اتنا کیوں سکھائے جا رہی ہو زندگی ،
ہمیں کونسی صدیاں گزارنی ہیں یہاں ،
گلزار صاحب کا بہت ہی خوبصورت شعر ،
اب اگر اس کی آسان سی وضاحت کی جائے تو کیا ہو سکتی ہے ؟
یہی کہ یہ زندگی جو ہمیں روزانہ ، کسی معمے کسی آزمائش دکھ تکلیف سے گزارتے ہوئے ہمیں سکھانے کی دعویدار ہے ،
تو اس کی ضرورت ہی کیا ہے ،
وہ یہ سب رہنے کیوں نہیں دیتی ،
لیکن اس مکمل معنی کے باوجود ،
کسی شاعر کی کوئی بات حتمی یا یقینی اسٹیٹمنٹ کی طرح سے نہیں ہوتی ، وہ جیسے ناصر کاظمی نے اپنے ایک شعر میں کیا کمال بات کہی ہے ،
پھر کسی دھیان کے صد راہے پر دل حیرت زدہ تنہا ہوگا ،
تو بالکل اسی طرح سے گلزار صاحب نے بھی یہاں اپنی یقینی کیفیت نہیں بلکہ حیرانی بیان کی ہے ،
اور بڑے شاعر اکثر ایسا کرتے ہیں ،
کہ کبھی تو وہ ایک ایسا پلے ایریا ہمارے سامنے رکھتے ہیں ،
جس میں وہ خود ہی تمام کھیل کھیلتے ہیں ،جب کہ کبھی کبھار ایک ایسی خیال کی سپیس دیتے ہیں جس میں وہ ہمیں کھیلنے کی دعوت دیتے ہیں ،
جو مجھے اس میں مل گئی ،
اور 2010 کی دوستوں کی ایک ایک محفل یاد آگئی
جس میں سوال تھا کہ اتنا کیوں سیکھا جائے ، اتنی عقل حاصل ہی کیوں کی جائے ،
جب ہمیں مر ہی جانا ہے ،
تو جو جواب تب دیا تھا آج آپ سے شیئر کرتا ہوں ،
میرے خیال میں عقل بھی ایک توانائی کی قسم ،
جو ہمارے جسم کی طرح فنا نہیں ہوتی ، بلکہ روح کی طرح منتقل ہوتی ہے
اسے مختصراً سمجھنے کے لئے ،پہلے اگر آسمانی مذاہب کی رو سے سمجھا جائے ، تو ہمارے مرنے کے بعد ہم سے سوال ہی یہ ہوگا کہ جو عقل سوجھ بوجھ تمہارے اندر چھپا دی گئی تھی اس میں سے ریکور کتنی کرکے لائے ہو ؟
دیگر سماجی مذاہب کے حوالے سے دیکھا جائے ، تو اسی عقل فہم کی بنیاد پر یا تو ہمیں اس گورکھ دھندے سے نجات ملے گی ،
یا اگلے جنم میں کام آئے گی ،
یا پھر مر کر چاہے ہمیں جلایا جائے چیل کوؤں کو کھلایا جائے یا دفنایا جائے ،
ہم ہر صورت میں اس زمین پانی یا مٹی کا حصہ بن جائیں گے ،
اور ہماری یہ عقل
کسی نہ کسی پھل پھول اور فصل کی صورت میں ،
ضرور باہر آکر ہماری خوراک بنے گی ،
اور کسی نہ کسی طور ،انسان کی عقلی شعوری ترقی
میں کوئی کردار ادا کریے گی ،
بیکار نہیں جائے گی
فنا نہیں ھو گی ،
شاہد حسین
4 ,نومبر 21
No comments:
Post a Comment