Tuesday, December 14, 2021

جنگ کھیل اور آرٹ

 



ہمارے خطے میں رھنے والے جب اپنی اپنی سرحدی حدود سے باہر جا بستے ہیں ،

تو وہ اپنے معاشی مسائل کے حل میں خوشی اور اطمینان حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں ،

اس پر بات پھر کبھی ،

لیکن چند ان سماجی مسائل بات ضرور کرتے ہیں ،

جو انہیں اپنے ممالک کی حد بندیوں میں رہتے ہوئے فیس کرنے پڑتے ہیں ،

جب کہ مغربی ممالک میں وہ ان سے آزاد ہو جاتے ہیں ،


جن میں سے چند کا بھی اگر ذکر کیا جائے ،

تو یہاں ، خواتین کے نیم برہنہ ھورڈنگز

دیکھ کر بھی ، کسی مسلمان کا ایمان خراب ، اور لوگوں کو آزادانہ کھاتے پیتے دیکھ کر بھی روزہ مکروہ نہیں ہوتا،

گروسری سٹورز پر سور کا گوشت دیکھ کر بھی وہ آگ بگولا نہیں ہوتا،

اسی طرح سے ہندو گاؤ ماتا پر ہونے والے ہر ظلم و ستم کو دیکھتے ہوئے بھی بالکل مائنڈ نہیں کرتا ،

اور نہ جانے کتنے معاملات میں اس کا بھی دھرم بھرشٹ نہیں ہوتا ،

 یہاں سور اور گائے کی وجہ سے ،کبھی ہنگامے نہیں ہوتے

توڑ پھوڑ گھر جلانا ، مار کٹائی کسی کی جان لینا تو دور کی بات ، ،ہاتھا پائی بھی بمشکل ہی ہوتی ہے ،


لیکن ،جس پر کبھی نہ کبھی تھوڑے بہت تیز و تند جملوں کا تبادلہ ہوتا ہے ,

یہ معاملہ کھیل کا ہوتا ہے ،

وہ بھی خاص طور پر کرکٹ


جیسے کہ گزشتہ اتوار ،

کی وہ دعوت ، جس میں ، بچوں کے چند یونیورسٹی فیلوز امریکی اور انڈیا سے بھی مہمان تھے ، 

 جو کھانا کھاتے ہوئے حرام اور حلال کے کچھ اپنے کنفیوز ایشوز پر ہنسی مزاح میں بات کرتے رہے ،

اور پھر اسی میں باتوں کا رخ

ہمارے نہ چاہتے ہوئے بھی کرکٹ میچ میں انڈیا کی شکست کی طرف مڑ گیا ،


لیکن یہاں بھی کچھ ہلکی پھلکی نوک جھونک مزاق کے انداز میں ہی ہوتی رہی ،

اور رات دیر گئے سب نے ایک دوسرے کو الوداع بہت خوشگوار انداز میں کیا ،


جب کہ ہمارے ملکوں میں میں کھیل کو کسی جنگ کی طرح سے ہی لیا جاتا ہے ،

گزشتہ روز افغان کرکٹ ٹیم کے کپتان کے اس بیان نے مجھے بہت حیران کیا ،

کہ وہ پاکستان سے شکست کھانے کی وجہ سے ریٹائر ہورہے ہیں ،

 یہ ان کا ذاتی فیصلہ بھی ہوسکتا ہے ،

لیکن مجموعی طور پر افغانستان کے لوگ پاکستان سے بہت سے گلے شکوے شکایت رکھتے ہیں

اب افغان لوگوں کی پاکستان سے اس رنجش ،

کی وجوہات ، یقیناً کوئی حقائق رکھتی ہونگیں ،


لیکن مجھ جیسے عالمی یا علاقائی سیاست سے بے خبر عام آدمی کو اسکی وجہ کبھی سمجھ نہیں آتی

ایک عام آدمی تو یہی سوچتا ہے،کہ افغانستان پر جنگ پاکستان نے نہیں مسلط کی ،

بلکہ پاکستان کو اس جنگ میں مذہبی اور جذباتی نعروں سے گھسیٹا گیا ،

چالیس سال 30 لاکھ افغانوں کی میزبانی کی

ہیروئن ، کلاشنکوف ،دہشت گردی ،مذہبی انتہا پسندی ،

ان سب کا پاکستان نے بھی سامنا کیا ،

لیکن ان کی تفصیلات پر بات کرنا ہمارا موضوع نہیں ہے ،


ہمارا موضوع ہمارے خطے کے بہت سے ممالک کا اب آپس میں نفرتوں کو ختم کرتے ہوئے دوستی اور امن کو بڑھاوا دینے کی کوششوں کو فروغ دینا ہے ، 

یقینا کھیل اس سلسلے میں میں بہت مدد گار ہوتے ہیں

کیونکہ دنیا بھر کی اکثریت کھیلوں کو پسند کرتی ہے

لیکن کھیل اصل میں جنگ کی ہی سوفٹ شکل ہوتے ہیں

دیکھا یہ گیا ہے ،

کہ وہ ممالک جو آپس میں دشمن یا حریف ہوتے ہیں ،

ان کی عوام کے درمیان کھیل تعلقات کو بہتر کرنے کی بجائے ،

نفرت اور غصے کو بڑھاوا دینے کا سبب بنتے ہیں ،

 مجھے معلوم ہے میری اس رائے پر بہت اعتراض کیا جا سکتا ہے ،

لیکن آپ تاریخی اعداد و شمار اکٹھے کر سکتے ہیں ،

کیونکہ کھیل کا نتیجہ ،

 ہار اور جیت ہوتا ہے ،

گوکہ اس حوالے سے تمام دنیا کے انسان ابھی ذہنی طور پر اتنے میں میچور نہیں ہوئے،

لیکن ہم اپنے خطے کے لوگوں کی ابھی وہ ذہنی تربیت تو بلکل نہیں کر سکے ،کہ وہ کھیل میں ہار جیت کو جنگ جیسی فتح اور شکست نہ سمجھیں ،

میرے خیال میں اگر حقیقی معنوں میں ہمارے خطے کے ممالک کے درمیان دوستی کو بڑھاوا دینا مقصود ہے ،


تو اس کیلئے ہمیں اپنے انٹلیکچولز کو ہی آگے لانا پڑے گا ،

جن کی کوششوں کو گو کہ ہمیشہ سبوتاز کیا جاتا رہا ہے ،

جب کہ وہی طبقہ حقیقی معنوں میں ہمارے خطے کے مختلف ممالک میں بسنے والوں کو آپس میں جوڑ سکتا ہے ،

وہ چاہے شاعر ہیں لکھاری ہیں

موسیقار گلوکار ،

فلم ڈائریکٹر ، اداکار ،

اور آرٹسٹ ہیں ، اب ہمیں دوستی کو بڑھاوا دینے کا میدان کا زیادہ حصہ ان کے حوالے کرنا چاہیے ،

یقینا یہ سرگرمیاں مدت سے جاری ہیں ،

لیکن ان کو مربوط مسلسل ،

اور زیادہ سائینٹیفک انداز میں ترقی دینی ہوگی ،

صرف محدود ثقافتی سرگرمیوں اور ڈیلیگشن یا کسی ایک دو بڑے میلوں کے انعقاد سے کام نہیں ہونے والا ،

اسی طرح سے صرف ہندوستانی فلموں کو پاکستان میں چلانے سے مقاصد حاصل نہیں ہونگیں ،بلکہ ارد گرد دوسرے ممالک سے اور ہماری فلموں کو بھی ترقی دے کر انہیں مختلف زبانوں میں ڈب کر کے

ہندوستان بنگلہ دیش، چائنا ،افغانستان ایران اور خطے کے دیگر ممالک میں بھیجنا چاہیے ،

اور کسی غیر جانبدار ملک میں ہالی ووڈ کی طرز پر ،

 اس خطے کے بہت سے ممالک کا مشترکہ فلم بلاک اور سٹوڈیو بننا چاہیے ، جہاں ان خطوں کے فنکار اور ٹیکنیشن مل کر کام کریں ،

 آج فلم کسی بھی جنگی ہتھیار سے زیادہ موثر ہتھیار بن چکی ہے،

ہمیں اس بات کو سمجھنا ہی پڑے گا ،

 اسی طرح سے آپسی مصوری کی سرگرمیوں کو فروغ دینا چاہیے ،

نمائشیں ، بنالے ، اور ریزیڈنسیز ، کا سلسلہ بڑھنا چاہیے ، جہاں آرٹسٹ ایک دوسرے کے خیالات کو جانیں اور اپنے کام میں اسے ویژول مکالمے کی شکل میں ظاہر کریں ،

 فلم کلچر اور آرٹ کی سرگرمیوں کے تبادلے سے ،

دنیا بھر میں بہتر نتائج حاصل کئے گئے ہیں ،

یقینا ہمارے خطے میں بھی امن اور دوستانہ ماحول کے لئے اس سے، بہت بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں ،

اس مضمون کا مقصد کھیلوں کی اہمیت اور ضرورت سے انکار نہیں ہے ،بلکہ فنون کو بھی اہمیت دینا ہے ،

جنگ اور کھیل میں کوئی ٹیم یا قوم ہارتی ہے ،

جبکہ فنون اور ثقافتی سرگرمیوں

کے اظہار اور تبادلے میں ،

قومیں بڑی خوشی سے اپنا دل ❤️ ھارتی ہیں ،اور دوسروں کی جیت کو قبول کرتی ہیں ،

شاہد حسین

2 نومبر 21

No comments: