Thursday, February 13, 2025

بھڑاس


 بھڑاس 

  ـــــــــ  


کوئی عالم فاضل محقق نہ ہونے کے باوجود ،

انسان بطور فرد اسکی نفسیات اور اس کے اجتماعی سماجی رویوں کا مشاہدہ اور ان پر سوچنا میرا ہمیشہ سے پسندیدہ موضوع ضرور رہا ہے ۔

 اور جب یہ آپ کی عادت ہی نہیں بلکہ مزاج ہو تو پھر ہم بغیر کسی مشکل کے اپنے معمول کے مطابق یہ عمل کرتے ہیں ۔


   اس شوق میں دیگر بہت سے مشاہدات کے ساتھ میں نے دیکھا کہ یہ جو انسان میں غصہ فرسٹریشن ایک احتجاج نفرت ، چاہے دوسروں کے لیے یا خود اپنے لیے اور اس کا پھر اظہار ہے ، یہ کہاں سے آتا ہے کیوں آتا ہے ؟

 کیا لازم ہے کہ اس پر مصیبتوں و ناکامیوں کے پہاڑ ٹوٹتے ہیں ، وہ کسی ظالم جابر نظام کے مسائل اور ماحول کا شکار ہوتا ہے تب یا بغیر وجہ کے بھی آتا ہے ؟

 وہ کبھی خود کو یا زیادہ تر دوسروں کو قصور وار کیوں سمجھتا ہے ؟

اگر وہ سوسائٹی کو الزام دیتا ہے تو کہاں سوسائٹی ذمہ دار ہوتی ہے اور کہاں کوئی سسٹم اور کہاں وہ خود ،اس حوالے سے یہ اور بہت سے دیگر سوالات پیدا ہوتے رہے ۔

اگر آپ اس کی آسان مثال دیکھیں تو ایک ایسا گھر جس میں کسی بچے کو بہت سی محرومیوں سے گزرنا پڑے یہ غصہ احتجاج نفرت اس میں تو ہو ہی سکتا ہے لیکن جسے بہت توجہ لاڈ اور پیار ملے اس میں کیوں ہوتا ہے ؟

عدم مساوات اور ناانصافی کے شکار سماج میں بھی نوجوان بوتلوں کے بم بنا بنا کر کسی پر پھینک سکتے ہیں ،

اور کسی خوشحال اور ہر طرح کی سہولت دینے والے سماج میں بھی نوجوان بچے شراب پی کر اس کی بوتلیں فٹ پاتھ پر چکنا چور کر سکتے ہیں ۔

لہذا اس کا کوئی ایک کرائٹیریا یا سیٹ پیٹرن نہیں ہے بس یہ انسان کے اندر پیدا ضرور ہوتا ہے ۔


  چند روز پہلے ہمارے دوست منصور زبیری بھائی نے بتایا کہ وہ اپریل میں پینٹنگ اور مجسمہ سازی کی ایک نمائش کا انعقاد کرنے جا رہے ہیں ،

جس کا عنوان ہے ،

"بھڑاس" 

تو جب انہوں نے مجھے اس پر کچھ لکھنے کی دعوت دی تو میرے لیے یہ پہلے سے ہی دلچسپی کا حامل موضوع تھا ۔


بَھڑاس کے معانی تو ہم جانتے ہی ہیں لیکن مزید وضاحت میں ،

جوش.حرارت یعنی مزاج کی گرمی.دل کا بخار ، .غم ، رنج.

 یا فکر، طیش میں آکر کسی پر سخت لفظوں میں ظاہر کیا جانے والا ذہنی عدم اطمینان، کدورت وغیرہ ہے ۔

بَھڑاس کے دیگر مترادفات،

غُصَّہ تَعَصُّب عَداوَت بُغْض دُشْمَنی کِینَہ

اور مزید اس سے متعلق چند محاورے،

دِل کی بَھڑاس نِکالْنا

(بُرا بھلا کہہ کر یا رو دھو کر) دل کی کدورت دور کرنا، جی ٹھنڈا کرنا، غم و غصّہ وغیرہ ظاہر کرنا ہے ۔

اب اگر ان تمام انسانی اعمال افعال رویے احساسات کیفیات و جذبات سے ظاہر ہونے والے عناصر کو دیکھا جائے تو آپ کا کیا خیال ہے کہ ہم انہیں ، صرف منفی یا انسانی طبیعت کے کچرے کا اخراج کہہ سکتے ہیں ؟


نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ یہ وجوہات کے کسی بھی ایندھن کے جلنے سے اور رد عمل کی طرح اس سے پیدا ہونے والی توانائی کی بے شمار مختلف مختلف صورتیں ہیں ،

جنہیں اگر کسی بھی باتصویر لغت کی شکل دی جائے تو ان میں سے ہر ہر تصویر وہی ہوگی جو کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی دور میں ہمارے آرٹ کا حصہ رہی ہے ۔


یہ بات ٹھیک ہے کہ صرف یہی اجزاء مصوری کا حصہ نہیں بلکہ امید ، سہانے خواب ، عقیدت ،عشق محبت سے لے کر دیگر بہت سے خوبصورت اور جمالیاتی اجزاء کا بھی آرٹ میں اہم کردار ہے،

خاص طور پر اگر ہمارے خطے کی بات کی جائے تو یہاں کسی بھی سماجی خرابی ،ظلم و جبر سے لے کر دیگر مسائل تک کے ردعمل میں زیادہ تر جو ہماری مصوری نے کردار ادا کیا ہے وہ کسی محبوبہ یا،ایسی شفیق مامتا کا کیا ہے جس نے بالکل فریدہ خانم جی کی ایک گمنام لوری کی طرح سے سماج کو تسلی دی ہے ،


 "تیرے لیے یہ مصیبت اٹھائی ہے سو جا سو جا سو جا ،

تو بے قصور ہے میرا بھی جرم کوئی نہیں ۔ ۔ ۔ "

لیکن اگر دنیا بھر میں دیکھا جائے تو انسانی مزاج اور اس کی نفسیات کے بہت سے پیچیدہ پہلوؤں سے لے کر اس کے عملی اظہار ری ایکشن و احتجاج میں مصوری کا بہت اہم کردار رہا ہے ۔

Expressionism, 

Abstract expressionism, 

Surrealism,

Dadaism,

Social realism ,

and Protest art,

میں سے پروٹیسٹ آرٹ تو خاص طور پر ایسی ہی خصوصیات کے اظہار کا حامل رہا ،

اس میں چاہے ، گرافیٹی آرٹ سب سے اہم رہا جس میں کسی بھی ریاست کے ظلم و جبر کا شکار نوجوان یا پرجوش مصوروں نے رات کی تاریکی میں چھپ کر دیواروں کو یا ہر دستیاب سطح کو پینٹ کیا، سلوگن لکھے ، پوسٹر بنائے یا کارٹون یہاں تک کہ لٹریچر میں بھی اس کا بہت اہم کردار رہا یہ سب اصل میں "بھڑاس" ہی تھے ۔


موجودہ حالات میں پاکستان طویل مدت سے جس طرح کی صورتحال سے گزر رہا ہے ، اس کی اگر تفصیلات نہ بھی بیان کی جائیں تو ہر فرد اور سماج کے کسی بھی درجے پر موجود افراد ان سے گزر ہی رہے ہیں ،

جس کے سبب یا رد عمل میں ان کے اندر یہ ویکیوم یا بھاپ پیدا ہو رہی ہے،

اور میں سمجھتا ہوں کہ ان افراد میں سے مصوروں کو اس نمائش کے ذریعے اسے اظہار کرنے کا بہت ہی بہترین موقع دیا جا رہا ہے ۔

کیونکہ اس قسم کے بہت سے تجربات کے نتائج موجود ہیں جو بتاتے ہیں کہ بھڑاس کے نام پر نکالے گئے تمام بظاہر غیر جمالیاتی یا غیر تعمیری سمجھے جانے والے اخراج کے بعد جو طبیعت میں ٹھہراؤ بچتا ہے وہ پھر توانائی کی ایک دوسری سوفٹ شکل ہوتی ہے ۔

اور کسی بھی سماج کی تعمیر میں یہ ٹھنڈی اور گرم دونوں تاریں توانائی دوڑانے کا کام کرتی ہیں ۔


شاہد حسین 

7 فروری 25

No comments: