Wednesday, December 29, 2021

قربانی اور تخلیقات




قربانی اور تخلیقات ،


سب سے پہلے آپ دوستوں کو عید الاضحی مبارک ہو اسے سنت ابراہیمی بھی کہا جاتا ہے ،

جب خدا نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اپنی سب سے عزیز ترین شے کی قربانی مانگی ،تو انہوں نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کو چنا ،جسے خدا نے اپنا فضل و کرم کرتے ہوئے دنبے سے بدل دیا ،

یہ واقعہ تمام آسمانی کتب میں کچھ فرق سے موجود ہے ، آپ دوست اس سے واقف ہیں ،

اگر انسانی گروہی سماجی تاریخ کو ، 

مختصر کر کے دیکھا جائے ،

تو انسانی جان کی قربانی ، 

ہزاروں سالوں سے کئی انسانی

سماجوں کا حصہ رہ چکی ہے ،

جو عقل و شعور کی ترقی سے اب معدوم ہو رہی ہے ،اور اب انسان انسان کی جگہ ، جانوروں کو قربان کرتا ہے ،

اور یہ ریچولز مذہبی یا غیر مذہبی ، آج بھی دنیا کے بہت سے حصوں میں جاری ہیں ،

گو کہ ہر مذہب اور سماج ، اپنی ایسی پریکٹسز کی تو مضبوط وضاحت و وکالت کرتا ہے ،

لیکن دوسروں پر سوالیہ نشان ضرور لگاتا ہے ،

لیکن یہ پہلو بھی اھم ہےکہ جیسے جیسے انسان عقل علم و شعور میں ترقی کرتا ہے وہیں وہ حساسیت میں بھی ترقی کرتا ہےاس میں خود اپنے افعال کے بارے ، ، بہت سے سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں ،

اور وہ گزشتہ ہزاروں سالوں سے انسان کے دیگر حیات کو ،اپنی غذائی ضرورت کی بھینٹ چڑھانے کے باوجود ،

اپنی ان ریچولز کے بارے میں سوالات بھی رکھتا ہے ،

آخر کیوں ، ہم ایسا کیوں کرتے ہیں ؟

دیکھئے مذاہب کے دو حصے ہیں ،ایک میں وہ انسان کو سوچنے سمجھنے پر مجبور کرتا نظر آتا ہے ،

اور بار بار کہتا ہے کہ تم سوچتے کیوں نہیں سمجھتے کیوں نہیں ،

لیکن ایک حصہ میں وہ کہتا ہے ، جسٹ ڈو اٹ ،

بس جو کہا جا رہا ہے وہ کرو ،

قربانی کا لفظ اپنے عملی اور معنوی اعتبار سے

اس قدر وسیع ہے

کہ اس پر گفتگو بہت طویل ہو سکتی ہے ،

بس مختصراً 

یوں کہا جا سکتا ہے ،کہ انسان کے ذہن میں یہ بات کہیں موجود ہے ،

کہ اس نظام قدرت میں ،

 اسے کچھ لوٹانا ہے ، کوئی ادائیگی کرنی ہے ، کچھ اس کے ذمے ہے ،جس کے لیے کہیں اپنے مال کا استعمال کرتا ہے تو کہیں وہ کسی دوسرے کی جان کا ، 

چاہے وہ اسے اپنی کسی غلطی گناہوں کا کفارہ سمجھتا ہے ،یا لامحدود

خواہشات کی تکمیل یاضرورتیں

لیکن اس میں کہیں نہ کہیں وہ ظلم اور جبر کا پہلو بھی دیکھتا ہے ، اور سوال کرتا ہے ،

کہ کسی جانور کا گوشت اور خون ، انسان کو ،

خدا کے حضور اشرف اور افضل بنانے میں کس طرح سے اپنا کردار ادا کرسکتا ہے ؟

اب ان کے جوابات و تفصیلات پر کوئی مذہبی عالم فاضل ہی بات کر سکتا ہے ،

میرے شعبے آرٹ کے حوالے سے ہم قربانی کے واقعہ کو بائبل کی تعلیمات کی روشنی میں بھی بہت سے کلاسک آرٹسٹوں کے کام میں دیکھتے رھے ہیں جو آج کے دن ذہن کی پردہ سکرین پر کہیں نہ کہیں نظر آتے ہوئے جو باتیں ذہن میں آئیں انہیں آپ کے سامنے رکھوں گا ، لیکن فنی تخلیقات کے دائرے میں ،

پہلی بات کہ اسی قربانی کا ایک بہت عجیب پہلو تب ہمارے سامنے آتا ہے ،

جب خود انسان اس عمل کے لیے اپنی ذات کا چناؤ کرتا ہے ،

جس میں اس کے کسی عظیم مذہبی نظریاتی مقصد ،سے لیکر کوئی بھی بے لوث مقصد ہو سکتا ہے ،

دنیا بھر کی مذہبی تاریخ اور لٹریچر میں اس کی بہت خوبصورت اور کمال درجہ کی ،

مثالیں موجود ہیں ،

لیکن میں ان سے میں وہ دو کہانیاں آپ سے بیان کروں گا ،

جن میں قربانی کا تصور کسی فنکار کی تخلیقی صلاحیتوں کے حوالے سے بڑی خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے ،



ایک چائنیز کہانی جسے میں کبھی نہیں بھول سکا، 

کئی سو سال پہلے ایک ٹیمپل کے لیے ،ایک برونز کی بہت بڑی گھنٹی بنائی جا رہی ہوتی ہے ،

جو ہر بار ڈھلائی کے بعد اپنے اندر کوئی نقص لے کر ظاہر ہوتی ہے ،

اس ، گھنٹی کے منصوبے کا چیف ڈیزائنر ، جو وزارت کے عہدے پر فائز ہے ،

اور بہت شدید پریشانی سے گزر رہا ہے ،

دراصل یہ بہت بڑی گھنٹی ،اس تعمیراتی منصوبے کا آخری حصہ ہے ،

اور اس میں ہر بار کی ناکامی بادشاہ کا غصہ بڑھا رہی ہوتی ہے 

بادشاہوں کے ایسے غصے عموما وزیروں کی موت پر ختم ہوتے تھے ،

اور یہ بات چیف ڈیزائنر وزیر کی بیٹی جانتی ہے ،

اور پھر بالآخر جب اس گھنٹے کے لئے ،پگھلی ہوئی دھات کا الاؤ تیار ہوتا ہے 

تو وزیر کی بیٹی اپنے باپ کو مشکل سے بچانے کے لئے اس کٹھالی میں کود کر اپنی جان دے دیتی ہے ،

اور اس بار جو گھنٹی مکمل ہوتی ہے ،

نہ صرف اس میں کوئی نقص نہیں ہوتا بلکہ اس کی آواز میں ایک ایسی چیخ ہوتی ہے ، 

جو اپنے سننے والوں پر ،

ایک ایسا تاثر چھوڑتی ہے جسے بیان کرنا مشکل ہوتا ہے ،




دوسری کہانی

ایک فلم ریڈ وائلن کی ہے ،

جس میں 21 ویں صدی میں ،

ایک سرخ وائلن کی دردناک آواز

پر تحقیق ہو رہی ہوتی ہے ،

جو اصل میں ،

کئی سو سال پہلے ،ایک فرنچ ،

وائلن میوزیشن اور میںکر نے

آپنے اس بچے کے لیے بنائی ہوتی ہے جس کی پیدائش عنقریب متوقع ہوتی ہے ،

لیکن اس کی محبوب بیوی ،اور بچہ 

دوران زچگی ہی

مر جاتے ہیں ،

وائلن میکر ،

بیوی اور بچے سے متعلق اپنی تمام تشنہ آرزوؤں کو ،

 اس وائلن میں محفوظ کرنے کے لیے ،اپنی مردہ بیوی کی کلائی سے حاصل کردہ خون کو ،وائلن پر کی جانے والی وارنش میں شامل کر دیتا ھے ،

اور یہ وائلن پھر اپنے سینکڑوں سالہ سفر میں ،

جب بھی جہاں جہاں بجائی جاتی ہے ،اپنے بجانے والے کو ہوش سے بیگانہ کر دیتی ہے ،

ان کہانیوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی جان اورخون کی قربانی ، جس کے لئے وہ خود اپنی ذات کو چنتا ہے  

اس کی بنائی ہوئی اشیاء میں

 کوئی کمال پیدا کرتی ہیں،

اور بات صرف اتنی ہی نہیں بلکہ ایک مرحلے میں انسان اپنی آرزوؤں اور تمناؤں کا خون بھی جب اپنی تخلیقات میں شامل کرتا ہے ،

تو وہ تب لافانی اور امر ہو جاتی ہیں ،

اور اگر وہ تخلیقات بہت شہرت نہ بھی پائیں ،

تو جہاں بھی کہیں کبھی اظہار ہوتی ہیں

اپنے دیکھنے سننے والوں پر ایک ناقابل بیان تاثر ضرور چھوڑتی ہیں ،

وہ چاہے انسانی آہ ہو ، کسی دھاتی گھنٹی کی آواز ،وائلن کے سر ،یا کسی بھی فنکار کا کوئی شہ پارہ ، جسے وہ اپنی امیدوں آرزوؤں ،اور تمام مادی مقاصد کو۔ 

اپنی تخلیق کو مکمل کرتے ہوئے

 کئی صبرآزما لمحوں سے گزرتے ہوئے ،کہیں پیچھے چھوڑ دیتا ہے ،

غالب نے اس پر کیا خوب کہا ہے ،

آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک

کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک ،

دام ہر موج میں ہے حلقہ صد کام نہنگ ،

دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک ،

عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب 

دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک ،


شاہد حسین

21 جولائی 21 

وان ریان اور راشد رانا




Von Ryan's Express and 

Rashid Rana 


سیکنڈ ورلڈ وار کے موضوع پر بننے والی عظیم فلموں میں سے میرے والد کی 

ایک پسندیدہ ترین فلم ،

وان ریان ایکسپریس ،

اسی کی دہائی میں جب دوسری تیسری بار کراچی کے نشاط سنیما میں اس کی نمائش کی گئی ،

تو میرے والد مجھے خاص طور پر یہ فلم دکھانے لے کر گئے ،

اور واپسی میں حسب معمول ہم اس کے ایک ایک سین پر ڈسکشن کر رہے تھے ،

ایک سین میں پیش کی گئی ایک صورت حال جس پر میرے والد نے خاص طور پر میری توجہ دلائی ،

وہ کچھ یوں ہے کہ ،

جرمن کیمپ سے سرنگ کے ذریعے فرار ہونے والے ،سینکڑوں قیدیوں کو جرمن دوبارہ گرفتار کر لیتے ہیں ،

 اور انہیں ، کیمپ جس ٹرین میں واپس بھیجا جا رہا ہوتا ہے ، قیدی اتحادی فوجی اسی ٹرین پر قبضہ کر لیتے ہیں ،

ٹرین کو نو وار زون سوئزرلینڈ 

تک لے جانے کے لیے ، اور جرمن علاقے سے گزرنے کے لیے

اتحادی فوجیوں میں سے کچھ آفیسرز ،جرمن فوجی آفیسرز کی وردیاں پہن لیتے ہیں ،


اب ،ایک اسٹیشن پر جب قیدیوں کے لیے بنائے گئے کھانے کو ،ایک فوجی افیسر چکھنے کے بہانے چند گھونٹ سوپ کے پیتا ہے ،تو پیچھے کھڑے ،جرمن آفیسرز کی وردیوں میں ملبوس دوسرے کئی دنوں کے بھوکے اتحادی قیدی آفیسرز کے چہروں کے تاثرات بہت کمال کے ہوتے ہیں ،

انہیں اپنی بھوک کی نقاہت بھی چھپانی ہوتی ہے ،اور اپنے چہرے پر جرمن آفیسرز ز والا رعب و دبدبہ اور سختی بھی قائم رکھنی ہوتی ہے ،

آپ میں سے جنہوں نے بھی یہ فلم دیکھی ہے انہیں یہ سین یاد ہوگا ،


میں سمجھتا ہوں کچھ ایسی ہی صورتحال آج ہمارے ان آرٹسٹوں کو بھی پیش آتی ہے 

جو بین الاقوامی فورمز پر ایک ایسے خطے کی نمائندگی کرتے ہیں ،جہاں کے لوگ ابھی سابقہ غلامی ، اور اس کے بعد صحت تعلیم صاف پانی روزگار اور ترقی سے متعلق بے شمار مسائل کی زنجیروں سے آزاد بھی نہ ہوئے تھے ، کہ اپنے حکمرانوں کی خراب کارکردگی کی وجہ سے دنیا کے بڑے مالیاتی اداروں ،کے قرض کی زنجیروں میں بھی جکڑے گئے ۔ 

تو آج ہمارے آرٹسٹ ،

کو بھی تقریبا ان جرمن آفیسرز کی وردیوں میں ملبوس اتحادی فوجیوں جیسا کردار ادا کرنا پڑتا ہے ،

اور ان کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے ، کہ وہ اپنے بیشمار مسائل کو چھپاتے ہوئے ،

کس طرح سے قابل فخر انداز و اعتماد ،سے کسی بین الاقوامی فورم پر نیو آرٹ ورلڈ میں اپنا کردار ادا کریں ،

اور ان کا کام ،

آزاد اور آزاد سوچنے والوں کا کام نظر آئے ،

راشد رانا کا شمار ،

بے شک ان فنکاروں میں ہوتا ہے جو یہ کردار بہت خوبی سے سر انجام دے رہے ہیں ۔

راشد رانا کے کام میں ایک اعلی تخلیقی اپروچ کے ساتھ ، ہمیشہ ویری ایشن ہوتی ہے ، وہ اپنے کام کے ذریعے بین الاقوامی آرٹ فورمز پر لوگوں کو حیران کرنے اور اپنی طرف متوجہ کرنے کا بہت سٹرونگ ایلیمنٹ لیئے ہوتے ہیں ۔

قیدی یا زنجیروں میں جکڑی قومیں ،

تو کئی بار آزادی کی سرحد عبور کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں یا نہیں

لیکن بے شک ان کے لئے کوشش کرنے والے ،

وان ریان کی طرح سے تاریخ میں اپنی پوری قوم کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنا نام ضرور روشن کرتے ہیں ۔

اور بتا دیتے ہیں کہ بے شک ہماری قوم اپنے مسائل کے حوالے سے سے کسی پست مقام پر ہو سکتی ہے ، لیکن وہ اپنی سوچ میں آزاد اور بلند ہے ۔

 

 دل کی گہرائیوں سے آپ کے لئے نیک تمنائیں ہیں ۔


شاہد حسین

15 اکتوبر 2021 

Tuesday, December 21, 2021

فیضی رحمین


کوئی کہانی ہمیں کن وجوہات کی بنیاد پر ہمیشہ یاد رہتی ہے ،

عشق ، محبت میں کامیابی یا ناکامی پر مبنی ہونے ، شہرت عروج و زوال ،کسی کا بڑا فنکار ہونے کے باوجود پہچان نہ پاسکنا ،‏یا المناک موت !

