Thursday, February 27, 2025

فلسطین کا نوحہ


 جن احباب نے مکالمے میں اپنی رائے دی ان کا بہت بہت شکریہ ،


دوستو آپ جانتے ہیں، میری تو یہی کوشش ہوتی ہے کہ 

گفتگو میں خالصتاً مصوری اور فنون کے موضوعات تک محدود رہا جائے ،


لیکن آپ میں ہی سے کوئی نہ کوئی دوست ایسے موضوع کی طرف ڈرائیو ضرور کرتا ہے 

جو کسی بھی حساس دل کو متاثر کرنے والا ہوتا ہے ،

اور لوجیکل وجوہات تلاش کرنے والوں کو تڑپانے جیسا ہوتا ہے کہ کیا بس یہی کافی ہے کہ ہم ان پوسٹس کو دیکھیں سنیں اور آگے بڑھ جائیں ؟

 کیا ہم اللہ کی وہ مخلوق نہیں ہیں کہ ان حادثات و واقعات کے پیچھے وجوہات کو جاننے سوچنے سمجھنے کی کوشش کریں ؟


کتنی عجیب بات ہے کہ کچھ معاملات میں اگر آپ سائنس کو مانتے ہوئے انسان کی ابتدا کو حیوان قرار دے دیں یا پھر چاہے آپ مذہب کو مانتے ہوئے 

اس کو ابتدا سے ہی اعلی ترین خصوصیت کی حامل مخلوق انسان قرار دیتے ہیں ،

ان میں کچھ معاملات یکساں ہی قرار پاتے ہیں ۔


جیسے کہ اگر تو انسان اپنی ابتدا میں حیوان ہے تو تب بھی اسے علم کا ایک حصہ وجدانی طور پر تو ملتا ہے ۔


اور اگر وہ اپنی ابتدائی تخلیق سے ہی انسان ہے تو تب بھی اللہ نے اسے علم ایک حصہ ودیعت کر کے بھیجا ہے ۔


پھر اس سے آگے بڑھتے ہوئے انسان جب حیوان سے الگ و مختلف ہوتا ہے تو وہ مشاہدے سے سیکھنے والی مخلوق قرار پاتا ہے ،

پھر تحقیق جستجو سوال جواب ، اقرار انکار اپنے آباؤ اجداد کے فراہم کردہ تجربات اور اپنے نئے مشاہدات سے اپنے علم میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے ۔


لیکن کیا دنیا کے تمام انسان علم حاصل کرنے اور شعوری ترقی کی ان تمام صفات اور کوششوں میں یکساں ہوتے ہیں ؟


نہیں دیکھا یہ گیا ہے کہ وقت کے مختلف حصوں میں مختلف خطوں میں مختلف مختلف اقوام اس سلسلے میں کچھ تو ہمیشہ سے سبقت میں رہی ہیں اور کچھ اپنی سبقت میں بدلتی رہی ہیں ،

کچھ اقوام بہت عروج حاصل کر کے جب سہل پسند ہو جاتی ہیں تو پھر زوال پذیر ہو جاتی ہیں ،

پھر کچھ اقوام جب زوال میں انتہائی پستی میں چلی جاتی ہیں تو وہاں سے ٹکرا کر پھر ابھر کر عروج کے مقام پر آتی ہیں ،


اس کے بارے اللہ نے قران میں بھی کہا ہے کہ ہم قوموں کی حالت ان کی اپنی کوششوں اور کوششوں میں کوتاہی و نافرمانی کی بنیاد پر بدلتے رہتے ہیں ،اور ایک قوم کی جگہ دوسری قوم کو لے آتے ہیں ۔

یہاں یہ بات ذہن میں رکھی جائے کہ ایسا اللہ صرف اپنی مرضی سے نہیں کرتا بلکہ انسانوں کی غلطی کوتاہی اور نافرمانی کی بنیاد پر ۔ ۔ 


لیکن ان تمام اقوام میں ہمارا موضوع ہے مسلمان قوم !

کیا آج علم انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس جدید ترین دور میں 

جب ہمارے پاس علم کے بھی خزانے دستیاب ہیں ، اور ٹیکنالوجی کی بدولت ان تک رسائی انتہائی اسان اور مشاہدے کا بھی ہجوم دستیاب ہے ، تو کیا ہم سیکھنے اور سمجھنے والی قوموں میں شمار ہو رہے ہیں ؟


یقینا خوش فہمی بھی ایک بہت بڑی نعمت ہے ، لیکن حقیقت تو اس کے بالکل برعکس ہے ۔



مسلمان قوم جسے اللہ کی طرف سے سب سے پہلا پیغام علم حاصل کرنے کا ملتا ہے وہ علم حاصل کرنے میں اج کس مقام پر ہے ؟


جس کے ایمان کا نصف صفائی ہے ، تجارت جس کے نبی کا پیشہ ہے ، امانت اور ایمانداری جن کا لازمی وصف ہے دشمن سے لڑنا جس کے ایمان کا حصہ ہے وہ قوم ان سب معاملات میں کہاں کھڑی ہے ؟


1258 میں جب ہلاکو خان نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور مسلمانوں کے سروں کے مینار بنا دیے تو وہ اپس میں فقہی معاملات پر الجھنے اور جھگڑنے میں مصروف تھے ،


آج بھی نصف صدی سے لبنان ، لیبیا ، عراق ، بوسنیا ، شام , یمن ، افغانستان اور فلسطین میں مسلمانوں کو نیست و نابود کر کے رکھ دیا گیا ہے ،

لیکن ہمارے اپس میں فقہی مسائل اور ان کی بنیاد پر نفرت ختم ہی نہیں ہو رہی ، ہم ابھی بھی منتظر ہیں کہ کب ایران اور عربوں کی باری آتی ہے ،

ہم اپنے درمیان شیعہ سنی کی لڑائی ختم ہی نہیں کر پا رہے ۔


تقریباً 1400 سال پہلے جب اس اختلاف اور فساد کی ابتدا ہوئی تو جہاں تک معاملات کچھ دھندلکوں میں چھپے ہیں انہیں جانے دیجئے ، مگر جہاں ملوکیت جمہور کے مقابل کھل کر سامنے آگئی تھی مسلمان تو اسے بھی نہیں سمجھ سکے ،

اگر اس کی آسان وضاحت کی جائے تو ملوکیت میں عوام کی تمام ریسورسز پر شہنشاہیت کا قبضہ ہوتا ہے ، جبکہ جمہوریت میں ان پر عوام کا اختیار ہوتا ہے ، 1400 سال گزر گئے مگر مسلمان اج بھی یہ فرق ہی نہیں سمجھ سکے ،

تو پھر ہم سیکھنے میں کس مقام پر کھڑے ہیں ؟


جس نبی کو ہم مانتے ہیں محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ان کی اولاد ایک ایسا نظام چاہتی تھی جو شہنشاہیت تو نہیں تھا ، لیکن جو لوگ اس نظام کو نہیں چاہتے تھے وہ انہیں میدان کربلا میں شہید کر رہے تھے ،


اور ان شہیدوں کی یاد منانے والوں کو اج بھی قابل تنقید سمجھا جاتا ہے ،


کافر قرار دیا جاتا ہے اس ہونے والے ظلم کو شک شبہ اور شرعی احکامات کی آڑ میں چھپایا جاتا ہے ان کی تعلیمات کو چھپایا جاتا ہے ، اور ان کی بات کرنے والوں کو اور ان واقعات کو نوحوں کی شکل میں بیان کرنے والوں کو واجب القتل قرار دیا جاتا ہے ، 

لیکن کیا اج ہم فلسطین کا نوحہ بیان نہیں کر رہے ہیں ؟


یہ سب باتیں مسلمانوں کی اکثریت کو سمجھ کیوں نہیں آتی ہیں ؟

اگر ہم نے اپنے تاریخی سانحات کو نوحوں کی شکل میں بیان کرنے کو لازم سمجھا ہوتا تو یقینا ہم ان سے کچھ نہ کچھ سیکھتے بھی ۔


گزشتہ روز خاندان اہل بیت کے ایک امام کا ایسا قول پڑھ رہا تھا جو ایک سائنسی وضاحت تھی ،

لیکن ایک اکثریت نے صرف شیعہ تعصب میں اسے غلط قرار دیا ہوا تھا ،


میں نے اسی وقت وہی سوال چیٹ جی پی ٹی پر رکھا اس کا وہی جواب تھا جو 1400 سال پہلے امام کی اس تعلیم میں موجود تھا ،


تو آج مسلمانوں کی اکثریت اس چیٹ جی پی ٹی جیسی علمی سہولت سے فائدہ اٹھانے میں کس مقام پر کھڑی ہے ؟

اور وہ جن مسائل میں خواہ مخواہ الجھتی ہے ان کے جوابات وہاں سے تلاش کیوں نہیں کر لیتی ہے ؟

اور ان پر دنیا بھر میں جو ایک ایسا نظام مسلط ہے جو انہی کے حقوق غصب کر رہا ہے ،

انہیں وہ سمجھ کیوں نہیں آرہا ہے ؟


وہ شیعہ سنی کو چھوڑ دیں ، قران ان کے سامنے ہے ،

ترجمے کی سہولتیں ان کے سامنے ہیں وہ خود اسے پڑھ کر بہت سی باتوں کو واضح کیوں نہیں کر لیتے ہیں انہیں مان کیوں نہیں لیتے انہیں سمجھ کیوں نہیں لیتے ہیں ؟


ساڑھے چار ہزار سال پہلے ہمارے خطے کی قوم شہری تعمیر میں انتہائی ڈسپلنڈ تھی ،

کیا اج ہم اس میں ترقی کر سکے ؟

آج ہمارے اکثریتی مسلم ممالک کے شہروں میں بے ہنگم تجاوزات بے ترتیب تعمیرات عام ہیں ،

جبکہ ہمیں راستوں کو کشادہ رکھنے کا حکم دیا گیا تھا ،


ہمیں یہ باتیں سمجھ کیوں نہیں آتیں ، ابھی رمضان آنے والے ہیں ہر مسلمان روزہ رکھنے کے معاملے میں سختی سے عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے ، نئے رجحانات میں تو نہ بزرگوں کو چھوٹ دی جاتی ہے نہ بیماروں اور نہ بچوں کو ،ہر طرف پابندی لگ جاتی ہے ۔


مگر کیا ملاوٹ شدہ 

گندگی سے بھرپور ،

اور مہنگی اشیاء پر بھی پابندی لگتی ہے ؟

سب سے زیادہ ہماری تعلیمات میں ہی یہ باتیں عام ہیں کہ اس دنیا کو مستقل ٹھکانہ نہ سمجھو دولت کے حصول میں دوسروں کے مفادات کو کچلنے میں حد سے آگے نہ بڑھو ، مگر ہم اپنی تعلیمات پر عمل میں کہاں کھڑے ہیں ؟


اور ایسی ہی بد اعمالیوں کا نتیجہ صرف ہمارے زوال نہیں بلکہ دنیا بھر میں ہماری ذلت و رسوائی ، اور تباہی کی صورت نکل رہا ہے ۔

مگر ۔ ۔ ۔ ۔ 

شاہد حسین 

27 فروری 25

No comments: