Wednesday, December 29, 2021

قربانی اور تخلیقات




قربانی اور تخلیقات ،


سب سے پہلے آپ دوستوں کو عید الاضحی مبارک ہو اسے سنت ابراہیمی بھی کہا جاتا ہے ،

جب خدا نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اپنی سب سے عزیز ترین شے کی قربانی مانگی ،تو انہوں نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کو چنا ،جسے خدا نے اپنا فضل و کرم کرتے ہوئے دنبے سے بدل دیا ،

یہ واقعہ تمام آسمانی کتب میں کچھ فرق سے موجود ہے ، آپ دوست اس سے واقف ہیں ،

اگر انسانی گروہی سماجی تاریخ کو ، 

مختصر کر کے دیکھا جائے ،

تو انسانی جان کی قربانی ، 

ہزاروں سالوں سے کئی انسانی

سماجوں کا حصہ رہ چکی ہے ،

جو عقل و شعور کی ترقی سے اب معدوم ہو رہی ہے ،اور اب انسان انسان کی جگہ ، جانوروں کو قربان کرتا ہے ،

اور یہ ریچولز مذہبی یا غیر مذہبی ، آج بھی دنیا کے بہت سے حصوں میں جاری ہیں ،

گو کہ ہر مذہب اور سماج ، اپنی ایسی پریکٹسز کی تو مضبوط وضاحت و وکالت کرتا ہے ،

لیکن دوسروں پر سوالیہ نشان ضرور لگاتا ہے ،

لیکن یہ پہلو بھی اھم ہےکہ جیسے جیسے انسان عقل علم و شعور میں ترقی کرتا ہے وہیں وہ حساسیت میں بھی ترقی کرتا ہےاس میں خود اپنے افعال کے بارے ، ، بہت سے سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں ،

اور وہ گزشتہ ہزاروں سالوں سے انسان کے دیگر حیات کو ،اپنی غذائی ضرورت کی بھینٹ چڑھانے کے باوجود ،

اپنی ان ریچولز کے بارے میں سوالات بھی رکھتا ہے ،

آخر کیوں ، ہم ایسا کیوں کرتے ہیں ؟

دیکھئے مذاہب کے دو حصے ہیں ،ایک میں وہ انسان کو سوچنے سمجھنے پر مجبور کرتا نظر آتا ہے ،

اور بار بار کہتا ہے کہ تم سوچتے کیوں نہیں سمجھتے کیوں نہیں ،

لیکن ایک حصہ میں وہ کہتا ہے ، جسٹ ڈو اٹ ،

بس جو کہا جا رہا ہے وہ کرو ،

قربانی کا لفظ اپنے عملی اور معنوی اعتبار سے

اس قدر وسیع ہے

کہ اس پر گفتگو بہت طویل ہو سکتی ہے ،

بس مختصراً 

یوں کہا جا سکتا ہے ،کہ انسان کے ذہن میں یہ بات کہیں موجود ہے ،

کہ اس نظام قدرت میں ،

 اسے کچھ لوٹانا ہے ، کوئی ادائیگی کرنی ہے ، کچھ اس کے ذمے ہے ،جس کے لیے کہیں اپنے مال کا استعمال کرتا ہے تو کہیں وہ کسی دوسرے کی جان کا ، 

چاہے وہ اسے اپنی کسی غلطی گناہوں کا کفارہ سمجھتا ہے ،یا لامحدود

خواہشات کی تکمیل یاضرورتیں

لیکن اس میں کہیں نہ کہیں وہ ظلم اور جبر کا پہلو بھی دیکھتا ہے ، اور سوال کرتا ہے ،

کہ کسی جانور کا گوشت اور خون ، انسان کو ،

خدا کے حضور اشرف اور افضل بنانے میں کس طرح سے اپنا کردار ادا کرسکتا ہے ؟

اب ان کے جوابات و تفصیلات پر کوئی مذہبی عالم فاضل ہی بات کر سکتا ہے ،

میرے شعبے آرٹ کے حوالے سے ہم قربانی کے واقعہ کو بائبل کی تعلیمات کی روشنی میں بھی بہت سے کلاسک آرٹسٹوں کے کام میں دیکھتے رھے ہیں جو آج کے دن ذہن کی پردہ سکرین پر کہیں نہ کہیں نظر آتے ہوئے جو باتیں ذہن میں آئیں انہیں آپ کے سامنے رکھوں گا ، لیکن فنی تخلیقات کے دائرے میں ،

پہلی بات کہ اسی قربانی کا ایک بہت عجیب پہلو تب ہمارے سامنے آتا ہے ،

جب خود انسان اس عمل کے لیے اپنی ذات کا چناؤ کرتا ہے ،

جس میں اس کے کسی عظیم مذہبی نظریاتی مقصد ،سے لیکر کوئی بھی بے لوث مقصد ہو سکتا ہے ،

دنیا بھر کی مذہبی تاریخ اور لٹریچر میں اس کی بہت خوبصورت اور کمال درجہ کی ،

مثالیں موجود ہیں ،

لیکن میں ان سے میں وہ دو کہانیاں آپ سے بیان کروں گا ،

جن میں قربانی کا تصور کسی فنکار کی تخلیقی صلاحیتوں کے حوالے سے بڑی خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے ،



ایک چائنیز کہانی جسے میں کبھی نہیں بھول سکا، 

کئی سو سال پہلے ایک ٹیمپل کے لیے ،ایک برونز کی بہت بڑی گھنٹی بنائی جا رہی ہوتی ہے ،

جو ہر بار ڈھلائی کے بعد اپنے اندر کوئی نقص لے کر ظاہر ہوتی ہے ،

اس ، گھنٹی کے منصوبے کا چیف ڈیزائنر ، جو وزارت کے عہدے پر فائز ہے ،

اور بہت شدید پریشانی سے گزر رہا ہے ،

دراصل یہ بہت بڑی گھنٹی ،اس تعمیراتی منصوبے کا آخری حصہ ہے ،

اور اس میں ہر بار کی ناکامی بادشاہ کا غصہ بڑھا رہی ہوتی ہے 

بادشاہوں کے ایسے غصے عموما وزیروں کی موت پر ختم ہوتے تھے ،

اور یہ بات چیف ڈیزائنر وزیر کی بیٹی جانتی ہے ،

اور پھر بالآخر جب اس گھنٹے کے لئے ،پگھلی ہوئی دھات کا الاؤ تیار ہوتا ہے 

تو وزیر کی بیٹی اپنے باپ کو مشکل سے بچانے کے لئے اس کٹھالی میں کود کر اپنی جان دے دیتی ہے ،

اور اس بار جو گھنٹی مکمل ہوتی ہے ،

نہ صرف اس میں کوئی نقص نہیں ہوتا بلکہ اس کی آواز میں ایک ایسی چیخ ہوتی ہے ، 

جو اپنے سننے والوں پر ،

ایک ایسا تاثر چھوڑتی ہے جسے بیان کرنا مشکل ہوتا ہے ،




دوسری کہانی

ایک فلم ریڈ وائلن کی ہے ،

جس میں 21 ویں صدی میں ،

ایک سرخ وائلن کی دردناک آواز

پر تحقیق ہو رہی ہوتی ہے ،

جو اصل میں ،

کئی سو سال پہلے ،ایک فرنچ ،

وائلن میوزیشن اور میںکر نے

آپنے اس بچے کے لیے بنائی ہوتی ہے جس کی پیدائش عنقریب متوقع ہوتی ہے ،

لیکن اس کی محبوب بیوی ،اور بچہ 

دوران زچگی ہی

مر جاتے ہیں ،

وائلن میکر ،

بیوی اور بچے سے متعلق اپنی تمام تشنہ آرزوؤں کو ،

 اس وائلن میں محفوظ کرنے کے لیے ،اپنی مردہ بیوی کی کلائی سے حاصل کردہ خون کو ،وائلن پر کی جانے والی وارنش میں شامل کر دیتا ھے ،

اور یہ وائلن پھر اپنے سینکڑوں سالہ سفر میں ،

جب بھی جہاں جہاں بجائی جاتی ہے ،اپنے بجانے والے کو ہوش سے بیگانہ کر دیتی ہے ،

ان کہانیوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی جان اورخون کی قربانی ، جس کے لئے وہ خود اپنی ذات کو چنتا ہے  

اس کی بنائی ہوئی اشیاء میں

 کوئی کمال پیدا کرتی ہیں،

اور بات صرف اتنی ہی نہیں بلکہ ایک مرحلے میں انسان اپنی آرزوؤں اور تمناؤں کا خون بھی جب اپنی تخلیقات میں شامل کرتا ہے ،

تو وہ تب لافانی اور امر ہو جاتی ہیں ،

اور اگر وہ تخلیقات بہت شہرت نہ بھی پائیں ،

تو جہاں بھی کہیں کبھی اظہار ہوتی ہیں

اپنے دیکھنے سننے والوں پر ایک ناقابل بیان تاثر ضرور چھوڑتی ہیں ،

وہ چاہے انسانی آہ ہو ، کسی دھاتی گھنٹی کی آواز ،وائلن کے سر ،یا کسی بھی فنکار کا کوئی شہ پارہ ، جسے وہ اپنی امیدوں آرزوؤں ،اور تمام مادی مقاصد کو۔ 

اپنی تخلیق کو مکمل کرتے ہوئے

 کئی صبرآزما لمحوں سے گزرتے ہوئے ،کہیں پیچھے چھوڑ دیتا ہے ،

غالب نے اس پر کیا خوب کہا ہے ،

آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک

کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک ،

دام ہر موج میں ہے حلقہ صد کام نہنگ ،

دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک ،

عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب 

دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک ،


شاہد حسین

21 جولائی 21 

No comments: