Tuesday, December 14, 2021

اتنا کیوں سکھائے

 



اتنا کیوں سکھائے جا رہی ہو زندگی ،

ہمیں کونسی صدیاں گزارنی ہیں یہاں ،


گلزار صاحب کا بہت ہی خوبصورت شعر ،

اب اگر اس کی آسان سی وضاحت کی جائے تو کیا ہو سکتی ہے ؟

یہی کہ یہ زندگی جو ہمیں روزانہ ، کسی معمے کسی آزمائش دکھ تکلیف سے گزارتے ہوئے ہمیں سکھانے کی دعویدار ہے ،

تو اس کی ضرورت ہی کیا ہے ،

وہ یہ سب رہنے کیوں نہیں دیتی ،

لیکن اس مکمل معنی کے باوجود ،

کسی شاعر کی کوئی بات حتمی یا یقینی اسٹیٹمنٹ کی طرح سے نہیں ہوتی ، وہ جیسے ناصر کاظمی نے اپنے ایک شعر میں کیا کمال بات کہی ہے ،

پھر کسی دھیان کے صد راہے پر دل حیرت زدہ تنہا ہوگا ،

تو بالکل اسی طرح سے گلزار صاحب نے بھی یہاں اپنی یقینی کیفیت نہیں بلکہ حیرانی بیان کی ہے ، 

اور بڑے شاعر اکثر ایسا کرتے ہیں ،

کہ کبھی تو وہ ایک ایسا پلے ایریا ہمارے سامنے رکھتے ہیں ،

جس میں وہ خود ہی تمام کھیل کھیلتے ہیں ،جب کہ کبھی کبھار ایک ایسی خیال کی سپیس دیتے ہیں جس میں وہ ہمیں کھیلنے کی دعوت دیتے ہیں ،

جو مجھے اس میں مل گئی ،

اور 2010 کی دوستوں کی ایک ایک محفل یاد آگئی 

جس میں سوال تھا کہ اتنا کیوں سیکھا جائے ، اتنی عقل حاصل ہی کیوں کی جائے ،

جب ہمیں مر ہی جانا ہے ،

تو جو جواب تب دیا تھا آج آپ سے شیئر کرتا ہوں ،


میرے خیال میں عقل بھی ایک توانائی کی قسم ،

جو ہمارے جسم کی طرح فنا نہیں ہوتی ، بلکہ روح کی طرح منتقل ہوتی ہے


اسے مختصراً سمجھنے کے لئے ،پہلے اگر آسمانی مذاہب کی رو سے سمجھا جائے ، تو ہمارے مرنے کے بعد ہم سے سوال ہی یہ ہوگا کہ جو عقل سوجھ بوجھ تمہارے اندر چھپا دی گئی تھی اس میں سے ریکور کتنی کرکے لائے ہو ؟

دیگر سماجی مذاہب کے حوالے سے دیکھا جائے ، تو اسی عقل فہم کی بنیاد پر یا تو ہمیں اس گورکھ دھندے سے نجات ملے گی ،

یا اگلے جنم میں کام آئے گی ،

یا پھر مر کر چاہے ہمیں جلایا جائے چیل کوؤں کو کھلایا جائے یا دفنایا جائے ،

ہم ہر صورت میں اس زمین پانی یا مٹی کا حصہ بن جائیں گے ،

اور ہماری یہ عقل 

کسی نہ کسی پھل پھول اور فصل کی صورت میں ،

ضرور باہر آکر ہماری خوراک بنے گی ،

اور کسی نہ کسی طور ،انسان کی عقلی شعوری ترقی 

میں کوئی کردار ادا کریے گی ،

بیکار نہیں جائے گی

فنا نہیں ھو گی ،


شاہد حسین

4 ,نومبر 21

No comments: