Thursday, February 27, 2025

اسلام اور موسیقی


 Saeed Ibraheem:


ایک اہم سوال

جملہ قسم کے ذہنی زوال کے باوجود ملک میں مذہبی سوچ رکھنے والوں کی عظیم اکثریت ہے جس کے عقیدے کے مطابق موسیقی حرام ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر ان کی رائے مانتے ہوئے موسیقی پر مکمل پابندی عائد کردی جائے تو ہماری سوچ اور رویوں پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟


سعید ابراہیم

23 فروری 25


 Shahid Hussain: 

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے اگر میں سب سے پہلے اپنی رائے کو مختصراً بیان کر دوں تو ،


اگر انسان کی اس دنیا کی سخت ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے اس کے تمام اعمال اور افعال میں سے ،

موسیقی اور ایسے ہی دیگر بظاہر غیر ضروری نظر آنے والے لبریکنٹس کو نکال دیا جائے تو اس کی جسمانی فطری اور روحانی بناوٹ کے تمام پہلوؤں میں بس یا تو مشین بچے گی یا ۔ ۔ ۔ ۔



لیکن اس سادہ سے سوال پر آج ہم بات کیوں نہیں کر سکتے

جواب کیوں نہیں دے سکتے اس کے لیے ایک تفصیل درکار ہے اب وہ دوست جو اس موضوع میں دلچسپی رکھتے ہیں کچھ تفصیل پڑھ سکتے ہیں ۔


ہزاروں سال سے جاری انسان کے جسمانی تبدیلیوں کے ارتقاء 

کو تو ہم آج بہت سے سائنسی ثبوتوں اور شواہد سے دیکھ سکتے ہیں ،

مگر اس کے عقل و شعور کی کوششوں اور ترقی میں اس کے جمالیاتی افعال نے کس طرح مدد کی ،

اس کے لیے ہمیں اس کی تقریباً 40 ہزار سال پرانی سپین اور فرانس کی غاروں کی چھت و دیواری مصوری سے لے کر ، 

انڈس ویلی سولائزیشن ، میںسو پوٹیمیا ، مصر اور یونان سے لے کر مایا تہذیب ، اجنتا الورا کی غاریں بدھ مت اور اس کے بعد کئی بہت سے تسلسل میں موجود ،

مٹیریل کی بے شمار ابتدائی دقتوں کے باوجود کوئلے اور معدنیات سے بنائے گئے رنگوں، کہیں فریسکو، پھر آگے بڑھتے ہوئے پتھر لکڑی مٹی ، پکی ہوئی مٹی ، اور پھر مختلف دھاتوں میں 

مصوری مجسمہ سازی اور دیگر دستکاری سے جڑے فنون میں یہ سب کچھ دیکھ سکتے ہیں ۔

اوڈیسی ، اور دیگر داستانوں میں لٹریچر بھی کسی نہ کسی شکل میں پڑھا جا سکتا ہے ، کہ اس نے کس طرح سے سرد راتوں میں آگ سے روشن الاؤ کے گرد بیٹھ کر اپنے روز کے معمولات سے لے کر ایک دوسرے کو تصوراتی کہانیاں سنائی ہوں گیں ۔


مگر موسیقی ؟

موسیقی کسی دھن کی شکل میں ہمارے پاس صرف اس دور کی دستیاب ہے جسے کسی نہ کسی طور فوک میوزک ، کلاسک راگ راگنیوں اور گائکی کی شکل میں استادوں نے اپنے شاگردوں کو منتقل کیا ،یا میوزیکل نوٹس کے ذریعے سے لکھا ۔

وگرنہ قدیم موسیقی ہمارے پاس صرف اسی دور کی دستیاب ہے جب اسے ریکارڈ کرنے کا انتظام ہوا ۔


لیکن اس سے انکار نہیں ہے کہ ،انسان کے شعوری ارتقاء میں مصوری ، دستکاری ، ادب ، رقص اور موسیقی نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے ۔

اس دنیا کی پر مشقت ذمہ داریوں میں انسان کو کہیں نہ کہیں تو سستانے کے لیے کسی گھنے درخت کی چھاؤں کی ضرورت پڑتی ہے ، جس کے پھل کے چند دانے وہ ہاتھ بڑھا کر صرف بھوک ہی نہیں بلکہ اپنی ذائقے کو محسوس کرنے کی حس کو بھی تسکین دے سکے ، وہ پرندوں کی چہچہاہٹ کو سنتے ہوئے محظوظ ہو سکے ، جو اس کے تھکے جسم کے اعصاب کو تقویت دیتے ہوئے اس کی روح تک کو لطیف کرنے میں مدد دے سکے ۔

تو ان فنون نے انسان کو شعوری ترقی دینے میں اس کے اعصاب ہی نہیں بلکہ روح تک کو تسکین دیتے ہوئے بہت اہم کردار ادا کیا ہے ۔

 لیکن بے شمار ضرورتوں ، بنیادی دو بھوکوں سے لے کر انسانی خواہشات ، لالچ حرص ہوس کی فطرت رکھنے والوں سے لے کر ایثار قربانی کرنے والے انسانوں پر مشتمل گروہی اور سماجی پیچیدہ نظام میں ،

ایک دوسرے سے میل برت کرنے میں 

اخلاقی تربیت بھی ایک اہم ترین ضرورت رہی ہے ۔


جس کے لیے ایک مکتب فکر کہتا ہے کہ مذاہب اتارے گئے 

ایک کہتا ہے کہ کرییٹ کیئے گئے ،

اگر ہم دونوں سے الگ الگ بحث نہ بھی کریں تو بھی ایک بات تو اہم ہے کہ انسانوں کی اخلاقی تربیت میں 

مذاہب کی ضرورت تو رہی تب ہی تو یا اتارے گئے یا اس نے خود کرییٹ کیے اور ان کا کردار بھی اہم رہا ہے ۔


جس طرح سے ہزاروں سال سے قدیم فلسفیوں نے ،

انسان سماج اور خدا کے درمیان آزادانہ سوچ بچار و فکر کو جاری رکھا ،

بالکل اسی طرح سے مذہبی فلسفیوں نے اسے کسی نظام ، قانون یا پروٹوکول کی طرح نافذ بھی کرنا چاہا ،

مدتوں سے لے کر آج تک ان کے نفاذ کے لیے ریاستی مشینری سے بھی کام لیا جاتا رہا ۔

اب یہاں ایک پیچیدہ مرحلہ آتا ہے 

کہ انسانوں کی ایک اکثریت جو اپنی اخلاقی تربیت میں 

90 فیصد باتیں ماننے پر تیار ہی نہیں ہوتی ،

وہ 90 فیصد اس بات پر یقین ضرور رکھتے ہیں کہ کوئی انہیں سمجھانے والا اچھے اعمال کی تربیت و ترغیب دینے والا ہونا چاہیے ، کوئی انہیں اچھے عمل پر شاباش دینے والا برے اعمال پر سزا دینے والا اور پھر معاف کرنے والا ضرور ہونا چاہیے ۔


لیکن اگر اپ ان سے پوچھیں کہ آپ میں سے اچھے اعمال پر عمل کرنے والے کتنے ہونے چاہیے ؟

اس کا کبھی تسلی بخش جواب نہیں ملتا ۔

ہزاروں سال سے جہاں انسان کی مطلوبہ یا غیر مطلوبہ خواہش پر،

مذاہب وجود میں آتے رہے، اور وہ انسانوں کی تربیت بھی کرتے رہے ، کہیں بہت سخت اصول و ضوابط سے تو کہیں ان میں نرمیاں اور تبدیلیاں جاری رہیں ،

کہیں شہد کی مکھیوں اور چیونٹیوں کے گروہی نظام کی طرح انسانی سماج میں بھی اونچ نیچ کو رائج کیا گیا تو کہیں اسے ختم کرنے کی کوشش کی گئی ،

کہیں کامیابی ہوئی تو کہیں نہیں ہوئی ۔


اسی طرح کہیں کچھ احکامات مبہم غیر واضح یا نرمی سے دیے گئے ،

جبکہ کچھ کے بارے سخت لہجہ اختیار کیا گیا ،

مگر ان مذاہب کے ماننے والوں نے کمال ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے ، اپنی مرضی سے ان میں رد و بدل کیا ۔


جیسے کہ ایک مذہب کے ماننے والوں کے بارے کہا جاتا ہے کہ انہیں حکم دیا گیا تھا کہ طمع کو چھوڑ دوں 

مگر انہوں نے تمباکو چھوڑ دیا ۔


یا یہ بالکل اس طرح سے ہے کہ جیسے آپ 

بچے سے کہیں کہ ،

چائے کم پیا کرو یہ صحت کے لیے نقصان دہ ہے ،

لیکن شراب بالکل نہ پینا کیونکہ یہ تمہاری اخلاقیات کے لیے بھی نقصان دہ ہے ، مگر بچہ کمال ہوشیاری سے چائے پینا تو بالکل چھوڑ دے مگر شراب کی بوتل ہاتھ سے کبھی جانے نہ دے ۔


میں سمجھتا ہوں کہ ہزاروں سال سے انسان اور دیگر مذہبی اقوام کی طرح ہم مسلمان بھی اس عمل سے بچ نہیں سکے ،

ہمیں ہماری اخلاقی تربیت کے لیے جو بہت سے سخت احکامات دیے گئے تھے ، اور بار بار دیے گئے آج ان پر شاید بہت مختصر سی تعداد عمل کرتی ہوگی ،

مگر جن اعمال کے بارے ہلکے پھلکے مبہم اشاروں سے کچھ محتاط رہنے کا کہا گیا ، ان میں ہم نے انتہائی سختی اختیار کر لی ،

ایسے کلیور قسم کے ہیر پھیر سے اب ہماری اخلاقیات آج کہاں پر ہیں ،

اس کا ہم اپنی ارد گرد سماجی زندگی میں بہت اچھی طرح مشاہدہ کر سکتے ہیں ،


ہم میں سے زیادہ تر کے ہاتھوں نہ کسی کی عزت محفوظ ہے نہ اس کی جان نہ ہی اس کا مال ، جبکہ خدا کے احکامات میں نہ جانے کتنی بار کسی کا مال ناحق کھانے سے منع کیا گیا اور اس پر سخت سزا کی وعید سنائی گئی 

معمولی سے مسلکی اور فقہی اختلاف پر ہم ایک دوسرےکو قتل کرنے کے در پہ رہتے ہیں ، پر "کاپر" کا فتوی لگا دیتے ہیں 

 باقی کام کسی بپھرے ہجوم کے ذریعے خود ہی آسان ہو جاتا ہے ۔

جبکہ ناحق ایک انسانی جان کا قتل انسانیت کا قتل کہا گیا ہے ۔

اپنی عبادت گاہوں کو خدا کا گھر کہتے ہیں اسے ہی ایک دوسرے کے خون سے غسل دیتے رہتے ہیں ،

کسی کے پاس امانت رکھوا دیجئے اسے قرض دے دیجئے مجال ہے جو آپ کو واپس ملے ،

اس کے ساتھ مل کر کوئی کاروبار کر لیجئے مجال ہے جو وہ آپ کو دھیلے کا بھی فائدہ ہونے دے 

یا صرف تب تک جب تک وہ اپ کا پورا مال ہڑپ کر لے ۔

صفائی نصف ایمان ہے مگر کیا مجال جو کوئی گلی محلہ اور کھانے پینے کا سامان آپ کو صاف ملے ۔