 آخر وہ کون سے 

عناصر ہوتے ہیں 

جو کسی بھی داستان کو ناقابل فراموش بنا دیتے ہیں ،

شاید اس کا کوئی طہ شدہ فارمولا نہیں ہے ،


آج ہم آپ کو برصغیر انڈوپاک کی مصوری کی دنیا کے ایک ایسے جوڑے کا احوال سناتے ہیں ،

جو اپنے وقت میں شہرت کے حوالے سے مغرب تک جانے گئے اور ان کے ناموں سے آپ یقیناً واقف ہیں

لیکن ان کی زندگی کی کہانی کسی یادگار ناول، فلم یا ڈرامے کے تمام اجزا اپنے مکمل اور اعلیٰ معیار پر پورا اترنے کے باوجود بھلادئے گئے ۔

یہ تھے سیموئیل فیضی رحمین اور

عطیہ فیضی رحمین

ان دونوں میں سے کہانی شروع کس سے جائے !

چلیئے بیگم عطیہ فیضی رحمین سے شروع کرتے ہیں

 


عطیہ فیضی یکم اگست ،1877ء میں استنبول میں پیدا ہوئیں اور ان کے والد على حسن آفندی کا تعلق ایک عرب نژاد خاندان

سے تھا جو اپنے ایک بزرگ فیض حیدر کے نام کی نسبت سےفیضی کہلاتا تھا۔ یہ لوگ تجارت پیشہ تھے اور تجارتی کاموں کے سلسلے میں بمبئی سے لے کر کاٹھیا واڑ تک پھیل گئے تھے۔

عرب، ترکی اور عراق کے عمائد اور عوام سے بھی تعلقات تھے۔

اس خاندان میں علم وادب کا چرچا تھا۔عطیہ فیضی نے بھی اپنی بہنوں

نازلی فیضی اور زہرا فیضی کی طرح استنبول میں اعلى تعلیم پائی اور ترکی، عربی، فارسی، انگریزی، اردو اور

گجراتی میں اچھی استعداد پائی ۔اور کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لینے والی وہ پہلی ہندوستانی خاتون تھیں ۔ 


عطیہ فیضی بڑی خوبیوں کی مالک تھیں ۔ 

عطیہ کو فنون لطیفہ سے خاص شغف تھا۔ شاعری، مصوری اور رقص و موسیقی یہ سب ان کے ذوق اوردلچسپی کی چیزیں تھیں۔ راگ راگنیوں تک سے واقف تھیں۔وہ پاکستان آنے کے بجائے بھارت ہی میں رہتیں اور کوئی کلامندر، یعنی فنون کا ادارہ ، ان کو

سونپ دیا جاتا تو وہاں ان کے ذوق اور طبیعت کے جوہر کھل کر کھلتے۔ انگریزی کا مطالعہ خاصا وسیع تھا۔ انگریزی میں رواں اور شگفتہ تقریر کرتیں ،

وہ اپنی دانشوری کے لیے مشہور تھیں

1907 میں ہندوستان میں انہوں نے اپنی ڈائری شائع کرنے کا انتظام کیا تھا ۔ جس کا اس دور میں برصغیر میں کسی خاتون کا یہ ایک غیر معمولی عمل تھا ۔ 


عطیہ فیضی کے لکھنے کے انداز نے اس وقت میں محمد اقبال ، شبلی نعمانی ، ابو الاصر حفیظ جالندھری اور مولانا محمد علی جوہر جیسے روشن خیالوں کو بہت متاثر کیا ،

اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کو اس دور میں ملک گیر شہرت مولانا شبلی کی شاعری اور علامہ اقبال کے ساتھ کی گئی خط و کتابت نے بھی عطا کی اور وہ برصغیر کی نامور خواتین میں شمار ہوئیں۔

عطیہ فیضی کی بہن نے ان کے محمد اقبال سے متعلق خطوط بعد میں تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ شائع کیئے تاکہ محمد اقبال کے ساتھ ان کی عقیدت سے متعلق ان کے خیالات کی وضاحت دی جاسکے ،شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہو

کے سموئیل فزی رحمین سے ان کی شادی سے قبل ،

مشہور مصنفین شبلی نعمانی اور محمد اقبال کے ساتھ ان کے قریبی تعلق کے بارے میں افواہیں گرم رہتی تھیں ، خاص طور محمد اقبال کے ساتھ ، آج چونکہ محمد اقبال شاعر مشرق کے طور پر جانے جاتے ہیں ، 

اور عظیم شخصیات کے عظمت کے معیار ،ان کے چاہنے والے خود اپنی مرضی سے طے کرتے ہیں ، جبکہ حقیقت یہ ہو سکتی ہے ، کہ دنیا کا کوئی بھی ذہین ترین مفکر اور فنکار اگر روبوٹ نہیں انسان ہے ، تو یقیناً وہ اپنے اندر ہر جزبات و احساسات اور ان کے باہمی ٹکراؤ اور نتیجتاً ٹوٹ پھوٹ سے بھی گزرتا ہے اور یہ تمام کیفیات اس کی شخصیت کے کسی بھی مضبوط سے مضبوط تاثر پر بھی اثر انداز تو ہوتی ہیں ، خاص طور پر انس لگاؤ پیار محبت عشق ، وغیرہ ، لیکن اب اس موضوع کے لیے بہت ہی گہرے اور تفصیل طلب تجزیہ کی ضرورت ہے ،۔ جس کی ابھی یہاں ضرورت نہیں ہے ۔ 


لیکن جو حقیقت زبان زد عام تھی کہ عطیہ فیضی ،اپنے وقت کی ،پڑھی لکھی اور آزاد خیال خاتون تھیں 

1926 میں علی گڑھ کی ایک تعلیمی کانفرنس میں انہوں نے خواتین کو پردے میں قید رکھنے کے خلاف آواز اٹھائی وہ خواتین کے حقوق کی بات کرتیں اور ان کے گھومنے پھرنے کی آزادی کے حق میں تھیں ،

اور قدامت پسندوں کو ان کا یہ انداز کسی طور پسند نہیں تھا ،

جبکہ اس دور کی ماڈرن انٹلکچول کلاس کے مردوں میں عطیہ فیضی کے اس مزاج اور خیالات کو پزیرائی دینا لازمی امر تھا ،

اور ان سے تعلق اور ان کی محافل میں ایسی ذہین خاتون کی موجودگی کسی خوبصورت رومینٹک ایلیمنٹ سے کم نہیں تھی ،

 اور ایک ایسے ہی ،

جس شخص کو عطیہ فیضی کے اس مزاج اور شخصیت نے بہت متاثر کیا ،

وہ تھے سیموئیل فیضی رحمین ،

اور متاثر ہونے کا یہ عمل بہت جلد محبت میں بدل گیا ۔  


ایس رامین سیموئیل ،

پورٹریٹ، فیگریٹو ، لینڈ اسکیپ ، میورلز ورک کے ہندوستانی مصور، ڈرامہ نگار اور شاعر۔ پونا کے ایک مخلوط مذہبی پس منظر رکھنے والے یہودی خاندان میں 1880 میں، پیدا ہوئے ۔ پہلے اسکول آف آرٹ، بمبئی میں، اور پھر چار سال تک لندن کی رائیل اکیڈمی میں جان ایس سارجنٹ اور سولومن جے سولومن کے شاگرد رہے، پہلے سارجنٹ کے انداز میں آئیل کلرز میں پورٹریٹ پینٹ کیں، لیکن 1908 میں ہندوستان واپسی کے بعد مغل پینٹنگ کی روایت کو بحال کرنے کی کوشش میں جلد ہی آئیل کلرز انداز کو ترک کر دیا۔ 1908-18 سے ریاست بڑودہ میں آرٹ ایڈوائزر رہے ۔

خواتین کو مردوں کے برابر حقوق ملنے کے حامی تھے

اسی حوالے سے اس دوران ان کی روشن خیالی اور مزاج نے انہیں 

بیگم عطیہ فیضی سے قریب کر دیا ۔ 


رائل اکیڈمی آف آرٹس فائن آرٹ کا ادارہ ہے جو لندن میں پکاڈیلی پر برلنگٹن ہاؤس میں واقع ہے۔ 1768 میں قائم کردہ، یہ ایک خودمختار، نجی مالی اعانت سے چلنے والے ادارے کے طور پر ایک منفرد مقام رکھتا ہے جسے چلانے والے نامور فنکار اور آرکیٹیکٹس رہے ہیں ۔ 


جان سنگر سارجنٹ، (پیدائش 12 جنوری، 1856، فلورنس، اٹلی — وفات 15 اپریل، 1925، لندن، انگلینڈ)، اطالوی نژاد امریکی مصور جن کے خوبصورت پورٹریٹ ایڈورڈین ایج معاشرے کی بہت اعلی تصویر پیش کرتے ہیں۔

 انہوں نے تقریباً 900 آئل پینٹنگز اور 2,000 سے زیادہ واٹر کلر کے ساتھ ساتھ لاتعداد خاکے اور چارکول ڈرائنگز تخلیق کیں۔

رائل اکیڈمی آف آرٹس میں پڑھانے کے دوران یہ سیموئیل فیضی کے استادوں میں رہے ۔ 


Solomon Joseph Solomon 

ایک برطانوی مصور، نیو انگلش آرٹ کلب کے بانی رکن اور رائل اکیڈمی کے رکن تھے۔ سولومن کا خاندان یہودی تھا اور اس کی بہن للی ڈیلیسا جوزف بھی ایک مصور تھی۔

رائل اکیڈمی آف آرٹس میں پڑھانے کے دوران یہ بھی سیموئیل فیضی کے استادوں میں سے تھے ۔ 


5 دسمبر ،1912 میں ہندوستانی موسیقی کی ایک اتھارٹی ، خاندان کی عطیہ بیگم سے اپنی شادی کے بعد یہودیت سے اپنا عقیدہ تبدیل کر کے اسلام اور اپنا نام ایس رامین سیموئیل سے ایس فیضی رحمین رکھ لیا،

 بمبئی میں رہنے کے دوران بمبئی آرٹ سوسائٹی کے ساتھ نمائش کی۔ گیلری جارج پیٹیٹ، پیرس، 1914 میں پہلی یورپی سولو نمائش۔

 1926- اور 1928- میں امپیریل سیکرٹریٹ، نئی دہلی کے لیے پینٹ شدہ فریسکوز پر کام کیا وکٹوریہ اور البرٹ میوزیم ، میٹروپولیٹن میوزیم، نیویارک کے مشرقی حصوں کی تنظیم نو میں مدد کی۔ کئی ڈرامے اور نظمیں بھی لکھیں۔ 


1947 میں ڈاکٹر فیضی اور عطیہ بیگم قائد اعظم محمد علی جناح کی درخواست پر ممبئی چھوڑ کر پاکستان آکر کراچی میں آباد ہوگئے ،اور قائد اعظم کی طرف سے انہیں یہاں ایک جگہ بھی دی گئی ،تاکہ وہ اسے اپنی مصورانہ سرگرمیوں کا مرکز بنا سکیں ،

اب یہ بات ناقابل یقین لگتی ہے کہ قائد اعظم کی اس خواہش کو ان کی وفات سے صرف دس برس بعد انتہائی بے دردی سے

پامال کر دیا گیا۔

یہ سب کچھ بہت عجیب طرح سےہوا۔ کہ کراچی میں ان کی طرف سےجو گیلری بنائی گئی تھی اور وہ اپنا کام کر رہی تھی، 

اسی دوران پاکستان کی پہلی مارشل لاء حکومت کے دنوں میں کراچی کے اس وقت کے کمشنر سابق بیوروکریٹ این ایم خان کو وہاں کچھ گڑبڑ کی ہوا لگی،اور انہوں نے ڈاکٹر فیضی رحمین

اور عطیہ بیگم کو بغیر تحقیق کئے نہایت سفاکی سے ان کے گھر سے بے دخل کر دیا۔اور اسے گرا دیا۔ یہ ان میاں بیوی کے لیے تو ایک بڑا صدمہ تھا ہی، یہاں کی فن کی دنیا کے لیے بھی یہ ایک بڑا دھچکا تھا۔وہاں کچھ غلط ہونے کی افواہیں تھیں جو کہ بے بنیاد تھیں اور کبھی ثابت نہیں ہوئیں اور نہ ہی اس کی کوئی تفصیلات لوگوں کے علم میں لائی گئیں۔ سموئیل نے اسلام قبول کرنے کے بعد ایک مسلمان اور پاکستان کے وفادار کے طور پر شہرت پائی۔ اور ان کی وفا شعار بیوی عطیہ نے مستعدی کے ساتھ خود پر لگنے والے الزامات اور کیس کی پیروی کی اور کیس جیت لیا۔لیکن پھر وہ کبھی اس جگہ پر واپس نہ گئے ۔ جو ان سے چھین لی گئی ۔ 

"اپنی زندگی کے بقایا دنوں میں ان ممتاز میاں بیوی کو بے انتہا توہین آمیز رویہ اور دشواری جھیلنی پڑی تھی۔ گھر سے نکال دیے جانے کے بعد ان کے جمع کیے ہوئے نوادرات اور تصویریں تھیلوں اورصندوقوں میں بند ہوگئیں۔ کوئی چارہ نہ پا کر یہ میاں بیوی

پڑوس کے ایک تنگ و تاریک ہوٹل میں کمرہ کرائے پر لے کر

رہنے لگے۔ ان کا سامان اسی چھوٹے سے کمرے میں ایک ڈھیرکی شکل میں پڑا رہتا۔ عطیہ بیگم نے ایک ایک کر کے اپنےجواہرات کو بیچنا شروع کر دیا تاکہ زندگی کے اخراجات پورے کر سکیں۔ 


فنکار حساس ہوتا ہے ، اس ذلت بے توقیری ، اور خراب معاشی حالات میں فیضی رحمین کا ٹوٹ پھوٹ جانا لازمی تھا ،

وہ اس کسمپرسی اور بیماری میں بالکل گوشہ گمنامی میں چلے گئے ،

اور 22 اکتوبر ، 1964 میں ان کا انتقال ہوگیا ،

ان کی گمنامی کا اندازہ اس بات سے لگائیے آئے کہ کسی کو بھی ان کی ٹھیک تاریخ وفات معلوم نہیں ہے ،

22 اکتوبر ایک اندازہ ہے ،

 اس تمام دورانیہ میں سیموئیل فیضی رحمین کے آرٹ کے نمونے جو بھی تھے ان میں سے بہت سا کام تباہ یا چوری ہو گیا ۔ لیکن کچھ اب بھی موجود ہیں۔ ہمارے اپنے آرکائیوز میں ان کی کچھ کتابیں ہیں جن میں ان کی بنائی ہوئی تصاویر موجود ہیں اور پاکستان میں کچھ دیگر پبلیکیشنز میں بھی ان کی بنائی ہوئی مغل مضامین کی پینٹنگز ہیں۔

بیگم عطیہ فیضی کے لیے زندگی مزید مشکل ہو چکی تھی ۔ بلآخر ،

1966 جولائی میں

بلدیہ کراچی کے ایک اجلاس میں 

بیگم عطیہ فیضی 

اور ان کی ہمشیرہ کی خدمات کے صلے میں تاحیات پندرہ سو روپے ماہانہ وظیفہ مقرر کرنے کی منظوری دے دی گئی اور ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا ،

لیکن اس میں بہت دیر ہو چکی تھی ،

اپنی زندگی کے گزرے وقت ، ماضی کو بڑی شان سے گزارنے والی یہ خاتون اپنے آخری ایام انتہائی تکلیف اور انتہائی کسمپرسی کے عالم میں گزارنے کے بعد ،

30 دسمبر 1966 میں عطیہ بیگم پر فالج کا حملہ ہوا 

اور پانچ دن بے ہوش رہنے کے بعد

4 ، جنوری 1967 کو اس دار فانی سے عالمِ جاودانی کو رخصت ہوگئیں ۔


ان دونوں کی وفات کے بعد ان کا گھر فن مصوری کے شائقین کے لئے کچھ مدت تک کھلا رکھا گیا تاکہ وہ ان کے فن کا بچا کچھا مجموعہ دیکھ سکیں ، اور یہ سلسلہ 1990 کی دہائی تک جاری رہا

پھر اس آرٹ کے مجموعہ کو کسی دوسری جگہ محفوظ کر دیا گیا

کیونکہ ان کی زمین پر ایک ثقافتی مرکز اور گیلری کا دوبارہ منصوبہ بنایا گیا لیکن آج تک یہ اصل مقاصد کے حوالے سے مکمل ہو سکا ہے یا نہیں اس پر کچھ معلومات اکٹھی کر کے آپ سے دوبارہ شیئر کی جائیں گیں ۔


شاہد حسین

18 دسمبر 2021



Friday, December 17, 2021

Hira Siddiqui

 


آپ نے ایسے جگسا پزل ضرور دیکھے ہوں گے جن میں بچے بڑے شوق سے دنیا کے مشہور آرٹ ورک کو چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں کی مدد سے جوڑ کر مکمل کرتے ہیں ۔

 گو کہ اس میں ایک ریفرنس امیج موجود ہوتا ہے جسے فالو کرتے ہوئے مکمل کرنا ہوتا ہے ، لیکن پھر بھی یہ اس قدر آسان نہیں ہوتا ۔

  بس بچے یا بڑے اسے کسی ٹارگٹ کی طرح سے اچیو کرنے، یا ایک صحت مند ذہنی کھیل کی طرح سے لیتے ہوئے مشکل اٹھانے کے باوجود کھیلتے ہیں ۔

جبکہ اسی طرح سے کوئی فنکار ، جب کوئی آرٹ ورک تخلیق کرتا ہے ،

تو اس کے کونسیپچول میٹیریل کے لیے اگر وہ اپنے اردگرد دیکھے ،تو کوئی سماج بھی اپنے رسم و رواج مذہب ثقافت تاریخ ، سیاسی و جغرافیائی حالات اور دیگر بہت سے معاملات میں ، کسی جگسا پزل کی طرح ہی ہوتا ہے ،پیچیدہ اور بے شمار بکھری ہوئی ٹکڑیوں میں ، 

جنہیں پھر کوئی فنکار اپنے تصور میں موجود امیج کو فالو کرتے ہوئے مکمل کرتا ہے ،

اور یوں یہ ایک تخلیقی عمل بن جاتا ہے جسے کسی کھیل سے مماثل قرار تو نہیں دیا جاسکتا ۔

لیکن یہاں حرا صدیقی کے کام کو دیکھتے ہوئے اور اس کی وضاحت دینے کے لیے مجھے اسے بطور مثال ضرور استعمال کرنا پڑ رہا ہے ،

ایک سوسائٹی ، اپنے اندر ویری ایشن اور مسائل کی وسیع تر پیچیدگیوں کے باوجود ،اپنی ایک الگ شناخت ضرور رکھتی ہے ،جن سے اس سوسائٹی کا فن کار بطور فرد ہوتے ہوئے ، واقف ہوتا ہے ، تو وہ انہیں اپنے آرٹ میں بطور انگریڈینٹ استعمال کرتے ہوئے کہیں کچھ نہ کچھ سہولت بھی رکھتا ہے ،لیکن اب اس گلوبل ولیج بنتی دنیا کا کیا کیا جائے ،

جس نے جانے کتنے سماجوں کی ٹکڑیوں کو ایک ساتھ ہی کسی ڈبے میں اکٹھا کر دیا ہے 

آج ہر تہذیب و ثقافت نظریات رسم و رواج ، زبانیں سب کچھ آپس میں گڈ مڈ ہو گیا ہے ، تو اب اسے روایتی شناختوں میں کیسے بانٹا جائے ، کیسے ترتیب دیا جائے ،

آج کسی بھی ثقافت کی قدروں کو سنبھالنے والوں کے لئے ، ان کے سامنے یہ ٹکڑیاں سوالات کا ایک ڈھیر ہیں ۔

جبکہ حرا صدیقی کے اندر کے تخلیق کار نے ضروری نہیں سمجھا کہ وہ ان سوالوں کے جواب یا آن کے کوئی حل پیش کرے ، 

اس نے ان سوالوں اور معموں میں چھپی خوبصورتی کو تلاش کیا ،اور پھر اس نے ان سوالوں کے الفاظوں کو ایسی ترکیب سے ترتیب دیا ، 

کہ اس کی کمپوزیشنز ، سوالوں کو الجھاؤ کی طرح سے نہیں بلکہ خوبصورتی کے نئے زاویوں سے ،

 ہمیں چونکاتی ہیں ، حیران کرتی ہیں ،

اور یہی حرا صدیقی کی بہت بڑی اچیومنٹ ہے ،

شاہد حسین


21 نومبر 2021

Thursday, December 16, 2021

آرٹ مارکیٹ

 


یہ سلسلہ ہے موڈرن آرٹ سے لیکر کنٹمپریری آرٹ کی کچھ کتابوں پر تبصرے کا ،


A History of the Western Art Market

تیشیا ھلسٹ کی اس کتاب 

پر ، میلیسا کوئنس ،

جو کہ ، کلارئین یونیورسٹی پنسلووینیا میں آرٹ پروفیسر ہے نے ، 2018 میں ایک مضمون لکھا ہے ،

جس کی ابتدا وہ

ایک جرمن سوشیالوجسٹ جارج سمل کے 1980 میں لکھے گئے ایک مضمون 

Art on exhibition

کے ایک حوالے سے کرتی ہے 

جس میں جارج سمل آرٹ کی دنیا میں تیزی سے بدلتے ہوئے جمالیاتی عناصر ،پر بات کرتے ہوئے کہتا ہے، کہ یہ نئے جمالیاتی معیار ،

ہم پر جو اثرات مرتب کر رہے ہیں ،وہ ناصرف ہمارے اندر ایک مصنوعی پن کا اضافہ کر رہے ہیں بلکہ تسکین کی بجائے ،ہماری تشنگی کو اور بڑھانے کا باعث بن رہے ہیں ،

اصل میں اس کی یہ رائے تھی

ماڈرن آرٹ کی ایک ایگزیبیشن پر ،جس کا ٹائیٹل تھا ،

Fleeting character and breathless dispersal of all its contents at the end.

جس کا ترجمہ ہم کچھ یوں کر سکتے ہیں ،

فضا میں تیزی سے تحلیل ہو کر بکھر جانے والی شے ،

اور ملیسیا کا کہنا ہے کہ جارج سیمل کی یہ رائے آج کی کنٹمپریری آرٹ مارکیٹ پر بھی بالکل صادق آتی ہے ،

وہ اس طرح سے آج آرٹ کی مارکیٹ بھی اجناس کی مارکیٹ کی شکل اختیار کر گئی ہے ، جس میں لین دین ، صرف اور صرف منافع ، حاصل کرنے کی خواہش پر مبنی ہے جس میں آرٹ ڈیلرز،کلکٹرز ،

اور آرٹسٹ ، زیادہ سے زیادہ منافع کی حصول کی فکر میں لگے رہتے ہیں ،

اور بڑے بڑے آکشن ھاوسز اور ڈیلرز آرٹ کے اھم بائرز کو بالکل اس طرح سے خرید رہے ہوتے ہیں ،جیسے کوئی کلکٹر آرٹ ورک کو سلیکٹ کرتا ہے ۔

 اور یہ آرٹ مارکیٹس اپنے تمام تر مقاصد حاصل کرنے کے لیے آرٹ کی خریدوفروخت کے ،تمام مراحل کو انتہائی پوشیدہ طریقے سے چلاتی ہیں

جس میں نتیجہ آرٹ اپنی اصل اہمیت سے بدل کر ، ایک پروڈکٹ یا کموڈتی کی شکل اختیار کر جاتا ہے ،

اور ایک سچا اور خالص آرٹسٹ بھی

اپنے آرٹ سے جڑے مقصد ،سے ہٹ جاتا یا بددل ہو جاتا ھے ۔

اور پھر اسی آرٹ مارکیٹ کا حصہ بنتے ہوئے بھیڑ چال کا شکار ہو جاتا ہے ،

مصور یا مصوری سے دلچسپی رکھنے والے وہ لوگ

جنہیں آج کا آرٹ ، اپنے قدیم رائج بصری جمالیاتی اصول و ضوابط سے ہٹ کر ،یا کسی بھی طور پر نظر آنے میں ،آور پھر اپنی قیمت اور شہرت کے حوالے سے حیران کرتا ہے ، یا سیکھنے کے کسی بھی مشکل پروسس سے کوئی مصور گزرنے کے بعد ،آج کی آرٹ ورلڈ میں کامیابی کے راستے تلاش کرنا چاہتا ہے ،یا ان کی پرسراریت جاننا چاہتا ہے ،تو اس سلسلے میں رہنمائی کرنے والی بہت سی کتابوں میں سے ایک یہ بھی اچھی کتاب ہے ، ہماری کوشش ہوگی کہ یہ اردو میں شائع ہو سکے ۔


شاہد حسین

8 جون 2021

مارخور

 


مارخور ، اس کا مطلب ہے سانپ کھانے والا ، کہتے ہیں کہ یہ سانپ کھانے کے بعد اپنے منہ سے جھاگ گراتا ہے ،

جو چٹانوں پر گر کر جم جاتی ہے اور قیمتی پتھر بن جاتی ہے ،

اب اس میں کتنی سچائی ہے کتنا گمان مجھے نہیں معلوم ،


لیکن جو بات میرے تجربے میں آئی وہ ضرور بیان کرتا ہوں ایک آرٹ لور خاتون نے مجھ سے پوچھا کہ آپ ،

جو یہ کام کرتے ہیں تو میں آپ کے اوزار دیکھنا چاہتی ہوں ،

میں نے جواب میں کہا کہ میرے اوزار لوہے کے صرف چند ٹکڑے نہیں بلکہ ، میری ڈائریوں میں لکھے ہوئے ،لوگوں کے وہ رویے ہیں جنہیں میں برداشت کرتا ہوں ،

اسی طرح سے کسی نے ایک بار مجھ سے کہا کہ آپ اتنی خوبصورت باتیں ( یہ میری رائے نہیں) کس سے اورکہاں سے سیکھتے ہیں ،

تو میں نے جواب دیا اس کے لیے پہلے مدتوں باتیں سننی پڑتی ہیں ،

اور اس میں بہت سی زہریلی باتیں بھی ،جنہیں برداشت اور ہضم کرنا پڑتا ہے ،

بس پھر جو الفاظ کسی جھاگ کی طرح سے منہ سے نکلتے ہیں وہ لوگوں کو قیمتی لگتے ہیں ،

شاہد حسین

11 نومبر 21

ایک ہی حادثہ

 


ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک 


بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی



گزشتہ دنوں ایک دوست نے محفل میں اپنا دکھ بیان کرنے کے لیے جون ایلیا صاحب کی غزل کا یہ نوحہ استعمال کیا ،


اب یہ شعر تکنیکی طور پر کس قدر اعلی ہے اس کی تعریف تو شاعر دوست ہی کر سکتے ہیں ،

میں بس یہی کہہ سکتا ہوں کہ کسی بڑے شاعر میں کئی باتیں کمال کی ہوتی ہے ،

کہ وہ ایسی مشکل بات کہے کہ اس میں چھپی علامتیں یا معنی تلاش کرنے میں اچھے اچھوں کو دانتوں تلے پسینہ آ جائے ،

یا شاعر بات کی مشکل خود سہہ لے اور دوسروں کے لئے آسان کر دے ،

لیکن شعر میں یہ کمال بھی نظر آئے کہ شاعر نے کوئی مشکل ہے جو خود سہی ہے ۔

اور جون ایلیا صاحب کے اس شعر میں یہی کمال کی بات موجود ہے ،


جسے ہم عام طور پر یوں کہتے ہیں

واہ ! بہت بڑی بات کس قدر آسانی سے کہہ دی 


جب کہ ہمیں کہنا چاہیے واہ بہت بڑی بات کس قدر آسان

کر کے کہہ دی ،


اب اس شعر میں میں جون صاحب نے جو مشکل اٹھائی جیسے کہ میں نے عرض کیا اس کی تکنیکی تعریف تو کوئی شاعر دوست ہی کر سکتے ہیں ،


لیکن یہ میں کہہ سکتا ہوں کہ اس شعر میں معنی سمونے کے لیے

جون صاحب کو زندگی بھر مشکل اٹھانی پڑی ،

جس کا کچھ مشاہدہ ہم نے ان کی زندگی کے بعد بھی کیا ،

کہ ان کے بارے کچھ ایسی باتیں کہی گئیں جو ان کی زندگی میں کہی سنی جاتیں تو بہت بہتر ہوتا ،

خیر ہمارا موضوع یہ نہیں ، ، ، دراصل ایک بڑا شاعر ، اپنی زندگی کی مشکلات سے ہی ایسا رس کشید کرتا ہے جو کسی سماج

کو اپنا دکھ لگتا ہے

یا وہ کسی سماج کو مدہوش مسحور یا اس کی دوا کا کام کرتا ہے ،

سوال کرتا ہے ،

یا کسی سماجی المیے کی نشاندہی کرتا ہے ،

اب اس بات کا جواب دینے کے لیے میں جون صاحب سے معذرت کہوں گا ،


اور آپ کو ایک لطیفہ سناؤں گا ،


ہماری کہانیوں کے مشہور کردار ،

ملا نصیر الدین ،

( اب چونکہ آج کے بچے کہانیاں نہیں سنتے اس لئے برائے مہربانی وہ انہیں نصیرالدین شاہ مت سمجھیں ) 

تو ملا نصیر الدین 

رات کو اپنی زوجہ سے اپنے دن بھر کی پریشانیوں اور زندگی کے مسائل پر بات کرتے ہوئے قریب ہی سوئے ہوئے بیٹے کو دیکھ کر کہنے لگے کہ ، بیٹا جوان ہو رہا ہے ، اور پاس کوئی جمع پونجی نہیں ہے ،جو اس کی شادی کی جائے ،

 میرا خیال ہے اپنا گدھا بیچ دیتا ہوں ۔ ۔ ۔ 

اور اس کے بعد کوئی اور موضوع شروع ہوگیا ،

بیٹا گلا کھنکھارتے ہوئے بولا ،

ابا وہ گدھے والی بات پھر سے کہونا ،

 اگر تو یہ بات صرف باپ بیٹے کی ہو تو ٹھیک ہے

بچے ماں باپ کے مسائل کئی بار نہیں سمجھتے ،

اور وہ چاہتے ہیں کہ صرف ان کی بات سنی جائے سمجھی جائے ۔

لیکن جب کسی سماج کی یہ حالت ہو جائے ،


جس میں کسی سماج کا ہر فرد چاہے کہ بس اسی کا ہی نقطہ اور مطمع نظر سنا سمجھا اور مانا جائے ،

 اسی کی ہی بات یا اسی کو مرکز بنا کر اسی پر ہی بات کی جائے ،


تو پھر یہ صورتحال بڑی خراب ہوتی ہے ،

اور خاموشی کی وجہ عدم آگہی نہیں بلکہ آگہی ہو جاتی ہے ،

اور یہاں جون صاحب کا شعر فعالیت کے اعتبار سے صادق نہیں آئے گا ،

بلکہ یہاں کسی گمنام شاعر کا یہ شعر ہی فٹ آتا ہے


کون سمجھا ہے بات کا مطلب ،

سب سمجھتے ہیں بات مطلب کی ،


یہ بھی ایک المیہ ہے

کہ کسی بہت بڑے شاعر کے سوال کا جواب کسی گمنام شاعر کے شعر سے دیا جائے ،

لیکن میرا خیال ہے اسے کسی بڑے شاعر کے لیے گستاخی سمجھنے سے بہتر ہے ،

سماج کو خود کو بہتر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ،

نہ کہ پھر بگاڑ ایک وقت میں اس قدر بڑھ جائے 

کہ جہالت و جھوٹ

خود غرضی مکر و فریب ، کی بات سماج کے ہجوم کا شور بن جائے ،


اورعلم عقل اور سچائی جو مصلحتاً خاموش ہو وہ بولنا بھی چاہے کسی سوال سے کجا جواب بھی دینا چاہے ، تو ظلم وجبر کی وجہ سے خاموش ہوجائے ،

تو بس پھر وہاں سانحے اور حادثات ہی رہ جاتے ہیں ،


شاہد حسین

4 دسمبر 21

،

گاؤں کا کنواں

 



ہماری محفل میں اردو اور اردو ادب پر ہونے والی گفتگو نے ،

بہت کچھ اور بھی یاد دلا دیا ،


گو کہ مجھے سالگرہ کے دن یاد نہیں رہتے ، اکثر دوست اس پر مجھ سے ناراض بھی ہو جاتے ہیں ،

لیکن میں دوستوں کے ساتھ فنون پر کی گئی گفتگو بہت کم بھولتا ہوں ،

یہ ان دنوں کی بات ہے جب سیزان نقش ، حبیب فدا علی صاحب کے ساتھ بطور معاون کام کر رہا تھا ،


تو سیزان نے بتایا کہ ہمارے خطے کے کسی قصبے کو ،

ماڈل ڈیزائن کیا گیا ،


اور ، وہاں کی خواتین جو کسی مرکزی کنویں سے پانی بھرنے جاتی تھیں ،

انہیں ان کے گھروں میں ہی پانی مہیا کر دیا گیا ،

کچھ عرصے بعد تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا ، کہ انہیں پانی بھرنے میں سہولت تو مل گئی تھی ،

لیکن انہیں اپنے ان سماجی مسائل کو حل کرنے میں بہت مشکل ہو گئی تھی 

جن معاملات کو وہ کنویں پر ہونے والی ملاقاتوں میں طے کرلیا کرتی تھیں ،


اب اس بات کا مطلب یہ نہیں کہ لوگوں کو گھروں میں پانی کی سہولت نہ مہیا کی جائے ،

بلکہ یہ مقصد ہے کہ ،

جس طرح سے کسی قصبے یا شہر کی منصوبہ بندی ، طرز تعمیر ، اور اہم سہولیات ،

کا تعلق وہاں کے رہن سہن اور سماجی قدروں سے جڑا ہے ،


جن کے بارے کسی بھی شہر سے لے کر گھر تک کے ماہر تعمیر کو ،معلوم ہونا بہت ضروری ہے ،


اصل میں تو اس سے بھی شاید کہیں زیادہ ،

ایک رائٹر کو اپنے سماج کے بہت سے معاملات میں گہرے مشاہدے ،کی ضرورت ہوتی ہے


اگر آج ہم اس سوال پر غور کریں گے کہ

ہم اپنے قدیم ادب کی ترقی کے تسلسل کو آج اپنے موجودہ ادب میں کیوں نہیں جاری رکھ سکے

یا موجودہ ادب کو قدیم ادب جیسی ترقی کیوں نہیں دے سکے ،

اس کے لیے صرف ایک ناول نگار کی بات کی جائے تو


ایک رائٹر ، اپنے کاغذ پنسل ٹائپ رائٹر ،اور ذہنی مٹیریل کو لے کر ، کسی دور افتادہ قصبے کے تنہا کمرے میں ،

بیٹھ کر ایک بہترین ناول لکھ سکتا ہے ,

لیکن اس ذہنی میٹریل کے لئے پہلے اس کو سماج سے بہت اونچائی سے دیکھنے سے لے کر گہرائی تک میں جاکر جڑنا پڑتا ہے ، اور اس گہرائی میں اتنے معاملات ہوتے ہیں کہ ان کی فہرست بنانا مضمون کو بہت طویل کر دے گا ،


بس مختصر یہی کہا جا سکتا ہے ، کسی واقعے کو قصے کہانی میں تبدیل کرنا 

خدا داد صلاحیت ہو سکتی ہے ، اور بیشک یہ صلاحیت کسی بھی قوم اور خطے میں موجود ہوسکتی ہے ،


لیکن پھر قصے کہانی کو ،

کسی داستان ناول ،کی شکل میں ڈیزائن کرنا ،

یعنی ترتیب دینا ، اسے پھیلاؤ دے کر داستان یا ناول بنانا 

یا پھر اسے بہت مختصر کر کے افسانے میں بیان کرنا ،

بہت وسیع علم تحقیق اور مشاہدے کا متقاضی ہے ،

میرے خیال میں اس میں کہیں ہم دنیا کے ترقی یافتہ ادب کے ساتھ اپنی شناخت میں نہیں چل سکے ،

اور اس میں اپنا حصہ نہیں بٹا سکے ،

یا اس یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ جس قدر اس میں حصہ کی ضرورت تھی اس قدر ہم ادا نہیں کر سکے ،



میری یہ رائے بطور لکھاری کے نہیں ہے ،

بلکہ ایک قاری کی رائے ہے ،


شاہد حسین

29 اکتوبر 2021

Divine and Design

 



ہمارا یہ ایک مختصر سا گروپ

اپنے مقاصد کے حوالے سے

 دوستوں کو کچھ عجیب اور کنفیوز سا لگتا ہے ،


جس کی وہ مجھ سے اکثر وضاحت مانگتے ہیں ،

اب اس کی تفصیلات اتنی طویل ہیں کہ شاید کتاب الگ سے لکھنی پڑے ،

لیکن گروپ کے اصول و ضوابط پر لکھی گئی کتاب کو پڑھنے کی فرصت کس کے پاس ہے ،


اور مختصر طور بیان کی گئی بات کون سمجھ سکتا ہے ،جیسے کہ آج صرف ایک سوال پر بات کرتے ہیں ،


اگر یہ صرف آرٹ کا گروپ ہے

تو پھر اس میں موسیقی فلم ، شعر و ادب ، سے جڑے دوستوں کو شامل ہی کیوں کیا گیا ہے ؟


اس کے لیے میں یہاں پر ایلیمنٹس آف آرٹ پر بات نہیں کروں گا ،

جس سے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ یہ صرف مصوری کے لیے مخصوص نہیں ہے ،

بلکہ ، پرنسپلز آف ڈیزائن پر بات کروں گا ،

جو آپ سب دوست جانتے ہیں صرف مضمون کی وضاحت میں بیان کر رہا ہوں ،


بیلنس ، یعنی توازن ،

یونٹی ، یعنی سب کچھ آپس میں مربوط ،

ورائٹی ، یعنی متنوع ہونا ،


ایمفیسس ،کسی خاص کو نمایاں کرنا ، کسی نقطے پر زور دینا ،

موومنٹ ، کسی ورک آف آرٹ کا متحرک یا ساقط ہونے کے باوجود اس میں حرکت کا احساس یا تاثر ہونا ،

پیٹرن ، یعنی کسی مضمون میں ہونا ، کسی خاص بندش میں ہونا ،کسی خاص یا الگ بناوٹ میں ہونا ،

پرپوشن ، یعنی متناسب تناسب میں ہونا ، 

کسی یونیورسل ، طے شدہ جمالیاتی تناسب پر یا دریافت شدہ تناسب پر ،

یہ و ہ سات بنیادی اصول ہیں

جو کہ اس تمام تر کائنات کی تخلیق میں ، 

مستعمل نظر آتے ہیں ،

قدرت لفظ قدر کا مجموعہ ہے

قدر کا مطلب مقدار ،جس کے بارے ،

 خدا کہتا ہے میں نے اس کائنات کی ہر شے کو متعین مقداروں سے تخلیق کیا،

یعنی ایک میتھمیٹیکل کیلکولیشن ،کی تقسیم ،

اور انہیں کسی ایک جگہ جمع کرنے سے ،

آج اس کا اعتراف سائنسدان بھی کرتے ہیں ،

جسے وہ گولڈن سیکشن ،

یعنی ،

ایک پرفیکٹ پرپوشن آف میتھمیٹیکل کیلکولیشن ،

جو ایک پیٹرن کی طرح سے ہے ،


اسی طرح سے ،کچھ سائنسدان کہتے ہیں ،

کہ اس تمام کائنات میں دل کی دھڑکن کی طرح سے ایک ردھم موجود ہے ،


نکولا ٹیسلا کہتا ہے ،

اس کائنات کا راز ،

توانائی ، فریکوئینسی ،

اور وائبریشن میں ہے ،

آئنسٹائن کہتا ہے یہ تمام کائنات مسلسل حرکت میں ہے،

 ،

تو جس طرح سے تمام پرنسپلز آف ڈیزائن اس کائنات کی تمام تر تخلیق میں کار فرما ہیں ،

اسی طرح سے تمام فنون میں

میں یہی پرنسپلز آف ڈیزائن کام کرتے ہیں ،


شاعری ، لٹریچر ، موسیقی ،

فلم ، فوٹوگرافی ،رقص ، 

تمام تر پرفارمنگ آرٹ سے ویژول آرٹ ، میں یہ پرنسپلز یکساں طور پر کام کرتے ہیں،

بس وہ ظاہر کسی الگ الگ خانوں یا پیٹرنز میں ہوتے ہیں ،

انداز و اطوار سے ہوتے ہیں ،


جب یہ الگ الگ خانوں میں ظاہر ہوتے ہیں ،

تو اکثر یہ ایک دوسرے سے لاتعلق ہو جاتے ہیں ،

جس کی وجہ سے یہ اپنے خانے میں انفرادی طور پر طاقتور ہونے کی بجائے کئی بار کمزور ہوتے نظر آتے ہیں

اسی لیے دنیا بھر میں انہیں آپس میں مربوط کرنے کی کوشش جاری رہتی ہے ،



اب یہاں ایک مثال آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں ،

ابھی چار پانچ روز پہلے ،

میں رونوق کے مضافات میں

ایک ایسے فارم ہاؤس پر گیا ،

جسے رومانیہ کی ایک اولڈ لیڈی بالکل اکیلی سنبھال رہی تھیں ،

ہم نے وہاں سے گائے کا بلکل آنکھوں کے سامنے دوھا ہوا دودھ ، بالکل خالص پنیر ،

اور کچھ ایسی ہی اشیاء خریدیں ، اس کے ایک انتہائی فرینڈلی ڈوگ جسے اس بیچاری نے گارڈ ڈوگ سمجھ کر خریدا تھا، 

اور گارڈ ڈوگ قسم گییز کے ساتھ کچھ وقت گزارا ،

اور سب سے مزیدار بات

جب ہم نے اس خاتون کو اپنے تعارف میں کچھ اپنا کام دکھایا تو اس نے بتایا کہ اس کا بھائی اور دیور دونوں پینٹر ہیں ، اور وہ کچھ ایبسٹریکٹ کام کرتے ہیں ،ہم نے وہ کام بھی دیکھا جو بہت شاندار تھا،

اسی طرح سے ہم نے آرٹ مومنٹس اور بہت سی باتیں ،


جسے ظاہر ہے علم وفنون سے آگاہ سوسائٹی کی وجہ قرار دیا جا سکتا ہے ،



اگر ہم اپنے ملک کے آرٹسٹوں کو دیکھیں ،

تو وہ کچھ نہ کچھ دیگر فنون سے شدبد رکھتے ہیں ،

لیکن ضروری نہیں کہ بہت زیادہ ،


جبکہ دیگر فنون سے متعلق

شعبے مصوری کے بارے،

کچھ زیادہ معلومات نہیں رکھتے ہیں ،

ہو سکتا ہے میں اپنی رائے میں غلط ہوں ،


اور اس بارے میں میرا مشاہدہ و تجربہ غلط ہو ،


لیکن اس گروپ کے مقاصد میں ایک یہ کوشش بھی شامل ہے ،کہ دیگر شعبہ ہائے فنون سے جڑے دوستوں تک نہ صرف مصوری کی کچھ معلومات پہنچائی جائیں بلکہ ان کے ذاتی علم و تجربہ اور رائے سے بھی مستفید ہوا جائے ،

اس پر آپ دوست رہنمائی اور تجاویز دے سکتے ہیں ،

شاہد حسین 

26 اکتوبر 2021

کامیابی کیا ہے ؟

 



کامیابی کیا ہے ؟

6 اگست 21


یہ سوال اپنے اندر بہت ڈائیورسٹی ، یعنی جہتیں رکھتا ہے ،

اس کا کوئی ایک جواب نہیں , بلکہ اس کے بہت جوابات ہو سکتا ہیں ،

کیونکہ میرے خیال میں ، کامیابی کے معنی ، ہر انسان کو ملنے والی زندگی ، مسائل اور گولز ، یا ٹارگٹس کی بنیاد پر مختلف مختلف ہو جاتے ہیں ،

لہذا اسے کسی ایک رخ سے بیان کرنا یا اسے ٹھیک ٹھیک اعدادوشمار کے ساتھ بیان کرنا مشکل ہے ،

اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ کامیابی کسی احساس یا کیفیت کی طرح سے ہوتی ہے ،

جس میں کسی ٹھیک ایک ہی جیسی صورتحال میں یہ دو یا زائد افراد کے لئے مختلف مختلف ہوسکتی ہے ،


ایک بچہ ،

جسے شاید زندگی میں پہلی بار میں سفر کرنے کا موقع مل رہا ہے اسے ٹرین میں کھڑکی کے پاس والی سیٹ مل جائے ،تو وہ خوشی اور ایکسائٹمنٹ ،

میں خود کو تقریباً کامیابی کے معیار پر سمجھتا ہے ،


جب کہ کوئی ،

عمر رسیدہ شخص ، اپنی زندگی کے نقصانات اور دکھ سے گزرتا ہوا بزنس مین ، ، اسی ٹرین میں ، کھڑکی والی سیٹ چھوڑ کر ،

انتہائی مایوسی سے باہر کی گزرتے مناظر کو چھوڑ کر کہیں بے مقصد دیکھ رہا ،

 ہو سکتا ہے ،


لیکن چونکہ یہ سوال ابھی بھی ہمارے سامنے ہے کہ ہمارے لیے کامیابی کا مقصد و معنی کیا ہوتا ہے ؟

تو اس کا جواب میں اپنے ایکسپیرینس کے حوالے سے دے سکتا ہوں کہ میں تو زندگی بھر بس مسائل آتے رہے اور انہیں حل کرنے کی کوشش کرتا رھا ۔ ۔ ۔ 

ان سے حاصل ہونے والی کامیابی کا پلیز لیتا رہا ۔

تو کیا کبھی یہ جاننے کی کوشش کی کہ مسائل آتے کیوں اور کہاں سے ہیں ؟

تو میں یہی کہوں گا کہ ھاں ٹھیک ہے جس طرح سے ہم میں سے زیادہ تر بچے بس ٹیلیویژن دیکھتے ہیں ،

اور اس کے پیچھے بہت کم بچے جھانک کر دیکھتے ہیں کہ یہ نشریات آتی کہاں سے ہیں ،

اب مجھے اس کا ٹھیک ٹھیک جواب ملا یا نہیں ،

لیکن کوشش کرنے کے حوالے سے کچھ قدرے میں یہاں بھی کامیاب رہا ،

اور مجھے مولا علی کا یہ کہنا بھی کچھ سمجھ آیا ،

جو انہوں نے اپنی شہادت سے پہلے سر پہ ضرب کھا کے الفاظ کہے ،

" رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا "


شاہد حسین

6 اگست 21

Film Art 2

 



Film Art 2


 ہمارا موضوع ہے 

موشن پکچر میں ساکت مصوری کی نالج کا کردار ،

ایک بار پھر واضح کرتا چلوں کہ فلم کے بارے میری تیکنیکی نالج سوائے فلم بینی کے کچھ نہیں ،

اور آج فلم ہمارے بہت بڑے بڑے اداروں میں بطور سبجیکٹ پڑھائی جا رہی ہے ،

جہاں یقینا بچے یہ سب کچھ سیکھ رہے ہیں ،

لیکن فی الحال ہماری فلموں میں یہ نالج نظر بہت کم آ رہی ہے ،

جیسے کی فلم کے ہر فریم میں جو بھی منظر آتا ہے اسے کس طرح سے کمپوز کیا جائے ؟

اس میں موجود اشیاء یا کردار ، اس کی لائٹ ، کلرز ، ڈسٹنس ، کیا ہوگا 

اور ہر فریم کتنے وقت تک ایک جگہ رہے گا لیکن اس میں اشیاء اپنی حالت یا جگہ تبدیل کریں گی ، 

اور پھر کتنی دیر بعد فریم کا اینگل تبدیل ہوگا یا فریم تبدیل ہوگا ،

اور اس سے جو تاثر وصول ہوگا ، 

اس کا فلم کی کہانی کے مطابق مطلوبہ مقصد سے کیا تعلق ہوگا ،

اور یہ سب کچھ ہر فریم میں الگ الگ بھی ڈیزائن کرنا ہوتا ہے ،

اور کسی بھی ایک صورتحال کے تمام الگ الگ مناظر کا آپسی تعلق اور تسلسل بھی قائم رکھنا ہوتا ہے


اسی طرح سے ،بالکل کسی پینٹنگ کی طرح سے ایک منظر کو بہت الیبوریٹ کرنا پڑتا ہے ، یعنی غیر معمولی طور پر نمایاں ،

اور اسی طرح سے کسی منظر کو کبھی عامیانہ معیار پر بنانا پڑتا ہے ،


لیکن ایک بامقصد ریلیونسی کے ساتھ ،

کئی بار کسی منظر کو غیر ضروری طور پر ، نمایاں کر دینا بالکل ایسا ہے جیسے سرگوشی میں اورکسٹرا شامل کر دینا ،

ویسے ضرورت ہو تو یہ بھی کیا جا سکتا ہے ۔ 🙂


اب فلم کے ہر منظر کو تصویری نالج کے ساتھ صرف دماغ میں ڈیزائن کرنا ،

دنیا کے شاید بڑے بڑے ڈائریکٹرز ایسا کر لیتے ہونگے ،

لیکن ہالی ووڈ کے زیادہ تر ڈائریکٹر سٹوری بورڈ بناتے ہیں ،

اب آج جو فلم پاکستان میں بن رہی ہے اس میں مجھے نہیں معلوم کے اسٹوری بورڈ بنتا ہے یا نہیں ،

لیکن 1980 تک کہ جس فلم انڈسٹری سے میں واقف ہوں

اس میں ایسا کوئی تصور نہیں تھا ،


لیکن میرے والد جو فلموں کے آرٹ ڈائریکٹر تھے ،وہ مجھے اس دور میں بھی بتایا کرتے تھے کہ فلم کے لیے کس طرح سے تصویری

کہانی بنائی جاتی ہے ،

جس میں ہر منظر کو نہ صرف ، بصری

بلکہ موڈ کے حوالے سے بھی ڈیزائن کرنے میں آسانی ہوتی ہے ،

اور فلم شوٹ کرنے میں وقت کی بھی بچت ہوتی ہے ،



Storyboard or Comic art ,

باتصویر کہانیوں کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے ،
چودہ سو چالیس 1440 کے قریب چھاپہ خانے کی ایجاد نے ،
باتصویر کہانیوں کی ترقی میں بھی کردار ادا کیا ،
اور صحافت میں بھی ،
انیسویں صدی میں جب اخباری صحافت ، پرنٹ میڈیا ، ایک ھیجان خیز دور میں داخل ہوا ، تو یہ تصویری کہانیوں کا رواج بھی اخباری قارئین کو تفریح فراہم کرنے کے لیے 
ایک الگ آرٹ میڈیم کے طور پر امریکی صحافت اور ثقافت کا لازمی حصہ بن گیا ، اور دیگر مغربی ممالک میں بھی ۔
جن میں ساکت تصویروں کی مدد سے ہی ایکشن کو کو بھرپور طریقے سے دکھانے کی کوشش کی جاتی ،
اور صرف فلم کا اسٹوری بورڈ نہیں ،
بلکہ فلم نے ان کومکس کی ترقی میں اور ان کامکس نے ، فلم کی ترقی میں بڑا اہم کردار ادا کیا ،
جیسے کہ ابھی تک کامک کریکٹرز پر بننے والی فلم کے مناظر کی بناوٹ میں ، کومک کی ایکشن موومنٹ اور موڈ کو ملحوظ رکھا جاتا ہے ،

اس سے اگلے حصے میں ہم تصویری نالج کا فلم پوسٹر اور ھورڈنگز میں استعمال پر بات کریں گے ،

شاہد حسین
16 دسمبر 21


Wednesday, December 15, 2021

ھیرو ایٹ دا گیٹ

 



Enemy at the gates


یہ فلم ہے , دوسری جنگ عظیم کے دوران شکست کے دھانے پر پہنچے ہوئے سوویت یونین کے ایک ہیرو کی ،

جو اپنے بہترین نشانہ باز ہونے کی صلاحیت کی بنیاد پر ، راتوں رات ،

 روسی افواج جو ، جرمن افواج کے ہاتھوں ، ہر محاذ پر ، شکست کھاتی جارہی تھی ، کی بجائے فتح کی نوید بن گیا ،

 ویسلے جو اپنی ہارتی ہوئی فوج کا ایک عام سپاہی تھا

لیکن جب اس نے تاک تاک کر ، دشمن جرمن افواج کے آفیسرز کو مارنا شروع کیا ،


تو اس کا یہ عمل روسی فوج میں امید اور طاقت کی ایک نئی ،لہر دوڑانے جیسا تھا ،

 ایک ایسی طاقت کی لہر ،جس نے بالآخر سوویت یونین کو فتح سے ہمکنار کیا ،


یہ کہانی ہے جنگ کے ہیرو کی ،

جس میں فاتح اور مفتوح ، دونوں کا جانی نقصان ہوتا ہے



لیکن قوموں کو یہاں اس دنیا میں بہت سی دیگر جنگیں بھی لڑنی پڑتی ہیں ،

جس میں گولابارود اسلحہ بندوق کا استعمال نہیں ہوتا

لیکن ٹھیک نشانہ لگانے والے ہیروز کی یہاں بھی ضرورت ہوتی ہے ۔


جس سے کسی طرف سے کسی کی جان بھی نہیں جاتی ،

کیونکہ یہ جنگ ہوتی ہے ،

کسی قوم کی ثقافت کھیل اور فنون کی ،

اپنے فخر شان و شوکت اور پہچان کی ،

تو ہمیں یہ لڑائی بھی جیتنے کے لیے ہیروز کی ضرورت ہوتی ہے ،

 اس میں کوئی شک نہیں ،

کہ پاکستان جو کہ ذہین ترین افرادی قوت ،اور دیگر بہت سے قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے ،

لیکن ہم طویل مدّت سے ،حقیقی ترقی کے بجائے ایک سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ،


ہم بے شمار بیرونی اور اندرونی مسائل سے دوچار ہیں ،


جن کی طویل تفصیلات اور فہرست ہے ،

لیکن مختصراً یہی کہ آج ہم ایک مایوسی کے دور سے گزر رہے ہیں ،


اور دنیا کی بہت سی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی اقوام کے مقابل خود کو کہیں بہت پیچھے دیکھ رہے ہیں ،

جس میں بہت سی قومیں اپنی پہچان کو کھوتا ہوا دیکھ رہی ہوتی ہیں ،

اور دشمن قومیں اپنی ثقافتی یلغار کے ساتھ آپ کے دروازوں پر دستک دے رہی ہوتی ہیں ۔


 لیکن ہمارے بہت سے میدانوں کے ہیروز

ہمیشہ مایوسی میں کہیں نہ کہیں ہمیں توانائی سے بھرپور امید دیتے ہیں ،


جن میں سے ہم اس ہیرو کا ذکر کر رہے ہیں ،

جس کا شہرہ آج چاروں طرف گونج رہا ہے ،

دبئی ایکسپو ٹوئنٹی ٹونٹی کے ھیرو راشد رانا کا ،

یہ سچ ہے کہ دبئی ایکسپو ٹونٹی ٹونٹی میں ،ہمارےبہت سے فنکاروں نے حصہ لیا ہے ،جن کا ہم یہاں ذکر کرتے رہیں گے ،


لیکن اس شو کا ،

تاج سر پر سجانے والا فنکار راشد رانا ہی ہے ،

جس کا تعمیراتی شاہکار ، آج دبئی ایکسپو کے پاکستانی پویلین کا مرکزی فساڈ دنیا بھر کے آرٹ کے شائقین کو پاکستانی ثقافت کی خوبصورتی ، 

اور امن کا چہرہ دکھانے کے لئے خوش آمدید کہہ رہا ہے ، ، ، 

یہ راشد رانا ہے 

جو آج کے آرٹ کے میدان میں ،

چونکانے اور حیران کرنے کے حوالے سے

ٹھیک نشانہ لگانے والے ہیرو ہی کی طرح ہے ، 

جو پاکستانی قوم میں ، امید اور فخر کی ایک توانا لہر دوڑا رہا ہے ،


اور یہ بات صرف میں نہیں سب کہہ رہے ہیں ، 

شاہد حسین

10 اکتوبر 21

Art رسالے

 



The Artist , Artists ,

Sculpture , Sculpture review ,

Art news , juxtapose . Art in America .

Artforum , the art newspaper ,

Aesthetica , art review , ImagineFX ,

First American art magazine ,

Modern painters, art monthly .

Flash Art . Communication arts.

Aperture , watercolor artist . Art papers .

Art Asia Pacific . Professional artist .

Art and antiques . Art Nexus . Artlink . 

Art & Australia . Artillery . The art Journal .

X- TRA . Art monthly Australiasia .

Art in print . Arts magazine . Afterimage .

Beaux Arts magazine. Math art .

Stickwork . ,Apollo , and many more . . 


Here is the list of known "Art Magazines". Which is in their own language.

 The question is how many magazines we have on "our art"regardless if in Urdu or English?

یہ مصوری کے ان رسالوں کی فہرست ہے جو مغرب کی آرٹ ورلڈ میں بہت جانے جاتے ہیں ،


یہ سب ان کی اپنی مصوری سے لیکر بین الاقوامی مصوری پر تو ہوتے ہیں لیکن ان کی زبانوں میں ہیں ،

یہ پرنٹ ان پیپر بھی ہیں ، اور ای میگزین فورمیٹ پر بھی ہیں ۔

سوال یہ ہے کہ ہماری مصوری یا ہمارے خطے کی مصوری ، پر انگریزی میں کتنے آرٹ میگزین ہیں ؟

ہمارے خطے اور خاص طور پر پاکستان میں انگریزی سمجھنے کا تناسب کیا ہے ؟

تو اردو میں کتنے آرٹ میگزین ہیں ؟

اب وہ چاہے پرنٹ 

میڈیم میں ہیں یا ویب جنرل میں برائے مہربانی دوست ان کا ذکر ضرور کریں ،


یا ہوسکتا ہے ،اس کا جواب آئے کہ آرٹ ہماری ترجیحات میں نہیں ہے ،

تو پھر سوال ہے کہ ان ترجیحات،کو کون طے کرے گا ،؟


Shahid Hussain 

27 Jun 21

Tuesday, December 14, 2021

اتنا کیوں سکھائے

 



اتنا کیوں سکھائے جا رہی ہو زندگی ،

ہمیں کونسی صدیاں گزارنی ہیں یہاں ،


گلزار صاحب کا بہت ہی خوبصورت شعر ،

اب اگر اس کی آسان سی وضاحت کی جائے تو کیا ہو سکتی ہے ؟

یہی کہ یہ زندگی جو ہمیں روزانہ ، کسی معمے کسی آزمائش دکھ تکلیف سے گزارتے ہوئے ہمیں سکھانے کی دعویدار ہے ،

تو اس کی ضرورت ہی کیا ہے ،

وہ یہ سب رہنے کیوں نہیں دیتی ،

لیکن اس مکمل معنی کے باوجود ،

کسی شاعر کی کوئی بات حتمی یا یقینی اسٹیٹمنٹ کی طرح سے نہیں ہوتی ، وہ جیسے ناصر کاظمی نے اپنے ایک شعر میں کیا کمال بات کہی ہے ،

پھر کسی دھیان کے صد راہے پر دل حیرت زدہ تنہا ہوگا ،

تو بالکل اسی طرح سے گلزار صاحب نے بھی یہاں اپنی یقینی کیفیت نہیں بلکہ حیرانی بیان کی ہے ، 

اور بڑے شاعر اکثر ایسا کرتے ہیں ،

کہ کبھی تو وہ ایک ایسا پلے ایریا ہمارے سامنے رکھتے ہیں ،

جس میں وہ خود ہی تمام کھیل کھیلتے ہیں ،جب کہ کبھی کبھار ایک ایسی خیال کی سپیس دیتے ہیں جس میں وہ ہمیں کھیلنے کی دعوت دیتے ہیں ،

جو مجھے اس میں مل گئی ،

اور 2010 کی دوستوں کی ایک ایک محفل یاد آگئی 

جس میں سوال تھا کہ اتنا کیوں سیکھا جائے ، اتنی عقل حاصل ہی کیوں کی جائے ،

جب ہمیں مر ہی جانا ہے ،

تو جو جواب تب دیا تھا آج آپ سے شیئر کرتا ہوں ،


میرے خیال میں عقل بھی ایک توانائی کی قسم ،

جو ہمارے جسم کی طرح فنا نہیں ہوتی ، بلکہ روح کی طرح منتقل ہوتی ہے


اسے مختصراً سمجھنے کے لئے ،پہلے اگر آسمانی مذاہب کی رو سے سمجھا جائے ، تو ہمارے مرنے کے بعد ہم سے سوال ہی یہ ہوگا کہ جو عقل سوجھ بوجھ تمہارے اندر چھپا دی گئی تھی اس میں سے ریکور کتنی کرکے لائے ہو ؟

دیگر سماجی مذاہب کے حوالے سے دیکھا جائے ، تو اسی عقل فہم کی بنیاد پر یا تو ہمیں اس گورکھ دھندے سے نجات ملے گی ،

یا اگلے جنم میں کام آئے گی ،

یا پھر مر کر چاہے ہمیں جلایا جائے چیل کوؤں کو کھلایا جائے یا دفنایا جائے ،

ہم ہر صورت میں اس زمین پانی یا مٹی کا حصہ بن جائیں گے ،

اور ہماری یہ عقل 

کسی نہ کسی پھل پھول اور فصل کی صورت میں ،

ضرور باہر آکر ہماری خوراک بنے گی ،

اور کسی نہ کسی طور ،انسان کی عقلی شعوری ترقی 

میں کوئی کردار ادا کریے گی ،

بیکار نہیں جائے گی

فنا نہیں ھو گی ،


شاہد حسین

4 ,نومبر 21

Zeus

 



گزرے وقت میں بہت پہلے کائنات کی وسعتوں میں چھپے کسی انجان مقام پر ، دنیا بھر کے انتقال کرجانے والے فلاسفر ، 

دیوتا زیوس کے دربار میں منعقد ایک اجلاس جمع تھے ،

جس کا مقصد تھا ان فلاسفرز کا دیوتا زیوس سے اپنی اپنی ریاستوں کی بابت آنے والے وقت کے حالات کا جاننا ،

تمام فلاسفر بہت دکھ اور غم سے نڈحال رو رو کر گڑگڑا کر ، دیوتا زیوس سے ، اپنی اپنی ریاستوں کے خوشحال ہونے کی

مدت دریافت کررہے تھے ،

کہ ان کی ریاستیں کب تک ٹھیک ہونگیں ،

دیوتا کسی کو بیس سال اور کسی کو پچاس سال بتا رہے تھے ،

زہر کا پیالہ پی کر پہنچنے والے سقراط ، نے جب روتے ہوئے دیوتا سے اپنی ریاست یونان کے بارے پوچھا ، 

تو دیوتا زیوس کی بھی آنکھوں سے ،آنسوؤں کے موتی گرنے لگے ،

ہچکی بندھ گئی ،

دھاڑیں مارتے ہوئے بولے 

میری زندگی میں تو یہ ممکن نہیں ،

لیکن دیوتا زیوس کا اندازہ غلط نکلا ،

آج دیوتا زیوس نہیں ہے ،

لیکن یونان پھر بھی خوشحال نہ ہو سکا ۔ ۔ ۔ ۔ 


ایک قدیم لطیفہ

،😊

شاہد حسین

10 جون 21

ڈارک روم سوسائٹی

 


آپ حوش و حواس میں آتے ہیں تو خود کو کسی تاریک کمرے میں پاتے ہیں ،

آپ ادھر ٹٹولتے ہیں ، کوئی بھی نہیں ۔ ۔ بس آپ کو تھوڑی دیر بعد محسوس ہوتا ہے کہ آپ کے گرد تھوڑے فاصلے پر اور بھی کچھ لوگ موجود ہیں ، 

آپ کسی کو آواز دیتے ہیں ۔ ۔ خاموشی ۔ ۔ ۔ بہت بار مخاطب کرتے ہیں جواب ندارد ، 

کہانیاں سناتے ہیں لطیفے سناتے ہیں

گانا گاتے ہیں ،

کوئی جواب نہیں ،

چیختے گڑ گڑاتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ طویل خاموشی کے بعد خود کلامی کرنے لگتے ہیں ۔ ۔ ۔ 

بڑبڑانے لگتے ہیں ،

بس آپ اپنی ہی سرگوشیاں سنتے ہیں ،

پھر آپ کو یقین ہو جاتا ہے کہ کسی کی موجودگی آپ کا واہمہ ہے اور آپ اکیلے ہیں ،

آپ اس اکیلے پن سے سمجھوتہ کرلیتے ہیں اور ریلیکس ہو جاتے ہیں ، ، ،

 پھر کسی لمحے میں آپ کا فارٹ نکل جاتا ہے یا آپ پوری شدت سے کسی احتجاج کی طرح سے اسے نکال دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔


اچانک آواز آتی ہے ، او بھائی یہ کیا کر رہے ہو ، ،

یار دوسروں کا بھی کچھ خیال کرو ،


😄😄😄


شاہد حسین

12 دسمبر 21

جنگ کھیل اور آرٹ

 



ہمارے خطے میں رھنے والے جب اپنی اپنی سرحدی حدود سے باہر جا بستے ہیں ،

تو وہ اپنے معاشی مسائل کے حل میں خوشی اور اطمینان حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں ،

اس پر بات پھر کبھی ،

لیکن چند ان سماجی مسائل بات ضرور کرتے ہیں ،

جو انہیں اپنے ممالک کی حد بندیوں میں رہتے ہوئے فیس کرنے پڑتے ہیں ،

جب کہ مغربی ممالک میں وہ ان سے آزاد ہو جاتے ہیں ،


جن میں سے چند کا بھی اگر ذکر کیا جائے ،

تو یہاں ، خواتین کے نیم برہنہ ھورڈنگز

دیکھ کر بھی ، کسی مسلمان کا ایمان خراب ، اور لوگوں کو آزادانہ کھاتے پیتے دیکھ کر بھی روزہ مکروہ نہیں ہوتا،

گروسری سٹورز پر سور کا گوشت دیکھ کر بھی وہ آگ بگولا نہیں ہوتا،

اسی طرح سے ہندو گاؤ ماتا پر ہونے والے ہر ظلم و ستم کو دیکھتے ہوئے بھی بالکل مائنڈ نہیں کرتا ،

اور نہ جانے کتنے معاملات میں اس کا بھی دھرم بھرشٹ نہیں ہوتا ،

 یہاں سور اور گائے کی وجہ سے ،کبھی ہنگامے نہیں ہوتے

توڑ پھوڑ گھر جلانا ، مار کٹائی کسی کی جان لینا تو دور کی بات ، ،ہاتھا پائی بھی بمشکل ہی ہوتی ہے ،


لیکن ،جس پر کبھی نہ کبھی تھوڑے بہت تیز و تند جملوں کا تبادلہ ہوتا ہے ,

یہ معاملہ کھیل کا ہوتا ہے ،

وہ بھی خاص طور پر کرکٹ


جیسے کہ گزشتہ اتوار ،

کی وہ دعوت ، جس میں ، بچوں کے چند یونیورسٹی فیلوز امریکی اور انڈیا سے بھی مہمان تھے ، 

 جو کھانا کھاتے ہوئے حرام اور حلال کے کچھ اپنے کنفیوز ایشوز پر ہنسی مزاح میں بات کرتے رہے ،

اور پھر اسی میں باتوں کا رخ

ہمارے نہ چاہتے ہوئے بھی کرکٹ میچ میں انڈیا کی شکست کی طرف مڑ گیا ،


لیکن یہاں بھی کچھ ہلکی پھلکی نوک جھونک مزاق کے انداز میں ہی ہوتی رہی ،

اور رات دیر گئے سب نے ایک دوسرے کو الوداع بہت خوشگوار انداز میں کیا ،


جب کہ ہمارے ملکوں میں میں کھیل کو کسی جنگ کی طرح سے ہی لیا جاتا ہے ،

گزشتہ روز افغان کرکٹ ٹیم کے کپتان کے اس بیان نے مجھے بہت حیران کیا ،

کہ وہ پاکستان سے شکست کھانے کی وجہ سے ریٹائر ہورہے ہیں ،

 یہ ان کا ذاتی فیصلہ بھی ہوسکتا ہے ،

لیکن مجموعی طور پر افغانستان کے لوگ پاکستان سے بہت سے گلے شکوے شکایت رکھتے ہیں

اب افغان لوگوں کی پاکستان سے اس رنجش ،

کی وجوہات ، یقیناً کوئی حقائق رکھتی ہونگیں ،


لیکن مجھ جیسے عالمی یا علاقائی سیاست سے بے خبر عام آدمی کو اسکی وجہ کبھی سمجھ نہیں آتی

ایک عام آدمی تو یہی سوچتا ہے،کہ افغانستان پر جنگ پاکستان نے نہیں مسلط کی ،

بلکہ پاکستان کو اس جنگ میں مذہبی اور جذباتی نعروں سے گھسیٹا گیا ،

چالیس سال 30 لاکھ افغانوں کی میزبانی کی

ہیروئن ، کلاشنکوف ،دہشت گردی ،مذہبی انتہا پسندی ،

ان سب کا پاکستان نے بھی سامنا کیا ،

لیکن ان کی تفصیلات پر بات کرنا ہمارا موضوع نہیں ہے ،


ہمارا موضوع ہمارے خطے کے بہت سے ممالک کا اب آپس میں نفرتوں کو ختم کرتے ہوئے دوستی اور امن کو بڑھاوا دینے کی کوششوں کو فروغ دینا ہے ، 

یقینا کھیل اس سلسلے میں میں بہت مدد گار ہوتے ہیں

کیونکہ دنیا بھر کی اکثریت کھیلوں کو پسند کرتی ہے

لیکن کھیل اصل میں جنگ کی ہی سوفٹ شکل ہوتے ہیں

دیکھا یہ گیا ہے ،

کہ وہ ممالک جو آپس میں دشمن یا حریف ہوتے ہیں ،

ان کی عوام کے درمیان کھیل تعلقات کو بہتر کرنے کی بجائے ،

نفرت اور غصے کو بڑھاوا دینے کا سبب بنتے ہیں ،

 مجھے معلوم ہے میری اس رائے پر بہت اعتراض کیا جا سکتا ہے ،

لیکن آپ تاریخی اعداد و شمار اکٹھے کر سکتے ہیں ،

کیونکہ کھیل کا نتیجہ ،

 ہار اور جیت ہوتا ہے ،

گوکہ اس حوالے سے تمام دنیا کے انسان ابھی ذہنی طور پر اتنے میں میچور نہیں ہوئے،

لیکن ہم اپنے خطے کے لوگوں کی ابھی وہ ذہنی تربیت تو بلکل نہیں کر سکے ،کہ وہ کھیل میں ہار جیت کو جنگ جیسی فتح اور شکست نہ سمجھیں ،

میرے خیال میں اگر حقیقی معنوں میں ہمارے خطے کے ممالک کے درمیان دوستی کو بڑھاوا دینا مقصود ہے ،


تو اس کیلئے ہمیں اپنے انٹلیکچولز کو ہی آگے لانا پڑے گا ،

جن کی کوششوں کو گو کہ ہمیشہ سبوتاز کیا جاتا رہا ہے ،

جب کہ وہی طبقہ حقیقی معنوں میں ہمارے خطے کے مختلف ممالک میں بسنے والوں کو آپس میں جوڑ سکتا ہے ،

وہ چاہے شاعر ہیں لکھاری ہیں

موسیقار گلوکار ،

فلم ڈائریکٹر ، اداکار ،

اور آرٹسٹ ہیں ، اب ہمیں دوستی کو بڑھاوا دینے کا میدان کا زیادہ حصہ ان کے حوالے کرنا چاہیے ،

یقینا یہ سرگرمیاں مدت سے جاری ہیں ،

لیکن ان کو مربوط مسلسل ،

اور زیادہ سائینٹیفک انداز میں ترقی دینی ہوگی ،

صرف محدود ثقافتی سرگرمیوں اور ڈیلیگشن یا کسی ایک دو بڑے میلوں کے انعقاد سے کام نہیں ہونے والا ،

اسی طرح سے صرف ہندوستانی فلموں کو پاکستان میں چلانے سے مقاصد حاصل نہیں ہونگیں ،بلکہ ارد گرد دوسرے ممالک سے اور ہماری فلموں کو بھی ترقی دے کر انہیں مختلف زبانوں میں ڈب کر کے

ہندوستان بنگلہ دیش، چائنا ،افغانستان ایران اور خطے کے دیگر ممالک میں بھیجنا چاہیے ،

اور کسی غیر جانبدار ملک میں ہالی ووڈ کی طرز پر ،

 اس خطے کے بہت سے ممالک کا مشترکہ فلم بلاک اور سٹوڈیو بننا چاہیے ، جہاں ان خطوں کے فنکار اور ٹیکنیشن مل کر کام کریں ،

 آج فلم کسی بھی جنگی ہتھیار سے زیادہ موثر ہتھیار بن چکی ہے،

ہمیں اس بات کو سمجھنا ہی پڑے گا ،

 اسی طرح سے آپسی مصوری کی سرگرمیوں کو فروغ دینا چاہیے ،

نمائشیں ، بنالے ، اور ریزیڈنسیز ، کا سلسلہ بڑھنا چاہیے ، جہاں آرٹسٹ ایک دوسرے کے خیالات کو جانیں اور اپنے کام میں اسے ویژول مکالمے کی شکل میں ظاہر کریں ،

 فلم کلچر اور آرٹ کی سرگرمیوں کے تبادلے سے ،

دنیا بھر میں بہتر نتائج حاصل کئے گئے ہیں ،

یقینا ہمارے خطے میں بھی امن اور دوستانہ ماحول کے لئے اس سے، بہت بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں ،

اس مضمون کا مقصد کھیلوں کی اہمیت اور ضرورت سے انکار نہیں ہے ،بلکہ فنون کو بھی اہمیت دینا ہے ،

جنگ اور کھیل میں کوئی ٹیم یا قوم ہارتی ہے ،

جبکہ فنون اور ثقافتی سرگرمیوں

کے اظہار اور تبادلے میں ،

قومیں بڑی خوشی سے اپنا دل ❤️ ھارتی ہیں ،اور دوسروں کی جیت کو قبول کرتی ہیں ،

شاہد حسین

2 نومبر 21

آتے ہیں غیب سے

 



آج میں کچھ ڈاکٹروں کے درمیان تھا ،

وجہ میرا مریض ہونا نہیں ، بلکہ ان معالجوں کا دوست اور شاعر ہونا تھا ،

مزے کی بات آج بھی ایک دوست کا سوال وہی تھا جو مدتوں پہلے کسی  نے پوچھا تھا کہ شاعر اور آرٹسٹ میں کیا فرق ہوتا ہے ؟

اور میرا جواب آج بھی وہی پرانا تھا ،

زیادہ فرق نہیں ہوتا

آرٹسٹ دنیا سے چھپتا پھرتا ہے اور شاعر سے دنیا ،


لیکن سچ میں تو یہ مذاق ہے ، شاعر دوستوں کی محفل سے ایک آرٹسٹ کہاں اور کیوں بھاگ اور چھپ سکتا ہے ،

بہت مزیدار محفل تھی ، اور ایک دوست کی غزل سن کر ،اس خیال کی تجدید ہوئی ، کہ جس طرح سے ایک پینٹنگ اپنے اندر لامحدود  اسپیس کرئیٹ کر سکتی ہے

اسی طرح شاعری میں علامتیں اور تخیل  بھی عروج پر ہوتا ہے ،

اسی کے درمیان ہمارا موضوع گارشیا مارکیز ، کی میجیکل ریالٹیز سے

ہمارے کلاسک ادب

داستان امیر حمزہ اور طلسم ہوش ربا کی طرف چلا گیا ،


اور میں اس گفتگو سے لطف اندوز ہوتے ہوئے سوچ رہا تھا 

کہ اس اتفاق کو اب آپ کیا کہہ سکتے ہیں ،

میجیکل  ،یا

سپریچول ریالٹیز ،

کہ ابھی ایک روز پہلے ہمارے گروپ میں اردو اور  اردو ادب ہمارا موضوع تھا ،

 دوسرے دن ہزاروں میل دور وہی ہزار داستان موضوع محفل ہے

ہمارے اکثر آرٹسٹ دوست سر پیٹتے ہیں کہ یار یہ تو میرا اوریجنل آئیڈیا یا کونسیپٹ تھا ،

کسی اور کے ذہن میں کیسے آیا ،

اصل میں تو ہمیں کائنات میں موجود

اس میجیکل یا سپرنیچرل ، حقیقت کو بھی ماننا پڑے گا جو تخلیق کے عمل میں کہیں سے نشر ہوتی ہے ،

اور پھر ہم میں سے کوئی فنکار انفرادی طور پر اسے رسیو کرتا ہے ،

اسے کلیکٹو انکانشسنس کہتے ہیں ،


کسی شاعر کی آمد کی طرح ،

یا کسی آرٹسٹ کے تخلیقی وجدان کی طرح ،

لیکن اب ہم کیا کہیں ،

جناب غالب صاحب نے بہت پہلے کہ دیا تھا ،

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں


غالب صریر خامہ

نوائے سروش ہے 



یعنی حضرت جبرائیل کا ،جو پیغام ہے

غالب اس میں صرف  جو قلم گھس رہا ہے اس کی آواز ہے ،


شاہد حسین


30 اکتوبر 21

 Shahid Hussain:

 Aurora borealis

Colors

پھونک اور آہ

 








یونانی دیوتاؤں کی میتھالوجی میں شائید پانچ دیوتا ایسے ہیں  ، Aeolus , Boreas , Zephyrus ,Notus ,and Eurus

 جو پھونک کی قوت سے طوفان لانے یا موسم تبدیل کرنے پر قدرت رکھتے ہیں ،

کیا ہم انسان  اپنی پھونکوں سے کچھ ایسا کام لے سکتے ہیں ؟ 

ہم سے تو کئی بار سالگرہ کی موم بتیاں نہیں بجھائی جاتیں ،

شاید ہم جیسوں کو  شاعر نے پہلے ہی کہہ دیا ہے پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا ،

لیکن کیا آپ میں سے کسی کو وہ شعبدہ یاد ہے ، 

جس میں پھونک مار کر کوئی اینٹ یا کونکریٹ بلاک ہلا دیا جاتا تھا ؟

تب تو ہر کوئی یہ سن کر حیران رہ جاتا  ،کہ یہ کیسے ممکن ہے ،

اگر آپ کو نہیں یاد تو میں بتاتا ہوں ،

ہم کسی بھی اینٹ یا بلاک کے نیچے ،

کوئی پلاسٹک بیگ رکھتے ،

اس کے سرے کو  ہاتھ میں دبا کر اس میں پھونک مارتے  ،جیسے ہی تھیلی پھولتی اینٹ اور بلاک اٹھ جاتا تھا ،

یہ ایئر پریشر کی سمپل سائنس ہے ،

کہ انسانی پھونک بھی اگر مجطمع کر کے استعمال کی جائے تو  کئی گنا طاقت کی حامل ہو جاتی ہے ،

لیکن یہ پھونک اور بھی کئی حوالوں سے بہت طاقت رکھتی ہے ،

جیسے پھونک کے وہ تمام ساز ،جن کے ذریعے کوئی بھی فنکار پھونک کو انسانی جذبات سے لے کر روح تک کو متاثر کرنے والی آواز بنا دیتا ہے ،

ہمارا ایک دوست شرجیل بلوچ تو کسی ساز کا بھی محتاج نہیں وہ سیٹی بجا کر بھی یہی کام کر لیتا ہے ،

لیکن یہ تو پھونک کا  سائنسی اور انسان کا جمالیاتی اظہار ہے ،

جن میں پھونک کو ایک خاص آلے میں دباؤ سے گزارنا پڑتا ہے ،

جب کہ اگر اس میں  انسانی احساسات اور جذبات کی شدت اور حدت شامل ہو جائے ،

اور پھر اگر یہ آہ کی طرح سے بھی  منہ سے نکلے تو کسی انجن کو دوڑا دینے والی سٹیم سے بھی زیادہ طاقت رکھتی ہے  ،

گو ، غالب ، اس کے اثر پذیر ہونے کی مدت کے بارے تو تشویش کا اظہار کر رہے ہیں ،


آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک ،

کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک ،

لیکن پھر بھی وہ آہ کے اثرپذیر ہونے کی خاصیت اورسچائی سے انکار نہیں کر رہے،

ان کا مطلب ہے کہ ٹھیک ہے دعائیں قبول تو ہونگیں ،

کیا تب تک زندہ بھی ہوں گے ؟

جبکہ یہی اہ اگر کسی مظلوم کی آہ ہو تو اس سے ڈرنے کے لیے تو مزہب بھی بار بار متنبہ کرتا ہے ،

کہ تم جس کے حق میں ظلم کرو اس کی آہ سے ڈرو،


لیکن ایک ٹھنڈی آہ بھرنا بھی ہوتا ہے ،

جو کسی گہرے سانس کی طرح سے لی جاتی ہے ،

جو کسی ظالم کے لیے نہیں ہوتی ،

بلکہ خود کلامی کی طرح سے ،

خود سے اظہار افسوس کرنے جیسی ہوتی ہے ،کسی فرد  کے  اپنے نصیب سے شکوے جیسی ہوتی ہے ، اپنے خدا سے سوال جیسی ،

یا کسی بھی فہم و ادراک سے ماوراء قوت کے لئے ہوتی ہے  ،

میں آج سامنے دیوار پر لگے ہوئے ،

میوزیم کے یادگاری وان گوف کے کانوں پر بندھی بینڈیج والے پوٹریٹ کو دیکھ رہا تھا ،

اور وانگوف کے وہ الفاظ یاد کر رہا تھا ،

جن میں اس نے کہا تھا کہ ایک وقت ایسا ضرور آئے گا

جب میرے کام کو  میرے کام کی بصری  خصوصیات کی بنیاد پر نہیں بلکہ میری ناکامیوں دکھ اور تکالیف کی بنیاد پر پرکھا جائے گا ،

اور پھر وان گوف  کی وفات سے سو سال بعد  اس کی سن فلاور  ریکارڈ بریکنگ قیمت میں بکی ،

دیر تو بہت لگی  لیکن وان گوف کا کہا پورا ہوا ،

تو شاید غالب نے یہ وین گوف جیسے فنکاروں کے لئے ہی کہا ہوگا ،


آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک

 کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک


شاہد حسین

12 نومبر 21

Olafur Eliasson

 







Olafur Eliasson

ہمارے ماحول میں ہونے والی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات کا جن آزاد ہو چکا ہے لیکن اس کرہ ارض پر بسنے والے تقریبا آٹھ ارب انسانوں میں سے بہت کم ہی اس کا احساس کر رہے ہیں خود ترقی یافتہ ممالک کی حکومتیں اس معاملے کو زیادہ سیریس نہیں لے رہی ہیں ۔

اور جتنے بڑے پیمانے پر اس سلسلے میں کوششوں کو امپلیمنٹ کرنے کی ضرورت ہے ، اس میں اب فرد کے کردار کی حیثیت کم سے کم ہوتی اور بااختیار اداروں کے کردار کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے ،

اور یوں لگتا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب باختیار ادارے بھی بے بس ہوں گے ،

ہم اپنے پلیٹ فارم سے اس سلسلے میں چھوٹی سی کوشش ضرور کر رہے ہیں 

کہ دنیا بھر میں جو آرٹسٹ اس دنیا کے لیے خطرہ بننے والے ماحولیاتی بدلاؤ پر کام کر رہے ہیں ،

اس کا کچھ نہ کچھ تذکرہ آسان فہم انداز اور اردو زبان میں ضرور کیا جائے ،

جس سے ہمارے یہاں کے فنکاروں کو بھی بین الاقوامی سماجی آگہی کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے کی طرف کسی نہ کسی طور راغب کیا جا سکے ،

گو کہ اس سلسلے میں مشکلات بہت ہیں کیونکہ دنیا بھر میں آرٹسٹوں کو ایسی کوششوں کے لیے فنڈز مہیا کیے جاتے ہیں ،

لیکن بہرحال ہمارے خطے کا فنکار بہت سی سہولتوں کے بغیر بھی اپنا کام کرتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے ، 


صرف نصف صدی پیچھے مڑ کے ماضی میں اپنا بچپن دیکھیں

تو ماحولیاتی بدلاؤ

کا کوئی تصور ہمارے یہاں اتنا عام نہیں تھا ،

بس ہمارے گھروں میں نانی دادی کی موجودگی ، گرمیوں میں رات کو کھلے صحن یا چھت پر ان کے گرد 

یا سردیوں میں ان کے لحاف میں دبک کر ، کچھ مزہبی یا قدیم قصے کہانیاں ضرور سنی جاتی تھیں ، زیادہ تر گھروں میں یہ معمول عام تھا ،

ہماری دادی اکثر کہتی تھیں ، قیامت والے دن سورج سوا نیزے کی بلندی پر آجائے گا ،

اور ہم پریشان اور حیران ہونے کی اداکاری کرتے ہوئے ،

اپنے تصور میں زیادہ سے زیادہ دس بارہ فٹ کا سورج بالکل گھر کی چھت کے پاس دیکھتے تھے ،

یا کبھی یہ بھی سننے کو ملتا ، بچوں تمہیں معلوم ہے ملتان میں اتنی گرمی کیوں پڑتی ہے ؟

صوفی بزرگ شاہ شمس تبریز کو کوئی گوشت کا ٹکڑا بھوننے نہیں دے رہا تھا ،

تو انہوں نے غصے میں سورج کو بہت قریب لاکر اس پر اپنا گوشت کا ٹکڑا بھون لیا ،

اب اس بات نے تو کنفرم کر دیا کہ سورج چھ سات فٹ کے ڈآیا سے زیادہ بڑا نہیں ہوگا،

خیر سورج تو واپس چلا گیا ، لیکن ملتان میں اپنی گرمی چھوڑ گیا ،


 اب سائنس ہمیں جو کہانیاں یا حقائق سنا رہی ہے ،

وہ ہمارے ہوش اڑا رہی ہیں ،

لیکن مزے کی بات ہے کہ 

Olafur Eliasson 

اپنے کام میں اس ماحولیاتی تبدیلی کے بارے بہت حد تک ہماری نانی دادی کی طرح ہی بات کر رہا ہے ،

قدرے مختلف انداز میں ،

ایلیسن نے دو ہزار تین 2003 میں ، اپنے دی ویدر پروجیکٹ پر کام کرتے ہوئے ، لندن ٹیٹ ماڈرن میوزم کے ٹربائن ھال میں ، 

بہت بڑے پیمانے پر ایک ماحول کا مظاہرہ کیا ،

جس میں اس نے

چھت سے ایک بہت بڑا سورج نما روشن گولا لٹکایا ، 

جو اپنی روشن حالت کو بدل رہا تھا 

اور اس سے اوپر چھت کے ساتھ ایک بہت بڑا شیشہ لٹکایا گیا جو اس سورج کی روشنی کو نیچے فرش پر منعکس کر رہا تھا ،

اسی طرح سے گرم

ہوا میں چینی اور پانی کے محلول سے 

آرٹیفیشل ہیومڈٹی

کرئیٹ کی گئی ،

اولفر ایلیسن ،

ایک ملٹی میڈیا آرٹسٹ ہے جو زیادہ تر اپنے کام میں بہت بڑے سائزز پر محیط انسٹالیشن ماحول یا مظاہر بناتا ہے ، 

جو سائنس آرٹ اور ہمارے قدرتی ماحول کے بارے ہوتے ہیں ،

جس میں روشنی ،

درجہ حرارت ، ہوا کا دباؤ ، پانی ، برف ، دھند اور ایسے ہی دیگر عوامل و عناصرِ پر 

مشتمل ماحول کے انسانی جسم پر اثرات ، اور آنے والے وقت میں اس تمام کرہ ارض پر موجود حیات کو درپیش مسائل اور خطرات

پر بات اور نشاندہی کی جاتی ہے ،

ہمارے خاص طور پر زیر گفتگو کام کو 

تقریباً لاکھوں لوگوں کی توجہ ملی ،

Olafur Eliasson

1967 ڈنمارک میں پیدا ہوا اور کوپن ہیگن رائیل اکیڈمی آف فائن سے 1989 _95 میں گریجویٹ ہوا ،

2007 میں سرپنٹائین گیلری لندن کے ایک حصے کو اسے ڈیزائن کرنے کا کام سونپا گیا ،


2008 میں پبلک آرٹ فنڈ کے ذریعے نیویارک میں مصنوعی آبشار بنانے کے سلسلے میں اسے کمیشنڈ کیا گیا ،

سان فرانسسکو میوزیم آف ماڈرن آرٹ ،

اور میوزیم آف ماڈرن آرٹ نیویارک سمیت دنیا بھر میں اس کی سولو نمائشیں ہو چکی ہیں ، جن میں وہ اپنی آرٹ انسٹالیشن کے حوالے سے اہم پہچان رکھتا ہے ،

اس کی رہائش زیادہ تر اس کے آبائی شہر

کوپن ہیگن میں ہوتی ہے ،

یہاں اولفر ایلیسن 

اور اس کے کام پر

بہت مختصر سا احوال دیا گیا ہے ،

آپ میں سے جو دوست اولفر ایلیسن کے بارے میں تفصیلات جانتے ہیں تو وہ اس گفتگو کو بڑھاوا دیتے ہوئے ،

اپنی رائے دے سکتے ہیں ،

شاہد حسین

2 دسمبر 21