Tuesday, December 14, 2021

پھونک اور آہ

 








یونانی دیوتاؤں کی میتھالوجی میں شائید پانچ دیوتا ایسے ہیں  ، Aeolus , Boreas , Zephyrus ,Notus ,and Eurus

 جو پھونک کی قوت سے طوفان لانے یا موسم تبدیل کرنے پر قدرت رکھتے ہیں ،

کیا ہم انسان  اپنی پھونکوں سے کچھ ایسا کام لے سکتے ہیں ؟ 

ہم سے تو کئی بار سالگرہ کی موم بتیاں نہیں بجھائی جاتیں ،

شاید ہم جیسوں کو  شاعر نے پہلے ہی کہہ دیا ہے پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا ،

لیکن کیا آپ میں سے کسی کو وہ شعبدہ یاد ہے ، 

جس میں پھونک مار کر کوئی اینٹ یا کونکریٹ بلاک ہلا دیا جاتا تھا ؟

تب تو ہر کوئی یہ سن کر حیران رہ جاتا  ،کہ یہ کیسے ممکن ہے ،

اگر آپ کو نہیں یاد تو میں بتاتا ہوں ،

ہم کسی بھی اینٹ یا بلاک کے نیچے ،

کوئی پلاسٹک بیگ رکھتے ،

اس کے سرے کو  ہاتھ میں دبا کر اس میں پھونک مارتے  ،جیسے ہی تھیلی پھولتی اینٹ اور بلاک اٹھ جاتا تھا ،

یہ ایئر پریشر کی سمپل سائنس ہے ،

کہ انسانی پھونک بھی اگر مجطمع کر کے استعمال کی جائے تو  کئی گنا طاقت کی حامل ہو جاتی ہے ،

لیکن یہ پھونک اور بھی کئی حوالوں سے بہت طاقت رکھتی ہے ،

جیسے پھونک کے وہ تمام ساز ،جن کے ذریعے کوئی بھی فنکار پھونک کو انسانی جذبات سے لے کر روح تک کو متاثر کرنے والی آواز بنا دیتا ہے ،

ہمارا ایک دوست شرجیل بلوچ تو کسی ساز کا بھی محتاج نہیں وہ سیٹی بجا کر بھی یہی کام کر لیتا ہے ،

لیکن یہ تو پھونک کا  سائنسی اور انسان کا جمالیاتی اظہار ہے ،

جن میں پھونک کو ایک خاص آلے میں دباؤ سے گزارنا پڑتا ہے ،

جب کہ اگر اس میں  انسانی احساسات اور جذبات کی شدت اور حدت شامل ہو جائے ،

اور پھر اگر یہ آہ کی طرح سے بھی  منہ سے نکلے تو کسی انجن کو دوڑا دینے والی سٹیم سے بھی زیادہ طاقت رکھتی ہے  ،

گو ، غالب ، اس کے اثر پذیر ہونے کی مدت کے بارے تو تشویش کا اظہار کر رہے ہیں ،


آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک ،

کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک ،

لیکن پھر بھی وہ آہ کے اثرپذیر ہونے کی خاصیت اورسچائی سے انکار نہیں کر رہے،

ان کا مطلب ہے کہ ٹھیک ہے دعائیں قبول تو ہونگیں ،

کیا تب تک زندہ بھی ہوں گے ؟

جبکہ یہی اہ اگر کسی مظلوم کی آہ ہو تو اس سے ڈرنے کے لیے تو مزہب بھی بار بار متنبہ کرتا ہے ،

کہ تم جس کے حق میں ظلم کرو اس کی آہ سے ڈرو،


لیکن ایک ٹھنڈی آہ بھرنا بھی ہوتا ہے ،

جو کسی گہرے سانس کی طرح سے لی جاتی ہے ،

جو کسی ظالم کے لیے نہیں ہوتی ،

بلکہ خود کلامی کی طرح سے ،

خود سے اظہار افسوس کرنے جیسی ہوتی ہے ،کسی فرد  کے  اپنے نصیب سے شکوے جیسی ہوتی ہے ، اپنے خدا سے سوال جیسی ،

یا کسی بھی فہم و ادراک سے ماوراء قوت کے لئے ہوتی ہے  ،

میں آج سامنے دیوار پر لگے ہوئے ،

میوزیم کے یادگاری وان گوف کے کانوں پر بندھی بینڈیج والے پوٹریٹ کو دیکھ رہا تھا ،

اور وانگوف کے وہ الفاظ یاد کر رہا تھا ،

جن میں اس نے کہا تھا کہ ایک وقت ایسا ضرور آئے گا

جب میرے کام کو  میرے کام کی بصری  خصوصیات کی بنیاد پر نہیں بلکہ میری ناکامیوں دکھ اور تکالیف کی بنیاد پر پرکھا جائے گا ،

اور پھر وان گوف  کی وفات سے سو سال بعد  اس کی سن فلاور  ریکارڈ بریکنگ قیمت میں بکی ،

دیر تو بہت لگی  لیکن وان گوف کا کہا پورا ہوا ،

تو شاید غالب نے یہ وین گوف جیسے فنکاروں کے لئے ہی کہا ہوگا ،


آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک

 کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک


شاہد حسین

12 نومبر 21

No comments: