Thursday, December 16, 2021

ایک ہی حادثہ

 


ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک 


بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی



گزشتہ دنوں ایک دوست نے محفل میں اپنا دکھ بیان کرنے کے لیے جون ایلیا صاحب کی غزل کا یہ نوحہ استعمال کیا ،


اب یہ شعر تکنیکی طور پر کس قدر اعلی ہے اس کی تعریف تو شاعر دوست ہی کر سکتے ہیں ،

میں بس یہی کہہ سکتا ہوں کہ کسی بڑے شاعر میں کئی باتیں کمال کی ہوتی ہے ،

کہ وہ ایسی مشکل بات کہے کہ اس میں چھپی علامتیں یا معنی تلاش کرنے میں اچھے اچھوں کو دانتوں تلے پسینہ آ جائے ،

یا شاعر بات کی مشکل خود سہہ لے اور دوسروں کے لئے آسان کر دے ،

لیکن شعر میں یہ کمال بھی نظر آئے کہ شاعر نے کوئی مشکل ہے جو خود سہی ہے ۔

اور جون ایلیا صاحب کے اس شعر میں یہی کمال کی بات موجود ہے ،


جسے ہم عام طور پر یوں کہتے ہیں

واہ ! بہت بڑی بات کس قدر آسانی سے کہہ دی 


جب کہ ہمیں کہنا چاہیے واہ بہت بڑی بات کس قدر آسان

کر کے کہہ دی ،


اب اس شعر میں میں جون صاحب نے جو مشکل اٹھائی جیسے کہ میں نے عرض کیا اس کی تکنیکی تعریف تو کوئی شاعر دوست ہی کر سکتے ہیں ،


لیکن یہ میں کہہ سکتا ہوں کہ اس شعر میں معنی سمونے کے لیے

جون صاحب کو زندگی بھر مشکل اٹھانی پڑی ،

جس کا کچھ مشاہدہ ہم نے ان کی زندگی کے بعد بھی کیا ،

کہ ان کے بارے کچھ ایسی باتیں کہی گئیں جو ان کی زندگی میں کہی سنی جاتیں تو بہت بہتر ہوتا ،

خیر ہمارا موضوع یہ نہیں ، ، ، دراصل ایک بڑا شاعر ، اپنی زندگی کی مشکلات سے ہی ایسا رس کشید کرتا ہے جو کسی سماج

کو اپنا دکھ لگتا ہے

یا وہ کسی سماج کو مدہوش مسحور یا اس کی دوا کا کام کرتا ہے ،

سوال کرتا ہے ،

یا کسی سماجی المیے کی نشاندہی کرتا ہے ،

اب اس بات کا جواب دینے کے لیے میں جون صاحب سے معذرت کہوں گا ،


اور آپ کو ایک لطیفہ سناؤں گا ،


ہماری کہانیوں کے مشہور کردار ،

ملا نصیر الدین ،

( اب چونکہ آج کے بچے کہانیاں نہیں سنتے اس لئے برائے مہربانی وہ انہیں نصیرالدین شاہ مت سمجھیں ) 

تو ملا نصیر الدین 

رات کو اپنی زوجہ سے اپنے دن بھر کی پریشانیوں اور زندگی کے مسائل پر بات کرتے ہوئے قریب ہی سوئے ہوئے بیٹے کو دیکھ کر کہنے لگے کہ ، بیٹا جوان ہو رہا ہے ، اور پاس کوئی جمع پونجی نہیں ہے ،جو اس کی شادی کی جائے ،

 میرا خیال ہے اپنا گدھا بیچ دیتا ہوں ۔ ۔ ۔ 

اور اس کے بعد کوئی اور موضوع شروع ہوگیا ،

بیٹا گلا کھنکھارتے ہوئے بولا ،

ابا وہ گدھے والی بات پھر سے کہونا ،

 اگر تو یہ بات صرف باپ بیٹے کی ہو تو ٹھیک ہے

بچے ماں باپ کے مسائل کئی بار نہیں سمجھتے ،

اور وہ چاہتے ہیں کہ صرف ان کی بات سنی جائے سمجھی جائے ۔

لیکن جب کسی سماج کی یہ حالت ہو جائے ،


جس میں کسی سماج کا ہر فرد چاہے کہ بس اسی کا ہی نقطہ اور مطمع نظر سنا سمجھا اور مانا جائے ،

 اسی کی ہی بات یا اسی کو مرکز بنا کر اسی پر ہی بات کی جائے ،


تو پھر یہ صورتحال بڑی خراب ہوتی ہے ،

اور خاموشی کی وجہ عدم آگہی نہیں بلکہ آگہی ہو جاتی ہے ،

اور یہاں جون صاحب کا شعر فعالیت کے اعتبار سے صادق نہیں آئے گا ،

بلکہ یہاں کسی گمنام شاعر کا یہ شعر ہی فٹ آتا ہے


کون سمجھا ہے بات کا مطلب ،

سب سمجھتے ہیں بات مطلب کی ،


یہ بھی ایک المیہ ہے

کہ کسی بہت بڑے شاعر کے سوال کا جواب کسی گمنام شاعر کے شعر سے دیا جائے ،

لیکن میرا خیال ہے اسے کسی بڑے شاعر کے لیے گستاخی سمجھنے سے بہتر ہے ،

سماج کو خود کو بہتر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ،

نہ کہ پھر بگاڑ ایک وقت میں اس قدر بڑھ جائے 

کہ جہالت و جھوٹ

خود غرضی مکر و فریب ، کی بات سماج کے ہجوم کا شور بن جائے ،


اورعلم عقل اور سچائی جو مصلحتاً خاموش ہو وہ بولنا بھی چاہے کسی سوال سے کجا جواب بھی دینا چاہے ، تو ظلم وجبر کی وجہ سے خاموش ہوجائے ،

تو بس پھر وہاں سانحے اور حادثات ہی رہ جاتے ہیں ،


شاہد حسین

4 دسمبر 21

،

No comments: