشاہ اور وزیر کا قصہ سناتے تھے کہ ،
کوئی بادشاہ اور اس کا وزیر خاص و دوست کسی پرسکون دریا میں تیرتی کشتی میں بیٹھے محو گفتگو تھے اور بادشاہ نے اپنے وزیر سے ایک سوال پوچھ رکھا تھا جس کا جواب ابھی وزیر کے لبوں پر آیا ہی چاہتا تھا کہ اسی اثنا میں کشتی کسی بھنور میں پھنس کر الٹ گئی ،
بادشاہ کہیں تو وزیر کہیں ، دونوں کے درمیان فاصلہ اور طویل وقت حائل ہو گیا ۔
اس غیر حاضری میں مملکت پر قبضہ ہو گیا ، جسے مدت لگی چھڑانے میں ،اور پھر بالاخر وہی حالات واپس آئے بادشاہ اور اس کا وزیر بھی دریا میں اسی مقام پر اسی طرح سے کشتی میں بیٹھے پھر سے ہم کلام ہوئے اور بادشاہ نے اپنے وزیر سے پوچھا ، ہاں تو میں کیا کہہ رہا تھا ؟
اور جناب وزیر صاحب نے وہی جواب ادا کیا جو طویل مدت پہلے ان کے لبوں پہ آتا آتا رہ گیا تھا ۔ ۔ ۔
میری اور احمد حبیب کی دوستی میں نہ کوئی بادشاہ ہے نہ کوئی وزیر لیکن ذہنی ہم آہنگی اور مکالمے کا معیار بالکل اسی قصے کی طرح ہے ۔
ہم مدتوں بات نہیں کرتے لیکن جب کرتے ہیں تو سلسلہ بلکل وہیں سے شروع ہوتا ہے جہاں سے ٹوٹا ہو ۔ ۔
کبھی احساس ہی نہیں ہوتا کہ درمیان میں وقت کے دریا کا کتنا پانی گزر چکا ۔
ابھی گزشتہ دنوں بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ احمد حبیب اپنی زندگی پر ایک کتاب لکھ چکا ہے ،
جس میں ظاہر ہے کہ وہ اپنی گزری زندگی بارے جو کچھ کہنا چاہتا ہے ضرور کہے گا ،
لیکن انسان اس زندگی اور سماج کے ساتھ کچھ عجیب طرح سے جڑا ہے کہ جہاں یہاں یہ اہم ہوتا ہے کہ ہم خود کو کتنا جانتے ہیں وہیں یہ بھی اہم ہوتا ہے کہ دوسرے ہمیں کس طرح سے دیکھتے ہیں ، لہذا سوچا کہ جو میں احمد حبیب کو جانتا ہوں وہ بھی مختصراً ضرور بیان کروں ۔
میرے سامنے احمد حبیب کا سب سے پہلا تعارف ایک انتہائی نفیس ، خوش مزاج اور کمال درجے کی معنی خیز مسکراہٹ کے پیچھے اپنی گھمبیر سنجیدگی کو چھپائی ہوئی شخصیت ہے ، جو اپنی عملی زندگی میں ڈرامہ تھیٹر ، اداکاری ، مصوری، شاعری ادب موسیقی اور نہ جانے فن کی کن کن جہتوں میں مصروف بکھرا پڑا ہے ،
لیکن میں اسے مجموعی طور سب سے زیادہ طاقتور بطور ہدایت کار دیکھتا ہوں جو خود اپنے وجود کی ان خصوصیات کے ہجوم کو کوئی ترتیب دینے کی انتہائی اعلی صلاحیت رکھتا ہے ۔
گو کسی بھی فنکار کے لیے اپنی تخلیقی خواہشات کے اژدہام میں چناؤ کی دقت سے آزاد ہونا بہت مشکل ہوتا ہے کہ وہ
کئی بار اپنی توانائیوں کو اپنے بہت سے مشاغل کے خانوں میں بکھیر دینا تو چاہتا ہے ، لیکن ان میں سے خود کو سمیٹے کہاں کہاں یہ بہت مشکل ہو جاتا ہے ۔
یعنی پھر اس کے لیے بہت ہی مشکل ہوتا ہے کہ وہ ہر خانے میں اپنے مکمل وجود کی توانائیوں کے ساتھ موجود ہو ،
جبکہ احمد حبیب میں یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے کہ وہ ہر خانے میں تقسیم ہونے کے باوجود وہاں مکمل طور موجود ہوتا ہے ۔
لہذا یوں مجھے اس میں ہدایتکار یعنی ترتیب دینے والے کی صلاحیت سب سے زیادہ نظر آتی ہے
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس خوبی کا حامل کوئی فنکار اپنی ذات میں بے ترتیب نہیں ہوسکتا
لیکن کئی بار اس کے لیے اپنی بے ترتیب ذات شہر آفاق مصور ورمیر کے اس سٹوڈیو کی طرح ہوتی ہے جہاں جو چیز جس طرح سے رکھی ہوتی ہے اسے وہ اسی طرح سے عزیز ہوتی ہے ۔
اور اس نے اسی بے ترتیبی سے ہی اپنی تخلیق مکمل کرنی ہوتی ہے
چاہے وہ اس کا کوئی فن پارہ ہو ، زندگی کا سفر یا اس کی اپنی ذات پر خود لکھی ہوئی کتاب ۔
تو ہو سکتا ہے جب ہم
احمد حبیب کی خود نوشت کا مطالعہ کریں
تو اس میں صرف ترتیب ہی نہیں اسکا
بہت سی ٹوٹ پھوٹ سے گزرنا بھی دیکھیں ،
لیکن کوئی بھی بڑا فنکار اصل میں اسی پروسیس سے گزر کر ہی مکمل ہونے کے مقام تک پہنچتا ہے ۔
اور یقیناً آج احمد حبیب وہاں موجود ہے ۔
احمد حبیب کے لیے بہت سی نیک خواہشات کامیابیوں کی دعاؤں کے ساتھ۔
شاہد حسین
15 جنوری 25


No comments:
Post a Comment