Tuesday, December 14, 2021

Olafur Eliasson

 







Olafur Eliasson

ہمارے ماحول میں ہونے والی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات کا جن آزاد ہو چکا ہے لیکن اس کرہ ارض پر بسنے والے تقریبا آٹھ ارب انسانوں میں سے بہت کم ہی اس کا احساس کر رہے ہیں خود ترقی یافتہ ممالک کی حکومتیں اس معاملے کو زیادہ سیریس نہیں لے رہی ہیں ۔

اور جتنے بڑے پیمانے پر اس سلسلے میں کوششوں کو امپلیمنٹ کرنے کی ضرورت ہے ، اس میں اب فرد کے کردار کی حیثیت کم سے کم ہوتی اور بااختیار اداروں کے کردار کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے ،

اور یوں لگتا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب باختیار ادارے بھی بے بس ہوں گے ،

ہم اپنے پلیٹ فارم سے اس سلسلے میں چھوٹی سی کوشش ضرور کر رہے ہیں 

کہ دنیا بھر میں جو آرٹسٹ اس دنیا کے لیے خطرہ بننے والے ماحولیاتی بدلاؤ پر کام کر رہے ہیں ،

اس کا کچھ نہ کچھ تذکرہ آسان فہم انداز اور اردو زبان میں ضرور کیا جائے ،

جس سے ہمارے یہاں کے فنکاروں کو بھی بین الاقوامی سماجی آگہی کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے کی طرف کسی نہ کسی طور راغب کیا جا سکے ،

گو کہ اس سلسلے میں مشکلات بہت ہیں کیونکہ دنیا بھر میں آرٹسٹوں کو ایسی کوششوں کے لیے فنڈز مہیا کیے جاتے ہیں ،

لیکن بہرحال ہمارے خطے کا فنکار بہت سی سہولتوں کے بغیر بھی اپنا کام کرتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے ، 


صرف نصف صدی پیچھے مڑ کے ماضی میں اپنا بچپن دیکھیں

تو ماحولیاتی بدلاؤ

کا کوئی تصور ہمارے یہاں اتنا عام نہیں تھا ،

بس ہمارے گھروں میں نانی دادی کی موجودگی ، گرمیوں میں رات کو کھلے صحن یا چھت پر ان کے گرد 

یا سردیوں میں ان کے لحاف میں دبک کر ، کچھ مزہبی یا قدیم قصے کہانیاں ضرور سنی جاتی تھیں ، زیادہ تر گھروں میں یہ معمول عام تھا ،

ہماری دادی اکثر کہتی تھیں ، قیامت والے دن سورج سوا نیزے کی بلندی پر آجائے گا ،

اور ہم پریشان اور حیران ہونے کی اداکاری کرتے ہوئے ،

اپنے تصور میں زیادہ سے زیادہ دس بارہ فٹ کا سورج بالکل گھر کی چھت کے پاس دیکھتے تھے ،

یا کبھی یہ بھی سننے کو ملتا ، بچوں تمہیں معلوم ہے ملتان میں اتنی گرمی کیوں پڑتی ہے ؟

صوفی بزرگ شاہ شمس تبریز کو کوئی گوشت کا ٹکڑا بھوننے نہیں دے رہا تھا ،

تو انہوں نے غصے میں سورج کو بہت قریب لاکر اس پر اپنا گوشت کا ٹکڑا بھون لیا ،

اب اس بات نے تو کنفرم کر دیا کہ سورج چھ سات فٹ کے ڈآیا سے زیادہ بڑا نہیں ہوگا،

خیر سورج تو واپس چلا گیا ، لیکن ملتان میں اپنی گرمی چھوڑ گیا ،


 اب سائنس ہمیں جو کہانیاں یا حقائق سنا رہی ہے ،

وہ ہمارے ہوش اڑا رہی ہیں ،

لیکن مزے کی بات ہے کہ 

Olafur Eliasson 

اپنے کام میں اس ماحولیاتی تبدیلی کے بارے بہت حد تک ہماری نانی دادی کی طرح ہی بات کر رہا ہے ،

قدرے مختلف انداز میں ،

ایلیسن نے دو ہزار تین 2003 میں ، اپنے دی ویدر پروجیکٹ پر کام کرتے ہوئے ، لندن ٹیٹ ماڈرن میوزم کے ٹربائن ھال میں ، 

بہت بڑے پیمانے پر ایک ماحول کا مظاہرہ کیا ،

جس میں اس نے

چھت سے ایک بہت بڑا سورج نما روشن گولا لٹکایا ، 

جو اپنی روشن حالت کو بدل رہا تھا 

اور اس سے اوپر چھت کے ساتھ ایک بہت بڑا شیشہ لٹکایا گیا جو اس سورج کی روشنی کو نیچے فرش پر منعکس کر رہا تھا ،

اسی طرح سے گرم

ہوا میں چینی اور پانی کے محلول سے 

آرٹیفیشل ہیومڈٹی

کرئیٹ کی گئی ،

اولفر ایلیسن ،

ایک ملٹی میڈیا آرٹسٹ ہے جو زیادہ تر اپنے کام میں بہت بڑے سائزز پر محیط انسٹالیشن ماحول یا مظاہر بناتا ہے ، 

جو سائنس آرٹ اور ہمارے قدرتی ماحول کے بارے ہوتے ہیں ،

جس میں روشنی ،

درجہ حرارت ، ہوا کا دباؤ ، پانی ، برف ، دھند اور ایسے ہی دیگر عوامل و عناصرِ پر 

مشتمل ماحول کے انسانی جسم پر اثرات ، اور آنے والے وقت میں اس تمام کرہ ارض پر موجود حیات کو درپیش مسائل اور خطرات

پر بات اور نشاندہی کی جاتی ہے ،

ہمارے خاص طور پر زیر گفتگو کام کو 

تقریباً لاکھوں لوگوں کی توجہ ملی ،

Olafur Eliasson

1967 ڈنمارک میں پیدا ہوا اور کوپن ہیگن رائیل اکیڈمی آف فائن سے 1989 _95 میں گریجویٹ ہوا ،

2007 میں سرپنٹائین گیلری لندن کے ایک حصے کو اسے ڈیزائن کرنے کا کام سونپا گیا ،


2008 میں پبلک آرٹ فنڈ کے ذریعے نیویارک میں مصنوعی آبشار بنانے کے سلسلے میں اسے کمیشنڈ کیا گیا ،

سان فرانسسکو میوزیم آف ماڈرن آرٹ ،

اور میوزیم آف ماڈرن آرٹ نیویارک سمیت دنیا بھر میں اس کی سولو نمائشیں ہو چکی ہیں ، جن میں وہ اپنی آرٹ انسٹالیشن کے حوالے سے اہم پہچان رکھتا ہے ،

اس کی رہائش زیادہ تر اس کے آبائی شہر

کوپن ہیگن میں ہوتی ہے ،

یہاں اولفر ایلیسن 

اور اس کے کام پر

بہت مختصر سا احوال دیا گیا ہے ،

آپ میں سے جو دوست اولفر ایلیسن کے بارے میں تفصیلات جانتے ہیں تو وہ اس گفتگو کو بڑھاوا دیتے ہوئے ،

اپنی رائے دے سکتے ہیں ،

شاہد حسین

2 دسمبر 21

No comments: