گہری تاریکیوں میں بھوتوں چھلاووں کی بارات کی طرح روشن ہو جانے والے بازاروں کے بارے بات ہمارے موضوع کو بہت طویل کر دے گی ،
بس منیر نیازی کا شعر ان کے بارے کہا جا سکتا ہے ،
"کج شہر دے لوگ بھی ظالم سن ،
کچھ سانوں مرن دا شوق وی سی "
لیکن اسی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے
آج کے پاکستان کے نامور مصور ،
اقبال حسین صاحب کو کون نہیں جانتا !
اور حفیظ جالندھری صاحب نے شاید ایسے ہی لوگوں کے لیے یہ شعر کہا ہے ،
"حفِیظ اہلِ زباں
کب مانتے تھے
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہُوں"
اسی طرح میں سمجھتا ہوں کہ اقبال حسین نے بیسویں صدی کے مشہور فرنچ رائٹر ناولسٹ ،
آندرے مارلوکس کی بات کو بھی سچ کر دکھایا ،
"Art is a rebellion against fate."
-Andre Malraux
آرٹ بدقسمتی کے خلاف بغاوت ہے ۔
میں نہیں سمجھتا کہ اقبال حسین نے کسی آرٹ فل طریقے سے اپنی پیدائشی طور مل جانے والی خامیوں کمزوریوں ، محرومیوں یا بدقسمتی کو ہتھیار بنایا ، بس اس نے بڑی سادہ خوبصورتی سے اپنی زندگی کے وہ حصے جو تاریک تھے یا خالی رہ گئے
اس نے انہیں اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کے رنگوں سے پر کر دیا ۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ ان خالی جگہوں پہ بہت سے سوالات ابھی بھی موجود ہیں اور ان کے جوابات ہمیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے ، کہ ہمارا کوئی بھی گمنامی میں بیٹھا فنکار ہمیں تب ہی کیوں نظر آتا ہے ،
جب تک وہ فنکار دیوتاؤں کے اولمپس پہاڑ پر نہیں چڑھتا ،
یا وہاں سے کوئی اولمپیا دیوی اپنی خوش قسمتی کی روشن مشعل لے کر
اس فنکار تک نہیں پہنچتی ؟
وہی سماج ترقیافتہ اور باشعور کہلاتے ہیں جو ایسی بدقسمتیوں کے خلاف بغاوت ہی نہیں انہیں شکست بھی دیتے ہیں ۔
شاہد حسین
23 فروری 25
No comments:
Post a Comment