عظیم شاعر غالب اپنے مصوری کے شوق کے بارے کچھ یوں گویا ہوتے ہیں ،
"سیکھے ہیں مہ رخوں کے لیے ہم مصوری
تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے "
جبکہ مشہور مصور صادقین ،
اپنی خطاطی کی تعریف میں اپنی رباعی کے آخری دو مصرعوں میں کچھ یوں کلام کرتے ہیں ،
"مولیٰ نے حسینوں سے وفا کے بدلے،
دنیا میں ہمیں لوح و قلم بخشے ہیں "
مصوری اور شاعری کے یہ دونوں عظیم حضرات اپنے شوق کو مہمیز دینے میں
عشق مجازی کو علامت یا حقیقت تو ضرور بتا رہے ہیں ۔
لیکن میں نے مصوری پر کیوں لکھنا شروع کیا ،
یقین جانیے اس میں وجہ سراسر مصوری سے ہی عشق تھی ، یا پھر چلیے یوں کہہ لیجئے کہ عقل و فہم کی دیوی کو ہی رام کرنا تھا ۔
مشاہدہ اور دیکھے ہوئے پر سوچنے کی جیسے ہی ابتدا ہوئی ، تو گھر میں کلاسک اور حقیقت سے قریب تر سمجھے جانے والی جمالیاتی مصوری کو ہی دیکھا اور سمجھا ، جبکہ بیسویں صدی کی مصوری میں ایسا بہت کچھ دیکھنے کو ملا جو سمجھ سے بالاتر تھا، اور میں اسے صرف اس خیال سے رد نہیں کر سکتا تھا کہ چونکہ یہ مجھے سمجھ نہیں آتی تو یہ اپنی حیثیت میں کوئی معنی ہی نہیں رکھتی ، لہزا مجھے اس کے معنی تلاش کرنے تھے سو،
1995 سے میں نے باقاعدہ بڑی شد و مد کے ساتھ بیسویں صدی کی مصوری کا مطالعہ شروع کیا اور اسے بہتر طور سمجھنے کے لیے آسان لفظوں میں ترجمہ اور تحریر کا سلسلہ شروع کیا ۔
شائد دوسروں کو سکھانا بعد میں مقصد بنا پہلے خود سمجھنا تھا جو آج بھی جاری ہے ۔
شاہد حسین
13 فروری 25
No comments:
Post a Comment