Monday, February 24, 2025

Sharjah Wood


 شارجہ میڈیا سٹی (شمس) کے ایک پرجوش منصوبے کے ساتھ بین الاقوامی فلمی صنعت میں ڈرامائی قدم اٹھا رہا ہے۔  

'شارجہ ووڈ' کے نام سے یہ اختراعی پروجیکٹ امارات کو سنیما پروڈکشن کے ایک علاقائی مرکز کے طور پر قائم کرنے کی کوشش کرنا ہے، جس سے متحدہ عرب امارات کے میڈیا کے منظر نامے میں انقلاب برپا ہو گا۔


 اس پروجیکٹ میں جدید ترین سنیما اسٹوڈیوز، میڈیا اسٹارٹ اپس کے لیے ایک SME سنٹر، اور میڈیا کے پیشہ ور افراد کے لیے ایک علیحدہ رہائشی کمیونٹی ہے۔ یہ سہولیات فلم سازوں کو اپنے خیالات کو حقیقت میں بدلنے کے لیے اعلیٰ ترین سہولیات کے ساتھ کام کرنے کے قابل بنائیں گی۔


 شمس کی چانس پروڈکشن سہولت کے نئے افتتاح کے ساتھ، یہ منصوبہ خطے میں فلم سازی کی صنعت کو بدل دے گا۔ وژن ایک خود ساختہ تخلیقی ماحول قائم کرنا ہے جو ہنر اور جدت کو فروغ دیتا ہے۔ 


 بنیادی طور پر، شارجہ ووڈ ڈیجیٹل جدت، پائیداری، اور ٹیکنالوجی اپ گریڈ پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ چونکہ یہ بین الاقوامی فلم پروڈیوسروں اور سرمایہ کاروں کو راغب کرتا ہے، یہ متحدہ عرب امارات کی تخلیقی معیشت کے لیے ترقی کا ایک بڑا محرک ثابت ہوگا۔

21 Feb 25 

Facebook page 

Tribune Trends.

 

 آج سے 30 سال پہلے جب کراچی سے شائع ہونے والی ایک چھوٹے سے رسالے میں مجھے لکھنے کا موقع ملا ،

تو اس میں دوسری تحریر اس موضوع پر تھی کہ ،

عربوں کے پاس چونکہ مالی وسائل بہت زیادہ ہیں ،

تو انہیں ہالی وڈ کے پیٹرن پر ایک علاقائی اجتماعی فلم انڈسٹری کا قیام عمل میں لانا چاہیے ، کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہندوستان کی فلم انڈسٹری شاید ہالی وڈ سے فلمیں بنانے میں تعداد میں زیادہ بڑی ہے 

مگر خاص طور پر وہ اپنے پڑوسیوں اور خطے کے ٹیلنٹ کو قبول کرنے میں کچھ تنگ نظری کا شکار رہے ہیں ۔


80 کی دہائی کے ایک خاص وقت تک روس کے ساتھ جب ان کے تعلقات اچھے رہے تو ان کی بہت سی فلموں میں ڈانس کورس میں جو ہم بہت ہی خوبصورت معاون اداکارائیں دیکھتے تھے وہ زیادہ تر رشین ہوتی تھیں ،

اسی طرح سے ان کی فلم پراسیسنگ کا بہت سا کام بھی روس میں ہوتا تھا ،

شاید دیگر ٹیکنیکل سہولتیں بھی ،

مگر ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے خطے کے دیگر پڑوسی یا ان سے متصل ممالک کی چھوٹی چھوٹی فلم انڈسٹریز سے جڑے فنکاروں یا ٹیکنیشنز کو بھی اپنے پاس جگہ دی ہو ،

جبکہ ہالی وڈ ایک ملک اور اس کی سٹیٹ میں تو ہے مگر وہ اپنی حیثیت میں ایک الگ دنیا ہے 

جہاں دنیا بھر کے انویسٹرز ، فنکار اور ٹیکنیشنز مل کر کام کرتے ہیں 

اور وہاں سے بن کر جو پروڈکٹ یعنی فلم باہر آتی ہے ،

وہ فلم ہالی وڈ کی ہوتی ہے ۔

یہ تو بھلا ہو اب آج کے سوشل میڈیا کا جس کی وجہ سے بہت سی تفصیلات ہمیں معلوم ہو جاتی ہیں ورنہ اس سے پہلے تو ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتا تھا جب تک کہ ،

ان کی فلم میں کوئی ہمارا اداکار نہیں ہوتا تھا جسے ہم سکرین پر دیکھتے تھے ، اس کے علاوہ ہم جان ہی نہیں پاتے تھے کہ پیچھے ٹیکنیشنز میں کون کون سے لوگ ہمارے خطے یا ممالک سے تعلق رکھتے ہیں ۔


شرمین عبید چنائے جیسے لوگوں کا ایوارڈ لینا وہ ایک الگ موضوع ہے 

اور آج شاید بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ سکرین پر نظر آنے والے صرف فرحان طاہر نہیں ، بلکہ پس پردہ عطا اللہ عیسی خیلوی صاحب کی بیٹی بھی بہت سی بڑی بڑی فلموں کی اینیمیشن میں شامل ہے ۔


لیکن پھر بھی ان بڑی انڈسٹریز میں ہمارے ٹیکنیشنز تو کیا فنکاروں تک کا داخلہ آسان نہیں ہے ۔


تو اس سلسلے میں ان عرب ممالک جن کے پاس دولت کے انبار ہیں ، اور وسیع ریگستان ہیں ، ان کے لیے کوئی مشکل نہیں ہے کہ وہ وہاں پر ایک ایسی فلم انڈسٹری بنائیں ،

جہاں پر تمام عرب ریاستوں کے ساتھ ساتھ اس خطے کے 

دیگر بہت سے ممالک کہ فلم شعبے سے تعلق رکھنے والے ذہین اور قابل لوگ شامل ہو کر فلم اور ویب سیریز وغیرہ بنائیں ،

نیٹ فلیکس اور ایمازون پرائم جیسے اپنے ،

OTT,

پلیٹ فارم بنائیں ،

تو یہاں اس سلسلے میں بھی بہت کام اور بڑی ترقی ہو سکتی ہے جو اس خطے کے معاشی معاملات ہی نہیں بلکہ بہت سے پیچیدہ سیاسی ، سماجی معاملات سمیت لوگوں کی سوچ اور فکر کو بدلنے میں معاون ہو سکتی ہے ۔


فلم اور اسی طرح کے دیگر میڈیمز آج کی دنیا میں کتنے طاقتور اور اہمیت کے حامل ہیں ہم اسے ابھی تک سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہو پا رہے اور اگر اس سلسلے میں کچھ کام ہو رہا ہے تو یہ بہت خوش آئند ہے ۔


شاہد حسین 

24 فروری 25

No comments: