Thursday, December 16, 2021

گاؤں کا کنواں

 



ہماری محفل میں اردو اور اردو ادب پر ہونے والی گفتگو نے ،

بہت کچھ اور بھی یاد دلا دیا ،


گو کہ مجھے سالگرہ کے دن یاد نہیں رہتے ، اکثر دوست اس پر مجھ سے ناراض بھی ہو جاتے ہیں ،

لیکن میں دوستوں کے ساتھ فنون پر کی گئی گفتگو بہت کم بھولتا ہوں ،

یہ ان دنوں کی بات ہے جب سیزان نقش ، حبیب فدا علی صاحب کے ساتھ بطور معاون کام کر رہا تھا ،


تو سیزان نے بتایا کہ ہمارے خطے کے کسی قصبے کو ،

ماڈل ڈیزائن کیا گیا ،


اور ، وہاں کی خواتین جو کسی مرکزی کنویں سے پانی بھرنے جاتی تھیں ،

انہیں ان کے گھروں میں ہی پانی مہیا کر دیا گیا ،

کچھ عرصے بعد تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا ، کہ انہیں پانی بھرنے میں سہولت تو مل گئی تھی ،

لیکن انہیں اپنے ان سماجی مسائل کو حل کرنے میں بہت مشکل ہو گئی تھی 

جن معاملات کو وہ کنویں پر ہونے والی ملاقاتوں میں طے کرلیا کرتی تھیں ،


اب اس بات کا مطلب یہ نہیں کہ لوگوں کو گھروں میں پانی کی سہولت نہ مہیا کی جائے ،

بلکہ یہ مقصد ہے کہ ،

جس طرح سے کسی قصبے یا شہر کی منصوبہ بندی ، طرز تعمیر ، اور اہم سہولیات ،

کا تعلق وہاں کے رہن سہن اور سماجی قدروں سے جڑا ہے ،


جن کے بارے کسی بھی شہر سے لے کر گھر تک کے ماہر تعمیر کو ،معلوم ہونا بہت ضروری ہے ،


اصل میں تو اس سے بھی شاید کہیں زیادہ ،

ایک رائٹر کو اپنے سماج کے بہت سے معاملات میں گہرے مشاہدے ،کی ضرورت ہوتی ہے


اگر آج ہم اس سوال پر غور کریں گے کہ

ہم اپنے قدیم ادب کی ترقی کے تسلسل کو آج اپنے موجودہ ادب میں کیوں نہیں جاری رکھ سکے

یا موجودہ ادب کو قدیم ادب جیسی ترقی کیوں نہیں دے سکے ،

اس کے لیے صرف ایک ناول نگار کی بات کی جائے تو


ایک رائٹر ، اپنے کاغذ پنسل ٹائپ رائٹر ،اور ذہنی مٹیریل کو لے کر ، کسی دور افتادہ قصبے کے تنہا کمرے میں ،

بیٹھ کر ایک بہترین ناول لکھ سکتا ہے ,

لیکن اس ذہنی میٹریل کے لئے پہلے اس کو سماج سے بہت اونچائی سے دیکھنے سے لے کر گہرائی تک میں جاکر جڑنا پڑتا ہے ، اور اس گہرائی میں اتنے معاملات ہوتے ہیں کہ ان کی فہرست بنانا مضمون کو بہت طویل کر دے گا ،


بس مختصر یہی کہا جا سکتا ہے ، کسی واقعے کو قصے کہانی میں تبدیل کرنا 

خدا داد صلاحیت ہو سکتی ہے ، اور بیشک یہ صلاحیت کسی بھی قوم اور خطے میں موجود ہوسکتی ہے ،


لیکن پھر قصے کہانی کو ،

کسی داستان ناول ،کی شکل میں ڈیزائن کرنا ،

یعنی ترتیب دینا ، اسے پھیلاؤ دے کر داستان یا ناول بنانا 

یا پھر اسے بہت مختصر کر کے افسانے میں بیان کرنا ،

بہت وسیع علم تحقیق اور مشاہدے کا متقاضی ہے ،

میرے خیال میں اس میں کہیں ہم دنیا کے ترقی یافتہ ادب کے ساتھ اپنی شناخت میں نہیں چل سکے ،

اور اس میں اپنا حصہ نہیں بٹا سکے ،

یا اس یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ جس قدر اس میں حصہ کی ضرورت تھی اس قدر ہم ادا نہیں کر سکے ،



میری یہ رائے بطور لکھاری کے نہیں ہے ،

بلکہ ایک قاری کی رائے ہے ،


شاہد حسین

29 اکتوبر 2021

No comments: