روزانہ کسی بھی وقت،
80 کی دہائی اور اس سے پہلے کا میوزک سننا میرا معمول ہے ۔
رات کو مغل اعظم کے گانے سن رہا تھا جس میں لتا جی کا اکبر بادشاہ کے دربار میں گایا ہوا مشہور گانا "جب پیار کیا تو ڈرنا کیا"
چل رہا تھا تو میری بیٹی کہنے لگی کہ ،
مغل اعظم اپنے دور کی بڑی مشہور فلم ہے لیکن مجھے اس کے گانے کبھی بھی بہت خاص متاثر کن نہیں لگے ، بلکہ کچھ عجیب سے لگتے ہیں ۔
چونکہ وہ اپنی رائے دینے میں ہمیشہ کمفرٹیبل ہوتی ہے اور آرکیٹیکچر شعبے سے منسلک رہی ہے تو میں نے اسی حوالے سے اس سے سوال کیا کہ فرض کرو تمہیں ،
1526 سے 1857 تک کے ٹائم پیریڈ کی فلم کے لیے ،
کوئی عمارت دکھانی ہو تو وہ اپنے باہری ڈیزائن سے اپنی اندرونی آرائش اور اس میں لگی پینٹنگز میں کس دور کی وضاحت کرے گی ؟
اس کا جواب تھا کہ جی ہاں ظاہر ہے پندرہویں صدی کے رینائسانس سے لیکر
سترہویں صدی کے
Baroque,
یا پھر اٹھارویں صدی کے ،
Rococo,
اسٹائل میں ہی عمارت اپنے انداز میں کسی بھی آرائشی یا آرٹ ورک کے حوالے سے اسی ٹائم پیریڈ کی ہو گی ،
میں نے کہا تو پھر بالکل اسی طرح سے
مغل اعظم بھی ایک خاص مغل دور کی نمائندہ فلم ہے ،
جس کے میوزک کو اس دور کے قریب بھی رکھا گیا اور اس میں جدت کا پہلو بھی اس لیے شامل کیا گیا کہ وہ موجودہ دور میں بھی قبولیت پا سکے ،
اگر اسے بالکل اسی قدیم دور کا ہی بنا دیا جاتا تو شاید وہ اپنے فلم ریلیز ہونے کے دور میں بھی بہت محدود لوگ تک پسندیدگی حاصل کرپاتا،
جیسے کہ ہم اپنے خطے میں ریکارڈ پلیر کے ابتدائی دور کا جو میوزک سنتے ہیں ، وہ اپنے گائکی کے تمام عناصر میں میوزک کی جانکاری رکھنے والے ایک محدود طبقے سے آگے قبولیت نہیں پاتا ،
جبکہ اس سے بھی سابقہ دور کو بیان کرتی مغل اعظم کے گانوں نے قدیم خصوصیات کو برقرار رکھتے ہوئے نئی جنریشن کو بھی متاثر کیا ،
پھر اس کی شاعری اپنے دور کی ایک انقلابی شاعری نظر آتی ہے ،
اسی گانے کو ہی لیا جائے ،
"جب پیار کیا تو ڈرنا کیا "
قدیم روایات سے بغاوت کی بڑی ہی جاندار مثال ہے ،
اسی طرح سے فلم کے ڈائریکٹر نے اسے پکچرائز کرنے میں ،
عمارتی آرائش میں استعمال ہونے والے عکسی شیشوں کی مدد سے ایک طاقتور حکمران کو دکھایا کہ اب یہ آواز صرف ایک فرد کی نہیں بلکہ ہر سو پھیلی عوام الناس یا بدلتے سماج کی آواز ہے ،
اور ایسی ہی دیگر بہت سی خصوصیات نے مل کر ہی دراصل مغل اعظم کو ایک عظیم فلم اور اس کے میوزک سمیت دیگر تمام شعبوں کو خاص بنایا ہے ۔
فلم سے تعمیرات کے موضوع پر آتے آتے میرے ذہن میں ہمارے ملک کے بہت ہی مایہ ناز آرکیٹیکٹ کامل خان ممتاز صاحب کا نام آیا ، جن کے نام کے معنوں کو اگر دیکھا جائے تو
کامل یعنی جامع بے عیب اور ممتاز یعنی منفرد ہونا ہے ،
جبکہ بہت سے لوگ ماہر تعمیرات ہونے کے حوالے سے ان پر تنقید بھی کرتے ہیں کہ وہ تعمیرات میں بس قدیم روایات کو لے کر چل رہے ہیں ، اور کوئی نئی تخلیقی اپروچ اس میں شامل نہیں کرتے ،
یہاں میں وضاحت کر دوں کہ یہ دیگر چند لوگوں کا ان کے بارے خیال ہے میرا نہیں ہے ۔
میں تو انہیں اسم بامسمی یعنی اپنے نام کے معنوں کا عکاسی ہی سمجھتا ہوں ،
جو دوست انہیں نہیں جانتے وہ ان کے بارے تفصیل سے اگر مطالعہ کر لیں تو جان لیں گے کہ انہوں نے تعمیرات کی جدید نالج حاصل کرنے کے باوجود ، خود کو اس شوق میں اپنی ثقافت یا روایات کے علمبردار کے طور پر وقف رکھا ہے ۔
انہیں ہم رسمی طور پر،
"Revivalists"
بھی کہہ سکتے ہیں،
لیکن پھر بھی ضروری نہیں ہوتا کہ یہ لوگ یہی متمع نظر رکھتے ہیں کہ کسی بھی نئے دور کے تمام لوگ بس اپنی قدیم روایات پر ہی چلتے ہوئے ویسے ہی گھر بنائیں اسی طرح کے لباس پہنیں اور ہر عمل سے یوں لگے کہ جیسے بس وہی دور دہرایا جا رہا ہے ۔
نہیں ایسا نہیں ہے ! بلکہ وہ کچھ خاص شعبوں میں ثقافت کے قدیم عناصر کو لے کر چل رہے ہوتے ہیں یا انہیں محفوظ رکھنا چاہتے ہیں ،
جیسے موسیقی میں گائکی کے کسی خاص انداز ، یا دیگر فنون میں کسی قدیم اسلوب اور ٹیکنیک کو لے کر چلتا ہے بالکل اسی طرح ۔ ۔
اور ہم جانتے ہیں کہ اس حوالے سے ان کی خدمات بہت زیادہ اور خاص ہیں ۔
کوئی بھی سماج اپنے ڈائل پر کسی بھی دور کا کوئی بھی وقت رکھتا ہو،
لیکن اس کے میکنزم میں ، اس کے ماضی کی بہت سی روایات اقدار اور ان کی جذباتی اور روحانی خوبصورتیوں پر مشتمل بہت سی گراریاں کام کر رہی ہوتی ہیں ،
اور وہ سب مل کر ہی کسی بھی دور کو بناتی اور وقت کو مجموعی طور ظاہر کرتی ہیں ۔
اگر ان میں سے کوئی ایک گراری بھی اپنا کام ٹھیک نہیں کرے گی ،
تو وقت کے ڈائل کی کوئی نہ کوئی سوئی کہیں نہ کہیں ضرور اٹکے گی ۔
بہرحال یہ میری رائے ہے دوست اس پر اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔
شاہد حسین
13 جنوری 25


No comments:
Post a Comment