 پانچ سال سے لے کر 

75 سال تک کی عورت محفوظ نہیں 

ماڈرن تعلیمی مراکز سے لے کر مدرسوں تک میں بچے محفوظ نہیں ،


مقدس کتاب کی پرنٹنگ کرنے کے نام پر لوگوں کو حج عمرہ کروانے کے نام لوگوں کا اربوں روپیہ کھا جانے والے 

خوفناک سے خوفناک قاتل جنسی درندے ، 

آزاد دندناتے پھرتے ہیں ، تھانوں تو کیا عدالتوں سے فخریہ انداز میں باہر آتے ہیں ، اور سماج میں بلا خوف و خطر گھومتے پھرتے ہیں ۔

مگر کسی پر مذہبی حوالے سے شک و شبہ سے کوئی جھوٹا الزام ، لگ جائے ، اس حوالے سے کوئی سوچ اور فکر کی بات کرتا نظر آئے ، اس کی خیر نہیں ہے ،


تو پھر بتائیے کیا کیا جائے ؟

مصوری رقص موسیقی اور ایسے ہی کچھ فنون ،

جائز ہیں یا حرام ہیں ؟

ان پر اکثر سوال تو سامنے آتا رہتا ہے ،

مگر بتائیے جس طرح کا ہجوم سامنے ہے ان موضوعات پر کھل کر بات کیسے ہو سکتی ہے ؟


قدیم دور سے ہی بہت سے بدلتے خیالات کے حامل مذہبی علماء نے اکثر ان کی وضاحت کی کوشش کی ہے ، ان میں سے راستے نکالنے کی کوشش کی ہے ،

چاہے وہ ہمارے صوفی درویش تھے ، جن میں حضرت امیر خسرو کا نام بہت اہم ہے اسی طرح سے اور بھی کئی ، 

جنہوں نے قوالی سے لے کر حالات موسیقی اور راگ راگنیوں پر بہت کام کیا ، یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر میں موسیقی کے بہت بڑے بڑے نام آپ کو مسلمانوں کے بھی نظر آتے ہیں ، اسی طرح اج بھی بہت سے علماء ان موضوعات پر کام کرتے ہیں ،

مگر شدت پسند مذہبی لوگ ؟


آج خاص طور پر اگر پاکستان کی بات کی جائے تو پاکستان گزشتہ تقریباً نصف صدی سے ایسے حالات سے گزر رہا ہے جس میں ہمارے اخلاقی معاملات میں دن بدن گراوٹ لیکن کچھ خاص کٹر قسم کے مذہبی رجحانات رکھنے والی شدت پسندی میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے ۔


اب اس کا حل کیا کیا جائے ؟

ایک درد دل رکھنے والا مفکر طبقہ اس پر ہمیشہ سے سوچتا رہا ہے ،

کیا بدلاؤ لانے کی کوششیں اتنی طاقتور ہیں کہ وہ بڑھتی ہوئی شدت پسندی کے طوفان کو روک پائیں ؟

گو کہ بہت آسان ہے کہ آپ اگر مذہبی احکامات پر ہی عمل کرنا چاہتے ہیں تو قران کو ترجمے سے پڑھیے ، اور بہت سے احکامات کی خود تفصیلات کو تلاش کیجیے ،

مگر ہم یہ نہیں کرتے اور ہم قدیم تشریحات کو ہی فالو کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

جس کے اثرات و نتائج میں تین طرح کے طبقات وجود میں آ رہے ،


پہلا ،کٹر قسم کے مذہبی نظریات رکھنے والے ، جن میں بہت مختصر تعداد اخلاقیات پر عملیت پسندی بھی رکھتی ہے ۔

دوسرا ،مذہب سے بالکل انکار کرنے والے مگر ان میں کئی لوگ اخلاقیات میں بہترین مقام پر ہو سکتے ہیں ۔

اور تیسرا جو سب سے زیادہ اکثریت میں ہے وہ ہے بظاہر مذہب کا نام لیوا مگر عملی طور پر ہر طرح کی اخلاقیات سے بے نیاز ۔


شاہد حسین 

24 فروری 25

No comments: